تین عظیم الشان موعود
تحریر مکرم ملک سیف الرحمان صاحب (مرحوم)
قسط نمبر 2
تیسرا عظیم الشان موعود جس کے ظہور کی پیشگوئیاں کتب سابقہ اور اسلام کے دینی ادب میں بکثرت موجود ہیں وہ ’’مسیح موعود ‘‘ ہے لیکن قبل اس کے کہ ان پیشگوئیوں اور دلائل کو زیر بحث لایا جائے جن کا تعلق’ ’مسیح موعود‘‘ کی صداقت سے ہے ایک ’’بنیادی اُصول‘‘ کو بیان کرنا ضروری ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ ماموریت کے دعویداران کو اگر لوگ سچا نہیں سمجھتے تو وہ ان کے ساتھ کیا رویہ اورسلوک اختیار کریں ۔ قرآن کریم نے اس ’’ الٰہی اُصول ‘‘کو ایک واقعہ کی شکل میں بیان کیا ہے جس کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے ۔قرآن کریم کہتاہے کہ جب حضرت موسیٰ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آپ کی سخت مخالفت شروع ہوگئی اس پر قوم کے ایک سمجھ دار فرد نے نصیحت کے رنگ میں مخالفین سے کہا کہ موسیٰ نے ایک دعویٰ کیا ہے وہ اس دعویٰ کو لوگوں کے سامنے بیان کرتاہے اس سلسلہ میں نہ وہ تشدد سے کام لیتاہے اورنہ ہی بغاوت اورفساد پر اُکساتا ہے صرف وعظ وتلقین کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے اس دعویٰ میں اگر وہ جھوٹا ہے تو اس جھوٹ کی سزا اُسے خدا دے گا وہ خود پکڑا جائے گا اورخدا تم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے اس جھوٹے کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی لیکن اگر وہ سچا ہے تو پھر مخالفت کرکے تم مارے جائوگے خدا کی گرفت سے تم بچ نہیں سکو گے۔ پس اگر وہ سچا ہے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا اورتم ناکام رہو گے۔(اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ۔ (المؤمن29:)
یہ قرآنی اُصول ہر اُس مدعیِ نبوت اورماموریت سے متعلق دائمی ہے جس نے اپنے مشن کی بنیاد حکمت و موعظت پر رکھی ہو ۔
اس اصولی وضاحت کے بعد سب سے پہلے ہم انجیل کی بعض پیشگوئیوں کو پیش کرتے ہیں جن کا تعلق مسیح موعود کی بعثت سے ہے ۔
حضرت مسیح علیہ السلام اپنی دوبارہ آمد کے بارہ میں فرماتے ہیں
’’مَیں تمہیں یتیم نہ چھوڑوںگا۔مَیں تمہارے پاس آئوں گا ۔ …… تم سن چکے ہو کہ میں نے تم سے کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتاہوں‘‘ ۔
(یوحنا باب 14 آیت 18 تا 28)
پھر انجیل متی کے مطابق مسیح ؑ نے فرمایا
’’جیسا کہ نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہوگا کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اوربیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوا اور جب تک طوفان آکر اُن سب کو بہا نہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کا آنا ہوگا … پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کس دن آئے گا ۔ ….. جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آجائے گا‘‘۔ (متی باب 24 آیت 37 تا44)
کتاب اعمال میں مسیح کے دوبارہ آنے کی یہ پیشگوئی اس طرح ہے
’’توبہ کرو اور رجوع لائو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خداوند کے حضور سے تازگی بخش ایّام آئیں اوروہ یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی ۔ ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا ہے اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اٹھاوے گا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سنو۔ اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا بلکہ سب نبیوں نے سموئل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا اِن د نوں کی خبردی ہے ۔تم نبیوں کی اولاد اور اُس عہد کے ہو، جو خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابراھام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے ۔ تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اُس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے۔‘‘
(اعمال باب 3 آیت 19 تا 26 ۔ اس پیشگوئی میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت اُولیٰ اوربعثت ثانیہ دونوں کا ذکر ہے جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ آیت نمبر 4 میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے ۔)
بائبل کی یہ پیشگوئیاں اپنے مفہوم کے لحاظ سے بالکل واضح ہیں لیکن اس کے باوجود مسیح کے ماننے والوں کا طرزعمل وہی ہے جو مسیح کے وقت کے لوگوں کا تھا کیونکہ یہ لوگ بھی مسیح کے دوبارہ آنے کے مفہوم اور اُس کے تمثیل ہونے کے معنے کو نہ سمجھ سکے اور یہ عقیدہ بنالیا کہ ان پیشگوئیوں کے مطابق مسیح نے خود دوبارہ آنا ہے۔ حالانکہ جب سے دنیا آباد ہوئی ہے اُسی وقت سے الٰہی سنت یہی رہی ہے کہ جو گیا وہ واپس نہیں آیا اور کسی نے کسی کو وفات کے بعد دوبارہ آسمان سے اترتے نہیں دیکھا ۔ حضرت ایلیا کے آسمان سے اترنے کی پیشگوئی بائبل میں موجود ہے لیکن خود مسیح نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ خود ایلیا دوبارہ نہیں آئے گا بلکہ اُس کے آنے سے مراد اُس کے مثیل یحییٰ کا آنا ہے جو ایلیا کی خُو بُو لے کر آیا ہے۔ ایسا ہی مسیح کے ماننے والوں نے ’’ محمدیم ۔ مُنْحَمَنَّا اور روح حق کو نہ پہچا نا اورنہ اُن کے بھائیوں میں سے ‘‘ کے مفہوم کو سمجھے اور نہ ’’دس ہزار قدوسیوں‘‘ کے معنوں پر غور کیا اور کہا تو یہی کہا کہ ’’وہ نبی ‘‘ ابھی تک نہیں آیا ۔اب یہی غلطی اُن سے اِس زمانہ میں بھی ہوئی اورمسیح کے دوبارہ آنے کے مفہوم کو غلط سمجھا ۔ …..جس نے آنا تھا وہ تو وقت پر ضرورت کے عین مطابق آگیا اوراب تا قیامت وہ کسی کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھیں گے … وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا۔ (الاحزاب63:)
اب ہم اس سوال کو لیتے ہیں کہ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے کسی عظیم مصلح اورمسیح کے آنے کے بارہ میں اسلام کیا کہتاہے اوراس زمانہ کے لوگوں کو کس حقیقت کی طرف توجہ دلاتاہے ۔ اس تعلق میں جو اصول و ہدایات اورجو پیشگوئیاں اورروایات اسلام کی چودہ سو سالہ دینی کتب میں تواتر کی حد تک موجود ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے ۔
اسلام بھی یہی کہتا ہے اوردنیا کے تمام سنجیدہ اوردیندار لوگ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب بھی دنیا میں فساد بڑھا، انسانی اقدار کو خطرہ لاحق ہوا، مذہبی انار کی کا غلبہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اُس کے تدارک کے سامان کئے۔ اپنے مامور بھیجے اوراُن کے ذریعہ پھر سے اصلاح کی ایک نئی زمین اورہدایت کا ایک نیا آسمان معرض ظہور میں آیا۔(البقرۃ39: و آل عمران82:)
خداوند تعالیٰ کے یہ مُرسَل اورمامور دو قسم کے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو آسمان سے ایک نیا قانون اور ایک نئی شریعت لائے۔ ایک نئے تمدن اور ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی اور ایک نئی اُمت اور ایک نئی قوم بنائی ۔اس قسم کے مامور ین اور مُرسَلین کا سلسلہ حضرت آدم یا حضرت نوح علیہما السلام سے شروع ہوا اورسردار ِ دوعالم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ آپؐ کی شریعت آخری شریعت ہے۔ آپؐ کی اُمّت آخری اُمّت ہے۔ آپؐ کا کلمہ آخری کلمہ ہے۔ آپؐ پر نازل شدہ قرآن کریم خداوند تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے۔ اس کے بعد آسمان سے کوئی اور کتابِ احکام نازل نہ ہوگی ۔
(المائدۃ4:، البقرۃ88:، الانعام85: تا91 )
دوسری قسم میں وہ مُرسَلین اور مامورین شامل ہیں جو شارع نبی کے تابع ہوکر آتے ہیں۔ اُس کی شریعت کی پیروی کرتے ہیں اور اُس کی اُمّت میں جو خرابیاں امتداد زمانہ کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں ان کی اصلاح کرتے ہیں۔ افراد اُمّت کے ایمانوں کو تازہ کرتے ہیں ۔ اپنے ذاتی نمونہ اور نشانات اور مبشّرات کے ذریعہ لوگوں کی عملی حالت کو درست کرتے ہیں۔ شریعت کے صحیح منشاء کی وضاحت کرتے ہیں اور دین کی خاطر قربانیاں پیش کرنے کے صحیح رُخ کی تعیین کرتے ہیں اور اُمّت کے منتشر لوگوں کو ایک نقطہ پر جمع کرکے ان کی امامت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اورلفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بناتے ہیں ۔[حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’ ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے ‘‘۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ376۔ مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیۃ) [
غرض ان کی کوششیں شریعت کے اندر اُس کے قیام اوراُس کی برکات کی توسیع اور اتحاد اُمت کے عظیم مظاہر پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ ایسے ما ٔمور ین اور مرسلین کی پیروی میں برکات ہیں۔ خدا کی رضا ہے ۔ شریعت کی عملی تفسیر کا اتباع ہے نیز ان کو ماننے والے اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لیکن اُمّت کے جو لوگ ایسے مامورین کو نہیں مانتے اوران کا انکار کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ دائرہ اُمّت سے خارج نہیں ہوتے لیکن جماعت کے لئے ان کا وجود غیر اہم ہوجاتاہے۔ وہ اتحاد عملی اورنفاذ شریعت کی متحدہ کوششوں کی برکات سے محروم رہتے ہیں اوراُن کی ساری سرگرمیاں اخلاص کی دولت اور رضائے الٰہی کی نعمت سے خالی ہوتی ہیں اوردنیا طلبی ان کا نشان بن جاتی ہے ۔ (البقرۃ 103: و 201۔ اٰل عمران78:۔ البقرۃ 286 نفس مضمون )
سابقہ اُمّتوں میں ایسے مامورین کی مثال کے لئے حضرت یعقوب ؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت ہارونؑ ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرات دانیالؑ وغیرہ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ اُمّت محمدیہ میں ایسے ہادیوں کو قرآن کریم نے بالعموم خلفاء اور اولیاء کا نام دیا ہے اور ان کے اَور نام بھی گنوائے ہیں لیکن جہاں تک اُن کے مقام اور کام کا تعلق ہے جس طرح ان کے ہادیٔ اعظم ، ؐ سرور دو عالم اور خاتم الانبیاء اورقرب الٰہی کے بلند ترمقام پر فائز ہیں۔ اسی طرح آپ کی اُمّتخَیْرُالْاُمَماور اُس کے امام خَیْرُالْاَئِمَّہ اور رئیس الخلفاء ہیں کیونکہ جہاں تک عہدنامہ قدیم اور عہد نامہ جدید یعنی بائبل اور یہود ونصاری کی دینی تاریخ کا تعلق ہے وہ کارنامے جو انبیائے بنی اسرائیل سے ظاہر ہوئے اُن سے بڑھ کر حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت نے سرانجام دیئے۔ انہی رفعتوں اور سر بلندیوں کی وجہ سے آپ خیرالرسلاور آپ کی اُمّت خیرالامم کہلائی۔ امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔
ہم ہوئے خیراُمم تجھ سے ہی اے خیر رسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں
اس اُمّت میں آج تک ہزارہا اولیاء اللہ صاحبِ کمال گزرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور متحقق ہوچکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرت اَحدیّت نے جیسا کہ اس اُمّت کا خیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس اُمّت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے ۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 653 حاشیہ نمبر4 )
اسی حقیقت کی طرف رہنمائی حضرت محمد باقر ؑ کی اس تفسیر سے ملتی ہے جو آپ نے آیہ کریمہ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا۔ (النساء55:)کے سلسلہ میں بیان فرمائی۔ آپ فرماتے ہیں
جَعَلَ (اللہُ) مِنْھُمُ الرُّسُلَ وَ الْاَنْبِیَائَ وَ الْاَ ئِمَّۃَ فَکَیْفَ یَقِرُّوْنَ فِیْ آلِ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ یُنْکِرُوْنَ فِیْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ۔(الصافی شرح اصول الکافی جلد 3 صفحہ119)
یعنی اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیمؑ میں سے رسول ، نبی اور امام بنائے لیکن عجیب بات ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی برکات اورایسے درجات کے موجود ہونے کا لوگ انکار کرتے ہیں۔
حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اُوْتِیَ الْاَنْبِیَائُ اِسْمَ النُّبُوَّۃِ وَ اُوْتِیْنَا اللَّقْبَ أَیْ حُجِرَ عَلَیْنَا اِسْمُ النُّبُوَّۃِ مَعَ اَنَّ الْحَقَّ تَعَالٰی یُخْبِرُنَا فِیْ سَرَائِرِنَا بِمَعَانِیْ کَلَامِہٖ وَ کَلَامِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیُعْتَبَرُ صَاحِبُ ھٰذَا الْمَقَامِ مِنَ الْاَنْبِیَائِ الْاَوْلِیَائِ ۔ (الیواقیت و الجواہر للشعرانی جلد2 صفحہ 25 المطبعۃ الازھریۃ المصریۃ 1206ھ طبع دوم۔ الانسان الکامل فی معرفۃ الاواخر والاوئل للسید عبد الکریم الجیلی ۔ البحث الخامس والثلا ثون فی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کما صرح بہ القرآن ۔ جلد2 صفحہ 109 ۔ مطبوعہ 1300ھ)
یعنی سابقہ اُمّتوں کے بزرگ ’’نبی ‘‘ کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ہمیں یہی لقب اور مقام تو حاصل ہے لیکن (بعض حکمتوں کے تحت) یہ نام ہمارے لئے استعمال نہیں ہوا باوجود اس کے کہ قرآن کریم کے معانی حق تعالیٰ کے حضور سے ہمیں القاء ہوتے ہیں اور اُس کے رسول ؐ کے کلام کو سمجھنے کے لئے ہمیں آسمان سے رہنمائی ملتی ہے اور اسی وجہ سے اُمّت محمدیہ میں اس مقام کے حاملین اَ لْاَنْبِیَائُ الْاَوْلِیَاء کہلاتے ہیں۔
(اسی مقام کا دوسرا نام ’’امتی نبی ‘‘ بھی ہے۔)
حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اُمّت محمدیہ کے متعدد افراد کو ’’نبوّتِ مبشّرات‘‘ کا مقام حاصل ہے۔[حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ کیا ایک ہی وقت میں کئی نبی ہوسکتے ہیں؟ فرمایا ۔ہاں۔ خواہ ایک ہی وقت میں ہزاربھی ہوسکتے ہیں مگر چاہئے ثبوت اورنشان صداقت ۔ (ملفوظات جلد10 صفحہ282 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ)] جیسا کہ ایک حدیث بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ یعنی نبوت تشریعات تو ختم ہوگئی ہے لیکن نبوت مبشرات جاری و ساری ہے۔
یہ نظریہ قرآن کریم کی متعدد آیات اورمستند احادیث پر مبنی ہے جن میں سے چند یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۔ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ وَ کَفٰی بِا اللہِ عَلِیْمًا۔ (النساء70:۔71)۔
یعنی جو لوگ اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان انعام پانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے جو (علیٰ حسب المراتب ) نبی،صدیق، شہید اورصالح ہیں اوریہ کتنی عمدہ رفاقت اور گروپنگ ہے۔[اس وضاحت سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کا یہ اعتراض درست نہیں کہ احمدیوں کے نزدیک محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ (حرف اقبال صفحہ 150،151) ] سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے اور صورت واقعی کے لئے اللہ کی یہ (فعلی) شہادت کافی (وزنی اوربڑی کامل ) ہے۔
قرآن کریم کی یہ آیات دراصل اُس سوال کا جواب ہیں جو سورئہ فاتحہ میں سکھائی گئی دعا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ6:-7) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کون ہیں جن کے راستہ پر چلنے کے لئے یہ دعا سکھائی جارہی ہے۔ سو ان آیا ت میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا کہ وہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ نبی، صدیق، شہید اورصالح ہیں اور اللہ تعالیٰ اوراس رسول کی سچی پیروی کرنے والے اُمّت محمدیہ کے افراد یہی انعام پائیں گے اور یہی درجات حاصل کریں گے ۔
سورئہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے
وَعَدَااللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔ وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ ( النور56:)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اُ ن لوگوں سے جو ایمان لائے اور (ایمان کے تقاضا کے مطابق) مناسبِ حال عمل کئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور جو دین اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے اُسے ان کے لئے مضبوط اورمستحکم کردے گا اوراُن کے خوف کو امن کے حالات میں تبدیل کردے گا ۔ وہ میری ہی عبادت کریںگے اورکسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس (نشان کو دیکھنے) کے بعد بھی (ان خلفاء کا ) انکار کریں گے وہ فاسق اور نافرمان شمار کئے جائیں گے ۔
(اس سے واضح ہوتاہے کہ جو کلمہ گو اُمّت محمدیہ کے خلفاء کا انکار کرتاہے اس کا یہ کفر کُفْر دُوْنَ کُفْر کے درجہ میں ہے اور وہ اُمّت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا اگرچہ وہ فاسقوں، قانون شکن اورنافرمانوں کے زمرہ میں شامل ہوجاتا ہے ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔)
اس آیت کریمہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ جو جو روحانی اور دُنیوی نعمتیں اور درجات پہلے لوگوں کو ملے وہی نعمتیں اور وہی درجات اُمّت محمدیہ کے پاک اور صالح لوگوں کو ملیں گے۔ ایک ذرہ بھی کمیت میں فرق نہیں ہوگا اور کیفیت میں تو وہ اُن سے کہیں بڑھ کر ہوں گے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اُمّت محمدیہ نے اگرچہ پہلوں کے مقابلہ میں نسبتاً قربانیاں پیش کرنے میں کم وقت لیا ہے لیکن پھل بہت جلد پایا ہے اور بہت زیادہ پایا ہے اور جب پہلی قوموں نے خدا کے حضور اس کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا تمہارے کام کا جو معاوضہ مقرر ہوا تھا اس میں تو کوئی کمی نہیں ہوئی۔ رہا اُمّت محمدیہ کا انعام تو ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ وَ کَفٰی بِاللہِ عَلِیْمًا۔یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں دوں ۔ (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب من ادرک رکعۃ ً مِن صلٰوۃ العصر قبل الغروب)
آیت خَاتَمَ النَّبِیِّیْن سے بھی انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ یہاں خَاتَمَ النَّبِیِّیْن سے مراد ایسے وجود کا ظہور ہے جس کا فیضان سب پر حاوی ہے پہلوں نے بھی اُسی کے طفیل فیض پایا اور پچھلے بھی اُسی کے ذریعہ فیضان کے سب درجات حاصل کریں گے۔
امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ۔
’’وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں میں نہیں کہ آئندہ کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے۔ بجز اُس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اُس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اورمخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوگا اوربجز اُس کے کوئی نبی صاحبِ خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے‘‘ ۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 29، 30)
ایک دوسرے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ ’’نبی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’نبی کا لفظ نَبَأٌ سے نکلا ہے اور نَبَأٌ کہتے ہیں خبردینے کو اور نبی کہتے ہیں خبر دینے والے کو۔ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پاکر جو غیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کی رُو سے نبی کہلاتا ہے۔ … یاد رکھو کہ سلسلہ مکالمہ مخاطبہ اسلام کی روح ہے ورنہ اگر اسلام کو یہ شرف حاصل نہ ہوتا تو یقیناً اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک مردہ مذہب ہوتا ‘‘ ۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 267 تا269 ۔ مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
آپ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں۔
’’ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مکالمات ومخاطبات اس اُمّت کے لوگوں سے قیامت تک جاری ہیں ۔اوریہ بالکل سچ ہے کیونکہ یہی تمام اولیاء اُمّت کا مذہب رہا ہے‘‘ ۔
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 373 ۔ مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
عرفان کی وادیوںکے شناسا سابقہ بزرگ بھی اسی نظریہ کی تصدیق کرتے ہیں۔
ے چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ’’معنٰی قَوْلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الرَّسَالَۃَ وَ النُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَانَبِیَّ۔ اَیْ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ۔ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ … فَہٰذَا ھُوَ الَّذِیْ اِنْقَطَعَ وَ سُدَّ بَابُہٗ لَا مَقَام النُّبُوَّۃِ ۔ (فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ3 مطبوعہ دار صادر بیروت)
یعنی وہ نبوت جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے۔ اس لئے آپ کے بعد جو نبی ہوگا وہ آپ کی شریعت کے تابع ہوگا۔ پس نبوت تشریعی منقطع ہوئی ہے۔ مقام نبوت ختم نہیں ہوا۔ کیونکہ نبوت کی یہ قسم اُمّت میں جاری اورساری ہے ۔
ے اسی طرح امام عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں
’’ اِعْلَمْ اَنَّ النّبُوَّۃَ لَمْ تَرْتَفِعْ مُطْلِقًا بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَاِنَّمَا اِرْتَفَعَ نُبُوَّۃُ التَّشْرِیْع فَقَطْ‘‘۔ (الیواقیت و الجواہر جلد2صفحہ24مطبع منشی نولکشور آگرہ )
یعنی مطلق نبوت (جو کثرت مکالمہ و مخاطبہ کا نام ہے) مرتفع نہیں ہوئی ۔جو نبوت ختم اور منقطع ہوئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے ۔
ے امام ربّانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اورمولانا محمد قاسم نانوتوی کا نظریہ بھی یہی ہے۔ (مکتوبات امام ربّانی مکتوب نمبر 301 جلد1صفحہ432۔ تفہیمات الٰہیہ صفحہ53۔ تحذیرالنّاس صفحہ3)
ے مولانا ابوالحسنات محمد عبدالحی فرنگی محلّی لکھتے ہیں
’’بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے یا زمانے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مجرّد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحبِ شرعِ جدید ہونا البتہ ممتنع ہے ‘‘ ۔
(دافع الوساوس فِیْ اَثَرِ ابنِ عبّاس صفحہ 16مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محل لکھنؤ۔ طبع دوم )
مراتب قرب ِ الٰہی کی اس بحث کے بعد اب طبعاً یہ مرحلہ سامنے آتا ہے کہ اسلام میں ایک عظیم الشان ظہور یعنی مسیح اورمہدی کی آمد کا جو عقیدہ اور نظریہ مشہور ہے وہ اپنے اندر کیا صداقت رکھتاہے اور اُس کی ماہیت اورحقیقت کیا ہے اوراس بارہ میں جو روایات ہیں ان کا معیار صداقت کس حد تک ثقہ مستند اور وزنی ہے؟
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ متعدد مسائل اپنے اصل کے لحاظ سے بڑے سادہ اور واضح المفہوم ہوتے ہیں لیکن بعد میں ان کے بارہ میں جو فلسفیانہ حاشیہ آرائی ہوتی ہے وہ انہیں مشکل اور گنجلک بنا دیتی ہے۔ مثلاً ہستی باری تعالیٰ، اس کی توحید اوراس کی صفات کا عقیدہ کتنا سادہ اور عام الفہم ہے۔ اسے ہر فرد بشر جان سکتاہے، سمجھ سکتاہے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والی ایک ہستی ہے۔ وہ بڑی طاقتور ہے، وہ ایک ہے اورتمام اعلیٰ صفات سے متصف ہے۔ لیکن جب اس عقیدہ میں فلسفیانہ بحثیں شامل ہوئیں تو یہ مسئلہ اتنا الجھا کہ چیستان بن کر رہ گیا۔ کسی نے کہا وہ ایک بھی ہے اوراسی وقت وہ تین بھی ہے ۔ کوئی کہنے لگا وہ اورکائنات ایک ہی وجود کے مختلف مظہر ہیں۔ کوئی کہنے لگا وہ اگر بولتاہے تو اُس کا منہ بھی ہوگا ۔ اُس کی شکل بھی ہوگی ، اُس کا چہرہ ہے، آنکھیں ہیں، کان ہیں، ہاتھ ہیں، وہ آسمان پر ہے یا کائنات میں سمایا ہوا ہے۔ غرض سینکڑوں نظریات نے اس مسئلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ یہی حال مافوق الطبعیات سے تعلق رکھنے والے ہر سوال کا ہے اور مسیح اور مہدی کے آنے کا عقیدہ بھی اس دائرہ سے باہر نہیں۔
یہ حقیقت تو تسلیم کی جانی چاہئے کہ اسلام کے آغاز سے لے کر اب تک تمام مستند اسلامی لٹریچر خواہ قرآن کریم ہو یا سنت و حدیث، تاریخ ہو یا علم العقائد کا کوئی مجموعہ، یہ سب اس نظریہ کے ذکر سے خالی نہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایک عظیم الشان ظہور اور ایک روحانی قیادت دنیا میں ابھرے گی جو مسلمانوں کے تنزل کا مداوا کرے گی اور اسلام کی ترقی اور اس کا دوبارہ عروج اُس کے پروگرام اور اس کی پیروی سے وابستہ ہوگا۔ اُمّت مسلمہ کے تمام مفسرین، تمام محدثین، تمام متکلمین کا اس پر اتفاق ہے۔ اسی طرح تمام فقہاء اور صوفیاء بھی اس بارہ میں متفق ہیں۔ اصل عقیدہ میں کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف اگر ہے تو فرو عات میں ہے، تفاصیل میں ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ ظہور اور یہ قیادت ایک شخصیت کی صورت میں ہوگی یا اس کے لئے دو الگ الگ وجود ہوں گے۔ وہ کسی خاص خاندان سے ہوگا یا اُمّت مسلمہ کے اندر کسی بھی قوم سے وہ ہوسکتا ہے ۔وہ آسمان سے نازل ہوگا یا زمین پر کسی مسلمان کے گھر پیدا ہوگا۔ اس کا اوراس کے با پ کا نام کیا ہوگا۔ وہ کہاں اورکس شہر میں ظاہر ہوگا۔ وہ کافروں اورمنکروں کو زبردستی مسلمان بنائے گا یا وہ آسمانی حربوں سے کام لے گا اور حکمت و موعظہ کی راہ اختیار کرے گا ۔
غرض سینکڑوں اختلاف ہیں اور ہو سکتے ہیں لیکن ایک حقیقت پر سب کا اتفاق ہے کہ ایسا ظہور اٹل اور مقدر ہے، آسمان و زمین ٹل سکتے ہیں لیکن یہ عظیم ظہور نہ رک سکتاہے اور نہ ٹل سکتاہے۔(سنن ابی داؤد کتاب المہدی۔ مسند احمد جلد۱ صفحہ 99۔ شرح ترمذی لابن العربی جلد9 صفحہ74)
اب ہم اس اہم نظریہ کے اس پہلو پر بحث کرتے ہیں کہ یہ عظیم الشان قیادت ایک شخصیت کی صورت میں دنیا کے سامنے آئے گی یا دو وجودوں نے ظاہر ہونا ہے یا اس کے مظہر متعدد وجود ہوں گے ۔
مہدی کا عام مفہوم یہ ہے کہ ایسے ہدایت یافتہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کی خاص نظر ہو اور وہ آسمانی ہدایت سے فیضیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ ان سے اصلاح خلق کا کوئی غیرمعمولی کا م لے۔ گویا وہ آسمان سے ہدایت پاتے ہیں اور اس کے اشارہ کے مطابق زمین کے لوگوں کے لئے ہادی اور نمونہ بنتے ہیں۔ مہدویت کے اس عام مفہوم اور اس نظریہ کی وسعت کے لحاظ سے کئی عظیم بزرگ اس لقب کے مستحق گزرے ہیں ۔….. ان معنوں کی رُو سے تمام انبیاء مہدی ہیں (الانعام19:)بلکہ مہدی اعظم سرورِدو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ تمام گزشتہ مہدی بھی آپؐ کے طفیل مہدی بنے اور آئندہ آنے والے بھی آپؐ سے فیض پاکر مقام مہدویّت پر فائز ہوںگے۔ انہی معنوں میں حضرت حسّان بن ثابت ؓ نے آپ کو مہدی کہا ہے۔ ان کا شعر ہے
مَا بَالُ عَیْنِکَ لَا تَنَا مُ کَاَنَّمَا
کُحِلَتْ مَآ قِیْھَا بِکُحْلِ الْاَرْمَدِیْ
جَزَعًا عَلَی الْمَہْدِیِّ اَصْبَحَ ثَاوِیًا
یَا خَیْرَ مَنْ وَطِأَ الْحَصٰی لَا تَبْعَدِیْ
(سیرۃ ابن ہشام شعر حسان بن ثابت فی رثاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
یعنی تیری آنکھ کو کیا ہوگیاہے کہ اُس کے آنسو تھمتے نہیں۔ نیند اُڑ گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اُس میں شب بیداری کا سرمہ لگایاگیاہو۔ یہ شدید گھبراہٹ اُس ’’عظیم مہدی ‘‘ کی وفات کے صدمہ کی وجہ سے ہے جسے ابھی دفن کیا گیا ہے ۔ اے خیرالناس اورافضل الرسل آپ ہمیشہ اللہ کی رحمتوں کے مورد رہیں یہ کبھی آپ سے دُور نہ ہوں ۔
حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے جریر بن عبداللہ البجلیؓکے حق میں دعا کی اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْہُ وَاجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا۔ (ترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الاَخذ بِالسِّنۃ)
انہی معنوں میں خلفاء راشدین کو بھی مہدی کہا گیا ہے۔ جیسے حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ۔
(بخاری کتاب الجہاد باب مَنْ لَّا یَثْبُتُ عَلَی الْخَیْلِ ۔ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ 80حاشیہ)
کہ میری اورمیرے خلفاء کی سنت کی پیروی کرنا جو راشد اورمہدی ہیں۔ حضرت امام حسن ؓ اورحضرت امام حسینؓ کو بھی مہدی کہا گیاہے ۔
اس کے بعد مہدی کا ایک خاص مفہوم اُمّت میں متعارف ہوا۔ اس کی تقریب یہ ہوئی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تیسرے فرزند حضرت محمد بن حنفیہ جو بڑے فاضل اور بے بد ل عالم تھے اُن کے عقیدت مندوں اور پیروؤں نے جن کا قائد مختار ثقفی تھا یہ تہیہ کیا کہ امام حسینؑ کے قتل کا بدلہ لیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے چُن چُن کر اُن لوگوں کو قتل کیا جنہوں نے حضرت امام حسین ؑ کو شہید کرنے میں حصہ لیا تھا۔ یہ لوگ محمد ابن حنفیہ کو مہدی مانتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ محمد ابن حنفیہ کے ذریعہ بنو اُمیّہ کے ظلم وستم سے مسلمانوں کو نجات ملے گی۔ لیکن وہ کوئی متوقع انقلاب بپا کئے بغیر فوت ہوگئے۔ اس پر ان کے عقیدتمندوں کو مایوسی سے بچانے کے لئے اس نظریہ کو شہرت ملی کہ محمد بن حنیفہ دراصل فوت نہیں ہوئے بلکہ رِضْویٰ نامی پہاڑوں میں چھپ گئے ہیں۔ جنگل کے شیر ان کی حفاظت پر مامور ہیں اور وہاں شہد اور پانی کے چشمے ان کی خوراک کے لئے موجود ہیں ۔یہی وہ وقت ہے جبکہ ’’مہدی منتظر ‘‘ کے نظریہ نے فروغ پایا۔ جس کے ایک معنے یہ متعیّن ہوئے کہ فلاں بزرگ مہدی ہیں۔ وہ اس وقت تو غائب ہوگئے ہیں لیکن بعد میں کسی مناسب موقع پر ظاہر ہوں گے، دشمن کو قتل کریں گے اوراپنے متبعین کو بامِ عروج تک پہنچائیں گے۔ دوسرا مفہوم یہ مشہور ہوا کہ اگرچہ وہ اس وقت فوت ہوگئے ہیں یا دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہیں لیکن بعد میں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا انہیں زندہ کرکے دوبارہ دنیا میں بھیجے گا تاکہ وہ عدل وانصاف کے لئے ایک عظیم انقلاب بپا کریں۔ بہرحال ’’مہدی ‘‘ کے اس متعارف مفہوم کے علی الرغم ایسی روایات بھی موجود ہیں جو عمومی مفہوم کے لحاظ سے متعدد مہدیوں کے آنے کے امکان کو ثابت کرتی ہیں ۔ مثلاً ایک روایت یہ ہے کہلَا یَذْھَبُ الدَّھْرُ حَتّٰی یَمْلِکَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ اَہْلِ بَیتِیْ یُوَاطِیئُ اِسْمُہٗ اِسْمِیْ۔
(احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 376،377 مطبوعہ بیروت )
اس مفہوم کی متعدد روایات ہیں۔ گو یہ سنداً بخاری اورمسلم کے پایہ کی نہیں لیکن ان کاکثرت طُرق سے آنا ان کی صحت کے پہلو کو واضح کرتا ہے۔ صاحب کتاب البیان نے اکتیس سے زائد طُرق گنوائے ہیں۔ (البیان فی اخبار صاحب الزمان صفحہ 94تا 97)
جس کے معنے یہ ہوسکتے ہیں کہ اُمّت کے اندر مختلف زمانوں میں جو بگاڑ اورفساد پیدا ہوگا اس کو دُور کرنے اور اُمّت مسلمہ کی اصلاح کا کام بعض ایسے لوگوں کے سپرد ہوگا جو میرے ہمنام ہوں گے۔ آپ کے دو نام زیادہ مشہور ہیں۔ محمد اور احمد۔ چنانچہ بمطابق روایت بالا محمد نام کے متعدد مہدی اور مصلح گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں ہدایت وارشاد کا خاص فریضہ سر انجام دیا اور اپنے منصب کے لحاظ سے انہوں نے ’’مہدی‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا یا ان کے کام کے لحاظ سے ان کے مریدوں نے انہیں مہدی قراردیا۔ اس سلسلہ میں امام محمد بن حنفیہ ؓ اور امام محمد باقرؒکا نام پہلے گزر چکا ہے۔
شیعہ اثنا عشریہ امام محمد بن الحسن العسکری کو ’’ مہدی منتظر ‘‘ مانتے ہیں جو شیعہ عقائد کے مطابق اپنی عمر کے کسی حصہ میں غائب ہوگئے تھے اور وقتِ مقدّر پر ظاہر ہوں گے اور عظیم دینی انقلاب کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں گے۔(البیان فی اخبار صاحب الزمان صفحہ 141)
حضرت امام شافعیؒ کا نام بھی محمد بن ادریس تھا جنہوں نے تفقّہ فی الحدیث کے لئے خاص کام کیا۔ اسی طرح صحیح بخاری کے مرتب کا نام محمد بن اسماعیل بخاری تھا جنہوں نے صحتِ احادیث کے اصول مرتب کرنے کے لحاظ سے اُمّت میں ایک خاص مقام حاصل کیا ہے ۔
ایک اورحدیث ہے۔لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَمْلِکَ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ بَیْتِیْ۔(آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اہل فارس کو بھی اپنے خاندان میں شامل کیا ہے اورحضور ؐ کے زمانہ میں روسی ترکستان کے علاقے بھی فارس کا حصہ تھے ۔) یَفْتَحُ القُسْطُنْطُنْیَہ وَ جَبَلَ دَیْلَمْ۔ (البیان فی اخبار صاحب الزمان صفحہ 141۔ کنزل العمال جلد7 صفحہ 187 الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ۔ )
یعنی اُس وقت تک وہ موعود گھڑی(غالباً یورپ اورمغربی اقوام کے دوسرے غلبہ کے آغاز کی طرف اشارہ ہے جس سے تیسری دنیا متاثر ہوئی ) نہیں آئے گی جب تک کہ قسطنطنیہ اور دَیْلَمْ کے پہاڑی علاقوں کو میرے گھرانے کا ایک رجل شجاع فتح نہیں کرلے گا۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے متعدد مہمّیں بھجوائی گئیں۔ ایسی پہلی کوشش حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں ہوئی جس میں کئی صحابہؓ بھی شامل تھے ۔اس لشکر نے قسطنطنیہ کا محاصرہ بھی کیا لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ آخر یہ عظیم فتح 1453ء میں ایک عثمانی ترک سلطان کے ذریعہ نصیب ہوئی جس کا نام ’’محمد ‘‘ تھا۔ چنانچہ تاریخ میں وہ ’’سلطان محمد الفاتح ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ایک یورپی مؤرخ نے لکھا ہے کہ جب اس نیک دل بہادر بادشاہ نے قسطنطنیہ فتح کیا اورشہر کے بڑے بڑے پادری، شہر اور وہاں کے مرکزی گرجا کی چابیاں بادشاہ کے حضور پیش کرنے کے لئے صف بستہ کھڑے ہوئے تو بادشاہ اپنے گھوڑ ے سے اترا اورسجدہ میں گرگیا۔ اُس نے جب سجدہ سے سراٹھایا تو زمین سے مٹی لے کر اپنے تاج سر پر ڈالی اور کہا نہ تکبر ہے اورنہ استعلا۔(یہ ایک آیہ کریمہ کی عملی تفسیر ہے جو یہ ہے ۔تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا(القصص84:) میں تو اپنے رسولؐ کی ایک پیشگوئی پورا کرنے آیا ہوں جو قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق تھی۔ پھر سلطان نے چابیاں لے کر شہر کے پادریوں کو واپس کر دیں اور کہا امن و امان سے رہو اور مخلصانہ اطاعت کو اپنا شعار بنائو، آپ کے سارے حقوق باقاعدہ ادا ہوتے رہیں گے ۔ سلطان محمد الفاتح کا قسطنطنیہ پر یہ حملہ کسی ظلم یا جارحیت کی بنا پر نہ تھا بلکہ اس وجہ سے یہ فتح ضروری تھی کہ آغاز ِ اسلام سے ہی قسطنطنیہ کی یہ بازنطینی حکومت مملکتِ اِسلامیہ کے لئے خطرہ بنی رہی جنگ موتہ اور غزوئہ تبوک سے اس خطرہ کا آغاز ہوا اور فتح قسطنطنیہ تک مسلمان حکومتوں کے سر پر منڈلاتا رہا قرون وسطیٰ کی صلیبی جنگوں کا مرکز بھی قسطنطنیہ تھا ۔
ایک اورروایت ہے کہ مہدی کا نام میرے نام کے مطابق اورمہدی کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔
لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا یَوْمٌ لَطَوَّلَ اللہُ ذَالِکَ الْیَوْمَ حَتّٰی یَبْعَثَ رَجُلًا مِنِّیْ اَوْ مِنْ اَہْلِ بَیْتِیْ یُوَاطِیئُ اسْمُہٗ اِسْمِیْ وَ اسْمُ اَبِیْہِ اسْمَ اَبِیْ ۔( شرح الترمذی لابن العربی جلد9صفحہ 74۔ مشکٰوۃ المصابیح للخطیب التبریزی باب اشراط الساعۃ ۔ ابو داؤد کتاب المہدی ۔ مستدرک حاکم مع التلخیص جلد4 صفحہ464)
یہ روایت بھی اگرچہ قوی السند نہیں لیکن اپنی قدیم شہرت کے لحاظ سے مقبولیت کا درجہ پا گئی ہے۔ چنانچہ کئی بزرگوں نے اس روایت کے مطابق مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اصلاح اُمّت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔
ان میں سے ایک حضرت امام محمد بن عبداللہ بن الحسن المثنّٰی بن الحسن بن علی بن ابی طالب ؓ ہیں۔ گویا یہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْھَہٗ کے پڑپوتے کے بیٹے اورفاطمی النسل ہیں اوراپنی پاک طینت کی وجہ سے ’’اَلنَّفْسُ الزَّکِیّہ ‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔
حضرت محمد بن الحنفیہ کے بیٹے ابوالہاشم نے بنواُمیّہ کے ظلم وجور کے خلاف جو ایک خفیہ تنظیم قائم کی تھی جسے بعد میں بڑی اہمیت حاصل ہوئی ۔آگے چل کر اس تنظیم کے قائدین نے جن میں علوی اورعباسی دونوں خاندانوں کے بزرگ شامل تھے حضرت امام محمد بن عبداللہ کے ہاتھ پر انہیں ’’مہدی ‘‘ تسلیم کرکے بیعت کی۔ حضرت امام محمد بن عبداللہ اَلنَّفْسُ الزَّکِیَّہ اپنے وقت کے صاحبِ کمال بزرگ تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اورحضرت امام مالک ؒ وغیرہ اُس وقت کے مسلّمہ مجتہد اور فقہاء بھی ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اورانہیں ان کی قیادت سے ہمدردی تھی۔
چونکہ اس تحریک میں بنو عباس پیش پیش تھے اس لئے جب ابو مسلم خراسانی کی افواج کی مدد سے یہ تحریک کامیاب ہوئی اور بنو اُمیّہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو بنو عباس نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوئے ابومسلم کو اپنی حمایت پر آمادہ کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا اور خلافت عباسیہ کی بنیاد رکھی۔ علویوں نے اس تغلُّب کی مخالفت کی اور کہا کہ امام محمد بن عبداللہ کے ہاتھ پر بطور ’’مہدی‘‘ سب نے بیعت کی ہے اس لئے وہ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور سے اس سوال پر امام محمد بن عبداللہ کی جنگ بھی ہوئی جس کے دوران امام محمد شہید ہوگئے۔
بنو اُمیّہ کے خلاف اس تحریک کے دوران ’’مہدی کی فوری آمد ‘‘ کے نظریہ کو بہت شہرت ملی یہاں تک کہ اُس زمانہ کے مسلم عوام کا یہ مسلّمہ عقیدہ بن گیا کہ مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔ اتفاق سے دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے اپنے اس بیٹے کو ’’المہدی‘‘ کا لقب دے کر اپنا ولی عہد مقرر کیا جو منصور کی وفات کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا اوراس مشہور روایت کی وجہ سے وہ عوام کی عقیدت کا مرکز بن گیا ۔اُس نے اپنے عہد خلافت میں زنادقہ کے لادینی فتنہ کا استیصال کیا جس نے اُس زمانہ میں بڑی اہمیت حاصل کرلی تھی اورعوام اس فساد سے بڑے تنگ آئے ہوئے تھے۔
مہدویت کی اس علوی اورعباسی تحریک کے دوران دو اورروایتوں نے بھی بڑی شہرت پائی۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ مہدی کی مدد کے لئے مشرق سے افواج آئیں گی جن کے پاس سیاہ جھنڈے ہوں گے اس روایت کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں۔ حَتّٰی یَأْ تِیَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ مَعَھُمْ رَایَاتٌ سُوْدٌ (ابو مسلم خراسانی کی افواج کے جھنڈوں کا رنگ سیاہ تھا اوربعد میں بنوعبّاس نے بھی اسی رنگ کو اپنایا ۔ )… فَیَسْأَلُوْنَ الْخَیْرَ … فَیُقَاتِلُوْنَ فَیُنْصَرُوْنَ … حَتّٰی یَدْفَعُوْہَا اِلٰی رَجُلٍ مِنْ اَہْلِ بَیْتِیْ ۔ الحدیث (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی جلد2صفحہ270۔مسند احمد جلد5 صفحہ277 مطبوعہ بیروت۔ مستدرک حاکم مع التلخیص جلد 4صفحہ464)
دوسری روایت جسے اُس وقت خاص مقبولیت نصیب ہوئی یہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس ؓ کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا ’’ اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الْعَبَّاسَ وَ وُلْدِ الْعَبَّاسَ قَالَھَا ثَـلَا ثًا ثُمَّ قَالَ یَا عَمِّ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ الْمَہْدِیَّ مِنْ وُلْدِکَ مُوَفَّقًا رَاضِیًا مَرْضِیًّا‘‘ (کنزالعمال جلد7 صفحہ260 و تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد7 صفحہ236 مطبوعہ دارالمسیرہ بیروت1399ھ) یعنی اے میرے اللہ عباس اوراس کی اولاد کی خاص مدد فرما آپ نے تین بار یہ دعا کی اور پھر عباسؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے میرے چچا کیا آپ کے لئے یہ بات خوش آئند نہیں کہ آپ کی اولاد سے بھی مہدی ہوگا جو توفیق یافتہ اپنے نصیبہ پر خوش اورپسندیدہ خصال ہوگا ؟
آنحضرت کے دوسرے نام ’’احمد ‘‘ سے متعلق بھی روایات ہیں کہ مہدی کا نام احمد ہوگا ۔ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ، سَمِعْتُ خَلِیْلِیْ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَبْعَثَ اللہُ عِصَابَتَانِ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِمَا النَّارَ ، عِصَابَۃٌ تَغْزُو الْہِنْدَ وَ ہِیَ تَکُوْنُ مَعَ الْمَہْدِیْ اِسْمُہٗ اَحْمَدَ …… ۔ (رواہ البخاری فی تاریخہٖ بحوالہ النّجم الثّاقب حصّہ دوم صفحہ 134 مطبوعہ مطبع احمدی پٹنہ 1310ھ)
یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک جماعت ‘‘ ہندوستان میں مصروف جہاد ہوگی جس کی قیادت وہ امام مہدی فرمائیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ اس حدیث کی سند گو ضعیف ہے (صاحب نجم الثاقب نے اس روایت کے بارہ میں تحریر کیا ہے کہ ’’ روایت کیا ہے اس کو امام بخاری نے کتاب التاریخ میں اپنی اور کہا اسناد میں اس کے مضائقہ نہیں اور ایسے ہی امام رافعی کی کتاب المہدی میں اور کہا ہے اَسْنَادُہٗ لَا بَأْسَ بِہٖ اور ابن مردویہ و ابن شاہین و ابن ابی الدنیا نے بھی اس کو اخراج کیا ہے اور اتفاق کیا ہے انہوں نے اس کے حَسن ہونے پر اور سیوطی نے بھی حَسنکہا ہے۔ کذا فی اوراق الخوارزمی 12۔ (ناشر) ]ہے لیکن واقعاتی لحاظ سے اس کی صحت مرجح ہے۔ ایک تو یہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اُس ارشاد کے مطابق ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ مہدی کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا۔ دوسرے اس کا بنیادی تعلق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ سے ہے جس کی مکمل بحث آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے تاہم درمیانی عرصہ میں بھی کئی بزرگ اس مفہوم کے مصداق بنے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دینی اصلاح کے سلسلہ میں خاص خدمات سرانجام دیں اوریہ اُصول مسلّمہ ہے کہ کلام رسولؐ جوامع الکلم کی صفت اپنے اندر رکھتا ہے اور اس میں کئی معانی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ بہرحال ان بزرگوں میں سے جن کا نام احمد تھا اور خاص کارہائے نمایاں انہوں نے سرانجام دیئے ایک امام احمد بن حنبل ؒ ہیں جنہوں نے فتنہ خَلقِ قرآن کا بڑی جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا اور مسند کے نام سے احادیث کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا اوران کو ان کارناموں کی وجہ سے اُن کے پیروئوں نے مہدی کہا ہے۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی لقاضی عیاض جلد2صفحہ 13 مطبوعہ مصر)
دوسرے ہندوستان کے مشہور بزرگ حضرت امام ربّانی مجدد الف ثانی شیخ ’’احمد ‘‘ سرہندی ہیں جنہوں نے اکبر بادشاہ کے لادینی فتنہ کے استیصال کے لئے خاص کوششیں کیں اور سلسلہ نقشبندیہ کو اسلامی ممالک میں مستحکم کیا ۔
تیسرے بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔ آپ کا نام بھی ’’احمد ‘‘ تھا۔ ہندوستان میں فروغِ حدیث رسول صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مساعی ناقابل فراموش ہے ۔
بہرحال سطور بالا میں بعض روایات مہدی سے متعلق ایک تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور ان روایات کی صحت کے پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ نظریہ کہ درمیانی دَور میں کئی ’’مہدیوں ‘‘ کے آنے کی روایات ملتی ہیں۔ اس کی تائید ایک اورحدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ۔
’’ لَنْ تَہْلِکَ اُمَّۃٌ اَنَا فِیْ اَوَّ لِھَا وَ عِیْسٰی فِیْ آخِرِہَا وَالْمَہْدِیُّ فِیْ وَسَطِھَا ‘‘
[ کنز العمال جلد 7صفحہ 187۔ جامع الصغیر للسَّیوطی جلد2 صفحہ102 (الفاظ کے فرق کے ساتھ)]
یعنی وہ اُمّت ہرگز ہلاک اوربرباد نہیں ہوسکتی جس کے آغاز میں مَیں ہوں اور جس کے آخر میں عیسیٰ ہوں گے اور جس کے وسط میں مہدی آئیں گے۔
شارحین حدیث حیران ہوتے ہیں کہ عام خیال کے مطابق مسیح اورمہدی نے اکٹھے اور ایک زمانہ میں آنا ہے ۔مہدی کے درمیانی زمانے میں آنے کے کیا معنے ؟ حالانکہ اگر ’’المہدی‘‘ کے لفظ پر غور کیا جائے تو حدیث کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتاہے کیونکہ ’’المہدی‘‘ کا الف لام یہاں عموم (اصول فقہ کا یہ ایک مسلّمہ قاعدہ ہے کہ نکرہ مُعَرَّفْ بِاللَّام عموم کا فائدہ دیتاہے اور اس کے معنے ’’کئی ‘‘ اور ’’ متعدد ‘‘ کے ہوتے ہیں۔)کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ درمیانی عرصہ میں کئی ایسے مصلح آئیں گے جو مہدی کے مقام پر فائز ہوں گے۔ انہی کو دوسری احادیث میں مجدّد کہا گیا ہے۔
(ابو داؤد کتاب الفتن)
گویا درمیانی عرصہ میں جب اُمّت مختلف قسم کے بحرانوں سے دوچار ہوگی تو عام مہدی اور مجدد آکر ان کو دور کریں گے (حجج الکرامہ صفحہ 349 ۔ اکمال الدین صفحہ 157)اورجب آخری زمانہ میں تنزّل کی انتہاہوگی، مصائب کی آندھیاں چلیں گی اور اُمت کا شیرازہ بکھرنے لگے گا تو وہ موعود عظیم مہدی آئے گا جو تَشَابُہ فِی الْاَخْلَاق کی وجہ سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل اور کسر صلیب کے مقاصد کے لحاظ سے مثیل مسیح کہلائے گا اوراس کا آنا، نزولِ (نزول کے معنے خاص برکات کی حامل ہستی کا آنا یا کسی کثیر المنافع مفید عام چیز کا خاص خدا کے فضل کے تحت ملنا۔ دیکھیں الحدید 26:، الزمر7:، الاعراف27:، النحل11:، الطلاق11:، البقرۃ 59:، المائدۃ115:۔)عیسیٰ بن مریم کے مترادف ہوگا کیونکہ نصاریٰ کے غلبہ کے استیصال کے لئے وہ ایک الٰہی نظام قائم کرے گا ۔
اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس عظیم موعود کی بعثت کے وقت سے متعلق روایتوں میں کیا لکھا ہے اور بزرگان اُمّت نے اس بارہ میںکیا اندازہ پیش کیا ہے۔
سو بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں
’’عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَ لْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِأَ تَیْنِ ‘‘ (سنن ابن ماجہ جلد2 صفحہ 260 مطبع علمیّہ مصر 1313 ھ طبع اوّل) یعنی ابوقتادہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاص علامات دو سو سال کے بعد ظاہر ہوں گی۔ علماء نے تصریح کی ہے کہ دوسو سال سے مراد وہ دو سو سال ہیں جو ایک ہزار سال کے بعد گزریں گے۔ اس کے یہ معنے ہوئے کہ ایک ہزار دوسوسال کے بعد ’’ظہور مہدی‘‘ کے آثار نظر آنے لگیں گے۔
چنانچہ علامہ ابوالحسن محمد بن عبدالہادی السندی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’ اَلْمُرَادُ بِالْمِأَ تَیْنِ الْمِأْتَانِ بَعْدَ الْاَ لْفِ‘‘۔ (حاشیہ بر ابن ماجہ جلد 2 صفحہ260 مطبع علمیہ مصر 1313 ھ ایڈیشن اوّل)
مشکوٰۃ المصابیح کے شارح حضرت مُلّا علی قاری اس حدیث کے سلسلہ میں لکھتے ہیں
’’ وَیَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ اللَّامُ لِلْعَھْدِ اَیْ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِ بَعْدَ الْأَلْفِ وَ ھُوَ وَقْتُ ظَہُوْرِ الْمَہْدِیِّ ‘‘۔ (مرقاۃ برحاشیہ مشکٰوۃ صفحہ 471 مطبوعہ اَصَحُّ المَطَابِع دہلی)
ان معنوں کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حذیفہ بن یمان ؓ سے مروی ہے کہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ اِذَا مَضَتْ اَلْفٌ وَّمِأَتَانِ وَاَرْبَعُوْنَ سَنَۃً یَبْعَثُ اللہُ الْمَہْدِیَّ‘‘ (اخرجہ مصنّف ابن ابی شیبہ۔ حوالہ کے لئے دیکھیں النّجم الثاقب جلد2 صفحہ 209 مطبوعہ پٹنہ 1310ھ) یعنی جب ایک ہزار دو سو چالیس سا ل (1240) گزریں گے تو اللہ تعالیٰ امام مہدی مبعوث کرے گا۔
یہ روایت اگرچہ قوی السند نہیں لیکن جہاں تک دوسوسال کی اس تشریح کا تعلق ہے متعدد علماء (حجج الکرامہ نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ 393۔ اربعین فی احوال المہدیِّین شاہ اسماعیل شہید۔ الیواقیت والجواہر جلد2 صفحہ 127 مطبوعہ مصر 1317 ھ وفیہ وَاَوَّلُ الالف محسُوبٌ من وفاۃِ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ آخر الخلفاء الخ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورقاضی ثناء اللہ پانی پتی ۔ حوالہ حجج الکرامہ صفحہ 394 مطبوعہ 1291ھ وغیرہ۔)نے اسے صحیح تسلیم کیا ہے ۔
حضرت بانیء سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں
یاد ہے وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں
مہدیٔ موعودِ حق اب جلد ہوگا آشکار
پھر وہ دن جب آگئے اورچودھویں آئی صدی
سب سے اوّل ہوگئے منکر یہی دیں کے منار
…………………………(باقی آئندہ)