Africa Speaks (برکینا فاسومیں شہادتوں پر برِ اعظم افریقہ کا بیان)
منادی مہدیٔ دوراں کی جب سنائی دی
ہر ایک قوم کو منزل نئی سجھائی دی
یقیں سے لیس سفید و سیاہ فام ہوئے
روانہ دین کی راہوں پہ تیز گام ہوئے
اسی صدا سے مرا بھی وجود جاگ اٹھا
ہوائیں ساز ہوئیں، اُن سے ایک راگ اٹھا
یہ راگ وہ تھا جسے آسمان گاتا تھا
مرا سیاہ بدن اِس سے جھوم جاتا تھا
یہ مجھ سے کہتا تھا اب جاگ ارضِ مِہرِ گیاہ
پھر آج پیش کر دِیں کو بلالؓ ابن رباح
ترے بدن سے سُمَیّہؓ ہزار پیدا ہوں
اور اُن کی گود سے عمّارؓ پھر ہویدا ہوں
وہ جِن کے جینے سے ایماں کی جیت ظاہر ہو
اور ان کی موت بھی تمکینِ دیں کی خاطر ہو
میں اپنی عظمتِ رفتہ پہ رشک کرتا رہا
اور اپنی ہست میں ایماں کی روح بھرتا رہا
جب اک صدی کے سفر میں مَیں سرخرو ٹھہرا
سوال جشنِ تشکر کا روبرو ٹھہرا
وہ کیا ہے جس کو میں ربّ کے حضور پیش کروں؟
فُرات پیش کروں، کوہِ طُور پیش کروں؟
اک امتحاں مرے ایماں پہ ایسا ٹوٹ پڑا
مری زمین سے خود ہی فُرات پھوٹ پڑا
کئی بلالؓ اٹھے اور سامنے آئے
کہ جیسے چاہو ہمیں پیش کردیا جائے
سوال سامنے پھر لغزش و ثبات کا تھا
کہ امتحان یہ ایمان اور حیات کا تھا
اٹھائے خنجر و بارود نسلِ بولہبی
مٹانے آئی مرے دل سے خوئے مُطّلبی
تو جونہی اَذْبَحُکَ سے فضائیں گونج اٹھیں
مری زمیں سے اَحد کی صدائیں گونج اٹھیں
ہر ایک عاشقِ مہدی سراپا حاضر تھا
اور اپنی ذات میں ہر ایک ابنِ یاسرؓ تھا
سو باغِ مہدیؑ پہ قرباں ہوئے مرے فرزند
خدا کے دین پہ آنے نہ دی ذرا بھی گزند
جہاں یہ نو۹ نہیں، نو لاکھ کے برابر تھے
عدو کے بخت وہاں راکھ کے برابر تھے
سجا دی اپنے لہو سے قبائے جشنِ صدی
ہر ایک قطرے سے اُٹھی صدائے جشنِ صدی
یہ میرے بیٹوں کی قربانیاں مبارک ہوں
چمک رہی ہیں جو پیشانیاں مبارک ہوں
لہو سے اِن کے ہزار انقلاب ابھریں گے
مری زمیں سے کئی آفتاب ابھریں گے
٭…٭…٭