خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26؍ جنوری 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بڑا فضل ہے کہ ہمارے اکثر چھوٹے بڑے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر بیتاب ہو کر،
گڑ گڑا کر عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے اور اس سے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے۔
اور بعض دفعہ دعا کی قبولیت کے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو غیروں کو بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کے قبولیت دعا کے متفرق نہایت ایمان افروز واقعات کا تذکرہ
پاکستان کے مُلّاں کے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بالکل خالی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نام پر اس کے حکموں کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے قوم میں بھی بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم پر بھی رحم کرے اور ان ظالموں سے قوم کو بھی جلد چھڑائے۔
مکرم چوہدری نعمت اللہ ساہی صاحب( سابق ناظم جائیداد صدر انجمن احمدیہ پاکستان) اور مکرم ظفراللہ خان بُٹّر صاحب (آف کرتو۔شیخوپورہ، پاکستان)کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر دعا کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلّاتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آ جاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اُس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟‘‘۔ فرمایا کہ ’’بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں مگر بچہ کی چلّاہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لا سکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’بچے کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتے کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 129۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بڑا فضل ہے کہ ہمارے اکثر چھوٹے بڑے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر بیتاب ہو کر، گڑ گڑا کر عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے اور اس سے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے۔ اور بعض دفعہ دعا کی قبولیت کے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو غیروں کو بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسی ناامیدی کی کیفیت ہو جاتی ہے اور کس طرح ہر طرف سے ناامید ہو جاتے ہیں اس وقت جب ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی کا باعث بنا۔ مَیں اس وقت بعض ایسے واقعات پیش کروں گا جو مختلف رپورٹس میں آتے ہیں۔
ناظر دعوت الی اللہ قادیان لکھتے ہیں کہ ضلع ہوشیار پور کے امیر نے بتایا کہ چند سال قبل ان کے گاؤں کھیڑا اچھروال میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں والے بہت پریشان تھے حتی کہ کنوئیں کا پانی بھی نچلی حد تک پہنچ گیا تھا۔ یہاں کی ہندو اکثریت نے وہاں کے معلم کو دعا کرنے کو کہا۔ مشرقی پنجاب میں معلم کو، مولوی کو ’میاں جی‘ کہتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ احمدی معلم کو دعا کے لئے کہیں گے تو ضرور بارش ہو گی۔ بہرحال ہمارے معلم نے پہلے تو ان کو اسلامی دعا کے آداب بتائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بتائیں۔ پھر دعا کروائی۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے اس معلّم کی دعا کو قبول فرمایا اور اپنے فضل سے دو تین گھنٹے کے اندر موسلادھار بارش برسا دی اور اپنے سمیع الدعا ہونے کا ثبوت دیا۔ اس واقعہ کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے گاؤں میں اچھا اثر ہوا اور گاؤں والوں نے برملا کہا کہ احمدیوں کی دعا کی وجہ سے بارش ہوئی۔
پھر اسی طرح جزائر فجی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ طوالو فجی کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس کے دورے پر جانے سے قبل طوالو کے مبلغ نے بتایا کہ یہاں ایک عرصے سے بارش نہیں ہوئی اور پانی کا انحصار بارش پر ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ دورہ پر جانے سے پہلے انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے خط لکھا کہ بارش کے لئے دعا کریں۔ کہتے ہیں جب ہم شام کو طوالو پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے بہت زیادہ پریشانی کا ذکر کیا کہ اب پانی بالکل خشک ہو رہا ہے ۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اسی دن رات کو نماز عشاء پر اعلان کیا کہ ہم نماز کا جو آخری سجدہ پڑھیں گے اس میں بارش کے لئے بھی دعا کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور رات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہوئی اور اس کے بعد تین چار دفعہ بارش ہوئی جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق ایک لمبے عرصے کے لئے خشک موسم کی پیشگوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم جہاں بھی گئے لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ آپ کے آنے پر یہاں بارش ہوئی ہے۔ چنانچہ کیتھولک چرچ کے بشپ اور فونا فوتی قبیلے کے ایک بڑے چیف نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور جماعت اور آپ کے خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں جو اس طرح غیر معمولی طور پر یہاں بارش ہوئی اور یہ بارش نہ صرف احمدیوں کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث بنی بلکہ غیر از جماعت کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان بنی۔
بعض جگہ بارش کا ہونا خدا تعالیٰ کی تائید اور قبولیت کا نشان بن جاتا ہے تو بعض جگہ بارش کا رکنا دعا کی قبولیت کا نشان بن جاتا ہے۔ اور غیر، چاہے اسلام کو قبول کریں یا نہ کریں لیکن اس بات کا ضرور اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا دعاؤں کو سننے والا خدا ہے۔
گنی بساؤ افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے معلّم عبداللہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ہم ایک گاؤں سین چانگ کَامْسَا (Sinchang Kamsa) میں تبلیغ کے لئے گئے اور لوگوں کو جمع کر کے انہیں جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔ جب انہیں تبلیغ کی جا رہی تھی تو اسی دوران سخت بارش شروع ہو گئی اور بارش کے شور کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ میری آواز حاضرین تک نہیں پہنچ رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ ابھی لوگ اٹھ کے چلے جائیں گے۔ لوگ پریشان ہو رہے تھے اور جانے والے تھے۔ تو کہتے ہیں اس وقت مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! بارش بھی تیری ہے اور جو پیغام میں لے کر آیا ہوں وہ بھی تیرا ہے لیکن بارش کی وجہ سے یہ لوگ تیرا یہ پیغام سن نہیں رہے۔ اور اٹھنے والے ہیں۔ کہتے ہیں ابھی دعا کرنے کی دیر ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بارش کو تھما دیا اور پھر وہاں موجود تقریباً ایک سو پچاس لوگوں کو تبلیغ کی گئی اور کہتے ہیں الحمد للہ تبلیغ کے بعد تمام افراد نے بیعت کرنے کی توفیق حاصل کی۔
دعا کے بعد بارش کے رکنے نے جہاں ہمارے معلّم کے ایمان کو مضبوط کیا وہاں ان لوگوں کو بھی دعاؤں کے سننے والے خدا کو دکھایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کس طرح نظر آتا ہے؟ خدا اسی طرح اپنی قدرتوں کو دکھا کر نظر آتا ہے۔ وہی لوگ جو بارش کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کر جانے والے تھے اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر نہ صرف بیٹھے رہے بلکہ احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کیا۔
اسی طرح باندوندو کے مبلغ حافظ مزمّل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں لوکل معلّم اور دو خدّام کے ساتھ ایک گاؤں کے دورے پر روانہ ہوا۔ راستے میں شدید بارش شروع ہو گئی۔ آگے جانا ناممکن دکھائی دیتا تھا کیونکہ راستہ کچا اور شدید پھسلن تھی ۔چنانچہ یہ کہتے ہیں ہم لوگ ایک جگہ پر رک گئے اور وہاں دعا کی کہ یا اللہ تیرے مسیح کا پیغام پہنچانے جا رہے ہیں۔ وہاں پہلے اطلاع کی ہوئی تھی۔ لوگ وہاں جمع تھے۔ تُو فضل فرما تا راستے کی ہر روک دُور ہو جائے۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فوراً ہماری دعا سن لی اور بارش اچانک رک گئی۔ کیونکہ بظاہر لگتا تھا کہ بارش شام تک چلے گی اس لئے ہم بڑے پریشان تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پروگرام کے مطابق صحیح وقت پر گاؤں پہنچے اور تبلیغی اور تربیتی پروگراموں کو انعقاد کیا۔
پھر بارش کے دعا کے ذریعہ رُکنے کے ضمن میں وہاب طیب صاحب سوئٹزرلینڈ کے مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جماعت نے زخوِل (Zuchwil) کے علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ خریدی۔ وہاں امن کی علامت کے لئے ایک پودا لگانے کے حوالے سے پروگرام رکھا گیا جس میں دوسرے مہمانوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ جس دن پودا لگانے کا پروگرام تھا اس دن پیشگوئی کے مطابق شدید بارش ہونی تھی۔ چونکہ پروگرام کی ساری کارروائی آؤٹ ڈور(out door) تھی اس لئے ان کو بڑی پریشانی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے مجھے بھی لکھا اور ان کے کافی خط آتے رہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ پروگرام والے دن جب وہاں گئے تو پہلے سخت بارش شروع ہو گئی اور بظاہر بارش کے رکنے کے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ مگر پھر دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ابھی پروگرام شروع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ بارش بالکل رک گئی اور سورج نکل آیا۔ کہتے ہیں کہ پروگرام کے وقت مقامی کونسل کے صدر بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بڑی حیرانی کے ساتھ یہی کہا کہ کیا آپ لوگوں نے اپنے پروگرام کے لئے موسم بھی آرڈر کروایا ہوا ہے؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ ہم دعا بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے خلیفہ کو بھی دعا کے لئے لکھا اور ہمیں پوری امید تھی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور اس طرح یہ پروگرام کامیاب رہا جس کی خبر وہاں کے لوکل اخباروں نے بھی دی اور اس کے ذریعہ سے کافی لوگوں کو جماعت کا تعارف پہنچا۔ بیشک ہم موسم کو آرڈر تو نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں لیکن اس خدا کے حضور ضرور جھکتے ہیں جس کے حکم کے تابع موسم ہے اور پھر وہی اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے۔
اب موسموں سے ہٹ کر قبولیت دعا کے بعض اَور واقعات ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ ہمارا خدا صرف موسموں کا خدا نہیں ہے بلکہ قادر مطلق اور ہر قسم کی دعائیں سننے والا خدا ہے۔ اس کی بیشمار صفات ہیں اور اپنی صفات کے وہ جلوے دکھاتا ہے۔
بینن سے معلم سلسلہ متین صاحب کہتے ہیں کہ چند دن ہوئے ایک نو مبایع دوست آئے کہ مربی صاحب ہمارے گھر آئیں۔ اس نے کہا کہ میری بیوی کی حالت بہت خراب ہے۔ تو کہتے ہیں اس بات پر میں اپنی بیوی کو لے کر ان کے گھر چلا گیا کیونکہ ان کی بیوی کا زچگی کا معاملہ تھا اس لئے عورت کی ضرورت تھی اور وقت بالکل قریب تھا اور اس کو بڑا تیز بخار تھا اور تیز بخار کی وجہ سے رِحم کے سکڑنے کی وجہ سے بچے کی پیدائش نہیں ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا کہ گزشتہ دو دفعہ بھی اس طرح ہی ہو چکا ہے جس میں یا تو بچہ بچ سکتا تھا یا والدہ۔ لہٰذا دونوں دفعہ انہوں نے والدہ کو بچانے کی کوشش کی اور اولاد کی قربانی دینی پڑی اور اب یہ تیسری بار ایسا ہو رہا ہے۔ معلّم سلسلہ نے کہا کہ ایسی حالت میں ہم دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں اور اپنے امام کو بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں لیکن اب تو یہاں اتنا وقت نہیں ہے۔ دعا کا جو ظاہری طریقہ ہے وہ تو کریں گے ہی اور لکھنے کا وقت نہیں۔ چلو ہم خود ہی دعا کرتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں کا واسطہ دے کر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر دعا شروع کی اور دعا ختم کرنے پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر پانی پر پھونکا اور اس عورت کو پلایا۔ کہتے ہیں اس طرح مَیں نے دو تین دفعہ کیا اور پانی پھونک کر عورت کو پلانے کے لئے بھجوایا۔ تیسری دفعہ خاوند خوشی سے آیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بیوی بھی بچا لی اور بیٹا بھی دے دیا اور اس نو مبایع کا ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی ذات پر اَور بھی بڑھا اور دعا پر ایمان مزید مضبوط ہوا اور تب سے یہ خود بھی باقاعدہ توجہ سے، انکسار سے، عاجزی سے، تڑپ سے دعائیں کرنے لگ گیا۔
اسی طرح ایک بیمار کا ذکر کرتے ہوئے کینیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں کی ایک جماعت کے صدر صاحب بہت بیمار تھے۔ ان کی خیریت دریافت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے دو ہسپتالوں سے جواب دے دیا گیا ہے اور اب میری حالت بہت خراب ہے۔ کسی وقت بھی آپ کوئی بری خبر سن سکتے ہیں۔ ان کی جلد کا رنگ بھی بہت بدل گیا تھا۔ جسم بالکل ٹھنڈا اور بے جان محسوس ہوتا تھا۔ انہیں تسلی دی کہ آپ ہمت نہ ہاریں۔ خود بھی دعا کریں اور معلم کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے مجھے بھی یہاں خط لکھا۔ معلم بتاتے ہیں کہ ایک ہفتے کے بعد جب مَیں دوبارہ اس جماعت میں نماز جمعہ پڑھانے گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کی حالت بہتر ہے اور کچھ دنوں بعد یہاں سے میرا جواب بھی ان کو مل گیا کہ اللہ تعالیٰ انشاء اللہ کامل شفا عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی صحت مسلسل بہتری کی طرف مائل ہوئی اور اب کچھ عرصہ بعد وہ بالکل تندرست ہو گئے ہیں اور اپنا کام کاج کر رہے ہیں۔ پس دعا کے طفیل انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی زندگی عطا ہوئی اور اس نے بھی ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے۔
پھر کرناٹک انڈیا سے وہاں کے امیر ضلع لکھتے ہیں۔ وہاں کے ایک جماعت کے صدر جماعت لکھتے ہیں کہ ان کو برین ٹیومر ہو گیا اور ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔ آپریشن کرتے وقت جان بھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے فوراً دعا کے لئے مجھے بھی یہاں لکھا اور میرا جواب بھی ان کو گیا کہ اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے۔ کہتے ہیں کہ ایک ماہ کے بعد ڈاکٹروں نے دوبارہ ان کا معائنہ کیا تو حیران ہو گئے کہ برین ٹیومر کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ حسین صاحب مکمل طور پر شفایاب ہو گئے۔
پھر ایک مریض کا ذکر ہے جس کے بارے میں حافظ احسان سکندر مبلغ بیلجیم لکھتے ہیں کہ ایک احمدی دوست داؤد صاحب بیمار تھے۔ ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ ان کے جگر گردے اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ہسپتال میں ہی انہیں دل کا دورہ بھی پڑا۔ انہیں وینٹی لیٹر(ventilator) پر لگا دیا گیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹروں نے جواب دے دیا یہاں تک کہ ان کی فیملی نے جماعت سے درخواست بھی کر دی کہ جنازہ وغیرہ کی تیاری میں مدد کی جائے۔ حافظ صاحب کہتے ہیں انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا خود بھی دعا کی۔ جماعت کو بھی دعاؤں کے لئے کہا۔ اگلے دن جماعتی وفد جس میں صدر انصار اللہ، سیکرٹری تبلیغ اور یہ شامل تھے ان کو وزٹ کرنے گئے تو ڈاکٹر کہنے لگے کہ ایک معجزہ ہوگیا ہے کہ جو دوائی ہم پہلے انہیں دے رہے تھے اور ان کا جسم اسے قبول نہیں کر رہا تھا اب وہی دوائی اثر کر رہی ہے اور ان کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ ہم نے ڈاکٹر کو کہا کہ یہ معجزہ دعا کی وجہ سے ہوا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ نئی زندگی عطا فرمائی ہے۔
دعا کی قبولیت کے بعض اور متفرق واقعات ہیں جو لوگوں کے لئے جماعت اور خلافت سے تعلق اور جماعت کی سچائی اور خدا تعالیٰ پر ایمان میں ترقی کا باعث بنتے ہیں۔
مصطفیٰ صاحب سعودیہ کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تھی کہ میرا تبادلہ فلاں شہر میں ہو جائے اور اس طرح مَیں فیملی کے ساتھ رہ سکوں۔ کہتے ہیں بظاہر یہ ناممکن تھا لیکن اب دعا سے ایک ایسا معجزہ ہوا کہ تبادلوں کی ایک رَو چل پڑی اور مَیں تینتیس نمبر سے ایک نمبر پر آ گیاہوں۔ یعنی اب جب بھی کوئی تبادلہ ہوا مجھے موقع دیا جائے گا اور اس میں فیملی کے ساتھ رہ سکوں گا۔ یہ کہتے ہیں میرے لئے تو یہ ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ اپنے اپنے حالات ہر کوئی جانتا ہے۔ بظاہر بعض باتیں بڑی معمولی معلوم ہوتی ہیں لیکن جس پر گزر رہی ہوتی ہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کی اَنہونی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور دعاؤں سے ہوگئی۔
تنزانیہ کے ریجن موروگورو کے معلّم لطیف صاحب ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کی ایک مسجد سے کسی نے سولر سسٹم کی بیٹری چوری کر لی۔ جب اگلے دن احباب جماعت کو پتا چلا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ پولیس میں رپورٹ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔ وہاں بھی کچھ نہیں ہونا۔ پولیس نے نوٹ کر لینا ہے اور قصہ ختم ہو جانا ہے تو بہتر ہے ہم دعا کریں۔ اللہ کے آگے جھکیں اور اس سے مانگیں۔ ہم یہ دعا کریں گے کہ جس نے بھی یہ بیٹری چوری کی ہے اس کو خود اللہ تعالیٰ سزا دے دے اور ہماری بیٹری ہمیں لَوٹا دے۔ کہتے ہیں اس موقع پر چوری کا سن کر بعض غیر احمدی لوگ بھی اکٹھے ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ خبر اس گاؤں میں پھیل گئی کہ احمدیوں نے دعا کی ہے کہ جس نے بھی بیٹری چوری کی ہے اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے اور سزا دے۔ غیر از جماعت احباب نے کہنا بھی شروع کر دیا کہ احمدیوں کی دعائیں بڑی قبول ہوتی ہیں۔ اب چور ضرور پکڑا جائے گا کیونکہ اب اس کے لئے کوئی اور راستہ نہیں۔ کہتے ہیں ابھی ایک ہی دن گزرا تھا کہ جس کسی نے بھی چوری کی تھی وہ چوری چھپے صبح سویرے بیٹری صدر صاحب جماعت کے گھر کے سامنے رکھ گیا۔ اس طرح کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کی دعا کو سنا اور غیر از جماعت احباب کا ایمان بھی دعاؤں پر مزید پختہ ہوا کہ یہ واقعی نیک اور سچے لوگ ہیں۔
بہرحال اس سے یہ تو پتا چل گیا کہ وہاں کے چوروں میں بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہے اور خدا تعالیٰ کے نام سے ڈر گئے۔ لیکن پاکستان کے مُلّاں کے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بالکل خالی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نام پر اس کے حکموں کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے قوم میں بھی بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم پر بھی رحم کرے اور ان ظالموں سے قوم کو بھی جلد چھڑائے۔
ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مبلغ انچارج صاحب گنی کناکری لکھتے ہیں کہ ایک مخلص نومبایع نوجوان سلیمان صاحب نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ وقف کر کے جماعت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم نے انہیں سیرالیون جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ تیاری شروع ہو گئی۔ کہتے ہیں جب ہم نے ان کے والدین جو ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے ان کو مشن ہاؤس بلوایا تا کہ ان کی رضامندی حاصل کی جا سکے تو بظاہر وہ خوش ہوئے اور تمام معلومات لے کر دو دن کے بعد واپس آنے کا کہہ گئے۔ واپس جا کر انہوں نے اپنے مولوی سے مشورہ کیا تو انہوں نے انہیں بہکا دیا اور ہمارے خلاف پولیس میں مقدمہ درج کروا دیا کہ جماعت احمدیہ ایک غیر مسلم اور متشدد جماعت ہے اور یہ لڑکے کو بھی ورغلا رہی ہے اور شدت پسند بنا رہی ہے ۔ کہتے ہیں اس پر ہمیں بڑی پریشانی ہوئی۔ مجھے بھی انہوں نے دعا کے لئے لکھا اور بہرحال میں نے بھی ان کو جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ کوشش کرتے رہیں دعا بھی کرتے رہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں جب پولیس نے انکوائری کی اور جماعت کا تعارف جب انہیں پیش کیا پولیس کو لیف لٹس (Leaflets)وغیرہ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پولیس کمشنر نے نہ صرف کیس خارج کر دیا بلکہ کہنے لگا کہ مجھے تو ان کا بیان کردہ اسلام زیادہ صحیح اور پُرامن لگتا ہے اور پولیس کمشنر نے کہا کہ مجھے مزید معلومات فراہم کریں مَیں بھی اس جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔
پھر ایک واقعہ مالی ریجن کے مبلغ مستنصر صاحب لکھتے ہیں کہ اس سال جلسہ سالانہ مالی کے لئے احباب کو تحریک کی کہ کثرت سے لوگ شامل ہوں۔چونکہ جہاں جلسہ ہونا تھا وہاں کا فاصلہ کافی ہے تقریباً چار سو کلو میٹر۔ وہاں کے رہنے والے غریب لوگ ہیں۔ وہاں جانے کا، اتنا فاصلہ طے کرنے کا دس ہزار فرانک سے زائد کرایہ لگتا ہے۔ غریب آدمیوں کے لئے اتنی رقم مہیا کرنا کہ سارا خاندان جائے بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو ایک ممبر یحيیٰ صاحب ہیں جو دریا سے مچھلیاں پکڑتے ہیں اور مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے بڑی کوشش سے سارے سال میں ایک آدمی کا کرایہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال تو مَیں گیا تھا۔ اس سال کیونکہ ایک آدمی کا کرایہ ہے اس لئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی بیوی کو جلسہ پر بھجواؤں گا۔ مربی صاحب نے انہیں کہا کہ آپ کی نیت تو اچھی ہے۔ لیکن کوشش کریں کہ آپ بھی جلسہ میں شامل ہوں اور اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دریا سے مچھلی کا ایسا شکار آپ کو دے دے کہ آپ کا بھی کرایہ بن جائے۔ چنانچہ جس دن صبح جلسہ کے لئے وہاں سے قافلہ چلنا تھا اس سے پہلے رات آٹھ بجے وہ شخص مشن میں آئے۔ ان کے ہاتھ میں تقریباً بارہ کلو کی ایک بہت بڑی مچھلی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جب صبح دریا میں جال ڈالنے گیا تو میں نے بڑی دعا کی کہ کل قافلہ روانہ ہونا ہے اور میرے پاس کرایہ نہیں ہے۔ اے اللہ میری مدد کر کہ مَیں جلسہ میں شامل ہو سکوں۔ نیت میری نیک ہے۔ کہتے ہیں عصر کے وقت جال نکالا تو یہ مچھلی لگی ہوئی تھی۔ جب کنارے پر آیا تو ایک آدمی نے اٹھارہ ہزار فرانک سیفا کی خرید لی۔ میں نے اس آدمی سے اجازت لی ہے کہ مَیں آپ کو مچھلی دکھاؤں۔ تو اس مچھلی سے میرا کرایہ بھی پورا ہو گیا ہے۔ ہم دونوں میاں بیوی شریک ہو سکتے ہیں اور زائد پیسے بھی بچ گئے۔
اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کے ذریعہ کس طرح احمدیوں کو ایمان میں پختگی اور خلافت پر یقین قائم فرماتا ہے اس بارے میں اپنا ایک واقعہ لکھتے ہوئے مالی کے ایک صاحب ادریس تراوڑے صاحب کہتے ہیں کہ 2008ء میں جب آپ نے گھانا کا دورہ کیا (جب مَیں 2008ء میں خلافت جوبلی کے جلسہ میں شامل ہوا تھا) تو اس وقت یہ احمدی شخص بھی جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں مَیں مرغیوں کا کاروبار کرتا تھا اور میں مرغیاں چھوڑ کر گھانا چلا گیا۔ پیچھے میری ساری مرغیاں مر گئیں۔ تو جس آدمی کے پیسوں سے مَیں یہ کاروبار کرتا تھا اس کو جب پتا چلا کہ مَیں احمدی ہوں اور احمدیوں کے جلسہ پر گیا ہوں اور مرغیاں مر گئی ہیں تو وہ مخالفت میں اور بھی اندھا ہو گیا اور میرے واپس آنے کے بعد مجھے پیغام بھیجا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر میرے ایک لاکھ پچاس ہزار فرانک سیفا واپس کرو۔ کہتے ہیں مَیں بہت پریشان ہوا۔ میرے پاس تو رقم نہیں ہے۔ یہ مخالف مجھے بہت ذلیل کرے گا۔ کہتے ہیں ساری رات مَیں نے بڑی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میرا کچھ انتظام کر دے۔ میں تو خلیفہ کی محبت میں جلسہ میں شامل ہونے کے لئے گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ ایک ٹرک سے کچھ اناج گرا ہوا ہے جسے مَیں سمیٹ رہا ہوں۔ ایک خاص جگہ دکھائی گئی کہ وہاں ٹرک ہے اور وہاں اناج گرا ہوا ہے۔ وہاں سے سمیٹ رہا ہوں۔ کہتے ہیں جو جگہ خواب میں دیکھی تھی مَیں صبح صبح وہاں گیا تو وہاں ٹرک تو کوئی نہیں تھا۔ لیکن اناج گرا ہوا تھا۔ کچھ دانے گرے ہوئے تھے جو مَیں سمیٹنے لگا تو اچانک ایک کالے رنگ کا پلاسٹک کا لفافہ ملا۔ اس کو کھولا تو اس میں ایک لاکھ اسی ہزار فرانک سیفا تھے۔ میں نے وہاں علاقے کے لوگوں سے پوچھا تو بتایا گیا کہ یہاں رات ایک ٹرک کھڑا تھا جو اَب سینیگال کی طرف چلا گیا ہے۔ میں نے لوگوںسے کہا کہ مجھے یہاں سے یہ رقم ملی ہے اگر کسی کی ہو تو بتا کر لے لے۔ کوئی آدمی نہیں آیا۔ بہرحال جب شام کو قرض خواہ قرض لینے آیا اور پھر بدتمیزی پر اتر آیا تو مَیں نے اسے کہا صبر کرو مَیں تمہیں قرض دے دیتا ہوں۔ میرا اللہ تعالیٰ نے انتظام کر دیا ہے اور میں نے اس کی وہ رقم واپس کر دی۔ کہتے ہیں اب کئی سال ہو گئے ہیں۔ لیکن اس رقم کی ملکیت کا وہاں کسی نے دعویٰ نہیں کیا ۔کوئی نہیں آیا اسے پوچھنے۔
اسی طرح جرمنی سے مبلغ سلسلہ حفیظ اللہ بھروانہ صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک نومبایع احسان صاحب جو لبنانی ہیں۔ ان کی وہاں جرمنی میں میرے سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران انہوں نے دعا کے لئے مجھ سے اپنی اسائلم کے حوالے سے مشکلات کا ذکر کیا کیونکہ پولیس نے ان کو بتایا تھا کہ انہیں کسی وقت بھی واپس بھجوا دیا جائے گا۔ کہتے ہیں لیکن اس آدمی کے ایمان میں بڑا اضافہ ہوا۔ خدا تعالیٰ نے بڑا معجزہ دکھایا کہ ان کا کیس باوجود اس کے کہ پولیس کا خیال تھا کہ کوئی سیاسی پناہ نہیں ملے گی اور واپس جائیں گے۔ تین سال کے لئے ان کو سیاسی پناہ مل گئی اور اب وہ بڑے خوش ہیں اور ہر ایک کو بتاتے ہیں کہ دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا ہے۔
اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کو بھی احمدیوں کی دعاؤں کی قبولیت کے ایسے نظارے دکھاتا ہے جو ان کو اس بات کا قائل کر دیتے ہیں کہ اسلام کا خدا دعاؤں کا سننے والا خدا ہے۔ مرزا افضل صاحب کینیڈا سے لکھتے ہیں کہ ہم وینکوور کے مغرب میں ایک انٹرفیتھ کانفرنس میں ایک شہر میں گئے اور ایک فون بک دیکھ کر ایک سکھ کو فون کیا کہ ہم یہاں انٹرفیتھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے ہمیں اپنے گھر خوش آمدید کہا۔ کھانا کھلایا۔ اپنے گھر میں ہی ہمیں ظہر عصر کی نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ انہوں نے کانفرنس میں ہر قسم کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ جب ہم چلنے لگے تو انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا کہ اس کے بیٹے کی تین بیٹیاں ہیں اور یہ کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بیٹا بھی دے دے۔ کہتے ہیں ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ ہاتھ اٹھا کے وہیں دعا بھی کی اور انہیں بتایا کہ ہم اپنے خلیفہ کو بھی دعا کے لئے لکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر ایک ڈیڑھ سال کے بعد ان کا بڑا خوشی سے فون آیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پوتا عطا فرمایا ہے۔
دعاؤں کے قبولیت کے یہ چند واقعات ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں۔‘‘ جیسا کہ شروع میں بچے کے چلّانے کی وجہ سے ماں کے دودھ کے اترنے کی مثال کا ذکر ہو چکا ہے۔ یہ قانون قدرت ہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اسی قانون کے تحت ’’ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 199۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اور اگر قبولیت دعا کے زندہ نمونوں کا حصہ بننا ہے تو پھر بعض لوازمات ہیں۔ بعض شرطیں ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں دعا قبول نہیں ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں کہ ان کے لئے بعض شرطیں بھی ضروری ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’دعا کے لوازمات سے اوّل ضروری یہ ہے کہ اعمال صالحہ اور اعتقاد پیدا کریں کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا‘‘ (ان کو بہتر نہیں کرتا) ’’اور دعا کرتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 200۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایمان کو جہاں اعتقادی لحاظ سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے وہاں عملی حالت کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ویسے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق پانچ وقت نمازوں پہ توجہ نہ دیں۔ لوگوں کے بنیادی حق ادا نہ کریں اور جب مشکل میں گرفتار ہوں تو اس وقت پھر ہمیں اللہ بھی یاد آ جائے۔ لوگوں کے حق ادا کرنے بھی یاد آ جائیں۔ پہلے اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہو گا۔ اعتقادی حالت جو بہتر کی ہے تو صرف اعتقادی حالت کے بہتر ہونے سے ہی کام پورا نہیں ہوتا جب تک عمل صالح نہ ہو۔ اور عمل صالح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کئے جائیں اور اس کے مخلوق کے حق بھی ادا کئے جائیں۔ پس یہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ پھر دعاؤں کو بھی سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے اور عبادتوں اور دعاؤں کے حق ہمیشہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز کے بعد مَیں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ مکرم چوہدری نعمت اللہ ساہی صاحب کا ہے جنہوں نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بلکہ اس سے پہلے ہی زندگی وقف بھی کی تھی اور صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ناظم جائیداد رہے ہیں۔ 15؍ جنوری کو کینیڈا میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے خاندان میں احمدیت حضرت حسین بی بی صاحبہؓ، والدہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ذریعہ آئی تھی انہوں نے اپنی ایک خواب کے ذریعہ قادیان جا کر بیعت کی تھی۔ حسین بی بی صاحبہ کے خاوند حضرت نصر اللہ خان صاحب کے چھوٹے بھائی غلام احمد صاحب نے بھی قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ چوہدری نعمت اللہ صاحب کے دادا تھے۔ چوہدری صاحب کو جماعتی خدمات کی توفیق ملی۔ امیر جماعت ضلع حیدرآباد رہے۔ انصار اللہ کے ضلع حیدرآباد کے ناظم رہے۔ قائد خدام الاحمدیہ حیدرآباد رہے۔ ناظم جائیداد صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان رہے۔ بچپن سے ہی باقاعدہ تہجد کے عادی تھے اور آخر دم تک اس کے لئے کوشش کرتے رہے۔ نماز باجماعت باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ موسم کی شدت سردی یا بارش میں آپ کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ مسجد پہنچیں اور نماز باجماعت پڑھیں۔ دعا پر آپ کو غیر معمولی یقین تھا۔ خلافت سے انتہائی عقیدت تھی ۔جلسہ سالانہ میں شمولیت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ خلافت سے پہلے ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع حیدرآباد کے دورے پر تھے تو راستے میں چوہدری صاحب کا گھر آتا تھا۔ آپ وہاں گئے۔ تھوڑی دیر قیام کیا۔ چوہدری صاحب تو گھر میں نہیں تھے ان کی اہلیہ سے فرمایا کہ چوہدری صاحب سے کہیں کہ اب دین کی خدمت کریں۔ حالانکہ ویسے تو جماعتی لحاظ سے وہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے خدمت کر ہی رہے تھے لیکن جب باقاعدہ ایک پیغام چوہدری صاحب کو ملا تو اس کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی۔ اس کا خط لکھا۔ ہمیشہ کارکنان سے پہلے دفتر میں پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ بڑے صابر اور شاکر تھے اور دوسروں کی تکلیف کا بڑا خیال رکھنے والے تھے۔ اپنے نفس پر قابو تھا۔ بڑے دھیمے ٹھنڈے مزاج کے تھے۔ معمولی بیماری یا تکلیف کا کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ملازمت کے دوران ان کی بڑی اچھی تنخواہ ہوتی اس کے باوجود کبھی اپنے پر زائد خرچ نہیں کرتے تھے یا پیسے کا اظہار نہیں تھااور بڑی ایمانداری سے انہوں نے کام کیا۔ ٹیکسٹائل ملوں میں انہوں نے کام کیا اس کی وجہ سے ان کے جو مالکان تھے ان کو بھی آپ پہ بڑا زیادہ اعتماد تھا۔ آپ کے بیٹے نے جب فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے شعبہ میں کام شروع کیا تو آپ کی ایمانداری کی وجہ سے بہت ساری ملوں کے مالکان نے کہا کہ آپ کے ساتھ ہم بغیر کسی گارنٹی اور ضمانت کے کام کر دیتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے یہی ضمانت کافی ہے کہ تم چوہدری صاحب کے بیٹے ہو۔ ان کا ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بڑا نام تھا۔ اولاد کو بھی ہمیشہ خلیفہ وقت کو خط لکھنے کے لئے تلقین کرتے رہتے تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی تھے۔
ان کے ایک عزیز لکھتے ہیں کہ چوہدری نعمت اللہ صاحب کے والد عنایت اللہ صاحب چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے چچا زاد بھائی تھے۔ ایک دفعہ ان کو پتا لگا کہ چوہدری نعمت اللہ صاحب سے ان کے والد ناراض ہیںتو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ان کے والد کو خط لکھا کہ میں پاکستان میں تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ کو عزیز نعمت اللہ پر کسی سبب سے کچھ خفگی ہے۔ کہتے ہیں مجھے تو نہیں معلوم کس وجہ سے خفگی ہے۔ بہرحال مَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ جتنا عرصہ عزیز نعمت اللہ انگلستان میں رہا۔ یہاں وہ پڑھنے کے لئے آئے تھے جب چوہدری صاحب بھی یہاں ہوتے تھے۔ میں جب بھی انگلستان گیا وہ مجھ سے ملتا رہا اور جب وہ اپنی بیماری کے عرصہ میں سوئٹزرلینڈ میں تھا تو وہاں بھی ملاقات ہوتی رہی۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مَیں نے عزیز کو ہر طرح سے فرمانبردار، متواضع، شریف الطبع، خوش اخلاق اور مخلص معاون پایا۔ اس کے حسن اخلاق اور اس کی طبیعت کی شرافت پر آپ کواس کا باپ ہونے کے لحاظ سے بجا طور پر فخر ہونا چاہئے۔ پھر لکھتے ہیں کہ جتنا عرصہ باہر رہا نہایت نیک رہا اور میری طبیعت اس سے بہت خوش رہی۔ میں متواتر اس کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں اور اب بھی ہر نماز میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں کہ نہایت سچائی سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے تینوں عزیزوں میں سے جو اس عرصے میں انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے (کہتے ہیں کہ) عزیز نعمت اللہ ان تینوں میں سب سے زیادہ نیک اور شریف طبیعت ہے۔
پھر ان کے دفتر نظامت جائیداد کے ایک مختار عام لکھتے ہیں کہ کبھی ان کا افسروں والا رویّہ نہیں تھا بلکہ ہمیشہ شفیق بزرگ ہی انہیں پایا۔ نہایت درجہ کا عجز و انکسار تھا۔ بڑی درویش صفت طبیعت تھی۔ دنیاوی طور پر نہایت کامیاب اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے مگر اس کے باوجود کمال کی عاجزی تھی اور افسران کے ساتھ تعلق میں نہایت درجے کے مؤدب اور احترام والا تعلق تھا۔ افسر ان کا چاہے عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہوتا بڑی عزت اور احترام کرتے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے اور بڑا صحیح لکھا ہے کہ وقف زندگی کی منظوری کے بعد وہ اپنی ذات کو مٹا چکے تھے۔ اَنانیت کا کوئی پہلو ان کی ذات میں نظر نہیں آتا تھا۔ کہتے ہیں اکثر میں دفتر میں جب بھی آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے۔ کہتے ہیں جہاں نظام جماعت کی بات آتی تو تمام تعلقات اور رشتوں کو ایک طرف رکھ دیتے۔ ویسے بڑے رشتوں کو نبھانے والے تھے۔ کہتے ہیں ربوہ میں کسی احمدی نے جماعت کی جگہ پر قبضہ کر لیا تھا اور لوگوں کو یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ چوہدری صاحب سے میری رشتہ داری ہے اور مجھے کوئی کچھ نہ کہے۔ چوہدری صاحب کو جب معلوم ہوا تو بڑی سختی سے اس شخص سے پیش آئے۔ کہتے ہیں ایسی سختی انہوں نے پہلے کسی اور سے نہیں کی جتنی اس اپنے رشتہ دار سے کی حالانکہ اور بھی ناجائز قابضین تھے۔
یہ کہتے ہیں کہ ایک بار مجھے چوہدری صاحب نے بتایا کہ میں نے ساری زندگی کبھی اپنی اہلیہ سے لڑائی نہیں کی۔ خلافت کا ذکر ہوتا تو آنکھوں میں چمک آ جاتی ۔ ایک دفعہ ان کے ایک بیٹے کا کہیں رشتہ ہوا تو ان کو کسی ذریعہ سے پتا لگا کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع کو یہ رشتہ پسند نہیں ہے۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ مَیں تمہیں یہ تو نہیں کہتا کہ رشتہ توڑ دو۔ ختم کر دو۔ زبردستی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ جب مجھے یہ پتا لگ گیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو پسند نہیں تو مَیں اس شادی میں شامل نہیں ہوں گا۔ تو پھر بیٹے نے خود ہی وہ رشتہ ختم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ ظفراللہ خان بٹّر صاحب کرتو، شیخوپورہ کا ہے۔ ان کی 9؍جنوری کو وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے والد چوہدری اللہ دتّہ صاحب نے 1928ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ اپنے گاؤں کرتو ضلع شیخوپورہ میں ان کو بطور صدر جماعت خدمت کی توفیق ملی۔ نماز تہجد بہت باقاعدگی سے ادا کرنے والے۔ پنجوقتہ نماز ادا کرنے والے۔ خطبات باقاعدگی سے سننے والے۔ چندوں میں بہت باقاعدہ تھے۔ طبیعت میں سادگی تھی لیکن اولاد کی تربیت کے معاملہ میں ہر باریک پہلو کو مدّنظر رکھتے تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے ساجد محمود بٹر صاحب مربی سلسلہ ہیں اور آجکل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا میں بطور استاد خدمت بجا لا رہے ہیں۔ اپنی جماعتی ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنے والد کی وفات پر پاکستان نہیں جا سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ یہ کہتے ہیں کہ بچپن میں ہمیشہ ماں باپ نے ہماری تربیت کا خیال رکھا۔ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ مسجد لے کر جاتے تھے اور جب کوئی مہمان آتا تو بڑی خوشی سے میرا تعارف کرواتے کہ میں نے اس بیٹے کو وقف کیا ہے اور اسے جامعہ بھجوانا ہے۔ کہتے ہیں اس کا یہ اثر تھا کہ کبھی میرے دل میں کسی اور تعلیم کا خیال ہی نہیں آیا اور ہمیشہ یہی خیال رہتا کہ میں نے جامعہ جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی اولاد میں بھی جاری رکھے اور جس جذبے اور احساس سے انہوں نے اپنے بیٹے کو وقف کیا تھا اللہ تعالیٰ ان کے بیٹے کو بھی حقیقت میں وقف کی روح کے ساتھ اپنے وقف کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے