رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء (حصہ دوم)(22،23 اکتوبر 2016ء)

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

جہاں تک میں نے دیکھا ہے خلیفۃالمسیح اسلام کے سب سے بہترین رہنما ہیں اور میں حضور کی تقریر سے نہایت متاثر ہوا ہوں۔ حضور کا پیغام نہایت پر زور تھا اور آپ دنیا میں ایک ایسے شخص ہیں جو امن اور سلامتی اور محبت سب کے لئے چاہتے ہیں۔ حضور کا پیغام ہمیشہ ہی امن کا گہوارہ ہوتا ہے اورمحبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔ میں آج کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اور اس کی وجہ حضور کا پیغام تھا جس میں امن، محبت اور امید کا پیغام تھا اور یہ ایسا پیغام ہے جس کا رنگ، نسل، شرق و غرب، کسی خاص وقت یا جگہ سے تعلق نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے تھا۔ جب میں نے حضور کا خطاب پارلیمنٹ میں سنا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ پارلیمنٹ میں اس طریق پر کوئی مسلمان راہنما اس طرح خطاب کرسکتا ہے۔ حضور میں خوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی اور نہایت نڈر طریق پر آپ نے تقریر کی اور لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہی اسلام کا صحیح اور سچا پیغام ہے۔ خلیفۃ المسیح کا آج کا پیغام عفو و درگزر اور قیا م امن کے بارہ میں تھا۔ حضور کا خطاب نہایت عمدہ تھا اور میرے دل میں اتر گیا۔ … ٭… آپ کا خطاب نہایت موثر اور دنیا کے تمام لوگوں کے لئے تھا۔ میری خواہش ہے کہ یہ پیغام دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچ سکے۔ حضور نے اپنے خطاب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی مثالیں پیش کیں اور ہمیں توجہ دلائی کہ ہمیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

(پِیس سمپوزیم میں شامل مہمانوں کے تاثرات)

جامعہ احمدیہ کینیڈا کا وزٹ۔طلباء جامعہ احمدیہ کے ساتھ کلاس کا انعقاد اور مجلس سوال و جواب۔ مدرسۃالحفظ اور عائشہ اکیڈیمی کا وزٹ۔


عرب احمدیوں کے ایک پروگرام میں حضور انور کی بابرکت تشریف آوری۔ انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ تقریب آمین۔


22؍اکتوبر بروز ہفتہ 2016ء
(حصہ دوم)

پِیس سمپوزیم میں شامل مہمانوں کے تاثرات

حضور انور کے آج کے خطاب نے مہمانوں کے دلوں پرگہرا اثر کیا۔ اس حوالہ سے بہت سے مہمانوں نے اپنے خیالات اور دلی جذبات کا اظہار کیا۔

٭ پادری چارلز اولانگو (Pastor Charles Olango-Uganda Martyrs United Church of Canada) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : جہاں تک میں نے دیکھا ہے خلیفۃالمسیح اسلام کے سب سے بہترین رہنما ہیں ۔ اور جس طریقہ سے اور جن باتوں کا حضور نے ذکر کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق ہے اور باقی مسلمان راہنماؤں کو بھی اسی طریق پر پیغام پہنچانا چاہئے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی بھی حفاظت کریں اور یہ اسلامی تعلیم میں نے پہلی بار سنی ہے۔ اور میں حضور کی تقریر سے نہایت متاثر ہوا ہوں اور حضور کی خواہش تھی کہ تمام ادیان اور مذاہب کے راہنما مل بیٹھ کر بات چیت کرسکیں۔

٭ ایلس۔ مالٹن انٹاریو(Alice Malton Ontario) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں خلیفۃ المسیح کے دورہ کو خاص اشتیاق سے دیکھ رہی ہوں، کچھ ماہ پہلے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر اور پھر جلسہ سالانہ کینیڈا پر اور حضور کے پارلیمنٹ کے دورہ پر جب وزیر اعظم سے بھی ملاقات ہوئی میری دلی تمنا تھی کہ خلیفۃالمسیح سے ملاقات ہوسکے اور آج ملاقات ہوگئی۔ حضور کا پیغام نہایت پر زور تھا اور آپ دنیا میں ایک ایسے شخص ہیں جو امن اور سلامتی اور محبت سب کے لئے چاہتے ہیں۔ میں اپنے جذبات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی ۔

٭ ہائڈی مینوٹی (Heidi Minuti Retired Teacher) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: خلیفۃالمسیح سے ملاقات کے بعد میں جذبات سے لبریز ہوں۔ میں حضور کے امن پسند پیغام سے بہت متأثر ہوں اور حضور ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں اگر ہم ان کا پیغام سنیں اور عمل کریں۔

٭ گریگ کینیڈی(Greg Kennedy) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : میں آج اپنی بہن کے ساتھ آیا ہوں کیونکہ اس نے ماضی قریب میں ہی اسلام قبول کیا ہے اور ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ جماعت احمدیہ کی کیا تعلیمات ہیں۔ اورحضور کا پیغام سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ میری بہن اتنی محبت کرنے والے اور ساتھ دینے والے اور لوگوں کی خدمت کرنے والے لوگوں میں شامل ہوئی ہے۔ جو باتیں میں نے آج سیکھی ہیں میں ان سے بہت خوش ہوں۔

٭ سوزن فینل ۔ مئیر آف بریمپٹن۔(Susan fennel – Former Mayor of Brampton) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں جماعت احمدیہ کو گزشتہ 30 سال سے جانتی ہوں اور کئی پروگرام جن میں خلیفۃ المسیح نے شمولیت اختیار کی تھی میں بھی ان میں شامل ہو چکی ہوں۔ اور یہ میرے لئے باعث اعزاز ہے کہ مجھے آج کے پروگرام میں بھی مدعو کیا گیا۔ حضور کا پیغام ہمیشہ ہی امن کا گہوارہ ہوتا ہے اورمحبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔ اور میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں ، خاص طور پر ان لوگوں کو جو اللہ کا پیغام نہیں سمجھتے کہ یہ ایک امن کا پیغام ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ لوگوں کو یا جانوروں کو یا کسی جاندار چیز کو نقصان پہنچا یا جائے۔ یہ ہے خدا کا پیغام ہم سب کے لئے۔

٭ ریورنڈ روبرٹ لائیل(Reverend Robert loyal – Minister a St. Andrews Presbyterian Church) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : میں آج کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اور اس کی وجہ حضور کا پیغام تھا جس میں امن، محبت اور امید کا پیغام تھا اور یہ ایسا پیغام ہے جس کا رنگ، نسل، شرق و غرب، کسی خاص وقت یا جگہ سے تعلق نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے تھا اور اس خطاب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ دنیا میں بہت سی غلط معلومات اور افواہیں اور خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے لیکن آج کے پیغام میں یہ بات واضح تھی کہ ہمارے درمیان مشترک چیزیں زیادہ ہیں اور اختلاف کی باتیں کم ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے جسے لوگوں کو سننے کی ضرورت ہے۔

٭ ڈاکٹر ای این برک (Dr. Ian Burke- PC Party Ontario Representative) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : میں حضور کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے حضور کے خطا ب کو نہایت متأثرکن پایا ۔ آپ کا پیغام محبت اور عدل و انصاف کا پیغام تھا۔ میری خواہش ہے کہ حضور کا یہ پیغام اور پھیلے۔

٭ الما (Alma) ٹورانٹو میں ٹیچر ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں یہ نہایت خوش کن بات ہے کہ حضور دنیا بھر کے لئے امن کا پیغام پیش کر رہے ہیں اور پیغام کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کیا بلکہ تمام رنگ و نسل کے لوگوں کے لئے آپ کا پیغام تھا۔ اور آپ کا پیغام نہایت اہمیت کا حامل ہے اگر ہم دنیا کے حالات کا جائزہ لیں۔ اس لئے میں سمجھتی ہوں کہ یہ واضح پیغام تھا اور سب کو یہ سننا چاہئے۔

٭ ماسمو جنوبال۔ نائب پرنسپل کیتھولک اسکول (Massmo Janobal – Vice principal of a Catholic School) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : جب بھی مجھے اس طرح کے پرزور خطاب سننے کا موقع ملتا ہے تو میں ضرور شامل ہوتی ہوں۔ اور خلیفۃ المسیح کے خطاب میں بہت سی ایسی باتیں تھیں جنہیں میں ذاتی طور پر بھی مانتی ہوں۔ اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔

٭ محمد الحلواجی۔ صدر نائل ایسوسی ایشن آف انٹاریو (Muhamed Elhalwagy – President of the Nile Association of Ontario) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : آج کا پیغام نہایت واضح تھا کہ ہم سب کو محبت کے ساتھ رہنا چاہئے اور ہمیں کسی سے نفرت کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے تو امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جب میں نے حضور کا خطاب پارلیمنٹ میں سنا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ پارلیمنٹ میں اس طریق پر کوئی مسلمان راہنما اس طرح خطاب کرسکتا ہے۔ حضور میں خوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی اور نہایت نڈر طریق پر آپ نے تقریر کی اور لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہی اسلام کا صحیح اور سچا پیغام ہے۔ اور آپ نے کہا کہ یہ جو جنگیں ہو رہی ہیں ان کے پیچھے کچھ لوگ ہیں جو اس سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ آج کے خطاب میں حضور نے محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں کے حوالہ سے بات کی کہ یہ سب کا لائحہ عمل ہونا چاہئے اور یہی سچ ہے۔ میں 1980 ء سے احمدی مسلمان ہوں اور گزشتہ 10-15 سالوں میں جماعت سے دور ہوگیا ہوں لیکن اب مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے علماء کے ساتھ تعلق رکھنا چاہئے۔

٭ سانٹا الوئی ۔ یوگینڈا مدر چرچ(Santa Aloi – Uganda Mother Church) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : خلیفۃ المسیح کا آج کا پیغام عفو و درگزر اور قیا م امن کے بارہ میں تھا۔ خاص طور پر یہ کہ سب مذاہب ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن مختلف ناموں سے اسے یاد کرتے ہیں۔ اور حضور نے خاص طور پر مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ تمہیں قیام امن کے لئے زیا دہ کوشش کرنی ہے یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔

٭ سرندر سدھو (Surrinder Sidhu) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : یہ ایک زبردست موقع تھا حضور کے خطاب کی وجہ سے جس میں آپ نے امن ، محبت اور تمام دنیا کی بہتری کے بارہ میں باتیں بیان کیں۔

٭ فیڈل۔ طالبعلم (Fidel- Student) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : تمام پروگرام، حضور کا خطاب نہایت عمدہ تھا اور میرے دل میں اتر گیا۔ اور حضور سے ملاقات کو بیان کرنے کے میرے پاس الفاظ نہیں۔ یہ میری زندگی کا نہایت اہم تجربہ تھا۔

٭ شیعہ مسلمان طالبعلم فرشتہ (Frishtah – Shia Muslim – Student) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : حضور کا اسلام اور امن کے بارہ میں خطا ب عین میری سوچ کے مطابق تھا۔ اور حضور کے چہرہ پر جو نور عیاں تھا بہت خوبصورت تھا۔

٭ گیرتھ کالوے اور ڈینا کالوے۔(Garith Calaway & Daina Calaway) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : نہایت مؤثر پیغام تھا۔ اور نہایت خوشکن تبدیلی تھی اس سے جو ہم روز دنیا میں دیکھتے ہیں۔

٭ باراکاتھ (Barakath) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : آپ کا خطاب نہایت موثر اور دنیا کے تمام لوگوں کے لئے تھا۔ میری خواہش ہے کہ یہ پیغام دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچ سکے۔

٭ لوسی کرانول۔ پبلک ریلیشن گائینیز اور کاریبین کمیونٹی(Lucy Cranwell- PR for the Guyanese & Caribbean Community) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : خلیفہ کی تقریر سے میں نے بہت سی ایسی باتیں سیکھی ہیں جن کا مجھے پہلے علم نہ تھا۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے خطاب فرمایا بلکہ اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ ہم کیسے ایک دوسرے سے محبت کر سکتے ہیں۔ اور کس طرح تمام انسانیت ایک ہے۔ ان کی ایک بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ بحیثیت انسان ہم کسی نہ کسی بات پر اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اس کا حل کیسے نکال سکتے ہیں۔ ہمیں پہلے اپنی بات سمجھنے کی ضرورت ہے پھر ہم عدل و انصاف کے ساتھ مسائل حل کرسکتے ہیں۔ ایک اور بات جس نے مجھے ششدر کر دیا وہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے اختلافات دور نہ کریں اور مل کر رہنا نہیں سیکھ سکے تو پھر اس کے نتیجہ میں آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔ ہمیں خدا نے بتایا ہے کہ ہمیں باوجود اپنے اختلافات کے مل کر رہنا چاہئے۔

٭ میگن طالبعلم یارک یونیورسٹی(Megan- Student at York University) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : مجھے آج یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے۔ اور یہ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کس طرح مختلف طبقات کے لوگوں کو قریب لارہی ہے۔ اور میرے خیال میں اسی چیز کی دنیا کو ضرورت ہے۔

٭ ابو بکر یوسف ممبر زمیتا کمیونٹی(Abu Bakr Yousaf – Member of Zumita Community) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : جو میں نے سنا اور دیکھا اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ حضور نے اپنے خطاب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی مثالیں پیش کیں اور ہمیں توجہ دلائی کہ ہمیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے یہ بھی ثابت کیا کہ انہوں نے جبراً کبھی بھی کسی کو اسلام میں داخل نہیں کیا۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح تمام انسانیت کی خدمت کی۔ حضور نے قرآن کریم کے حوالہ سے بھی اسلامی تعلیم پر روشنی ڈالی جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن۔ اور کس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائی ، یہودی ، ہندو یا کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو ان کے حقوق دئے اور توجہ دلائی کہ بحیثیت انسان ہم سب ایک ہیں۔ حضور نے اپنی تقریر میں دکھی انسانیت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ ان کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ حضور بیان کررہے تھے کہ ہمیں جبر ، ظلم و تشدد اور خود غرضی کو چھوڑ کر مل کر رہنا ہوگا اوریہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

٭ گنیش آئی ٹی پروفیشنل(Gannesh- IT Professional) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مجھے خلیفہ سے مل کر خوشی ہوئی اور اس طرح کے پروگرام میں شا مل ہوکر خوشی محسوس کرتا ہوں۔

٭ مقصود طالبعلم(Maqsood- Student) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کاش کہ ہم سب ایسا ہی سوچتے جیسا کہ حضور نے بیان کیا۔ میں حضور کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں یہ پیغام اپنے ساتھ لے جاوں گا اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کروں گا۔

٭ کرشہ(Krisha) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : میرا یہاں آنا میرے لئے باعث عزت اور فخر ہے اور یہ تقریر جس کا موضوع امن تھا بہت اچھی تھی۔ ہم ٹیلیویژن پر بہت سی تقاریر سنتے ہیں جس میں جنگ و جدل اور نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اس لئے یہ محبت اور امن پسند باتیں سن کر خوشی ہوئی۔

٭ شانٹیل (Chantelle) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مجھے یہاں آکر بہت خوشی ہوئی اور آپ لوگوں کا مجھے مدعو کرنا میرے لئے باعث فخر ہے ۔ اور تقریر میں ان باتوں کا ذکر تھا کہ ہم کیسے مل کر رہ سکتے ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ اور لوگ بھی اس پیغام کو سن سکیں گے۔

٭ انیتا ثمرہ (Anita Samra) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : یہ ایک نایا ب موقع تھا خلیفہ کی تقریر سننے کا اور اسلامی کمیونٹی کو دیکھنے کا۔ میرے لئے نہایت خوشی کا باعث ہے اور مجھے حضور کے آٹوگراف لینے کا موقع بھی ملا۔

٭ ہیو کورٹنی۔ ڈیزائینر(Hugh Courtney- Designer from Toronto) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : حضور کا خطاب نہایت پُر تاثیر تھا۔ میں بہت خوش اور متاثر ہوں۔ خلیفہ میں ایک رعب ہے اور جب میں آپ کے قریب پہنچی تو ایک لرزہ سا مجھ پہ طاری تھا اس لئے یقینا آپ میں کوئی قوّت (قدسی) ہے۔ حضور ایک عاجز انسان ہیں اور یہ عاجزی انسان محسوس کر سکتا ہے۔

٭ فرانسس عطاو -ممبر آف یوگینڈا میٹرز چرچ (Francis Atao – Member of Uganda Matters Church of Canada) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: خلیفہ نے اپنی تقریر میں بتا یا کہ ہم کس طرح اس قول یعنی ’’محبت سب کے لئے‘‘ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ اور آپ نے خود اپنے عمل سے دکھایا کہ کس طرح ہم اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ آپ نے اسلامی تعلیما ت پر روشنی ڈالی جس سے واضح ہو گیا کہ جو باتیں میڈیا میں اسلا م پر کی جاتی ہیں وہ جھوٹ ہیں اور جو باتیں خلیفہ نے بیان کیں وہ سچ ہیں اور یہ کہ حقیقی مسلمان دوسروں کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔

٭ جیک گرین برگ انٹاریو پی سی یوتھ ایسو سی ایشن (Jack Greenberg- Ontario PC Youth Association) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : خلیفہ کی تقریر جذبات سے بھری تھی جس سے میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور آپ نے اپنے خطاب میں دنیا میں قیام امن کے حوالہ سے گفتگو فرمائی۔ میرے خیال میں خلیفہ نہ صرف احمدیوں کے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک زبردست آواز ہیں۔ خلیفہ نے یہ جو بات فرمائی اس کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ ہم ایک اور جنگ عظیم برداشت نہیں کرسکتے۔ اور یہ کہ تمام قوموں کو مل کر کام کرنا ہے اور اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

٭ پیارا سنگھ کادو وال مصنف(Pyaara Singh kadowal – Writer) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : جو الفاظ حضور نے بیا ن فرمائے قیام امن کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ اگر ہم ان آدھی نصائح پر بھی عمل کرسکیں تو ہماری انفرادی اور معاشرتی زندگیوں میں امن قائم ہو جائے گا جو جنگیں ہو رہی ہیں وہ ختم ہو جائیں گی۔ میں آج کی تقریر سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔

٭ پیٹر زورانٹس ریل اسٹیٹ (Peter Zorontos – Real Estate) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : میں اظہار تشکر کرنا چاہ رہا تھا، حضور نے مجھے اس کا موقع عنایت فرمایا۔ مجھے حضور سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔

٭ ہرجوت (Harjot) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : مجھے اچھا لگا۔ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ بہت اچھا تھا۔

پریس اور میڈیا کوریج

٭ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس نیشنل پِیس سمپوزیم کی پریس اور میڈیا میں کوریج ہوئی۔

٭ اخبار "Global News” میں کوریج ہوئی جس کی روزانہ پڑھنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔

٭ اس کے علاوہ پِیس سمپوزیم کے پروگرام میں چار مختلف زبانوں کے میڈیا والے لوگ حاضر تھے جن میں آٹھ اردو، چھ پنجابی ایک عربی اور ایک بنگالی تھے۔ ان سب کا تعلق بعض TV چینل ، ریڈیو چینل اور مختلف اخبارات سے تھا۔

٭ سوشل میڈیا Twitter اور Instyagram کے ذریعہ تین لاکھ 92 ہزار افراد تک پِیس سمپوزیم کے بارہ میں خبر پہنچی۔

23؍اکتوبر بروز اتوار 2016ء

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور خطوط، رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا اور دفتری امور کی انجام دہی میں حضور انور کی مصروفیت رہی۔

جامعہ احمدیہ کینیڈا کا وزٹ۔

طلباء جامعہ احمدیہ کے ساتھ کلاس

پروگرام کے مطابق گیارہ بج کر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جامعہ احمدیہ کینیڈا میں تشریف لائے۔ مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ ہادی علی چودھری صاحب اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کرام نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت تمام اساتذہ کرام اور سٹاف کے ممبران کو شرف مصافحہ بخشا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ کی گیلری سے گزرتے ہوئے نمائش بھی ملاحظہ فرمائی۔ بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جامعہ کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں جامعہ کے تمام طلباء کلاس وائز اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک طرف مدرسۃالحفظ کے طلباء بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم حافظ فراس احمد نے کی۔ قرآن کریم کی تلاوت کا ترجمہ پروگرام میں نہیں رکھا گیا تھا جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ترجمہ رکھنا چاہئے تھا۔ یہ ضروری ہے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک طالب علم عزیزم فرخ طاہر صاحب کو بلایا اور خود قرآن کریم سے ان آیات کا ترجمہ نکال کر دیا۔ جس پر اس طالب علم نے یہ ترجمہ پڑھا۔

اس کے بعد عزیزم مصلح الدین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث پیش کی:

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ’’قیامت نہیں آئے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو‘‘۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، باب امارات الساعۃ)

بعد ازاں عزیزم فرخ طاہر نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام

حمدوثنا اُسی کو جو ذات جاودانی

ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی

سے منتخبہ اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے۔

اس کے بعد عزیزم عمر فاروق نے ’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں شمالی امریکہ میں نفوذاحمدیت‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔

دوسری تقریر عزیزم سیّد لبیب جنود نے ’’خلافت احمدیہ کے ذریعہ شمالی امریکہ میں احمدیت کا نفوذ‘‘ کے موضوع پر کی۔

بعد ازاں حفظ القرآن کلاس کے طالبعلم عزیزم ریّان میاں نے ’’قرآن کریم کو حفظ کرنے کی اہمیت‘‘ پر انگریزی زبان میں تقریر کی۔

اس کے بعدحضور انور نے دریافت فرمایا کہ تمام کلاس وائز بیٹھے ہوئے ہیں؟ جس پر پرنسپل صاحب نے عرض کیا کہ تمام کلاسز کو کلاس وائز بٹھایا گیا ہے۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایاایک مربی اور مبلّغ کی کیاذمہ داریاں ہیں ؟

ایک طالب علم نے بتایا کہ ایک مربی اور مبلّغ کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنا چاہئے اور روزانہ فجر کی نماز سے پہلے کم از کم دو گھنٹے تہجد پڑھنی چاہیے، پھر قرآن کریم کی تلاوت کرے اور نماز فجر کے بعد بھی قرآن کریم کی تلاوت کرے۔ یہ سب سے بنیادی بات ہے۔

اس پر حضور انو ر نے فرمایا کہ ان ملکوں میں رہ کر تم سردیوں میں تودو گھنٹے تہجد پڑھ لو گے مگر گرمیوں میں کیا کروگے ؟

پھر حضور انور نے دریافت فرمایا اور کیاذمہ داری ہے ؟ یہ تو ہر مسلمان کا فرض ہے، نمازیں پڑھنا ، اللہ سے تعلق قائم کرنا ، بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہر احمدی کو کم از کم دو نفل تو صبح پڑھنے چاہئیں۔لیکن مربی توجماعت کے لوگوں کیCream ہے۔ جس نے تربیت بھی کرنی ہے اور تبلیغ بھی کرنی ہے۔ تبلیغ اور تربیت کے لیے تو پھر اپنانمونہ قائم ہونا چاہیے۔ اور نمونے قائم کرنے کے لیے جہاں اللہ سے تعلق پیدا کرنا ہے، قرآن کریم کا علم سیکھنا ہے اور اس کو گہرائی میں جاننا ہے ۔ قرآن کریم کا علم کس طرح آئے گا؟ سب سے پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے جو ہمیں باتیں پتہ لگتی ہیں ، جو آپ نے وضاحتیں کی ہیں پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں پڑھنا بڑا ضروری ہے۔ بہت سارے جامعہ کے طلباء ، وہاں افریقہ میں بھی میں نے دیکھے ہیں ،افریقن طلباء جوتعلیم کے لئے پاکستان بھی آئے، ان میں سے بعض ایسے تھے جو بڑے شوق سے کتابیں خریدتے تھے، روحانی خزائن خریدتے تھے۔ اپنی لائبریری بناتے تھے اور پھر ان کتب کو پڑھتے تھے۔ جامعہ میں ہوتے ہوئے انہوں نے بہت سارے حوالے یاد کرلئے تھے۔ جو تبلیغ میں کام آتے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنانمونہ قائم کرنا ہے۔ ہر چیز میں نمونہ بنیں تاکہ جماعت کے لوگوں کی تربیت کر سکیں ۔ ہر ایک کی نظر آپ پر ہوتی ہے۔ عاجزی پیدا ہونی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ہے اس کا ایک مصرعہ ہے: ’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں‘‘ اس کا اگلا مصرعہ کیا ہے۔

اس پر ایک طالب علم نے بتایا: ’’شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں‘‘۔

تو اس پر حضور انور نے فرمایا تو یہی ہے اللہ تعالیٰ کا وصل حاصل کرنا ۔ وصل کیا ہوتا ہے۔ سادسہ میں ہو گئے ہواور ابھی بھی بے اعتمادی سے جواب دے رہے ہو۔

اس پر ایک طالبِ علم نے بتایا ملاقات۔

حضور انور نے فرمایا ہاں ملنا۔ تو اللہ تعالیٰ سے ملنے میں، تعلق رکھنے میں، اس کی قربت حاصل کرنے میں یہ ضروری ہے لیکن ایک چیز شرط ہے۔ ایک مصرعہ ہے :

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو

اس کا اگلا مصرعہ کیا ہے؟

اس پر ایک طالب علم نے بتایا:

کبر و غرور و بُخل کی عادت کو چھوڑ دو

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اب یہ شعر صرف پڑھنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ عمل کرنے کے لئے ہیں۔اور سب سے زیادہ ایک مربی اور مبلغ اور جامعہ کے طالب علم کے ہر فعل اور عمل سے اس کا اظہار ہونا چاہئے۔

٭… بعد ازاں ایک طالب علم نے سوال کیا کہ جب آپ خلیفہ بنے تھے اور اس وقت سے لے کر اب تک آپ کی طبیعت میں کوئی ایسی تبدیلی آئی ہو جس کو آپ نے خود بھی نوٹِس کیا ہو ؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو دوسرے دیکھنے والے ہیں ان کو پتہ ہونا چاہئے۔ تبدیلی تو دس منٹ کے بعد ہی آ جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ کا خوف زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ پہلے دس پندرہ منٹ پتہ ہی نہیں لگتا کہ ہو کیا گیا ہے۔ اس کے بعد پھر خیال آ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ہی سنبھال لے گا اور پھر سنبھال لیتا ہے۔ باقی میں تو جیسا پہلے تھا ویسا اب ہوں۔

٭… ایک طالبِ علم نے عرض کیا۔آج کل دماغی امراض(Mental Illness) اور ڈپریشن کافی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ بطور مربی ہم ان کی کیسے مدد کرسکتے ہیں اور کیا اسلامی تعلیمات دوا کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔ نسخہ تو دے دیا۔ اللہ سے تعلق پیدا کرو ، لو لگاؤ، ایک یہ ہے کہ دنیاوی خواہشات کی وجہ سے دماغی امراض(Mental Illness) دنیا میں زیادہ پیدا ہو رہی ہے ، دوسری طرف بہت کم کیسز ایسے ہیں جو فنیٹک(Fanatic) ہو جاتے ہیں یا مذہبی طور پر اتنے ڈوب جاتے ہیں کہ پھر ان کو دماغی عارضہ اور طرح کا ہو جاتا ہے۔ لیکن ان میں اکثریت نہیں ہے۔ Exceptionsتو ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن عموماً جس میں دنیا داری زیادہ ہے یا دنیا کی خواہشات زیادہ ہیں، ان کی جب خواہشات پوری نہیں ہوتیں اور Frustration ہوتی ہے بے چینیاں ہوتی ہیں۔ ماں باپ کو بعض دفعہ بچوں کی وجہ سے پریشانیاں ہو جاتی ہیں اور بعض کو مالی معاملات کی وجہ سے ہو جاتی ہیں بعض کے اور مسائل ہیں تو اس کا حل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کیا جائے، اس پر بھروسہ کیا جائے، اس سے مانگا جائے، اس سے تعلق پیدا کیا جائے، ایک تو یہ چیز ہے جس کوآج کل دنیا میں پیدا کرنا چاہئے، دنیاوی خواہشات زیادہ ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جب کسی کی دنیا دیکھو، کسی کا مال و دولت دیکھو تو اِس پر لالچ کر کے اس کی طرف نظر کرکے وہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو، تمہیں اس میں حسد اور حرص پیدا نہ ہو لیکن کسی کا دین دیکھو اور خدا کی راہ میں اس کی قربانی دیکھو تو کوشش کرو کہ میں بھی اس مقام تک پہنچوں تاکہ اللہ سے تعلق قائم ہو تویہی ایک نسخہ ہے جس کے لئے انبیاء آتے ہیں جس کے لئے مذہب کی تعلیمات ہیں اور اسی بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار دہرایا ہے کہ میں اسی مقصد کے لئے آیا ہوں کہ بندے کو خدا سے ملاؤں۔ جو دوریاں پیدا ہو گئی ہیں ان کو نزدیک کروں۔ تو یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے جو ایک دم یا ایک نصیحت سے پیدا ہو جائے گی یا over night کسی میں تبدیلی لے آئیں گے۔ دنیا کا جو ماحول ہے اتنا زیادہ بگڑچکا ہے اور خواہشات اتنی بڑھ چکی ہیں، frustrationsاتنی زیادہ ہیں، بے چینیاں اتنی زیادہ ہیں، قناعت میں کمی ہو چکی ہے۔ مستقل ایک process ہے جس کو ہم نے بار بار کہہ کہہ کے کم از کم جن لوگوں کی ذمہ داریاں ہم پر ہیں ، ان میں قائم کرنا ہے لیکن سب سے پہلے اپنے آپ میں پیدا کرنا ہوگا۔ بعض نیک لوگوں میں بزرگوں میں اس لئے بے چینیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ یہ لوگ کیوں اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتے۔ کیوں اپنی تباہی کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بے چینی اگر تھی تو دنیا کے لئے تھی، لوگوں کے لئے تھی دنیا کی خواہشات کے لئے نہ تھی۔ فلعلک باخع نفسک۔ اللہ تعالیٰ نے جو کہا وہ اس لئے کہا کہ دنیا کے لئے تم بے چین ہو، وہ بے چینی گھبراہٹ کیوں تھی،وہ اس لئے تھی کہ لوگ اپنے خدا کو پہچانیں اور ہلاکت سے بچیں۔ لیکن ایک دنیاوی خواہشات کے لئے بے چینیاں ہیں ڈپریشن ہیں، اور پھر مریض بن جاتے ہیں وہ اور چیز ہے۔ ان ملکوں میں چند دن ہوئے ایک ماں میرے پاس آئی ڈپریشن کی مریضہ تھی، ساتھ اس کے بیٹا بھی تھا، میں نے چند سوال کئے بیٹے سے بھی اوراُس کی والدہ سے بھی۔ میں نے اس لڑکے کی حالت دیکھ کر کہا تم اصل وجہ ہو اپنی ماں کی ڈپریشن کی۔ ماں رو پڑی اور کہتی ہاں یہی وجہ ہے۔ تو یہ چیزیں ہوتی ہیں ۔ تو اس لئے آپ جو جامعہ کے طالب علم ہیں جوان ہیں،اپنے اپنے ماحول میں اپنے ساتھیوں کو اِس وقت ہی اِس بات کی طرف مائل کرو کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ ان ملکوں میں رہ کر بجائے اس کے کہ یہاں کی بے حیائیوں اور غلط باتوں کو سیکھیں۔ اچھی باتیں ہر قوم میں ہوتی ہیں ، اچھی باتوں کو اپنائیں۔ بری باتوں سے بچیں۔ اپنی ایک جو انفرادیت ہے، اپنی ذمہ داری ہے اسے محسوس کریں اور انہیں قائم کریں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔حضور کے غیراز جماعت احباب کے ساتھ جو خطاب ہوتے ہیں ان کے بعدان کا کیا تاثر ہوتا ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: جو میرے پاس ملنے آئے وہ یہی کہہ رہے تھے کہ آپ نے بڑے اچھے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ایک سردار جی کہہ رہے تھے کہ آپ بڑی طاقتوں کو اور بڑی حکومتوں کو یو این او (UNO) وغیرہ کو بھی سب کچھ کہہ دیتے ہیں تو وہ بہت جذباتی ہو کر اس بارے میں میرے سامنے رو پڑے ۔ تو بعض لوگوں پر اس طرح بھی اثر ہوتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ میں کہوں اور سب لوگ میری بات مان لیں۔ بعض صرف ادب کی وجہ سے اچھے اخلاق دکھانے کے لئے سب کچھ اچھا کہہ دیتے ہیں لیکن بعض لوگوں کے چہروں سے ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ ان پر اثر ہو رہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصد جو تعریف کر رہا ہوتا ہے وہ واقعی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ اصل تعریف تو تب ہے جب اس پر عمل ہو۔ جب عمل نہیں کرنا تو پھر کوئی فائدہ نہیں۔ میں ہر ہفتہ اتنی باتیں کرتا ہوں، کچھ نہ کچھ نصیحت تو ہر ایک کے لئے ہوتی ہے۔ تم مجھے بتاؤ تمہارے پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک دن ایک گھنٹہ مجلس میں بیٹھ کر بہت اثر ہو جائے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ جب آپ کینیڈا آتے ہیں ہمیشہ گرمیوں میں آئے ہیں، اس دفعہ سردی میں آکر کیسا لگ رہا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہاں سردی بس جلدی شروع ہو گئی ہے۔ یوکے اور یورپ میں یہ موسم ایک مہینہ بعد آجائے گالیکن سردی اچھی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی سردی آ جائے گی۔ پھر بھی احتیاطا ًمیں گرم کپڑے لے آیا تھا۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ حضور جب ہم مربی بن کر جماعتوں میں جائیں گے سیاست دیکھ کر ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہئے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سیاست کیا ہوتی ہے؟ ایک ملک کی سیاست ہوتی ہے، ایک خاندانی سیاست ہوتی ہے، بعض لوگوں کو ویسے ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر تم جماعت کی سیاست کی بات کر رہے ہوبعض لوگوں کے غلط رویے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور پیچھے کچھ اور کہتے ہیں۔ مربیان کو میں ہمیشہ یہی نصیحت کیا کرتا ہوں کہ انہیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے کسی بھی فریق کا حصہ نہیں بننا۔ اگر غلط بات دیکھو تو رد کرو۔ اگر تم دیکھو کہ اگر بڑا بھی بات کررہا ہے، جس سے آپس میں رنجشیں پیدا ہونے کا خطرہ ہے، بدظنیاں پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ یا جماعت کی بات ہے تو اس میں تو فتنہ برداشت ہو ہی نہیں سکتا۔ تو جو بھی ہے تم اسے روکو۔

ایک بزرگ تھے ان کو ایک شخص نے آکر کہا کہ فلاں شخص آپ کے بارہ میں فلاں بات کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تم نے بھی گناہ کیاکہ مجھے آکر یہ بات بتائی اور اس نے بھی گناہ کیا ۔ ان باتوں سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں تمہیں جماعت کو بتانی ہوں گی۔ یہ نہیں دیکھنا کہ ہماری عمر کیا اور کرنے والے کی عمر کیا ہے۔ اصل کام تربیت ہے۔ مربی کا مطلب ہی تربیت کرنے والا ہے۔ اگر ہم تقویٰ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا ہر کام تقویٰ کے مطابق ہونا چاہئے اور ہر قسم کے دوغلا پن سے بالا ہونا چاہئے۔

سیاست کیا ہے، دوغلا پن ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ حکمت ہے۔ یہ حکمت نہیں ہے۔ حکمت تو یہ ہے کہ کسی کو اس طریق سے سمجھایا جائے کہ برائیاں دور ہوں۔ حکمت یہ نہیں کہ برائیاں پھیلائی جائیں۔ یا یہ ہے کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تو ہم نے سچی بات کہہ دی۔ سچی بات کہنے والے بدو بھی تھے۔ کیا وہ بڑے پسند کئے جاتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں وہ اکابر صحابہؓ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے حصہ پایا۔ کیا کبھی دیکھا گیا کہ انہوں نے ان بدوؤں کی طرح اعتراض کیا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کا کسی نے پلو پکڑ لیا اور کھینچنے لگا ۔ کیا وہ صحابہؓ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے حصہ لیا ایسا کیا؟ کبھی نہیں۔ تو بعض لوگ بدّو پَنا دکھاتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کر رہے ہیں۔ تو اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں چاہے تم اس کو سیاست کی بات کہہ دو یا کوئی اور نام دے دو۔ یا پھر آپس میں گروپ بندی ہو جائے گی۔ دوسروں کے خلاف شکایتیں شروع ہو جائیں گی۔ مرکز میں لکھنا شروع کر دیں گے۔ پھر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جیسے بے نام خط لکھ دیتے ہیں اور کسی کے نام پر شکایت لگا دیتے ہیں۔ دس پندرہ بندوں کے نام پر کسی عہدیدار کے خلاف شکایت لگا دیتے ہیں۔ ان ساری چیزوں سے تم نے بچنا ہے۔ اول تو جماعتی طور پر کسی ایسے خط پر جو بے نام ہے کارروائی کی نہیں جاتی۔ جس میں اتنی جرأت ہی نہیں کہ کسی کا قصور بتائے۔ یا کوئی غلطی دیکھی ہے تو بتائے۔ یا کسی عہدیدار کے خلاف شکایت کرنی ہے تو بتائے تو پھر اس میں منافقت پائی جاتی ہے۔ تم لوگوں نے کسی پارٹی کی طرف نہیں ہونا۔ تو جب دیکھو کہ دو فریق ایسے ہیں تو مربی نے تعلق تو بہر حال قائم رکھنا ہے۔ گھروں میں بھی جانا ہے۔ لیکن مربی نے وہاں جا کر چائے کی پیالی بھی نہیں پینی۔ ان کے گھر سمجھانے کے لئے ضرور جاؤ۔ جو دو فریق لڑے ہوئے ہیں ، دونوں کے گھر جاؤ۔ ان کو سمجھانے کے لئے لیکن نہ اس کے گھر سے کھانا پینا ہے نہ دوسرے کے گھر سے۔ تاکہ تم پر الزام نہ لگے کہ مربی صاحب فلاں کی Favourکر رہے ہیں۔ اس طرح کے اور بہت سے مسائل آتے ہیں جب فیلڈ میں جاؤگے تو دیکھوگے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ بعض لوگ حضور انور کو ہفتہ وارخط نہیں لکھنا چاہتے ، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حضور انور کا وقت ضائع ہو رہا ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ بہانہ ہے۔ اگر تو حقیقت میں ایسا ہے تو پھر ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ میرے لئے دعا کر رہا ہواور کم از کم دو نفل تو روز پڑھتا ہو ۔ لیکن اگر دعا بھی نہیں کر رہے اور خط بھی نہیں لکھ رہے تو تعلق نہیں قائم ہو سکتا۔ لمبے لمبے خط نہ لکھو۔ ایک دو صفحے کے لکھو۔ مہینہ میں ایک یا دو خط لکھو تاکہ تعلق قائم ہو جائے۔ کام کی بات بھی لکھنی ہو تو مختصر خط لکھا جا سکتا ہے۔ میں تو ہمیشہ جماعتی طور پر بھی اور ذاتی طور پر بھی جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو خط لکھا کرتا تھا۔ تو پہلے سوچتا تھا کہ کیا مضمون ہونا چاہئے۔ پھر سوچتا تھا کہ چار پانچ لائنوں سے زیادہ خط نہیں ہونا چاہئے۔ تاکہ ان کی نظروں کے سامنے سارے Points آ جائیں۔ ایسے خط کے جواب بھی آ جاتے ہیں۔ تین صفحوں کا خط بھی لکھوگے۔ تو میری ڈاک کی ٹیم کو چلا جائے گا اور وہ ایک لائن کا خلاصہ نکال کر مجھے دے دیں گے۔ ہو سکتا ہے جو خلاصہ وہ بنائیں اس میں وہ Points نہ آ سکیں جسے تم واضح کرنا چاہتے ہو۔ اس لئے مختصر بات کرنی چاہئے۔ جامعہ کے طلبا اور مربیان کو تو ضرور لکھنا چاہئے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ اپنی نمازوں میں سوز اور تڑپ کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ لمبا عرصہ پریکٹس کروگے تو سوز پیدا ہوگا۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ رونے والی شکل بناؤ تو ایک وقت رونا آ جائے گا۔ کوئی ایسی چیز جس سے تمہیں درد محسوس ہو۔ جس کے بارہ میں تم دعا کرنا چاہتے ہو، اس کے بارہ میں دعا کرو، دل سے جب دعانکلتی ہے تو اوروں کے لئے بھی سوز آ جاتا ہے۔ ایک پرانے مربی تھے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں عمرہ یا حج پر گیا اور وہاں مسجد نبوی میں بیٹھا تھا۔ تو سجدہ کیا لیکن رقت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ سوز پیدا ہو۔ تو اتنے میں ایک ریلا آیا اور میری کمر پر اتنی زور سے لات ماری کہ میری چیخ نکل گئی۔ تو اس چیخ کے بعد میری ایسی ہائے نکلی کہ جب میں سجدہ میں گیا تو سوز پیدا ہو گیا۔ اور مزہ آ گیا۔ اس سے پہلے کہ کسی کی ٹانگ تمہیں پڑے تم خود ہی سوز پیدا کرو۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ بعض لوگ جماعت میں ایسے ملتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جو ان کو دکھ ہے وہ نظام کی طرف سے ہے اور جماعت پر کافی تنقید بھی کرتے ہیں۔ اگر مربی سلسلہ کو ایسا محسوس ہو کہ اس شخص کے خلاف جو کارروائی کی گئی ہے، وہ واقعی سخت ہے لیکن صحیح ہے۔ تو اس صورتِ حال میں مربی کو کیا کرنا چاہئے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے تو اس معاملہ کی گہرائی میں جاؤ۔ یہ دیکھو کہ اس شخص کے جو جذبات ہیں، کیا وہ اس کی انا کی وجہ سے ہے اور کیا اس وجہ سے اس کی دوری ہوئی ہے۔ اگر کسی میں ایمان مضبوط ہے، تو ایسے شخص کا ایمان ان باتوں سے متزلز ل نہیں ہوتا۔ نہ وہ جماعت سے پیچھے ہٹتا ہے نہ خلافت سے۔ وہ بار بار لکھتا ہے کہ یہ باتیں میرے خلاف ہوئی ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہو چکا ہے جس کا میں خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں۔ ہمارے مرکزی دفاتر بھی بعض دفعہ غلط رپورٹ کر دیتے ہیں۔ جب ان لوگوں کے خطوط مجھے براہ راست آتے ہیں اور میں تحقیق کرواتا ہوں تو بات اَور ثابت ہوتی ہے۔ اس پر میں مرکزی عہدیداروں کو بھی سزا دیتا رہا ہوں۔ بعضوں کو معطل بھی کیا۔ بعضوں کو یہ بھی کہا کہ بیٹھ کر استغفار کرو۔ تو بعض دفعہ ایسی چیزیں ہو جاتی ہیں۔ بدظنی نہیں قائم ہونی چاہئے۔ خلافت سے تعلق اور نظام جماعت سے تعلق میں سب کو مضبوط ہونا چاہئے ۔ ہاں مربی کا کام ہے کہ ہر ایک کو سمجھائے کہ ٹھیک ہے یہ ہو گیا غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ انصاراللہ، خدام الاحمدیہ میں بھی مَیں کہتا رہتا ہوں کہ بعض دفعہ ایک شخص جو دور گیا ہے وہ غلط فیصلے کی وجہ سے دور گیا ہے۔ تمہارے عہدیداروں کے خلاف ہو گیا ہے۔ فلاں شخص کو کچھ شکایات تھیں تمہارے عہدیداروں کے خلاف ، جن کے سبب وہ دور ہو گیا۔ اس لئے مربی کو چاہئے کہ انہیں قریب لائے۔ خاص کر اگر مربی بھی نوجوان ہے۔ نوجوانوں سے تعلق پیدا کرو۔ انہیں قریب لاؤ۔ انہیں کہو کہ یہ چیز غلط ہے کہ تم نظام کے خلاف بولو۔ فلاں عہدیدار سے تکلیف پہنچی ، تو ایسا ہو سکتا ہے۔ فیصلہ بھی غلط ہو سکتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی چرب زبانی کی وجہ سے میرے سے غلط فیصلہ کروا لیتا ہے اور دوسرے کا حق مار لیتا ہے۔ تو وہ میرا قصور نہیں ۔ وہ اپنے پیٹ میں آگ کا گولا بھر رہا ہے۔ تو یہ چیزیں تو چلتی ہیں۔ لیکن نظام اور خلافت سے اس وجہ سے دوری نہیں ہونی چاہئے۔ بعض ایسے مخلصین ہیں کہ بار بار لکھتے ہیں لگتا ہے جیسے مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں جو پانی سے باہر نکال دی جائے۔ تو انہیں سمجھاؤ، قریب لاؤ، انہیں کہو کہ بار بار معافی مانگیں۔ جب تحقیق ہوگی اگر وہ صحیح ہیں تو ان کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا۔ اصل چیز یہ ہے کہ ایمانوں کی مضبوطی ہونی چاہئے۔ اس لئے ایمان کی مضبوطی کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ دنیا کے لیڈرز سے آپ ملتے رہتے ہیں۔ ان کی طبیعت کو سمجھ کر کچھ ایسی نصائح آپ بتائیں جن سے ان پر اثر ہو۔ جن سے مربیان کو فائدہ ہو سکے۔ کس طرح ہم کسی سیاست دان کے دل پر اثر کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو ہر ایک کی انفرادی طبیعت ہوتی ہے۔ ایک عمومی بات یہ ہے کہ تم لوگ احمدی ہو مربیان ہو، تمہارے پاس دلائل ہیں۔ اگر نیکی ہے اور تقویٰ ہو تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ حق بات کہو اور Balanceہو کر کہو۔ تو کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا۔ بعض بڑے بڑے سیاست دان میرے منہ پر کہہ گئے ہیں کہ تم بات کرتے ہو بڑے آرام سے کرتے ہو سچی کرتے ہو اور اسی سچی بات میں ہمارے منہ پر چپیڑ مار دیتے ہو۔ ہم کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ ایسے بھی Reaction ہوتا ہے۔ طریقہ آنا چاہئے۔ یہ دیکھو کہ ان کی نفسیات کیسی ہے۔ اگر Rudely کسی سے بولوگے ، صرف اعتراض کئے جاؤگے تو عزت نہیں ہوگی۔ حکمت نہیں ہوگی۔ اسی لئے تبلیغ اور ہر ایک کام میں اللہ تعالیٰ نے موعظہ حسنہ کا کہا ہے۔ تمہارا وعظ حکمت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ تو اکثریت پر اس کا اچھا اثر ہوتاہے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ جامعہ کے طلباء کے لئے شادی کرنے کا بہترین وقت کیا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب تم ضرورت محسوس کرو شادی ہونی چاہئے لیکن انتظامی طور پر میں اس وقت اجازت دیتا ہوں جب تم خامسہ میں پہنچ جاؤ۔ کم از کم رشتہ کرلینا چاہئے۔ لیکن نکاح نہیں۔ نکاح شادی کے قریب جاکر کرو۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ نماز کے دوران ذہن کبھی کبھی اِدھر اُدھر چلا جاتا ہے۔ اِس کا کیا حل ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وقفِ نو کی کلاس میں بھی کسی نے کہا تھا کہ کبھی کبھی خیالات نماز میں

ہٹ جاتے ہیں۔ اگر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے تو تم بڑے نیک آدمی ہو۔ لوگوں کے تو اکثر چلے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما یا ہے کہ قیام نماز کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ جب ذہن ادھر ادھر

جائے تو اس کو واپس لاؤ، وہیں جہاں سے چھوڑا تھا۔ رکن نماز کا اگر ہو گیا سجدہ میں تھے پھر کھڑے ہو گئے اگر اسی رکن میں تھے تو شیطان سے پناہ مانگو اور پھر دوبارہ اسی جگہ کو دوہراؤ۔ اگر دوسری حالت میں آ گئے ہو دوبارہ توجہ پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ ایسا کروگے تو آہستہ آہستہ عادت ہو جائیگی۔ لیکن اس کی طرح نہ کرو کہ پوری نماز ہی سفر میں گزر جائے۔ جس شخص کا سفر دہلی سے شروع ہوا اور کلکتہ سے ہوتے ہوئے بخارا پہنچا اور لاکھوں کا کاروبار کرکے مکہ آ گیا۔ اتنا نہیں ہونا چاہئے۔ خیال جلدی بدل جانا چاہئے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ حضور آج کل بہت لوگ مذہب سے ہٹ رہے ہیں اور خدا پر ان کا ایمان ختم ہو رہا ہے۔ انہیں کیسے تبلیغ کی جائے؟

حضور انور نے فرمایا کہ پہلے تو انہیں بتاؤ کہ خدا ہے۔ جو خدا کو نہیں مانتا اس کو پہلے خدا کے وجود پر لانا ہوگا۔ اگر تم کہہ دو کہ جماعت احمدیہ سچی ہے یا اسلام سچا مذہب ہے۔ تو وہ کہے گا تمہارے لئے ہوگا مجھے اس سے کیا۔ پہلی بات تو یہ کہ خدا پر یقین پیدا کرو۔ خدا کے وجود پر یقین پیدا کرواؤ۔ تمہارے پارلیمنٹ میں ہی ایک شخص آیا ہوا تھا جو کہتا تھا کہ مجھے خدا پر یقین نہیں ہے۔ میں نے مذہب کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن آج چند باتیں تمہاری سن کر مجھے یہ پتہ لگ گیا ہے کہ مذہب کوئی چیز ہے۔ جب مذہب ہے تو خدا بھی کوئی ہوگا۔ تو حکمت سے بعض باتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اس لئے پہلی بات یہ ہے کہ خدا پر انہیں یقین دلاؤ۔ خدا کا وجود کیا ہے، اس کے لئے خود بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور دلیلیں بھی پڑھو۔ موٹی دلیلوں کے لئے حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی کتاب ’’ہمارا خدا‘‘ پڑھو۔ کیا وہ کتاب سب لوگوں نے پڑھی ہے، کیا تمہاری لائبریری میں ہے؟ اس کو پڑھنا چاہئے تاکہ خدا کے وجود پر تمہیں یقین آئے۔ انہوں نے اس میں کئی دلیلیں دی ہوئی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ باتیں آگے چلتی ہیں۔ لندن گلڈ ہال میں ایک مذہبی کانفرنس ہوئی تھی اکیسویں صدی کا خدا کے موضوع پر۔ مختلف قسم کے لوگ آئے تھے، یہودی ، عیسائی، بڑے کارڈنل اور رَبائی بھی اور سیاست دان بھی تھے۔ وقت تو زیادہ نہیں تھا۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیاں جیسا کہ طاعون اور زلزلہ کی پیشگوئی اور زار کی جو سیاست دانوں کے لئے خاص ہوتی ہے۔ اس کی حالت کی پیشگوئی ان سب کا ذکر کیا تھا۔اگر خدا نہیں تو یہ کس طرح پوری ہوئیں۔ ان میں کئی لوگ دہریہ بھی تھے، جنہوں نے کہا کہ تم نے ہمیں کچھ سوچنے کو دیا ہے۔ تبدیل نہ ہوں کم از کم توجہ تو اس طرف ہو۔ تو حکمت سے اور موقعہ محل دیکھ کر باتیں کرنی ہوتی ہیں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ حضور انور نے ایک خطبہ میں فرمایا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا کرنا ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی پیار پیدا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقی پیار کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ خدا تک پہنچنے کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیلہ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے ، اللہ اور اس کے فرشتے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، درود سمجھ کر بھیجنا چاہئے۔ یہ بڑا ضروری ہے۔ اسی سے پھر محبت بڑھتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کے پیارے کو انسان پیار کرتا ہے تو پھر اللہ بھی پیار کرتا ہے۔ اس میں مسئلہ کیا ہے۔ سوال کھول کر واضح کرو۔

٭… اس پر طالب علم نے کہا۔ پیار کا اظہار کس طرح کیا جائے۔؟

حضور انور نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت ہونی چاہئے۔ دین کی غیرت ہونی چاہئے۔ جہاں کوئی اسلام یا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتا ہے تو غیرت میں جواب دینا چاہئے لیکن حکمت کے ساتھ جواب ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ بیٹھ کر لغویات سنو اور پھر وہاں بیٹھے رہو۔ یا تو جواب دو یا غیرت کا اظہار یہ ہے کہ اس مجلس سے اٹھ کر آ جاؤ اگر جواب نہیں آتا۔ بہت سارے اظہار ہیں محبت کے۔ اپنے لوگوں سے محبت ہو۔ جیسے اظہار کرتے ہو، ویسے ہونا چاہئے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔بعض مسلمان ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ تم ان سے محبت کرو، اس لئے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں۔ لا الہ الّااللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان سے نفرت تو کوئی نہیں ۔ ہاں ان کے غلط کاموں سے نفرت ہے۔ کسی شخص سے نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں۔ تو انہیں کہو، تمہارا کام تمہارا عمل تمہارے ساتھ ہے لیکن ہم تو تمہارے ساتھ اس لئے نفرت نہیں کریں گے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے ہو۔ جوہمیں بہت پیارے ہیں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ قرآن کریم کا سب سے پرانا نسخہ کہاں ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ کدھر ہے۔ لیکن بعض پرانے نسخے ترکی کے میوزیم میں موجود ہیں۔ ابھی انہیں برمنگھم میں ایک نسخہ ملا ہے۔ قرآن کریم کے بعض لکھے ہوئے حصے انہیں ملے ۔ جن پر جب تحقیق کی گئی تو پتہ لگا کہ وہ ساتویں صدی کے ہیں۔ یہ تو مختلف جگہوں پر ہیں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ آپ کو ایک دن میں کتنے خط آتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ خط تو بے شمار آتے ہیں، پندرہ سولہ سو تو آتے ہوں گے۔ لیکن جو میں خود دیکھتا ہوں وہ پانچ چھ سو ہیں۔ باقی میں اپنی ٹیم کو دے دیتا ہوں جو پڑھ کر اور خلاصے بنا کر مجھے دے دیتے ہیں۔ ہفتہ میں سات آٹھ ہزار خط کا خلاصہ بن کر آتا ہے۔ اس طرح روزانہ ہزار خطوں کا خلاصہ بن کرآ جاتا ہے ۔ پھر کہوگے لکھتے کتنا ہو ، جواب کتنے دیتے ہو۔ کبھی تمہیں میرے دستخط کے ساتھ جواب آیا ہے۔ بہت سارے خط پرائیویٹ سیکرٹری کے دستخط کے ساتھ آ جاتے ہیں۔ میں بھی بہت سے خطوں پر دستخط کرتا ہوں۔ پانچ چھ سو پر روزانہ کر دیتا ہوں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا کہ سب سے اچھا طریقہ تبلیغ کرنے کا کیا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے بھی میں نے بتایا ہے کہ وہ شخص کیسا ہے، کس چیز پر یقین رکھتا ہے۔ کسی کو خدا پر یقین نہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر تم کہو کہ احمدیت سچی ہے، وہ کہے گا، ہوگی سچی، اس لئے پہلے اسے خدا پر یقین کرواؤ۔ اگر مذہب کو سمجھتا ہے تو سچے مذہب کی نشانیاں بتاؤ۔ اسلام کیسا سچا مذہب ہے۔ اسلام میں کون کون سی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں، احمدیت کیا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئیں گے اور قرآن کریم کی پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوئیں۔ ہر ایک کو دیکھ کر تبلیغ کی جاتی ہے۔ بحث نہیں کرنی کسی سے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا کہ آپ کا پسندیدہ شوق کیا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کیا بتاؤں کیا شوق ہے۔ اب تو کوئی شوق رہا ہی نہیں۔ اب تو تم لوگوں سے مل کر ہی سارے شوق پورے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر کبھی بھی مجھے موقعہ ملے۔ اگر چند گھنٹے فارغ ہو جاؤں تو شکار کا شوق ہے۔ شوٹنگ کر لیتا ہوں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ آپ کو کینیڈا کے وقفِ نو سے کیا اُمید ہے؟

اس پر حضور انور نے فرما یا کہ جب تمہارے پیدا ہونے سے پہلے تمہاری ماں نے تمہیں وقف کیا تھا کس بات پر کیا تھا۔ اسی بات پر کیا تھا جو حضرت مریمؑ کی والدہ نے کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر بیٹی دیتی ہوں یا جو بھی بچہ پیدا ہو۔ امید یہی تھی کہ وہ دین کی خدمت کرنے والے ہوں۔ اللہ سے تعلق ہو اور دین کی خدمت کرنے والے ہوں۔ دنیا کی طرف دیکھنے والے نہ ہوں۔ اس لئے وقفِ نَو کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کی ہے۔ اس کے لئے ضرورت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو۔ دین سیکھو، دین کیا ہے۔ قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھو۔ صرف اس کو حفظ کرنا کافی نہیں۔ اس کا ترجمہ تشریح تفسیر بھی آنی چاہئے۔ پھر اس کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤ پھر اس کے مطابق تبلیغ کرو۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا تھا کہ کینیڈا میں سو سال کے اندر اسلام کا غلبہ ہوگا۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ ؒ نے فرمایا تھا کہ Potential ہے۔ اگر دوسری روکیں نہ آئیں اور حالات نہ بدلیں تو پھر ہی یہPotential قائم رہ سکتا ہے۔ اس میں صلاحیت ہے تو ہو جائے گا لیکن حالتیں بدلتے جاؤ تو پھر وقت آگے بھی چلا جاتا ہے۔حضرت موسیٰ ؑ سے غلبہ کا وعدہ کیا تھا ناں، لیکن ان کی قوم کی حالت کی وجہ سے غلبہ آگے چلاگیا تو کینیڈین اللہ تعالیٰ کے زیادہ لاڈلے تو نہیں۔ کام کرتے رہیں گے تو ٹھیک ہے۔ نیکیوں پر قائم رہیں اور اپنی حالت ٹھیک رکھیں لیکن اگر برائیوں میں بڑھتے جائیں اور برائیوں کے قانون زیادہ پاس ہوتے جائیں، سکولوں میں غلط رویے اختیار کرتے چلے جائیں تو اپنی نسلیں تباہ کریں گے پھر ہو سکتا ہے کہ وقت آگے چلا جائے۔ سو سال سے ڈیڑھ سو سال لگ جائیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عیسائیت کے پھیلنے کے لئے تین سو سال سے زیادہ عرصہ لگا تھا۔ لیکن اب تین سو سال نہیں گزریں گے کہ تم دیکھوگے کہ اکثریت دنیا کی احمدیت کے جھنڈے تلے ہوگی۔ اصل چیز یہ ہے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ عربی سیکھنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ بول چال کرو۔ تمہارے ایک عرب استاد بھی یہاں آ گئے ہیں۔ حضور نے استاد کو دیکھ کر فرمایا کہ آپ عرب ہیں؟ آج آپ پاکستانی لگ رہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اپنے اُستاد سے عربی بولا کرو۔ عربی کا پرانا سلیبس بڑا مشکل تھا۔ میں نے اسے دیکھا تھا۔ اس سے زبان بھی نہیں آسکتی تھی۔ اس لئے میں نے ممہدہ اور اولیٰ میں نیا سلیبس بھیجا تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ یوکے کے جامعہ میں شروع کروا کر فائدہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بعض بچے جو جامعہ میں نہیں تھے لیکن شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا۔ بعض بچے جی سی ایس سی کرکے انہوں نے صرف ایک ڈیڑھ مہینہ عربی سلیبس پڑھا اور اچھے بھلے عربی کے فقرے بنا لیتے ہیں بلکہ عربوں سے بولتے بھی ہیں۔ میں نے ان کی ڈیوٹی عربوں کے ساتھ لگائی تھی جلسے کے دنوں میں، ایک دو بچوں کی ، تو وہ عرب کہہ رہے تھے کہ یہ بڑے اعتماد سے اور صحیح طرح سے عربی بول رہے تھے۔ ایک اعتماد ہونا چاہئے اور دوسرا جرأت ہونی چاہئے۔ پھر ایک شوق بھی ہونا چاہئے، یہ ساری چیزیں ہوں گی تو عربی آ جائے گی۔ بلکہ کوئی بھی زبان آ جائے گی۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جری اللہ فی حلل الانبیاء تھے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء سے بڑھ کر ہیں۔ اس لئے سب انبیاء آپ کے مریدوں میں سے ہیں۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ موسیٰ عیسیٰ سارے ہوتے تو میری بیعت کرتے۔ نبی ہونے سے زیادہ اس بات کو ترجیح دیتے کہ میری امت میں سے ہوں۔ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو بہت بلند ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے سب پرانی تعلیمات کو جو اچھی تعلیمات تھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں سمو دیا۔ زائد بھی بہت کچھ دے دیا۔ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس وجہ سے کہ آپ جری اللہ تھے۔ اس وجہ سے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے:

’’ ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بڑھ کر غلامِ احمد ہے‘‘

آپ غلام ہیں اور اس کے باوجود آپ تمام انبیاء پر فوقیت رکھتے ہیں یا آپ سب انبیاء کے حلیہ میں آ گئے ہیں۔ تو میرے لحاظ سے اس کی تشریح یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تو سب انبیاء سے بڑھ کر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیین ہیں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ سیرین لوگ سیریا سے نکل کر مختلف ممالک میں جا رہے ہیں۔ اس پر لگتا ہے کہ کوئی خدائی تقدیر ہے۔ اگر ان سے رابطہ بنانا ہے اور تبلیغ کرنی ہے تو کس طرح کرنی چاہئے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ عرب بولنے والے جتنے بھی ہیں ان کو چاہئے کہ عرب پاکٹس (Pockets) کو تلاش کریں۔ وہاں جائیں اور انہیں دیکھیں کہ کیا تمہارے حالات ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ انہیں قریب لائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بارہ میں بتائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی پیشگوئیوں کی روشنی میں انہیں سمجھائیں۔ جو آیت آج پڑھی گئی ہے اس کی روشنی میں بتاؤ۔ یہ موقعہ انہیں ملا ہے آپ جا کر انہیں تبلیغ کریں۔ پیغام پہنچایا جائے۔ باقی زبردستی تو کسی سے نہیں کی جا سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بَلِّغ کا حکم تھا۔ کوئی زبردستی نہیں تھی۔ تبلیغی راستے تلاش کرو۔ یہ تو میں مربیان کو کہتا رہتا ہوں جو جو پاکٹس بنی ہیں تبلیغ کے نظام کے تحت ہر قوم کی پاکٹس کو تیار کیا جائے اور ان کے لئے خاص پروگرام کیا جائے۔ شعبہ تبلیغ کو بھی مَیں یہی کہتا ہوں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ کینیڈا میں جب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں ٹھیک ہے آپ کا پیغام اچھا ہے۔ آپ اپنے دائرہ میں رہو ہم اپنے دائرہ میں رہتے ہیں۔اسلام کے بارہ میں سیکھنا نہیں چاہتے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے ہم بیٹھ جائیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ڈھیری ڈھادے۔ خاموشی سے بیٹھ جائیں گے۔ نہیں بیٹھیں گے ۔ کیلگری میں سی بی سی کی نمائندہ نے ایسا ہی سوال کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ ہم تمہاری جان نہیں چھوڑنے والے، لگاتار لگے رہیں گے۔ تم نہیں مانوگی تو تمہارے بچے اور تمہاری نسلیں مان لیں گی۔ ہم نے اپنا کام جاری رکھنا ہے۔ مشنری ورک اسی طرح ہوتا ہے۔ ایک نسل نہیں مانے گی تو دوسری مانے گی۔ ہمارا کام تو یہی ہے کہ انسانیت کو بچائیں۔ جب تک انسانیت اس دنیا میں قائم ہے۔ ہم نے کام کرتے چلے جانا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں نہیں دعویٰ کیا کہ میری نسل میں جو ہیں وہ سب مان لیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سینکڑوں سے ہزاروں ہوئے اور ہزاروں سے لاکھوں اور اب اور بڑھ گئے اور دنیا میں پھیل گئے۔ دنیا میں جماعت کا تعارف ہو گیا۔ دنیا جماعت کو جاننے لگ گئی ہے۔ دنیا میں اعتراض ہونے لگ گئے ہیں کہ تم جماعت کی Favourکیوں کرتے ہو یا کیوں نہیں کرتے۔ تعارف ہر طرف بڑھ رہا ہے۔ اس پر نیک فطرت لوگوں کی توجہ بھی پیدا ہوگئی ہے۔ مان بھی لیں گے۔ لیکن یہ کہنا کہ سو فیصد لوگ مان لیں گے۔ کبھی نہیں ہوا، نہ کبھی ہوگا۔ لیکن اگلی نسل اور اس سے اگلی نسل ان میں کچھ ماننے والے آتے رہیں گے۔ تین سوسال کا عرصہ جو دیا ہے وہ اس لئے دیا ہے کہ مختلف نسلیں مانیں گی۔ اگر یہ نسل اس قابل نہیں تو شاید اگلی نسل مان لے گی۔ ہم نے اپنا کام کرنا ہے۔ جو ہمارے سپرد ہے۔ تھکنا نہیں۔ تھک گئے تو ختم ہو گئے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ جب کوئی انسان خواب دیکھتا ہے۔ تو اس کو کتنی اہمیت دینی چاہئے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بعضوں کو خواب دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی کسی کو اپنی خواب سنا رہا تھا تو وہ عورت کہتی کہ ٹھہرو میں ایک گھنٹہ کے بعد تمہیں ملوں گی۔ ایک گھنٹہ بعد آکر اس نے کہا کہ میں نے بھی یہ خواب دیکھ لی ہے۔ نفسیات دان کہتے ہیں کہ ہر ایک انسان رات میں تین چار خواب دیکھتا ہے۔ بعضوں کو یاد رہ جاتی ہے اور بعضوں کو نہیں یاد رہتی۔ لیکن بعض ایسی خوابیں ہوتی ہیں جن میں ایک پیغام ہوتا ہے۔ ایک شوکت ہوتی ہے۔ وہ یاد بھی رہ جاتی ہے اور اس کا دل پر اثر بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگ خوابیں لکھتے ہیں کہ درود پڑھتے ہوئے دیکھا یا قرآ ن شریف پڑھتے سنا۔ جب جاگ آتی ہے تو وہی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ بعض خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ ہر ایک کوان کی تعبیر بھی نہیں آتی ۔ ہر ایک تعبیر بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اچھا نسخہ بتایا ہے کہ بے شک تمہارے پر خواب کا اچھا اثر ہے یا برا اگر یاد رہتی ہے تو صدقہ دے دیا کرو۔ زیادہ تردّد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر سمجھتے ہو کہ ایسی خواب ہے جو جماعتی رنگ کی ہے، اس میں کوئی پیغام ہے تو مجھے لکھ دیا کرو۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ کا اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ رویہ میں کوئی فرق آیا؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میرا تعلق تو کسی سے نہیں بدلتا ۔ہاں اب میرے پاس اتنا وقت نہیں جیسے پہلے تھوڑی دیر بیٹھ لیا کرتا تھا۔ لمبا عرصہ پہلے بھی نہیں بیٹھتا تھا۔ اب تو کام کی نوعیت ہی بدل گئی۔ باقی تعلق ہے اور تعلق رہناچاہئے۔ وہ تو ختم نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلق میں مزید وسعت اور بہتری پیدا ہو گئی۔ ان دوستوں سے بھی اور دوسروں سے بھی۔ ہاں یہ ان سے پوچھ سکتے ہو جو میرے دوست ہیں۔ تمہارے ساتھ میرا رویہ تو نہیں بدلا۔ میرا خیال ہے میں نے کوشش کی ہے نہ بدلوں۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ ممہدہ کے لئے کیا نصیحت ہے جس سے ہمیں فائدہ ہو؟

حضور انور نے فرمایا کہ ہر روز جو کلاس میں پڑھتے ہو، ہوسٹل یا گھر میں آکر اسے پھر پڑھو اور دوہرا لیا کرو۔ ممہدہ کا تو سلیبس بڑا آسان ہے۔ اس میں جو فیل ہوتا ہے، میں اسے باوجود کوشش کے رعایتی پاس نہیں کر سکتا۔ اگر یہ انتظامیہ بعض دفعہ سختی کرتی ہیاور بعضوں کو یہ فیل کرکے رزلٹ بھیج دیتے ہیں صرف یہاں نہیں بلکہ دوسری جگہوں پر بھی لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ رعایت کروں میرے خیال سے پچیس تیس فیصد میں ان کا ریزلٹ مانتا ہی نہیں۔ پاس کر دیا کرتا ہوں۔ لیکن ممہدہ کا اتنا بنیادی کورس ہے کہ ان کو پڑھنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور شروع سے ہی نمازوں کی عادت ڈالو۔ شروع سے ہی عادت ڈالو کہ فجر سے پہلے دو نفل پڑھو۔ اپنی زندگی کو ریگولیٹ کرو۔ اپنا ایک ٹائم ٹیبل بناؤ اور اس پر عمل کرو۔ پہلے دن سے اگر عادت پڑ جائے گی تو آخر تک صحیح نظام ہوگا۔ پھر جب فیلڈ میں جاؤگے تو اسی کی عادت رہے گی۔ اس لئے روزانہ کا ایک چارٹ بناؤ اور اسی کے مطابق عمل کرو۔ ایک تو جامعہ کا سٹڈی ٹائم ہے پھر اخبار پڑھنے کا ٹائم ہے پھر جرنل نالج کے حصول کے لئے کچھ وقت ہے۔پھر نمازوں کے اوقات ہیں۔ کھاناکھانے کے لئے وقت ہے یا سونے کے لئے وقت ہے ۔ چھ سات گھنٹے سو کر اس کے بعد بقایا سترہ گھنٹے اپنا ٹائم ٹیبل بناؤ۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ کوئی ذاتی واقعہ یاد ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی جب وفات ہوئی تو میں 15 سال کا تھا۔ کئی چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں لیکن میں ایک واقعہ بتا دیتا ہوں ، پہلے بھی بعضوں کو بتا چکا ہوں ۔ مرزا شریف احمد صاحب جو حضرت مصلح موعودؓ کے سب سے چھوٹے بھائی تھے، میرے دادا، جب میں گیارہ سال کا تھا تو وہ 1961ء میں فوت ہو گئے تھے ۔ غالباً انسٹھ یا اٹھاون کی بات ہے۔ مجھے وہ باہر لے جایا کرتے تھے بازار وغیرہ جیسے بچوں کو لے جایا کرتے ہیں۔ دادوں کو شوق ہوتا ہے بچوں کی انگلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ایک دن مجھے کہتے چلو۔ حضرت مصلح موعودؓ کے گھر جانا ہے۔ قصرِ خلافت میں گئے تو مسجد مبارک کی طرف ایک دروازہ ہوا کرتا تھا جس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نماز کے لئے آیا کرتے تھے اور اوپر والی منزل پر رہتے تھے۔ وہ نیچے آکر کھڑے ہو گئے اور مجھے کہا کہ تم اوپر جاؤ اور جاکر بتاؤ کہ میں آیا ہوں۔ میں اوپر گیا حضرت مریم صدیقہ صاحبہ جنہیں چھوٹی آپا کہتے ہیں۔ وہاں حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ تھیں۔ میں نے انہیں کہا کہ مرزا شریف احمد صاحب آئے ہیں اور حضورؓ سے ملناہے۔ ان دنوں میں حضور کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ یہ ساٹھ کی بات ہوگی کیونکہ وہ لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک کرسی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے سرہانے رکھ دی تاکہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اس پر آکر بیٹھ جائیں۔ میں نیچے گیا اور ان کو بلا کر اوپر لے آیا۔ آکر وہ کرسی پر نہیں بیٹھے۔حضور کے سرہانے نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔ کرسی پیچھے کر دی۔ کوئی جماعتی باتیں تھیں وہ کرتے رہے مجھے تو سمجھ نہیں آئیں ویسے بھی میں دور چلا گیا تھا۔ اس کے بعد کھڑے ہوئے اور سلام کیا اور بڑے احترام سے کچھ دیر کھڑے ہوکر الٹے قدموں واپس گئے اور تھوڑی دور جا کر سیدھا ہوئے۔ تو یہ پہلا سبق بغیر بولے انہوں نے مجھے سکھایا کہ خلافت کا احترام کیسے کرنا چاہئے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ان سے باتیں کر رہے تھے، ان کی نظر میں بھی ایک خاص تعلق ٹپک رہا تھا۔ باتوں سے بھی لگ رہا تھا مجھے سمجھ تو نہیں آ رہی تھی لیکن میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں طرف سے ایک محبت ہے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔ پاکستان آپ کو کتنا یاد آتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تم خود وہاں سے دوڑ آئے ہوئے مجھے کیا پوچھ رہے ہو۔ کبھی کبھی ربوہ کی گلیاں یاد آتی ہیں۔ میں اپنے خاندان کا پہلا لڑکا ہوں جو ربوہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس لئے میری یادیں ربوہ کے ساتھ بہت ہیں۔ جب مٹی اُڑتی تھی ، کچی گلیاں تھیں، پھر گلیوں اور سڑکوں پر پہاڑی کی سرخ رنگ کی مٹی پڑنا شروع ہوئی تاکہ تھوڑا سا ربوہ کا جو رنگ ہے وہ نہ اٹھے۔ پھر موٹی روڑی پڑناشروع ہوئی۔ پھر سڑکیں بن گئیں۔ اب تو ربوہ بڑا ڈیویلپ ماشاء اللہ ہو گیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ وزیرخارجہ تھے یا ربوہ کے شروع کی بات ہے۔ جلسہ کے دن تھے۔ اس زمانہ میں نصرت ہائی اسکول میں جلسہ ہوا کرتا تھا ۔ مسجد اقصیٰ میں تو بہت بعد میں گیا ۔ عورتوں کا لجنہ کے احاطہ میں اور مردوں کا نصرت ہائی اسکول میں ہوتا تھا۔ قصرِخلافت میں ہی چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا گیسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ایک دفعہ شدید بارش ہو گئی ۔ لوگ بڑے آرام سے بیٹھے رہا کرتے تھے۔اس زمانہ میں ربوہ میں ایک ہی جیپ ہوا کرتی تھی۔ جو ناظر اصلاح وارشاد مقامی چوہدری فتح محمد سیال ہوتے تھے یا ان کی جگہ کوئی اور بدل گئے تھے۔ بہر حال وہ اس میں آئے تو ہمارے گھر کے قریب پہنچے تو اتنا زیادہ کیچڑ اور دلدل بن گئی تھی کہ وہ فور ویل ڈرائیو جیپ وہاں پھنس گئی۔ میں گھر کے دروازہ سے باہر نکل کر نظارہ دیکھنے لگا۔ ایک طرف فوجی کھڑے ہیں۔ خدام زور لگا رہے ہیں۔ دھکے دے رہے ہیں۔ لیکن جیپ اپنی جگہ سے ہل نہیں رہی۔ تو یہ حال ہوا کرتا تھا ربوہ کا۔ تو اُس زمانہ کی یادیں بھی ہیں اورپھر اِس زمانہ کی یادیں بھی ہیں۔ ربوہ پھر یاد آتا ہے۔

٭… ایک طالب علم نے سوال کیا۔انسان اپنے آپ کو مزکّی کس طرح بنا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بیٹھے بیٹھے تو انسان مزکّی نہیں بن جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی یاد، خوف اور خشیت یہی چیزیں ہیں ۔یہ ہوں گی تو انسان ہر برائی سے بچنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس کی باریکی میں جانے کی کوشش کرو۔ تم لوگ خاص طور پر جو دنیاوی تربیت اور ہدایت پر مامور ہونے والے ہو۔ اس چیز کے لئے خاص طور پر کوشش کرنی چاہئے۔ ایک دن میں تو نہیں بن جاتا۔ مسلسل کوشش ہونی چاہئے۔ دعا اور فضل پھر عاجزی چاہئے۔

یہ پروگرام ایک بجکر پانچ منٹ پر ختم ہوا۔ بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طلباء کو قلم عطا فرمائے اور سب طلباء نے شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔

بعدازاں ایک بج کر بیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سٹاف روم میں تشریف لے آئے اور اساتذہ کرام سے باری باری اُن کے مضامین کے بارہ میں دریافت فرمایا۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لے آئے جہاں تصاویر کا پروگرام ہوا۔ تمام کلاسز، اساتذہ، سٹاف، مدرسۃالحفظ کے طلباء اور مدرسۃالحفظ کے اساتذہ نے باری باری گروپ کی صورت میں اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جامعہ احمدیہ کی لائبریری کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے۔ دورانِ معائنہ ساتھ ساتھ بعض امور دریافت فرمائے اور ہدایات سے نوازا۔

حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی سالانہ جلد تیار ہوتی ہے وہ بھی منگواکر اپنی لائبریری میں رکھیں۔

مدرسۃالحفظ کا وزٹ

لائبریری کے معائنہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مدرسۃالحفظ میں تشریف لے گئے اور معائنہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ بچوں کو روزانہ دودھ کا ایک گلاس اور ایک اُبلا ہوا انڈا دیا کریں۔ مدرسۃالحفظ ربوہ میں یہ باقاعدہ طلباء کو مہیا کیا جاتا ہے۔

عائشہ اکیڈمی کا وزٹ

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عائشہ اکیڈمی کا معائنہ فرمایا جہاں خواتین اساتذہ نے حضورانور کو خوش آمدید کہا اور بچیوں نے گروپ کی صورت میں عربی قصیدہ پیش کیا۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان طاہر کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں جامعہ کی طرف سے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ تمام طلباء اور اساتذہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا کھایا۔ اس موقع پر مختلف جماعتی عہدیداران کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

بعد ازاں دو بج کر 40 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق چھ بج کر 25 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر آنے کے لئے ’’ایوان طاہر‘‘ تشریف لائے۔

عرب احمدیوں کے ایک پروگرام میں حضور انور کی بابرکت تشریف آوری

آج ایوان طاہر کے ایک ہال میں عرب احباب اور فیملیز کا ایک تربیتی اجتماعی پروگرام منعقد ہو رہا تھا جس میں 180 کی تعداد میں عرب احباب مردو خواتین شامل تھے۔ مکرم محمد طاہر ندیم صاحب (عربی ڈیسک یوکے) اس پروگرام کا انعقاد کر رہے تھے اور پروگرام اپنے اختتام کے قریب تھا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر آنے سے قبل اس پروگرام میں تشریف لے آئے۔ جونہی حضور انور کے چہرہ مبارک پر عرب احباب کی نظر پڑی تو عرب احباب نے بڑے پُرجوش انداز میں نعرے بلند کئے۔ اھلًا و سھلًا و مرحبا یا امیرالمومنین کی صدائیں ہر طرف سے بلند ہو رہی تھیں۔ کئی احباب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ خواتین بھی رو رہی تھیں اور بچیاں خیرمقدمی گیت پیش کر رہی تھیں۔ ایسا جوش اور ایسی والہانہ محبت کا اظہار تھا کہ جیسے جذبات کا کوئی ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بہہ رہا ہو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لئے تشریف فرما ہوئے اور آج کے اس پروگرام کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔ جس پر عرب احباب نے کہا کہ بہت اچھا اور مفید پروگرام رہا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آپ سب کے ساتھ فیملیز ملاقاتیں ہو رہی ہیں اس لئے ہر ایک سے ملاقات ہوجائے گی۔ اکثر عرب فیملیز کے ساتھ ملاقات ہو بھی چکی ہے۔

اس کے بعد حضور انور کچھ دیر کے لئے خواتین کے حصہ میں تشریف لے آئے جہاں ایک طرف بچیاں گیت پیش کر رہی تھیں تو دوسری طرف مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو حضور انور کے قریب کر رہی تھیں تاکہ یہ بچے حضور انور سے پیار لے سکیں۔ حضور انور نے کمال شفقت سے ان بچوں کو پیار دیا۔ بہت جذباتی مناظر تھے۔ ایک طرف حضورانور ان بچوں کو پیار کر رہے تھے تو دوسری طرف ماؤں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔

انفرادی و فیملی ملاقاتیں

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور پروگرام کے مطابق فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس سیشن میں 39 فیملیز کے 160 خوش نصیب افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی افراد نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر 35 منٹ تک جاری رہا۔

تقریب آمین

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف لے آئے جہاں تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت درج ذیل چالیس بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی:

عزیزم جاذب احمد، جواد احمد، منیب احمد، صباحت احمد، ولید احمد، ولید رانا، فاران خان، حارث احمد شایان چیمہ، شفاعت عدیل ملک، اطہر عرفان، کاشف نوید، ماہد گوندل، ریان اٹھوال، عیان اسماعیل ، حیان احمد، زوریز صالح، عزیز عبدالشافی، چوہدری نعمان، ظافر احمد رسول۔

ملیحہ ذکریا، سبیقہ طارق، شافیہ اکبر، عاتکہ کشف، علیشہ باجوہ، عالیہ باجوہ، نور ارسلان، بریرہ ربانی، بی بی حبیبہ، احسان تنویر، ہادیہ گوندل، کاشفہ باجوہ، مائرہ باجوہ، نعمارالیانہ، ماہ نور علی، سبیقہ باجوہ، شمائلہ احمد، عظمیٰ الماس فاروقی، بریرہ محمود قریشی، عزیزہ دانیہ صفی۔

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button