خطبہ عید الفطر(07؍جولائی2016)
جہاں بھی مسلمان آباد ہیں رمضان کے بعد اس عید کے دن عید مناتے ہیں۔ حقیقی مومن ہیں تو اس بات پر خوش ہیں کہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ نےرمضان سے گزار کر جمع ہو کر خوشی کرنے اور اپنی عبادت کرنے کی توفیق دی۔ اور حقیقت میں خوشی اور عید وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔
ایک مومن کی عید یہ ہے اور اسلام جس عید کا تصور پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی خواہشات اور امنگوں کو اللہ تعالیٰ کیرضا حاصل کرنے اور نیکی اور بھلائی کی طرف پھیرنے کے لئے کون کون سے طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔
دوسرے مذاہب یا قوموں کی عیدوں اور تہواروں میں تو صرف اس دن کی عارضی خوشی ہے جس دن تہوار منعقد ہو رہے ہیں لیکن مومن کی عید اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن کر دائمی خوشی کے سامان پیدا کرنے والی ہے۔
آج اس زمانے میں جہاں جماعت احمدیہ روحانی مائدہ اور پانی دنیا کو مہیا کر رہی ہے اور ان کی روحانی سیری کا سامان کر رہی ہے وہاں مادی پانی بھی مہیا کرتی ہے۔ جماعت کی طرف سے پاکستان میں اور افریقہ میں مختلف مقامات پر پینے کے لئے صاف پانی مہیا کرنے کی غرض سے
نلکے لگائے جاتے ہیں۔ صاف پانی ملنے پر ان لوگوں کو جو خوشی پہنچتی ہے وہ گویا ان کے لئے عید کا دن ہوتا ہے۔
صاحبِ حیثیت لوگوں کو ہیومینٹی فرسٹ اور IAAAE جو مختلف جگہوں پر نلکے لگانے کا کام کر رہے ہیں کے لئے مدد کرنے کی تحریک غیروں کی عیدیں خوب ناچ گانا فحش اور گندے گیت گانا، کھانا پینا، غل غپاڑا کرنا، کھیل کود کرنا اور خریدو فروخت ہےجبکہ حقیقی اسلامی عید ایک مومن کی عید جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔
آج اچھے کھانے بھی پکاؤ اور کھاؤ اس لئے کہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا پہلے سے زیادہ موقع میسر آیا ہے۔ پس یہی حقیقی عید ہے۔
صرف نرم عمدہ غذا کھا لینا، شور شرابا کر لینا، بناوٹی باتیں کر کے عیدیں منا لینا، حقیقی عید نہیں ہے۔ حقیقی عید تو وہ ہے کہ ہم اپنے خدا کو راضی کر لیں۔جب وہ ہمارا نگہبان ہو جائے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کے حق جو ہمارے ذمّہ ہیں ادا کرنے والے بن جائیں ۔ جب ہم اس کے حکموں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے والے بن جائیں، صرف خود غرضی ہمارا مقصد نہ ہو۔ جب ہم یتیموں اور غریبوں، ضرورتمندوں کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے ان کی مدد کرنے والے بن جائیں۔
یتیموں کے لئے بھی جماعت میں فنڈ ہے۔ احباب کو اس میں حصّہ لینے کی تحریک۔
خدا کرے کہ ہم نے رمضان کے دنوں میں جو برکات حاصل کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہمارے اندر
اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی مستقل تحریک پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرما دے۔
خطبہ عیدا لفطر فرمودہ امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 07؍جولائی 2016ء بمطابق07؍وفا 1395 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ۔مورڈن۔ لندن
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج عید کا دن ہے اور مسلمان عید کے دن جمع ہو کر دنیا کے ہر خطے میں جہاں بھی وہ آباد ہیں عید مناتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں اور ملکوں میں آج عید ہے۔ کچھ میں کل ہو چکی ہے۔ بہرحال جہاں بھی مسلمان آباد ہیں رمضان کے بعد اس عید کے دن عید مناتے ہیں۔ حقیقی مومن ہیں تو اس بات پر خوش ہیں کہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ نے رمضان سے گزار کر جمع ہو کر خوشی کرنے اور اپنی عبادت کرنے کی توفیق دی۔ اور حقیقت میں خوشی اور عید وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔ یہ عید صرف مسلمانوں یا اسلام تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کی ہر قوم میں، ہر مذہب میں بعض دن عید کے منائے جاتے ہیں یا بعض تہوار خوشی کے رکھے گئے ہیں۔ اور ہر جگہ عید کا یہی تصور اور مقصد ہے کہ خوشی یا عید کے دن ایک قوم یا مذہب کے افراد اکٹھے ہو کر خوشی منائیں۔ اور عموماً یہی سوچ ہوتی ہے کہ جب جمع ہو کر عید منائیں گے، خوشی اور شغل میلے کے سامان کریں گے تو حالات کی وجہ سے جو اکثریت میں لوگوں میں کوفت اور تکان پیدا ہو جاتی ہے وہ دور ہو گی۔یہ انسانی فطرت ہے کہ کھیل کود اور شغل میلہ کچھ وقت کے لئے پریشانیاں ختم کر کے انہیں وقتی ذہنی سکون کے سامان مہیا کرے گا۔
بچوں میں بھی دیکھیں تو یہ چیز نظر آتی ہے کہ اگر انہیںکچھ دن علیحدہ رکھیں یا بچے علیحدہ رہیں، گھر میں بند رہیں تو ان میںافسردگی اور چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ مل جل کر رہیں، اکٹھے کھیلیں کودیں تو خوش رہتے ہیں اور باوجود اس کے کہ کھیل کود سے بچوں کو تھکاوٹ بھی ہوتی ہے آپس میں کھیلتے ہوئے بچے لڑ بھی پڑتے ہیں لیکن پھر بھی بڑے خوش اور تازہ دم نظر آتے ہیں۔ بچوں کی سوچ کے مطابق یہی ان کی عید ہے جو انہیں خوشی پہنچا رہی ہوتی ہے۔ ایک ماحول ہوتا ہے جو ان کی ذہنی تازگی کے سامان پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ جن ماں باپ کے بچے بچوں میں مل جل کر کھیلتے نہیں، علیحدگی پسند ہوتے ہیں، ایک کونے میں لگے رہتے ہیں ان کے ماں باپ پریشان ہو جاتے ہیں کہ شاید کسی بیماری کا اثر ہے یا کوئی اور نفسیاتی وجہ ہے۔ بہرحال یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان مل جل کر رہے اور مل جل کر خوشیاں منائے اور ایسے مواقع پیدا کرے جہاں یکسانیت کو اجتماعی اکٹھ کے ذریعہ ختم کیا جائے۔ اس انسانی فطرت کا اظہار بڑوں میں بھی ہوتا ہے۔ خوشی کا ماحول خوشی کے اثرات قائم کر رہا ہوتا ہے۔ غمی کا ماحول غم کے اثرات قائم کر رہا ہوتا ہے۔
غم کو خوشی میں بدلنے کے لئے بعض انسانوں نے اپنے لئے انفرادی طریقے بھی ایجاد کئے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ذہنی کوفت اور پریشانیوں کو دُور کرنے کے لئے شراب یا دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال انہیں فائدہ پہنچا رہا ہے، ان کے غموں کو دور کر رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں بے سکونیوں کو زیادہ بڑھاتی ہیں۔ بے سکونی کی طرف لے کے جاتی ہیں اور نتیجۃً صحت کو بھی برباد کرتی ہیں۔تو بہرحال بات یہ ہو رہی ہے کہ انسان کی فطرت ہے کہ ماحول کے اثرات اس پر ظاہر ہوں۔ بعض دفعہ انسان اپنے ذاتی مسائل کی وجہ سے غمگین بھی ہوتا ہے لیکن عارضی خوشی کا ماحول اسے خوش کر دیتا ہے اور وہ غم کے باوجود ہنسنے لگ جاتا ہے اور اس طرح اس کا کچھ غم کم ہو جاتا ہے۔ اس انسانی نفسیات اور فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے آجکل کے خود غرض دنیا داروں نے جنہیں صرف پیسے کا لالچ ہے اور اپنی ذات سے دلچسپی ہے لوگوں کو مختلف طریقوں سے نشوں اور بیہودہ تفریحات میں اس حد تک ڈبو دیا ہے کہ وہ گندگی میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں اور دین اور خدا تعالیٰ سے بہت دُور ہو گئے ہیں۔ ان کی عیدیں اور خوشیاں بھی عارضی ہیں۔ ان دنیاداروں کے سامنے دین کی اور دینی عید کی اوّل تو کوئی حقیقت رہی نہیں اور اگر دکھاوے کے لئے یہ عید مناتے بھی ہیں تو ایک روایتی تہوار کے طور پر جس میں مذہب کا عنصر مفقود ہوتا ہے۔ صرف ظاہری ہا وہُو، شراب اور کھانا پینا ہے۔ زینت کے سامان ہیں اللہ تعالیٰ کا خانہ کوئی نہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ صرف ان کی عید دنیا داری ہی ہے۔
کرسمس یا دوسرے مذاہب کے تہواروں کو آجکل اس طرح نہیں منایا جاتا کہ کتنے لوگوں نے عبادت کی اور کتنے لوگوں نے پاک تبدیلیاں پیدا کیں بلکہ ان کے ماپنے کے معیار یہ ہیں کہ اس تہوار میں فلاں کمپنی نے اتنے ملین پاؤنڈ کمائے اور فلاں نے اتنے ملین پاؤنڈ اور اس سال ان تہواروں میں اتنے بلین ڈالر کی جو خریدو فروخت ہوئی ہے وہ گزشتہ سال سے زیادہ تھی یا کم تھی یا اتنے بلین ڈالر کی شراب استعمال ہوئی اور اتنے بلین ڈالر جوئے میں لگے۔ لیکن کیونکہ صرف دنیا داری ہے اس لئے انہی معیاروں کے ساتھ اور اس عارضی خوشی کو تسکین کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ ان کی ترجیحات صرف یہ ہیں کہ انسان کی خواہشات اور امنگیں کیا چاہتی ہیں۔
لیکن ہماری عیدیں، ایک حقیقی مسلمان کی عیدیں اس سے بالکل مختلف ہیں اور مختلف ہونی چاہئیں۔ ایک مومن کی عید یہ ہے اور اسلام جس عید کا تصور پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی خواہشات اور امنگوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور نیکی اور بھلائی کی طرف پھیرنے کے لئے کون کون سے طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔ دوسرے مذاہب یا قوموں کی عیدوں اور تہواروں میں تو صرف اس دن کی عارضی خوشی ہے جس دن تہوار منعقد ہو رہے ہیں لیکن مومن کی عید اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن کر دائمی خوشی کے سامان پیدا کرنے والی ہے۔ چاہے اس عید میں دنیاوی مادی اور مالی تسکین کا سامان ہو یا نہ ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فرق کی ایک ظاہری مثال یوں پیش فرمائی جو اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں مثلاً کوئی بھوکا انسان ہے اس کی بھوک چاہتی ہے کہ اس کا پیٹ بھرا جائے لیکن اس کا پیٹ بھرنے کے لئے دوسرا شخص یہ کرے کہ اسے گندی، خراب اور بیماریاں پیدا کرنے والی غذا دے دے۔ اس مجبور کا پیٹ تو اس سے بھر جائے گا لیکن کئی قسم کی بیماریاں اس میں پیدا ہو جائیں گی۔ پانی پینے کے لئے کوئی مانگے تو اس کی پیاس بجھانے کے لئے اسے پانی تو مہیا کر دے لیکن ایسا پانی جو غلیظ اور گندہ ہو، کڑوا ہو، نمکین ہو یا کوئی اور گندی چیز پینے کو دے دے جس سے پیاس عارضی طور پر تو رک جائے لیکن پھر مزید بھڑک جائے۔ وہ مجبوراً اسے پی تو لے گا جو مر رہا ہے اور اس کا گلا خشک ہو رہا تھا لیکن یہ چیزیں اس کے پیٹ میں خرابی پیدا کرنے والی ہوں گی بلکہ جسم کے بہت سارے عضو جو ہیں ان میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایسا گندہ پانی ہو گا جو اس کی پیاس کو کچھ دیر بعد اور زیادہ بھڑکانے والا ہو۔ گویا ایک عارضی انتظام کیا گیا ہے جو مستقل تکلیف میں ڈالنے کا ذریعہ بن گیا۔ بیماریاں پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ اب وہ شخص جس نے بھوکے اور پیاسے کو کھانا کھلایا اور پانی پلایا ہے اسے یا تو اس شخص کا جس کو کھلایا پلایا گیا اس کا دشمن کہیں گے یا ایسا شخص جس میں بالکل عقل نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک اور شخص ہے جس کے پاس کوئی اپنی بھوک اور پیاس مٹانے کے لئے آتا ہے تو وہ اسے پاک اور طیب غذا کھلاتا ہے اور صاف اور ٹھنڈا پانی پلاتا ہے جس سے وہ بھوکا پیاسا اچھی طرح سیر ہوتا ہے تو ایسے شخص کو یقینا ہمدرد اور عقلمند انسان سمجھا جائے گا۔ پس یہی فرق ہے اسلامی عیدوں اور دوسرے مذاہب کی عیدوں میں اور یہ فرق ہونا بھی چاہئے۔ دوسروں نے انسانی خوشی کے فطرتی تقاضے کو تو سمجھا ہے لیکن جو علاج کیا ہے جو اس فطرتی تقاضے کو پورا کرنے کے لئے سامان کیا ہے چیزیں مہیاکی ہیں وہ عارضی طور پر تو خوشی کے سامان پیدا کرنے والی ہیں لیکن مستقل طور پر نہ صرف فطرتی تقاضے کا علاج نہیں بلکہ مستقل طور پر انسان کو نقصان پہنچانے والی اور اس کی صحت کو خراب کرنے والی اور روحانیت کو خراب کرنے والی اور نقصان پہنچانے والی چیزیں ہیں۔ جبکہ اسلامی عیدیں دائمی اور ہمیشہ کے لئے خوشی کا سامان پیدا کرنے والی ہیں۔
یہ جو پانی پلانے کی میں نے مثال دی ہے اس بارے میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ آج اس زمانے میں جہاں جماعت احمدیہ روحانی مائدہ اور پانی دنیا کو مہیا کر رہی ہے اور ان کی روحانی سیری کا سامان کر رہی ہے وہاں مادی پانی بھی مہیا کرتی ہے۔ عموماً ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والوں کو پانی کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ پاکستان سے بھی آئے ہوئے بہت سے ایسے ہیں جن کے اپنے علاقوں میں نلکوں کا صاف پانی مہیا ہو جاتا ہے لیکن وہاں بھی دور دراز علاقوں میں تھر کے علاقے میں یا تو گندے تالابوں کا پانی ہے یا پھر ایسے کنوئیں کا پانی جو پیاس کو اور بھڑکا دیتا ہے۔ اسی طرح افریقہ میں لوگ تالابوں کا یا پھر ایسے کنوؤں کا پانی پیتے ہیں۔ کنویں تو وہاں سیزن میں ہی مہیا ہوتے ہیں عموماً تالابوں کا پانی ہوتا ہے جہاں واش روم کا پانی اکٹھا ہو جاتا ہے جو اس قدر گندا ہوتا ہے کہ سوائے انسان پیاس سے مر رہا ہو ورنہ کوئی اس پانی کو پینے کا یہاں بیٹھے ہوؤں میں سے تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس جگہ سے انسان پانی لے رہے ہوتے ہیں اور اس جگہ میں جانور بھی پانی پی رہے ہوتے ہیں بلکہ جانوروں کا گند وغیرہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ وہاں ان علاقوں میں جب ہم کنوئیں کھود کر دیتے ہیں اور نلکے لگاتے ہیں تو لوگوں کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ یہاں شاید آپ کو ہزاروں پاؤنڈ ملنے پر بھی وہ خوشی نہ ہو جو نلکے میں سے پہلی دفعہ صاف پانی دیکھ کر ان لوگوں کو ہو رہی ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان والنٹیرز جو وہاں اس کام کے لئے یہاں سے بھی جاتے ہیں اس کا تجربہ انہیں ہوتا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح کے تجربات سے انہیں گزرنا پڑا اور تصویریں بھی دکھاتے ہیں کہ کس طرح پر بڑے بھی بچے بھی عورتیں بھی خوشی سے اچھل رہے ہوتے ہیں کہ انہیں صاف پانی مہیا ہو گیا۔ گویا وہ دن ان کے لئے عید کا دن ہوتا ہے۔ اس حوالے سے مَیںصاحبِ حیثیت لوگوں کو یہ بھی کہوں گا کہ ہیومینٹی فرسٹ اور آئی ٹرپل اے ای (IAAAE) جو ہمارے مختلف جگہوں پہ نلکے وغیرہ لگانے کا کام کر رہی ہے، پانی مہیا کرنے کا کام کر رہے ہیں، جو لوگ ان کی مدد کر سکتے ہیں ان کو مدد کرنی چاہئے۔
بہرحال اب مَیں پھر اس اصل مضمون کی طرف آتا ہوں کہ غیروں کی عیدوں اور ہماری عیدوں میں کیا فرق ہے؟ غیروں کی عیدیں خوب ناچ گانا فحش اور گندے گیت گانا، کھانا پینا، غل غپاڑا کرنا، کھیل کود کرنا اور خریدو فروخت ہے جبکہ حقیقی اسلامی عید ایک مومن کی عید جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ ہم عید کے دن کہتے ہیں کہ آؤ آج عید کا دن ہے، ہم عام دنوں میں تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے کے لئے پانچ نمازیں پڑھتے ہیں آج ہم چھ پڑھیں گے۔
خوشی بھی ایک مومن کرتا ہے اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اس لئے خوشی کے موقع پر صاف ستھرے کپڑے پہنو عطر لگاؤ اس لئے کہ یہ سنت ہے اور ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کر کے دکھایا اور اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ خوشی بھی مناؤ۔ آج اچھے کھانے بھی پکاؤ اور کھاؤ اس لئے کہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا پہلے سے زیادہ موقع میسر آیا ہے۔ پس یہی حقیقی عید ہے۔ اگر یہ نہیں اور آج عید کی نماز کے بعد ہم بھی صرف شغل اور کھانے پینے میں مصروف ہوجائیں اور ہماری روحانیت میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو، رمضان میں سے جو ہم نے حاصل کیا اس کو ہم بھول جائیں۔ عید کی نماز کے بعد ہم ظہر عصر کی نمازوں کو بھول جائیں اورصرف دنیا داری کی مصروفیات اور لہو و لعب میں مصروف ہو جائیں تو ہم بھی اس شخص جیسے ہی ہو جائیں گے جس کو گندا کھانا اور گندا پانی ملا۔ جس نے اس کا پیٹ بھر کر اور پیاس بجھا کر تسکین دینے کی بجائے بیماریوں میں اسے مبتلا کر دیا ایک عارضی سہارا تو اس کو ملا لیکن مستقل نہیں بلکہ اسے مستقل پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہم ایسے بیوقوف شمار ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی پاک اور طیب غذا کو چھوڑ کر اور صاف اور ٹھنڈے پانی کو چھوڑ کر غلیظ اور گندی غذا کو ترجیح دیں گے۔ اگر یہ سوچ ہو گی تو کون ہمیں عقلمند کہے گا۔ اس گندی غذا دینے والے کو کوئی ظالم اور پاگل کہنے سے پہلے ہمیں پاگل اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا کہے گا جس نے پاک اور اچھی غذا چھوڑ کر صاف ٹھنڈا شیریں پانی چھوڑ کر گندی غذا اور گندے پانی کو ترجیح دی۔
پس آج ہمیں عقلمند اور اپنی جان پر ظلم نہ کرنے والا بننے کے لئے اپنی نمازوں اور نیکیوں کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج فرض نمازوں میں اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ مومن کی عید یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جائے اور جوں جوں اور جس طرح مومن کو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہ ملتی ہے اتنی ہی اس کی عید حقیقی عید بنتی جاتی ہے۔ پس ہمیں اس حقیقی عید کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اگر اس اصول کو ہم سمجھ لیں تو مومن کا ہر روز ہی روز عید بن سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم چاہو تو ہر روز ہی عید کر لو اور ایک مومن کی حقیقی عید تو جنت کا ملنا ہے۔صرف سال کی دو عیدیں تو مومن کے لئے خوشی کا ذریعہ نہیں ہیں کہ سال میں دو عیدیں منا لیں اور بس بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو خوش کر کے دائمی عید چاہتا ہے اور دائمی عید یہی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتیں مل جائیں اور جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا سے شروع ہو جاتی ہے۔ (ماخوذ از الفضل مورخہ 22 اگست 1955ء جلد 3 نمبر36 صفحہ 5-6)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو جو خدا تعالیٰ کی طرف صدق اور اخلاص سے قدم اٹھاتے ہیں وہ کبھی ضائع نہیں کئے جاتے۔ ان کو دونو جہان کی نعمتیں دی جاتی ہیں۔ جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔(الرحمٰن:47) (یعنی اور جو شخص اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں مقرر ہیں دنیوی بھی اور اخروی بھی۔) آپ فرماتے ہیں ’’اور یہ اس واسطے فرمایا کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میری طرف آنے والے دنیا کھو بیٹھتے ہیں۔ بلکہ ان کے لئے دو بہشت ہیں۔ ایک بہشت تو اس دنیا میں اور ایک جو آگے ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد دہم صفحہ 78۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے ایک حقیقی مومن کا مقام کہ اللہ تعالیٰ اسے نوازتا ہے جو اس کی رضا کی عید تلاش کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیاوی لحاظ سے بھی نوازا جاتا ہے اور روحانی لحاظ سے بھی اور جس کو اللہ تعالیٰ اس طرح نواز رہا ہے اس کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا عید ہو سکتی ہے؟ حضرت مصلح موعود نے ایک جگہ بڑی خوبصورت مثال بیان کی ہے کہ جس طرح دنیاوی گورنمنٹیں نمائشیں کرتی ہیں جن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو مختلف قسم کے مال اسباب دکھائے جائیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تحریک کی جائے تو عیدیں تو اصل میں آسمانی بادشاہت کی نمائشیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ بتایا کہ اگر تم چاہو تو ہر روز عید کر لو اور جیسا کہ آیت وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔ سے پتا چلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ اس دنیا کی جنت حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے ہر روز ہی عید منا سکتے ہو۔
پس عیدیں اس بات کا نمونہ ہے کہ ایک مومن خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے تلاش کرے اور جب خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے مل گئے اور خدا تعالیٰ راضی ہو گیا تو پھر اس سے بڑھ کر خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے اور یہ ایک ایسی خوشی ہے جو مکمل طور پر تسکین کا سامان کرنے والی خوشی ہے جو اس دنیا کو بھی جنت بنا دیتی ہے اور اگلے جہان کی جنت کے سامان بھی کر دیتی ہے۔ جس سے خدا خوش ہو گیا اس کے تمام رنج اور غم دور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں عیدوں پر اپنی سوچوں اور اپنے عملوں کے یہ طریق اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے طریق ہیں اور ایک مومن کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عید کا دن نہیں ہو سکتا جب خدا اس سے راضی ہو جائے۔ (ماخوذ از الفضل مورخہ 22 اگست 1955ء جلد 3 نمبر36 صفحہ 6)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے صحابہ میں بھی ایسا رنگ بھر دیا تھا کہ ان کی خوشی اللہ تعالیٰ کی رضا میں تھی۔ ان کو ذہنی سکون اللہ تعالیٰ کی رضا میں ملتا تھا۔ ان کی عیدیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں تھیں۔ بظاہر ان کے ایسے حالات تھے کہ انتہائی غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان میں سے بہت سے بلکہ اکثریت ایسوں کی تھی جنہیں دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ آجکل ہم گندم کا آٹا کھاتے ہیں بڑا باریک پسا ہوا آٹا کھاتے ہیں۔ نرم گرم اور قسم ہا قسم کی غذائیںکھاتے ہیں اور عیدوں پر غیر معمولی کھانے کے انتظام بھی ہم کرتے ہیں۔ لیکن صحابہ کو اس ابتدائی زمانے میں جَو کا آٹا کھانے کو ملتا تھا۔ آجکل شاید وہ کبھی کوئی کھانا پسند بھی نہ کرے اور وہ بھی چھنا ہؤا نہیں ہوتا تھا۔ ایک صحابی نے اس آٹے کی حالت یوں ایک سوال پوچھنے والے کے جواب میں بیان فرمائی جس نے پوچھا تھا کہ چھلنی کا رواج اس وقت تھا کہ آپ لوگ آٹا چھان کے کھاتے تھے؟ تو اس نے جواب دیا کہ پتھر پر جَو رکھ کر کُوٹ لیا کرتے تھے اور پھونک مار کر پھر اسے صاف کرتے تھے موٹا موٹا اور باریک کو علیحدہ کر دیتے تھے اور جو باریک آٹا ہوتا تھا اس آٹے کی روٹی پکا لیتے تھے وہ بھی مشکل سے حلق سے گزرتی تھی۔ (بخاری کتاب الاطعمۃ باب ما کان النبیؐ و اصحابہ یاکلون حدیث 5413)
حضرت ابوہریرۃؓ نے اپنی بھوک کا قصہ یوں بیان فرمایا ہے کہ میں بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اس بھوک کی حالت میں ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے لوگ گزرتے تھے۔ میرے پاس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گزرے۔ مَیں نے ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا۔ میری غرض یہ تھی کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ براہ راست سوال صحابہ نہیں کیا کرتے تھے ان میں غیرت تھی لیکن جب میں نے آیت کا مطلب پوچھا اور غرض تو کھانا کھانے کی تھی کہ سمجھ جائیں گے لیکن وہ آیت کا مطلب بیان کر کے چلے گئے۔ پھر حضرت عمر کا وہاں سے گزر ہوا۔ میں نے ان سے بھی آیت کا مطلب پوچھا۔ غرض یہی تھی کہ وہ کھانا کھلائیں۔ وہ بھی آیت کا مطلب بتا کر چلے گئے۔ میں دل میں بڑا پیچ و تاب کھاتا تھا کہ بھلا مجھے نہیں پتا کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے،یہ مجھے سمجھا رہے ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے۔ میری حالت دیکھی اور میری کیفیت کو بھانپ لیا۔ آپ مسکرائے۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ میرے ساتھ آؤ۔ آپ اپنے گھر پہنچے اور اندر جانے لگے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی۔ آپ کی اجازت سے اندر گیا۔ وہاں دودھ کا ایک پیالہ پڑا ہوا تھا۔ آپ نے گھر والوں سے پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ پتا چلا کہ فلاں عورت نے تحفہ بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ صُفہ کے رہنے والے جتنے لوگ ہیں ان کو بلا لو۔ وہاں جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کیونکہ بھوک سے میرا بڑا برا حال تھا اور میں نے سوچا کہ یہ پیالہ مجھے ہی مل جائے تو بہتر ہے۔ لیکن بہرحال تعمیل ارشاد میں گیا۔ حکم تھا سب کو بلا لایا۔ پھر میں نے سمجھا کہ اب آپ یہ دودھ کا پیالہ سب سے پہلے مجھے پینے کے لئے دیں گے اور میں اچھی طرح پی لوں گا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کسی اور شخص کو دیا۔ پھر دوسرے کو دیا۔ پھر تیسرے کو دیا۔ کہتے ہیں مَیں نے سمجھا کہ اب دودھ مجھے نہیں ملتا یہ تو ختم ہو جائے گا حتٰی کہ وہ جتنے آدمی تھے، سات آٹھ جو بھی تھے سب نے پیا۔ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ابوہریرہ لو پیو۔مَیں نے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور پیو۔ میں نے پھر پیا اور سیر ہو گیا۔ آپ نے فرمایا اور پیو۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اب تو بالکل گنجائش نہیں رہی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ لیا اور وہ بچا ہوا دودھ خود پی لیا۔ (بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیؐ واصحابہ … الخ حدیث 6452)
تو یہ حالت تھی ان لوگوں کی غربت کی۔ لیکن دل صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے طلبگار تھے۔ جنگوں میں بھی صحابہ خشک کھجوریں کھا کر اور چند گھونٹ پانی پی کر سارا سارا دن جنگ لڑتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ فتوحات دکھائیں، ان کو ایسے عید کے دن دکھائے کہ نہ کسی نے دنیا میں دیکھے اور نہ دیکھ سکتا ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ اُن کے زیر نگیں ہو گئے۔ یہی ابوہریرہ تھے جب ان کو کسریٰ کے شاہی لباس میں سے ایک رومال حصہ میں ملا تو انہوں نے اس میں تھوکا اور کہا کہ واہ ابوہریرہ! ایک وقت تھا جب تُو بھوک سے نڈھال ہو جایا کرتا تھا اور بعض دفعہ بیہوش ہو کر گر پڑتا تھا اور آج یہ حالت ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تُو تھوکتا ہے۔ (بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذکر النبی و حض علی اتفاق اھل العلم حدیث 7324) وہ غربت میں بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے تھے۔ بھوک اور اس کی وجہ سے بیہوشی تک کی کیفیت انہوں نے گوارا کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دَر چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم تھی کہ دلوں کی تسکین اس سے ہوتی ہے اور یہی دلوں کی خوشی ان کے لئے عید بن جاتی تھی۔ ہر روز انہیں عیدوں کی خوشخبریاں دیتا ہوا طلوع ہوتا تھا اور یہ دکھاتا تھا کہ اب کس طرح تمہارے لئے عید آ رہی ہے۔ پس عید دل کی خوشی ہوتی ہے۔ صرف نرم عمدہ غذا کھا لینا، شور شرابا کر لینا، بناوٹی باتیں کر کے عیدیں منا لینا، حقیقی عید نہیں ہے۔ حقیقی عید تو وہ ہے کہ ہم اپنے خدا کو راضی کر لیں۔جب وہ ہمارا نگہبان ہو جائے، جب ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے بن جائیں جو ہمارے ذمّہ ہیں۔ جب ہم اس کے حکموں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے والے بن جائیں، صرف خود غرضی ہمارا مقصد نہ ہو۔ جب ہم یتیموں اور غریبوں، ضرورتمندوں کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے ان کی مدد کرنے والے بن جائیں۔ اب یتیموں کے لئے بھی جماعت میں فنڈ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ عطیہ دیتے ہیں۔ بیرونی دنیا کے لوگوں کو پھر میں کہتا ہوں اس میں حصہ لینا چاہئے۔ یہ سب کام ہم نے کس لئے کرنا ہے؟ اس لئے کہ اس سے ہمارا خدا راضی ہوتا ہے۔ یہی چیز ہم میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا کرنے آئے ہیں۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 60۔ ایڈیشن 1985ءمطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا ’’اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 184۔ ایڈیشن 1985ء
مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں ’’یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیاداری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ ایسے شخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہئے کہ صحابہ کی زندگی کو دیکھو‘‘۔
فرمایا ’’انسان کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے‘‘۔ دیکھتا رہے۔
آپ نے فرمایا کہ ’’دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں‘‘۔پس ہمیں جن کو سہولیات ہیں، جن کو آرام ہے ان کو ہمیشہ اس آرام اور سہولت کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تبھی ہم عیدوں کو دائمی کر سکتے ہیں۔
فرمایا کہ ’’جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنّت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے ’’اور اس کو حیات طیبہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 185-186۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کی دوستی تو وہ ہے کہ دنیاداروں میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں۔ دنیاداروں کی دوستی میں تو عذر بھی ہے۔ تھوڑی سی رنجش کے ساتھ دنیادار دوستی توڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کے تعلقات پکّے ہیں۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ دوستی کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر برکات نازل کرتا ہے۔ اس کے گھر میں برکت دیتا ہے۔ اس کے کپڑوں میں برکت دیتا ہے۔ اس کے پس خوردہ میں برکت دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 187۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ وہ معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم حاصل کریں۔ صرف عارضی خوشیوں سے ہی خوش نہ ہو جائیں۔ عارضی عیدوں سے ہی خوش نہ ہو جائیں بلکہ مستقل خوشی اور مستقل عید کی تلاش کریں۔ اپنے خدا سے وہ تعلق پیدا کرنے والے ہوں جو کبھی ٹوٹنے والا نہ ہو۔ رمضان کی برکات کو جاری رکھنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو۔ وہ سچی عید حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں جو سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف توجہ دلانے والی ہو۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ یہ عیدیں تو نمائش کے طور پر ہیں جو اس مال سے فائدہ اٹھانے کی تحریک کرتی ہیں جو نمائش میں دکھایا گیا۔
خدا کرے کہ ہم نے رمضان کے دنوں میں جو برکات حاصل کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی مستقل تحریک پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرما دے۔ ہماری کمزوریاں اور بیماریاں عارضی طور پر دور ہو کر ہمیں خوشی پہنچانے والی نہ ہوں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہم صحتمند ہو جائیں۔ ہم خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور لڑائی جھگڑوں اور فسادوں کو دُور کر کے حقیقی عید منانے والے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔
اب اس کے بعد ہم دعا کریں گے۔ دعا میں امّت مسلمہ کو خاص طور پر یاد رکھیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔ خاص طور پر شام، عراق، لیبیا جو ملک ہیں ان میں تو بہت زیادہ خطرناک فساد ہے۔ ان کے لوگوں کو یاد رکھیں۔ وہاں کے احمدی بھی بڑی مشکلات میں ہیں۔ بعضوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ عیدیں کیا منائیں گے بیچارے۔ اور وہاں تک کھانے پینے کا سامان پہنچانا بھی بہت مشکل ہے۔ کچھ احمدیت کی وجہ سے وہاں اسیر بھی ہیں۔ تو ان کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ اور وہ لوگ جن کو حکم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت پیار اور بھائی چارے کا سلوک کرو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ بہت سارے دنیا کے ملکوں میں مسلمان ملکوں میں خاص طور پر حکومت رعایا کا خون کر رہی ہے۔ عوام حکومتوں سے لڑائی کر رہے ہیں اور مفاد پرست اور دہشتگرد اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان حالات میں صرف ان کے اپنے ذاتی مفادات ہیں اور نتیجۃً اسلام کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ پس اُمّت مسلمہ کے لئے بہت زیادہ دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ کے ان سب لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جو کسی بھی رنگ میں مشکلات میں گرفتار ہیں۔ جماعت کے کارکنان، خدمتگاروں، واقفین زندگی کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے قبول بھی فرمائے اور اپنی جناب سے ہمیں جزا دے۔ اللہ تعالیٰ عمومی طور پر سب کی مشکلات دور فرمائے۔ہر ایک کی زندگی میں آسانیاں پیدا فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفظ و امان میںرکھے اور اس کے ایمان و ایقان کو بڑھاتا چلا جائے تا کہ ہمیںحقیقی خوشیاں نصیب ہوں۔ پاکستان کے احمدی ہیں جو مشکلات میں گرفتار ہیں اور بعض جگہ ہندوستان میں بھی احمدیوں پر مشکلات ہیں۔ عرب ممالک اَور بھی ہیں جہاں احمدی مشکلات میں گرفتار ہیں۔ سب کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان سب کو حقیقی عید کی خوشیاں نصیب کرے۔
آپ سب کو بھی یہاں جو سامنے بیٹھے ہوئے ہیں عید مبارک ہو اور دنیا میں رہنے والے ہر احمدی کو عید مبارک۔
(خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعا کروائی۔)