شہدائے احمدیت ضلع چکوال
خلافت روحانی ترقیات کا عظیم الشان ذریعہ
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے حیاتِ جاودانی کے مورد ٹھہرتے ہیں۔جیساکہ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۵ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ان لوگوں کو جو اللہ کے راستہ میں مارے جائیں مردہ نہ کہو۔بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم کوئی شعور نہیں رکھتے۔
حضرت محمد ﷺ نے شہید کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ مولا کے حضور خیر پانے کے بعد سوائے شہید کے اور کوئی دنیا میں واپس آنے کی خواہش نہیں کرتا۔شہادت کی فضیلت کی وجہ سے وہ ایسا چاہتا ہے کہ دوبارہ دنیا میں شہادت کا رتبہ حاصل کرے اور اپنے مولا کے حضور بلند مقام پائے۔حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں: ’’ شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوتِ ایمانی اور قوتِ اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان ہو جائے۔‘‘ (تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۱۶ )
مومنین انبیاء کی روحانی تربیت اور تعلیم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر مصیبتوں،دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت اپنی قوتِ ایمانی کے سبب ثابت قدمی دکھاتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔جاں نثارانِ محمد مصطفیٰ ﷺ نے عشق و محبت، فدائیت، اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے اپنی گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہ کیا۔وہی لافانی داستانیں حضرت مسیح موعودؑکے وقت بھی رقم ہونی شروع ہوئیںجس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔کابل کے شہزادے حضرت سید عبداللطیف شہید نے حضرت مسیح موعودؑکی محبت میں سر شار آپ کے دعاوی پر کامل ایمان رکھتے ہوئے ثابت قدمی کی لافانی داستان رقم کی اور اپنی وفا کا نمونہ حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں ہی دکھا دیا۔حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: ’’ اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایااور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گےمیں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۶۰)صاحبزادہ عبداللطیف شہید حضرت مسیح موعودؑکے سفرِ جہلم میں آپ کےساتھ آنے اور مولوی کرم دین بھین کے مقدمہ میں جہلم کچہری میں ساتھ رہنے کی سعادت ملی تھی۔حضرت مسیح موعودؑکی پیاری جماعت اور آپ کے فدائی جاں نثار آپ کے بعد بھی صدق و وفااور ثابت قدمی کے نمونے دکھا رہے ہیں۔جس کا نمونہ شہیدِ کابل سید الشہداء حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف نے حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں قائم کر دیاتھا۔عشق و وفا کی داستانیں ضلع چکوال کے جاںنثاروں نے بھی اپنے خون سے رقم کیں۔انہیں وفاشعاروں کا آج تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
حضرت حافظ جمال احمد صاحب ؓشہید ماریشس
جماعتِ احمدیہ چکوال کی ابتدا حضرت مسیح موعودؑکے زمانہ میں ہوئی۔حضرت سیٹھی غلام نبی صاحب چکوال جن کاشمار حضرت مسیح موعود ؑکے ۳۱۳ صحابہ میں ہوتا ہے انہیں ہی چکوال شہر کے پہلے احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کی بیعت۱۸۹۸ء کی ہے۔جماعت احمدیہ چکوال میں ۱۵ صحابہ حضرت مسیح موعودؑنے جنم لیا۔جماعتِ احمدیہ چکوال کے پہلے صدر مکرم خواجہ شمس الدین صاحب تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ۲۷؍جنوری ۱۹۱۴ء کو چکوال تشریف لائے اورجماعت احمدیہ چکوال اور بہت بڑے ہجوم سے روح پرور خطاب فرمایا۔ مکرم حضرت حافظ جمال احمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑنہ صرف جماعتِ احمدیہ چکوال بلکہ جماعت ہائے احمدیہ ضلع چکوال کے پہلے مربی سلسلہ اور شہیدِ احمدیت ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنتِ فردوس کا مکیں بنائے۔ آمین
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍مئی ۱۹۹۹ء بمقام مسجدفضل لندن شہید مربیان کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے مکرم حضرت حافظ جمال احمد صاحب کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا۔حضرت حافظ جمال احمد صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے ان ممتاز صحابہ میں سے تھے جو عنفوانِ شباب سے حضرت مسیح موعودؑ کے دامن سے وابستہ رہے اور مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے۔آپ کے والد حضرت حکیم غلام محیی الدین صاحبؓ۱۹۰۱ء سے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے۔آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زیرِ سایہ بھی تربیت حاصل کی۔ آپ موضع چکوال کے رہنے والے تھے۔حضرت حافظ صاحب کو صحابہ حضرت مسیح موعودؑ میں یہ منفرد خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اکیس برس تک ماریشس میں جہادِ تبلیغ میں سرگرم رہے۔ حضرت مسیح موعودؑکے صحابہ میں کسی کو اتنا لمبا عرصہ میدانِ عمل میں مسلسل تبلیغ کا موقع نہیں ملاجیسے آپ کو ملا۔آپ ۲۷؍جولائی۱۹۳۸ء کو قادیان سے ماریشس پہنچے اور ۲۷؍دسمبر۱۹۴۹ء کو ماریشس میں انتقال فرما گئےاور سینٹ پیری میں سپردِ خاک کیے گئے۔ آپ کی وفات کی اطلاع پر حضرت مُصلح موعودؓ نے ۳۰؍دسمبر۱۹۴۹ء کو خطبہ دیا۔اس میں آپ کی وفات کونشان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی۔ اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد و رفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں۔اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا۔‘‘(تاریخِ احمدیت جلد ۱۴ صفحہ۹۰-۹۱)۔جو اس سے بھی بڑا نشان ہے وہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑکے صحابہ میں سے کسی صحابی کو اتنا لمبا عرصہ میدانِ جہاد میں تبلیغ کرنے کی توفیق نہیں ملی(شہدائے احمدیت صفحہ۹۰-۹۱۔الفضل ۲۴؍اگست۱۹۹۹ء صفحہ۳)حضرت صوفی خدا بخش زیروی صاحب اپنی خودنوشت حالات میں حضرت حافظ جمال احمد صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۹۲۷ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر میں نے سید دلاور شاہ صاحب بخاری احمدی ایڈیٹر مسلم آؤٹ لُک (Muslim Out Look ) انگریزی اخبار کے استقبال کا نظارہ دیکھا جو کہ غازی علم الدین صاحب کے مقدمات کے سلسلہ میں قید سے رہا ہو کر آئے تھے اور اس طرح حضرت حافظ جمال احمد صاحب آف چکوال کی بطورِ احمدی مبلغ ماریشس کو روانگی کا روح پرور نظارہ دیکھا۔ (تاریخِ احمدیت سڑوعہ ضلع ہوشیار پور صفحہ ۱۸۰)
مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید
(دارالذکر گڑھی شاہو لاہور) ۲۸؍مئی۲۰۱۰ء
تحصیل چوآسیدن شاہ،ضلع چکوال کا چھوٹا سا گاؤں رتوچھہ جس میں احمدیت کے نور کا ورود۱۹۱۷ء میں مکرم نادر علی بھٹی صاحب کے احمدیت قبول کرنے سے ہوا۔جماعتِ احمدیہ رتوچھہ کے پہلے صد جماعت مکرم جناب محمد خان صاحب تھے۔اس جماعت پر بہت سارے ابتلا آنے کے باوجود جماعت نے بڑی ثابت قدمی دکھائی۔مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید کو اس جماعت کے پہلے شہید ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے جنہوں نے ۲۸؍مئی۲۰۱۰ء کو احمدیہ دارالذکر گڑھی شاہو میں سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے آپ کو شہداء کی فہرست میں شامل کر کے اپنی جماعت احمدیہ رتوچھہ کا سر بلند کر دیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو رنگ لائے اور رتوچھہ میں احمدیت کو ترقی پر ترقی نصیب ہو۔آمین
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍ جولائی ۲۰۱۰ء کو مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم محمد اشرف صاحب چکوال کا۔ شہید مرحوم کے آباءو اجداد کا تعلق رتوچھہ ضلع چکوال سے تھا شہید مرحوم نے میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی گاوٴں سے حاصل کی۔ پھر فوج میں بطور لانس نائیک ملازمت شروع کر دی۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں ایک سیکیورٹی کمپنی میں ملازمت شروع کی۔ بعد ازاں ۲۰۰۹ء میں مسجد دارالذکر میں سیکیورٹی گارڈ کی ملازمت شروع کر دی۔ ان کے خسر مکرم عبدالرزاق صاحب نظارتِ علیاء صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کے ڈرائیور تھے۔ شہادت کے وقت وسیم احمد صاحب کی عمر ۵۴سال تھی۔ مسجد دارالذکر میں ڈیوٹی دینے کے دوران جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز وسیم صاحب مسجد دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے۔ حملہ آوروں نے دور ہی سے فائرنگ شروع کر دی جس سے سانحہ کے آغاز میں ہی ان کی شہادت ہو گئی۔ شہید مرحوم کی دو شادیاں ہوئی تھیں۔ ۱۹۸۳ء میں پہلی بیوی کی وفات ہو گئی پھر ۱۹۹۰ء میں عبدالرزاق صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ معاشرے میں بہت اچھا مقام تھا۔ ہر ایک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہر رشتے کے لحاظ سے بہت اچھے انسان تھے۔ خاص طور پر یتیم بچے اور بچیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔ چاہے وہ رشتے دار، غیر رشتے دار غیر از جماعت یا احمدی ہوتا۔ جماعتی خدمات کا بہت جوش اور جذبہ تھا۔ اسی لئے جب بھی لاہور سے چھٹی پر گھر آتے تو بتاتے کہ میں ادھر بہت خوش ہوں، مسجد میں آنے والا ہر احمدی چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ہر ایک بہت عزت سے ملتا ہے۔ شہید مرحوم کے بچوں نے بتایا کہ ہمارے ابّو بہت اچھے انسان تھے۔ ہمارے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔ ہر ایک خواہش کا احترام کرتے تھے۔ بیٹی نے بتایا کہ خاص طور پر میری ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ بچوں کی تعلیم کے بارہ میں بہت جذبہ اور شوق تھا۔ بیٹی نے بتایا کہ مجھے کہتے تھے کہ میں تمہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ بھیج دوں گا۔ ماحول اچھا ہے اور وہیں جماعت کی خدمت کرنا۔ چاہے مجھے تمہارے ساتھ ربوہ میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والے باپ تھے۔ شہیدمرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ شہادت سے کچھ روز قبل فون کر کے مجھے بتایا کہ میں ڈیوٹی پر کھڑا تھا، صدر صاحب حلقہ مسجد میں تشریف لائے۔ میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا صدر صاحب! میری وردی پرانی ہو گئی ہے اگر مجھے نئی وردی لے دیں تو ہر ایک آنے والے کو اچھا محسوس ہو گا۔ لہٰذا صدر صاحب نے نئی وردی لے دی۔ شہادت والے روز سانحہ سے قبل فون کر کے بتایا کہ میں نے نئی وردی پہنی ہے۔ اسی وردی میں شہادت کا رتبہ پایا۔ ان کی اہلیہ لکھ رہی ہیں کہ شہادت کی خبر پہلے ٹی وی کے ذریعہ ملی کہ لاہور میں احمدی مساجد پر حملہ ہو گیاہے۔ پھر ہم نے لاہور وسیم صاحب کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ وسیم صاحب کے نمبر سے کسی احمدی بھائی نے فون کر کے خبر دی کہ وسیم صاحب شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر بہت دکھ اور تکلیف بھی ہوئی لیکن شہادت جیسا بلند مرتبہ پانے پر بہت خوشی تھی اور سر فخر سے بلند تھا کہ مسجد میں نمازیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی۔ شہید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے، نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جولائی ۲۰۱۰ء)رسالدار محمد اکبر صاحب صدر جماعت احمدیہ رتوچھہ ضلع چکوال نے مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ روزنامہ الفضل میں ایک اشتہار شائع ہواکہ لاہورکی ایک احمدیہ مسجد بیت الذکر میں سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت ہے تو میں نے کہا کہ تم چلے جاؤ اور وہاں خدمت بھی ہو جائے گی تو کہا کہ ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔تو وہ وہاں سیکیورٹی کے لیے چلے گئے۔بس اللہ تعالیٰ نے ان کویہ انعام دے دیا کہ وہ شہید ہو گئے۔آپ شہید کے بارے میں کہتے ہیںکہ ہمارے خاندان میںکوئی ایسا بڑا وقوعہ نہیں ہوا جو قابلِ ذکر ہو۔لیکن اب ہمارے لیے ایک فخر ہو گیا ہے کہ رتوچھہ جماعت کے ایک لڑکے نے احمدیت کے لیے جان کا نذرانہ دے کر شہید ہو گیا ہے۔
مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید کے بیٹے ولید احمد صاحب بیان کرتے ہیں: میرے والد مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔میری والدہ میرے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں اور ابو نے دوسری شادی کر لی تھی۔لیکن انہوں نے مجھے کبھی بھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں کچھ عرصہ پہلے ہی چھٹی گزار کر سعودیہ آگیاتھا اور بعد میں یہ واقعہ ہو گیا۔موت تو سب کو آئے گی لیکن الحمد للہ کہ ابو کوشہادت نصیب ہوئی۔
مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید کی بیٹی آپ کے بارے میں کہتی ہیں: میرے ابو بہت ہی اچھے انسان تھے۔ان کے تعلقات ہمارے ساتھ بہت ہی اچھے تھے۔جب ابو کی شہادت کی خبر ہم کو ملی تو افسوس تو ہوا لیکن ایک خوشی بھی ہوئی کہ میرے ابو اللہ تعالیٰ کے گھرکی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے صبر بھی عطا کیا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بڑے درجے سے نوازا ہے۔
مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید (دارالذکر گڑھی شاہو لاہور) ۲۸؍مئی۲۰۱۰ء
جماعت احمدیہ دوالمیال تحصیل چوآ سیدن شاہ ضلع چکوال کا قیام حضرت مسیح موعودؑکے زمانے میں ہو ا تھا۔ دوالمیال کے سب سے پہلے خوش نصیب احمدی مکرم حضرت حافظ شہباز خان صاحب تھے اور جماعت احمدیہ دوالمیال کے پہلے امیر مکرم حضرت مولوی ملک کرمداد صاحب تھے۔ جماعت احمدیہ دوالمیال میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑکی تعداد ۶۵ سے زیادہ تھی۔احمدیہ دارالذکر دوالمیال میں منارۃ المسیح کی طرز کا ایک مینار مکرم مستری غلام محمد احمدی نے ۱۹۲۷ء میں تعمیر کیاتھا۔ جس کی بنیادیں صحابہ حضرت مسیح موعو د ؑنے خود کھودی تھیںجو ہمارے اسلاف کی احمدیت سے صحیح رنگ میں محبت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس احمدیہ دارالذکر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بھی خلافت سے پہلے تشریف لائے تھے اور جماعت کو اپنی نصائح اور روح پرور خطاب سے نوزا تھا۔ انہیں احمدیت کے جاں نثاروں کی اولادوں میں سے مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید کو ۲۸؍مئی۲۰۱۰ء کو احمدیہ دارالذکر گڑھی شاہو لاہور میںجان کا نذرانہ دے کر جماعت احمدیہ دوالمیال کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز ملا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنتِ الفردوس میں اونچا سے اونچا مقام عطا فرمائے۔آمین
حضورِ انور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍جولائی۲۰۱۰ء میں مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگلا ذکر ہےمکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید ابن مکرم خورشید اعوان صاحب کا۔ شہید مرحوم کا تعلق بندیال ضلع چکوال سے تھا۔ ان کے والد اور دادا پیدائشی احمدی تھے۔ تا ہم کچھ عرصہ قبل ان کی فیملی کے دیگر افرادنے کمزوری دکھاتے ہوئے ارتداد اختیار کر لیا جبکہ شہید مرحوم بفضلہ تعالیٰ شہادت کے وقت تک جماعت سے وابستہ رہے۔ ان کے ایک اور بھائی مکرم سعید خورشید اعوان صاحب جو جرمنی میں ہیں، انہوں نے بھی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر ۲۴سال تھی۔ غیر شادی شدہ تھے۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز دارالذکر میں نمازِ جمعہ ادا کرنے گئے۔ دہشتگردوں کے آنے پر گھر فون کر کے بتایا کہ مسجد پر حملہ ہو گیا ہے، میں زخمی ہوں، دعا کریں۔ اسی دوران دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ ان کے فیملی کے غیر از جماعت ممبران ان کے احمدی ہونے کے بارے میں اعتراضات کرتے رہے جس پر ان کے والدین ان کے دباوٴ میں آگئے اور اطلاع دی کہ اگر احمدی احباب نے نمازِ جنازہ پڑھی تو علاقے میں فساد پھیل جائے گا۔ یہاں پر ختمِ نبوت والے (نام نہاد ختم نبوت والے کہنا چاہئے) کافی ایکٹو (Active) ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر احمدی احباب کو نمازِ جنازہ ادا نہ کرنے دی گئی۔ غیر از جماعت نے ہی نمازِ جنازہ پڑھی اور تدفین کی۔ تا ہم علاقے میں عام لوگ مجموعی طور پر اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ شہید کے والد پہلے تو مخالفت کے باعث کوائف دینے سے انکار کرتے رہے، جس پر سمجھایا گیا کہ آپ کے بیٹے نے جان دے کر پیغام دیا ہے کہ دنیاوی لوگوں سے خوف نہ کھائیں، خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ شہید مرحوم کی قربانیوں کو چھپانا شہید کے ساتھ زیادتی ہے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے کوئی کوائف نہیں دئیے۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی یہ قربانی ان کے گھر والوں کی بھی آنکھیں کھولنے کا باعث بنے۔
مکرم ملک حسن خورشید اعوان صاحب کے بارے میں امیر صاحب چکوال نے لکھا ہے کہ دعوتِ الی اللہ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ پچھلے چند سالوں سے آپ کے والد مکرم ملک خورشید احمد صاحب نے جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کی تو ملک حسن خورشید صاحب اپنے حقیقی عقیدہ یعنی احمدیت سے منسلک رہے اور تا دمِ آخر اس کے ساتھ رہے۔ نمازِ جمعہ گڑھی شاہو دارالذکر میں جا کر ادا کرتے تھے۔ متعدد بار والدین کے اصرار کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے۔‘‘ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جولائی ۲۰۱۰ء) اب ان کے والدکو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور پھر احمدیت کی سچائی کو قبول کر کے خود کو احمدیت کے حصار میں لے آئے ہیں اور کینیڈامیں جماعت سے منسلک ہیں۔
یہ شہدائے احمدیت۔ان ماؤں کے بیٹے ہیں جن کے خون میں جن کے دودھ میں،جان،مال،وقت،عزت کی قربانی کا عہد گردش کر رہا ہے۔جن کو اپنے اندر عہدِ وفا نبھانے کا جوش ہے۔شہداء کی شہادت ہمارے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ایک نہ پُر ہونے والا خلاہے۔ان کی ہر لمحہ بڑی شدت سے جماعتی کام کرتے وقت کمی کومحسوس کیا جائے گا۔ان کو یاد کر کے دل بھر آئے گا۔اور آنکھوں کے کنارے بھیگ جائیں گے۔ دعا ہے کہ خدا ہمیں صبر کرنے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین
ملک خالد جاویدصاحب شہید
(دارالذکردوالمیال)۱۲؍دسمبر۲۰۱۶ء
۱۲دسمبر ۲۰۱۶ء سانحہ ددالمیال کا روح فرسا دن تاریخِ احمدیت ضلع چکوال کے علاوہ مذہبی تاریخ میں بھی ہمیشہ صبرو استقامت کے حیرت انگیز نمونوں اورانس و وفا نبھانے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس ۱۲ ربیع الاول کے روز احمدیہ دارالذکر میں جب معصوم، نہتے اور بے ضرر احمدی احباب پر ظالموں نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے گاؤں دوالمیال، علاقہ کہون اور ضلع چکوال کا امن تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک منظم سوچے سمجھے دہشت گردی کے منصوبے کے تحت احمدیہ دارالذکر دوالمیال پر حملہ کیا تھا۔علاقہ بھر سے مسلح لوگوں کو بلا کر،ہمارے خون کے پیاسے بنا کر،اپنے اس شرمناک ارادے کو عملی جامہ پہنایا۔پولیس اور انتظامیہ کے حکام کے سامنے گولیاں برسا کراور دوسرا آتشیں اسلحہ استعمال کر کے،مسجد کو آگ لگا دی۔ مسجدکے تقدس کو برباد کر کے،قانون کی دھجیاں قانون کے رکھوالوں کے سامنے اڑا کر امن کو پامال کیا۔پولیس اور انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔اور اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب تماشا دیکھتی رہی۔ان کاعید میلاد النبیﷺ کا جلوس اپنے اصلی متعین راستہ کو چھوڑ کراحمدیہ دارالذکر پر چڑھ دوڑا،پولیس اور انتظامیہ کے حکام نے ان کو روکنے تک کی تکلیف گوارا نہ کی اور سب کچھ خاموش تماشائی بنے ہوئےصرف دیکھتی رہی۔جیسے وہ صرف دیکھنے کی غرض سے آئے تھے۔یہ جلوس دوالمیال میں احمدیت کو مٹانے،ہمارے خون کے پیاسے بن کر،احمدیہ دارالذکر پر زبردستی قبضہ کرنےکا منصوبہ بنا کر حملہ آور ہوئے تھے۔اسی حملہ کے دوران جب انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف نا زیبا کلمات اور گندی زبان استعمال کرنی شروع کی اور احمدیت اور بانی احمدیت کے خلاف نعرہ بازی کی تو مکرم ملک خالد جاوید صاحب جو ایک شیدائی احمدی تھے ان سے برداشت نہ ہوا اور آپ کو دل کا دورہ پڑا اور راہِ حق میں اپنی جان قربان کر کے اطاعت، فرمانبرداری اور ایفائے عہد کا ثبوت پیش کیا۔آپ دوالمیال کے دوسرے اور ضلع چکوال کے چوتھے شہیدِ احمدیت بن گئے۔
سوا صدی پر پھیلی جماعتِ احمدیہ کی تاریخ اپنے آغاز سے ہی قربانیوں کی روشن مثالوں سے عبارت ہے اور ضلع چکوال کو بھی چوتھی شہادت ملک خالد جاوید کی طرف سے پیش کرنے کی سعادت ملی۔ملک خالد جاوید صاحب کو سکون و قرار صرف اور صرف احمدیہ دارالذکر میں حاضری دے کر،صبح و مساء خدمت کر کے،اس کی صفائی کر کے،اور پانچوں وقت نماز با جماعت ادا کر کے ملتا تھا۔اس کی بجلی کی تنصیبات کی خرابی دور کرنا انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہواتھا۔ ملک خالد جاوید صاحب کہا کرتے تھے کہ خدمت میں عظمت ہے۔اور احمدیہ دارالذکر کی صفائی اور خدمت کر کے مجھے اصل لذت محسوس ہوتی ہے۔جس وقت احمدیہ دارالذکر دوالمیال کے مینار کی تزئینِ نو ہو رہی تھی اس پر سنگِ مرمر کی ٹائلیں لگائی جا رہی تھیں تو اس وقت ملک خالد جاوید صاحب نے اپنے آپ کو مسجد کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔اور فرمایا کرتے تھے کہ سکونِ قلب اور من کی راحت مجھے اسی خدمت کی بدولت ہے۔۱۲ دسمبر۲۰۱۶ء کو بھی احمدیہ دارالذکر میں سب سے پہلے پہنچنے والے مکرم ملک خالد جاوید صاحب تھے۔نہایت ہشاش بشاش تھےاور کہنے لگے کہ آج دیر کیوں کرنی تھی آج تو ہماری آزمائش کا دن ہے،ہمیں ان خدام اور اطفال کو سنبھالنا ہے ان کی ڈھارس بندھانی ہے ان کے جذبوں کو نئی روح پھونکنی ہے اوران کے لیے ہمیں نمونہ بننا ہے۔احمدیت کے شیدائی بن کر وہاں رہے۔ جب ان ظالموں نے حملہ کیا تو اس وقت آپ امیر صاحب ضلع کے دفتر میں موجود تھے۔ان ظالموںکو بھاگ کر آتے دیکھتے رہے۔جب ان ظالموں نے احمدیت اور بانی احمدیت کے خلاف بکواس،نازیبا الفاظ اورگند بکنا شروع کیا، احمدیہ دارالذکر کے بڑے دروازے کو توڑنا شروع کیا، یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ جب یہ حملہ ہو رہا تھا میں نے کسی ناصر، خادم یا طفل کو سہما ہوا یا ڈرا ہوا نہیں دیکھا بلکہ ہر ایک مستعدی سے،ہر قسم کے حالات سے نبردآزما ہونے کو تیار تھا اور بڑے صبر، حوصلہ اور اضطرار سے تمام احباب دعائیں کر رہے تھے اور ان کی رقت بھری دعائیں عرش سے ٹکرا رہی تھیں۔اللہ تعالیٰ کی نصرت اس وقت بھی ہمارے ساتھ تھی اور دلوں کو سکون بخش رہی تھی۔اس وقت ہم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے رحم و کرم پر تھے جبکہ کوئی دنیاوی اور بیرونی امداد ہمیں میسر نہ تھی۔ ایسی صورتِ حال میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی نے ہم پر کرم کیا اور ہماری جانیں بچانے میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔یہ قیامت خیز گھڑی تھی لیکن حضرت مسیح موعودؑ کی پیاری جماعت نے اس موقع پر بے مثل صبر و تحمل،عزم و حوصلے اورایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا۔
ایسی صورتِ حال دیکھ کر مکرم ملک خالد جاوید صاحب سے برداشت نہ ہوا اور کہنے لگے کہ ان کی بکواس میری برداشت سے باہر ہیں۔ہم تمام احمدیہ دارالذکر کے صحن میں تھے اور خالد جاوید صاحب کمرے میں تھے۔کرنل محمد فاروق ملک صاحب جو اس وقت ہمارے سیکیورٹی انچارج تھے کسی کام کی وجہ سے اس کمرے میں گئے تواس وقت ان گندے نعروں کی آواز بہت زیادہ آرہی تھی اور کرنل صاحب نے دیکھا کہ غصہ سے وہ کانپ رہے تھے اور سینے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور ان کا رنگ بھی فق ہو رہا تھا۔کرنل صاحب باہر آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اندر جاؤ دیکھو خالد بھائی کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ سن کر جب میں اندر پہنچا تو اس وقت وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں تھے۔اس کے بعد ملک غلام احمد صاحب بھی وہاں آ گئے۔اور ہم دونوں نے خالد صاحب کو کرسی سے اٹھا کر چارپائی پر لٹا دیا۔ باہر ہزاروں لوگ ہمارے خون کے پیاسے احمدیہ دارالذکر کے گیٹ کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔اور منہ سے لگا تار گند بک رہے تھے۔ اس بڑے گیٹ کو اندر سے احمدی احباب نے دبایا ہوا تھا۔پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی الگ کھڑی تھی جیسے وہ آئے ہی تماشا دیکھنے کے لیے تھے۔حالانکہ ایک ہفتہ پہلے مکرم کرنل محمد فاروق ملک صاحب نے ایک درخواست ڈی سی اور ڈی پی او چکوال کو خود مل کر دوالمیال میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالہ سے دی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ۱۲ دسمبر دوالمیال میں حالات خراب ہو کر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن سکتا ہے اس لیے اس دن ہماری احمدیہ دارالذکر اورہماری جان و مال کی ہر حالت میں حفاظت کی جائے۔ ڈی پی او نے بڑے بڑھ چڑھ کر یقین دہانی کروائی لیکن آج وہ سب ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے اور ظالم اپنی کارروائیاں کیے جا رہے تھے۔
اب خالد صاحب کی حالت بہت خراب ہو گئی اس وقت ان کو طبی امداد کے لیے کسی ہسپتال میں بھی نہیں پہنچایا جا سکتا تھا اور اسی کشمکش میں ان کی حرکتِ قلب بند ہو گئی اور آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی،جس کی اطلاح محترم امیر صاحب اور محترم کرنل صاحب کو دے دی گئی۔اور پھر حالات ایسے خراب ہوئے اور ان ظالموں اور علاقہ بھر سے منگوائے ہوئے غنڈوں نے احمدیہ دارالذکر پر آتشیں اسلحہ سے فائرنگ شروع کر دی اور پتھراؤ کرنا بھی شروع کر دیا۔ہم نے قلیل ہونے کے باوجود اپنے حوصلوں اور جذبوں کو قائم رکھا اور گیٹ کو توڑنے نہیں دیا۔اور اس یلغار کو تقریباََ پانچ گھنٹے روکے رکھا۔اس کے بعد انتظامیہ نے جس میں اے سی، ڈی سی، ڈی پی او شامل تھے ہمیں کہا کہ باہر ہجوم بہت زیادہ ہے ان کو ہم ا پنے وسائل کو بروئے کار لا کر روکنے سے قاصر ہیں اس لیے ہم آپ سے requestکرتے ہیں کہ ہم آپ کی احمدیہ دارالذکر کا دفاع اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور آپ تمام اس احمدیہ دارالذکر کو خالی کر دیں۔مرکز سے رابطہ کرنے پر اجازت ملنے پر ہم نے نمدیدہ آنکھوں سے احمدیہ دارالذکر کو انتظامیہ کے سپرد کر کے تمام احباب چھت کے راستے سے ساتھ والےاحمدی گھروں کپتان لعل خان،اور حوالدار جہانگیر کے گھروں میں چلے گئے۔اور خالد جاوید صاحب کی میت احمدیہ دارالذکر میں ہی رہنے دی انتظامیہ نے ہمیں ساتھ نہ لانے دی اور اسے اپنی ذمہ واری پر وہاں ہی رہنے دیا۔رات دیر تک ہم ان گھروں میں رہے لیکن افسوس صد افسوس کہ انتظامیہ نے ان ظالموں اور غنڈوں کو ایسی کھلی چھٹی دی کہ وہ ان کے سامنے گیٹ توڑ کر احمدیہ دارالذکر میں داخل ہو گئے اور سامان کو لوٹنا، جلانا اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ظلم کی انتہا کہ قرآنِ مجید جو وہاں پڑے تھے نہ صرف ان کو پاؤں میں روندا بلکہ ان کو جلا بھی ڈالا،رات کو فوج کے آنے پر یہ طوفانِ بد تمیزی رکا اور سب تتر بتر ہو گئے۔رات کو محترم ملک خالد جاوید صاحب کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چوا ٓسیدن شاہ منتقل کیا گیا صبح پوسٹ مارٹم کے بعد آپ کی میت کو ربوہ لایا گیا اور ۱۳ دسمبر۲۰۱۶ء کو قطعہ شہداء میں تدفین ہوئی۔
تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب تقریباََ آٹھ ہزارمخالفین نے باہر سے احمدیہ دارالذکر کو گھیرا ہواتھا اس وقت مکرم ڈاکٹر جنرل نوری صاحب کا ٹیلیفون حالات معلوم کرنے کے لیے آیا تو انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا گیا اور انہیں بھی کافی تشویش ہوئی، فرمایا کہ میں دعا بھی کرتا ہوں اورکچھ اور بھی۔ اس کے بعد راولپنڈی سے بریگیڈیر رانا صاحب کا بھی حالات معلوم کرنے کے لیے فون آیا،ان کو جب حالات بتائے تو آپ نے کہا میں ابھی ان حالات کی اطلاع پنجاب کے متعلقہ حکام کو کرتا ہوں۔ تقریباََ دس منٹ کے بعد آپ نے بتایا کہ ہوم سیکریٹری پنجاب کو تمام حالات سے آگاہ کر دیا ہے اور اس نے ضلع کے حکام کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ مزید انہوں نے بتایا کہ میں نے کور کمانڈر کھاریاںکو بھی حالات کی سنگینی کا بتایا ہے، تو اس نے بتایا ہے کہ میں ایک بریگیڈیر کی زیرِ نگرانی فوجیوں کو حالات پر قابو پانے کے لیے بھیج رہا ہوں، اور رات کو فوج دوالمیال میں پہنچ گئی اور تمام حالات پرقابو پالیا۔ اگر فوج نہ آتی تو ان مخالفین نے احمدی گھروں کو لوٹنے اور جلانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔فوج کے آنے کی خبر ملتے ہی وہ سب گاؤں سے بھاگ گئے۔اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔
پیارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن میں مکرم ملک خالد جاوید ابن مکرم ملک ایوب احمد صاحب (دوالمیال) کا ذکرِ خیر نماز جنازہ غائب پڑھانے سے قبل مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا:
حضور نے فرمایا :’’نمازوں کے بعد مَیں ایک غائب جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ملک خالد جاوید صاحب ابن مکرم ملک ایوب احمد صاحب دوالمیال ضلع چکوال کا ہے۔ ملک خالد جاوید صاحب بعمر ۶۹سال مورخہ ۱۲ دسمبر ۲۰۱۶ء کو دارالذکر دوالمیال ضلع چکوال میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تفصیلات کے مطابق مورخہ ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۶ء (بارہ ربیع الاول) کو مخالفین نے دوالمیال ضلع چکوال میں بہت بڑا جلوس نکالا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنا مقررہ رُوٹ تبدیل کرتے ہوئے احمدیہ دارالذکر پر حملہ کیا۔ احمدیہ مسجد پر حملہ کیا اور مسجد کے باہر آ کر اشتعال انگیز نعرے بازی اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ نیز مسجد کے گیٹ کو توڑنا شروع کیا۔ دوسری طرف ہمارے لوگ بھی تھے ان میں یہ خالد صاحب بھی شامل تھے۔ مرحوم کی فیملی کے مطابق مرحوم کو قبل ازیں دل کی تکلیف کبھی نہیں تھی اور نہ کبھی دل کی کوئی دوا لیتے تھے اور نہ ہی کبھی زیر علاج رہے۔ وفات سے قبل یہ مسجد کے اندر تھے اور جب یہ مخالفین حملہ کر رہے تھے تو یہ ایک ہی بات مسلسل دہرا رہے تھے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف اس قدر گندی اور ناپاک زبان برداشت نہیں کر سکتا۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی وہ بیہوش ہو گئے۔ باہر ہزاروں کی تعداد میں موجود مشتعل ہجوم اور کشیدہ حالات کی وجہ سے خالد جاوید صاحب کو طبی معائنہ کے لئے یا طبی امداد کے لئے لے جایا نہیں جا سکا۔ اس حالت میں مکرم خالد جاوید صاحب کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کی دادی مکرمہ مانو بی صاحبہ کے ذریعہ سے ہوا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی کرم داد صاحب کی بھانجی تھیں جو دوالمیال جماعت کے بانی احمدیوں میں سے تھے۔( پہلے امیر جماعت احمدیہ دوالمیال بھی تھے۔ناقل)
…مرحوم بفضلہ تعالیٰ پیدائشی احمدی تھے۔اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے،اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ خلافت سے والہانہ محبت اور اخلاص کا وصف نمایاں تھا۔پنجگانہ نماز کے علاوہ تہجد اور بلند آواز میں تلاوتِ قرآنِ کریم کرنے کے عادی تھے۔ایک بڑا لمبا عرصہ بیس سال یہ روزگار کے سلسلہ میں شارجہ میں مقیم رہے۔پھر گذشتہ بیس سال سے دوالمیال واپس آ گئے تھے اور ان کا اکثر وقت کئی سالوں سے مسجد میں ہی گزرتا تھا۔اس دوران جماعتی امور کی انجام دہی اور مسجد کی سیکیورٹی اور دیگر جماعتی معاملات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔قرآنِ مجید سے خاص عشق تھا۔اپنے ایک بیٹے سبحان ایوب صاحب کو بھی قرآن حفظ کروایا۔مرحوم اس وقت سیکرٹری تعلیم القرآن کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے تھےاور اس کے علاوہ بھی مختلف حیثیتوں سے ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ پسماندگان میں اہلیہ محترمہ عذرا بیگم صاحبہ (ایک سال بعد ان کی اہلیہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ناقل)کے علاوہ دو بیٹے، سلمان خالد جو یہاں یو کے میں رہتے ہیں اور حافظ سبحان ایوب اور دو بیٹیاں ندا مریم (اہلیہ سلیمان خالد)اور حرا مریم (اہلیہ تیمور احمد)۔یہ سوگوار چھوڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اوران کی اولاد میں بھی یہ نیکیاں جاری فرمائے۔آمین۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍جنوری ۲۰۱۷ء)