مصالح العرب(432)
مکرم محمد قسوات صاحب (2)
قسطِ گزشتہ میں ہم نے مکرم محمد قسوات صاحب آف سیریا کی قبول احمدیت کی داستان میں ان کے جماعت سے تعارف تک کے حالات کا ذکر کیا تھا۔ اس قسط میں ان کے اس ایمان افروز سفر کے باقی حالات بیان کئے جائیں گے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ:
ایم ٹی اے العربیہ کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے جو کچھ اس چینل پر دیکھا ہے اس سے بہت حد تک مطمئن ہوں۔ان کا دعویٰ ہے کہ مسیح ومہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں،اوراگر یہ لوگ مضبوط دلیل سے اس بات کو ثابت کردیں تو مجھے ان کی صداقت کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے تم اس بارہ میں استخارہ کرو۔اس نے استخارہ کیا تو پہلے روز ہی خواب میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ اس رؤیا نے مجھے احمدیت کے مزید قریب کردیا۔ ہم ایم ٹی اے دیکھتے رہے اور پھر مسیح ومہدی کے ایک وجود ہونے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا اور دجال ویاجوج وماجوج کی حقیقت بھی کھل گئی نیز بعض مشکل مسائل کا بھی شافی حل مل گیا۔
زیارت رسول ؐ اور اس کی تعبیر
2003ء میں میرے والد اور والدہ عمرہ کے لئے مکہ میں تھے کہ انہی ایام میں مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ میرے والد صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دے رہے ہیں۔پھر میں نے دیکھا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب کسی قدر پیچھے سجدہ کی حالت میں ہوں۔ اس سجدہ میں مجھے ایسی خشوع وخضوع کی حالت میسر آتی ہے جس کی لذت آج بھی میری نَس نَس میں سمائی ہوئی ہے۔اس رؤیا کے بعد میرے دل میں روضۂ نبوی کی زیارت کے لئے تمناؤں او رعقیدتوں کی ایک عجیب رَو چلنے لگی۔ اس وقت تو اس رؤیا کی ظاہری تعبیر ہی پیش نظر تھی ۔ لیکن تقریباً پانچ سال کے بعد جب میرا جماعت احمدیہ سے تعارف ہوا تو ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی تصویر کو دیکھ کر مجھے میری خواب یاد آگئی اور میں نے بیساختہ کہا کہ یہ تو وہی تصویر ہے جسے میں نے پانچ سال قبل خواب میں دیکھا تھااوردوران رؤیایہی سمجھا تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
میں نے یہ رؤیا 2003ء میں دیکھا تھا ۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ اسی سال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے منصب پر فائز فرمایا تھا۔ کیا شک کرنے والوں کے لئے یہ نشان کافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود سینکڑوں ہزاروں کو جماعت احمدیہ سے تعارف سے قبل ہی ایسی بشارتیں عطا فرماتا ہے جن کی تعبیر انہیں احمدیت میں شامل ہوکر ملتی ہے۔
اطمینان بخش رؤیا
میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے کوئی لیلۃ القدر ہے جس کے روحانی نشہ میں مَیں اپنے گھر کی چھت پر چڑھتا ہوں تو وہاں پرانگور کے بہت سے پتے ہیںجن میں سے بعض پر گولڈن کلر میں ’’اللہ‘‘ لکھا ہے اور بعض پر ’’محمدؐ‘‘لکھا ہوا ہے۔یہ منظر دیکھ کر خواب میں ہی میرے ذہن میں حضرت امام مہدی کا خیال آتا ہے اورسوچتا ہوں کہ ان کے بارہ میں میٹرک کی کتاب میں یہ کیوں لکھا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور ان کا قرآن بھی اَورہے اورقبلہ بھی کسی اورطرف ہے ؟ میں نے ان کے ٹی وی چینل کے پروگرامز سنے ہیںاو رمیں اس یقین پر قائم ہو گیا ہوں کہ ان کے مخالفین کی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، پھر بھی مولوی حضرات ان کی اس قدر کردار کشی کیوں کرتے ہیں؟کیا یہ مولوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَاء ہیں اور تمام فتنے انہی میں سے نکلتے ہیں اور انہی کی طرف لوٹ جاتے ہیں؟کیا ان کے یہ خوفناک چہرے داڑھی اور جُبّے کے پیچھے چھپے رہتے ہیں؟ کیا یہ احمدیت کی حقیقت سے غافل ہیں یا دنیا پر ہی فریفتہ ہونے کی وجہ سے ان کی طرف سے ایسے ردّ عمل کا اظہار ہورہاہے؟ خواب میں ہی اس قسم کے سوالات و خیالات کی رَو میں بہتے ہوئے اچانک میری نظریں آسمان کی طرف اٹھیں تو میں نے سنہری رنگ کی کوئی چیزآسمان سے بہت آہستگی سے نازل ہوتی ہوئی دیکھی۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ وہ دل کی شکل کی ایک سنہری ڈبیا تھی جس کے اندر قرآن کریم تھا اور سنہری رنگ کا حرف ’’ص‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ ڈبیا میرے سینے میں داخل ہوگئی اور میں نے اس وقت قرآن کریم کی بعض آیات حفظ کرلیںجن میں سے ایک آیت بطور خاص مجھے یاد رہی جو یہ تھی: {إنْ کُلٌّ إلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَاب}، جب میں اس حالت سے بیدار ہوا تو فورًا سورت ’’ص‘‘ کھول کرپڑھنا شروع کی اور پہلے صفحہ پرہی مذکورہ بالا آیت موجود تھی جس کے بعد کی آیت میں میرے تمام سوالوں کا جواب مضمر تھا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: إِن کُلٌّ إِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَاب ۔ وَمَا یَنْظُرُ ہَؤُلَاء إِلَّاصَیۡۡحَۃً وَاحِدَۃً مَّا لَہَا مِن فَوَاق۔ (ص:15و16) ترجمہ:(ان میں سے) ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا۔ پس (ان پر) میری سزا واجب ہو گئی۔ اور یہ لوگ کسی چیز کا انتظار نہیں کر رہے مگر ایک ہی ہولناک آواز کا جس میں کوئی تعطل نہیں ہو گا۔ مجھے قرآن کریم کے کئی حصے یاد تھے لیکن سورت ’’ص‘‘ کی یہ آیات کبھی یاد نہیں کی تھیں۔ اور ان آیات میں میرے سوالوں کا تفصیلی جواب مضمر تھا۔
ہمشیرہ کا استخارہ اوربیعت
گومجھے احمدیت کی صداقت میں توکچھ بھی شک نہ رہا تھا ، پھر بھی میں نے مزید اطمینان کی خاطر اپنی بہن سے کہا کہ تم میرے لئے استخارہ کرو کہ جس امام مہدی کی میں بیعت کرنا چاہتا ہوںکیا وہ سچا ہے کہ نہیں؟
اس سے میرا مقصد یہ بھی تھا کہ ا گر اللہ تعالیٰ میری بہن کو کوئی نشان دکھا دیتا ہے تو شاید یہ بات اسے بھی قبول احمدیت کی طرف لے آئے۔بہر حال اس نے استخارہ کیا اور پھر ایک دن مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگی کہ : میں نے رؤیا میں شدید آندھی دیکھی ہے جو اس قدر تیز ہے کہ درختوں کو بھی جڑوں سے اکھاڑ کے اڑاتی جارہی ہے، اسی طرح مکانات بھی اس شدید آندھی کے آگے قائم نہیں رہے بلکہ اپنی بنیادوں سے اکھڑے جارہے ہیں۔ایسے میں مجھے دور سے تمہاری تصویر نظر آتی ہے اور ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ: اس( یعنی محمد قسوات)کو نہ چھوڑو بلکہ اس کے ساتھ ہو جاؤ۔
اتنے واضح نشانات کے بعدمیری تسلی ہوگئی اور میں نے اپنی بیعت کا خط ارسال کردیا اور الحمد للہ کہ میری بیوی بھی اس فیصلہ میں میرے ساتھ تھی۔
مذکورہ بالا رؤیا کا میری بہن پر اس قدر اثر ہوا کہ بفضلہ تعالیٰ بعد میں اس نے بھی بیعت کر لی۔
بہنوئی کے ساتھ بحث
چونکہ مجھے جماعت اور ایم ٹی اے کے بارہ میں اپنے بہنوئی سے معلومات ملی تھیں اس لئے قبول احمدیت کے بعد میری اس کے ساتھ احمدیت کے موضوع پر بات ہونے لگی اور بفضلہ تعالیٰ وہ آہستہ آہستہ احمدیت کی طرف مائل ہونے لگا۔پھر ایک رات ہم بیٹھے بحث کررہے تھے کہ ایسے میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آنے والی بعض احادیث کا ذکر آگیا۔ میں نے کہا کہ صحیحین میں بھی بعض ایسی روایات موجود ہیں جن پر عیسائیوں نے بہت سخت اعتراض کئے تھے اور بظاہر ایسے لگتا تھاکہ ان احادیث میں کہیں نہ کہیں ضعف یا کوئی علّت ضرور پائی جاتی ہے چنانچہ ہم ان کو قرآنی آیات کی طرح قطعی نہیں قرار دے سکتے۔
جب میں نے ایسی احادیث کا ذکر کیا تو میرا بہنوئی غصہ میں آگیا اورکہنے لگا کہ بخاری ومسلم میں ایسی کوئی حدیث نہیں۔ میں فورًابخاری اور مسلم اٹھالایا او رپھر جب ان میں سے بعض ایسی احادیث نکال کر دکھائیںتو وہ خاموش ہوگیااور صرف اس ایک واقعہ سے اس کی معترضانہ شخصیت یکسر بدل گئی اوروہ میرے موقف کی تائید کرنے لگ گیا۔
اس کے بعد میرے بہنوئی نے جماعت کی مخالفت چھوڑ دی یہاں تک کہ جب میری بہن نے بیعت کی تو اس نے کوئی مخالفت نہ کی ۔سیریا سے ہجرت سے کچھ پہلے ہم دونوں نے مل کر’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ لفظاً لفظاً پڑھی اور وہ اس کتاب کی عظمت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا۔
اب وہ بفضلہ تعالیٰ دل سے تومطمئن ہے لیکن بیعت کا مرحلہ طے کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد اسے بیعت کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔
والدکا موقف
2003ء میںجس رؤیا میں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی اس کاذکر اُس وقت میں نے اپنے والد صاحب سے بھی کیا تھا۔ پھر جماعت سے تعارف کے بعد جب میں نے والد صاحب کوبتایا کہ میں نے ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تصویر دیکھی تو حیران رہ گیا کہ میں نے 2003ء میں انہیں ہی دیکھا تھا ۔ یہ سن کر والد صاحب نے فرمایا کہ یہ بات تمہارے لئے تو حجت ہو سکتی ہے،کسی اور کے لئے نہیں۔ تم نیک ہو اور بہت سی باتوں کا تمہیں علم بھی ہے ، اس بناء پر میں کہہ سکتا ہوںکہ ہوسکتا ہے تمہارا امام مہدی صادق ہو، لیکن میں اس عمر میں اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کرسکتا، کیونکہ میں اس عمر میں ایسے امتحان سے گزرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس لئے تمہیں تمہارا فیصلہ مبارک ہو۔
گو اس کے بعدمیں نے والد صاحب کو دلائل کے ذریعہ صداقتِ احمدیت کا قائل کرنے کی کوشش تو نہیں کی لیکن ان کی ہدایت کے لئے دعاکو کبھی نہیں چھوڑا۔
لقائِ حبیب
2015ء کے آخر پر مجھے ترکی کے راستے جرمنی پہنچنے کی توفیق ملی۔اوریہاں پر 2016ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں پہلی بار شرکت کی توفیق ملی۔
اس جلسہ کے بارہ میں مختصرًا میں یہی کہتا ہوں کہ سراسر اخلاص اور قربانی کی مثال کو میں نے اس جلسہ میں ہرقدم پر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ہر شخص خدمت کرنے کی راہ ڈھونڈتا پھرتا تھا اور خدمت وقربانی میں اپنے دل کی تسکین اور روح کا چین پاتا تھا۔ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں اس روحانی ماحول میں عجیب رنگ پیدا کررہی تھیں۔
پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر عرب احباب کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ ان کی حضو رانور سے ملاقات کا خواب بھی پورا ہوگیا۔ جہاں اس ملاقات سے برسوں کی پیاس بجھی وہاں پیارے آقا سے بار بار ملنے کی تمنا بھی اپنے اوج پر جا پہنچی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت سے وافر حصہ عطا فرمائے اورہمار ی نسلوں کو بھی خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق استوار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(باقی آئندہ)