حق مہر کی اہمیت
طلاق کی صورت میں پیدا ہونے والے جھگڑوں کے ضمن میں حق مہر کی ادائیگی کے بارے میں حضور ایّدہ اللہ فرماتے ہیں :’’بعض عائلی جھگڑے ایسے آتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ نہ میں تمہیں چھوڑوں گا یا طلاق دوں گا اور نہ ہی تمہیں بساؤں گا۔ اگر قضاء میں یا عدالت میں مقدمات ہیں تو بلاوجہ مقدمہ کو لمبا لٹکایا جاتا ہے۔ ایسے حیلے اور بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ معاملہ لٹکتا چلا جائے۔ بعض کو اس لئے طلاق نہیں دی جاتی، پہلے میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں، کہ یہ خود خلع لے تاکہ حق مہر سے بچت ہو جائے، حق مہر ادا نہ کرنا پڑے۔ تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو تقویٰ سے دُور لے جانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اصلاح کرو، اگر تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش کے طلبگار ہو تو خود بھی رحم کا مظاہرہ کرو اور بیوی کو اس کا حق دے کرگھر میں بساؤ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے وسیع رحم سے حصہ لینا چاہتے ہو تو اپنے رحم کو بھی وسیع کرو۔‘‘
آپ مزید ارشاد فرماتے ہیں: ’’…میں نے ابھی طلاق کا ذکر کیا تھا کہ بعض مرد طلاق کے معاملات کو لٹکاتے ہیں اور لمبا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک تو جب شادی ہو جائے کچھ عرصہ مرد اور عورت اکٹھے بھی رہتے ہیں اور اولاد بھی بسا اوقات ہوجاتی ہے۔ پھرطلاق کی نوبت آتی ہے۔ اس کے حقوق تو واضح ہیں جو دینے ہیں اور مرد کے اوپر فرض ہیں، بچوں کے خرچ بھی ہیں۔ حق مہر وغیرہ بھی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں جب ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہوتی یا حق مہر مقرر نہیں ہوا ہوتا تب بھی عورت کے حقوق ادا کرو۔ سورۃ بقرہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ:لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (البقرۃ:237)تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورت کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ۔ صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال۔ یہ معروف کے مطابق کچھ متاع ہو۔ احسان کرنے والوں پر تو یہ فرض ہے۔
اس آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مرد کی طرف سے رشتہ نہ نبھانے کا سوال اٹھے، اس کی جو بھی وجوہات ہوں، مرد کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں کو ختم کرتے وقت عورت سے احسان کا سلوک کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کو ادائیگی کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو مرد کو حکم ہے کہ اس وسعت کا اظہار کرو۔ جس خدا نے وسعت دی ہے اگر اس کا اظہار نہیں کرو گے تو وہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ کشائش دی ہے اگر حق ادا نہیں کرو گے، احسان نہیں کرو گے تو وہ کشائش کو تنگی میں بدلنے پر بھی قادر ہے۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لینا ہے تو عورت سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے اپنے پر اُس وسعت کا اظہار کرو اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت اور وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لئے فرمایا کہ اگر غریب زیادہ دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی طاقت کے مطابق جو حق بھی ادا کر سکتا ہے کرے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیکی کرنے والے اور تقویٰ سے کام لینے والے ہو تو پھر تم پر فرض ہے کہ یہ احسان کرو۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۵؍مئی ۲۰۰۹ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۵؍جون۲۰۰۹ء)(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ۱۱۱۹تا۱۲۲)
٭…٭…٭