الفضل ڈائجسٹمضامین

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

1913ء میں وفات پانے والے چند صحابہؓ

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ کس قدر افسوس کا مقام ہوگا اگر اپنی جماعت کے ان لوگوں کو فراموش کردیا جاوے جو انتقال کرگئے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍ستمبر 2013ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب نے چند ایسے اصحاب احمدؑ کا تعارف پیش کیا ہے جن کی وفات 1913ء میں ہوئی۔

٭…حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سیالکوٹیؓ کی وفات بھی 1913ء میں ہوئی۔ آپؓ کے تفصیلی حالاتِ زندگی 5؍اکتوبر 2018ء کے ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنائے جاچکے ہیں۔

٭… حضرت منشی حمیدالدین صاحبؓ ولد شیخ بدرالدین صاحب تقریباً 1855ء میں موضع وہرہ تحصیل پھالیہ میں پیدا ہوئے۔ 1880ء میں محکمہ پولیس میں ملازم ہوئے اور ایک لمبا عرصہ اس محکمہ میں کام کیا۔ 1890ء میں حضرت اقدسؑ کے دعاوی کا علم ہوا اور 1895ء میں حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ آپؓ 313 کبار صحابہ مندرجہ ’’انجام آتھم ‘‘ میں شامل تھے۔ آپؓ کا نام اس فہرست میں 48 ویں نمبر پر درج ہے۔ آپؓ نے 1913ء کے آغاز میں وفات پائی۔

٭… حضرت قاضی آل محمد صاحبؓ امروہہ کے رؤساء میں سے تھے۔ آپؓ کے حوالے سے مضمون 29؍دسمبر 2017ء کے اخبار میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل ہوچکا ہے۔

٭… حضرت حافظ فتح الدین صاحبؓ مرار ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے، آپ نے 1897ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنے ایک دورہ کی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’مولوی فتح الدین صاحب اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے سبب جو اُن کے شامل حال ہیں بہت ہی شکرگزار ہیں، فرماتے تھے کہ میں نے دین اور دنیا ہر دو سے حصہ وافر لیا ہے، دنیوی رنگ میں زمین، مکان، مال مویشی،کثرت اولاد جو میری خدمت گزار اور فرمانبردار اور نیک ہے سب کچھ مل گیا، دینی رنگ میں خدا تعالیٰ نے مسیح کی شناخت عطا کی اور سب سے بڑھ کر اس کا فضل یہ ہے کہ میرے ایک بیٹے کو اس سلسلہ کی خاص خدمات کی توفیق عطا کی۔‘‘

حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ نے اپریل 1913ء میں وفات پائی۔ آپؓ کی وفات پر اخبار ’’بدر‘‘ نے لکھا: حضرت مولوی محمدعلی صاحب ایم اے کے بزرگ والد حافظ میاں فتح الدین صاحب احمدی ہفتہ گزشتہ میں دار فانی کو چھوڑ گئے ہیں۔ مرحوم قرآن شریف کے حافظ، بہت نیک، دعاؤں میں مصروف رہنے والے تھے۔ اس پیرانہ سالی میں ہمت کرکے گاہے گاہے قادیان بھی آیا کرتے تھے۔ مولوی محمد علی صاحب کی خدمات دینی میں مصروفیت کی ان کو خاص خوشی رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے معقول زمینداری، بڑا کنبہ اور شریفانہ عزت عطا کی تھی۔ بہت عرصہ سے سلسلہ حقہ احمدیہ میں شامل تھے، فالحمدللہ۔

٭… حضرت سید گلزار حسین صاحبؓ شاہ پور کے رہنے والے تھے اور کاتب تھے۔ آپؓ موصی تھے، 2؍جون 1913ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔

٭… حضرت چودھری صدر الدین صاحبؓ قوم جالب کھوکھر زمیندار تھے اور ہمدردی رکھنے والے نیک بزرگ تھے، اسی نیکی کی وجہ سے ایک مرتبہ آپ نے چک چٹھہ ضلع حافظ آباد کے نمبردار کے حق میں جھوٹی گواہی دینے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں اُس نے آپ کو گاؤں سے نکال دیا۔

آپ کے بیٹے حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ نے 1905ء میں پہلے حضرت اقدسؑ کی بیعت کی تو اُن کی شدید مخالفت ہوئی۔ خود آپ بھی مخالفین میں شامل تھے۔ ایک دن آپ کی اہلیہ محترمہ نے آپ سے کہا کہ آپ میرے بیٹے (یعنی حضرت مولانا ابراہیم بقاپوری صاحب) کو کیوں برا کہتے ہیں، وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے۔ آپ نے کہا کہ اُس نے مرزا صاحب کو مان لیا ہے جن کا دعویٰ امام مہدی ہونے کا ہے۔ اہلیہ نے کہا کہ امام مہدی کے معنے ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں، ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہوئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے۔ پھر اہلیہ نے اپنی بیعت کا خط لکھنے کا بھی کہا۔ حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ بھی گھر میں دعوت الی اللہ کرنے میں مصروف رہے جس کے نتیجے میں بالآخر ایک سال کے اندر ہی اُن کے والد یعنی محترم چودھری صدرالدین صاحب نے بھی بیعت کر لی۔ یہ علم نہیں ہوسکا کہ آپ نے حضرت اقدسؑ کی زیارت کی تھی یا نہیں۔ آپ نے شروع 1913ء میں وفات پائی۔

٭… حضرت ظہور النساء بیگم صا حبہؓ ریاست منی پور کی رہنے والی تھیں اور ہندوؤں سے احمدی ہوئی تھیں۔ 1896ء میں آپؓ کی شادی حضرت میاں وزیر خان صاحبؓ (ولادت: 1867ء،بیعت:1892ء،وفات:26؍فروری1941ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)سے ہوئی، حضرت مولوی غلام امام صاحب یکے از تین صد تیرہ اصحاب احمد نے نکاح پڑھایا۔ بعد ازاں آپ اپنے خاوند کے ہمراہ اُن کے آبائی گاؤں بلب گڑھ ضلع فریدآباد (ہریانہ) آگئیں، آپ کا ایک بیٹا مسمّٰی عبدالحی پیدا ہوا لیکن بچپن میں فوت ہوکر وہیں دفن ہوا۔ آپ پھر اپنے خاوند کے ہمراہ قادیان آگئیں اور یہاں ’الدار‘ میں بھی خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔ 18؍جولائی 1913ء کو بعمر 33سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔

آپؓ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑکی قبولیتِ دعا کا نشان بیان کرتے ہوئے آپؓ کے خاوند حضرت میاں وزیر خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ظہورالنساء کو لے کر اس کے وطن منی پور پہنچانے کے واسطے روانہ ہوا۔ اتفاقًا یہ وہ دن تھا جس میں پہلے وقت سٹرائیک ہوتی ہے۔ ہم جس گاڑی میں سوار تھے وہ دیر سے کوئل جنکشن پہنچی۔ کلکتہ کی گاڑی تیار تھی مَیں نے ظہورالنساءکو مع سامان کے جلدی سے اُس میں سوار کرادیا، اتنے میں گاڑی چل دی اور لوگوں کی دھکم پیل نے مجھے چڑھنے نہ دیا۔ کتنے ہی دن تک مَیں ہر روز کوئل سٹیشن پرہر ایک گاڑی کو دیکھتا کہ کہیں سے یہ واپس آجائے۔ نہ مجھے معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے اور نہ وہ جانتی تھی کہ مَیں کدھر رہ گیا۔

پھر مَیں نے یہ واقعات لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دیے۔ اس پر قریباً ایک ہفتہ گزرا کہ ظہورالنساء نے ایک خط میرے مکان پر دہلی میرے بہنوئی کے پاس لکھا اور اپنا تمام پتا لکھ دیا۔ کیونکہ وہ جس روز مجھ سے علیحدہ ہو کر کلکتہ گئی تو دیر تک خالی گاڑی میں بیٹھی رہی۔ پھر اس کو اتار کر سٹیشن پر بٹھا دیا گیا۔ شام کو ریلوے کا ایک ملازم اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہ وہاں روتی رہی کہ اس کے پاس قرآن اور مصلّٰی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دونوں ٹکٹ بھی میرے پاس تھے۔

پھر مجھے اپنے گھر دہلی سے تار آیا کہ فلاں شخص کے گھر کلکتہ میں تمہاری بیوی ظہورالنساء ہے اسے لے آؤ۔ اور انہوں نے مجھے روپیہ گھر سے بھیج دیا۔

جس روز میں کوئل سٹیشن سے کلکتہ کو سوار ہوا اسی روز رات کو ظہورالنساء کلکتہ سے دہلی روانہ ہوگئی۔ مگر ریلوے ملازم نے گاڑی کا نمبر وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ دوسرے روز کلکتہ پہنچا تو اس کو نہ پاکر افسوس ہوا اور دہلی تار دیا کہ فلاں گاڑی سے ظہورالنساء آرہی ہے تم اسے اتار کر مجھے واپس تار دو کہ پہنچ گئی ہے تب مَیں یہاں سے روانہ ہوں گا۔ پھرمجھے گھر سے تار ملا کہ ظہورالنساء دہلی آگئی ہے چلے آؤ۔ پھر مَیں کلکتہ سے دہلی آگیا۔ یہ حضرت صاحب کی دعا کا نتیجہ تھا۔ بعد میں ایک دفعہ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے بتایا کہ انہوں نے حضورؑ سے اس بارے میں دعا کے لیے عرض بھی کی تھی۔

٭… حضرت سکینہ بیگم صا حبہؓ زو جہ حضرت قاضی امیرحسین صاحب بھیرویؓ نے 10؍جولائی 1913ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔

٭… حضرت جانوں بی بی صا حبہؓ زوجہ حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ آپؓ کی وفات پر اخبار الحکم نے لکھا: ہمارے مکرم اور مخلص بھائی میاں اللہ بخش احمدی ساکن بنگہ ضلع جالندھر کی اہلیہ مسماۃ جانوں 10؍فروری 1913ء کو حالت زچگی میں فوت ہوگئی۔ مرحومہ نہایت دیندار، صابرہ، صالحہ، متقیہ تھی، الوصیت کے ماتحت وصیت کی ہوئی تھی اور مرنے سے پہلے وصیت کے موافق زیور دے دیا۔ آخری کلمہ جس پر مرحومہ نے جان دی یہ تھا: استغفر اللّٰہ ربی من کل ذنبٍ و اتوب الیہ۔

٭…حضرت مرزا اسماعیل بیگ صاحبؓ (وفات 27؍ اکتوبر 1935ء) قادیان کے ہی رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خدمت گزاروں میں سے تھے۔ آپ کو ماموریت سے قبل ہی حضرت اقدسؑ کے ساتھ تعلق خدمت باندھنے کی توفیق ملی۔ آپؓ کی والدہ حضرت امیر بی بی صاحبہؓ بھی سلسلہ بیعت میں شامل تھیں اور موصیہ تھیں۔ وہ 11؍نومبر 1913ءکو تقریباً 80 سال کی عمر میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔

٭… حضرت محمد الدین صاحب ضلع گجرات، حضرت اللہ رکھی صاحبہ زوجہ شیخ چراغ دین صاحب، حضرت نتھو صاحب ضلع گورداسپور، حضرت شریف احمد صاحبؓ ابن حضرت جمال الدین سیکھوانی صاحبؓ، حضرت صالحہ بی بی صاحبہؓ بنت حضرت خیر الدین سیکھوانی صاحبؓ نے بھی اسی سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔

………٭………٭………٭………

پیراشوٹ (Parachute)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جولائی 2013ء میں پیراشوٹ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون مکرم مستبشر احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

پیراشوٹ فرنچ لفظ ہے۔ پیرا کا لفظ Prefix سے نکلا ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں جبکہ chute کے معنی گرنے کے ہیں۔ یعنی پیراشوٹ ایسی چیز ہے جو گرنے سے بچاتی ہے۔

پیراشوٹ عموماً نائیلون اور silk کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے پہلا ڈیزائن 1470ء میں اٹلی میں بنا تھا جبکہ موجودہ شکل کا پیراشوٹ اٹھارھویں صدی کے آخر میں Louis Sebastien نے بنایا تھا۔ 1785ء میں ایک کتے کے ذریعے اس کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے چھلانگ لگانے والا پہلا آدمی Ander Garnerin تھا۔ سب سے بلند چھلانگ 102800 فٹ کی بلندی سےJoseph Kittingerنے لگائی تھی۔

پیراشوٹ مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں مثلاً سیلاب زدگان تک کھانا پہنچانے یا جنگ کے ایام میں دشمن ملک پر بم گرانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جنگ عظیم اوّل میں پہلے جرمن اور پھر انگلش اور فرنچ نے اسے استعمال کیا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button