ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر ۱۲۴)
فرمایا:’’یہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچےاور کھانے کی خوراکیں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کئے ہیں کہ تا وہ تھک کر اور درماندہ ہو کر بھوک سے پیاس سے مر نہ جاوے اور اس کے قویٰ کے تحلیل ہونے کی تلافی مافات ہوتی جاوے۔پس یہ چیز یں اس حدتک جائز ہیں کہ انسان کو اس کی عباد ت اور حق اللہ اور حق العباد کے پورا کرنے میں مدد دیں۔ورنہ اس حد سے آگے نکل کر وہ حیوانوں کی طرح صرف پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد بنا کر مشرک بنا تی ہیں اور وہ اسلام کے خلاف ہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے؎
خوردن برائے زیستن وذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است
مگراب کروڑوں مسلمان ہیں کہ انہوں نے عمدہ عمدہ کھانے کھاناعمدہ عمدہ مکانات بنانااعلیٰ درجہ کے عہدوں پرہوناہی اسلام سمجھ رکھا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۴۸ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعر شیخ سعدی کا ہےجو کہ گلستان سعدی کے تیسرے باب میں ایک حکایت کے آخر میں آیا ہے۔ حکایت مع شعر ذیل میں درج ہے۔
حکایت :اردشیر بابکان کی سوانح حیات میں مذکور ہے کہ عرب کے ایک حکیم سے لوگوں نےپوچھا کہ ایک دن میں کس قدر کھانا کھانا چاہیے۔اس نے کہا کہ انتیس تولہ کی بقدر کافی ہوگا۔پوچھا گیا یہ مقدار کیا قو ت پہنچائے گی ؟اس نے جواب دیا یہ مقدار تجھے اٹھائے گی اور اگر اس سے زیادہ کھائے گا تو، تو اُسےاٹھائے پھرے گا۔یعنی یہ مقدا رتو تجھے کھڑا رکھے گی اور اگر اس سے بڑھائے گا تو، تُو اس کا بوجھ بردار ہوگا۔
خُوْرْدَنْ بَرَائے زِیْستَنْ وذِکْرْ کَرْدَنْ اَسْت
تُوْمُعْتَقِدْ کِہْ زِیْستَنْ اَزْبَہْرِخُوْرْدَنْ اَسْت
ترجمہ:کھانا تو جینے او ر یادِ خدا وندی کے لیے ہے۔ تو اس کا معتقد ہے کہ زندگی محض کھانے کے لیے ہے۔