حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مہمانوں سے خطاب (جلسہ سالانہ جرمنی۔ 06؍جولائی 2019ء)
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء
……………………………………
06؍جولائی2019ء
بروز ہفتہ
…………………………………
(حصہ دوم)
٭ … بعد ازاں پروگرام کا با قاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔ جو عزیزم شکیل احمد عمر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے کی اور بعد ازاں اس کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔
اس کے بعد چار بج کر پینتالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا ۔
٭ …حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش ہے۔
تشہد و تعوذ و تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تمام قابلِ احترام مہمانوں کی خدمت میں السلام علیکم ، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں آپ پر ہوں۔ میں آپ سب مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آج ہمارے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہیں۔ جلسہ سالانہ خاص مذہبی اجتماع ہے جس میں احمدی مسلمان اپنی روحانیت، اخلاقیات اور دینی علم بڑھانے کے لیے شامل ہوتے ہیں۔ یہاں جلسہ سالانہ جرمنی میں اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ خاص طور پر مسلمان اور غیر مسلم مہمانوں کے استفادہ کے لیے ایک سیشن رکھا جاتا ہے، جس کے لیے ہم آج یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ آپ میں سے وہ مہمان جو پہلے بھی یہاں تشریف لا چکے ہیں وہ تواحمدیت کے عقائد سے متعارف ہونگے البتہ کچھ نئے مہمان بھی ہیں جو پہلی دفعہ شامل ہورہے ہیں اور وہ احمدیہ عقائد اور تعلیمات کا تعارف حاصل کرنا چاہیں گے۔ ان مہمانوں کو بھی اب یہ پتا چل گیا ہو گا کہ احمدیہ مسلم جماعت ایک اسلامی فرقہ ہےجو بانیٔ اسلام حضرت محمد ﷺ کی آخری زمانہ کے بارہ میں پیشگوئی کے مطابق بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے قائم کیا گیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ ایک قدرتی امر ہے جو نہ صرف سیکولر تنظیموں پر بلکہ مذہبی جماعتوںپر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک خاص عقیدے یا جماعت کے ماننے والے اپنی اصل اور بنیادی تعلیمات اور عقائد سے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجۃً ان ساری جماعتوں میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انہیں از سرِ نو زندہ کرنا پڑتا ہے ورنہ آہستہ آہستہ وہ اپنا اصل وجود کھو بیٹھتی ہیں یا ایسی شکل اختیار کر لیتی ہیں جس کی ان کے اصل سے کوئی مشابہت باقی نہیں رہتی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہمارا عقیدہ ہے کہ جب مذہبی جماعتوں کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آتا ہے تو یہ سنت اللہ جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی اصل تعلیمات کو زندہ کرنے کے لیے اپنےچنیدہ فرستادوں کو بھیجتا ہے تا کہ وہ لوگوں کی اصلاح کر سکیں اور ان کی اصل تعلیمات اور عقائد کی طرف رہنمائی کر سکیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺآخری شرعی نبی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے اور پھر انیسویں صدی کے آخر میں اسلام کی اصل تعلیمات اور عقائد کے احیائے نو کے لیے اللہ تعالیٰ نے بانی جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی کی صورت میں ایک مصلح بھیجا جس نے حقیقی اسلام سکھایا اور اس پر عمل کیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس ہم اپنی جماعت کے بانی کو مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی (یعنی ہدایت یافتہ) مانتے ہیں اورآپ کا سب سے اہم مقصد اسلام کی اصل تعلیمات کا احیائے نو اور بنی نوع انسان کودوبارہ اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لے کر آنا تھا۔ اپنی جماعت کے اس مختصر تعارف کے بعد اب میں دنیا کی موجودہ حالت کے بارہ میں کچھ بیان کرونگا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ ہر انسان کی فطرت ہے کہ وہ آزادی ، خود مختاری اور آرام سے زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ پرامن اور مطمئن زندگی جو ہرقسم کے تنازعہ سے پاک ہو کی خواہش ایک قدرتی امر ہے۔ہرایک چاہتا ہے کہ وہ پر امن اور محفوظ جگہ پر رہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کا گاؤں، قصبہ یا شہر محفوظ ہو اور ہم آہنگی والا ہو۔ ہر کسی کی خواہش ہے کہ اس کا ملک پرامن ، پھلنے پھولنے والا اور زندگی کی سہولیات سے آراستہ ہو۔ پس لوگ یہی چاہتے آئے ہیں کہ ساری دنیا پر امن ہو ۔ تاہم امن کی اس فطری خواہش کے باوجود سچ یہ ہے کہ تفرقہ و فساداور تنازعات دنیا کے ہر حصہ میں پھیل چکے ہیں۔ ایسے ملک بھی ہیں جو خانہ جنگی کی وجہ سے پس چکے ہیں۔ شر پسند گروہ ایک دوسرے یا حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ کچھ ملکوں میں صوبوں اور مختلف علاقوں کے درمیان شدید دشمنی ان کے اپنے معاشرہ کا امن تباہ کر رہی ہے۔ مزید برآں ان ملکوں میں جہاں کثر ت سے مہاجرین آگئے ہیں وہاں مقامی اور نئے آنے والوں کے درمیان تناؤ نظر آنے لگا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار معاشرے پہلے سے زیادہ تقسیم ہو رہے ہیں اور بڑی تیزی سے اس مقام پرپہنچ رہے ہیں جہاں کسی بھی وقت وہ تناؤ کی وجہ سے تباہ ہو سکتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
عالمی سطح پر دیکھیں تو اکثر ممالک طاقت اور قبضہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ جغرافیائی، سیاسی و معاشی برتری کے حصول کے لیے یا مختلف اقدار اور عقائد کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کےلیے غیر منصفانہ جنگیں مسلط کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اپنا غلبہ قائم رکھنے اور مخالف ممالک کی ترقی کو روکنے کی خاطر اقتصادی اور تجارتی جنگیں شروع ہو چکی ہیں۔ مزید یہ کہ دنیا روایتی خونی جنگوں سے گھر چکی ہے جن میں دوسری قوموں کو کچلنے اور ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل تاریک کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں ۔
ہم اپنی دولت و طاقت کی ہوس میں آج کل کی نوجوان نسل کا مستقبل ایک نہ ختم ہونے والی نا انصافی اور ظلم و ستم کے ذریعہ بڑی بے رحمی سے تباہ کر رہے ہیں۔ خوف اور پریشانی والی بات یہ ہے کہ جس چیز کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں وہ کسی بھی وقت ایک عالمی سانحہ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس کے نتائج ہمارے تصور سے بہت بالا ہونگے۔مختصر یہ کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہوگا جسے ہم پُرامن اور لڑائی جھگڑوں سے پاک قرار دے سکیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اکثر کمزور ممالک کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی طاقت اور دولت کا استعمال کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ نسبتاً کمزور ممالک بھی طاقتور ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سےخطہ میں اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لیےاپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بے انصافی کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہ اپنے مذموم مقاصد کےحصول کے لیے تشدد اور قتل و غارت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسی طرح بعض نام نہاد مذہبی تنظیمیں دولت اور طاقت جو کہ ان کا اصل مقصد ہوتا ہے حاصل کرنے کے لیے مذہب کا نام دھوکے سے استعمال کرتی ہیں اور شدت پسندی کو جائز قرار دیتی ہیں۔ پھر انتہائی دائیں بازو کی قوتیں یورپ اور پھر ساری دنیا میں امن کے لیے سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دائیں بازو والے آج کل قوم پرستی کے نام پر کثیر ثقافتی اورکثیرالاقوام معاشرہ کو ختم کرکے اُس پر اپنے تعصبانہ اور نسلی امتیاز کے حامل نظریات مسلّط کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی قوم کی شناخت بچانے اور اسے بیرونی عناصر سے پاک رکھنے کے لیے بعض متعصب لوگ ا یسے مہاجرین کو بری طرح نشانہ بنا رہے ہیں جو کئی دہائیوں سے ان ملکوں میں پرامن طریقہ سے رہ رہے ہیں اور ایک مثالی شہری ہونے کے ناطے اس ملک کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بعض ممالک یا گروہ ذاتی مفادات کی خاطر انصاف اور اخلاقیات کے بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور دوسروں کی پروا کیے بغیر دنیا کی معاشی منڈیوں اور کاروبار پر قبضہ جمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔مختصراً جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ تنازعات ساری دنیا پر محیط ہیں اور معاشرے کی ہر سطح پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس لیے ہماری امن کی فطرتی خواہش کے باوجود ہم بالکل اس کے برعکس حالات دیکھ رہے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں دنیا کی کشیدہ ہوتی ہوئی صورت حال کے بارہ میں گزشتہ کئی سالوں سے بتا رہا ہوں لیکن اب تو دوسرے لوگ بھی دنیا میں موجود عدم تحفظ اور امن کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اب میں بعض جغرافیائی سیاست کے ماہرین، سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے اس بارہ میں بیانات پیش کرونگا جو اب کھلے عام اس خطرے کا اظہار کررہے ہیں اور دنیا کے امن اور تحفظ کو قائم رکھنے کے لیے فوری اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز کے ایک حالیہ کالم میں Francois Delattre جو کہ اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر ہیں لکھتے ہیں ‘سیکورٹی کونسل میں میرے گزشتہ پانچ سالوں کےتجربہ کے بعد میں نےاس تلخ حقیقت کو جانا ہے کہ دنیا دن بدن زیادہ خطرناک اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے دنیا میں ٹیکنالوجی کے انقلاب اور چین کے اوپر آنے کی وجہ سے طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اورہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بڑے ملکوں کے درمیان مقابلہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اب دنیا میں ایک نیا فساد دیکھ رہے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بڑی طاقتیں بظاہر فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے موجودہ نظام کو قائم رکھنے یا ایک نیا اور بہتر نظام قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں لیکن اس کے برعکس یہاں ایک سینئر مغربی سیاست دان جو عالمی تعلقات اور سیاست کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کھلے عام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تمام طاقتیں دنیا کو ایک نئے فساد کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ فرانسیسی سفیر مزید کہتے ہیں کہ ‘ہر قسم کا عالمی بحران قابوسے باہر نکل سکتاہے۔ ایسا ہی ہم نے شام میں دیکھا اور ضرور ت ہے کہ ہم ایران، شمالی کوریا اور بحیرہ جنوبی چین کے معاملہ میں ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں۔’
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اگرچہ یہ درست ہے کہ شام اور ایران مسلمان ممالک ہیں لیکن شمالی کوریا اور بحیرہ جنوبی چین کے تنازعہ میں ملوث ممالک کا تو اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔ اس لیے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ دنیا کے فساد کا محور مسلمان یا مسلم ممالک ہی ہیں ، جیسا کہ اکثر سمجھا جاتا ہے ۔ اس کالم میں فرانسیسی سفیر دنیا میں امن کے قیام کے لیے یورپ کے اہم ترین کردار کا بھی ذکر کرتےہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘میرا پختہ یقین ہے کہ یورپ کی تاریخی ذمہ داری ہے اور اس قابل بھی ہے کہ دنیا کی مختلف طاقتوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ یہ یورپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو آپس میں ملانے اور دنیا کی طاقت میں توازن قائم کرنے کے لیے اپنا کرداراداکرے۔’
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
کچھ عرصہ قبل میں ایک جرمن سیاست دان سے ملا جو ایسی تنظیم کے لیے کام کر رہے تھے جسے جرمن حکومت نے پناہ گزینوں اور مقامی لوگوں کے درمیان تعلق استوار کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ میں نے انھیں بتایا تھا کہ ان مسائل کا حل صرف جرمنی یا کسی ایک ریاست کے بس میں نہیں ہے بلکہ اگر وہ دنیا میں دیرپا امن کی خواہش رکھتے ہیں تو تمام یورپی ممالک کو متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔ ایک حالیہ کالم میں پروفیسر (Nouriel Roubini) جو کہ کلنٹن کے دور میں وائٹ ہاؤس میں عالمی سطح کے ماہر معاشیات تھے امریکہ اور چین کے تعلقات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘عالمی سطح پر چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کے نقصانات امریکہ اور روس کے مابین ہونے والی سرد جنگ کے مقابل پر کہیں زیادہ ہونگے۔’پروفیسر Roubini مزید لکھتے ہیں کہ ‘بڑے پیمانے پر سرد جنگ دنیا کی عالمگیریت کو ختم کرنے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے یا کم از کم دنیا کو معاشی لحاظ سے دو متضاد بلاکس میں تقسیم کر دے گی۔ دونوں صورتوں میں تجارت، سرمایہ کاری، نوکریاں، ٹیکنالوجی اور ڈیٹا بری طرح محدود ہو کر رہ جائے گا۔’
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ کالم عالمی طاقتوں کی تجارتی جنگ کے نقصان دہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اگرچہ کچھ دن قبل چین اور امریکہ کے مابین ایک معاہدہ ہوا ہے، لیکن دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا کامیاب رہتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گوکہ یہ تجارتی جنگیں غیر معقول اور بغیر کسی سوچ سمجھ کے ہیں لیکن میرا سب سے بڑا خوف یہی ہے کہ شاید ایٹمی جنگ شروع ہوجائے۔ اس جنگ کے خوف ناک نتائج انسانی سوچ سے بالا ہیں اور آئندہ آنے والی نسلوں تک پھیلنے والے ہونگے۔ اب تو دوسرے لوگ بھی اس خطرے کا اظہار کر رہے ہیں۔ بلومبرگ میں پروفیسر Tyler Cowen جوکہ George Mason University میں معاشیات کے پروفیسر ہیں لکھتے ہیں ‘آج کی دنیا کی ایک بہت ہی تلخ حقیقت یہ ہے کہ نوجوان لوگ ایٹمی جنگ کے نقصانات سے آگاہ نہیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی بڑا خدشہ سمجھا جا رہا ہےجبکہ ایٹمی جنگ کو ماضی کا خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس میرے نزدیک ایٹمی جنگ آج بھی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ بے شک یہ خطرہ بعض اوقات اتنا زیادہ دکھائی نہیں دیتا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ بعض چھوٹے ممالک نے ایٹمی ہتھیار حاصل کرلیےہیں اور دوسرے ممالک اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح ایٹمی جنگ کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وہ بڑے وثوق سے لکھتے ہیں کہ صرف ایک ملک کے ایٹمی میزائل چلانے سے ہی دنیا کی حالت ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔ Duetsche-Welle میں چھپنے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق جرمن لوگ جس مسئلہ کے بارہ میں زیادہ فکرمند ہیں وہ موسمیاتی تبدیلی ہے لیکن میں ذاتی طور پر مذکورہ بالا پروفیسر صاحب کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ جنگ، بالخصوص ایٹمی جنگ کا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسی سال جرمن کے سابق وزیر خارجہ Sigmar Gabriel نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے بارہ میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ امریکہ، چین اور روس ایٹمی میدان میں اپنے غلبہ کو قائم کرنے کے لیے اب ایک نئی ایٹمی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اور عین ممکن ہے کہ امریکہ اور روس اپنے ایٹمی میزائل یورپ میں نصب کریں تو اس صورت میں یورپی ممالک کا برابر نقصان ہوگا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسی طرح امریکہ اور ایران کے درمیان حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور بڑا امکان ہے کہ ان کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ کوئی مذہبی جنگ ہو گی اور یہ واضح مثال ہوگی کہ کس طرح ایسی جارحیت سے لاکھوں انسانوں کی زندگی داؤ پر لگتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر اس سے صرف یہ دو ملک ہی متأثر نہیں ہونگے بلکہ اس کے اثرات باقی ملکوں تک بھی پھیلیں گے۔ یقیناً جرمنی اور دوسرے ممالک بھی اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے حصہ لیں گے۔ اس لیے جرمن حکومت اور دوسرے یورپی ممالک کو لازمی اس صورت حال کو حل کرنے کے لیے موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔مزید یہ کہ عالمی اقتصادی بحران کے دس سال گزر جانے پر یورپی ممالک یہ نہ سمجھیں کہ ان کی قومی اقتصادیات محفوظ ہیں یا سرمایہ دارانہ نظام ترقی کر رہا ہے۔ یہاںتک کہ مغربی ماہرین معاشیات بھی اس مالی نظام کی خامیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مشہور و معروف ماہر معاشیات Paul Kearns حال ہی میں معاشیات کے ایک رسالہ میں چھپنے والے کالم میں لکھتے ہیں کہ ‘ہم سب سرمایہ دارانہ نظام سے فائدہ اٹھا چکے ہیں مگر اب اس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تا کہ یہ فعال ہو سکے۔ اسے منافع کی بنیاد پرہی نہیں بلکہ معاشرتی اقدار کے مطابق چلاناہوگا۔’اس لیے سرمایہ دارانہ نظام اب آہستہ آہستہ کمزور ہو رہا ہے اور لوگ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اس میں خطرات اور نا انصافیاں پنہاں ہیں۔ اس لیے یورپی ممالک اور دوسرے طاقتور ممالک کو تکبر کرتے ہوئے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کا نظام ہمیشہ چلتا رہے گا بلکہ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ دنیاکا معاشی نظام مساوات اور انصاف کے سہارے کھڑا ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایک اور تشویشناک مسئلہ جو یورپ میں بے یقینی کی فضا برقرار رکھے ہوئے ہے، Brexitاور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا ہے۔ حال ہی میں Duetsche Welleنے Brexit کے یورپ پر ہونے والے اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔ رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ Hard Brexit کے نتیجہ میں سب سے زیادہ جرمنی متاثر ہوگا اور اس کی ٹیکنالوجی اور کار انڈسٹری بڑے پیمانے پر متاثر ہوگی۔ صرف جرمنی میں ہی لاکھوں کا روزگار ختم ہو سکتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایک اور مسئلہ جو ساری دنیا اور خصوصاً جرمنی میں باعث تشویش ہے ، امیگریشن اور نقل مکانی کا ہے۔ اس مسئلہ پر اگرچہ متضاد آرا ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ امیگریشن اقتصادیات کی ترقی کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔ Bertelsmann فاؤنڈیشن کی حالیہ تحقیق کے مطابق جرمنی میں کام کے لیے بنیادی افرادی قوت کو پورا کرنے کے لیے ہر سال دو لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو اس ملک میں لانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ اس بات کا ذکر کرتی ہے کہ اگر امیگریشن کا عمل شروع نہ کیا گیا تو لوگوں کی بڑھتی ہوئی عمر کے باعث جرمنی میں افرادی قوت 2060ء تک ایک تہائی رہ جائے گی یا پھرسولہ ملین افراد کی کمی ہو جائے گی۔ اس لیے پناہ گزینوں کو ملک کے تمام مسائل کی جڑ قرار دینا بالکل غیر منصفانہ ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ امیگریشن کے بغیر بہت سے امیر مغربی ممالک شدید خطرہ میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور اب ہم ایک جڑی ہوئی عالمی دنیا میں رہ رہے ہیں۔اس لیے بجائے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور دوسروں سے علیحدہ ہونے کے یہ ضروری ہے کہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور مشترکہ فائدے کے لیے مل کر کوشش کریں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں اور مقامی سطح پر مہاجرین کو معاشرے کاحصہ بنانے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔
مشرق وسطیٰ میں صورت حال کئی دہائیوں سے انتہائی نازک اور مخدوش ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات کے نتیجہ میں ہونے والے لاتعداد امن معاہدات ناکام ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک نیا امن کا منصوبہ تیار کیا ہے اور اس سے پہلے کہ اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاتااس کے بارہ میں شکوک کا اظہار شروع ہو گیا ہے نیز سیاست دان اور ماہرین کہہ رہے ہیں کہ نیا منصوبہ نا انصافی پر مبنی ہے اس لیے یہ کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکے گا۔ Gerard Araud جو کہ اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر تھے، انہوں نے ریٹائرمنٹ سے قبل کہا کہ ‘اس منصوبہ کی ناکامی تقریباً یقینی ہی تھی۔’اس لیے کہ دنیا کا امن مختلف عوامل کی وجہ سے تباہ ہوا ہوا ہے جیسا کہ بعض سیاسی حکمرانوں اور ممالک کی یک طرفہ پالیسیاں جو ذاتی اورقومی مفادات کو برابری اور مساوات کے اصولوں پر بالا رکھتے ہیں۔ ایسی ناانصافی انہیں کبھی بھی امن اور ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتی ۔ مختلف تحقیقات اور مضامین جن کا میں نے حوالہ دیا ہے واضح کرتے ہیں کہ دنیا میں امن اور تحفظ کی کمی کا قصور کسی مذہب کا نہیں نکالا جا سکتا چاہے وہ اسلام ہو یا کوئی اور۔ بلکہ متعدد اقتصادی، جغرافیائی ، سیاسی اور معاشرتی مسائل ایسے ہیں جو دنیا کے امن کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تاریخ کے اس نازک موڑ پر میرا یہ پختہ یقین ہے کہ ہمارے دور کے بڑے مسائل کے خاتمہ کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، صرف ایک ہی راستہ ہے جو ہمیں نجات کی طرف لےجا سکتا ہے اور ہمیں اس دنیا میں جنگ و جدل سے چھٹکارا دلا سکتا ہے اور وہ راستہ ہے اللہ تعالیٰ کا ہے۔ امن طاقت اور مال کے ذریعہ سے قائم نہیں ہوتا بلکہ امن تو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے۔ پس یہ وقت کی ضرورت ہے کہ بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچانے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہیں امن کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں ۔ اس لئے قرآن کریم جو کہ اسلام کی مقدس کتاب ہے اور اسلام کے احکامات کا اول سرچشمہ ہے ، ہمارے عقیدہ کے مطابق یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر نازل کی جسے ہم آخری مذہبی شریعت مانتے ہیں جو قیامت تک قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب دنیا کے ہر حصہ میں تفرقہ اور بد امنی پھیلتی ہےتو اس کی بنیادی وجہ انسان اور اس کے خالق کے درمیان دوری کا پیدا ہونا ہے ۔ ایسے وقتوں میں جب دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہو تب اللہ تعالیٰ اپنے رحم کی وجہ سے اپنے برگزیدہ نمائندے مبعوث کرتا ہے جو انسانیت کو مذہب کی طرف واپس لے کر آتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں انبیاء اپنے لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں آئے پھر ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو ایک عالمی شریعت کے ساتھ سب انسانوں کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کے لئے بھیجا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں آغاز میں بتا چکا ہوں کہ ہم احمدی مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو مصلح بنا کر بھیجا تاکہ آپ بنی نوع انسان کو ہدایت دیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات پر روشنی ڈالیں جوعرصہ سے بھلائی جا چکی تھیں۔ نیز آپ ﷺ اس لیے آئے کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو دکھلادیں کہ اسلام ایک امن، مصالحت، بھائی چارہ اوردوستی کا مذہب ہے۔ اور یہ کہ خدا تعالیٰ نے یہ انسانیت کے لئے چاہا کہ وہ امن میں رہیں اور اپنے خالق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد بار اس بات پر زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس نے مخلوق کے حقوق ادا نہ کیے جائیں۔قرآن کریم تو یہاں تک کہتا ہے کہ ان لوگوں کی عبادتیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا نہیں کرتے بے فائدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں رد کردیگا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سایہ میں پناہ لیں تاکہ وہ ہر قسم کی جنگ اور خطرہ سے محفوظ رہیں۔ نیز آپ علیہ السلام نے یہ تنبیہہ بھی فرمائی کہ اگر لوگ اپنے خالق کو پہچاننے میں ناکام ہوئے تو یہ بڑی خطرہ کی بات ہوگی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ باوجود اپنی طاقت اور دولت کے نہ یورپ، نہ امریکہ، نہ ایشیا، نہ آسٹریلیا ، نہ جزائر اور نہ ہی دنیا کے دوسرے علاقے تباہی سے بچیں گے۔لہٰذا میری دلی دعا ہے کہ انسانیت اپنے خالق کو پہچانے اور اس کی طرف رجوع کرے بجائے اس کے کہ وہ اس مادی دنیا، اس کی کششوں اور اس کے آراموں کو زندگی کا آخری مقصد بنالیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مجھے قوی امید ہے اور میری دعا ہے کہ لوگ اپنے خالق اور اپنے ساتھیوں کی نسبت اپنے فرائض سمجھ جائیں تاکہ یہ دنیا وہ پُرسکون جنت بن جائے جس کی ہم سب خواہش رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم ان لوگوں کے لئے جو ہمارے بعد ہیں ایک اچھا نمونہ چھوڑیں تاکہ آنے والی نسلیں امن کے ساتھ رہ سکیں نہ یہ کہ وہ ان میں سے ہوں جو لڑائیوں کو مزید بڑھانے والے ہوں، تفرقہ ڈالنے والے ہوں اور ایسے ہوں جن کی ترقی اور کامیابی کےراستے بند ہوں۔ میری دعا ہے کہ تمام کالے بادل جنگ اور دشمنی کے جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں ہٹ جائیں اور ان کی جگہ امن اور ترقی کا دائمی نیلا آسمان دنیا کے ہر حصہ پر چھایا رہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اللہ تعالیٰ انسانیت کو اپنی طرف مائل کرتے ہوئے آنے والی تباہی سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین۔
آ خر میں میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔
٭…حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب پانچ بجکر 25 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی۔
٭…بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭