سال نو کا استقبال اور ہماری ذمہ داریاں
کسی بھی زندہ قوم کے لیے سال و تاریخ کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔اسی لیے زمانۂ قدیم سے اکثر اقوام کے پاس اپنی اپنی تاریخ تھی جس سے وہ کام لیا کرتے تھے اور یہ لوگ بعض مشہور واقعات سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے اور بعض لوگ بادشاہوں کی بادشاہت کے عروج وزوال سے تاریخ مقرر کرتے تھے۔ یہود نے بیت المقدس کی و یرانی کے واقعے سے تاریخ مقرر کی اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے دنیا سے جانے کے بعد سے تاریخ بنائی۔ اسی طرح عرب کے لوگوں نے واقعۂ فیل سے تاریخ مقرر کی، جب ابرہہ شاہِ یمن نے کعبۃ اللہ کو ڈھانے کے لیے کوہ پیکر ہاتھیوں کے ذریعے کوشش کی تھی۔ مگر اللہ کی قدرت کہ اس کی بے ایمانی وکعبے کی (شان میں ) گستاخی کے نتیجے میں وہ خود ابابیل نامی پرندوں کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ عربوں نے اسی واقعے سے تاریخ مقرر کر لی۔
زندگی اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے، اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اور اس کا ضیاع انسان کو ہلاکت وبربادی کے دہانے تک پہنچادیتا ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے جن سےنیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے۔ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل ہوگئی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت جاتا ہے۔جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی انسانوں نےکلچر اور آرٹ کےنام سے نئے نئے جشن اور تہوار وضع کیے۔انہی میں سے ایک نئے سال کاجشن ہے۔ نئے سال کےجشن میں دنیا بھر میں رنگ برنگی لائٹوں اورقمقمو ں سے اہم عمارتوں کوسجایا جاتا ہے اور 31؍دسمبر کی رات میں 12بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ 12بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہےکیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیوایئر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہےجس میں شراب وشباب اور ڈانس کابھرپور انتظام رہتا ہے۔
دراصل نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کردہ ہے۔ان کے عقیدے کےمطابق 25؍دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش ہے۔ اسی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔آج عیسائیوں کی طرح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31؍دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی اقدار اورروایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کردیا ہے۔جبکہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کااپنا قمری، اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ یہی اسلامی کلینڈر ہے لیکن افسوس تو یہ ہےکہ ہم میں سےاکثر کو اس کاعلم بھی نہیں ہو پاتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍دسمبر2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍جنوری2017ء)
در حقیقت نئے سال میں نیا پن کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے، دن، رات، زمین، آسمان، سورج اور چاند سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہمارے بہت سارے مسلم اور آج ايك بڑى تعداد بالخصوص نوجوان خوشیاں مناتے وقت وہ ناجائز اور نامناسب کام کرتے ہیںجنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی انسانی سماج کے لیے وہ کام کسی طرح مفید ہے بلکہ حد درجہ مضر ہے۔ مثال کے طور پر 31؍دسمبر اور یکم جنوری کے بیچ کی رات میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے بڑی مقدار میں پٹاخے بجائے جاتے ہیں اور آتش بازیاں کی جاتی ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں۔
لیکن اس کے برعکس نئے سال کے آغاز پر ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وقت نکال کر اپنا محاسبہ کرے کہ میں نے اس سال کیا پایا اور کیا کھویا؟ مجھے اس سال کیا کرنا چاہیےتھا اور کن چیزوں کو نہ کرنا میرے لیے بہتر تھا، میں نے کن لوگوں کا دل دکھایا؟ اور کس قدر مجھ سے گناہ ہوا؟ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل کیا؟ مجھ سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچا، میں نے کن سے ہمدردی کی، کس قدر گناہ مجھ سے ہوئے اور میں نے کن گناہوں کی معافی تلافی کی؟ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اور میں نیکیوں سے محروم رہ گیا۔ میرا وقت بے جا ضائع اور صرف ہوگیا اور ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے، افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اس کی تلافی کرنے کی کوشش کریں ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہوگئے ہیں۔لہٰذا ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیے اور ہمیں بہت ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کا محاسبہ کرنا چاہیےکہ ہمارے اندر کیا کمی ہے، کیا کمزوری ہے، کونسی بری عادت وخصلت ہم میں پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نیز اچھی عادتیں، عمدہ اخلاق وکردار کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚوَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ(الحشر:19)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
مومن کا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری زندگی کا حساب لے گا اس لیےاللہ کے سامنے حساب پیش ہونے سے پہلے خود ہم اپنااحتساب کرلیں، جہاں ہم سے غفلت ہوئی،خطا سرزد ہوئی، گناہ کا ارتکاب ہوگیا، اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا ہے اس سے معافی طلب کرلیں وہ یقیناً معاف کردے گا۔ اگر گناہ کی پوٹری لے کر اس دنیا سے چلے گئے تو پھر وہاں توبہ کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے ہوشیار وہ ہے جو اپنا محاسبہ دنیا میں ہی کرلے تاکہ کل قیامت میں حساب کے دن، رب اورسب کے سامنےشرمندہ نہ ہونا پڑے۔
ہم لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے وقت کے امام کو مانا اور آج خلفائے احمدیت کی قیادت میں احمدیت کاقافلہ رواں دواں ہے جو کہ ہرایک موقع پر احباب جماعت کی راہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں لغویات سےبچا کر اسلامی تعلیمات کےحصار میں لاتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے طیار کیا جاتا اور پکایا جاتا ہے اس کے ساتھ خراب بُوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کے لائق ہوتی ہیں۔ ایسا ہی قانون قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیں ہو سکتی۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل ہیں ان کے دل خدا تعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعاً بدی سے متنفّر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ49)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت اور اس انتباہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ جو عہدِ بیعت ہم نے کیا ہے اسے پورا کرنے والے ہوں۔ ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزرنے والی ہوں۔ ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھالتے ہوئے اپنی زندگی کا اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے والے اور ظاہر کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں سے پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں انعامات سے نوازے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے لئے جو کامیابیاں مقدر ہیں وہ ہمیں دکھائے۔ نیا چڑھنے والا سال برکتوں کو لے کر آئے اور دشمن کے منصوبے ناکام و نامراد ہوں جن کی منصوبہ بندی میں یہ جماعت کی مخالفت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍دسمبر2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍جنوری2017ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 16؍دسمبر 1983ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خوشی کے طبعی اظہار سےممانعت نہیں لیکن جب یہ رسمیں بن جائیں،قوم پر بوجھ بن جائیں تو پھر انہیں منع کیا جائے گا‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍دسمبر1983ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد2صفحہ629)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جنوری 2015ء میں نئے سال کی مبارکباد دینے کے حوالے سے فرمایاکہ’’ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لیے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لیے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لیے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لیے اس حق کی ادائیگی کے لیے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجا لانے سے ہی ادا ہو گا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔ تو واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لیے جو احمدیت میں داخل ہو تا ہے اور احمدی ہے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود مہیا فرما دیے ہیں، بیان فرما دیے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم از کم سال میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ معیاروں کو حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرے گا۔ اور ہمارے لیے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دیے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہے۔ پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے۔ بیشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ2؍جنوری2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جنوری2015صفحہ5)
جماعت احمدیہ کے افراد کا ہرعمل خلیفہ وقت کی عمومی ہدایات کے تابع ہے۔ حضورانور کی ہدایت پر عمل پیرا ہو کر دنیا کے ہر خطہ میں، ہر شہر اور ہر حلقہ میں جماعت کے نظام کے تحت نئے سال کا آغاز افراد جماعت تہجد وعبادت سے کرتے ہیں۔مساجد میں اکٹھے ہوتے ہیں۔خداتعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور آئندہ اپنی کوتاہیوں کو چھوڑنے کا عزم کرتے ہیں۔اور اس کا فضل مانگتے ہیں کہ اس کے فضل کے بغیر کوئی بھی کام ممکن نہیں۔اس ضمن میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اقتباس مشعل راہ ہے۔فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا ‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ12)
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’مغرب میں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں نئے سال کی رات ہاہو،شراب نوشی،ہلڑ بازی اور پٹاخے اور پھلجھڑیاں،جسے فائر ورکس کہتے ہیں،سے نئے سال کا آغاز کیا جاتا ہے بلکہ اب مسلمان ممالک میں بھی نئے سال کا اسی طرح استقبال کیا جاتا ہے…لیکن احمدیوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی رات عبادت میں گزار دی یا صبح جلدی جاگ کر نفل پڑھ کر نئے سال کے پہلے دن کا آغاز کیا۔بہت سی جگہوں پر باجماعت تہجد بھی پڑھی گئی‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍جنوری2016ء)
ہم احمدی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے اس دعائیہ شعر کے ساتھ اپنا نیا سال شروع کرتے ہیں۔ جو آپ نے اپنے بزرگ شوہر کی فرمائش پر اُن کے نئے سال کے کیلنڈر پر لکھنے کے لیے تحریر کیا تھا۔ جس کو وہ ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سرورق پر لکھتے تھے۔ اور اکثر احمدی گھروں میں بھی نئے سال کے کیلنڈر پر یہ شعر لکھا دکھائی دیتا ہے۔
فضلِ خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے
اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ، وَجَوَارٍ مِّنَ الشَّيْطَانِ۔اےاللہ اس سال کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمٰن کی رضامندی اور شیطان کے بچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔ آمین ثم آمین
یا رب! یہی دُعا ہے کہ ہر کام ہو بخیر
اکرام لازوال ہو انعام ہو بخیر
ہر وقت عافیت رہے ہر گام ہو بخیر
آغاز بھی بخیر ہو، انجام بھی بخیر
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دنیا و آخرت کی حسنات سے نوازتا رہے۔ہر قسم کے عذاب سے ہمیں بچائے۔ نیکیوں پر قدم مارنے کی توفیق دے۔ نیز اس سال کو اور آئندہ آنے والا ہر سال کو بھی جماعت کے لیےاور ساری دنیا کے افراد کے لیے ہر قسم کے دکھوں اور تکلیفوں سے محفوظ رکھتے ہوئے حسنات کا سال بنائے۔