اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو گی (قسط اول)
خطاب حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جلسہ سالانہ۱۹۴۴ء
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) حرم حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احمدی مستورات کی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف مواقع پر خطابات فرمائے۔ان میں سے ایک خطاب جو جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ء کے موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا احمدی خواتین کے استفادے کے لیے ہدیہ قارئین ہے۔
سچے مسلمان کی علامت
قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے (اور عقل خداداد کا بھی یہی فتویٰ ہے) کہ صحیح اور کامل اصلاح کے واسطے دو باتوں کی ضرورت ہے۔
(الف) درست ایمان اور (ب) درست اعمال۔ اس لیے قرآن شریف نےبار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ سچے مسلمانوں کی علامت یہ ہے کہ اٰمنوا وعملوا الصٰالحات یعنی نہ صرف ان کا ایمان صحیح ہوتا ہے بلکہ وہ نیک اور مناسب حال اعمال بھی بجا لاتے ہیں۔ پس جب تک یہ دو باتیں جمع نہ ہو ں کوئی شخص اصلاح یافتہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔
صحیح ایمان کی ضرورت
صحیح ایمان کی اس واسطے ضرورت ہے کہ( الف )ایمان اعمال کے لیے بطور بنیاد ہے۔ اگر ایمان حقیقی ہے۔ تو جیسا ایمان ہوگا لازماًویسے ہی اعمال ہوں گےاگر ایمان غلط یا ناقص ہے تو اعمال کبھی بھی صحیح اور کامل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اعمال ایمان سے پیدا ہوتے ہیں۔
(ب) صحیح اعمال کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے واسطے بھی ایمان ضروری ہے۔ کیونکہ اعمال کے واسطے ایمان کا وجود ایسا ہے جیسا کہ ایک باغ کے واسطے پانی کا وجود ہوتا ہے۔ جس طرح آبپاشی کے انتظام کے بغیر کوئی باغ زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اعمال کے درخت بھی ایمان کے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
پس ایمان نہ صرف اعمال کا منبع ہے۔ بلکہ ان کی زندگی کا سہارا بھی ہے۔ لہٰذا کوئی عملی اصلاح ایمان کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے قرآن شریف نے جہاں جہاں بھی نیک اعمال کا ذکر کیا ہے وہاں لازما ً اس سے پہلے سچے ایمان کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ اگر اعمال کی درستی چاہتے ہو تو پہلے اپنےایمانوں کو درست کرو۔ اور حق تو یہ ہے کہ اگر ایمان درست ہو جائے اور اس میں کسی قسم کی کمزوری باقی نہ رہے تو اعمال خود بخود درست ہوجاتے ہیں۔
گناہ سے نجات پانے کا ذریعہ
پس عملی زندگی میں اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ایمان کی اصلاح ہے۔ جب تک ایمان درست نہ ہو عملی اصلاح کی کوئی اور تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پہ خاص زور دیا ہے کہ گناہ سے نجات پانے کا ذریعہ صرف یقین کامل ہے۔ اور یقین ایمان ہی کادوسرا نام ہے۔ پس سب سے پہلے اور سب سے ضروری بات میں اپنی بہنوں سے یہی کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کو درست کریں کیونکہ دین و مذہب اور اخلاق اور روحانیت کی ساری عمارت اسی بنیاد پہ قائم ہوتی ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے خدا کو ایک مان لیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تسلیم کر لیا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امام الزماں یقین کر لیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ ایمان صرف مونہہ کا ایمان ہے۔ اور اس کے اندر زندگی کی روح نہیں ہے۔ تو ایسا ایمان ایک مردہ لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ اور اس صورت میں وہ کبھی بھی نیک اعمال کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
پس اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اور اپنے دلوں کو ٹٹولو کہ کیا تمہارا ایمان واقعی زندہ ایمان ہے۔
جب تم یہ کہتی ہو کہ خدا ہے۔ تو کیا تم واقعی خدا کو سچ مچ مانتی ہو۔ اور اس کی ہستی پر کم از کم ایسا ہی یقین رکھتی ہو۔ جیسا کہ تم اس بات پہ یقین رکھتی ہو۔ کہ مثلاً یہ سورج ہے اور یہ چاند ہے۔یہ زمین ہے اور یہ آسمان ہے۔ یہ ہمارا باپ ہے اور یہ ہماری ماں ہے اور تمہیں خدا کی قدرتوں کا کم از کم ایسا ہی یقین ہوتا ہے جیسا کہ دنیا کی طاقتوں پر مثلاً روپے اور دوائی پر اور عقل پر اور تدبیر پر وغیرہ وغیرہ۔
حقیقی ایمان
مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگوں کا ایمان محض رسمی ایمان ہوتا ہے۔ جس میں زندگی کی روح نہیں پائی جاتی۔ بہرحال سب سے بڑی اور سب سے مقدم ضرورت حقیقی ایمان پیدا کرنا ہے۔ ایسا ایمان جو یقین کامل تک پہنچا ہوا ہو۔ کیونکہ یہی وہ ایمان ہے جو اعمال کی کمزوریوں کو جلا کر خاک کر دیتا ہے اور گناہ سے نجات دلاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کیا خوب فرماتے ہیں:’’گناہوں سے پاک ہونے کے لیے اس وقت سے جو انسان پیدا ہوا ہے آج تک جو آخری دن ہیں صرف ایک ہی ذریعہ گناہ اور نافرمانی سے بچنے کا ثابت ہوا ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان یقینی دلائل اور چمکتے ہوئے نشانوں کے ذریعہ سے اس معرفت تک پہنچ جائے جو کہ درحقیقت خدا کو دکھا دیتی ہے اور کھل جاتا ہے کہ خدا کا غضب ایک کھا جانے والی آگ ہے۔ اور پھر تجلی حسن الٰہی کی ہو کر ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر یک کامل لذّت خدا میں ہے۔ یعنی جلالی اور جمالی طور پر پردے اٹھائے جاتے ہیں یہی ایک طریق ہے جس سے جذبات نفسانی رُکتے ہیں۔ اور جس سے چار ناچار ایک تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے… سوچو اور خوب سوچو کہ جہاں جہاں سزا پانے کا پورا یقین تمہیں حاصل ہے وہاں تم ہرگز اس یقین کے بر خلاف کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔ بھلا بتاؤ کیا تم آگ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو ؟کیا تم چلتی ہوئی ریل کے آگے لیٹ سکتے ہو؟ کیا تم پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اپنے تئیں گرا سکتے ہو؟کیا تم شیر کے منہ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو؟ تو اب بتلاؤ کہ ایسا تم کیوں کرتے ہو؟ اور کیوں ان تمام موذی چیزوں سے علیحدہ ہو جاتے ہو؟ مگر وہ گناہ کی باتیں جو ابھی میں نے لکھی ہیں ان سے تم علیحدہ نہیں ہوتے۔ اس کا کیا سبب ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں علم کا فرق ہے۔ یعنی خدا کے گناہوں میں اکثر انسانوں کا علم ناقص ہے۔ اور وہ گناہوں کو تو برا جانتے ہیں مگر شیر اور سانپ کی طرح نہیں سمجھتے …سو وہ پانی جس سے تم سیراب ہو جاؤ گے۔ اور گناہ کی سوزش اور جلن جاتی رہے گی وہ یقین ہے۔ آسمان کے نیچے گناہ سے پاک ہونے کے لیے بجز اس کے کوئی بھی حیلہ نہیں۔ ‘‘(ریویو آف ریلیجنز جلد اوّل جنوری۱۹۰۲ء)
٭…(جاری ہے)…٭