بدرسوم ۔گلے کاطوق
وحید احمد رفیق
شادی بیاہ کی تقاریب میں بے پردگی کا رجحان
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’جو قباحتیں راہ پکڑ رہی ہیں ان میں سے ایک بے پردگی کا عام رجحان بھی ہے جو یقیناً احکام شریعت کی حدود پھلانگنے کے قریب ہوچکا ہے ۔اور شادی والوںکی اس معاملہ میں بے حسی کو بھی ظاہرکرتا ہے ۔کیونکہ معزز مہمانوں میں بہت سی حیادار پردہ دار بیبیاں ہوتی ہیں۔ بے دھڑک اَنٹ سَنٹ فوٹو گرافروں یا غیر ذمہ دار اور غیرمحرم مردوں کو بلا کر تصویریں کھنچوانا اور یہ پرواہ نہ کرنا کہ یہ معاملہ صرف خاندان کے قریبی حلقے تک ہی محدود ہے۔ اس بارہ میںواضح طور پر بار بار نصیحت ہونی چاہیے کہ آپ نے اگر اندرون خانہ کوئی ویڈیو وغیرہ بنانی ہے تو پہلے مہمانوں کو متنبہ کر دیا جائے اور صرف محدود خاندانی دائرے میں ہی شوق پورے کئے جائیں ۔ ‘‘
(الفضل 26 جون 2002 ء صفحہ 4 )
دلہا سے پردہ
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’جب دلہا آئے اور خواہ وہ غیرہی کیوں نہ ہو محلہ کی عورتیں اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں سمجھتیں اور کہتی ہیں اس سے کیا پردہ ہے اور پھر صرف یہی نہیں کہ پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے مخول اور ہنسی بھی کرتی ہیں ۔‘‘
(خطبات محمود جلد 3صفحہ نمبر 71 )
دودھ پلائی
ہمارے معاشرے میں ایک رسم دودھ پلائی کی بھی جاری ہے ۔اس موقع پر دولہاکو دلہن کی بہنیںیاقریبی رشتہ دار لڑکیاں دودھ پیش کرتی ہیںیا بعض اوقات دیگر مشروب بھی پیش کیے جاتے ہیںاور پھر دودھ پلائی کے طور پر بھاری رقوم کامطالبہ کیاجاتا ہے۔اس کے علاوہ اس موقع پر دلہا کے ساتھ اس کے دیگر عزیز یادوست لڑکے بھی دلہن کی طرف ساتھ جاتے ہیں۔اس طرح سے خواتین کی طرف غیر مردوں کے ساتھ جانے سے بے پردگی ہوتی ہے ۔ ایسے کاموں سے پرہیز لازم ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس رسم سے متعلق فرمایاہے
’’بعض دوسری بدرسوم جیسے دودھ پلانااور جوتی چھپانا وغیرہ جوہیں یہ سب ختم کروائیں اور ہرفرد جماعت کو اس بارہ میںمتنبہ کردیں کہ آئندہ اگر مجھے کسی کی بھی ان رسموں کے بارے میں کوئی شکایت آئی تو اس کے خلاف تعزیری کارروائی ہوگی۔‘‘
(مکتوب بنام صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان22 جنوری 2010 ء )
شادی اور موت کے عالم میں فرق
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں
’’ہمارا کردار عظیم ہے۔ سادگی اور متوازن خرچ کے دائرے میں رہتے ہوئے خوشیاں منانی چاہئیں یہ تو نہیں کہ موت کا بھی وہی عالم ہو اور خوشی کا بھی وہی عالم ہو۔شادی ہورہی ہو۔موت ہورہی ہو ۔ کسی کو پتا ہی نہیں کہ کس وجہ سے سائبان لگے ہوئے ہیں۔خوشی بولتی ہے۔ خوشی میں ایک ترنم پیدا ہوتاہے۔اس کی آواز لوگ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ اس میں رنگ ہوتا ہے، خوشبو ہوتی ہے، یہی چیزیں غم میں اور کیفیت اختیار کرتی ہیں تو نوحے بن جایا کرتے ہیں۔تو یہ فرق تو رکھنا ہوگا سوسائٹی میں ۔‘‘
(مجلس عرفان 11 فروری1994 ء روزنامہ الفضل 19 جولائی 2002 ء )
شادیوں میں ناچ گانے اور ڈانس
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنون4:)
کامل مومن وہ لوگ ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَھْوَالْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِعِلْمٍ (لقمان 7:)
اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنا روپیہ ضائع کرکے کھیل تماشا کی باتیں لیتے رہتے ہیں تا کہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلا م فرماتے ہیں کہ
’’اب شادی کو دَف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں ناچ وغیرہ شامل ہوگیا تو وہ منع ہوگیا۔‘‘ )ملفوظات جلد 5 صفحہ نمبر355)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ایک مرتبہ یہ سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوںکے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں وہ کیسا ہے ؟
آپ نے فرمایا’’ اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے ۔ مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمر نے ان کو منع کیا اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے پڑھے ہیں تو آپ نے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو اس کے لیے رحمۃ اللہ فرمایا او ر جس کو آپ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہوجایاکرتاتھا ۔ غرض اس طرح پراگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں ۔مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں ۔ یہ یاد رکھو کہ جہاں ذرہ بھی مظنّہ (اندیشہ ۔ ناقل ) فسق و فجو ر کا ہو وہ منع ہے ۔
بزہدو ورع کوش وصدق و صفا
ولیکن میفزائے بر مصطفیٰؐ
(یعنی زہد وعبادت اور سچائی اور باطنی صفائی کے لیے کوشش کرولیکن آنحضور ﷺ سے آگے قدم نہ رکھو۔ (ناقل )
یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان خودان میں فتویٰ لے سکتا ہے ۔ جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں وہ منع ہے ۔ ‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 311 )
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
’’شادی کے موقع پر کوئی گیت گالیں تو گناہ نہیں بشرطیکہ اس میں فحش اور لغو بکواسیں نہ ہوں اور بے حیائی سے نہ گایا جائے ‘‘
( الفضل 20 جولائی 1915ء صفحہ نمبر 12 )
مزید فرمایا کہ
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بیاہ شادی کے موقع پر شریعت کی رُو سے گانا جائز ہے ۔مگر وہ گانا ایسا ہی ہوناچاہیے جو یا تو مذہبی ہو اور یا پھر بالکل بے ضرر ہو مثلاً شادی کے موقع پر عام گانے جو مذاق کے رنگ میں گائے جاتے ہیں اور بالکل بے ضرر ہوتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ وہ محض دل کو خوش کرنے کے لئے گائے جاتے ہیں ان کا اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں ہوتا۔‘‘
(الفضل 20 جنوری 1945ء )
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے …… جہاں تک گانے کا تعلق ہے تو شریفانہ قسم کے ،شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں ،اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘ ۔
(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ نمبر94)
آپ مزید فرماتے ہیں کہ
’’مَیں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں۔ پھر ڈانس ہے ،ناچ ہے ،لڑکی کی جو رونقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کر لڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہوجاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ……..۔ بعض لوگ اکثر مہمانوں کورخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلّڑبازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں۔ چاہے لڑکیاں لڑکیا ں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پہ ہو رہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں ۔‘‘
(خطبات مسرور جلد 3 صفحہ نمبر 686تا 688)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
’’دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے رہنے والوں کے بعض رسم ورواج ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک قسم جو رسم ورواج کی ہے وہ ان کی شادی بیاہوں کی ہے۔…ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اورگندے گانے لگادیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے۔ایسے بے ہودہ اور لغو گندے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پارہی ہیں ۔ دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے ۔اوران کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں ، شور شرابے ہوتے ہیں ، طوفان بدتمیزی ہوتاہے کہ اللہ کی پناہ۔تو جیسا کہ میَں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑسکتاہے بلکہ بعض اِکّا دُکّا شکایات مجھے آتی بھی ہیں ۔ تو یاد رکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے۔…
اللہ کرے کہ ہم ہر قسم کے رسم ورواج بدعتوں اور بوجھوں سے اپنے آپ کوآزاد رکھنے والے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔ آنحضرت ﷺ کی سنت پرعمل کرنے والے ہوں اورہمیشہ اس زمانے کے حَکَم وعدل کی تعلیم کے مطابق دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں ۔ دین کو دنیا پرمقدم کرنا بھی ایسا عمل ہے جو تمام نیکیوں کو اپنے اندرسمیٹ لیتاہے اور تمام بُرائیوں اور لغو رسم ورواج کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلاتاہے۔ تو اس کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ ‘‘
(خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 685 تا700 )
حق مہر
وَاٰتُو االنِّسَائَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (نساء 5:)
اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کر و ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’(مہر) تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ نمبر284)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مہر طرفین کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے ‘‘ ۔
(خطبات محمود جلد نمبر3 صفحہ نمبر 1)
’’مہر عورت کا حق ہے جو مرد کی حیثیت پر ہے وہ بہرحال دینا ہے ‘‘ ۔
(خطبات محمود جلد نمبر3 صفحہ نمبر 85)
نمائش کے لیے زیادہ حق مہر رکھوانا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں-
’’مہر دینے کے لئے ہوتا ہے۔ اسلام اس قسم کی نمائش کو جو دھوکہ کا موجب ہو ہر گز جائز نہیں رکھتا۔ پس جو لوگ صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے بڑے بڑے مہر باندھتے ہیں اور ادا نہیں کرتے وہ گنہگار ہیں اور جو اپنی حیثیت سے کم باندھتے ہیں وہ بھی گنہگار ہیں۔‘‘
(خطبہ نکاح 28؍دسمبر1917ء از خطبات محمود جلد3صفحہ29)
پھر فرمایا۔’’مہر شریعت کے مطابق ضرور رکھو اور اتنا رکھو جو خاوندکو تکلیف میں نہ ڈالے۔‘‘
(خطبہ نکاح 27؍مارچ1931ءاز خطبات محمود جلد3صفحہ302)
شادیوں پرکھانے کاانتظام مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ کریں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’لڑکیوں کے فنکشن ہیں تو لجنہ اماء اللہ کی لڑکیاں کام کریں‘‘۔
(خطبات مسرور جلد نمبر2صفحہ نمبر 88 )
نکاح اور بدرسوم
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ’’نکاح آرام ،راحت ،سکینت اور تقویٰ اللہ کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے مگر آج کل مسلمانوں نے رسومات اور بدعات سے اسے دکھ کا موجب بنالیا ہے ۔ …..میں چاہتا ہوں کہ احباب جماعت احمدیہ اور ہمت کریں اور اپنے نکاحوں کو رسوم وبدعات سے الگ کرکے بالکل سنت نبوی کے مطابق کریں تاکہ نکاح کی حقیقی غرض قائم ہو ۔‘‘
(خطبا ت محمود جلد 3صفحہ نمبر20)
شادی کارڈ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے۔ دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چھپ جاتا ہے ۔ یہاںبھی بالکل معمولی سا پانچ سات Pence میں چھپ جاتا ہے ۔تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی ۔لیکن بلاوجہ مہنگے مہنگے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں ۔پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑ اسستا چھپا ہے۔ صرف پچاس روپے میں ۔اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تو یہ پاکستان میںپچیس ہزار روپے بنتے ہیں اور پچیس ہزار روپے اگر کسی غریب کو شادی کے موقع پر ملیں تو وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے ۔تو اس طرح بے شمار جگہیں ہیں جہاں بچت کی جاسکتی ہے ۔‘‘
(خطبات مسرور جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 334)
مجلس مشاورت 2009 ء کی متفرق سفارشات
٭ شادی بیاہ کے موقع پر وقت کی پابندی نہ کرنا عام ہوگیاہےاور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ۔ ہمیں اس سے اجتناب کرناچاہیے۔ہم اُس کے ماننے والے ہیں جس کو کہاگیاتھاکہ تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔
٭ دلہن کابیوٹی پارلر پرتیارہونااور اس پر بہت بڑی رقم خرچ کرنا درست نہیں۔اس رواج کو بھی کم کیاجائے۔ نیز بیوٹی پارلر پرجانے کی وجہ سے دلہن کاوقت پرنہ پہنچنا بھی درست نہیں ۔دلہن کو ہرصورت وقت پر تیار ہونا چاہیے۔
٭ شادی کارڈز پر اسراف نہ کیاجائے ۔افشاں والے اورمہنگے کارڈ سے اجتناب کیاجائے۔
٭ دلہن کے کپڑوں پر بہت زیادہ خرچ کرنا بھی مناسب نہیں۔کیونکہ ایسے جوڑے عموماً دوبارہ پہنے بھی نہیں جاتے۔ ایسے کپڑے اگر لجنہ اکٹھے کرے اور انہیں ایسی بچیوں کوتقسیم کردیاجائے جواستطاعت نہیں رکھتیں تو مناسب ہے۔
٭ مہندی پر لڑکے اور لڑکی کی طرف سے تمام مردوں کا پیلے کپڑے بنوانا بھی رسم ہے۔اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
٭ بڑے شہروں میں رات کو بارات کارواج ہے۔ رات گئے تک تقریبات چلتی ہیں۔اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ پھر فجر کی نمازضائع ہونے کاخدشہ ہوتاہے۔بہت زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔
٭ بِد، مایوں بٹھانا، لڑکے کو ’’گانہ‘‘ باندھنا، برات پر پیسے پھینکنا، سربالا بنانا، جہیز یا بَری کی نمائش، ہیجڑوں کا نچانا، نوٹوں کے ہار ڈالناوغیرہ سب رسومات ہیں۔
٭ ہوائی فائرنگ بھی اسراف اور دکھاوے کے ساتھ ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ اس پر خاص توجہ اور نصیحت کی ضرورت ہے۔
٭ لائٹنگ پر بے جاخرچ کرنادرست نہیں۔آج کل تو توانائی کے بحران کی وجہ سے حکومتی سطح پر بھی لائٹنگ نہ کرنے کی تحریک ہورہی ہے۔
(سفارشات شوری ٰ 2009ء صفحہ12تا14)
شادی کے موقع پر زیورات وغیرہ پر طاقت سے زیادہ روپیہ خرچ کرنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’اِس زمانہ میں زیادہ تر شادی بیاہ کے موقع پر لوگ اپنی ناک رکھنے کے لیے زیورات وغیرہ پر طاقت سے زیادہ روپیہ خرچ کردیتے ہیں ۔جوانجام کار اُن کے لیے کسی خوشی کا موجب نہیں ہوتا ۔کیونکہ انہیں دوسروں سے قرض لینا پڑتا ہے جس کی ادائیگی انہیں مشکلات میں مبتلا کردیتی ہے۔ اگر کسی کے پاس وافر روپیہ موجود ہو تو اُس کے لیے شادی بیاہ پر مناسب حد تک خرچ کرنا منع نہیں لیکن جس کے پاس نقد روپیہ موجود نہیں وہ اگر ناک رکھنے کے لیے قرض لے کر روپیہ خرچ کرے گا تو اس کا یہ فعل اسراف میں شامل ہوگا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 571 )
ہر اُس چیز سے بچناہوگاجودین میں بُرائی اور بدعت پیداکرنے والی ہے
’’بعض لوگ بعض شادی والے گھر جہاں شادیاں ہورہی ہوں دوسروں کی باتوں میں آکر یا ضد کی وجہ سے یادکھاوے کی وجہ سے کہ فلاں نے بھی اس طرح گانے گائے تھے،فلاں نے بھی یہی کیاتھا،توہم بھی کریں گے اپنی نیکیوں کو برباد کررہے ہوتے ہیں ۔اس سے بھی ہر احمدی کو بچناچاہیے۔فلاں نے اگر کیا تھا تو اس نے اپنا حساب دینا ہے اور تم نے اپنا حساب دینا ہے۔اگر دوسرے نے یہ حرکت کی تھی اور پتا نہیں لگا اور نظام کی پکڑ سے بھی بچ گیا تو ضروری نہیں کہ تم بھی بچ جائو۔تو سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے ہیں یانیکیاں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہیں۔وہ تو دیکھ رہاہے۔اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے ہر اس چیز سے بچنا ہوگا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے۔ ‘‘
(بحوالہ ماہنامہ مصباح جولائی ،اگست 2009 ء صفحہ66)
سہرا بندی
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
’’سہرے کا طریق بدعت ہے ۔ انسان کو گھوڑا بنانے والی بات ہے۔‘‘
(ارشادحضرت مصلح موعودازالفضل 04؍جنوری1946ء)
تنبول(سلامی / نیوندرا)
میں نے عرض کیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’ اپنے بھائی کی ایک طرح کی امداد ہے ‘‘۔
عرض کیا گیا جو تنبول ڈالتے ہیں وہ تو اس نیت سے ڈالتے ہیں کہ ہمیں پانچ کے چھ روپے ملیں۔اور پھر اس روپیہ کو کنجروں پرخرچ کرتے ہیں ۔
فرمایا’’ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفسِ رسم پر کوئی اعتراض نہیں ۔باقی رہی نیت ۔سو آپ ہر ایک کی نیت سے کیوںکر آگا ہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادے سے دیں۔یا چھوٹی چھوٹی باتوں کاحساب کریں۔ ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض بہ تعمیل حکم تعاون وتعلقات محبت تنبول ڈالتے ہیںاور بعض تو واپس لینابھی نہیں چاہتے ۔بلکہ کسی غریب کی امدا د کرتے ہیں ۔ غرض سب کا جواب ہے اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ ‘‘
(البدر 17 جنوری 1907 ء صفحہ4 )
بد رسوم اختیار کرنے کابُرا نتیجہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’اب جولوگ خدااور رسول کے احکام کی اطاعت سے نکل کر طرح طرح کی رسوم میں پھنس گئے ہیں وہ کس قدر بُرا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ بیاہ شادیوں میں اس قدر فضول خرچی کرتے ہیں کہ نہ صرف خود بلکہ جن کی شادی کی جاتی ہے وہ تمام عمر کے لئے قرض کے نیچے دب جاتے ہیں اور اکثر لڑکے لڑکی میں نااتفاقی ہوتی ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس معاملہ میں خاص طور پرا حکام شرعی کی پابندی کرے کہ ان کی شادیاں اعلیٰ اور اچھے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوں اور وہ قباحتیں جن سے دوسرے لوگوں کو تکالیف اُٹھانی پڑتی ہیں ان سے بچیں۔‘‘
(خطبہ نکاح11؍نومبر1920ءاز خطبات محمود جلد3صفحہ72 )
ایسی رسمیں جولغو میں داخل ہوتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے سورۃ الاعراف کی آیت158کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایاکہ
’’کوشش یہ کریں کہ اسراف سے کام نہ لیا کریں۔ جائز چیزوں میں بھی حد کے اندررہیں… تو بہت سی رسمیں ہیں۔ بہت سے ایسے افعال ہیں جو اسراف کے نتیجہ میں منع کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ ایسے افعال ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ وہ اَغْلال ہیں۔ گردنوں کے طوق ہیں۔ وہ ایسی رسمیں ہیں جو خصوصیت کے ساتھ لغو میں داخل ہوتی ہیں۔ کسی حالت میںبھی پسندیدہ نہیں ہیں۔ عام زندگی کی حالت میں بھی ان سے بچنا چاہئے۔ مثلاً شادی کے وقت ڈھول ڈھمکے، کنچنیوں کو نچانا، ڈھوم مراثیوں کو بلوانا، آتش بازیاں چھوڑنا،ایسی نمائش کرنا کہ جس کے نتیجہ میں قوم پر بہت بوجھ پڑتے ہیں۔ ان چیزوں کی نہ کوئی سند ہے نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروّج تھیں اور نہ ہی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی اجازت فرمائی بلکہ کھلم کھلا منع فرمایا۔ لہٰذا ان چیزوں سے بھی پرہیز لازمی ہے ورنہ یہ گردنوں کا طوق بن جائیں گی۔ مراد یہ ہے کہ یہ رسمیں رفتہ رفتہ قوم پر قابض ہوجاتی ہیں اوران کی آزادیاں مسخ کردیتی ہیں۔ وہ رسموں کی غلام ہوجاتی ہیں اور ان سے باہر نہیں آسکتیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 16؍دسمبر1983ءاز خطبات طاہر جلد2صفحہ632-633)
شادی بیاہ کاعمل دین کاایک حصہ ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں-
’’آنحضرت ﷺنے …یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ ضرور دَف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ۔ لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو ، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس کی بہرحال اجازت نہیں دی جاسکتی۔ شادی بیاہ کی رسم جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو ، اس رشتے کو دو جس میں دین زیادہ ہو۔ اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے ، خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے یہ غلط ہے۔ … اگر شادی بیاہ صرف شوروغل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرتﷺ نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہوکر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ دلائی ہے کہ توجہ نہ دلاتے بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے ۔ پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے ان کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے ۔ حد سے تجاوز نہیں کرناچاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہوجائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 25؍نومبر2005ء از مشعل راہ جلد5حصہ3صفحہ152-153)
شادی کے موقع پر بعض رسوم کو فرض سمجھ کر اداکیاجاتاہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں-
’’پس یہ مسلمانوں کے لیے ایک فرض ہے کہ اگر کوئی روک نہ ہو، کوئی امر مانع نہ ہو تو ضرور شادی کرے ۔ لیکن ان میں بعض رسمیں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی معاشرہ میں راہ پا گئی ہیں۔ اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔بعض رسوم کو ادا کرنے کے لئے اس حد تک خرچ کئے جاتے ہیںکہ جس معاشرہ میںان رسوم کی ادائیگی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے وہاں یہ تصور قائم ہو گیا ہے کہ شاید یہ بھی شادی کے فرائض میں داخل ہے اور اس کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15-01-2010الفضل انٹر نیشنل 5فروری 2010 ء )
بُرائی اور بدعت پیدا کرنے والی رسوم سے پرہیز کریں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں-
’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے ہر اس چیز سے بچناہوگا جودین میںبُرائی اور بدعت پیداکرنے والی ہے…ان میں جہیز ہیں،شادی کے اخراجات ہیں، ولیمے کے اخراجات ہیں،طریقے ہیں اور بعض دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ ہیں۔ ہمیں تو خوش ہوناچاہیے کہ ہم ایسے دین کوماننے والے ہیں جو معاشرے کے ،قبیلوں کے،خاندان کے رسم ورواج سے جان چھڑانے والا ہے۔ ایسے رسم ورواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی ۔نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرناشروع کردیں۔ ‘‘
(مشعل راہ جلد 5 حصہ سوم صفحہ 153-154)
(باقی آئندہ)