مکرم معلم محمد مولیدی صاحب مرحوم کا ذکر خیر
مورخہ 17؍ ستمبر2022ء کو مرحوم معلم محمد مولیدی صاحب کی میدان عمل میں خدمت بجا لاتے ہوئے ایک اندوہناک روڈ ایکسیڈ نٹ میں عین جوانی کی عمر میں موقع پر وفات ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ جماعتی موٹر سائیکل پر ایک جماعتی کام سے واپس آ رہے تھے کہ ناگہانی موت نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور آپ کی جماعت کےلیے کی گئی خدمات کا اعلیٰ و عمدہ اجر عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
اس جگہ خاکسار بطور اُذْكُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ آپ کی چند خوبیاں بطور ذکر خیر بیان کرنا ضرور ی خیال کرتا ہےتا آپ کا ذکر بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مشعل راہ ہو اور جماعتی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو جائےاور گزرتے وقت کے دھندلکوں میں ان گم نام سپاہیوں کی جماعت کے لیے کی گئی قربانیوں کے نقوش مٹ نہ جائیں۔
مکرم محمد مولیدی صاحب کا تعلق پوکومو قبیلہ سے تھا۔ یہ قبیلہ کینیا کے شمال مشرق میں کینیا کے سب سے لمبے دریا(Tana River ) کے ڈیلٹا کے قریب سے شروع ہو کر گاریسا (Garissa)شہر تک دریا کے دونوں اطراف میں آباد ہے اور ذریعہ معاش بالعموم کھیتی باڑی ہے۔اس علاقہ کے مشرق میں بحر ہند اور شمال میں صومالیہ ہے۔اس قبیلہ کی اکثریت مسلمان ہے۔اس علاقہ میں جماعت کا باقاعدہ نفوذ سنہ 2000ء کے قریب ہوا جب اس وقت کے امیر و مشنری انچارج مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اس علاقہ میں تبلیغی وفود بھیجے(گو اس سے قبل بھی ایک دواحمدی اس علاقہ میں موجود تھے جن میں مکرم رمضان ڈارا صاحب قابل ذکر ہیں جنہوں نے دوران تعلیم ممباسہ میں مکرم شمشیر سوکھیا صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ آف ماریشس کے ذریعہ سے بیعت کی اور پکے احمدی ہیں آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آ گئے اور گورنمنٹ ملازمت اختیا ر کی اور چند سال قبل ایک اہم سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔) اس سعی کے نتیجے میں اس علاقہ میں کافی بیعتیں بھی ہوئیں اور چند جماعتیں اور چند عارضی مساجد بھی قائم ہوئیں۔شروع سے ہی یہ ایک شورش زدہ علاقہ رہا ہے اور باہر سے لوگوں کا یہاں آنا ،رہنا اور کام کرنا اتنا آسان نہیں۔(ایک تو ان کی اپنے حریف قبیلہ اورما سے جو زیادہ تر گلہ بانی کرتے ہیں اور دریا سے کچھ ہٹ کر آباد ہیں جب قحط سالی ہوتی ہےتو وہ اپنے جانوروں کو چرانے دریا کے قریب لے آتے ہیں جن سے ان کی فصلوں کا نقصان ہوتا ہے اور کئی دفعہ خون ریزی بھی ہو چکی ہے۔اسی طرح صومالیہ کی طرف سے بھی یہاں در اندازی ہوتی رہتی ہے۔ ) اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب کے دور میں چند نوجوانوں کو یہاں سے منتخب کر کے مرکز نیروبی میں اس وقت موجود مدرسہ احمدیہ میں داخل کیا گیا تا ان کی تعلیم و تربیت کی جا سکے اور یہ لوگ واپس جا کر اپنے علاقے میں جماعت کا تعلیم و تربیت کا کام کر سکیں۔انہی نوجوانوں میں سے ایک مکرم محمد مولیدی صاحب بھی تھے۔
مدرسہ احمدیہ نیروبی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ آپ کی تعیناتی نیروبی ریجن کی ایک نواحی جماعت میں ہوئی جس کے بعد آپ کا تقرر مازی معلومے (Mazimalume)جماعت ممباسہ ریجن میں کر دیا گیا۔
خاکسار کی آپ سے پہلی ملاقات 2006ءکے وسط میں ہوئی جب خاکسار کا تبادلہ ممباسہ ریجن میں ہوا۔جیسا کہ اوپر ذکرہوا اس وقت آپ کی تعیناتی مازی معلومے (Mazimalume)جماعت میں تھی جس کا شمار ممباسہ ریجن کی بڑی اور فعال جماعتوں میں ہوتا ہے۔اس کے علاوہ قریبی اور چار جماعتوں جن میں جوروری(Jorori)جماعت مسولوا (Musulwa)جماعت ٹانگینی (Tangini)جماعت اور مابویانی (Maboyani)کی جماعتیں تھیں ان کی تعلیم و تربیت کا تمام کام بھی آپ کے سپرد تھا۔اس دور میں اورشاید آج بھی اس علاقہ میں ٹرانسپورٹ کا کوئی خاص نظام یا سہولت نہیں ہے اور جنگل اور ٹیلوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر پیدل یا پھر سائیکل پر دس دس کلو میٹر دور جماعتوں کا باقاعدگی سے دورہ کرتے اور بہت عمدگی سے اپنے فرائض منصبی بجا لاتے۔ بہت محنتی اور جفا کش تھے۔ ہر فردِجماعت سے آپ کا قریبی ذاتی تعلق اور رابطہ تھا۔مہمان نوازی کی صفت بھی بہت عمدہ تھی جب بھی خاکسار آپ کے پاس دورے پر جاتا محدود وسائل کے باوجود نہایت عمدہ مہمان نوازی کرتے اور اگر رات کا قیام ہوتا تو ساری رات جاگ کر ہمارا پہرہ دیتے۔مرکزی مبلغین سے آپ کو دلی لگاؤ،محبت اور انسیت تھی۔
2011ء میں جب اکونڈا (Ukunda)جماعت کے لیے مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے لیےسابق امیرو مشنری انچارج جماعت کینیا مکرم نعیم احمد چیمہ صاحب کی زیر ہدایت زمین کے حصول کے لیے ایک بار پھر کام شروع کیا گیاتو یہاں کافی چیلنجز درپیش تھےاکونڈا ساؤتھ کوسٹ کا مرکزی شہر ہے اور بحر ہند کے کنارے پر واقع ہے اور سیرو سیاحت کے حوالے سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔گو یہاں جماعت توکافی سالوں سے موجود تھی اور ایک مرکزی مبلغ بھی کچھ عرصہ یہاں تعینات رہ چکے تھے۔مگر یہاں جماعت کے لیے مسجد اور مشن ہاؤس کے قیام کے لیے زمین کا حصول ایک بڑا چیلنج بنا ہوا تھا۔ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے،کوئی تو جماعت کی مخالفت میں زمین دینے کو تیار نہ تھا دوسرا ٹورسٹ شہر ہونےکی وجہ سے جو دینے کو رضا مند ہوتا وہ اس قدر دام بتاتا جو ہمارے بجٹ سے بہت زیادہ ہوتے۔خلیفہ وقت کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے نہایت مناسب قیمت پر ایک بہت مناسب قطعہ زمین حاصل کرنے کی توفیق دی۔ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو مخالفین کی طرف سے طرح طرح کی شرارتیں شروع ہو گئیں اور کوششیں ہونے لگیں کہ ہمارے قدم یہاں نہ جمیں۔مقامی معلم صاحب اور احباب جماعت بھی پریشانی اور تذبذب کا شکار ہونے لگے۔جس پر خاکسار کو محسوس ہوا کہ جب تک یہاں ایک بہادر اور نڈر واقفِ زندگی نہیں آئے گا یہ مسائل بڑھتے جائیں گے۔ جس پر خاکسار کی نظر معلم محمد مولیدی صاحب پر پڑی جو نہایت بہادر نڈر اور جماعت کے لیے جان بھی لڑا دینے والے تھے اس لیے ان کا تبادلہ اس جگہ کروایا۔جس کے چند روز بعد ہی الحمدللہ آپ نے صورت حال کو نہایت حکمت اور دلیری سے کنٹرول کیا اور ایک خوف اوروسوسے کی حالت دور کر کےحالات جماعت کے لیے ساز گار کر دیے۔اور پھر مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔الحمدللہ ان کی اس گراں قدر خدمت کی وجہ سے ادھر اس وقت جماعت کی مسجد،مشن ہاوس اور مبلغ موجود ہیں۔اور ساؤتھ کوسٹ کا ریجنل ہیڈ کوارٹربھی بن چکا ہے۔اس حوالہ سے جو کردار آپ نے ادا کیا اللہ تعالیٰ آپ کوا س کی جزائےخیر دے۔ آمین۔
جیسا کہ خاکسار اوپر ذکر کر چکا ہے کہ آپ کا تعلق ایک شورش زدہ علاقہ سے تھا،جہاں باہر کے کسی فرد کے لیے جانا ایک مشکل امر تھا۔ یہاں جماعتیں تو قائم ہو چکی تھیں مگر تب تک کوئی مرکزی مبلغ اس علاقہ میں نہیں جا سکا تھا اور اس کے بعد ابھی تک بھی کوئی نہیں جا سکا۔اس ضمن میں اپریل 2011ء کے آخر میں امیر و مشنری انچارج صاحب کینیا کی زیر ہدایت اس علاقہ میں جانے کا حکم ملا کہ وہاں جا کر تمام جماعتوں کا دورہ کر کے اصل حالات سے واقفیت حاصل کی جائے۔اس ضمن میں ایک دفعہ تو خاکسار پریشان ہوا مگر پھر دعا کے ساتھ تیاری شروع کی اور ایک ٹیم بنائی۔ جس کے ایک اہم رکن معلم محمد مولیدی صاحب تھے۔ جب خاکسار نے ان کو بلایا اور مشورہ کیا تو آپ نے کہا کہ آپ فکر مت کریں میں آپ کے ساتھ ہوںاور آپ نے کام کو بخوبی نبھایا بھی۔ خیر آپ نے رابطہ کر کے وہاں اپنی قوم کے لوگوں کو ہمارے آنے کا مقصد بتایااور وہاں دورہ کرنے اور رہنے کا انتظام کیا۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو پہلے سے آپ نے اپنے ایک کزن کا بطور گن مین انتظام کیا ہوا تھا۔جتنے دن ہم وہاں رہے انہوں نے ہمیں اسکارٹ کیا اور جہاں قیام تھا وہاں ساری رات جاگ کر ہمارا پہرہ دیا۔اللہ تعالیٰ ان کو اس کار خیر کی عمدہ جزا دے۔
اسی طرح ان کا ایک اور واقعہ مجھے یا د آتا ہے ایک دفعہ ایک پاکستانی دوست جو میرے جاننے والے تھے نہایت پریشانی میں میرے پاس آئے اور بتایا کہ ان کے ایک اور پاکستانی دوست جو وکیل ہیں اس علاقہ میں کسی کام سے گئے تھے مگر اب کافی دن ہو گئے ہیں اوران سے رابطہ نہیں ہو رہا فون بھی بند ہے اور پاکستان سے ان کے بیوی بچوں کا بار بار فون آرہا ہے اوروہ بہت پریشان ہیں۔آپ کے لوگ (احمدی) اس علاقہ میں ہیں کچھ پتا کریں۔جس پر خاکسار نے معلم محمد مولیدی صاحب کو بلایا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور فوری وہاں جاکر ان کا پتا معلوم کرنے کا کہا۔ جس پرآپ نے اس دوست سے اپنے لاپتا دوست کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کے وہ اکثر ایک ہیڈ ٹیچر کا ذکر کرتے تھے کہ وہ ان کا دوست ہے۔ بہرحال خاکسار نے آپ کو بھجوایا جس پر چند دن کی تگ ودو اور بھاگ دوڑ کے بعد آپ اس شخص تک پہنچ گئے اور ان کا رابطہ ان کے گھر والوں سے کروایا۔جس پر وہ پاکستانی جب بھی ملتے اس بات کا ذکر ضرور کرتے۔
کچھ عرصہ بعد آپ کا تبادلہ بطور ریجنل انچارج Voiریجن کر دیا گیا وہا ں کچھ سال خدمت کی توفیق پائی اس دوران خاکسار کا تبادلہ بھی ممباسہ سے ویسڑن ریجن ہو گیا۔ اسی اثنا میں آپ کا بھی تبادلہ میرے ریجن میں ہوگیا۔قریباً دس سال آپ کے ساتھ اکٹھے کام کرنے کی توفیق ملی ہمیشہ آپ کو اطاعت گزار ایک سچامخلص دوست، خلافت کا وفادار سپاہی اور جماعت کی خدمت میں ہمہ تن مشغول عمل پایا۔
جب آپ نئے نئے ویسٹرن ریجن میں تبادلہ ہو کر آئےتو خاکسار نے ایک روز نماز فجر کے بعد آپ کو کہا کہ بارشوں سے مسجد پر لکھا کلمہ کافی مدھم پڑ گیا ہے اس کو تازہ پینٹ کر دیں(ویسے تو ہر فن مولا تھے اور بہت سے مشن اور مساجد کے کام بغیر کسی لالچ کے خود اپنے ہاتھ سے ہی کر لیتے تھے مگر عربی رسم الخط لکھنے میں آپ کو کافی مہارت تھی اور آج بھی جماعت کی کئی مساجد پر آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا کلمہ موجود ہے) یہ کہہ کر خاکسار مشن ہاؤس چلا گیا تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ کسی کے گرنے کی آواز آئی خاکسار فوری باہر آیا تو دیکھا جس سیڑھی پر چڑھ کر آپ کلمہ لکھ رہے تھے وہ ٹوٹ گئی اور آپ فرش پر گر پڑے جس پر خاکسار نے فوری طور پر سہارا دےکر اٹھا یاتو معلوم پڑا ایک پاؤں پر ضرب آئی ہے جس پر فوری طور پر آپ کو ہسپتال لےکر گیا ایکسرے وغیرہ کروا یااور پلاسٹر لگایا۔ کافی عرصہ تک ایک ٹانگ میں آپ کو تکلیف رہی جس پر خاکسار نے ایک دفعہ آپ کو کہا میں معذرت چاہتا ہوں آپ کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی تو فوراً کہا شیخ(یہ لفظ مشرقی افریقہ میں مسلم امام کے لیےمستعمل ہے) کیا بات کرتے ہو میں تو اللہ رسول کا نام لکھ رہا تھا وہی میرا محافظ و مدد گار ہے۔ اورکبھی بھی آپ نے اس بات کو جتلایا تک نہیں۔
کچھ عرصہ آپ نے انسپکٹر مال کی تربیت بھی حاصل کی جس کی وجہ سے جماعتوں میں چندہ جات کی وصولی اور اس کے حسابات کو درست طریق پر رکھنے میں بہت مہارت تھی۔عموماً جس جماعت میں بھی آپ ہوتے اس کا چندہ باقی تمام ریجن سے زیادہ ہوتا۔جب خاکسار کے ذریعہ ممیاس شہر میں باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا تو اس کےانتظام و انصرام کی ڈیوٹی خاکسار نے آپ کے ذمہ لگائی جس کو آپ نے تا دم آخر بخوبی نبھایا۔
جماعت اور خلفائے احمدیت سے آپ کو والہانہ عشق تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات اورخلفائے احمدیت کی اقوال و تحریرات اکثر آپ کے سوشل میڈیا ہینڈلز کی زینت ہوتے۔مجھے کئی دفعہ کہا کرتےتھے کہ بعض احمدی جب میری بات نہیں سنتے یا توجہ نہیں دیتے تو میں ان کے سامنے خلیفہ وقت کا حوالہ پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ وقت نے یہ فرمایا ہے کہ ایسا کرنا ہے تو فورا ً مان لیتے ہیں۔
غالباً 2015ء کا واقعہ ہے (ان دنوں کینیا میں ایک معروف یونیورسٹی پر ایک نام نہاد مسلم دہشت گرد تنظیم نے حملہ کر کے بہت سارےنہتے معصوم طالبعلموں کو جاں بحق کر دیا تھا اور اس وجہ سےلوگوں میں مسلمانوں کےبارے میں کافی غم وغصہ پایا جا رہا تھا) اسی اثنا میں ملووا (Muluwa)نامی ایک قصبےکے قریب ایک تبلیغی میٹنگ کے انعقاد کا موقع ملا۔یہ عیسائی اکثریت کا علاقہ ہے اور یہاں کچھ عرصہ قبل چند بیعتیں ہوئی تھیںجن کے ذریعے آگے تبلیغ کا کچھ راستہ نکلا جس کے ضمن میں یہاں اس تبلیغی میٹنگ کا انعقاد ممکن ہوا تھا۔تبلیغی نشست کا انتظام مقامی معلم صاحب نے ایک عیسائی دوست کے گھر کے صحن میں ایک بڑے درخت کے نیچے کیا ہوا تھا۔خاکسار بھی حسب ِپروگرام وہاں وقت پر پہنچ گیا اس دن خاکسار کے ساتھ معلم مولیدی صاحب بھی تھے۔نشست میں پچاس ساٹھ کے قریب لوگ موجود تھےاور بڑے اچھے ماحول میں تبلیغ کا کام چل رہا تھاکہ اچانک پولیس کے سپیشل یونٹ کے اہلکاروں کی گاڑیاں ہماری طرف آئیں اور ہمارے گرد چکر لگانے لگیں مگر تمام لوگ اطمینان سے بیٹھے رہے ورنہ بھگدڑ مچ سکتی تھی اور کوئی جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔جب پولیس نے دیکھا یہ تو اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ رک گئے اور اتر کر ہمارا گھیراؤ کر لیا۔ اوران کے بڑے افسر ہمارے پاس آئے اور کہا اس میٹنگ کا انتظام کس نے کیا ہے جس پر وہ بوڑھا عیسائی شخص کھڑا ہو گیا اور کہا میرا گھر ہے میری جگہ ہے میں نے کیا ہے۔ ہم عبادت کر رہے ہیں آپ کون ہوتے ہیں ہماری عبادت میں خلل ڈالنےوالے اور قانون کے مطابق عبادت کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ بہرحال وہ افسر میرے پاس آئے اورمجھے الگ لے گئے اور کہا کہ ہمیں شکایت ملی ہے کہ آپ لوگ یہاں اس دہشت گرد تنظیم کے لیے بھرتیا ں کر رہے ہیںاور جماعت کے بعض بیعت فارمز مجھے دکھائے۔اس لیے آپ کو ہمارے ساتھ تھانے جانا پڑے گا۔جس پر وہ ہمیں تھانےلے گئے اورجو لٹریچر وغیرہ ہمارے پاس تھا وہ بھی ہم سے لے لیا۔تھانے جا کر ہم سب سے الگ الگ بیانات لیے۔خیر بات مختصر معلم مولیدی صاحب چونکہ جماعت کےموٹر سائیکل پر اکثر سفر کرتے تھے انہوں نے فوجی بوٹ جو ٹخنوں سے اوپر تک ہوتے تھےخریدے ہوئے تھے اور اس روز وہی پہنے ہوئےتھے۔جس پر پولیس کو ان پر مزید شک ہو گیا اور جب ان کا شناختی کارڈ چیک کیا تو اس پر پتا بھی اس شورش زدہ علاقہ کا تھا۔جس پر پولیس نے ان پر کافی دباؤ ڈالااور سختی کی کہ سچ بتاؤ معاملہ کیاہے۔کہتے ہیں میں نے جو کہا سچ کہا۔بہرحال اسی صورت حال میں شام اور پھر رات ہونے لگی۔ساری تفتیش مکمل کرنےکے بعد پولیس افسر میرے پاس آیا کہ میں آپ کو تو فی الحال ضمانت پر جانے دے سکتا ہوں آپ کل صبح دوبارہ پیش ہو جائیں لیکن معلم محمد مولیدی پر ہمیں شک ہے مزید تفتیش کرنی ہے جس پر افسر کو خاکسار نے کہا جیسے ہم ویسا وہ کوئی ہم سے الگ نہیں اگر اس کو رکھنا ہے تو پھر ہم بھی ادھر ہی رہیں گے۔جس پر وہ افسر چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کہا کہ آپ ان کو ساتھ لے جاسکتے ہیں۔باوجود دباؤکے اور مرضی کا بیان لینے کے آپ نے وہی بات کی جو حق تھی اور گھبرائے نہیں۔ بہر حال جب اگلے دن خاکسار تھانے پہنچا تو خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کے طفیل ہمارے ساتھ پولیس کارویہ بالکل بدلا ہوا تھا۔پولیس افسر نے ہمیں اپنے دفتر میں بٹھایا اور شکایت کنندہ کو ہمارے سامنے بہت جھاڑ پلائی اور کہا کہ خدا کے بندوں کو ناحق تنگ کرتے ہو اگر دوبارہ ایسا کیا تو میں تمہیں سیدھا کر دوںگا اور ہمیں کہا کہ جب تک میں یہاں ہوں آپ کھل کر تبلیغ کریں یہ میرا فون نمبر ہے اگر آپ کو کوئی تنگ کرے تو مجھے فون کرنا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری تائید و نصر ت کی اور ہر شر سے محفوظ رکھا۔
خاکسار کاایک طریق رہا ہے کہ جہاں بھی رہا ہے معلمین کی تعلیم و تربیت کےلیے ہر ماہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی ایک کتاب یا اس کا کچھ حصہ ہر ماہ پڑھنے کے لیے مختص کرتا ہے اور ماہانہ میٹنگ کے موقع پر ان کا ایک مختصر تحریری ٹیسٹ لیتاہے۔جس سے الحمد للہ معلمین کو کافی فائدہ بھی ہوتا ہے۔معلم مولیدی صاحب نے اسی طرز پر الحمدللہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی اکثر کتب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اگر کسی ماہ کسی اور مصروفیت کی وجہ سے خاکسار یہ امتحان نہ لے سکتا تو کبھی تو آپ افسردہ ہو جاتے اور درخواست کرتے آپ پرچہ بھیج دیں میں نے ضرور حل کرنا ہے۔حضرت مسیح موعود ؑکی بعض تحریرات آپ کو زبانی یاد تھیں۔قران کریم بھی تلفظ کے ساتھ پڑھتے تھے اور اگر کسی جگہ تبلیغ و تربیت کے دوران کسی حوالے کی ضرورت پڑتی تو خاکسار آپ سے پوچھتا تو فوراً بتا دیتے۔
وفات سے چند ماہ قبل آپ کی بڑی بیٹی جس کی عمر قریباً بارہ سال تھی اچانک وفات پا گئی۔ گھر سے دور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اس کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے اور اس صدمے کو بڑے حوصلہ سے برداشت کیا۔آپ نے وفات سے قبل چند خوابیں بھی دیکھیں جن کا مجھ سے ذکر بھی کیا۔آپ نے وفات سے چند گھنٹے قبل اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر درج ذیل تحریر لگائی ہوئی تھی:
“If you knew how fast people will forget you after your death, you will stop spending your life trying to impress them. You were created to please the Creator, not his creation. Allah will NEVER let us down. We have to put our trust on Him. He will always look after us.”
آپ نظام وصیت میں شامل تھے۔مورخہ19؍ ستمبر2022ءکو آپ کی تدفین آپ کے آبائی علاقہ میں کر دی گئی۔اللھم نور مرقدہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں اپنے پیاروں کی قربت میں جگہ دے۔اور ان جیسے بے نفس بے شمار خدام ِدین جماعت کوعطا ہوں۔آمین