بدرسوم ۔گلے کاطوق
وحید احمد رفیق
شادی سے متعلقہ بد رسوم
رشتہ کرتے وقت صرف تقویٰ مدِنظر رہے
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں
’’ہماری قوم میں یہ بھی ایک بدرسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل برخلاف ہے۔ بنی آدم سب خداتعالیٰ کے بندے ہیں۔ رشتہ ناطہ میں یہ بات دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلاتو نہیں جو موجبِ فتنہ ہو اور یاد رکھنا چاہیے کہ(دین حق) میں قوموں کاکچھ بھی لحاظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ یعنی تم میں سے خداتعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے ۔جو زیادہ ترپرہیز گارہے۔ ‘‘
(فتاوٰی احمدیہ صفحہ 8 بحوالہ فتاوٰی حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 144-145 )
پہلی بیوی والے کودوسرارشتہ نہ دینا
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں
’’بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیںکہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں۔ پس اگر پہلی بیوی موجو د ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے۔ سو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مدد گار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں ۔ سو ان کو بھی خدا تعالیٰ سے ڈر نا چاہیے۔‘‘
(فتاوٰی احمدیہ جلد دوم صفحہ 8-9 بحوالہ فتاویٰ حضرت مسیح موعودؑ صفحہ نمبر 145)
نسبت یا منگنی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن وقبح معلوم ہوجاویں ۔منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو توڑنا گناہ ہو ‘‘ ۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ نمبر 231)
منگنی پر مٹھائی تقسیم کرنا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں دراصل یہ بھی اس غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہوجاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدانہ ہو ۔ مگر اب یہ اصل مطلب مفقود ہوکر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے ۔ اور اس میں بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں ۔ پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں ۔ یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی ۔ کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلو ق کو فائدہ پہنچے۔ آتش بازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں۔کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیںہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 310 )
مہندی یا رسم حنا
جورسوم بیاہ شادی کے موقعہ پر بڑی تیزی کے ساتھ معاشرے میں جگہ پارہی ہیںاور انہیں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے ان میں سے ایک مہندی کے نام سے موسوم ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ شادی سے الگ فنکشن ہے۔ اس موقعہ پرمدعووین کو بلانے کے لئے ایک الگ دعوتی کارڈرسم حنا یارونق کے نام پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ تقسیم کرنے والے خود اس کا نام رسم رکھ کر گویااقرار کر رہے ہوتے ہیںکہ یہ ایک رسم ہے۔ اس موقعہ پرماحول کو رنگ دینے کے لئے بے جااسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ بچیاںمہنگے سے مہنگے پیلے رنگ کے سوٹ سلواتی ہیں۔ لڑکے اپنے گلوں میں زرد رنگ کے پٹکے لٹکاتے ہیں۔ زرد رنگ کے اصلی اور کاغذی پھولوں سے ماحول کو سجایا جاتا ہے ۔باقاعدہ سٹیج تیار کروایا جاتا ہے جس پر الگ سے ہزاروں کا خرچ کیاجاتاہے۔ پیلے رنگ کے بلبوں اور قمقموں سے اجالاکیا جاتا ہے اور دلہن کو اس ماحول میں بٹھا کر ہاتھ میں ٹشو رکھ کر مہندی اس پر رکھی جاتی ہے اور ویڈیو کے ذریعہ محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہ سب بناوٹی عمل ہے اور پھر بعض جگہوں پرڈھولکی، ناچ، گانے اور بھنگڑے بھی ڈالے جاتے ہیں۔ اس موقعہ پر ایک چھوٹی بارات لڑکے والے تیار کر کے لاتے ہیں۔ گویا اسے شادی کے موقعہ پر الگ فنکشن کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اسی طرح لڑکے کی بھی باقاعدہ مہندی کی رسم ادا کی جاتی ہے ، اسے سرخ دوپٹہ کے سائے میں پنڈال میں لایاجاتاہے،مہندی لگائی جاتی ہے اور جس طرح لڑکی کی مہندی کی رسم ہوتی ہے بعینہ اسی طرح لڑکے کی مہندی کی رسم کی جاتی ہے۔
شادی کارڈز پر مہندی ،رسم حنا کا دعوت نامہ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک شادی کارڈ ملنے پر جس پر ’مہندی کا دعوت نامہ‘ لکھا تھا 25-03-1998 کو ایک خط تحریر فرمایاجس میں نہایت ناپسندیدگی کااظہار فرمایا۔آپ نے فرمایا
’’آپ نے اپنی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ بھیجا ہے۔لیکن آپ کو اتنی بھی باک نہیں کہ اس کے ساتھ آپ نے مجھے بھی مہندی کی رسم میں شمولیت کا کارڈ اٹھا کر بھجوادیاہے ۔ حالانکہ ایسی رسمیں سراسر سلسلہ کی روایات کے خلاف ہیں اور میری واضح ہدایات ہیں کہ بطور رسم ہر گز مہندی وغیرہ کی تقریب نہیں ہونی چاہیے ۔ہاں گھر میں بہنیں اور چند سہیلیاں مل کر بے تکلف مجالس لگالیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔یہ میری واضح ہدایت ہے۔لیکن آپ نہ صرف اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہے ہیں بلکہ مجھے بھی اس کے لیے دعوتی کارڈ بھجوارہے ہیں ۔اللہ آپ کو سمجھ دے۔ ‘‘
(ماہنامہ مصباح جولائی اگست 2009 ء صفحہ 24-25 )
مہندی کی رسم
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’فی ذاتہ اس میں قباحت نہیں کہ اس موقع پر بچی کی سہیلیاں اکٹھی ہوں اور خوشی منائیں ۔طبعی اظہار تک اس کو رکھا جائے تو اس میں حرج نہیں لیکن اگر اس کو رسم بنا لیا جائے کہ باہر سے دولہا والے ضرور مہندی لے کر چلیں تو ظاہرہے کہ اس میں ضرور تصنع پایا جاتا ہے ۔بچی کی مہندی گھر پر ہی تیا ر ہونی چاہیے ۔ اس کے لئے ایک چھوٹی سی بارات بنانے کا رواج قباحتیں پید ا کرے گا ۔اس موقع پر دولہا والوں کی طرف سے باقاعدہ ایک وفد بنا کر حاضر ہونا اور اس موقعہ پر اس کے لوازمات کے طور پرپُرتکلف کھانے وغیرہ وغیرہ یہ جب ایک رسم بن جائے تو سوسائٹی پر بوجھ بن جاتا ہے ۔‘‘ (الفضل 26 جون2002 ء صفحہ 4 )
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں
’’ مہندی کی ایک رسم ہے۔ اس کو بھی شادی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ اس پر دعوتیں ہوتی ہیں، کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، سٹیج سجائے جاتے ہیںاور صرف یہی نہیںبلکہ کئی دن دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شادی سے پہلے ہی جاری ہو جاتا ہے اور ہر دن نیا سٹیج بھی سج رہا ہوتا ہے اورپھر اس بات پر بھی تبصرے ہوتے ہیں کہ آج اتنے کھانے پکے اور آج اتنے کھانے پکے۔ یہ سب رسومات ہیںجنہوںنے وسعت نہ رکھنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور غیراحمدی تو یہ کرتے ہی تھے۔ اب بعض احمدی گھرانوں میںبھی بہت بڑھ بڑھ کر ان لغو اور بیہودہ رسومات پر عمل ہو رہا ہے یا بعض خاندان اس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ زمانہ کے امام کی بات مان کر رسومات سے بچتے ،معاشرہ کے پیچھے چل کر ان رسومات میںجکڑتے چلے جا رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے مَیںنے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور بڑی بڑی دعوتوں سے ہمیںرکنا چاہئے۔ تو اس دن یہاں لندن میں بھی ایک احمدی گھر میںمہندی کی دعوت تھی۔جب انہوںنے میرا خطبہ سنا تو انہوں نے دعوت کینسل (Cancel) کر دی اور لڑکی کی چند سہیلیوں کو بلا کرکھانا کھلا دیا اور باقی جو کھانا پکا ہوا تھا یہاں بیت الفتوح میں ایک فنکشن (Function) تھا اس میں بھیج دیا ۔ تو یہ ہیں وہ احمدی جو توجہ دلانے پر فوری ردّ عمل دکھاتے ہیں اور پھر معذرت کے خط بھی لکھتے ہیں۔لیکن مجھے بعض شکایات پاکستان سے اور ربوہ سے بھی ملی ہیں۔ بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اب ان رسموں میں پڑنے لگ گئے ہیں اور ربوہ کیونکہ چھوٹا سا شہر ہے اس لئی ساری باتیں فوری طور پر وہاںنظر بھی آ جاتی ہیں ۔ اس لئے اب مَیں کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم و رواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کریں۔‘‘ (خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010الفضل انٹر نیشنل5 فروری 2010 ء )
شادی کے موقع پر لڑکی یا لڑکے والوں کی طرف سے مطالبات
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے متعدد مرتبہ اپنے خطبات نکاح میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مطالبات نہ کیاکریں ۔27 مارچ 1931 ء کو خطبہ نکاح پڑھتے ہوئے فرمایا
’’اس امر کی طرف اپنی جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رسمیں خواہ کسی رنگ میں ہوں بُری ہوتی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے اگر بعض رسمیں مٹائی ہیں تو دوسری شکل میں بعض اختیار بھی کرلی ہیں ۔نکاحوں کے موقع پر پہلے تو گھروں میں فیصلہ کرلیاجاتا تھا کہ اتنے زیور اورکپڑے لیے جائیں گے ۔پھر آہستہ آہستہ ایسی شرائط تحریروں میں آنے لگیں ۔پھر میرے سامنے بھی پیش ہونے لگیں ۔ شریعت نے صرف مہر مقرر کیاہے اس کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے زیور اور کپڑے کامطالبہ ہو نا بے حیائی ہے اور لڑکی بیچنے کے سوا اس کے اور کوئی معنے میری سمجھ میں نہیں آتے…میں آئندہ کے لیے اعلان کرتاہوں کہ اگر مجھے علم ہوگیاکہ کسی نکاح کے لیے زیور اور کپڑے وغیرہ کی شرائط لگائی گئی ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان مَیں نہیں کروں گا۔‘‘
(الفضل 7 اپریل 1931 ء )
پھر ایک مرتبہ فرمایا’’ بعض دفعہ ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں اور ایسی لغو شرطیں لگاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے ۔مثلاً بعض لوگ جہیز کی شرطیں لگاتے ہیں۔اتنا سامان ہو تو ہم شادی کریں گے۔یہ سب لغو ہے۔ مَیں متواتر سالہاسال سے جماعت کو توجہ دلارہاہوں کہ ان کی اصلاح کی جائے ۔ اگر جماعت کے لوگ اس طرف توجہ کریں تو بہت جلد اصلاح ہوسکتی ہے ۔ اگر وہ عہد کرلیں کہ ہر ایسی شادی جس میں فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی ایسی شرطیں عائد کی گئی ہوں تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے تو دیکھ لو تھوڑے ہی عرصہ میں وہ لوگ ندامت محسوس کرنے لگیں گے اور ان شنیع حرکات سے باز آجائیں گے ۔ بھلا اس سے زیادہ اور کیا ذلیل کُن بات ہوسکتی ہے کہ لڑکیوں کے چارپایوںکی طرح سودے کیے جائیں اور منڈی میں رکھ کر ان کی قیمت بڑھائی جائے۔پس ہماری جماعت کو ایسی شنیع حرکات سے بچنا چاہیے اور عہد کرنا چاہیے کہ ایسی شادی میں کبھی شامل نہ ہوں گے خواہ وہ سگے بھائی یا بہن کی ہو۔ ‘‘ (الفضل 18 اپریل 1947 ء)
جہیز
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں سیّد ہوں ۔ میری بیٹی کی شادی ہے۔ آپ اس موقعہ پر میری کچھ مدد کریں ۔ حضرت خلیفہ اوّل یوں تو بڑے مخیر تھے مگر طبیعت کا رجحان ہے جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہوجاتا ہے۔آپ نے فرمایا-
’’مَیں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ سارا سامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جو رسول کریم ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ کو دیا تھا۔ وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا ۔ آپ میری ناک کاٹنا چاہتے ہیں ۔ حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ ﷺ کی ناک سے بھی بڑی ہے۔ تمہاری عزت تو سیّدہونے میں ہے۔ پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریمﷺ کی ہتک نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہوسکتی ہے۔‘‘
(حیات نور صفحہ529-530)
جہیز یا بَری کی چیزوں کی نمائش
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 9 فروری 1921 ء کو ایک نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاکہ
’’لوگوں میں رواج ہے کہ جہیز وغیرہ دکھاتے ہیں۔ اس رسم کو چھوڑنا چاہیے ۔جب لوگ دکھاتے ہیں تو دوسرے پوچھتے ہیں۔ جب دکھانے کی رسم بند ہوگئی تو لوگ پوچھنے سے بھی ہٹ جائیں گے۔‘‘
(الفضل 17 فروری 1921 ء )
شادی کے موقع پر نمود ونمائش
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں-
’’حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرمارہے ہیں کہ تم میرے سے اس بات پر بھی عہدبیعت کرو کہ رسم ورواج کے پیچھے نہیں چلو گے ۔ایسے رسم ورواج جو تم نے دین میں صرف اور صرف اس لیے شامل کرلیے ہیں کہ تم جس معاشرے میں رہ رہے ہو اس کا وہ حصہ ہیں ۔دوسرے مذاہب میں چونکہ وہ رسمیں تھیں اس لیے تم نے بھی اختیار کرلیں۔مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیںجیسے بَری کو دکھانایا وہ سامان جو دولہاوالے دلہن کے لیے بھیجتے ہیں اس کا اظہار ،پھر جہیز کا اظہار باقاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے۔ اسلام تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتاہے۔باقی سب فضول رسمیں ہیں۔ایک تو بَری یاجہیز کی نمائش سے ان لوگوں کا مقصد جو صاحب توفیق ہیں صرف بڑھائی کا اظہار کرناہوتاہے کہ دیکھ لیا ہمارے شریکوں نے بھائی بہن یا بیٹا بیٹی کو شادی پر جوکچھ دیاتھاہم نے دیکھو کس طرح اس سے بڑھ کردیا ہے۔ صرف مقابلہ اور نمود ونمائش ہے۔آج کل آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے یہاں آنے کے بعد بہت نوازا ہے۔ بہت کشائش عطافرمائی ہے۔یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی برکت ہے اور ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو آپ کے بزرگوں نے دیں اور ان کی دعائوں کی برکت ہے۔تو بعض ایسے ہیں جو بجائے اس کے کہ ان فضلوں اور برکتوں کااظہار اس کے حضور جھکتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے کریں اس کی بجائے شادی بیاہوں میں نام ونمود کی خاطر،خود نمائی کی خاطر ان رسموں میں پڑ کر یہ اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ پھر شادیوں پر ،ولیموں پر کھانوں کا ضیاع ہورہاہوتاہے اور دکھاوے کی خاطر کئی کئی ڈشیں بنائی جارہی ہوتی ہیں تو جو غریب یا کم استطاعت والے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی دیکھادیکھی جہیز وغیرہ کی نمائش کی خاطر مقروض ہورہے ہوتے ہیں ۔پھر بعض دفعہ بچیوں والے لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے مطالبہ کی وجہ سے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بہو جہیز بھی نہیں لائی ، مقروض ہوتے ہیں۔تو لڑکے والوں کو بھی کچھ خوف خدا کرنا چاہیے ۔ صرف رسموں کی وجہ سے ،اپنا ناک اونچا رکھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں ، قرضوں میں نہ گرفتار کریں۔‘‘
(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ92-93 )
جہیز اور بَری دینا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں-
’’اس میں شُبہ نہیں کہ جہیز اور بَری کی رسوم بہت بُری ہیں۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے……… ایسی وباء اور مصیبت جو گھروں کو تباہ کردیتی ہے اس قابل ہے کہ اسے فی الفور مٹادیاجائے اور میں نے دیکھا ہے کہ اچھے اچھے گھرانے اس رسم میں بہت بُری طرح مبتلاہیں اور مجھے اس کے اظہار میں کوئی شرم نہیں محسوس ہوتی کہ ہمارے اپنے گھر کی مستورات کو بھی اس بات کا خیال رہتاہے اور میں نے اُن کے منہ سے ایسے کلمات ضرور سُنے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔عام طور پر اپنی مالی حالت کو دیکھا نہیں جاتا۔پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہ صرف جہیز بلکہ بَری بھی بُری چیز ہے۔اپنی استطاعت کے مطابق جہیز دینا تو پھر بھی ثابت ہے لیکن بَری کا اس رنگ میں جیسے کہ اب مروج ہے مجھے اب تک کوئی حوالہ نہیں ملا۔لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ جہیز بھی اگر کوئی دے سکے تو نہ دے ،ایسے موقعوں پر ہمارے لیے سنّت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرزِ عمل ہے۔ قرآن کریم سب سے مقدّم ہے اور جن مسائل کے متعلق وہ خاموش ہے اُن کے لیے حدیث کو دیکھنا جائز ہے ۔…‘‘
(کتاب اوڑھنی والیوں کے لیے پھول۔ صفحہ 240-241 ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
شادیوں میں بے جا خرچ اور بھاجی تقسیم کرنا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں-
’’ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتاہے ۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ شیخی اور بڑ ائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانایہ دونوں باتیں عندالشرع حرام ہیں اور آتش بازی چلانا اور رنڈی ، بھڑوئوں ، ڈوم دہاڑیوں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے ۔نا حق روپیہ ضائع جاتاہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے ۔ ‘‘
(فتاویٰ حضرت مسیح موعودؑ صفحہ نمبر 145)
دولت کو خاک کی طرح اڑانا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں-
’’…بہت سے امیر ہمارے ایسے ہیں جو اتنی زیادہ حرکتیں کرتے ہیں شادیوں پر کہ کراہت آنی چاہیے ۔ ان پر رحم آنا چاہیے ۔ وہ ساری بے ہودہ باتیں جس سے ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نکالا،روشنیوں میں لے کر آئے ، وہ نقالی کرتے ہوئے سب باتیں دہرانا چاہتے ہیں۔ بعضوں کے ہاں سنا ہے بینڈ بھی آجاتے ہیں اور بیہودہ باتیں بے حد ضیاع دولت کا ۔ اس طرح لٹانا کہ جس طرح خاک اڑائی جارہی ہو۔اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی اور یہ نہیں سوچتے قرآن کریم نے دولت کے بعض مصارف کو تمہارے فائدے کا نہیں بلکہ نقصان کا موجب بتایا ہے۔کہتاہے یہ شیطان کے بھائی ہیں ،جو اس طرح اپنے رزق کو برباد کرتے ہیں اور جس طرز سے وہ شادیاں مناتے ہیں ۔اس کے اوپر کوئی دلیل کے ساتھ حرف رکھ سکے یانہ رکھ سکے ۔لیکن مزاج بول رہاہوتا ہے کہ یہ احمدیت کے مزاج سے ہٹ چکے ہیں۔یہ دنیاداری کے مزاج میں داخل ہورہے ہیں۔اب انہیں کہیں گے تو ناراض ہوں گے تم کون ہوتے ہو۔کیامطلب ہے ہر بات میں قانون۔ نظام جماعت کیا چیز ہے ۔ کہیں یانہ کہیں دل میں یہی سوچتے ہیں۔ہوتا کون ہے کوئی روکنے والا ہمیں۔ ان کوکرنے دو۔ انہوں نے اپنی دنیا الگ بنالی ہے تم جلتے کیوں ہو۔ تمہیں شکر کرنا چاہیے۔ اللہ نے یہ دنیا تمہاری نہیں بنائی۔ پس زیادہ سے زیادہ یہ حق ہے کہ ان کو سمجھائوکہ اللہ کا خوف کرو۔ اس طرح پیسے برباد نہ کرو۔ نئی رسمیں جاری نہ کرو۔
(مجلس عرفان 11 فروری1994 ء روزنامہ الفضل 19؍جولائی 2002 ء )
شادیوں پر صدہا روپیہ کاضیاع
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں-
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ’’ ہماری قوم میںیہ بھی ایک بدرسم ہے کہ شادیوں میں صد ہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے۔آج سے سوسال پہلے یااس سے زیادہ پہلے اس زمانے میں تو صدہا روپیہ کا خرچ بھی بہت بڑا خرچ تھا۔ لیکن آج کل تو صد ہا کیا لاکھوں کا خرچ ہوتا ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ ہوتا ہے۔ جو شاید اس زمانے کے صدہا روپوں سے بھی اب زیادہ ہونے لگ گیا ہے۔ بلکہ یہ بھی فرمایا کہ’’ آتش بازی وغیرہ بھی حرام ہے‘‘ ۔
شادیوں پر آتش بازی کی جاتی ہے۔ اب لوگ اپنے گھروں میںچراغاں بھی شادیوں پر کرتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کر لیتے ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان میں ہر طرف یہ شور پڑا ہوا ہے ہر آنے والا یہی بتاتا ہے۔ اخباروں میں بھی یہی آرہا ہے کہ بجلی کی کمی ہے، کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے اور دوسری طرف بعض گھر ضرورت سے زیادہ اسراف کرکے نہ صرف ملک کے لئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں بلکہ گناہ بھی مول لے رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان میں عموماً احمدی اس بات کی احتیاط کریں کہ فضول خرچی نہ ہو اور ربوہ میں خاص طور پر اس بات کا لحاظ رکھا جائے اورربوہ میںیہ صدر عمومی کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں کہ شادیوں پر بے جا اسراف اور دکھاوا اور اپنی شان اور پیسے کا اظہار جو ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔جماعت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ غمی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں ساتواں ،دسواں،چالیسواں ،یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ جو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ، اکثر یہی ہوتا ہے کہ یہ رسمیںگھر والوں پر بوجھ بن رہی ہوتی ہیں یہ رسمیں۔ لیکن اگرمعاشرے کے زیر اثر ایک قسم کی بدرسومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پا سکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیںگی‘‘۔
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010الفضل انٹرنیشنل 5؍فروری 2010 ء )
ملکی قانون کی پاسداری ہمارا فرض ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں-
’’ پس ہر احمدی کو اپنے مقام کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اب یہ فرض ہے کہ صحیح اسلام کی تعلیم پر عمل ہو۔ شادی بیاہ کے لئے اسلام کی تعلیم میں جو فرائض ہیں وہ شادی کاایک فرض ہے۔ اس کے لیے ایک فنکشن کیا جاسکتا ہے۔ اگر توفیق ہو تو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی فرض نہیں کہ ہر بارات جو آئے اس میں مہمان بلا کے کھانا کھلایا جائے اگر دُور سے بارات آ رہی ہے تو صرف باراتیوں کو ہی کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگرملکی قانون روکتا ہے تو کھانے وغیرہ سے رکنا چاہئے اور ایک محدود پیمانے پر صرف اپنے گھر والے یاجو چند باراتی ہیں وہ کھانا کھائیں۔ کیونکہ پاکستان میں ایک وقت میں ملکی قانون نے پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اب کیا صورت حال ہے مجھے علم نہیں۔ لیکن کچھ حد تک پابندی تواب بھی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010الفضل انٹرنیشنل 5؍فروری 2010 ء )
آتش بازی
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں-
’’رنڈی کاتماشایا آتش بازی فسق وفجور اور اسراف ہے۔یہ جائز نہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 227 )
دَف سے اعلان
پھر فرمایا-
’’جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جوچیز پاک ہے وہ حلال ۔خداتعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتاہے۔ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بُری او گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہوجاتی ہیں ۔ اب شادی کو دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھاگیاہے۔لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہوگیا تو وہ منع ہوگیا۔اگر اسی طرح پر کیاجائے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایاتو کوئی حرام نہیں ۔ ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 354-355 )
آپ مزید فرماتے ہیں-
’’دَف کے ساتھ شادی کا اعلان کرنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ اگر جھگڑا ہو تو ایسا اعلان بطور گواہ ہوجاتا ہے ۔ ایسا ہی اگر کوئی شخص نسبت اور ناطہ پر شکر وغیرہ اس لیے تقسیم کرتا ہے کہ وہ ناطہ پکا ہوجاوے تو گنا ہ نہیں ہے اگر یہ خیال نہ ہو بلکہ اس سے مقصد صرف اپنی شہرت اور شیخی ہو تو پھر جائز نہیں ۔ ‘‘
(الحکم 17 اپریل 1903 ء صفحہ 2)
ڈھولک بجانا
ایک خاتون کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں-
’’شادی میں ڈھولک جتنا چاہیں بجائیں۔ یہ منع نہیں ہے ، گانا بھی گائیں۔ آخر شادی اور موت میں کچھ فرق تو ہونا چاہئے ۔ لیکن ایسے مواقع پر ناجائز رسمیں نہ کریں۔ ناجائز رسمیں بظاہر معصوم بھی ہوں تو نہ کریں کیونکہ وہ معاشرہ کو بوجھل بنا دیں گی اور مصیبتوں میں مبتلا کردیں گی ۔ لیکن اسلام نے جس حد تک جائز خوشی کا اظہار رکھا ہوا ہے اس میں منع نہیں کرنا چاہئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تووہاں کی بچیاں دف بجا رہی تھیں جو ڈھولک ہی کی ایک قسم ہے اور گیت گارہی تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا بلکہ پسند فرمایا ۔ آپﷺ کے ساتھ مرد بھی تھے انہوںنے بھی سنا۔
پھر فرمایا ۔اگر عورت کی آواز میں پاکیزہ گیت گایا جارہا ہو اور اس کے نتیجہ میں شر پیدا نہ ہوتا ہو تو کہاں منع کیا ہوا ہے خد انے۔ اگر عورت کی آواز سننا منع ہے تو مرد کی بھی منع ہونی چاہئے ۔ وہ عورت کے دل میں تحریک پیدا کرے گی…اگر چہ ڈھولک بجانے کی بات اور ہے لیکن اس میں بھی اگر اس قسم کے گیت گائے جائیں جن سے معاشرہ میں گند نہ پھیلے تو جائز ہے لیکن ڈھولک پر گندی گالیاں دینا اور سٹھنیاں دینا لغویات ہیں۔ ان کو آپ اختیار نہ کریں۔ عام گیت چھیڑ چھاڑ کے ، پیار کی باتیں ہیں، مذاق بھی ہوتے ہیں، جائز ہیں۔ اس میں گندگی اور غلاظتیں نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
(مجلس عرفان شائع شدہ لجنہ اماء اللہ کراچی صفحہ134-135)
(باقی آئندہ)