امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی و بیلجئم ستمبر 2018ء
… … … … … … … …
15؍ ستمبر 2018ء بروز ہفتہ
(حصّہ دوم۔آخری)
… … … … … … … …
میڈیا کے نمائندگان کے ساتھ پریس کانفرنس
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں پروگرام کے مطابق ایک پریس کانفرنس رکھی گئی تھی۔ اس میں مختلف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندگان موجود تھے۔
پاکستانی ٹی وی چینل نیوز ون اور ایرانی ٹی وی سحر کے نمائندہ نے سوال کیا کہ یورپ کے اندر Islamophobia جس رفتار سے بڑھ رہا ہے کیا اس حوالہ سے یورپ میں کوئی متحدہ حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ ہم تو اس پاکستان کو جانتے ہیں جس کی پہلی کیبینٹ میں سر ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ تھے۔ لیکن ابھی جو حالیہ دور میں صورتحال develop ہوئی ہے عاطف میاں کے حوالہ سے، تو اس سلسلہ میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں تک Islamophobia کا تعلق ہے تو جماعت احمدیہ ہر پلیٹ فارم پر یہی کہتی ہے کہ جو بھی انتہا پسند کر رہے ہیں، وہ غلط کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں چاہتی بلکہ اس سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ اس لئے ہر جگہ کوشش کرنی پڑتی ہے اور کوشش ہی ہے۔ اور پھر آپ کی جو مسجد ہے اور منبر ہے وہاں مولویوں اور ملّاؤں سے کہیں کہ تم لوگ کو شش کرو کہ جو تمہارے پاس آتے ہیں بجائے ان کو انتہا پسند بنانے کے ان کو اصل اسلام کی تعلیم دو اور ان کو بتاؤ کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمۃ للعالمین بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی رب العالمین ہے جو اللہ تعالیٰ سب جہانوں کا ربّ ہے، سب فرقوں کا رب ہے، سب مذہبوں کا رب ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سارے عالمین کے لئے رحمت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رحمت ہی پھیلی ، کافروں نے جب حملہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا۔ خود سے کوئی جنگ نہیں کی۔ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں، نہ خلفائے راشدین کے زمانے میں ایسی کوئی جنگ تھی جو خود شروع کی گئی ہو۔ دشمنوں نے مجبور کیا تو جنگ ہوئی۔
باقی جہاں تک آپ کا سوال ہے یا آپ کا مطلب ہے کہ ہم مدد کرنے کے لئے تیار ہیں تو ہم ہر جگہ ہی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ کے لیڈر اور آپ کے مُلاں اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں کہ ہم بحیثیت مسلمان ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اس انتہا پسندی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔
دوسرا آپ کا سوال عاطف میاں اور ظفر اللہ خان صاحب کا ، تو عمران خان صاحب نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں وہ پاکستان بنانا چاہتا ہوں اور اس میں وہ حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں جو مدینہ کی حکومت تھی تو مدینہ کا میثاق کیا تھا؟ اس میں تو یہودی بھی شامل تھے۔ دوسرے مذاہب بھی شامل تھے۔ یہودیوں کو ان کی شریعت کے مطابق deal کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کو قرآن کریم کے مطابق۔ سب اکٹھے رہتے تھے۔ جب تک کہ دوسرے مذہبوں کی طرف سے بغاوت نہیں ہو گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ایک سے اچھا سلوک کیا اور اس کے بعد بھی اچھا سلوک کرتے رہے۔ تبھی تو مدینہ کے بہت سارے یہودی مسلمان بھی ہوئے۔ عمران خان صاحب نے نعرہ تو یہ لگایا لیکن جب عاطف میاں کا سوال آیا اور مُلاں کے پریشر کا سوال آیا تو ڈر گئے اور قائد اعظم کی جو vision تھی اس کے الٹ چلنا شروع کر دیا۔ لیکن کم از کم یہ بات ہے کہ ان کے کچھ وزیر ایسے جرأت والے ہیں جنہوں نے ٹی وی پر بھی اور سوشل میڈیا پر کھل کر یہ بات کی کہ ہم عاطف میاں کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر نہیں بنا رہے بلکہ ایک اقتصادی advisor ، ممبر بنا رہے ہیں۔ لیکن اس پر پیر صاحب نے ایک فتویٰ دے دیا کہ عاطف میاں کو ممبر بنانے کی وجہ سے عمران خان صاحب ان کی پارٹی کے سب ممبران، ان کی عاملہ اور وہ تمام لوگ جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ان سب کے نکاح ٹوٹ گئے۔ تو جب یہ سوچ بن جائے تو آپ خود ہی اندازہ کر لیں کیا ہو سکتا ہے۔
نمائندہ جنگ نیوز نے سوال کیا کہ آپ احمدیہ کمیونٹی کے مذہبی راہنما ہیں، دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت کے مذہبی راہنما بھی ہیں۔ ہمارے لئے یعنی عام آدمی کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس کی بات پر یقین کریں۔ جہاں مذہب آ جاتا ہے وہاں عمومًا آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔ اس حوالہ سے میں جاننا چاہوں گا کہ سوسائٹی کے اندر ایک مسلسل ٹینشن ہے۔ کیا آپ اس حوالہ سے پارلیمنٹ کا بنایا ہوا جو قانون ہے اس سے اختلاف کرتے ہیں یا آپ کے پاس اس کے لئے کوئی لائحہ عمل ہے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:بات یہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس کی اللہ اور اس کے رسول اجازت دیتے ہیں اور حکم دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث ہے کہ جو کہتا ہے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ وہ مسلمان ہے۔ جب کافروں سے جنگ ہوئی تو ایک صحابی نے مخالف کو قتل کر دیا اور قتل ہونے سے پہلے اس نے کہہ دیا لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھ لیاتھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟ اور اس کو اتنی دفعہ کہا، اتنا غصے اور افسوس کا اظہار کیا کہ صحابی نے کہا کہ میرے دل نے کہا کہ کاش آج سے پہلے میں مسلمان ہی نہ ہوتا۔ اگر تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے ہمارا دل چیر کر دیکھ لیا ہے کہ ہم لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ دل سے کہتے ہیں یا صرف زبان سے کہتے ہیں تو پھر ان کا مقام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی بڑھ کر ہو گیا۔ اُن کو تو دل کی خبر نہیں تھی، اِن کو دل کی خبر ہو گئی۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ہر اُس قانون کی ہم پابندی کرتے ہیں جو ہمیں مذہب سے نہیں روکتا۔ میں اگر کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو پارلیمنٹ لاکھ کہے کہ تم مسلمان نہیں ہو تو مَیں سختیاں برداشت کر لوں گا لیکن میں مسلمان ہوں۔ ہاں پاکستان کے باقی قوانین کا جہاں تک تعلق ہے تو آپ دیکھ لیں گے، ہمارے احمدی قانون کے پابند ہیں اور قانون کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ تو جہاں مذہب کا معاملہ آگیا اس مذہب کو میں مانتا ہوں اس کا کسی کو نقصان نہیں ہورہا۔ میں کسی کا مال نہیں لوٹ رہا، میں کہیں ڈاکہ نہیں ڈال رہا، میں حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کر رہا، میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوں اور نماز پڑھتا ہوں۔ اس پر آپ مجھے کہتے ہیں کہ نہیں تمہیں تین سال کی قید ہے تو ٹھیک ہے میں برداشت کرلوں گا۔ انہی باتوں کی وجہ سے میں خود بھی جیل میں رہا ہوں، آپ نے پاکستان کی جیل کا حال پوچھنا ہے تو وہ بھی بتا سکتا ہوں۔ یہ تو ظالمانہ قانون ہے جس کو دنیا کا کوئی بھی sensible آدمی نہیں مانتا۔ اور جناح نے جو پاکستان کا تصور پیش کیا تھا اس میں مذہب کی آزادی تھی، ہر ایک مذہبی لحاظ سے آزاد تھا۔ جناح کی نظر میں یہ مذہب کی آزادی ہی تھی جو انہوں نے ایک عیسائی کو چیف جسٹس بنایا، جج بنایا، کمانڈر ان چیف یا شائد ائیر فورس کا سربراہ بھی عیسائی تھا، پھر چوہدری سرظفر اللہ خان صاحب کو وزیر خارجہ بنایا۔ تو یہ ساری چیزیں اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت بنائی گئی تھی لیکن اسی طرح جس طرح مذہب کی آزادی کے ساتھ مدینہ کی حکومت بنی تھی۔
اگر آپ یہ کہیں کہ تم اپنے آپ کو اس لئے غیر مسلم کہہ دو کہ پارلیمنٹ کہتی ہے تو میں کیوں خود کو غیر مسلم کہہ دوں جبکہ میں اللہ اور اس کے رسول پر یقین کرتا ہوں۔ قرآن کریم میں بھی سورۃ النساء میں آیا ہے کہ ’جو تمہیں سلام کہتا ہے تم اسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو‘۔ تو یہ جب اللہ کے حکم سے ٹکرانے لگ جائیں اور رسول کے حکم سے ٹکرانے لگ جائیں تو پھر ہم نے وہاں سٹینڈ لینا ہے۔ ہاں باقی باتوں میں ہم قانون کے پابند ہیں اور دعوے سے کہتا ہوں کہ ہمارے جتنا کوئی بھی پابند نہیں۔ آپ آبادی کے لحاظ سے کسی بھی شہر کی ریشو نکال لیں اور وہاں انتظامیہ سے پوچھ لیں کہ احمدی زیادہ قانون کے پابند ہیں یا دوسرے لوگ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:دنیا میں انقلاب جو ہے وہ بھی اس وجہ سے ہے۔ مجھے گھانا کی پارلیمنٹ کے ایک دوست جو کہ احمدی ہیں کہنے لگے کہ ہماری آئی جی جیل خانہ کے ساتھ میٹنگ ہو رہی تھی۔ اور وہاں یہ سوال تھا کہ crime بڑھ رہا ہے۔ اور پھر یہ جائزہ لیا گیا کہ کس طبقے سے مجرم زیادہ ہیں تو پتا لگا کہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں احمدی ہوں اور میں تمہیں دعوے سے کہتا ہوں کہ احمدی مسلمان جرائم نہیں کرتے۔ تم اگلی میٹنگ میں جائزہ لے کر بتاؤ کہ مجرموں میں کوئی احمدی بھی شامل ہے۔ اگلی رپورٹ جب آئی تو پتہ چلا کہ باقی مسلمان تو ہیں لیکن کوئی بھی احمدی نہیں۔ انقلاب تو یہ ہے۔ اسلام کی صحیح تعلیم تو ہم پیش کر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ تم اپنا نام خالد نہ رکھو، تم یہ کہو کہ میں مسلمان نہیں ہوں، سلام نہ کہو۔ اگر کوئی عیسائی ‘السلام علیکم‘ کہے تو کوئی حرج نہیں اور احمدی کہہ دے تو تین سال کی قید ہے۔ یہ قانون ہے؟ یہ تومذاق ہے۔
ایک پاکستانی صحافی نے کہا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ میں ہر مظلوم کا ساتھی ہوں اور ہر ظالم کا مخالف ہوں۔ آپ کا جو نعرہ ہے کہ محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں تو اس میں تو سارے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ: بہت اچھی بات ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ مظلوم اور ظالم کی مدد کرو۔ اس پر صحابہ ؓ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کیسے کرسکتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اسکی ظلم روکنے میں مدد کرسکتے ہو۔ اور مظلوم کے لئے تو واضح ہے کہ آپ اس کی کیسے مدد کرسکتے ہیں ۔ تو محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں کا مطلب ہے جو ظالم ہیں، تم ان کے لئے دعا کرو کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچے رہیں۔ یہ تمام انسانیت کے لئے محبت ہے ۔ اور ان لوگوں کے لئے محبت جو مظلوم ہیں یا عاجز ہیں یا امن پسند ہیں کہ تم ان کے لئے دعا کرو کہ وہ ظالموں سے بچے رہیں۔ تو محبت سب کے لئے کا یہ مطلب ہے۔ ورنہ آپ صحیح کہتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی حدیث کے مطابق میں بھی صحیح کہتا ہوں۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’ ظالم کا ہاتھ روکو، اس کی مدد کرو، اس کے لئے دعا کرو۔ اگر تم ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، زبان سے نہیں روک سکتے تو اس کے لئے دعا کرو۔ یہ اس کے لئے مدد ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر ایک سے ایک جیسا پیار نہیں ہو سکتا۔ پیار کے معیار بدل جاتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ کے بیٹے نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو مجھ سے پیارہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔‘ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کو اللہ سے بھی پیار ہے؟ تو حضرت علی نے فرمایا کہ ’ہاں۔‘ پھر پوچھا کہ یہ دو پیار کس طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس پر حضرت علی نے کہا کہ جب اللہ کے پیارے کا معاملہ آئے گا تو تمہارا پیار پیچھے ہوجائے گا۔ تو اسی طرح ظالم سے اس وقت تک پیار ہے جب تک مظلوم سامنے نہ ہو۔ جب مظلوم سامنے آجائے گا تو اس سے پیار ہوگا اور ظالم سے ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اللہ کی پکڑ سے بچاؤ۔
… … … … … … …
یہ پریس کانفرنس سوا آٹھ بجے تک جاری رہی۔ آخر پر پریس کے ممبران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مارکی میں تشریف لاکر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
… … … … … … … …
16؍ ستمبر 2018ء بروز اتوار
(حصہ اوّل)
… … … … … … … …
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجے مارکی میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف نوعیت کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
جلسہ سالانہ بیلجئم کا اختتامی اجلاس
آج جماعت احمدیہ بیلجیم کے جلسہ سالانہ کا تیسرا اور آخری روز تھا۔ پروگرام کے مطابق تین بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ گاہ تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ کے اختتامی اجلاس کے لئے جونہی سٹیج پر تشریف لائے تو ساری جلسہ گاہ پر جوش نعروں سے گونج اٹھی اور احباب نے بڑے ولولہ کے ساتھ نعرے بلند کئے۔
پروگرام کے آغاز سے قبل دو مہمانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا ۔
سب سے پہلے ممبر یورپین پارلیمنٹ Mrs. Lieve Wicrinck نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ یورپین کمیٹی برائے انڈسٹری، ریسرچ اینڈ انرجی کی ممبر بھی ہیں۔
موصوفہ نے کہا: مجھے بہت خوشی ہے کہ آج آپ کے پروگرام میں شمولیت کا موقع ملا ہے۔ میں نے آپ کی جماعت سے متعلق اپنی پارٹی کے ممبران سے سُن رکھا تھا۔ آپ کی طرف سے دعوت ملنے کے بعد میں نے مزید ریسرچ کی۔ آپ کی جماعت کو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ اپنی انسانیت کے لئے محبت، خدمتِ خلق کے کاموں اور امن کے پیغام کے لئے جانے جاتے ہیں۔
آپ کی جماعت بیلجیم میں Integration میں بھی مثالی ہے اور نئے سال کے آغاز پر وقار عمل کے ذریعہ صفائی کر کے ایک منفرد پراجیکٹ کرتی ہے۔
میں بحیثیت یورپین پارلیمنٹ ممبر امن کی کوششوں میں مصروف ہوں۔ ہم نے یورپ میں دو بڑی جنگیں دیکھی ہیں مگر اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی اور جنگ ہمیں نہ دیکھنی پڑے۔
آپ کا پیغام اتنا مثالی ہے کہ اگر دنیا کی بڑی طاقتیں اس پر عمل کریں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ آخر پر دوبارہ آپ کا اور آپ کی جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں اور امید رکھتی ہوں کہ ہم امن کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
بعد ازاں برسلز Brusselsکے پولیس کمشنر ، چیف پولیس آفیسر Chistane De Konick نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا۔
سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی۔ جس کی مجھے بڑی خوشی ہے۔
جب 22مارچ 2016ءکو Maalbeek کے میٹرو اسٹیشن پر حملہ ہوا تھا تو میں اس وقت وہاں انچارج تھا۔ میں نے وہ دیکھا جو میں کبھی بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی دیکھے۔ لوگوں نے میرے پاؤں میں آکر دم توڑا۔ مجھے مسلمانوں پر شدید غصّہ تھا کہ کوئی انسان مذہب کے نام پر کیسے دوسرے انسانوں کا قتل کر سکتا ہے۔ مگر آپ کی جماعت کو جان کر آپ لوگوں سے مل کر اور آج آپ کے جلسہ میں شامل ہو کر میرا مسلمانوں کے متعلق نظریہ بدل گیا ہے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے دوبارہ امن کی راہ دکھائی ہے۔ آپ کے ماٹو ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ نے میرے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ آپ کے جلسہ میں مجھے ایک مختلف اسلام دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک ایسا اسلام جو امن پسند ہے۔ اس سے مجھے بہت اطمینان حاصل ہوا۔
بعد ازاں تین بجکر چالیس منٹ پر جلسہ کے اختتامی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم محمد مظہر صاحب مبلغ سلسلہ بیلجیم نے کی اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔
اس کے بعد احتشام ہاشمی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منظوم کلام ؎
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے۔
بعد ازاں مکرم وؤنی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصیدہ
یَا عَیْنَ فَیْضِ اللہ وَالْعِرْفَانِ
یَسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْقُ کَالظَّمْاٰنِ
میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کئے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے اور اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے طلباء کو سندات اور میڈلز عطا فرمائے۔
حضور انور کے دست مبارک سے درج ذیل خوش نصیب طلباء نے تعلیمی ایوارڈز حاصل کئے۔
جلسہ سالانہ بیلجئم سے
حضورانور کا اختتامی خطاب
تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہم پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس زمانے میں جبکہ دنیا میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرف جائیں، کس کو اپنا رہنما بنائیں، کیا کریں جن سے مشکلات دور ہوں؟ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہماری رہنمائی کے لئے، پوشیدہ راستہ دکھانے کے لئے، خداتعالیٰ سے ملانے کے لئے، مخلوق کے حق ادا کرنے کے لئے اپنے جس فرستادے کو بھیجا اسے قبول کریں۔ پس اس قبولیت کا حق تبھی ادا ہو گا جب ہم اس رہنما سے رہنمائی حاصل کریں اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں ورنہ اس قبولیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے اپنی خودغرضیوں کی وجہ سے خود اپنے لئے مشکلات اور مصائب سہیڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی آفات کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں طوفانوں نے انسانوں کی بربادی کے سامان کئے ہوئے ہیں تو کہیں قحط سالی نے انسانوں کو مصائب اور مشکلات میں گرفتار کیا ہو اہے۔ جن سامانوں پر انسان کو بھروسہ تھا وہ تباہ ہو رہے ہیں۔ پس ایسے میں ایک مؤمن کو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے کو بھیجا ہے جنہوں نے مختلف طریقوں سے، مختلف ذریعوں سے، مختلف الفاظ میں مختلف باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ رہنمائی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مشتمل ہے اگر ہم اس پر عمل کرنے والے ہوںتو یہ ہمیں ہر قسم کی آفات سے بچانے اور ہماری زندگی کے سامان کرنے کے لئے ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری رہنے والا ہے اور بہترین نتائج پیدا کرنے والاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس وقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جو آپ نے مختلف مواقع پر اپنی جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمائے اور جماعت سے یہ توقع رکھی کہ وہ ان ارشادات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والی ہو اور ان میں بڑے درد سے جماعت کو عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تا وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوںکو حاصل کرنے والے بنے رہیں اور مصائب اور ابتلاؤں سے بچیں، ان مشکلات اور مصائب سے بچیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے آتی ہیں، حقیقی احمدی ہوں اور بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں، تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے متبعین میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے کتنا درد رکھتے تھے تا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچائیں اور سچا مومن بنائیں اس بات کا اندازہ آپ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک مجلس میں فرمایا:
’’کل یعنی 22؍جون 1899ء بہت دفعہ خدا کی طرف الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوںپر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا۔‘‘ فرمایا ’’ اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے۔‘‘ پھر فرمایا کہ’’ میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے، خدا تعالیٰ کی نصرت اس کے شاملِ حال نہیں ہو سکتی۔‘‘ فرمایا ’’تقویٰ خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت اور انجیل کی تعلیمات کا۔ قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار فرما دیا ہے۔‘‘ فرمایا ’’ میں اس فکر میں بھی ہوں کہ اپنی جماعت میں سے سچے متقیوں، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ کو الگ کروں اور بعض دینی کام انہیں سپرد کروں اور پھر میں دنیا کے ہم و غم میں مبتلا رہنے والوں اور رات دن مردار دنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ بھی پروا نہ کروں۔‘‘
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعدد حوالہ جات پیش کئے جن میں متقی کی علامات، بیعت کے تقاضوں، قول اور فعل میں مطابقت رکھنے، اخلاقی ترقی کے طریق، حکومت ِ وقت کی اطاعت اور اس کے مقرر کردہ قوانین کی پابندی کا بیان تھا۔
اس کے بعدحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس یہ بات یاد رکھیں کہ تقویٰ دلوں میں پیدا ہو۔ہم نے اپنے دلوں کو پاک کرنا ہے۔ دلوں کو پاک کر کے اپنے عملی نمونوں سے، اپنے ماحول کو اسلام کی خوبیوں کے بارے میں بتانا ہے، اپنے گھروں کے ماحول کو پاک صاف رکھنا ہے۔ اپنے اخلاق کو اعلیٰ کرنا ہے۔ ہر ایک کو اپنی ذات سے تکلیف پہنچانے کی بجائے سہولت اور آسانیاں پہنچانے کے سامان کرنے ہیں اور ہر شخص تک اسلام اور احمدیت کا حقیقی پیغام پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی منشا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں اورہم کبھی ان لوگوں میں شامل نہ ہوں یا ہماری طرف لوگ اس طرح اشارہ نہ کریں کہ احمدی ہو کر انہوں نے احمدیت کو بدنام کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو بدنام کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ پر چلنے والا بنائے رکھے اور ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوںکے لئے کی ہیں۔
٭ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاکروائی۔
دعاکے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ کی حاضری کااعلان کرتے ہوئے فرمایا:
ان کی ٹوٹل حاضری تین ہزار آٹھ سو اٹھہترہے اور 24 ملکوں کی یہاں نمائندگی ہے۔ ان ملکوں کی نمائندگی کی وجہ سے ان کی تعداد اتنی ہو گئی ہے۔ بیلجیئم کے لوگوں کی جو حاضری ہے وہ تقریباً سترہ سو پچھہتر ہے اور دو ہزار تین سو مہمان ہیں۔ چھوٹی جماعتوں میں یہی ہوتا ہے کہ مہمان مقامی لوگوں سے بڑھ جاتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سب حاضرین کو ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہیں اور خیریت سے آپ لوگوں کو اپنے گھروں میں لے کر جائے۔
(حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کے کسی آئندہ شمارہ کی زینت بنے گا۔ انشاءاللہ)
بعد ازاں پروگرام کے مطابق مختلف گروپس نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کئے۔
سب سے پہلے عرب احباب کے گروپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ یَا قلبی اذکراحمدا۔ عین الہدیٰ مفنی العدا ترنم کے ساتھ پیش کیا۔
اس کے بعد افریقن احباب پر مشتمل گروپ نے اپنے مخصوص انداز میں اپنا پروگرام پیش کیا اور کلمہ طیبہ کا ورد کیا۔
بعد ازاں بنگالی احباب پر مشتمل گروپ نے اپنا ترانہ پیش کیا۔ اور پھر اطفال پر مشتمل گروپ نے اپنا پروگرام پیش کیا۔
بعد ازاں واقفین نو پر مشتمل گروپ نے ’’لبیک یا امامنا لبیک سیدی‘‘ ترانہ پیش کیا۔
آخر پر خدام کے گروپ نے خلافت سے عہد و وفا کے حوالہ سے ایک نظم پیش کی اور اس کے بعد جامعہ احمدیہ یوکے میں تعلیم حاصل کرنے والے بیلجیم کے طلباء نے ترانہ پڑھا اور پھر اس پروگرام کا اختتام حضرت مصلح موعود ؓ کے نظم ’’ہے دست قبلہ نما لا الٰہ الا اللہ‘‘ سے کیا۔
جونہی یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا احباب جماعت نے بڑے ولولہ اور جوش کے ساتھ نعرے بلند کئے اور سارا ماحول نعروں کی صدا سے گونج اٹھا۔ یہ جلسہ کے اختتام کے الوداعی لمحات تھے اور دل عشق و محبت اور فدائیت کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کرکے احباب کو السلام علیکم کہا اور جلسہ گاہ سے باہر تشریف لے آئے۔
اس موقعہ پر مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب (فضل عمر ہسپتال ربوہ) نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مصافحہ کی سعادت حاصل کر لی۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت ڈاکٹر صاحب سے گفتگو فرمائی اور واپسی کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ بعد ازاں موصوف نے مشن ہاؤس آکر بھی شرف ملاقات پایا۔
…………………
جلسہ گاہ سے روانہ ہوکر چھ بجکر دس منٹ پر حضور انور کی مشن ہاؤس بیت السلام آمد ہوئی۔
فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق سات بجکر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج شام کے اس سیشن میں 22 فیملیز اور بارہ احباب نے انفرادی طور پر ملاقات کی سعادت پائی۔ مجموعی طور پر ملاقات کرنے والوں کی تعداد یکصد سے زائد تھی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت زیرتعلیم طلبا ء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو ازراہِ شفقت چاکلیٹ عطا فرمائیں۔ ہر ایک نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی ۔ آج ملاقات کرنے والوں میں بیلجئم کی آٹھ جماعتوں سے آنے والے احباب اور فیملیز کے علاوہ ملک فرنچ گیانا (French Guiana) سے ایک نومبائع خاتون Linda Dilaire صاحبہ نے بھی ملاقات کی سعادت پائی۔ موصوفہ نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:کسی بھی جلسہ سالانہ میں شمولیت کا یہ میرے لئے پہلا موقعہ تھا۔
یہاں لجنہ نے میرا بہت خیال رکھا جس کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے مجھے جلسہ میں تقاریر سننے کا موقعہ ملا۔ ان تقاریر نے میرے ایمان کو مضبوط کیا۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس جلسہ سے میری روحانیت میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ یہاں جلسہ کے ماحول اور لوگوں کے آپس میں میل ملاپ کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے یہ ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔
میرا ایک مقصد جلسہ میں شامل ہونے کا یہ بھی تھا کہ حضور انور کا دیدار کرتی اور مجھے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا۔ میں نے حضور انور کا دیدار کیا اور شرف ملاقات پایا۔ حضور انور کی اقتداء میں نمازیں ادا کیں۔ میں نے بہت کچھ پایا اور انشاء اللہ آئندہ بھی جلسہ میں شامل ہوں گی۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجکر چالیس منٹ تک جاری رہا بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔
تقریب آمین
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل 21 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔
عزیزان محمد طاہر، خواجہ ذیشان طارق، حمزہ بن سعد، افراز خان، طاہر احمد، فاتح خالق، مدبر احمد، سفیر احمد، دانیال احمد، ذیشان احمد، سلمان خلیل۔
عزیزات فریحہ قدوس، ہبہ عاطف، رمیہ نورم بارعہ تحسین، سبیکہ احمد، عیشا احمد، نایاب شکور، رخسار بشیر، درّمکنون، Taiwel احمد۔
تقریب آمین کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمازِ مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
……………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭