خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19؍ جنوری 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
دو دن پہلے ایک دیرینہ خادم سلسلہ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ان کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روحانی اور جسمانی دونوں رشتوں کا اعزاز بخشا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا
قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا اس نے ایک دن اس دنیا سے رخصت بھی ہونا ہے۔ ہر چیز کو فنا ہے اور ہمیشہ رہنے والی
ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس دنیاوی زندگی کو بامقصد بنانے کی کوشش کرتے ہیںا ور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی نیک آدمی یا ولی یا نبی کے ساتھ صرف جسمانی رشتہ ہونا ہی ان کی زندگی کو بامقصد نہیں بنا سکتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنا سکتا ہے بلکہ انسان کا خود اپنا فعل اور عمل ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پڑپوتے محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان) کی وفات۔
مرحوم کی خدمات دینیہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ۔ اور نماز جنازہ غائب
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ
دو دن پہلے ایک دیرینہ خادم سلسلہ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روحانی اور جسمانی دونوں رشتوں کا اعزاز بخشا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا اس نے ایک دن اس دنیا سے رخصت بھی ہونا ہے۔ ہر چیز کو فنا ہے اور ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس دنیاوی زندگی کو بامقصد بنانے کی کوشش کرتے ہیںا ور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی نیک آدمی یا ولی یا نبی کے ساتھ صرف جسمانی رشتہ ہونا ہی ان کی زندگی کو بامقصد نہیں بنا سکتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنا سکتا ہے بلکہ انسان کا خود اپنا فعل اور عمل ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرماتے تھے کہ فاطمہ صرف میری بیٹی ہونے کی وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتی۔ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کو اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو اور جب یہ کر لو تو تب بھی اللہ تعالیٰ کا خوف رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ میری ان کوششوں کو قبول بھی فرمائے اور اپنے فضل سے انجام بخیر کرے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 343)
مَیں خود بھی اس بات کو جانتا ہوں اور بڑا گہرا ذاتی تعلق بھی مرزا خورشید احمد صاحب سے تھا۔ ان کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا اور اسی طرح لوگوں نے بھی مجھے لکھا۔ بہت سے خطوط آئے ہیں کہ انہوں نے عاجزی سے اپنے وقف کو نبھانے اور اپنے کام سرانجام دینے کی کوشش کی۔ کبھی خاندانی تفاخر کا اظہار نہیں کیا۔ گزشتہ سال جلسہ پر یہاں آئے ہوئے تھے تو انجام بخیر ہونے کی فکر کا اظہار مجھ سے بھی کیا اور اس شخص کی مثال دی جو کہ بڑا بزرگ آدمی تھا اور فوت ہوتے ہوئے یہی کہتا رہا کہ ابھی نہیں، ابھی نہیں اور اسی طرح فوت ہو گیا۔ آخر اس کے مریدوں نے بڑی دعا کی کہ کیا وجہ تھی کیوں کہتا تھا؟ ابھی نہیں۔ ابھی نہیں۔ ایک دن خواب میں مرید نے دیکھا۔ وہی بزرگ نظر آئے۔ ان سے پوچھا کہ آپ وفات کے وقت ’ابھی نہیں۔ ابھی نہیں‘ کرتے رہے۔ تو انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ جب میرا آخری وقت تھا تو شیطان میرے پاس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ تم میرے ہاتھ سے نکل گئے، بچ گئے۔ تم بڑے نیک کام کرتے رہے۔ اور مَیں یہی کہتا رہا کہ ابھی نہیں۔ جب تک جسم میں سانس ہے کوئی پتا نہیں مَیں کیا حرکت کر دوں۔ تو مَیں مرتے وقت بھی شیطان کو ’ ابھی نہیں‘ کہہ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسی حالت میں جان نکالی اور مَیں اب جنت میں ہوں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ 306)
تو یہ طریق ہے ان کا جن کو انجام کی فکر ہوتی ہے۔ بہرحال انہوں نے مجھے یہ مثال دی۔ بڑی فکر تھی۔ وقف کی روح کو سمجھتے تھے اور سمجھتے ہوئے کام کرنے والے بزرگ تھے۔ یہاں کے وقت کے مطابق پرسوں رات کو تقریباً دس بجے ان کی وفات ہوئی۔ 85 سال ان کی عمر تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پڑپوتے اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے ان کے یہ پوتے تھے اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے تھے۔ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ پوتے ہیں جنہوں نے اپنے والد سے پہلے آپؑ کی بیعت کی تھی ۔
12؍ستمبر 1932ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور 21؍ اپریل 1945ء کو انہوں نے ساڑھے بارہ سال کی عمر میں وقف زندگی کا فارم پُر کیا جبکہ آپ نویں کلاس میں پڑھتے تھے۔ پھر میٹرک قادیان کے ہائی سکول سے کیا۔ پھر ٹی آئی کالج سے تعلیم حاصل کی اور پھر اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا۔ 10؍ستمبر 1956ء کو بطور واقف زندگی آپ نے ٹی آئی کالج ربوہ کو جوائن(join) کیا اور 17 سال وہاں شعبہ انگریزی میں تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ بڑی محنت سے لیکچر تیار کرتے تھے۔ میں بھی ان سے پڑھا ہوا ہوں۔ اور بہت سارے شاگردوں نے مجھے لکھا کہ بڑی محنت کر کے آتے تھے اور بڑی محنت سے پڑھاتے تھے۔ اپنے مضمون پر انہیں مکمل دسترس حاصل تھی۔ اس لئے طلباء میں مقبول بھی تھے۔ سٹوڈنٹ ان کو پسند کرتے تھے۔ 1964ء میں انگلش فنیٹک(Phonetic) کورس کے لئے برٹش کونسل کی سکالر شپ پر ایک سال کے لئے انگلستان آئے۔ یہاں لیڈز یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی جو بعض جماعتی خدمات ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ 1974ء کے ہنگامی حالات میں مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ معاونت کی یعنی ان کی خدمت کے لئے ہمہ وقت وہیں رہتے تھے۔ دو تین مہینے ان حالات میں قصر خلافت میں ہی رہے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منظوری سے ربوہ میں یتیم اور نادار بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لئے 1962ء کے وسط میں ایک ’دارالاقامۃ النصرت‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس کا نام ’’مدّ امداد طلباء‘‘ رکھا۔ اس شعبہ کے 1978ء سے جولائی 1983ء تک آپ نگران رہے۔ اس کے بعد یہ کام نظارت تعلیم کے سپرد ہو گیا تھا۔
30؍اپریل 1973ء کو آپ ناظر خدمت درویشاں مقرر ہوئے اور یکم مئی 1976ء سے 1988ء تک آپ نے بطور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ خدمات سرانجام دیں۔ مختلف کمیٹیوں کے ممبر کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اکتوبر 1988ء سے ستمبر 1991ء تک بطور ناظر امور عامہ خدمات سرانجام دیں۔ اگست 1992ء سے مئی 2003ء تک ناظر امور خارجہ رہے اور اس کے بعد میری خلافت کے دوران میں نے ان کو پھر ناظر اعلیٰ مقرر کیا اور امیر مقامی ربوہ بھی۔ اور بڑے احسن رنگ میں انہوں نے یہ خدمت سرانجام دی۔ تقریباً بارہ تیرہ سال مجلس افتاء کے بھی ممبر رہے۔ بارہ تیرہ سال قضاء بورڈ کے بھی ممبر رہے۔ 1973ء میں ان کو اللہ تعالیٰ نے حج کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
ان کا نکاح 26؍دسمبر 1955ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پڑھایا تھا۔ اور پانچ چھ مختلف نکاح تھے جو اس وقت پڑھائے اور مرزا خورشید احمد صاحب کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خطبہ میں جو ارشاد فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ لڑکا بھی ہمارے خاندان میں سے وقف ہے۔ مرزا عزیز احمد صاحب کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اپنے اس بچے کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ چنانچہ ان کا یہ لڑکا ایم اے میں پڑھ رہا ہے۔ ابھی پاس تو نہیں ہوا (یعنی ایم اے مکمل نہیں کیا ) مگر انگریزی میں ایم اے کا امتحان دے رہا ہے اور کہتے ہیں کہ انگریزی میں بڑا لائق ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ بعد میں یہ کالج میں پروفیسر کے طور پر کام کرے اور پھر باقیوں کے ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ ترجمانی میں بھی کام آئیں گے۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 3 صفحہ 622 تا 625 خطبہ فرمودہ 26 دسمبر 1955ء)
اللہ تعالیٰ نے ان کو چھ بیٹوں سے نوازا اور چار بیٹے ان کے واقف زندگی ہیں۔ دو ڈاکٹر ہیں۔ ایک نظارت تعلیم میں نائب ناظر ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ اور اسی طرح ایک مشیر قانونی کے دفتر میں اسسٹنٹ کے طور پہ ہیں انہوں نے لاء(Law) کیا ہوا ہے۔ ذیلی تنظیموں میں بھی مختلف حیثیتوں سے کام کرنے کی توفیق ملی۔ 2000ء سے 2003ء تک صدر انصار اللہ پاکستان بھی رہے۔
ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر مرزا سلطان احمد لکھتے ہیں کہ ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے بہت زیادہ محبت تھی۔ چند سال قبل ان کو دل کی تکلیف شروع ہوئی بلکہ کافی عرصے سے تھی لیکن آہستہ آہستہ بڑھتی رہی۔ زیادہ ہو گئی۔ یہ سفر پہ اوکاڑہ گئے ہوئے تھے وہاں سے ان کا پتا لگا تو ان کے ایک بیٹے ان کو لینے گئے۔ ڈاکٹر نوری بھی ساتھ تھے۔ یہ اُدھر سے آ رہے تھے تو راستے میں ہی ملاقات ہو گئی۔ مرزا خورشید احمد صاحب کہنے لگے کہ سارا راستہ مَیں یہ دعا کرتا رہا کہ مَیں ربوہ پہنچ جاؤں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے قدموں میں جان نکلے۔ یعنی وہ بستی جہاں آپ دفن ہیں اور جو آپ نے آباد کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے عشق و محبت کی یہ کہانی تھی۔ پھر یہی لکھتے ہیں کہ جب یہ بیمار ہوئے تو بیماری میں ایک رات بڑی بے چینی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے ابھی مَیں نے ایک لمبی خواب دیکھی ہے کہ بعض لوگ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ پر اعتراض کر رہے ہیں اور لوگ اس کا جواب نہیں دے رہے۔ اس وجہ سے آپ بہت پریشان تھے کہ لوگ جواب کیوں نہیں دے رہے اور پھر اسی بے چینی میں دوبارہ سوئے بھی نہیں۔ یہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے مخالفین کا بغض بہت زیادہ ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی زیادہ ہے کیونکہ مخالفین کا یہ خیال ہے اور یہ کسی حد تک درست ہے بلکہ کافی حد تک درست ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نظام جماعت بنایا اور مضبوط کیا ہے۔ اگر آپ نظام جماعت نہ بناتے تو جماعت مخالفین کے خیال میں ختم ہو جاتی۔ گو کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے یہ تو چلنی تھی اور یہ سب کچھ ہونا تھا لیکن بہت سارے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ آپ نے جماعت کو ایک مضبوط اور مربوط نظام دے دیا۔
1974ء میں جیسا کہ میں نے کہا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جو ٹیم بنائی تھی اس کا ایک حصہ تھے۔ ان کو وہاں خدمت کی توفیق ملی اور یہ قصر خلافت میں ہی رہتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد شاید مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد ان کو ہفتے کے بعد گھر جانے کی اجازت ملا کرتی تھی کہ سات دن بعد ایک دو گھنٹے کے لئے گھر چلے جاتے تھے۔ بچے بھی ان کو وہیں آ کر ملا کرتے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ان ایام میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کئی راتیں سوئے نہیں بلکہ بیٹھے بیٹھے ہی آرام کر لیا کرتے تھے اور سارا دن اور ساری رات یا جماعت کے کاموں میں مصروف یا دعاؤں میں مصروف رہتے اور ساتھ ہی یہ لوگ بھی جو ڈیوٹی پر تھے پھر جاگا کرتے تھے۔
ان کے یہ بیٹے ان کی طرف سے ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ 1984ء کے پُرآشوب دَور میں یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی جو ٹیم تھی اس میں بھی شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ بتایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب بھی ہنگامی حالات تھے، بجائے اس میں کسی قسم کا panic ہونے کے غیر معمولی طور پر ریلیکس(Relax) رہا کرتے تھے۔
آپ کویہ بھی اعزاز رہا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ہجرت کی ہے تو ربوہ سے کراچی تک آپ بھی اس قافلے میں شامل تھے۔ اسی طرح 2010ء میں جب لاہور میں 28؍مئی کا واقعہ ہوا ہے تو اس وقت باوجود بیماری کے ہنگامی حالات میں ایک تو یہ کہ آپ نے بڑی ہمت سے تمام معاملات کو سنبھالا۔ پھر ہر شہید جس کا جنازہ آتا تھا اس کا گرمی کے باوجود خود جنازہ پڑھاتے تھے اور تدفین کے لئے جاتے تھے۔ اسی طرح حفظ مراتب کا ان کو بڑا خیال تھا۔ ان کے بیٹے مرزا عدیل احمد لکھتے ہیں کہ مقامی ربوہ کی رپورٹس جب ہم بھجواتے تو بعض دفعہ یاکسی دن یہ بے احتیاطی ہو گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ صرف (ص) لکھ دیا گیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ’علیہ السلام‘ پورا لکھا گیا۔ اس پر آپ نے خاص طور پر توجہ دلائی کہ حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھا کریں۔ نمازوں کی بہت پابندی کرتے۔ بہت مجبوری کی حالت میں نمازیں جمع کی جاتیں۔ آخری بیماری میں بھی جب ہسپتال میں داخل تھے تو سوائے چند ایک کے ساری نمازیں اپنے وقت پر الگ الگ ادا کیں۔
آخری دنوں میں ناظر اعلیٰ تھے۔ اور ناظر اعلیٰ کی کافی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تو وہاں کے جو معاملات ہیں ان کے بارے میں اور جماعتی کیسز کے بارے میں بڑی فکر تھی۔ ہسپتال میں بھی بار بار پوچھتے تھے کہ فلاں فلاں کیس کی کیا تاریخ ہے اور کیا اَپ ڈیٹ ہے۔ اسی طرح جو لوگ اپنی خوشیوں میں، شادیوں کے موقعوں پر بطور ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی بلاتے تھے تو ضرور جاتے تھے کہ اب یہ میرے فرائض میں داخل ہوگیا ہے کیونکہ خلیفۂ وقت کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ اسی طرح وفات وغیرہ پر بھی، غمی کے موقع پہ بھی لوگوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ پھر ضرورتمندوں کو بیماروں کو پوچھنے کے لئے جایا کرتے تھے۔ اور باوجود بیماری کے وقت پر دفتر آنا اور پورا وقت رہنا، کام کرنا ان کا خاص شیوہ تھا۔ آخری بیماری کے دنوں میں بھی دفتر آئے تو بہت سارے لوگوں کو غیرحاضر پایا تو انہوں نے ایک سرکلر کیا کہ اگر خاکسار وقت پر دفتر آ سکتا ہے تو باقی کیوں نہیں آ سکتے۔ تنظیمی لحاظ سے، انتظامی لحاظ سے بھی جہاں پکڑنا ہوتا تھا سختی کی لیکن پیار سے سمجھانا۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات پر جو اسلام آباد پاکستان میں ہوئی تھی اور وہاں جنازہ پڑھایا گیا تو انہوں نے جنازہ پڑھایا کیونکہ انجمن کے یہ نمائندہ تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بھی وہاں موجود تھے۔ اِنہوں نے بھی ان کو یہی کہا کہ آپ پڑھائیں۔ آپ بڑے بھی ہیں لیکن خلیفہ رابعؒ نے کہا نہیں۔ اور ان کو ہی کہا کہ کیونکہ آپ انجمن کے نمائندے ہیں اس لئے جنازہ آپ پڑھائیں۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو غسل دینے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔
مکرم مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں کہ 74ء کے جو حالات تھے ان میں یہ دو تین مہینے وہاں رہے۔ اس کے بعد جب حالات بہتر ہوئے تو پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ان کو کہہ دیا کہ جاؤ گھر چلے جاؤ لیکن بعض کام جو دیا کرتے تھے ان کی روزانہ صبح ناشتے پر آ کر رپورٹ دینی ہے اور یہ روزانہ بلاناغہ احکامات لے کر جاتے تھے اور اگلے دن آ کے پھر اس کی تعمیل کی رپورٹ دیا کرتے تھے۔ اسی طرح مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات کے بعد خلافت رابعہ کے انتخاب کے دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو اَلَیْس اللہ کی انگوٹھی تھی وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے کہیں misplace ہو گئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو بڑی فکر تھی۔ انہوں نے مکرم مرزا خورشید احمد صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ یہ میرے وفادار ہیں اور ہر خلافت کے وفادار ہیں۔ اس لئے ان کو فرمایا کہ اس طرح یہ گم گئی ہے۔ تلاش کرو۔ اللہ کے فضل سے پھر وہ مل بھی گئی تھی۔ گزشتہ سال ان کی اہلیہ بھی فوت ہوئیں۔ اس کے بعد یہ کافی بیمار بھی ہو گئے۔ دل کی تکلیف پہلے بھی چل رہی تھی تو مَیں نے کہا یہاں جلسے پہ آ جائیں۔ پہلے تو بڑا تھا کہ شاید میں سفر نہ کر سکوں لیکن بہرحال پھر آ گئے اور یہاں آ کے ان کی طبیعت بڑی اچھی ہو گئی۔ بڑے ہشّاش بشّاش رہے اور پھر موسم جیسا بھی ہو روزانہ مجھے رات کو ملنے بھی آیا کرتے تھے اور کبھی انہوں نے موسم کی پرواہ نہیں کی۔ جتنا عرصہ یہاں رہے ہیں مجھے روزانہ باقاعدگی سے رات کو آکر ملتے تھے۔
مکرمہ فوزیہ شمیم صاحبہ صدر لجنہ لاہور حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کی بیٹی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ یہ کہتی ہیں کہ ناظر اعلیٰ بننے کے بعد ان کی خوبیاں نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔ نہایت عاجز خادم دین تھے۔ میں نے بارہا آپ کو کام سے فون کئے۔ اگر میٹنگ میں ہوتے تو پھر دوبارہ فون کر لیتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میرے پاس اچانک مریم شادی فنڈ کی درخواست آئی اور فوری مطالبہ ہوا۔ میں فون کرتی اور معذرت کرتی اور مجبوری بتاتی اور اس وقت انتہائی تحمل سے کہتے کہ امیر صاحب سے پیسے لے لو یا خود انتظام کر لو رقم بھجوا دوں گا۔ بڑے ہمدرد تھے۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے آپ جیسا ہمدرد کوئی نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ ہمارے ایک گاؤں کی جوان بچی کو ابتلا آ گیا۔ بچی ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ کسی طرح سے مان نہیں رہی تھی۔ میں نے آپ کو یہ کیس بھیجا۔ آپ نے انتہائی ہمدردی اور پیار سے اس کو ہینڈل (Handle)کیا اور ان عام دنوں میں یہ قادیان بھی جا رہے تھے۔ جلسہ کے علاوہ کے دن تھے۔ مجھے بتایا کہ میں نے قادیان جاکر بیت الدعا میں اس بچی کے لئے خاص دعا کی ہے۔ کہتی ہیں کہ الحمدللہ وہ بچی راہ راست پر آگئی۔ اس کی شادی بھی ہو گئی اور جب شادی ہوئی تو اس کو بہت خوبصورت زیور کا ایک سیٹ بھجوایا۔ بعد میں بھی پوچھتے رہے۔ بڑے شفیق تھے۔ کہتی ہیں میں نے جب بھی آپ سے مشورہ مانگا بڑا صحیح مشورہ دیا۔ انتہائی دعا گو تھے۔ اب ایسا بزرگ کہاں ملے گا۔ دل اتنا گداز ہے۔ یہ مجھے لکھ رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلافت کو نعم البدل عطا کرے اور اللہ تعالیٰ خاندان میں بھی ان کی جگہ لینے والا عطا فرمائے۔
چوہدری حمید اللہ صاحب۔ وکیل اعلیٰ تحریک جدید ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تعلیم الاسلام کالج جب 1954ء میں لاہور سے ربوہ منتقل ہوا تو جو انگریزی پڑھانے والے غیر احمدی استاد تھے وہ لاہور میں ہی رہ گئے اور ربوہ نہیں آئے۔ اس کے بعد محترم میاں خورشید احمد صاحب نے ہی 1956ء میں انگریزی شعبہ کو نئے سرے سے آرگنائز کیا۔ آپ کی اپنی انگلش بہت اچھی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ کے دور میں کالج میں انگلش کا معیار بہت بہتر ہوا۔ پھر ان کے بارے میں چوہدری حمید اللہ صاحب ہی لکھتے ہیں کہ بہت نرم طبیعت کے مالک تھے۔ عفو و درگذر بہت تھا۔ غرباء کی ذاتی حیثیت سے بھی اور جماعتی عہدیدار کی حیثیت سے بھی بہت پرورش کیا کرتے تھے۔ پھر کہتے ہیں کالج کے زمانہ، جلسہ سالانہ، خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، قادیان کے جلسوں کے انتظامات تمام امور میں میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ لوگوں کی غمی خوشی میں ضرور شریک ہوا کرتے تھے۔ شادی ہو یا وفات ہو ضرور پہنچا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے پرانے کارکن فوت ہو گئے اور میاں صاحب کو پتا نہ لگا جس کا آپ کو بڑا افسوس تھا۔ نظارت علیاء کے کارکن طفیل صاحب کہتے ہیں کہ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کو بیان کرنا تو ممکن نہیں۔ آپ نہایت شفیق اور محبت کرنے والے اور ملنسار، نہایت نرم دل، دکھی اور مشکلات میں مبتلا لوگوں کے ساتھ نہایت درجہ ہمدردی کرنے والے، سادہ طبیعت کے لیکن نہایت پروقار شخصیت کے مالک بہت ہی پیارے وجود تھے۔ خاکسار کو کم و بیش دس سال آپ کی صحبت اور زیر سایہ کام کرنے کا موقع نصیب ہوا اور خاکسار کو یاد نہیں پڑتا کہ آپ نے کبھی کسی وجہ سے ناراضگی یا غصہ کا اظہار کیا ہو۔ اگر کبھی کوئی غلطی سرزد ہو بھی جاتی تو نہایت شفقت، نرمی اور پیار سے رہنمائی کرتے۔
پھر خواجہ مظفر صاحب مربی جو نظارت علیا میں ہی کام کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ نے طویل صبر آزما بیماری کا نہایت حوصلے اور وقار کے ساتھ مقابلہ کیا۔ خاکسار کو آپ کے قرب میں رہ کر لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ آپ انتہائی مہربان، باپ سے بڑھ کر شفیق، رحمدل اور خدمت خلق کے انتہائی مقام پر فائز تھے۔ متعدد بار خاکسار کو تجربہ ہوا کہ جب کوئی ضرورتمند عورت یا مرد آتا آپ سے ملاقات کروائی جاتی۔ آپ راشن چارپائی، ٹی وی، بستر یا مالی امداد کی منظوری دیتے۔ لیکن بعض اوقات کسی ضرورت مند کے جانے کے بعد مجھے روک کر ہدایت کرتے کہ ان کے گھر جا کر ان کے بارے میں معلوم کرو پھر مجھے بتاؤ۔ اور یہ مربی صاحب کہتے ہیں کہ دوسرے روز جب میں رپورٹ دیتا تو کہتے کہ دل کہتا تھا کہ یہ زیادہ ضرورت مند ہیں اور اتنی اس کی مدد نہیں کی گئی ہے۔ تو صرف یہی نہیں کہ مطالبہ پر بلکہ اپنے طور پر بھی تحقیق کرواتے تھے تا کہ جائز مدد کی جا سکے۔ یہ لکھتے ہیں انتہائی محسن، متحمّل مزاج، چہرے پر تبسّم، عاجز، چشم پوشی اور درگذر کرنے والے تھے۔ کسی شکایت کنندہ کے شکوہ یا کسی کے حسب منشاء خواہش کی تکمیل نہ ہونے پر ہمیشہ پیار سے توجہ دلاتے۔ دیر تک بڑے تحمّل سے بات سنتے اور یہ تحمّل سے بات سننا ہر جماعتی عہدیدار کا فرض ہے۔ اگر تحمّل سے لوگوں کی باتیں سنی جائیں تو بہت سے مسائل بلکہ شکوے دور ہو جاتے ہیں۔ مربی صاحب یہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ دفتر میں ایک شخص نے کھڑے کھڑے اپنی بات پیش کی اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غصہ میں پیش کردہ درخواست پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دی۔ آپ خاموش رہے۔ غالباً اس شخص کے لئے دعا کرتے رہے۔ کہتے ہیں میں پاس ہی کھڑا تھا۔ مجھے اس شخص کی یہ بے ادبی بری لگی تو کچھ عرض کرنے لگا۔ لیکن آپ نے کہا کہ کوئی بات نہیں جانے دیں۔ اسے کچھ نہیں کہنا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کا تحمل، بردباری اور وسعت حوصلہ دیکھ کر رشک آتا تھا کہ کمزور ہونے کے باوجود یعنی بیماری کی وجہ سے کمزور ہونے کے باوجود اتنے مضبوط قویٰ کے مالک تھے۔ پھر ان کا حافظہ بھی بڑا قابل تعریف تھا۔ قابل رشک تھا اور یادداشت کمال کی تھی۔ کہتے ہیں سوچ مدبّرانہ تھی۔ کہتے ہیں سینکڑوں خطوط اور رپورٹس روزانہ مشاہدہ کرتے لیکن بار بار ایسا ہوا کہ کوئی معاملہ کئی مہینے قبل فائل ہو چکا ہوتا اور کئی مہینوں کے بعد درخواست کنندہ دعا یا مزید کارروائی کے لئے پوچھتا تو کارکن تو وہ کمپیوٹر سے تلاش کر رہے ہوتے تھے اور اِن کو یاد ہوتا تھا کہ کیا کارروائی ہوئی ہے یا کیا ہدایت دی گئی ہے اور کتنے کاغذات تھے، کہاں ہوں گے۔ گویا اپنے دفتر کی جو فائلیں تھیں وہ تک بھی ان کو یاد رہتی تھیں اور اپنے معاملات میں پوری دسترس تھی۔
ناظم قضاء راشد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک معاملہ میں خاوند جو ہر حالت میں صلح چاہتا تھا اور تقریباً تمام معاملات حل ہو گئے لیکن بیوی کی طرف سے ڈیمانڈ تھی کہ یہ رقم واپس کرے جو میرے سے لی ہے۔ لیکن خاوند کے مالی حالات نہایت کمزور تھے۔ ناظم قضاء کہتے ہیں کہ میں نے زبانی جا کر میاں صاحب سے درخواست کی کہ کچھ آپ دے دیں کچھ مَیں کہیں سے کروا دیتا ہوں۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ بڑے ہیں سارے ہی آپ دے دیں، اس پر ہنس کر کہنے لگے کہ اگر اس طرح اس کی صلح ہوتی ہے تو لکھ کر بھیج دو۔ چنانچہ وہ رقم ادا کر دی اور چند منٹ میں ان کی صلح کا معاملہ طے ہو گیا۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کے مربی ربّانی صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خاکسار کی بہنیں ایک دفعہ ربوہ آئیں ان کو جلد کی بیماری تھی۔ انہوں نے صفائی کے خیال سے نئے دارالضیافت میں قیام کی اجازت چاہی۔ انتظامیہ کے بعض قوانین کی وجہ سے میری بہنوں کو کہا گیا کہ استثنائی اجازت ناظر اعلیٰ سے مل سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نہایت سہمی ہوئی کہ جماعت کے بڑے عہدے پر فائز انتہائی مصروف شخصیت اتنے بڑے شخص سے کس طرح ملیں؟ ہمیں وقت بھی دیں گے یا نہیں؟ لیکن بہرحال ہم گئے۔ انہوں نے ہمیں دفتر بلایا شفیق باپ کی طرح بیٹیوں کی طرح ہمیں ٹریٹ(treat) کیا اور فورًا ہماری تکلیف بھی دُور کر دی۔ اجازت بھی دے دی۔ اور کہتی ہیں اس وجہ سے ہمارا بھی نظام جماعت پر اعتماد زیادہ قائم ہوا اور ہمارے ایمان میں بھی اضافہ ہوا۔
امیر ضلع خوشاب منور مجوکہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک اعلیٰ منتظم، انتہائی شریف النفس، نافع الناس وجود تھے۔ فرائض کی ادائیگی میں انتہائی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی بیحد خیال رکھتے تھے۔ غریب پروری اور انتہائی باریک بینی سے فرائض کی ادائیگی سے متعلق کہتے ہیں کہ مَیں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں جو میرے ذہن پر ان کی عظیم شخصیت کے اَن مٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ غالباً 2015ء کے اوائل کی بات ہے میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ دو غریب خواتین جن کا ضلع خوشاب سے ہی تعلق تھا میرے پاس آئیں اور کہا کہ ہمیں میاں صاحب نے، ناظر اعلیٰ صاحب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ہماری امداد کی درخواست پر امیر ضلع کی سفارش اور دستخط کر دیں۔ کہتے ہیں میں نے ان خواتین سے جب ان کی بات سنی، انٹرویو لیا تو یہ فیصلہ کیا کہ ان کی امداد ہم ضلعی سطح پر کر دیں گے بجائے اس کے کہ مرکز کو بھیجا جائے اور ان دونوں کو اپنے ضلع کے سیکرٹری امور عامہ کے پاس بھجوا دیا اور ان کی امداد بھی ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ دوسرے دن خاکسار اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ میاں صاحب کا براہ راست فون آ گیا اور مجھ سے استفسار کیا کہ کل آپ کے پاس آپ کے ضلع کی دو غریب عورتیں دستخط اور سفارش کے لئے بھجوائی تھیں وہ آج دوسرے دن بھی میرے پاس امداد لینے واپس نہیں آئیں اور مجھے بے چینی ہے کہ آپ نے انہیں واپس نہ بھجوا دیا ہو۔ لہٰذا ان کی سفارش کر کے میرے پاس بھجوائیں تا کہ ان کی امداد بروقت ہو سکے۔ کہتے ہیں اس پر میں نے عرض کیا کہ چونکہ ہم نے ضلعی سطح پر ان کی امداد کر دی تھی لہٰذا آپ کے پاس دوبارہ نہ بھجوایا۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ اس چھوٹے سے واقعہ سے آپ کی غریب پروری اور خدمت خلق اور چھوٹے چھوٹے امور کا خیال رکھنا آپ کی بڑی شخصیت کے لئے ایک معمولی سا خراج تحسین ہے۔
یہ احساس ہے جو ہمارے ہر عہدیدار میں پیدا ہونا چاہئے کہ کس طرح کام کرنا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ کام کے لئے بھیج دیا بلکہ جو بھی درخواست آتی ہے وہ درخواست دینے والا خود تو اس کو فالواَپ(follow up) کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن عہدیداروں کو بھی جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو جائے اور شکایت دور نہ ہو جائے یا جو معاملہ ہے وہ طے نہ ہو جائے اس وقت تک اس معاملے کو دیکھنا چاہئے اور کوشش کر کے حل کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ سر سے ٹالا جائے۔ اگر ہر عہدیدار میں یہ عادت پیدا ہو جائے جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تو ہمارے بہت سے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔
حافظ مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں گواہ ہوں کہ حضرت میاں صاحب نے خلافت سے محبت اور وفا کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے سپرد امانتوں کے حق ایسے ادا کر کے دکھائے کہ زندگی کے آخری سانس تک خلیفۃ المسیح کی اطاعت اور عہد وقف میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری میں پوری عمر صرف کر دی۔ ہرچند کہ آپ کے پاس جماعت کا بڑا عہدہ تھا مگر نہایت منکسر المزاج، اخلاق فاضلہ سے متصف اور بااصول نگران تھے۔
اسی طرح حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ باجماعت نماز کی ادائیگی کے اہتمام میں آپ ایک خوبصورت نمونہ تھے۔ جب صدر انصار اللہ بنے تو ہر میٹنگ میں بار بار نماز باجماعت اور قیام نماز کی طرف توجہ دلاتے تھے بلکہ خود ہی کہتے تھے کہ تم لوگ کہو گے کہ صرف ایک ہی بات پر اس کی سوئی اَٹکی رہتی ہے۔ لیکن مَیں کیا کروں جب تک اس ذمہ داری کا حق ادا نہیں ہوتا میرا فرض ہے کہ مَیں یاد دہانی کرواتا رہوں۔ اور عہدیداروں کو بھی چاہئے مَیں نے دیکھا ہے بعض عہدیدار بھی باجماعت نماز تو علیحدہ رہی بعض دفعہ نمازیں بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
اسی طرح گرمی ہو یا سردی مقررہ اوقات پر دفتر سے واپس جانا عمر بھر آپ کا معمول رہا۔ باقاعدگی سے پابندی سے وقت پر آتے اور ہمارے لئے مثال تھے۔
ان کے ایک کارکن نظارت علیا کے کلرک محمد انور صاحب ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آپ کی شفقتوں عنایتوں اور محبتوں کو بھلانا بہت مشکل ہے۔ کہتے ہیں باوجود بزرگی اور بیماری کے وقت پر دفتر تشریف لاتے اور دفتر کے کاموں میں مشغول ہو جاتے۔ اپنے نفس پر خدمت دین کو ترجیح دیتے رہے۔ اپنی وفات سے قبل آخری دن یکم جنوری کو تشریف لائے تو سانس کی تکلیف زیادہ تھی۔ سانس لینے میںبہت دشواری نظر آر ہی تھی لیکن بہت ہی ضبط سے اس تکلیف کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کہتے ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے جلدی گھر چلا جاؤں گا۔ پورا وقت دفتر بیٹھ نہیں سکوں گا لیکن جلدی گھر جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے کام نہیں کرنا۔ اس لئے اس کلرک کو کہا کہ جو بھی دستخط ہونے والی ڈاک ہے وہ جلدی لے آؤ۔ تو یہ کارکن کہتے ہیں کہ حسب ہدایت مَیں نے جلدی ڈاک پیش کر دی۔ کچھ وصیت کی فائلیں دستخط کروا کے عرض کیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو باقی بعد میں دستخط کروا لیں گے۔ لیکن آپ نے کہا کہ نہیں ساری فائلیں دستخط کروا لو۔ کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ضروری ہدایات دے کر اور بعض ناظران اور افسران کو مل کر گئے اور اس طرح آپ اپنے عمل سے ہمیں سمجھا گئے کہ خدمت دین کس طرح کی جاتی ہے اور وقف کی رُوح کیا ہے۔
پھر ایک مربی سلسلہ ملک محمد افضال صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ چہرہ جھکائے مسجد میں بیٹھنا۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں باقاعدگی سے بعد نماز عصر مسجد مبارک میں درس قرآن کریم میں غرق ہونا۔ اگر کوئی صاحب ان کے پاس اپنا مسئلہ پیش کرتا تو اس کے مسئلہ کو خوشی اور تسلّی سے سننا اور اس کے مسئلہ کا حل بتانا یہ تمام مشاہدات ہیں جو ربوہ کا ہر باسی روز مشاہدہ کرتا تھا۔ کہتے ہیں جامعہ کی پڑھائی کے دوران ایک دفعہ مَیں بہت ہی پریشانی کے عالم میں تھا اور معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ دعا ہی آخری حل تھا۔ کہتے ہیں میں مکرم مرزا خورشید احمد صاحب کی خدمت میں ان کے دفتر گیا۔ باوجود بے انتہا مصروفیات کے انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا اور جب میں نے سب معاملہ سامنے رکھا تو میرا مقصد تو صرف دعا کا تھا لیکن انہوں نے تمام پریشانی کو سنا اور پھر خود ہی سوالات بھی پوچھے۔ اور کہتے ہیں دفتر آنے سے پہلے میرے تو ذہن میں بھی نہیں تھا کہ میں اتنا زیادہ وقت لوں گا۔ لیکن آپ نے کمال حد تک شفقت کا مظاہرہ کیا اور بہت سا وقت مجھے دیا۔ اس کے بعد جب ان کے دفتر سے میں باہر نکلا ہوں تو دل پر گزرنے والے بوجھ کو بہت ہلکا محسوس کیا اور دل میں ایک نئی آس لے کر اس کمرے سے باہر نکلا۔ تو دوسروں کی جو تسلّی کروانا ہے یہ ہر عہدیدار کا فرض ہونا چاہئے۔ یہ لکھتے ہیں کہ نرم خُو اور مجسّم شفیق فرشتہ انسان تھے۔ کہتے ہیں ایک دوست نے مجھے بتایا کہ جب مَیں ٹِین ایجر(Teenager) تھا تو پہلی بار موٹربائیک(Motorbike) سیکھ رہا تھا۔ میاں خورشید احمد صاحب امیر مقامی کے گھر کے باہر باڑ میں جاکر ٹکرایا۔ اس وقت اتفاق سے آپ خود اس باڑ کے پودوں کو باہر سڑک پہ پانی لگا رہے تھے تو مَیں گھبرایا ہوا تھا اور شرمندگی مجھے الگ تھی۔ ایک تو غلطی، اوپر سے Under Age ڈرائیونگ۔ پھر گر ابھی تو ان کے سامنے۔ کوئی بھی اور شخص ہوتا تو شاید بہت ڈانٹتا کیونکہ باغیچہ کا نقصان بھی ہوا تھا۔ لیکن آپ کی طبیعت میں اس قدر شفقت اور نرمی تھی کہ آپ نے لپک کر مجھے اٹھنے میں مدد دی۔ پھر پوچھا کہ بیٹا کہیں زیادہ چوٹ وغیرہ تو نہیں آئی۔ پھر مجھے شفقت سے سمجھایا کہ اپنی زندگی کی قدر کرو۔
اسی طرح مربیان اور واقفین زندگی کے ساتھ بہت پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ علم وسیع ہونے کے باوجود بڑی عاجزی اور نرمی تھی۔ اپنی کم علمی کا اظہار فرماتے تھے۔ جامعہ احمدیہ کے درجہ شاہد کی جب پہلی convocation ہوئی تو اس موقع پر مَیں نے ان کو نمائندہ مقرر کیا تو کہتے ہیں کہ اپنے خطاب میں انہوں نے convocationمیں جامعہ کے لڑکوں کو کہا کہ مَیں تو ساری عمر مربی صاحبان اور علماء صاحبان کے ارشادات سننے کا عادی ہوں۔ ان کے سامنے میں کس طرح زبان کھول سکتا ہوں۔ لیکن پھر نصیحت فرمائی اور بہت ساری باتوں کے علاوہ ان کو کہا کہ خاکسار اتنا ہی عرض کرے گا کہ نہایت ضروری اور اشد ضروری اور سب سے ضروری امر ہے کہ جو ارشادات خلیفۃ المسیح فرماتے ہیں ان کو سنا جائے، ان پر غور کیا جائے۔ ان پر جہاں تک ہمارے لئے، جماعت کے عہدیداروں کے لئے اور آپ لوگوں کے لئے جو آپ مربی بن کر جا رہے ہیں ممکن ہے اور عمل کر سکتے ہیں تو عمل کریں۔ ہم سب لوگ ان ہدایات کو حرزِ جاں بنائیں۔ ان پر عمل کرنے کی پوری طرح کوشش کریں اور یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر بدوملہی کے مربی سلسلہ مسعود صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر ملاقات محبت اور شفقت کے جذبات کا سمندر رکھتی ہے۔ آپ ہر دلعزیز محبت کرنے والے نہایت شفیق مرقع اخلاق تھے۔ عاجزی کے مجسم پیکر تھے۔ دفتر میں ملاقات میں آنے والے ہر شخص سے کرسی سے اٹھ کر سلام کرتے اور مصافحہ کا شرف بخشتے خواہ وہ چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ جو بھی ملاقات کے لئے آتا آپ اپنے ضروری کام چھوڑ کر بھی بڑی توجہ اور دلچسپی سے ہمہ تن گوش ہو کر ان کی بات سنتے اور ان میں گھل مل جاتے۔ اس لئے ہر ایک آپ کے پاس فریاد لے کر آتا۔ یہ ہر ایک نے اسی طرح لکھا ہے۔ آپ کے دفتر میں غریب امیر، عہدیدار یا عام احمدی ہر ایک کے ساتھ برابر کا سلوک ہوتا تھا۔ ہر ایک کی بات پر ایسے فوری ردّ عمل دکھاتے کہ جیسے یہ شخص بہت اہم ہے۔
ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ آپ لوگوں کے احساسات اور ضروریات اور جذبات کا دوسروں سے بڑھ کر خیال رکھتے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک مریض کو اینجیو پلاسٹی کے لئے آدھی قیمت کی رعایت کی گئی۔ بعد میں جب اس نے آپ سے، ناظر اعلیٰ سے، رابطہ کیا تو ساری قیمت ہی معاف کر دی اور ڈاکٹر نوری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے کہا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت نے مجھے ہدایت دی ہے کہ کوشش کریں کہ تمام مستحق مریضوں کی مدد کیا کریں۔ اس لئے اس کو نبھانا ہمارا فرض ہے۔ اور پھر کہتے ہیں جب ہسپتال میں زیر علاج تھے تو نرسوں کے لئے اور جو انڈر ٹریننگ نرسیں ہیں۔ نرسیں وغیرہ جو ٹریننگ لے رہی ہیں یا مرد لے رہے ہیں۔ ان کے لئے انہوں نے مجھے کہا کہ میرے بیٹے سے اس کے پیسے لے لیں اور ان سب کو میری طرف سے سویٹر تحفہ خرید کر دیں۔ دوسروں کی محنت کو بڑا سراہتے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ایک دن مجھے انہوں نے لکھا کہ بعض احساس اور جذبات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ان کا منہ در منہ اظہار کرنا (آمنے سامنے اظہار کرنا) ناممکن سا ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کچھ یہی کیفیت میری بھی تم لوگوں سے یعنی ہسپتال سے رخصت ہوتے وقت تھی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔
پھر کہتے ہیں خلافت سے ان کو بڑا والہانہ پیار اور محبت تھی۔ طاہر ہارٹ کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا۔ ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں ایک مرتبہ مجھے کہا کہ نوری! طاہر ہارٹ تو خلیفۂ وقت کا ایک بچہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کی اس خواہش کو پورا کرے اور یہ ادارہ حقیقی معنوں میں دارالشفاء کا نمونہ بنے اور پھر انہوں نے نوری صاحب کو کہا کہ مَیں تو روزانہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ خلیفۂ وقت کی تمام خواہشات اس کے حق میں پوری کرے۔ کہتے ہیں بیماری کے دنوں میں جب میں رپورٹ لکھ کے دیتا تھا۔ نوری صاحب ان کی رپورٹ روزانہ مجھے بھجواتے تھے۔ تو کہتے ہیں ایک دن میرا ہاتھ پکڑ کر بڑے جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ کیا ہمارے پاس حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بیماری اور تکلیف کے علاوہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
اسی طرح کے اَور بھی بہت سارے لوگوں کے خطوط ہیں۔ آپ کے اوصاف بیان کئے ہیں اور عاجزی اور ہمدردی کے بارے میں تو ہر ایک نے لکھا ہے۔ خلافت سے جو تعلق اور محبت تھی اس کا اظہار آپ نے ایک دفعہ میری اہلیہ کے سامنے اس طرح کیا کہ جب میری اہلیہ نے انہیں کہا کہ خلیفہ وقت کے لئے تو آپ دعائیں کرتے ہوں گے میرے لئے اور بچوں کے لئے بھی دعا کریں۔ تو کہنے لگے کہ خلیفہ وقت کے لئے مخصوص سجدوں میں مَیں ان کے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں۔ اور اس وقت جب یہ کہہ رہے تھے تو ان کی بڑی جذباتی کیفیت تھی ۔ امیر اور بالا افسر کی اطاعت کا معیار بھی ان کا بہت بلند تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی بیماری کے دنوں میں، سن 2000ء کی بات ہے، مَیں اور مکرم مرزا خورشید احمد صاحب یہاں لندن آئے ہوئے تھے۔ میں ان دنوں میں ناظر اعلیٰ تھا۔ کسی بات پر میرا اور ان کا تھوڑا سا اختلاف ہوا جس پر انہوں نے ذرا سختی سے میری بات کو ردّ کیا۔ خیر بات آئی گئی ہو گئی۔ مَیں ان سے چند دن پہلے لندن سے واپس ربوہ چلا گیا اور یہ چند دن بعد آئے اور میرے دفتر میں آئے اور آ کر بڑے سنجیدہ بیٹھے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ مَیں معذرت کرنے آیا ہوں۔ میرے سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ مَیں نے کہا کون سی غلطی مجھے تو یاد نہیں۔ کہنے لگے کہ لندن میں مَیں نے جو اختلاف کیا تھا اس میں میری آواز میں تھوڑا سا غصّہ شامل ہو گیا تھا اور یہ جو بات ہے امیر کے احترام کے خلاف ہے اس لئے مَیں معافی چاہتا ہوں اور معذرت چاہتا ہوں۔ باوجود میرے کہنے کہ کوئی بات نہیں ہے۔ معذرت ہی کرتے رہے۔ تو یہ ان کی عاجزی تھی اور امیر کا احترام تھا۔ پھر اصلاح کے پہلو جو ہیں ان کو بھی اپنے گھر سے شروع کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ دوسروں کی اصلاح کی اور اپنے بچوں کو نہیں دیکھنا۔ چند سال ہوئے مَیں نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو ایک خط لکھا جس میں انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ بعض شکایات جو مجھ تک پہنچی تھیں ان کے بارے میں ان کو دور کرنے کی عمومی نصیحت کی۔ یہ خط میں نے جب پاکستان بھیجا تو پاکستان میں ان کو کہا کہ جو افراد خاندان وہاں ہیں انہیں جمع کر کے میرا یہ خط پڑھا دیں۔ جب یہ خط انہوں نے افراد خاندان کے سامنے پڑھا تو بڑے جذباتی انداز میں یہ بھی فرمایا کہ میں واضح کر دوں کہ میری اولاد بھی ان چیزوں سے پاک نہیں ہے جن کی نشاندہی کی گئی ہے اور مَیں ان کو بھی اور ان کی اولادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ کمزوریاں ہمیں دور کرنی چاہئیں اور خلیفۂ وقت جو ہم سے توقع رکھتے ہیں اس پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
تو یہ ان کی سچائی اور تقویٰ کے معیار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو اور خلافت احمدیہ کو باوفا مخلص اور تقویٰ پر چلنے والے معاون و مددگار عطا فرمائے۔
مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ انہوں نے ان کے بارے میں جو مجھے لکھا اس میں وہ لکھتے ہیں کہ بھائی خورشید تمام عمر خلافت کے قدموں میں بیٹھ کر آخری وقت تک سلسلہ کی خدمت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور بیشمار فضلوں اور رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ انہوں نے تو اپنا حق پورا کر دیا۔ یہ انہوں نے بالکل صحیح لکھا ہے۔ یقیناً انہوں نے اپنا حق پورا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی اپنے حق پورے کرنے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز وں کے بعد مَیں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا انشاء اللہ۔