سُستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو (قسط1)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍اپریل۱۹۳۶ء)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ الانشقاق کی آیت ۷تا ۱۶کی تفسیر و تشریح کی روشنی میں احباب جماعت کو سستیاں اور غفلت ترک کرنے اور محنت کی عادت ڈالنےکی طرف توجہ پیدا کی۔یقیناًحضرت مصلح موعودؓ کا یہ خطبہ آج بھی احباب جمات کے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس خطبے کے بعض حصے اس دعا کے ساتھ ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کما حقہ ہمیں اپنی تمام ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ادارہ)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی:یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ۔ فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ۔ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا۔ وَّیَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ۔ وَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ۔ فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا۔ وَّیَصۡلٰی سَعِیۡرًا۔ اِنَّہٗ کَانَ فِیۡۤ اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا۔ اِنَّہٗ ظَنَّ اَنۡ لَّنۡ یَّحُوۡرَ۔ بَلٰۤی ۚۛ اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیۡرًا۔(سورۃالانشقاق:۷تا۱۶)
اس کے بعد فرمایا:
دنیا کی اصلاح کوئی ایسی معمولی بات نہیں کہ بغیر خاص توجہ اور خاص تدابیر کے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے مگر عجیب بات یہ ہے کہ انسان ہر چیز کے لئے کسی توجہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے مگر نہیں کرتا تو
بنی نوع انسان کی اصلاح
کی طرف توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس طرح جو سب سے قیمتی چیز ہے وہ سب سے زیادہ نظر انداز کی جاتی ہے۔زمیندار ایک بھینس رکھتا ہے یا ایک گھوڑی رکھتا ہے۔ تم اس کے گھر میں تھوڑی دیر جاکر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ اپنے دن کا کافی حصہ گھوڑی یا بھینس کی خبرگیری میں صرف کرتا ہے۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین ہوتی ہے مگر اس کی نگہداشت کے لئے کافی عرصہ صرف کرتا ہے لیکن تم چوبیس گھنٹے ایک زمیندار کے گھر میں رہ کر اگر یہ معلوم کرنا چاہو کہ وہ کتنا وقت
اپنے بچے کی اصلاح
میں صرف کرتا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا۔اس کی گھوڑی یا بھینس اس کے وقت کا گھنٹہ دو گھنٹے لے لیتی ہے، اس کی کھیتی اس کے و قت سے آٹھ دس گھنٹے لے لیتی ہے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف پھیرلیتی ہے مگر اس کا بیٹا جو اس کی سب سے زیادہ قیمتی جائداد ہے اس پر وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حیثیت کو لوگ نہیں سمجھتے۔ سب چیزوں کی درستی کے لئے لوگ کوشش کریں گے، مالوں کی درستی کے لئے کوشش کریں گے، صنعت و حرفت کی درستی کے لئے کوشش کریں گے، تجارت کی درستی کے لئے کوشش کریں گے، زراعت کی درستی کے لئے کوشش کریں گے لیکن
قومی اخلاق کی درستی کے لئے کوشش نہیں کریں گے۔ …
تمام دنیا میں یہ مرض پھیلا ہوا ہے یہی حالت ان ممالک کی بھی ہے جو آج کل ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا انگلستان، کیا فرانس، کیا جرمنی اور کیا امریکہ سب کے نزدیک
انسانوں کی اخلاقی حالت
خواہ کتنی ہی خراب کیوںنہ ہو انہیں اس کی چنداں پرواہ نہیںہوگی لیکن جسمانی حالت گرنے کی انہیں فوراً فکر شروع ہوجائے گی۔ اگر ان کے ملک کے سکّہ کی قیمت گرتی ہے تو وہ گھبراجاتے ہیں لیکن اگر ان کے نوجوانوں کے اخلاق گرجائیں تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ اگر ان کاشلنگ بارہ پنس کی بجائے گیارہ پنس کاہوجائے تو وہ گھبراجاتے ہیں لیکن اگر ان کے ملک میںجؤابازی عام ہوجائے، شراب خوری زیادہ ہوجائے، فواحش کی کثرت ہوجائے تو اس کی انہیں اتنی فکر نہیںہوتی یا جھوٹ، دغا اور فریب پھیل جائے تو اس کی انہیں فکر نہیں ہوگی لیکن شلنگ کابارہ پنس کی جگہ گیارہ پنس کا ہوجانا ان کے ہاں
بہت بڑی اہمیت
رکھے گا۔ تو درحقیقت تمام انسان سوائے ان لوگوں کے جو مذہبی اثر کے نیچے ہوتے اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے تابع ہوتے ہیں قومی اخلاق کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن مال و دولت کے بڑھانے کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تمام تر کوششیں ضَلَّ سَعۡیُہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (الکہف:۱۰۵)کا مصداق بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان کی ساری کوششیں دنیا کے معاملات میں ہی صرف ہوجاتی ہیں دین کے معاملات میں خرچ نہیں ہوتیں۔ مگر ان سے اُتر کر ایک اور گروہ بھی ہے یا یہ کہنا چاہئے کہ
ان سے بدتر ایک اور گروہ
ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں گویا وہ نکمّے وجود ہوتے ہیں اور میں سمجھتاہوں اس وقت ایشائیوں کی زیادہ تر حالت ایسی ہی ہے۔
یورپ کے لوگوں کے متعلق
تو ہم کہہ سکتے ہیں کہضَلَّ سَعۡیُہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا۔ ان کی تمام تر کوششیں دنیا پر صرف ہوگئیں لیکن ایشیائیوں کا ننانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصہ ایسا ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں وہ صرف آرام کرناجانتے ہیں اور کام سے اتناگھبراتے ہیں گویا موت ہے اور ان کی پوری کوشش اس امر پر صرف ہوتی ہے کہ کسی طرح کام سے چھٹ سکیں اور پھر اگر کوئی کام ان کے سپرد کیا جائے تو وہ کبھی اسے وقت پر پورا نہیں کریں گے اور نہ یہ کوشش کریں گے کہ اس کام میں ترقی ہو حالانکہ
انسانی پیدائش
اس دنیا میں ہے ہی اسی لئے کہ وہ محنت کریں۔یہ جو میں نے اس وقت آیات پڑھی ہیں ان کا سارا مضمون تو وقت کی قلت کی وجہ سے میں بیان نہیں کرسکتا مگر ان میں اسی مضمون پر زور دیاگیا ہے جو میں اس وقت بیان کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےیٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِاے انسان! تجھے کدح کرنی پڑے گی اپنے ربّ تک پہنچنے کے لئے۔
کدح کے معنی
ہیں شدیدمحنت۔ ایسی محنت جس سے انسان کا جسم کمزور ہونا شروع ہوجائے۔جسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ہڈیاں گھل گئیں۔ یہ حالت جب انسان کی ہوجائے تو اس کے متعلق کہیں گے اس نے کدح کی۔ کدح کے اصلی معنی کسی چیز کااندر داخل ہوجانا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کَدَحَ رَأْسَہٗ بِالْمُشْطِ اس نے کنگھی کے ساتھ اپنے بالوں کو درست کیا۔ چونکہ کنگھی انسان کے بالوں میں داخل ہوجاتی ہے اس لئے اس کے متعلق کدح کالفظ استعمال کیا گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں کَدَحَ وَجْھَہٗ اس نے منہ پر ناخن مارے اوروہ ناخن جلد کے اندر گھس گئے تو کدح اس محنت کو کہتے ہیں جس کا اثر جسم سے اتر کر انسان کے اندر چلا جاتا ہے اور
محنت شاقہ کی وجہ سے
اس کی ہڈیاں گھلنے لگ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ۔ اے انسان! تجھے اتنی محنت کرنی پڑے گی اتنی محنت کرنی پڑے گی کہ اس محنت کی وجہ سے تیری ہڈیاں گھل جائیں تب کہیں تیرے ربّ کی ملاقات تجھے نصیب ہوگی پھر جب ایسا انسان وہاں پہنچے گا تو اس بات کی علامت کے لئے کہ اس کی کدح سچی تھی اور اس کی محنت پوری اتری خداتعالیٰ اس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا۔
دائیں ہاتھ سے مراد کام کرنے والا ہاتھ ہے
دنیا کا اکثر حصہ چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے بعض لوگ بے شک لیفٹ ہینڈڈ (Left Handed) یعنی بائیںہاتھ سے کام کرنے والے بھی ہوتے ہیںمگر وہ نہایت قلیل ہوتے ہیں اکثر دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ خط لکھیں گے تو دائیں ہاتھ سے، کوئی چیز کاٹیں گے تو دائیں ہاتھ سے، ضرب لگائیں گے تو دائیں ہاتھ سے، اسلام نے تو دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو مذہب کاجزو قرا ردیا ہے مگر عملی طور پر ساری دنیا میں یہ بات پائی جاتی ہے اور ملک کا ملک کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جہاں بائیں ہاتھ سے کام کیا جاتا ہو۔ افراد بے شک کرتے ہیں مگر وہ قلیل ہوتے ہیں پھر
بائیں ہاتھ سے کام کرنا
ان کی کوئی خوبی نہیں بلکہ نقص سمجھا جاتا ہے۔ تو دایاں ہاتھ عمل پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ وہ عملی لوگ ہوں گے اور محنت اور کوشش سے کام کرنے والے ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے
دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ
دے گا مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے دنیا میں کوئی عمل نہ کیا ہوگا اور ان کی یہ عادت ہوگی کہ جب ان کے سامنے کوئی کام آیا انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا۔ جیسا کہ کہتے ہیں آج کا کام کل پر ڈال دینا۔ دنیا میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام انسان نے کرنا ہو اسے اپنے سامنے رکھ لیتا ہے مگر جو نہ کرنا ہو اسے ایک طرف کردیتا ہے اس کے مطابق چونکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس جب کام آتا تو وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیتے اور اس طرح ان کی پیٹھوں کے پیچھے
کاموں کا ایک ذخیرہ
جمع رہتا اس لئے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ چونکہ وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے کام رکھنے کے عادی تھے اس لئے ان کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا۔ فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا اس وقت جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا یہ شور مچانے لگ جائے گاکہ میں تو مارا گیا۔ یہ
سست اور کاہل آدمی کی مثال
ہے کہ وہ بجائے کام کو اپنے سامنے رکھنے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرنے کے ہمیشہ اسے تاخیر میں ڈالتا اور اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دیانت دار اور مومن انسان ہمیشہ اُسے سامنے رکھتا اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی مناسبت کے لحاظ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص کو جو عملی زندگی بسر کرنے والا ہو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر جو سُست اور کاہل ہوگا اور کام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دینے کا عادی ہوگا اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا گویا جس نگاہ سے اس نے دنیا میں اپنے کام کو دیکھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح اس کا اعمال نامہ بھی ایسا گندہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھنے کے لئے قوتِ برداشت اپنے اندر نہ رکھے گا اور اسی لئے اسے پیٹھ کے پیچھے رکھاجائے گا۔(باقی آئندہ)