میرے پیارے دادا جان مرزا عبدالحق صاحب
دادا جان کی وفات کو 16 برس بیت چکے ہیں لیکن بہت ہی کم دن ایسے ہوں گے جس میں مَیں نے اپنے پیارے دادا جان کے متعلق نہ سوچا ہو۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا۔ ان کی نمازیں، ان کا کھانا پینا، لوگوں سے میل جول، قرآن سے عشق، احمدیت اور مسیح موعود سے عشق، ان کی وقت کی پابندی غرض کوئی نہ کوئی بات ان کے روز مرہ کے معمول کی ذہن میں گھوم جاتی ہے اور دل تو یہی چاہتا ہے کہ ان جیسی خصوصیات ہمارے اندر بھی پیدا ہوں۔( آمین ثم آمین)
جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہمارے پیارے دادا جان عصر کی نماز کے بعد ہمارے گھر تشریف لاتے اور مغرب کی نماز تک ہمارے ساتھ(مرزا سعید احمد بمعہ فیملی) وقت گزارتے تھے۔ دادا جان کے گھر آتے ہی ہم سارے بچے ان کے اردگرد اکٹھے ہوجاتے اور اونچی آواز میں سلام کرتے اور حال پوچھتے۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت ہی خوش ہوتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہم بچے گھر میں ہوں اور دادا جان کے پاس نہ بیٹھنے کا بہانہ کیا ہو حتّٰی کہ سالانہ امتحانات میں بھی دادا جان کے پاس ضرور بیٹھتے تھے۔ آج سوچتی ہوں تو اس میں سارا کمال ہمارے والدین خاص طور پر میری والدہ مرحومہ کا تھا جنہوں نے اپنے بزرگوں کی اہمیت اور عزت ہمیشہ مقدم رکھوائی۔
آپ کے اندر غرور اور تکبر نا م کو نہ تھا۔ بلکہ عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر بار بار پڑھتے تھے۔
میں تو مر کر خاک ہوتا، گر نہ ہوتا تیرا لطف
پھر خُدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار
اسی طرح آپ میر تقی میر کے یہ اشعار بھی بارہا دہراتے تھے:
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسروہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا
آپ اپنے بچپن کی بہت سی باتوں کا ذکر کرتے تھے چونکہ آپ کے والدین آپ کے ہوش میں آنے سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی نے ہی آپ کی کفالت کی۔ انہوں نے اپنے بچوں کی طرح آپ کا خیال رکھا۔ اگر کبھی بھابھی جان نے ذرا سی بھی تفریق کرنے کی کوشش کی تو فوراً بھائی جان نے اس کا ازالہ کیا۔آپ سناتے تھے کہ میرے سکول اور گھر کے درمیان ایک مٹھائی کی دکان تھی اور آپ (بھائی جان)نے اس مٹھائی والے کو کہہ دیا تھا کہ جتنی چاہے مٹھائی عبدالحق لے لے اس کو دے دینا اور آپ روز ہی کچھ نہ کچھ مٹھائی لے کر جاتے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ جہاں میں اپنے والدین کے لیے دعا کرتا ہوں وہیں پر اپنے بھائی جان کے لیے والدین کے درجات کے مطابق دعا کرتا ہوں۔
آپ کی قوت ارادی کمال کی تھی۔ جس چیز کا ارادہ کر لیتے تو پھر اس پر ہمیشہ کاربند رہتے تھے۔ آپ سناتے تھے کہ مجھے سینما کا بے حد شوق تھا مگر آپ جب B.Aمیں تھے تو ارادہ کیا کہ اب کبھی بھی سینما نہیں دیکھوں گا تو جس سڑک پر سینما تھا اس سڑک پر جانا چھوڑ دیا۔ اسی طرح ارادہ کیا کہ غیر عورت کو جان بوجھ کر نہیں دیکھوں گا اور جس کسی رسالے میں عورتوں کی تصویریں ہوتیں تو وہ صفحے ہی پھاڑ دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ میں نے بھرپور جوانی میں تقویٰ سے کام لیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے انتہائی خوبصورت دو بیویاں عطا کیں۔
سنہ 1925ء، 1926ء میں آپ نے گورداسپور میں LAW PRACTICEشروع کی اور آپ نے ہر WEEKENDقادیان گزارنے کا تہیہ کیااور اس پر ایسے کاربند رہے کہ 1947ء تک شاذ ہی دو یا تین دفعہ اس میں ناغہ آیا ہو کہ آپ اپنے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی صحبت میں قادیان تشریف نہ لے گئے ہوں۔ آپ نے خلیفة المسیح کی محبت میں اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھال لیا تھا۔ اپنی ظاہری حالت بھی خلیفة المسیح جیسی کر لی تھی۔ جس طرح کے کپڑے حضور اقدس پہنتے تھے آپ نے بھی پہننے شروع کر دیے اور چھوٹی عمر سے ہی پگڑی کا استعمال بھی شروع کر دیا تھا۔ حتّٰی کہ اپنے بچوں کے زیادہ تر نام بھی خلیفة المسیح کے بچوں کے ناموں پر رکھے تھے۔
آپ کی صحت قابل رشک تھی۔ آپ کی خوراک تھوڑی ہوتی تھی مگر organicہوتی تھی۔ اپنے fitرہنے کے لیے آخری چند سال کے علاوہ آپ کو ہمیشہ بہت زیادہ brisk walkکرتے ہوئے دیکھا۔ آپ 71، 72 سال کی عمر تک LAWN TENNISکھیلنے کے لیے OFFICERS CLUB SARGODHAجاتے تھے۔ جب آپ کی آنکھ میں موتیا اترا تو تب آپ نے یہ کھیل چھوڑی۔
LAWN TENNISکے ضمن میں ایک بہت مزیدار واقعہ ایک غیر احمدی آفیسر نے ہمارے تایا جان (مرزا نثار احمد) کو سنایا کہ سنہ 70ء کے آس پاس غیر احمدی آفیسر (X.EN)خوشاب کی طرف سے کھیلنے کے لیے سرگودھا آفیسرز کلب میں آئے۔ اس نے مرزا صاحب کو دیکھا تو اس نے دل میں سوچا کہ ان کو تو میں بہت آسانی سے ہرا سکتا ہوں(کیوں کہ دادا جان دبلے پتلے اور چھوٹے قد کے مالک تھے) مگر جب اس نے کھیلنا شروع کیا تو وہ گیم بہت ہی بُری طرح ہارا۔ اور بعد میں اس آفیسر نے یہ واقعہ بہت سوں کومحظوظ ہو کر سنایا۔
ایک واقعہ دادا جان سناتے تھے جو کہ بظاہر ناممکن بات لگتی ہے مگر بالکل سچ ہے۔ 80ء کی دہائی میں آپ امریکہ اپنے بہت ہی پیارے دوست میاں عطاء اللہ (جالندھری) کے بیٹے میاں ڈاکٹر طاہر احمد کی خواہش پر تشریف لے گئے وہاں پر آپ کی آنتوںمیں سوزش ہوئی تو ایک چھوٹا سا آپریشن آپ کا کیا گیا اور چند دن آپ کو ہسپتال میں بھی رہنا پڑا۔ آپریشن کے بعد ڈاکٹرز نے ڈاکٹر میاں طاہر صاحب کو بہت ہی حیران ہو کر بتایا کہ آپ کا (مرزا صاحب) معدہ اس طرح صاف ہے جیسے کہ ایک سال کے بچے کا معدہ صاف ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ میاں ڈاکٹر طاہر صاحب نے یہی بتائی کہ انہوں نے ہمیشہ کھانوں کے اوقات FIXرکھے اور غیر ضروری چیزوں سے پرہیز کیا اور ہمیشہ تھوڑا اور بہت عمدہ کھایا۔
آپ اپنے تمام GRAND CHILDRENسے بہت ہی پیار کرتے تھے۔ میں چونکہ آپ کی سب سے چھوٹی پوتی تھی اس لیے مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھ سے بہت ہی پیار کرتے تھے۔ میں بچپن میں آپ کو ’’اَتا‘‘کہتی تھی۔اور یہ بات آپ نے آخری وقت تک یاد رکھی ہوئی تھی اور مجھے یاد دلا کر خوب چھیڑتے تھے۔
بچپن میں چونکہ میری زبان کافی توتلی تھی اس لیے بچپن کے کافی الفاظ اور جملے دادا جان بار بار دہرا کر چھیڑتے تھے اور بہت محظوظ ہوتے تھے۔
ایک دفعہ کسی جگہ پر میرے کچھ پیسے پھنسے ہوئے تھے میں نے دادا جان کو دعا کے لیے کہا تو آپ نے کہا کہ میں دعا کروں گا مگر آپ نے ساتھ ہی یہ جملہ بولا کہ ’’دو رکعت نماز کی اہمیت اس دوجہاں سے بھی زیادہ ہے چاہے کروڑوں روپے کا نقصان ہوجائے مگر دو رکعت نماز ضائع نہیں ہونی چاہیے۔‘‘یہ جملہ میرے دل و دماغ میں پتھر پر لکیر ہوچکا ہے۔ جب کبھی نماز میں سستی غالب ہوتی ہے تو یہ جملہ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر ابھرتا ہے۔
وقت کے ایسے پابند تھے کہ سناتے تھے کہ دفتر میں لوگ آپ کے آنے سے گھڑیوں کا وقت درست کر لیتے تھے۔ اسی طرح جب آپ جمعہ پڑھانے سرگودھا کی بڑی مسجد تشریف لے جاتے تو گھر سے نکلنے کا وقت 1 بجے مقرر تھا۔ جس کسی نے بھی آپ کی گاڑی میں جانے کی BOOKINGکروائی ہوتی تھی تو وہ بندہ (جس میں آپ کے اپنے خاندان کے افراد ہی شامل تھے) ایک منٹ بھی LATEنہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ دادا جان پورے ایک بجے جمعہ کے لیے روانہ ہوجاتے تھے۔
جب آپ 1948ء میں گورداسپور سے سرگودھا 6۔اولڈ سول لائنز SHIFTہوئے تو آپ کو ایک ہندو راجا کہ حویلی ملحقہ 35/30کنال زمین الاٹ ہوئی۔ یہ حویلی مکمل طور پر سازو سامان سے بھری ہوئی تھی مگر دادا جان نے اس میں موجود سامان حکومت وقت کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ صرف حویلی الاٹ ہوئی ہے اس کا سامان نہیں۔
جب آپ سرگودھا 6۔ اولڈ سول لائنز SHIFTہوئے تو اس کے 5، 6 ماہ بعد اچانک حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سرگودھا تشریف لائے اور دوپہر کا کھانا دادا جان کے ہمراہ زمین پر بیٹھ کر کھایا۔اور باتوں باتوں میں نواب ملک خضر حیات ٹوانہ (گورنر پنجاب) کی کوٹھی کا ذکر ہوا جو کہ بالکل پاس تھی اور تمام علاقہ اس کے نام پر پہچانا جاتا تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا (خلاصہ یہ ہے) کہ ایک دن نواب ملک خضر حیات ٹوانہ کا نام و نشان بھی نہ ہوگا اور یہ علاقہ مرزا صاحب (مرزا عبدالحق) کے نام سے پہچانا جائے گا۔
دادا جان سناتے تھے کہ جب میں 40 سال کا ہوا تو مجھے یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ بڑھاپے میں میری آمدن کا کیا ذریعہ ہوگا(کیوں کہ آپ نے ساری عمر کوئی SAVINGنہیں کی) آپ نے خدا تعالیٰ سے اتنی دعا کی کہ آپ کہتے تھے کہ دیکھو آج میری عمر 100 سال سے اوپر ہوگئی ہے۔ مگر آج تک میں نے اپنے ایک بھی بچے سے ایک پیسہ تک نہیں مانگا۔ بلکہ ضرورت پڑنے پر میں نے ہی اُن کی مدد کی ہے۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ہی غیب سے آپ پر رزق کے دروازے کھولے ہوئے تھے۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ متقی ہوتے ہیں ان کا رعب لوگوں کے دلوں پرطاری کر دیتا ہے۔یہی حال دادا جان کا تھا کہ بظاہر آپ روکتے ٹوکتے نہ تھے مگر آپ کی شخصیت اس قدر رعب دار تھی کہ میں نےآخری عمر تک ان کے اپنے بچوں کو آپ سے نظر ملا کر بات کرتے نہیں دیکھا بلکہ نظریں جھکا ئے جی ابا جان، جی ابا جان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ یہی حال آپ کے ملنے والوں کا بھی تھا کہ آپ سے بحث و مباحثہ تو بہت دور کی بات اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو خارق عادت طویل عمر سے نوازا اور اس طویل عمری میں آپ نے زندگی کے بے شمار نشیب و فراز دیکھے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کوجدا ہوتے ہوئے دیکھا مگر خدا گواہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی دنیا کے غموں کو دل سے نہ لگایا اور ہر دن بھرپور طریقے سے گزارا۔ ہمیشہ ہی ہشاش بشاش اور مسکراتے ہوئے ملتے۔
آپ بہت دفعہ یہ بات کرتے کہ’’دیکھوجہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں آج سے 100سال پہلے یہاں کون ہوگا تمہیں نہیں پتا… اور 100سال بعد اس جگہ پر کون ہوگا ہمیں اس کا علم نہیں کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوگا…‘‘
اسی طرح آپ ذکر کرتے تھے کہ جوانی کے ایام میں مَیں بہت دفعہ شملہ کے قبرستان میں جا کر وقت گزارتا تھا اور مختلف قبروں کو پڑھتا تھاتاکہ دنیا کی بے ثباتی نہ بھولنے پائے۔
بچپن میں بہت سے بچگانہ سوال دادا جان سے پوچھتے اور آپ ہمیشہ ہر سوال کا جواب بہت محبت اور توجہ سے دیتے۔ جیسے ایک سوال یہ ہوتا تھا کہ دادا جان آپ گھنٹہ گھنٹہ تہجد کیسے پڑھ لیتے ہیں تو آپ ہنستے ہوئے جواب دیتے کہ بیٹا گھنٹہ تو سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے گذر جاتا ہے۔ اور پتا بھی نہیں چلتا۔
آپ ایک علم دوست شخصیت تھے۔آپ کی ایک ضخیم لائبریری تھی۔ آپ کی SCHOOLINGانگریزوں کے ہاتھوں ہوئی اس لیے آپ کو انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا۔ مگر آپ کو عربی اور فارسی پر بھی کافی قدرت حاصل تھی اور کہتے تھے کہ میں نے بغیر کسی استاد کے ان دو زبانوں کو (عربی اور فارسی) سیکھا ہے۔ عربی چونکہ قرآن کی زبان ہے اور فارسی اس لیے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا بہت سا لٹریچر فارسی زبان میں ہے۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی عربی کتب کا خود ترجمہ کر کے اپنی کتاب ’’روح العرفان‘‘میں پیش کیا ہے اور حضرت خلیفة المسیح نے اس ترجمہ کو بہت پسند کیا تھا۔