متفرق شعراء
زندگی اُس کے نام کر بیٹھے
اسکو مانا سلام کر بیٹھے
اسکو اپنا امام کر بیٹھے
اپنی منزل کو مارنے کےلئے
راہ کا انتظام کر بیٹھے
بادشاہوں سے ہے وہ افضل جو
خود کو اُسکا غلام کر بیٹھے
جو غلامِ غلامِ احمد ہو
آگ خود پر حرام کر بیٹھے
زندگی مل گئی ہے جب سے ہم
زندگی اُس کے نام کر بیٹھے
اپنی نسلوں کی عافیت کے لئے
جو ضروری تھا کام کر بیٹھے
دان لے کر ہی اُس سے جائیں گے
اُس کے دَر پر قیام کر بیٹھے
ہاں محبت ہے تم سے بے حد ہے!
بات ہم دل کی عام کر بیٹھے
کیا دکھائیں گے جا کے مُنہ اپنا
باتوں باتوں میں شام کر بیٹھے
کوئی خوش ہے ظفرؔ کوئی نالاں
تم یہ کیسا کلام کر بیٹھے