امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ بھارت (طالبات) کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۰۸؍جنوری ۲۰۲۳ء کو لجنہ اماء اللہ بھارت کی طالبات کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ قادیان دارالامان سے لجنہ اماء اللہ بھارت کی ممبرات نے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ اور نظم سے ہوا۔بعد ازاں سیکرٹری صاحبہ امور طالبات نے بھارت میں تعلیمی میدان میں احمدی خواتین کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی۔
اس کے بعدایک پی ایچ ڈی طالبہ نے کڑی پتا کے جلد کے کینسر پر اثرات کے حوالے سےاپنی تحقیق پیش کی جس میں انہوں نے ذکر کیا کہ چوہوں پر تجربات کے ذریعہ مثبت اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔
اس پر حضور انور نے ان سے استفسار فرمایا کہ کیا انسانوں پر اس کا تجربہ شروع کیا ہے جس پر موصوفہ نے نفی میں جواب دیا۔
حضور انور نے موصوفہ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ صرف لیبارٹری میں نہ بیٹھی رہیں بلکہ باہر نکل کر surveyبھی کرنا چاہیے تا کہ ڈیٹا اکٹھا ہو کہ جن علاقوں میں کڑی پتا استعمال ہوتا ہے وہاں اس سے کیا فائدہ ہو رہا ہے ۔
اس کے بعد لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مختلف امور پر سوالات کرنے کا موقع ملا۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ کیا لڑکیوں کو لاء، سول سروس،نیوی یا آرمی میں جانے کی اجازت ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ لاءکرنے کی اجازت ہے۔ہیومن رائٹس کے اوپر کرو تو زیادہ اچھا ہے۔کریمینل لاء میں لڑکیوں کو نہیں جانا چاہیے۔وہاںمسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سول سروس میں جا سکتی ہیں لیکن وہاں اپنے حیا دار لباس اورپردے کا خیال رکھنا پڑے گا۔یہ نہیں کہ ان علاقوں میں پوسٹنگ ہو جائے جہاں نقاب اور برقع لینا منع ہے۔حیا دار لباس اور پردے کا خیال رکھتے ہوئے احمدی خواتین جا سکتی ہیں۔ باقی رہ گئی نیوی اور آرمی تو یہ دونوں شعبے احمدی لڑکیوں کےلیے مناسب نہیں ہیں۔آج کل کا ماحول ایسا نہیں ہے کہ اس میں جائیں۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ انڈیا میں حجاب کی بہت مخالفت ہے۔ انٹرنس examکے وقت ہمیں ہمیشہ حجاب اتارنے کاکہاجاتا ہے۔حال ہی میں میڈیکل کے لیے ایک examہوا جس میں ایک بچی کو اس لیے بیٹھنے سے روک دیا گیا کیونکہ اس نے حجاب نہیں اتاراتھا۔اگرایک احمدی بچی کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو کیا اسے حجاب اتار دینا چاہیے؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ حجاب کی کیا تعریف ہے؟ اگر تو صرف سرڈھانکا ہوا ہے اور چہرہ ننگا ہے تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ سر ڈھانکیں اور یہاں سے یہاں تک [حضور انور نے ہاتھ کے اشارے سے دکھایا کہ ماتھے سے لے کر]ٹھوڑی سے نیچے تک باندھ لیں تو میرا نہیں خیال کہ آپ کو اس میں کوئی روکے گا۔ اگر اس پر بھی آپ کو کوئی روکتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے حیا کا اور لباس کا خیال رکھیں۔پھر اس کے خلاف legal fightکریں کہ ہمیں کیوں روکا گیا ہے۔ اس کے لیے نظارت تعلیم کو چاہیے کہ کوشش کرے، ان لوگوں کو لکھے،administrationکو لکھے۔ پھر جو سٹوڈنٹ ہیں اپنے طور پر خود بھی legal fightکریں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ restrictionsکیا ہیں ؟کس حد تک ہیں؟ ایک یہ ہے کہ نقاب سر سے اتار دو ،سر ننگا کرو۔ یہ تو کہیں بھی نہیں کہا جاتا۔ انڈیا کا جو معاشرہ ہے اس میں کئی عورتیںہندو سکھ بعض ایسی ہیں جو سر کو ڈھانک کر رکھتی ہیں۔ کس حد تک روکا جاتا ہے؟پہلے تو یہ defineکریں۔
حضور انور کے استفسار پر ان خاتون نے عرض کی کہ کئی سینٹرز پر اسکارف اتارنے کا کہا گیا تھا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر ان کی رپورٹ ہونی چاہیے۔نیچے کوٹ پہنا ہو۔ ڈھیلا لباس پہنا ہو،حیادار لباس پہنا ہواور سر پہ دوپٹہ ہو۔اس کے خلاف تو کوئی نہیں بول سکتا۔وہ تو ہندو سکھ سارے لیتے ہیں۔ وہ دوپٹہ لے کے اپنا ٹیسٹ دے دیں لیکن ساتھ اپنا کیس بھی fightکریں کہ یہ discriminationکیوں ہے؟ جب ہمارا rightہے کہ ہم پہنیں۔ کل سکھوں کو یہ کہہ دیں گے کہ تم پگڑی نہ پہنو۔ یا ان کے بعض اور لباس ہیں۔یہ تو غلط ہے۔اس کے خلاف آپ کو آواز اٹھانی چاہیے، سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کو بھی لکھنا چاہیے۔اخباروں میں بھی لکھنا چاہیے کہ یہ کیوں ہوا اور اگر individual caseایسا ہوتاہے تو اس کے خلاف legal fightکریں۔ اب آپ نے یہ دیکھنا ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِپہ عمل کرنا ہے یا دنیاداری کے لیے اپنے آپ کو ننگا کرنا ہے۔یہ خود ہی سوچ لو۔بہرحال قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جہاں تک fightہو سکتی ہے ہمیں کرنی چاہیے۔ کم از کم دوپٹہ تو اوڑھنا چاہیے۔اس پہ کوئی نہیں روک سکتا۔ کووڈ کے دنوں میں لوگ ماسک بھی تو پہن کے رکھتے ہیں۔اُس وقت تو چہرے چھپے ہوتے ہیں۔ تو ان سے پھر کہو کہ اس کی بھی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن دوپٹہ بہرحال ہونا چاہیے اور اگر نہیں ہے تو exam نہ دیں اور legal fightکریں۔
لجنہ اماء اللہ کی ایک ممبر نے سوال کیاکہ ایک احمدی سٹوڈنٹ یا عورت کے لیے سوشل events پر پردے میں رہتے ہوئے تصویر کھنچوانا کس حد تک جائز ہے؟ کئی موقعوں پر مثلاً interfaithکانفرنس ہو یا کوئی پروفیشنل event ہو،جہاں ہم پردے میں بھی ہوتی ہیں اور منع بھی کر دیتی ہیں،ایسے میں کئی مرتبہ غیر از جماعت خواتین کی طرف سے بہت اصرار کیا جاتا ہے کہ آپ پردے میں ہیں تو پھر تصویر کیوں نہیں کھنچوا سکتی؟ایسی situationمیں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر آپ پردے میں ہیں اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے اور پورا کوٹ پہنا ہوا ہے تو کوئی ہرج نہیں ۔اگر ایک گروپ میںآ رہی ہیں اور پردہ کیا ہوا ہے اور سر بھی ڈھانکا ہوا ہے اور قرآن کریم کا جوپردےکاحکم ہے اس کے مطابق جسم کو بھی پوری طرح ڈھانکا ہوا ہے۔چاہے وہ کوٹ سے ڈھانکا ہو اہے یا چادر سے ڈھانکا ہوا ہے تو پھر اگر تصویر کھنچ جاتی ہے تو کوئی ہرج نہیں۔لیکن اگر چہرہ بھی ننگا، سر بھی ننگا، لباس بھی حیا دار نہیں تو پھر غلط ہے ۔پھر تصویر نہیں کھینچنی۔
انہی خاتون نے حضور انور کی اجازت سے دوسرا سوال ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کیا کہ جیسا کہ آفات آتی ہیں اور جنگیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یوکرین کی جنگ جس میں بہت سے معصوم لوگ مارے گئے تو لوگوں نے یہ کہا کہ اب خدا کہاں ہے؟ اسی طرح ہمارے پروفیشن میں بھی ایسے کیسز ہوتے ہیں جہاں معذوربچے پیدا ہوتے ہیں۔ایسے میں بھی بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا کہاں ہے؟ ہماری کیا غلطی تھی؟ ایسے میں ہمارا کیا جواب ہونا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون قدرت ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ تم لوگ میرے قانون قدر ت کے خلاف چلو گے تو تب بھی میں تمہیں بچا لوں گا۔ جنگیں ہوتی ہیں۔جنگوں میں بم پڑتے ہیں اس میں معصوم بھی مارے جاتے ہیں، بچے بھی مارے جاتے ہیں ۔کیونکہ ایک انسانی غلطی کی وجہ سے جنگ ہو رہی ہےاس لیے اس میں لوگ بہرحال مرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ اسلام کی فتح ہوگی۔جنگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ تم کافروں کے خلاف جنگ کرو گےاورمَیں تمہاری مدد کروں گا۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا ۔ہم مسلمان یہ مانتے ہیں کہ جنگیں ہوئیں اور مسلمان بھی شہید ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ کوئی شہید نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا جو شہید ہو گا اس کا بڑا اونچا مقام ہو گا لیکن ultimately فتح تمہاری ہو گی اور وہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا اور وہ پورا بھی کر دیا۔
عمومی طور پر دنیا کے قانون میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک چیز کے بارے میںکہتا ہے کہ اگرتم یہ کرو گے تو اس کا یہ نقصان ہو گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتا دیاتو پھرانسان کہے کہ مَیں وہ کروں اور پھر نقصان سے بھی بچ جاؤں تو ایسے نہیں ہو سکتا۔
باقی رہ گئی بات کہ بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بھی ریسرچ کر کے دیکھ لیںتو معلوم ہو گا کہ انسانی کمزوریاں اور غلطیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔اس کے اوپر حضرت مصلح موعود ؓکی کتاب ہے Ten Proofs for the Existence of Godیا ’’ہستی باری تعالیٰ ‘‘وہ پڑھیں، اس میں آپ کو تفصیلی جواب مل جائے گا۔ دو کتابیں ہیں۔ ایک کتاب ’’دس دلائل ہستی باری تعالیٰ‘‘ہے۔ وہ پچیس چھبیس صفحات کی چھوٹی سی کتاب ہےاور ایک کتا ب ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ہےجوسو صفحہ کے قریب کچھ تفصیلی ہے۔ وہ دونوں پڑھیں ان میں جواب بھی مل جاتے ہیں۔اس میں آپؓ نے یہی بتایا ہوا ہے کہ جو معذور بچے پیدا ہوتے ہیں وہ کیوں ہوتے ہیں۔آپ کو ان میں تفصیلی جواب مل جائے گا ۔
دراصل یہ بھی انسانوں کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ بعض ماں کی کمزوریاں ہوتی ہیں باپ کی کمزوریاں ہوتی ہیں اس کا یہ قدرتی نتیجہ نکلتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی پیدائشی کمزوریوں کی وجہ سے ان کو کسی بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔بلکہ ہم اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد اگلے جہان کی زندگی ہے وہاں ان کے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ صحت دیتا ہے، پورے اعضاء سلامت رکھتا ہے اور پھر وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ نہیں کرتا تو پھر ان سے جو غلطیاں ہوتی ہیں اس کو سزا ملتی ہے۔لیکن جو لوگ ان چیزوںسے محروم ہیں ان کو سزا بھی نہیں ملتی۔ ان کو اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں rewardدے دیتا ہے ۔ ہمارا اصل زندگی کا تصور تواگلے جہان کی زندگی کا ہے۔یہ وہ تصور ہے۔ بہرحال آپ یہ دونوں کتابیں پڑھ لیں ان میں آپ کو اس کا تفصیلی جواب ملے گا۔
کمپیوٹر سائنس کی ایک طالبہ نے سوال کیا کہ کمپیوٹر سائنس میں نئی ایجادات جیسے artificial intelligenceیا data analyticsکو قرآن کریم کی تعلیمات سے کس طرح جوڑا جا سکتا ہے اور ان میں کس طرح تطابق پیدا کی جاسکتی ہے؟نیز یہ جدید علوم اور سائنس حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی ایجاد اللہ کے قانون میں مداخلت نہ کرے جائز ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔ لیکن قرآن کریم میں مخلوق میں تبدیلی کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسے cloningمیں کیا جاتاہے۔قرآن کریم کہتا ہے کہ جو چیز بھی انسانیت کے لیے مفید ہو وہ جائز ہے۔
ایک مومن جب اپنی ریسرچ میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ اپنی کامیابی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔لیکن ایک دہریہ جو محنت کرے اور وہی کامیابی حاصل کرے وہ اپنی کامیابی کو اپنی عقل اور علم کی طرف منسوب کرے گا۔
حضور انور نے فرمایا کہ وہ دونوں ایک ہی نتیجہ حاصل کرتے ہیں لیکن ایک مومن جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرتا ہے، اس نے جو حاصل کیا ہو گا وہ اس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی کا موجب ہو گا کیونکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی کامیابی کو اس کے فضلوں کی طرف منسوب کرتا ہے۔
لجنہ اماء اللہ کی ایک ممبر نےسوال کیا کہ اگر ہمیں کبھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے کہ ملکی قانون یا اسلامی قانون میں سے کسی ایک کو chooseکرنا ہو تو ہمیں کیا chooseکرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے سے کیا مراد ہے؟ ملکی قانون جو شریعت کے واضح حکموں سے نہیں ٹکراتا وہ تو ہم نےماننا ہے۔ باقی اگر ملکی قانون ہمیں شریعت کے حکموں پہ عمل کرنے سے روکتا ہے جس طرح پاکستان میں احمدی مسلمان کلمہ نہیں پڑھ سکتے۔ہم کہتے ہیں کہ ہم ہر دوسرے ملکی قانون پر عمل کریں گے لیکن یہ ہمارا ذاتی فعل ہے،مذہب کا معاملہ ہے ،خدا کا معاملہ ہے ،اس لیے ہم کلمے کے اوپر یقین رکھتے ہیں ،ایمان رکھتے ہیں۔
پاکستان میں قانون کہتا ہے کہ احمدی نمازیں نہیں پڑھ سکتے۔ السلام علیکم نہیں کہہ سکتے۔ کوئی اسلامی شعار کا استعمال نہیں کر سکتے۔ وہ ہمارا حق ہے ہم کرتے ہیں۔وہ قانون ہم نہیں مانتے ۔جہاں ملک کے ساتھ وفا کے تعلق کا سوال ہے ہم اس سے وفا کرنے والے ہیں،جہاں ملک میں امن و سلامتی کا تعلق ہے ہم اس کے ساتھ ہر جگہ اس کے لیے قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہر ملک میں ہر احمدی ایسا ہے ۔ لیکن اگر ملکی قانون ہمیں شریعت کے واضح احکامات سے ٹکرانے کاکہتاہے تب ہم نے اس کو نہیں ماننا ۔ ہندوستان میں تو کوئی ایسا قانون نہیں ہے۔پردے کے لیےآپ لوگوں کو فائٹ کرنا چاہیے۔ مستقل لابنگ کریں۔ہر صوبے میں مہم چلائیں۔احمدی مہم چلائیں۔مرد بھی اور عورتیں بھی تو ہی آپ کے حق میں ماحول پیدا ہو جائے گا۔ آج نہیں تو پانچ دس سال بعد۔آخر اس قانون کو repealکرنا پڑے گا ،ان کو اسے منسوخ کرنا پڑے گا ۔ اپنے ساتھ ہندو اور سکھ عورتوں کو بھی ملائیںکہ ہمارے حق مارے جا رہے ہیں۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ آن لائن ٹیچنگ کے دوران جس میں ٹیچر کو سامنے موجود ہو کر پڑھانا پڑتا ہے اس میں کئی بار سٹوڈنٹس screen recordingکر کے یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ اس situationمیں ایک احمدی لیڈی ٹیچر اپنے پردے کا کس طرح خیال رکھے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ جب آپ پڑھا رہی ہیں تو اگر آپ نے اپنا سر ڈھانکا ہوا ہے اور ماتھا ڈھانک کر آپ کا چہرہ ننگا ہے اورآپ پڑھا رہی ہیں تو اس طرح کے حجاب میں پڑھانے میں کوئی ہرج نہیں۔
اگر وہ ریکارڈ ہو جاتا ہے تومجبوری ہے۔آپ کا پروفیشن ایسا ہے۔اس میں اگر سٹوڈنٹ نے اپنے یاکسی سٹوڈنٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسا کیا ہے تو کوئی ہرج نہیں ۔لیکن عمومی طور پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کیونکہ وہاں آپ کا چہرہ نظر آ گیا اس لیے آپ پردہ ہی چھوڑ دیں۔ وہ غلط ہے۔ یہ توایک مجبوری ہے ۔ لیکن اس مجبوری میں بھی جو کم از کم معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بال ڈھانکے ہوں ،کندھے ڈھکے ہوں اور ٹھوڑی بھی۔چہرے کے گرد ایک رِنگ بنا ہو۔اس میں آپ کے ہونٹ بھی ننگے ہوتے ہیں آنکھیں بھی ننگی ہوتی ہیں آپ آرام سےپڑھا سکتی ہیں ۔ یہ مجبوری کے وقت آپ کر سکتی ہیں لیکن اس کی عمومی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ نہیں کہ پھر عام طور پر اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈالنی شروع کر دیں یہ غلط طریق ہے ۔اس سے اور قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔
یہاں تو آپ کو پتا ہے کہ آپ نے ایک لیکچر دیا، ٹیچنگ کی اورسٹوڈنٹ نے انٹرنیٹ پر ڈالا۔ آپ نے کہاں تک اس کو روکنا ہے ، اس کی کیا حدود ہیں اور جس سٹوڈنٹ کو آپ پڑھا رہی ہیں اس کو آپ کنٹرول کر سکتی ہیں۔لیکن جب عمومی طور پر آپ کر دیں گی تو پھر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں رہے گا۔ پردے کا کم از کم معیار میں نے بتا دیا ہے۔آپ نے اس میں میک اپ کر کے نہیں آنا ۔ کم از کم معیار پردے کا ہونا چاہیے کہ چہرہ ننگا بھی ہو تو بال ڈھانکے ہوں اور ٹھوڑی ڈھکی ہو ۔ [چہرے کے گرد حضور انور نے اشارہ کر کے دکھا یا کہ]یوں ایک رِنگ بنا ہو۔ اس میں آپ پڑھا سکتی ہیں اور اگر وہ انٹرنیٹ پرچلا جاتا ہے تو کوئی ہرج نہیں لیکن اس وجہ سے کہ کیونکہ ایک جگہ آپ کی تصویر چلی گئی ہے اس لیےآپ کو کھل مل گئی، چھٹی مل گئی کہ ہر تصویر آپ ہر سوشل میڈیا پر ڈالنا شروع کر دیں وہ غلط ہے۔
جس چیز کی مجبوری ہے اور اس کا فائدہ ہے۔ آپ پڑھا رہی ہیں ۔ایک تو مجبوری ہے کہ آپ نے پڑھانا ہے۔ دوسرا جو پڑھا رہی ہیں وہاں آپ کوئی گانے تو نہیں سنا رہیں نہ کوئی ناول سنا رہی ہیں۔ آپ تو انہیں مضمون کے متعلق پڑھا رہی ہیں۔ تو اس مضمون کے بارے میں کیا کوئی غلط بات نکالے گا؟ اگر کوئی آپ کی تصویر نکال کے سوشل میڈیا پہ ڈالتا ہے تو اس پہ آپ کیس کر سکتی ہیںکہ کیوں باہر آیا۔ لیکن جس حد تک چھوٹ ہے، نرمی ہے وہاں نرمی کا استعمال ہو جانا چاہیے۔ جو ہماری limitationsہیں ان کو اگر ہم توڑیں گے تو وہاں پھر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا کہ چلو پھر السلام علیکم۔ اللہ حافظ۔ آپ کا وقت بھی ختم ہو گیا۔ السلام علیکم