خطبہ عید

خطبہ عیدالفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ۰۲؍مئی ۲۰۲۲ء

ہماری عید دراصل وہی عید ہو سکتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہو

یاد رکھنا چاہیے کہ عید والا دن تو زیادہ عبادت کا دن ہے۔ عام دنوں میں تو پانچ نمازیں فرض ہیں اور عید والے دن چھ نمازیں فرض ہیں۔ حتی ٰکہ عورتوں کو بھی جنہیں بعض دنوں میں نماز معاف ہوتی ہے انہیں بھی عید والے دن عید گاہ جانے کا حکم ہے

ایک ہی چیز ہے جو دنیا کو تباہی سے بچا سکتی ہے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان ہے اور اس کی طرف آنا ہے

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہی دنیا کی بقا کی ضمانت ہے۔ عید کے موقع پر اس کا عہد کرنے کی تلقین

اسیرانِ راہِ مولیٰ، شہدائے احمدیت کے خاندانوں، جماعت کے لیے مالی قربانی کرنے والوں،
واقفینِ زندگی اور میدانِ عمل میں موجود مبلغین سلسلہ کے لیے دعا کی تحریک

خطبہ عیدالفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ۰۲؍مئی ۲۰۲۲ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے) یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا (النساء :37)

اس آیت کا ترجمہ ہے: اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ بہت احسان کرواور نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور اسی طرح رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں اور پہلومیں بیٹھنے والے لوگوں اور مسافروں اور جن کے تم مالک ہو ان کے ساتھ بھی۔ اور جو متکبر اور اِترانے والے ہوں انہیں اللہ ہرگز پسند نہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ آج ہمیں عید منانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے لیکن ایک مومن کے لیے حقیقی عید صرف یہی نہیں کہ اچھے کپڑے پہن لیے۔ اچھے کھانے کھا لیے۔ دوستوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں وقت گزار لیا۔ عید کی نماز پڑھ کر سمجھ لیا کہ اب عید کا فرض تو ادا ہو گیا اس لیے اب کھلی چھٹی ہے جو چاہے کرو۔ نہ اس دن وقت پر ظہر کی نماز کی ادائیگی کا خیال، نہ عصر کی نماز کا خیال، نہ باقی نمازوں کا خیال اور اگر خیال آیا بھی تو جلدی جلدی جمع کر کے پڑھ لیں۔ بلکہ بعض لوگ تو عید کی نماز بھی نہیں پڑھتے اور جب عید کی نماز ہو جاتی ہے تو بڑے اہتمام سے اٹھ کر تیار ہو کر عید کے دن کی جو دوسری رونقیں ہیں ان میں مصروف ہو جاتے ہیں جیسے یہی عید کا مقصد ہے۔ یہ میں صرف بات برائے بات نہیں کر رہا بلکہ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو عید کی نماز بھی نہیں پڑھتے اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں نیند آ گئی تھی، ہم سوئے رہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ عید والا دن تو زیادہ عبادت کا دن ہے۔

عام دنوں میں تو پانچ نمازیں فرض ہیں اور عید والے دن چھ نمازیں فرض ہیں۔ حتی ٰکہ عورتوں کو بھی جنہیں بعض دنوں میں نماز معاف ہوتی ہے انہیں بھی عید والے دن عید گاہ جانے کا حکم ہے۔

(صحیح البخاری کتاب العیدین باب اذا لم یکن لھا جلباب فی العید حدیث نمبر 980)

پس عید کے دن کی بہت اہمیت ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کو بھی دعا کرنی چاہیے کہ پہلے بعض حالات کی وجہ سے کچھ پابندیاں عورتوں پر لگی ہوئی تھیں کہ عید گاہ نہ آئیں۔ پھر کووِڈ کی جو بیماری تھی اس کی وجہ سے اَور سختی ہو گئی بلکہ مردوں پر بھی بعض جگہ حکومتی پابندیوں کی وجہ سے پابندی لگانی پڑی۔ تو

دعا کریں کہ پاکستان میں بھی اور دنیا میں بھی خاص طور پر پاکستان میں ان پابندیوں سے جلدی یہ لوگ نکلیں۔

یہاں تو اس سال دو سال بعد عید پر آنے کی پابندی اس طرح ختم ہے کہ اپنے اپنے علاقے میں عید پڑھیں اور سبھی کو آنے کی اجازت ہے۔ بہرحال عام حالات میں عید کی نماز کی ادائیگی کی خاص ہدایت ہے اسے بھولنا نہیں چاہیے۔

مَیں ذکر کر رہا تھا کہ

عید والے دن صرف ایک تہوار منانے کی طرح جمع ہونے کا دن نہیں ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے جو ہمارے سپرد کام کیے ہیں ان کا عام دنوں سے بڑھ کرحق ادا کرنا ضروری ہے۔ اپنی عبادت کے بھی حق ادا کرنا ضروری ہے اور بندوں کے حق ادا کرنے کی جو ہرمومن کی ذمہ داری ہے اسے ادا کرنا بھی ضروری ہے۔

اس دن یہ عہد کرنا چاہیے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی بھی مستقل کوشش اب کرتا رہوں گا اور بندوں کے حق ادا کرنے کی بھی مسلسل کوشش کرتا رہوں گا ،تبھی ہماری عیدیں حقیقی عیدیں ہوں گی۔ پس ایسی عیدوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان حقوق کی ادائیگی کی قرآن کریم میں بہت جگہ توجہ دلائی ہے۔ اگر ہم آج عید کے دن یہ عہد کرتے ہوئے ان حقوق و فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیں کہ آئندہ ہم نے ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے جن کا میں عمومی طور پر گذشتہ جمعوں کے خطبات میں بھی ذکر کرتا رہا ہوں تو ہم نے اپنے رمضان کے مقصد کو پا لیا اور عید منانے کے مقصد کو بھی پانے والے ہوں گے۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں

اللہ تعالیٰ نے بعض فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے

اور یہ ادا نہ کرنے والے تکبر کرنے والے اور شیخی بگھارنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ پس جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ان کا نہ دین ہے نہ دنیاہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک موقع پر اس کا بڑا سخت انذار فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس کے دل میں ذرّہ بھر بھی تکبر ہو گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ انسان چاہتا ہے کہ اچھا کپڑا پہنے، اچھی جوتی پہنے، خوبصورت لگے تو یہ کس زمر ےمیں آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تکبر نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو خود جمیل ہے۔ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے۔ لوگوں کو ذلیل سمجھے۔ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح سے پیش آئے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ حدیث نمبر 265)

پس عید والے دن اچھے کپڑے پہننا، تیار ہونا، خوشبو لگانا یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں لیکن ان کو فخر اور تکبر کا ذریعہ بنانا یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔

اس آیت میں ان باتوں کی طرف توجہ دلا کر پھر آخر میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور شیخی خورے کو پسند نہیں فرماتا۔ ان باتوں میں اللہ تعالیٰ کا بھی حق ہے اور بندوں کا حق بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اب یہ بےشک اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے لیکن اس کا فائدہ بندے کو ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ اللہ تعالیٰ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے تو یہ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا کوئی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہماری بہتری کے لیے، ہمیں نوازنے کے لیے، ہماری اصلاح کے لیے عبادتوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ ہمیں برائیوں سے روکنے کے لیے عبادت کا حکم ہے، نمازوں کا حکم ہے۔ ایک جگہ فرمایا اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ (العنکبوت:46)یقیناً نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر یقیناً سب ذکروں سے بڑا ہے۔

پس نمازوں کا، عبادتوں کا، اللہ تعالیٰ کے ذکر کا، اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا فائدہ ہمیں ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا بدلہ دیتا ہے، جزا دیتا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے اور آگ سے دور کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کر۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ نماز پڑھ۔ زکوٰة دے اور صلہ رحمی کر۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان الذی یدخل بہ الجنۃ الخ حدیث نمبر 104)یعنی رشتہ داروں سے پیار اور محبت کا سلوک کرو۔ پس دیکھیں! کس طرح اللہ تعالیٰ نواز رہا ہے۔ دنیا میں بھی نواز رہا ہے اور اگلے جہان میں بھی جنت کی خوشخبری دے رہا ہے۔

پھر ایک اَور روایت میں آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو محض للہ دو عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا جائے گا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فیمن قام لیلتی العیدین حدیث نمبر 1782)

کتنی بڑی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر عبادت کرنے سے ہمیشہ کے لیے انعام مل رہا ہے۔ پس

عید صرف خوشیاں منانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی راتوں کو عبادتوں سے زندہ کرنے کا نام ہے اور اس سے ہمیشہ کے لیے پھر روحانی زندگی حاصل ہو جاتی ہے۔

وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ رمضان ختم ہوا اب آرام سے سوئیں گے۔ کہاں تو سحری کھانے کے لیے اٹھتے تھے اور اس وجہ سے دو نفل بھی پڑھ لیتے تھے اور کہاں یہ کہ عید والے دن بعض بلکہ بہت سے فجر کی نماز میں بھی جاگنے کی سستی دکھا جاتے ہیں۔ بیماری کو کووِڈ کو بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔

فجر کی نماز پر مسجد میں آئیں۔

عید والے دن اگر کم حاضری تھی تو جہاں آج عید ہے ان کو کل بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور جہاں کل عید ہونی ہے وہ کل اس کمی کو پورا کریں کہ نماز پہ حاضری ہو یا کم از کم گھروں میں بچوں کے ساتھ صبح اٹھ کر وقت پر نماز باجماعت ادا کریں۔ حتی الوسع باجماعت نمازوں کا اہتمام کریں۔ خاص اہتمام سے سنوار کر جیساکہ پچھلے خطبہ جمعہ میں بھی مَیں نے کہا تھا کہ

سنوار کر نمازوں کی ادائیگی کریں۔

رمضان ختم ہونے اور آج عید منانے کو ہمیں اپنی عبادتوں سے رخصت یا کمی یا پورا اہتمام نہ کرنے کا اجازت نامہ نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ یہ عبادتیں ہی ہیں جو ہماری دنیوی اور آخری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے کی ضمانت بنیں گی۔

اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد

اس آیت میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ مَیں نے مختصر الفاظ میں بتایا تھا کہ صلہ رحمی کا ارشاد فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تفصیل سے بعض حقوق کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ فرمایا

والدین کے ساتھ احسان کرو۔

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بعد والدین کا سب سے بڑا احسان ہے جنہوں نے پال پوس کر بڑا کیا۔ یہ ایسا احسان ہے جس کا بدلہ ہم کبھی اتار ہی نہیں سکتے۔ یہاں والدین سے احسان سے مراد ہے کہ ہمیشہ ان سے نرمی اور پیار سے بات کرو۔ ان کا عزت اور احترام کرو۔اللہ تعالیٰ دوسری جگہ والدین کے بارے میں فرماتا ہے کہ فَلَا تَقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ (بنی اسرائیل: 24)۔ یعنی انہیں اُف بھی نہیں کرنا۔ اُف انسان کسی بات کے بُری لگنے پر کہتا ہے تو یہاں فرمایا کہ انہیں کسی بُری لگنے والی بات پر بھی اُف نہیں کرنا۔ دوسری جگہ فرمایا: ان کی ہر طرح خدمت کرو۔ بات مانو سوائے اس کے کہ دین کے خلاف کوئی بات کریں۔ خداتعالیٰ کے خلاف کوئی بات کریں۔ یہاں دین مقدم رکھنا ہے لیکن پھر بھی سختی نہیں کرنی۔ یہ کہہ دینا ہے کہ میں اس بارے میں اطاعت نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے، دین کا معاملہ ہے۔

پس یہ وہ سلوک ہے جس کا ایک مومن کو ماں باپ سے کرنے کا حکم ہے۔ پھر

رشتہ دارو ں سے حسن سلوک کا حکم ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو رزق کی فراخی چاہتا ہے یا جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر میں برکت پڑے اور اس کا ذکر خیر زیادہ ہو اسے صلہ رحمی کا خلق اختیار کرنا چاہیے۔

(صحیح البخاری کتاب البیوع باب من احب البسط فی الرزق حدیث نمبر 2067)

اپنے سگے رشتے دار ہیں یا سسرال کی طرف سے رشتہ دار ہیں ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ جو لوگ آسودہ حال ہیں۔ باہر کے ممالک میں آکر اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات بہتر کر دیے ہیں انہیں عید کی خوشیوں میں اپنے عزیزوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جن کے حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اور اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ جواب میں اچھا سلوک کریں تو تب ہی ان سے احسان اور اچھے سلوک کا اظہار کرنا ہے بلکہ اگر وہ مثبت رویہ نہ بھی دکھائیں تب بھی احسان کا سلوک کرنا ہے۔ جب ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں رشتہ داروں سے نیک سلوک کروں تب بھی وہ تعلق توڑتے ہیں، صحیح جواب نہیں دیتے، صحیح سلوک نہیں کرتے تو ایسی صورت میں مَیں کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ تُو جو کہہ رہا ہے اگر وہ سچ ہے تب بھی اسی طرح کرو۔ ان سے نیک سلوک کرو۔یہ تمہارا اُن پر احسان ہے اور جب تک تم ان سے یہ سلوک کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرتا رہے گا۔

(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا حدیث نمبر 6525)

پس نیک کام کرنا ہمارا کام ہے اور عید کی حقیقی خوشی تبھی ہے جب یہ نیک سلوک بغیرکسی بدلے اور اجر کے انسان کرتا رہے۔

اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے اور اس کی جزا اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ بعض مرد اپنی بیویوں کو اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے روکتے ہیں، حتیٰ کہ ماں باپ یعنی بیویوں کے رشتہ دار اور ماں باپ سے بھی ملنے سے روکتے ہیں۔ یہ انتہائی جہالت کی بات ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں اور رنجشیں دل میں رکھ کر کہ بیوی کے بھائی نے فلاں موقع پر یہ کہہ دیا، اس کی بہن نے وہ کہہ دیا۔ ماں باپ نے فلاں موقع پر میرے یا میرے ماں باپ سے ایسا رویہ دکھایا۔ فلاں کے چچا یا ماموں نے اس طرح بات کی۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ ایک مومن کا شیوہ نہیں کہ اس قسم کی سوچیں رکھے۔ اور یہ باتیں عموماً سامنے آتی رہتی ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے والا بننا ہے تو پھر ان لغو اور بیہودہ باتوں کو چھوڑنا ہوگا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بظاہر نیچا ہو کر دوسرے کو سلام بھی کرتا ہے، صلح میں پہل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے۔ پس اس طرف بھی ہر احمدی کو خاص توجہ دینی چاہیے۔

اسی طرح آپس میں میاں بیوی کے تعلقات ہیں، گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو رنجشیں ہو رہی ہوتی ہیں انہیں بھی دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مرد کو اگر حکم ہے کہ عورت سے حسنِ سلوک کرے تو عورتوں کو بھی حکم ہے کہ اپنے اندر قناعت پیدا کریں اور اپنے گھروں کو سنبھالیں۔

پھر حقوق العباد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھو۔

یہ ایک بہت اہم کام ہے جس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہیے۔ اگر خود کسی یتیم کو نہیں بھی جانتے تو جماعت میں یتامیٰ فنڈ ہے اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہیے۔ عید کی خوشیوں میں یتیموں کو شامل کریں۔ اس مدّ میں چندہ دینا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی پرورش کرنے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں یوں اکٹھے ہوں گے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں اکٹھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے انگلیوں کا اشارہ کر کے فرمایا۔

(صحیح البخاری کتاب الطلاق باب الاشارۃ فی الطلاق والامور حدیث نمبر 5304)

پس یہ جاری نیکیاں ہیں اس میں بھی ضرور شامل ہونا چاہیے۔ اسی طرح

جماعت میں اَور بھی امداد کے بعض فنڈ ہیں، شادی فنڈ ہے، مریضوں کے فنڈ ہیں، طلبہ کی تعلیم کے فنڈ ہیں ان میں جن کو توفیق ہو حصہ لینا چاہیے۔

پھر مسکینوں کی پرورش کی طرف بھی توجہ دلائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو مساکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 98 حدیث نمبر 7566 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس نیکیوں کی توفیق ملنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ خدمتِ خلق کے کام ایک مومن کو اپنے پر فرض کرنے چاہئیں اور عیدوں کے موقع پر خاص طور پر اس کا خیال آنا چاہیے اور یہ مدد صرف عیدوں کے دن کے لیے نہیں بلکہ جن کو توفیق ہے انہیں مستقل کرتے رہنا چاہیے۔

پھر

ہمسایوں سے حسن سلوک

کا حکم ہے۔ اگر ہمسایوں کی حقیقت سمجھ کر پھر ان کے حق ادا کرنے کی انسان کوشش کرے تو دنیا سے فساد ہی ختم ہو جائے اور ایک مومن کے لیے حقیقی عید تو ہے ہی اس وقت جب دنیا سے فساد ختم ہو۔ ہمسائے کی کیا تعریف ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ

سو کوس تک بھی تمہارے ہمسائے ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد7صفحہ 280)

سو میل تک ارد گرد تمہارے جو لوگ ہیں وہ تمہارے ہمسائے ہیں۔ اس تعریف کے تحت کوئی ہمسائیگی سے باہر نہیں رہتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

اگر تمہارے پڑوسی تمہاری تعریف کریں تو تم اچھے پڑوسی ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الثناء الحسن حدیث نمبر 4222)

پس یہ اچھی ہمسائیگی کا معیار اور یہ وہ معیار ہے جس سے معاشرے میں محبت اور پیار قائم ہوتا ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ ہم مذہب ہے یا غیر مذہب والا ہے بلکہ بعض لوگ تو میں نے دیکھے ہیں کہ یہاں اپنے غیر مذہب ہمسایوں سے زیادہ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اپنے احمدیوں سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ یہ رنجشیں بھی عید کے حوالے سے ہمیں دور کرنی چاہئیں۔

پھر

اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے،
اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔

اگر اس حکم پر ہر ایک عمل کرنے لگ جائے تو تبلیغ کے بھی نئے راستے کھلیں گے اور جب یہ تبلیغ کے راستے کھلیں تو پھر وہی عید حقیقی عید بن جائے گی۔ یہاں مغرب میں، مغربی ممالک میں آج کل اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً ابال اٹھتا رہتا ہے، یہاں ہمیں اپنے اخلاق سے ہی لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم دکھانی ہو گی۔

پھر

اپنے ماتحتوں اور کمزوروں سے حسنِ سلوک کا حکم ہے۔

اپنوں کے ساتھ بھی اور غیروں کے ساتھ بھی۔ اسلام کہیں یہ نہیں کہتا کہ تمہارے قریبی صرف تمہارے ہم مذہب یا ہم قوم ہیں۔ انہی سے حسن سلوک کرو بلکہ وہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے اور غیر رشتہ داروں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے۔ ہمسایوں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے اور وہ ہمسائے جو تمہارے ساتھ ہیں اور وہ ہمسائے جو دُور کے ہیں ان کے حقوق کی بات کرتا ہے بلکہ وہ بھی ہمسائے ہیں جو کسی سفر میں تمہارے ساتھ تھے ان کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے۔

پھر

محروموں اور کمزوروں کے حقوق

کی بھی بات کرتا ہے۔ تمہارے ماتحتوں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے۔ کون سا حق ہے جو اسلام نے چھوڑا ہے۔ ان حقوق کا دوسری آیات میں بھی ذکر ہے۔

پھر حقوق کے قائم کرنے کے لیے ایک خوبصورت تعلیم جو قرآنِ کریم نے بیان فرمائی ہے وہ ہے

عدل اور انصاف کی تعلیم

اور وہ اس تفصیل سے بیان کی ہے کہ جس کی مثال نہیں۔ کئی مواقع پر بیان فرمایا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا کہ ایسی سچی گواہی انصاف قائم کرنے کے لیے دو کہ چاہے اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف دینی پڑے تو دو جیسا کہ فرمایا يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ (النساء:136) اے ایماندارو !تم پوری طرح انصاف پر قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جاؤ۔ گو تمہاری گواہی تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف پڑتی ہو۔ یہ وہ باتیں ہیں جو معاشرے کا امن قائم رکھتی ہیں اور حسین معاشرے کو جنم دیتی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں تو دنیا کو ہی جنت بنا دیتی ہیں۔ یہ وہ عید ہے جو حقیقی عید ہے۔ جب ہمیں اس دنیا میں جنت مل جائے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کر کے ہم دنیا کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔ اصل نیکی جس کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے یہی ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے نہ کہ اپنے حق حاصل کرنے کے لیے اس دنیا میں فساد پیدا کیا جائے۔ یہی ایک مومن کی شان ہونی چاہیے کہ یہ کوشش کرے کہ اس کے ذمہ کسی کا حق باقی نہ رہے۔ اپنا یہ جائزہ لے کہ میرے ذمہ کسی کا حق تو باقی نہیں ہے۔ تلاش کرے حق۔ صرف حق یہ نہیں ہے کسی کا قرض دینا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اپنی جتنی استعدادیں ہیں یا صلاحیتیں ہیں یا اخلاق ہیں ان سے دوسرے کے ساتھ سلوک کرنا اور اچھا سلوک کرنا۔ دوسروں کے دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس کریں اور یہی چیزیں ہماری عید کو حقیقی عید بنا سکیں گی۔ صرف ایک دن کی عید نہیں بلکہ ایسی عید جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے دائمی عید بنے گی۔

پھر عید کے موقع پر دنیا کی عمومی فکر بھی ہمیں کرنی چاہیے۔ اس کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔ صرف اپنی خوشیوں میں ہی اطمینان نہ حاصل کر لیں۔

دنیا آج کل تباہی کی طرف جا رہی ہے ہمیں اس کی فکر ہے اور ہونی چاہیے کہ انسانیت کو بچانا بھی ہمارا کام ہے۔

یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اگر عہدوں کی پابندی ہوتی، اگر ہر سطح پر انصاف کرنے اور حقوق ادا کرنے کی کوشش ہوتی، انصاف کو حقیقی رنگ میں قائم کیا جاتا، اگر حقوق کی ادائیگی کاحق ادا کیا جاتا تو نہ ہم عراق کی تباہی دیکھتے، نہ شام کی تباہی دیکھتے، نہ لیبیا کی تباہی دیکھتے، نہ یمن کی تباہی دیکھتے، نہ افغانستان کی تباہی دیکھتے۔ ان کا آج کل جو یہ حال ہوا ہے یہ نہ دیکھتے اور نہ اب یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھتے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا حقوق کی ادائیگی کا یہ صحیح ادراک حاصل کرنا اور دنیا کو اسلام کی تعلیم کا صحیح طور پر بتانا، اس کا پتہ دینا اور خود اس پر عمل کرنا یہ تبلیغ کے نئے راستے کھولے گا اور دنیا کو بچانے کا بھی ذریعہ بنے گا۔ ہمیں اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ دنیا تو اپنی تباہی پر تلی ہوئی ہے کوئی ان کو خیال نہیں ہے۔ ان کے نزدیک دنیاوی طاقت اور اس کا اظہار ہی اور اپنی برتری کو ثابت کرنا ہی ان کی زندگی اور بقا کی ضمانت ہے لیکن نہیں جانتے کہ یہ ان کی بقا کو نہیں بلکہ تباہی کو یقینی بنا رہی ہے۔

یہ بھی خوش فہمی لگتی ہے کہ نیوکلیئر ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے یا اس کا امکان کم ہے۔

دھمکیاں تو اس حوالے سے یہ ایک دوسرے کو دے رہے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ استعمال ہوں گے یا نہیں لیکن یہ یقینی بات لگ رہی ہے کہ تباہی اور بربادی کی طرف بڑی تیزی سے یہ لوگ بڑھ رہے ہیں اور اس کا آخری نتیجہ تباہی و بربادی ہونا ہے۔ ایسے میں

ایک ہی چیز ہے جو دنیا کو تباہی سے بچا سکتی ہے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان ہے اور اس کی طرف آنا ہے۔

دنیا کو تو نہ اس بات کا ادراک ہے نہ اس کا علم۔ یہ احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کو اس راستے کی طرف راہنمائی کریں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی یہ ادائیگی ہی ان کو بتائیں کہ ان حقوق کی ادائیگی ہی تمہاری بقا کی ضمانت ہے۔ تمہاری طاقتیں نہیں۔عوام الناس کو یہ بتانا ہو گا کہ کس تباہی کی طرف تمہارے لیڈر تمہیں لے کر جا رہے ہیں۔ پس تبلیغ کے راستے نئے انداز سے ہمیں حالات کے مطابق کھولنے چاہئیں۔ اپنے اپنے حلقے میں لوگوں سے رابطہ کر کے راہنمائی کرنی ہو گی۔ سوشل میڈیا پر اِدھر اُدھر کی باتیں جو ہم کر کے وقت ضائع کرتے ہیں اس کے بجائے تعمیری باتیں کریں۔ ان باتوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف آنے کی طرف راہنمائی کریں۔ یہ بتائیں کہ یہ حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف آؤ گے تو تمہاری بقا ہے۔ اگر ہم یہ کام کرلیں، دنیا کو اس طرح بتا دیں تو جہاں ہم اپنے گھروں، اپنے شہروں، اپنے ملکوں میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے دنیا کو بھی تباہی سے بچا کر خوشیاں دینے والے ہوں۔

دنیا کو تباہی سے بچانے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی پہچان کروا کر اس کا حق ادا کرنے والا بنا دیں

اور اس کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کو بھی اعلیٰ معیاروں تک لے جانا ہو گا اور یہی حقیقی عید ہے۔ یہی عید ہے جس کے منانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو زمانے کی اصلاح کے لیے بھیجا تھا اور آپؑ نے اس بارے میں دنیا کو بار بار متنبہ کیا ہے۔

اس وقت میں حضرت مصلح موعودؓ کا بھی ایک مختصر حوالہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو کسی نے ایڈیٹر الفضل کو بھیجا تھا۔ یہ حضرت مصلح موعود ؓکے عید کے خطبہ کا حوالہ ہے، یہ چھپا ہوا ہے اور اتفاق سے یہ عید بھی جو عید الفطر تھی 2؍مئی کو 1957ء میں ہوئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بیماری کی وجہ سے بڑا مختصر خطبہ دیا تھا لیکن اس کا بھی میں خلاصہ پیش کر دیتا ہوں اور وہ بھی تبلیغ کے حوالے سے ہے کہ ہمارے اندر تبلیغ کاکیا درد ہونا چاہیے۔ کس طرح ہمیں دنیا کو ہوشیار کرنا چاہیے اور کس طرح ہم حقیقی رنگ میں اپنے احمدی مسلمان ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں؟

آپؓ نے فرمایا کہ

ہماری عید دراصل وہی عید ہو سکتی ہے
جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہو۔

اگر ہم عید منائیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ منائیں تو ہماری عید قطعاً عید نہیں کہلا سکتی۔ فرمایا ایک مسلمان کے لیے چاہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اگر اس کی عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں اور اگر وہ اس ظاہری عید پر مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کی عید کسی کام کی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید سویاں کھانے سے نہیں آتی نہ شیر خرما کھانے سے آتی ہے بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے۔

اگر قرآن اور اسلام پھیل جائے تو ہماری عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہو جائیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں گے کہ جس مشن کو مَیں لے کر آیا تھا ابھی تک میری امّت نے اسے قائم رکھا ہوا ہے۔ پس کوشش کرو کہ اسلام کی اشاعت ہو، قرآن کی اشاعت ہو تا کہ ہماری عید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوں۔ بےشک ہم تبلیغ کرتے ہیں لیکن اس کا حق ادا کرنے کے لیے ہمیں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جس طرح تبلیغ کا حق ہے ہماری اولادوں میں بھی وہ تڑپ اور روح ہے جو پہلوں میں تھی یا ہمارے اندر بھی وہ تڑپ اور روح ہے جو پہلوں میں تھی۔ جب تک ہم تبلیغ کی یہ تڑپ اور روح اپنی اولادوں میں اور اپنے اندر پیدا نہیں کر لیتے ہم حقیقی عید جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہے نہیں منا سکتے۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد اوّل صفحہ 488تا 490)

پس یہ پیغام بھی ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ یہ روح ہم نے آگے اپنی نسلوں میں بھی منتقل کرنی ہے۔ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے بننا ہے اور اپنی نسلوں کو بھی کہنا ہے کہ وہ ادا کرنے والے بنیں۔ وہ حقوق العباد بھی ادا کرنے والے ہوں اور قرآن اور اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بھر پور کوشش کرنے والے بھی ہوں اور پھر یہ روح نسلاً بعد نسل ٍآگے منتقل کرتے چلے جانے والے ہوں۔ یہ روح ہم نے آگے منتقل کرنی ہے۔ اور اس وقت تک ہم چین سے نہ بیٹھیں جب تک تمام دنیا پر اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا نہ لہرانے لگے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے کہ ہم ایسی عیدوں کے نظارے دیکھنے والے ہوں، ایسی عیدوں کے حصول کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اور کوششوں کو عمل میں لائیں۔

اب دعا ہو گی۔

دعا میں اسیران کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں، شہداء کے خاندانوں کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو۔ جماعت کے لیے مالی قربانی کرنے والوں کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے اموال و نفوس میں بےانتہا برکت عطا فرمائے۔ واقفینِ زندگی کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں وقف کی روح کو قائم رکھتے ہوئے ایک جوش اور جذبے سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان مبلغین کے اندر جو میدانِ عمل میں ہیں ایک ہی تڑپ ہوکہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا ہے اور دنیا کو توحید کے جھنڈے کے نیچے لے کر آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں میں بے انتہا برکت ڈالے اور ہم اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کو دنیا میں جلدتر دیکھنے والے ہوں۔

٭٭خطبہ ثانیہ ۔ دعا٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button