امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ اٹلی کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ۱۸؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ اٹلی کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ اٹلی کی ممبرات نے مسجد بیت التوحید، San Pietro In Casale, Bolognaسے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کاآغاز تلاوت قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ سے ہوا ۔بعد ازاں لجنہ اور ناصرات کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
پہلا سوال یہ کیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ظاہری آنکھ سے تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے راہنمائی کرنے کے اپنے طریقے ہیں۔ مثلاًبسا اوقات اللہ تعالیٰ دل میں قرآن کریم کی کوئی آیت ڈال دیتا ہے۔
اس ضمن میں حضور انور نے مزید فرمایا کہ مجھے بھی تجربہ ہوا ہے کہ بعض آیات دل میں ڈالی جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ پھر بعد میں وہ پوری بھی ہوتی ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہی تھا۔
حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ سے دریافت فرمایا کہ کیا اس ملاقات میں شامل ہونے والی سب secondary-schoolکی طالبات ہیں؟ اس پر صدر صاحبہ نے عرض کی کہ چند ایک یونیورسٹی کی طالبات ہیں ان کے علاوہ سب سکول میں مختلف کلاسز میں پڑھتی ہیں۔ حضور انور نے مزید دریافت فرمایاکہ کیا اٹلی میں سکول میں انگریزی زبان بھی سکھائی جاتی ہے؟ اس پر صدر صاحبہ نے عرض کی کہ پڑھائی اطالوی زبان میں ہوتی ہے لیکن انگریزی زبان بھی الگ مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔تاہم ملاقات کنندگان میں سے بعض کا تعلق گھانا سے ہے ان کی انگریزی زبان بہت اچھی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مجھے علم ہے کہ گھانین انگریزی زبان پر بہت عبور رکھتے ہیں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ اکثر لڑکیوں کو اپنے والدین سے اور عورتوں کو اپنے شوہروں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے منع کیا جاتا ہے جبکہ لڑکوں پر اس قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ۔اس بارے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ مَیں نے تو خطبہ میں ہر ایک کو کہا تھا ،چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ لڑکیاں فیس بک،واٹس ایپ یا ٹوئٹر پہ زیادہ نہ جایا کریں۔مَیں نے جماعت کو warnکیا تھا،خاص طور پر جن کی عمر mature نہیں ہوتی ،چھوٹی عمر کے لڑکے لڑکیاں یا بچے ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح نہ جائیں کیونکہ بعض دفعہ غلط قسم کے میڈیا اور پلیٹ فارمز پہ چلے جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے دماغ زہر آلود ہو رہے ہوتے ہیں۔اس لیے ان کو منع کیا تھا۔ باقی میں نے یہ کہا تھا اگر کسی نے دیکھنا ہے تو بعض اچھے سوشل میڈیا کے لنک بھی ہیں۔ جماعت کے سوشل میڈیا کےلنک بھی ہیں ۔ ان کوآپ دیکھ سکتی ہیں ۔کس نے منع کیا ہے کہ لڑکیاں نہ دیکھیں؟ جہاں لڑکیوں کو منع کیا جاتا ہے وہاں لڑکوں کو بھی منع کیا جاتا ہے۔ اگر شوہر بیوی کو کہہ رہا ہے کہ تم نے سوشل میڈیا کو استعمال نہیں کرنااور خود غلط قسم کے سوشل میڈیا کو دیکھ کے ہر وقت سیل فون یا tablet ہاتھ میں لے کے غلط قسم کی چیزیں دیکھتے ہوئےبیٹھا رہتا ہے تو وہ شوہر بھی غلط ہے۔ بیوی کا کام ہے اس کو کہے تم کس طرح مجھے روک سکتے ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ خاوند بیویوں کو اپنے نمونے دکھائیں تبھی بیویاں صحیح رستے پہ چلیں گی اور ان کی بات مانیں گی۔ نہیں تو وہ کہہ دیں گی کہ تم مجھے کیوں روک رہے ہو خود تو تم فلاں برے کام کرتے ہو اور مجھے کہتے ہو نیک کام کرو۔ خود تو تم نماز بھی نہیں پڑھتے۔ سارا دن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پہ بیٹھے رہتے ہواورمجھے کہتے ہو نہ دیکھو۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لیے ہر ایک چاہے وہ مرد ہے یا عورت اگر وہ کوئی برائی کر رہا ہے تو غلط ہے۔ اگر وہ اچھے سوشل میڈیا لنک پہ چلا جاتا ہے تو وہ بڑی اچھی بات ہے کوئی ہرج نہیں۔ نہ ہم لڑکیوں کو منع کرتے ہیں نہ لڑکوں کو منع کرتے ہیں۔ہاں بچوں سے چونکہ بے احتیاطی ہو جاتی ہے،وہ غلط کھیلوںکے شوق میں ایک سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں،اس لیے ان کو احتیاط کرنی چاہیے۔ماں باپ کو نگرانی کرنی چاہیےکہ بچے غلط قسم کے لنک پر نہ چلے جائیں جہاں سے وہ غلط قسم کی باتوں میں پڑ جائیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ اپنے دینی و دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے استقلال کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کے لیے سب سے پہلے اپنی قوت ارادی کو بڑھانا ہو گا۔اگر آپ کسی مقصد کے حصول کے لیے پُر عزم ہیں تو پھر استقلال بھی پیدا ہو جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں کہ یہ میرا مقصد ہےاور مجھے لگتاہے کہ یہ میرے لیے مفید ہے، مجھے یہ پسند ہے ،میری خواہش ہے،اس لیے یا اللہ اس کے حصول میں میری مدد کر۔پھر اگر آپ کے لیے یہ بہتر ہو گا تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گااور آپ کو اس کے حاصل کرنے کے لیے طاقت، عزم اور استقلال بھی عطا فرمائے گا۔
یہ سب آپ پرمنحصر ہے۔ اگر آپ سست ہو جاؤ یا ہمیشہ depressedرہو اور سوچو کہ یہ میں نہیں کر سکتی پھر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔آپ کی قوت ارادی بہت مضبوط ہونی چاہیے۔ اگر مضبوط ہے تو سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ وہ ہیں جو سب کچھ کر سکتی ہیں۔اس کے لیے محنت بھی کرنی ہو گی اور محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی ہو گی۔
ایک آٹھ سال کی ناصرہ نے سوال کیا کہ سکول میں اس کے استاد نے اس سے پوچھا کہ مسلمان لڑکیاں کیوں حجاب پہنتی ہیں جبکہ لڑکے نہیں پہنتے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں تمہیں کوئی حجاب لینے کو نہیں کہتا۔ہاں جب لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ حجاب لو کیونکہ لڑکوں میں یہ بری عادت ہوتی کہ وہ لڑکیوں کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں۔
حضور انور نےمزید وضاحت فرمائی کہ عورتوں کو حجاب لینے کی نصیحت اس لیے کی جاتی ہے تا کہ وہ مردوں کی بُری نظروں اور نیتوں سے بچیں۔ حضور انورنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں حضورؑ نے فرمایا تھا کہ اگر اس بات کی ضمانت دی جا سکے کہ مرد آئندہ سے پاکباز رہیں گے اور عورتوں کو بُری نظروں سے نہیں دیکھیں گے تو پھر پردے میں ڈھیل دی جا سکتی ہے۔ قرآن کریم میں مردوں اورعورتوں دونوں کو حکم ہےکہ غض بصر سے کام لو۔اس کے علاوہ عورتوں کو یہ حکم زائد دیا کہ حجاب اوڑھو کیونک مردوں پر اندھا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد حضور انورنےیوکے میں مقیم ایک خاتون کی مثال دی جس نے ایک مضمون میں یہ بات لکھی کہ مرد عورتوں کو باحیا کپڑے پہننے سے صرف اس لیے روکتے ہیں کیونکہ وہ انہیں ننگے لباس میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ حجاب نیکی کی علامت ہے اور مثال دی کہ اٹلی ایک کیتھولک ملک ہےجہاںکیتھولک ننس(nuns) نے حیا اپنا رکھی ہے اور ان کا لباس بھی باحیا ہوتا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اپنی استاد کو کہو کہ تم لوگ مریمؑ کی پیروی کرتے ہو جو حیا دار لباس پہنتی تھیں۔ اپنا سر ڈھانپتی تھیں۔ وہ کھلے کپڑے پہنتی تھیں۔ ہم نے بھی مریمؑ کے طریقہ کار کو اپنایا ہوا ہےاس لیے ہم حجاب پہنتے ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ جب کوئی فوت ہونے لگتا ہے تو اس وقت سورت یٰس کیوں پڑھی جاتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ان کی روح کو تسکین پہنچانے کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے۔ اس سورت کے مضامین ایسے ہیں کہ دیگر مواقع پر بھی اگر اس کی تلاوت کی جائے تو دل کو تسکین ملتی ہے۔ فرمایا کہ اگر تم یہ سورت پڑھو، اس کے مطالب جانتی ہو اور اس کے مضامین پر غور کروتو دل میں سکون محسوس کرو گی۔
ایک سوال کیا گیا کہ مسلمان عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی کیوں کرتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ قربانی حضرت ابراہیمؑ کی یاد میں کی جاتی ہے جو اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے جا رہے تھے۔اس لیے کی جاتی ہے تا کہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کی رضا کی خاطر قربان کرنے لگے تھے۔ بکرے کی قربانی ایک تمثیلی عمل ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ جب ایمان میں کمزوری آئے تو کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کی وجہ معلوم کرنی چاہیے۔اگر تو کسی ساتھی کی وجہ سے، یا لوگوں کی وجہ سے، یا عہدیداروں کی وجہ سے یا دوستوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے تو ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ اسلام احمدیت ان لوگوں کی وجہ سے قبول نہیں کی۔ تم نے دین کو سمجھا اور اسلام احمدیت کو قبول کیا۔حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کو سمجھا اور جانا کہ یہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے میں سچا ہے۔ تم نے سمجھا کہ اسلام سچا مذہب ہے اور آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور قرآن کریم آخری شریعت ہے۔اس لیے اگر اپنے مذہب کے متعلق مزید جاننا چاہتی ہو تو ایمان میں کمزور پڑنے کی بجائے قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہارا ایمان مضبوط کرے۔
عام طور پر لوگ کسی دنیاوی بات کی وجہ سے ایمان میں کمزور پڑ جاتے ہیں۔ یا کسی ساتھی کے بُرے رویے کی وجہ سے۔ یا جماعت میں بعض اوقات اپنے کسی دوست یا عہدیدار کے بُرے رویے کی وجہ سے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھوکہ تم نے اسلام احمدیت کسی کی وجہ سے قبول نہیں کی بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے کی ہے۔ اگر یہ بات ذہن نشین ہو گی اور یہ سمجھ آجائے توکبھی بھی ایمان کمزور نہیں ہوگا۔
حضور انور نے سوال کرنے والی سے استفسار فرمایا کہ جو وجوہات بیان کی گئی ہیں کیا ان کے علاوہ بھی کوئی وجہ ذہن میں ہے جس کی وجہ سے ایمان کمزور پڑ جاتا ہو؟ اس پر سوال کرنے والی نے عرض کی کہ بعض اوقات وہ نماز کی ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت کر نے کے لیے اپنے آپ کو motivatedنہیں پاتیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ایمان کی مضبوطی عطا کرے۔ قرآن کریم کی تلاوت بھی کیا کرو۔ جب بھی ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اپنے مربی سے پوچھو یا مجھے بھی لکھ سکتی ہو۔
ہر وقت ایک جیسی حالت نہیں رہتی۔کبھی دینی کاموں میں سستی ہو جاتی ہے اور کبھی بہت زیادہ چستی آجاتی ہے اوردل کرتا ہے کہ تمام ضرورتوں اور گناہوں کی معافی کے لیےاللہ تعالیٰ کے سامنے جھکا جائے، دعا کی جائے اور اس کے آگےرویاجائے۔اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایمان ہمیشہ مضبوط ہی رہے گا لیکن اگر اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو وہ ہر وقت ایمان کی مضبوطی عطا کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ جب کبھی مشکل حالات میں سے گزرنا پڑے تو زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ اللہ سے بخشش طلب کی جائے اور اس سے ایمان کی مضبوطی مانگی جائے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ ایمان کی کمزوری سے بچائے رکھے گا۔
ایک سوال کیا گیاکہ حضرت موسیٰؑ کے ساتھ پیش آنے والے کئی واقعات تورات، بائبل اور قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں تاہم ان میں سے بہت سارے واقعات ایسے ہیں جن کے متعلق سائنسی لحاظ سے کوئی وضاحت نہیں پائی جاتی۔مثال کے طور پر حضرت موسیٰؑ کے اعصا کے ذریعہ سمندر کا پھٹ جانا یا آپؑ کےاعصا کا سانپ بن جانا۔ان واقعات کو کس طرح سمجھنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے اس لڑکی سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ secondary schoolمیں پڑھتی ہے؟ جس پر اس نے جواب دیا کہ وہ linguistic high schoolکی طالبہ ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھرقرآن کریم کی تفسیر کا مطالعہ کرو وہاں سے اس کی وضاحت مل جائے گی۔
یہ اعصا نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ حضرت موسیٰؑ کے پیروکاروں کو، یہودیوں کو، بنی اسرائیل کو یہ معجزہ دکھنا چاہتا تھا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں دریائے نیل سمندسے ملتا ہے۔ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہاں سے پانی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے وقت میں جب پانی پیچھے ہٹا ہوا تھا توانہوں نے اس جگہ سےسمندر پار کیا۔لیکن جب فرعون آیا تو قدرتی عمل کی وجہ سے پانی دوبارہ آنے لگا اور دونوں کنارے ملنے لگے جس کی وجہ سےفرعون کا لشکر غرق ہو گیا۔تو گو کہ یہ ایک معجزہ تھا لیکن ایسا ہوتا ہے اور آج بھی ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ ؑکے اعصا کا سانپ بن جانے کے متعلق حضور انور نے فرمایا کہ وہ سانپ لگ رہا تھا اصل میں سانپ نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو پہلی بار یہ معجزہ دکھایا تو وہ بھی ڈر گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ڈرو مت۔ یہ ابھی بھی اعصا ہی ہے یہ صرف سانپ کی صورت اختیار کر گیاہے۔جب جادوگروں نے اپنی رسیاں پھینکیں تو وہ بھی سانپ نظر آنے لگیں کیونکہ انہوں نے وہاں موجود تمام افراد پر جادو کر دیا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑسے کہا کہ اعصا پھینکو تو انہوں نے پھینکا تو جادو گروں کا جادو جاتا رہا۔ اور لوگوں کو سمجھ آ گئی کہ یہ صرف ایک جا دو تھا۔حضور انور نے فرمایا کہ انبیاء جادو نہیں کیا کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک چیز کو کسی اور چیز کی صورت میں دکھاتا ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ طبی دنیا میںآج کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں جوکہتے ہیں کہ انہیں بعض اشیاء دکھائی دیتی ہیں جو صرف ان کے دماغی خیالات کا نتیجہ ہوتی ہیں اور psychiatristsاس بات کی تائید کرتے ہیں۔
ایک طالبہ نے سوال کیا کہ یورپین لوگوں کی بڑی تعداد حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میںنفرت کا اظہار کرتی ہے اور سکولز میں بھی ہسٹری کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں غلط تعلیمات دی جاتی ہیںجو کہ نئی نسل میں اسلام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اور بھی زیادہ نفرت پیدا کرتے جارہے ہیں جو کہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ایک احمدی اور سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے ہمارا اس معاملے میں کیاعمل ہونا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ آپ لوگ وہاں کھڑی ہو کے کہا کریں کہ آپ غلط کہہ رہی ہو۔ مَیں آپ کو Holy Prophetصلی اللہ علیہ وسلم کی ہسٹری کے بارے میں بتاتی ہوں ۔اور وہ بتائیں۔ مَیں نے ابھی پچھلے دنوں خطبوں میں صحابہ ؓکی ہسٹری بتائی ہے؟ اس میں بہت ساری باتیں بتائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو اس سے بہت زیادہ بلند ہے۔اس لیے ہمارے لٹریچر میں تو وہ ہے ہی نہیں جو غلط باتیں وہ اسلا کے متعلق کہتے ہیں۔یہ تو orientalistsکی اپنی ہسٹری ہے جو انہوں نے بیان کی ہے۔ اٹلی کے ہی ایک authorنے کچھ سال پہلےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہسٹری کے بارے ایک کتاب لکھی جہاں اس نے واضح طور پر ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اچھے تھےاور جو بھی اسلام کے بارے میںکہا جاتا ہے غلط کہا جاتا ہے۔یہ سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیکچر کی تیاری کرو اور کہو کہ مَیں بھی اس پہ کچھ بولنا چاہتی ہوں۔یونیورسٹی سٹوڈنٹ اپنی یونیورسٹیوں میں سیمینار کریں اور اسلام کے بارے میں بتائیں۔یا اپنے دوست اوردوسری لڑکیوں کو بلا کراپنے طور پہ سیمینار کرو اور ان کو بتاؤ کہ اصل ہسٹری کیا ہے اور جو ہسٹری بیان کی جاتی ہے وہ distortedہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ سنی، شیعہ اور احمدی مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا سنی اور شیعہ وہ ہیں جو ابھی تک امام مہدی علیہ السلام اور مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں یا بعض اوقات بعض شیعہ کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر امام غائب ہی امام مہدی ہے۔
پھر شیعوں اور سنیوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ سنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے چاروں خلفاء کو مانتے ہیں تا ہم شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ ہی خلیفہ راشد تھے۔چنانچہ وہ پہلے تین خلفاء کو نہیں مانتے۔بہرحال احمدی کہتے ہیں کہ چاروں خلفاء ہدایت یافتہ تھے۔
ہم مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جس امام مہدی اور مسیح نے آخری زمانے میں آنا تھا وہ مرزا غلام احمد قادیانی ؑکی صورت میں آ گیا ہے۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے ہمیں چند علامات بتائیں جو مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے وقت ظاہر ہوں گی اور ان علامات میں سے بہت سی پوری ہو چکی ہیں۔اس وقت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا دعویٰ موجود تھا اوروقت بھی اس کا متقاضی تھا جبکہ آپ کی آمد کی پیشگوئی کی گئی۔ہم مانتے ہیں کہ جس شخص نے تمام مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق آخری زمانے میں آنا تھا وہ مرزا غلام احمدؑ کی صورت میں آ گیا ہے۔بعض آسمانی نشان تھے بعض دوسرے نشان بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوائی جہازوں کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی۔ذرائع نقل و حمل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ بدل جائیں گے۔ چنانچہ آج کل ہم اونٹوں اور گھوڑوں کو اپنے سفروں کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ذرائع سفر بدل گئے ہیں۔اب کاریں، بسیں، ٹرینیں اور ہوائی جہاز ہیں۔
ایک اور آسمانی نشان جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی وہ کسوف و خسوف کا نشان تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان شدہ معین تاریخوں میں رمضان کے مہینہ میں رونما ہوا اور معین دنوں میں چاند کو پہلے دن اور سورج کو دوسرے دن گرہن لگے گا۔ اس کے مطابق مشرقی اور مغربی کرۂ ارض میں یہ سب ہوا اور اس کی اخباروں میں تشہیر بھی ہوئی۔ سو ہم مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علامات بیان فرمائی تھیں جو قرآن کریم میں بھی ملتی ہیں اور ایک دعویدار بھی موجود تھا اور زمانہ بھی اس کی آمد کا متقاضی تھا چنانچہ وہ شخص آ گیا ہے۔ تو یہ ہم میں اور دیگر غیر احمدی مسلمانوں میں فرق ہے۔ وہ ابھی تک انتظار کر رہے ہیں یا بعض اوقات وہ یہ کہہ کر ردّ کر دیتے ہیں کہ اس نے ابھی آنا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ انکار کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ دعویٰ موجود ہے اور تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں۔ چنانچہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنا ہو گا۔
ایک سوال کیا گیا کہ بہت احمدی ہیں جو نماز اور قرآن پڑھتے ہیں مگر گالیاں دیتے ہیں اور پھر توبہ کر لیتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ ہم ان کو روکنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر وہ گالیاں دیتے ہیں اوراپنے اخلاق کو ٹھیک نہیں کرتے تو ان کا احمدی ہونے کا کیا فائدہ ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی لکھا ہے کہ اگر میری بیعت میں آئے ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور ایک دوسرے کا خیال رکھو۔ اگر تم ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے توتمہارا احمدی ہونے کا کیا فائدہ؟ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ بھی فرمایا کہ جلسے کے دنوں میں اگر تم لوگ ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے اور دوسرے کے جذبات کا احساس نہیں کرتے اور اس کی خاطر خدمت نہیں کرتے تو پھر جو جلسہ سالانہ ہم منعقد کرتے ہیں اس پر ان کا یہاں آنے کا کیا فائدہ؟ اس لیے ناراضگی میں ایک سال آپ نے جلسہ بھی نہیں کروایا تھا۔ جو کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ ان کو سمجھانا چاہیے کہ آپ لوگ غلط کرتے ہیں۔اس طرح کی باتیں ایک احمدی کو اچھی نہیں لگتیں ۔زیب نہیں دیتیں۔باقی ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس لیے پیدا کیا تھا تا کہ نیک اور بد لوگوں میں تمیز ہو جائے۔
حضور انور نے مزید وضاحت کرتے ہوئےفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والے لوگوں کو دائمی نعمتوں یعنی جنت سے نوازے گا اور جو بُرے کام کریں گے انہیں جہنم کی سزا ملے گی۔
شیطان کی وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ شیطان کوئی مادی چیز نہیںبلکہ ہر بُرا خیال شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔اگر تم اپنے ذہن سے بُرے خیالات کو مٹا دو تو شیطان سے دور ہو جاؤ گی۔لیکن گر اچھے خیالات اور اچھی نیتوں کی پیروی کرو گی تو تمہاران لوگوں میں شمار ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتےہیں اور اس کا قرب پانے والے ہوتے ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ ہم کس طرح اپنے دلوں میں نماز اور قرآن کریم کی محبت پیدا کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ہمارے پہ اللہ میاں کے کتنے احسان ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا۔اس کے بعد اپنے رحمان کی صفت سے ہمارے لیے بہت ساری چیزیں مہیا کر دیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں دیتا بھی ہے،ہماری دعائیںقبول کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن جیسی کتاب ہمیں دے دی جس میں ساری باتیں لکھی گئیں۔اس کو ہم پڑھتے ہیں،اس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں تا کہ مطلب سیکھیں اورہمارا علم بڑھے۔ جتنی تمہاری عمر بڑھتی جائے گی اتنا قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ کے، اس کی تفسیر پڑھ کے، اپنا علم بڑھاؤ تا کہ اس کی محبت پیدا ہو۔ اسی طرح نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنی محبت پیدا کرے ،نماز کی محبت پیدا کرے اور جب اللہ کی محبت پیدا ہو گی تو نماز بھی پڑھو گی تاکہ تم اس کا شکر ادا کر سکو۔ سجدے میں جاؤ گی تو اس کا شکر ادا کرو گی۔
ایک سائنس کی سٹوڈنٹ نے حضور انور سےعرض کی کہ جب وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں سے بات کرتی ہیں توانہوں نے محسوس کیا ہے کہ نئی نسل میں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں بلکہ مذہب کو ایک طرف رکھ کر ان میں ایک خالق پر بھی ایمان نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کائنات میں ہر چیز کے پیچھے ایک سائنٹفک تھیوری (scientific theory)ہے۔نیز کہتے ہیں کہ اگر تمہارا خدا ہر چیز پر قادر ہے تو تمہارا مذہب اسلام ابھی تک کیوں نہیں پھیلا؟ کیا مذہب کے پھیلنے کے لیےپہلے تباہی کا آنا ضروری ہے؟ امن سے کیوں نہیں پھیل سکتا؟اس تناظر میں انہوںنے سوال کیا کہ وہ اپنی ساتھیوں کو خدا تعالیٰ کی ذات پر کیسے یقین دلا سکتی ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ انہیں کہو کسی نے تو دنیا بنائی ہے۔ہر چیز کے لیے کوئی بنانے والا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جو دنیا بنائی ہے یاجس نے بھی بنائی ہے، تم اس کو جو مرضی نام دو، ہم اس کو خدا کا نام دیتے ہیں۔
حضور انور نے سائنس کی اس طالبہ کو ہستی باری تعالیٰ کےموضوع پرجماعتی لٹریچر کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے کتاب ’’ہمارا خدا‘‘پڑھی ہے؟ سائنس سٹوڈنٹ ہو تو اپنا لٹریچر بھی پڑھو تاکہ تمہیں پتا لگے۔پھر حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب Ten Proofs for the Existence of Godہے۔ اگر اردو نہیں آتی تو انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہے ۔وہ پڑھو۔ پچیس چھبیس صفحہ کی چھوٹی سی کتاب ہے۔ پھر اس سے بڑی کتاب Existence of Allahبھی ہے۔ پھر اگرscientificallyبھی proveکرنا ہے تو Revelation Rationality Knowledge and Truth میں حضرت خلیفہ رابعؒ نے اس بارے میںایک chapterلکھ کر دیا ہے۔وہ پڑھو۔اس سے تمہیں پتا لگ جائے گا۔ اپنا علم بڑھاؤ گی تو پھر ان کو جواب دو گی۔تم نے ان کوتفصیلی جواب دینا ہے۔
باقی رہ گئی بات کہ اللہ تعالیٰ کس چیز پر قادر ہے؟ اللہ تعالیٰ قادر تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون قدرت بھی بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہےکہ اسلام کی تعلیم آخری تعلیم ہے، finalتعلیم ہے، تمام نبیوں کو جوتعلیمات دی گئی تھیں وہ اس میں سمیٹ دی گئی ہیں۔اس کو تم مانو۔ اگر تم مانو گے تو تم فائدہ اٹھاؤ گے،اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی ہو جاؤ گے۔ صرف اسلام کی کیا بات، باقی نبی جب آئے تھے تو ان کے سارے لوگوں نے باتیں نہیں مانیں ۔کسی نبی کی ساری قوم نے کب مانا ہے ؟ ان پہ تباہی اوربربادی آئی ۔وہ تباہ ہو گئے۔ اسی طرح اگر دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہیں مانے گی تو تباہی اور بربادی آتی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو! یہ نیک باتیں ہیں ،اگر تم مانو گے تو بڑی اچھی بات ہے۔ نہیں مانو گے تو پھر تمہیں سزا ملے گی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا پیدا کی،قرآن کریم میں تو چودہ سو سال پہلے لکھ دیا کہ جب آدم کو پیدا کیا توشیطان نے کہا کہ بہت سارے لوگ میرے پیچھے چلیں گے اور تیرے یا تیرے نبیوں کے پیچھے چلنے والے بہت تھوڑے لوگ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ نہیں چلیں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں جو تمہارے پیچھے چلیں گے، چاہے وہ ساری دنیا ہو جائے ،تو میں ان کو جہنم سے بھر دوں گا۔ تم بھی اور تمہارے ساتھی بھی جہنم میں جائیں گے اور جو نیک لوگ ہوں گے وہ میری طرف سے rewardحاصل کریں گے۔ نیک اجر پائیںگے۔
اللہ تعالیٰ نے جب دنیا پیدا کی تو اچھے اور بُرے کی تمیز بھی کر دی۔ اسلام کے بارے میں تعلیم دی تو یہ بتایا کہ یہ آخری اور perfectتعلیم ہے۔ تم اس پہ چلو گے ،عمل کرو گےتو انعامات حاصل کرو گے۔ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا کہ جس طرح باقی قومیں ایک وقت میں جا کر دین کو بھول جاتی ہیں اور اس پہ صحیح طرح عمل نہیں کرتیں یا اس میں کئی قسم کی بدعتیں پیدا کر دیتی ہیں اسی طرح اسلام کے اندر بھی ہو گا۔ اور وہ ہوا۔ مسلمان بگڑ گئے۔ اب مسلمانوں کی اصلی حالت تو رہی نہیں۔ قرآن پہ عمل نہیں کرتے، نمازوں کی طرف پوری طرح توجہ نہیں دیتے۔ساری دنیا پہ کس طرح غالب آ سکتے ہیں؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس آخری زمانے میں مسیح موعود کو بھیجوں گا۔ اب مسیح موعود نے آ کر ساری دنیا کو اکٹھا کرنا ہے۔
اب دیکھو !دنیا میں آہستہ آہستہ جماعت بڑھ رہی ہے۔ ہر سال لوگ جماعت احمدیہ میںشامل ہوتے ہیں۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ عیسائیوں میں سے بھی آتے ہیں، ہندوؤں میں سے بھی آتے ہیں ،سکھوں میں سے بھی آتے ہیں، بدھسٹ میں سے ،دہریوں میں سے بھی آتے ہیں ،مسلمانوں میں سے بھی آتے ہیں اورآہستہ آہستہ جماعت بڑھ رہی ہے۔ اللہ نے یہ تونہیں کہا کہ ایک دن میں جماعت بڑھ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے سب کچھ کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون قدرت بھی رکھا ہوا ہے ۔یہ natural processہے اس کے مطابق آہستہ آہستہ جماعت بڑھ رہی ہے۔ہاں اگر ہم اپنا حق ادا نہیں کریں گے ، صحیح طرح تبلیغ نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کریں گے ،اپنے اخلاق اچھے نہیں کریں گے تو پھر یہ عرصہ بھی لمبا ہوتا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اتنی جلدی نتیجہ نہیں نکالے گا جتنی جلدی ہم چاہیںگے۔ بہرحال یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے، انشاء اللہ۔ اس لیے اگر ہم نے اپنے زمانے میں وعدے پورے ہوتے دیکھنے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح بھی کرنی پڑے گی،اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق ادا کرنے ہوں گے اور اپنے اخلاق بھی اچھے کرنے پڑیں گے۔
باقی یہ تو ان کی ضد ہے کہ اگر خدا ہوتا تو یہ کیوں کرتا ہے، وہ کیوں کرتاہے۔اللہ تعالیٰ تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ قانون قدرت دکھاتا ہے۔ اس لیے میں نے کہا کہ ایک توتم وہ کتابیں پڑھو۔ دوسرے یہاں جو دہریہ ہیں ،خدا کو نہیں مانتے۔ مثلاًیہاں کا ایک بہت بڑا لکھنے والا Richard Dawkins ہے۔اس کو ہم نے قرآن شریف کی Five Volume Commentary بھیجی اور خدا کی ذات پہ دوسرالٹریچر بھیجا اورکہا کہ تم اللہ پہ اعتراض کرتے ہو،یہ پڑھو ،پھر اعتراض کرو۔ اس نے کہا میں نے کچھ بھی نہیں پڑھنا ۔وہ اپنے آپ کو بڑا سائنٹسٹ سمجھ کے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں نے سائنس کی رو سے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کوئی چیز نہیں ہے اور مسلمان یا مذہب کے ماننے والے یونہی مذہب کےپیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ لیکن جب اس کو کہا کہ یہ پڑھو تو کہتا ہے میں نے نہیں پڑھنا۔ اب یہ ضد ہے ۔ اگر وہ ہمیں اپنی باتیں پڑھانا چاہتا ہے تو ہماری بھی تو پڑھے۔ پھر دیکھے،پھرموازنہ کرے،پھر debateکرے، پھر پتا لگے گا کہ کون سچا ہے، کون جھوٹا ہے ،کون غلط ہے ،کون صحیح ہے۔
اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ نیک لوگ ضرور ساری دنیا پہ غالب آ جائیں گے۔ ہاں ان کی اکثریت ہو جائے گی لیکن آخر میں جا کر پھر شاید شیطان کی اکثریت ہو جائے گی ،تبھی قیامت آئے گی۔یہی ہم مانتے ہیں۔باقی اللہ تعالیٰ کی قدرت تو بےشک ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپناایک قانون قدرت بھی بنایا ہوا ہے۔اور وہ قانون قدرت قانون شریعت بھی ہوتا ہے۔اس کے مطابق ایک process شروع ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ نکلتا ہے ۔جس طرح کسی بھی کام کرنے میں ایک چیز process میں سے گزرتی ہے۔جس طرح کل ہی مَیں نے خطبے میں مثال دی تھی۔مثلاً بچے کی پیدائش ہے۔ایک processشرو ع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ بچہ ہو گا تو فوراً بچہ نہیں ہو جاتا۔ اس کو پیدا ہونے میںنو مہینے لگتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف جانوروں میں مختلف وقت لگتا ہے۔ کسی کو چھ مہینے کسی کو نو مہینے کسی کو گیارہ مہینے۔ جانوروں میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ چونکہ خدا قادر ہےاور سارے لوگ مسلمان نہیں ہو گئے اس لیےمذہب جھوٹا ہو گیا۔ہم نے کب کہا ہے کہ یہ مذہب کی سچائی کی نشائی ہے کہ سارے مسلمان ہو جائیں؟ اللہ تعالیٰ نے تو کہیں دعویٰ نہیں کیا۔ نہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ قرآن شریف میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ شیطان نے کہا کہ زیادہ لوگ میرے پیچھے چلیں گے۔اللہ تعالیٰ نے کہا ٹھیک ہے چلیں گے تو جہنم میں جائیں گے۔ہاں جو نیک لوگ ہوں گے ان کو میرے سے rewardملے گا۔ اور ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد ایک زندگی آنے والی ہے۔اور وہ زندگی آئے گی اس میں جزا سزا ہو گی ،قیامت کا سماں ہوگا اور جنت و دوزخ کا معاملہ ہو گا۔ اس پہ ہم یقین رکھتے ہیں۔ اس دنیا کو تو ہم عارضی سمجھتے ہیں۔اصل چیز آخری زندگی ہے۔وہاں جا کر نہ سائنس کام آئے گی نہ لوگوں کا دہریہ پن کام آئے گا۔ صرف اللہ تعالیٰ سے محبت کام آئے گی ۔یہ چیزیں تو یہاں عارضی فائدے کے لیے ہیں۔ عارضی طور پہ کام کر لو اور اصل مقصد یہی ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کاپیار حاصل کرنا ہے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا کہ اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم۔