مسئلہ ظل وبروز کی حقیقت (قسط1)
بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ظلی،بروزی اور تابع نبی وغیرہ کی اصطلاحیں دیکھ کر غیر احمدی علماء یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ بروزاور ظل وغیرہ کے تصوّرات عجمی اور غیر اسلامی تصوّرات ہیں،لہٰذا ان تصوّرات سے جس بھی نظریے کو سند دی جائے گی وہ غیر اسلامی ہوگا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ جس مفہوم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریرفرمائے ہیں بالکل انہی مفاہیم کے ساتھ پرانے بزرگ علماء کی کتب میں بھی پائے جاتے ہیں۔
مثلاًحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’آنحضرتﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خُلق اور خُو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہٖ آنحضرتﷺ کا ظہور تھا ‘‘(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 263)اس عبارت پر اور اسی طرح کے مضامین پر مشتمل دیگر عبارات پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔کبھی کہاجاتا ہے کہ اس طرح مجازی ظہور غیراسلامی تصورہے۔کبھی اسے ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کے ساتھ جوڑ دیاجاتا ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنے سے (نعوذ باللہ ) دو محمد رسول اللہﷺ ماننے پڑتے ہیں ایک مکہ میں اور دوسرے قادیان میں۔ اس طرح کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام عبارات کو سیاق وسباق کے ساتھ پڑھا جائے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کردہ مضامین بہت آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔رسول کریمﷺ کے مجازی ظہور کا ذکر اسلامی لٹریچر میں ملتا ہے۔ بزرگان سلف نے اپنی کتب میں اس کا ذکر کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ اور جس موعود کے آنے کی الٰہی نوشتوں میں خبر دی گئی تھی وہ آپ کی بابرکت ذات ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے الہام میں فرمایا:’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ402)
مذکورہ بالا الہام میں بنیادی طور پر دو دعوے ہیں پہلا دعویٰ وفات مسیح کا ہےاور اس پر بنیاد رکھتے ہوئے دوسرا دعویٰ حضرت مرزا صاحبؑ کا مثیل مسیح ہونے کا ہے۔ اگرآپ کے الہام میں پہلا دعویٰ وفات مسیح کا غلط ہے جو دوسرے دعویٰ کی بنیاد ہے تو لازماًدوسرا دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا سو فیصدغلط ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا کہ اگر تم حیات مسیح ثابت کر دو تو اس صورت میں میری طرف سے ایک نشان کیا اگر ایک لاکھ نشانات بھی ہو ں تب بھی وہ قابل قبول نہیں ہو ں گے۔
در اصل اس چیلنج کے نتیجے میں حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے والوں کو اپنا عقیدہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور عقلی مشاہدات سے ثابت کرنا پڑے گا۔ جو نہ وہ پہلے کر سکے ہیں اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اپنے زمانے کے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات…. ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے۔ بلکہ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسیٰ میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا۔ اور ان تمام نشانوں کی پروا نہیں کروں گا جو میرے اس دعوے کے مصدق ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں۔‘‘(اشتہار 2؍اکتوبر 1891ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ235تا236)پس ہمارا اور غیر احمدیوں کا بنیادی اختلاف اصلاح امت کے لیے آنے والے مسیح موعود’’نبی اللہ‘‘(صحیح مسلم)کی شخصیت میں ہے۔غیر احمدیوں کے نزدیک سابقہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اصالتاًً آئیں گے،جبکہ ہمارے نزدیک وہ فوت ہوچکے اور قرآن و حدیث میں جس مسیح نبی اللہ کے آنے کی خبر ہے وہ مثیل ابن مریم ہیں نہ کہ اصل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام۔اس تمثیل کو سنتے ہی بمطابق بیان قرآن غیراحمدیوں کی صفوں میں ایک شور مچ جاتا ہے۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (الزخرف 58) اور جب ابن مرىم کو بطور مثال پىش کىا جاتا ہے تو اچانک تىرى قوم اس پرشور مچانے لگتى ہے۔ورنہ تو فنا فی اللہ،فنا فی الرسول اور فنا فی الشیخ کی صوفیانہ اصطلاحات تو زبان زد عام ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسےکہا جاتاہے کہ
من تو شُدم تو من شُدی
من تن شُدم تو جاں شُدی
تاکس نگوید بعد ازیں،
من دیگرم تو دیگری
(امیر خسرو دہلوی)
یعنی میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
اسی طرح بقول بلھے شاہؒ:
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدوسکھیو رانجھا، ہیر نہ|آکھو کوئی
مفہوم: رانجھا یعنی اپنے محبوب کو پکارتے پکارتے میں نے اپنی ہستی فراموش کردی اب مجھے کوئی ہیر نہ کہے بلکہ رانجھا ہی کہے۔
اس قسم کے صوفیانہ اقوال کو اسلامی عقائد کا جزو اور عشق الٰہی و عشق رسول کریم ﷺ کی معراج گرداننے والے غیراحمدی حضرات،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مثیل مسیح اور ظل و بروز کے متعلق کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایسا نہیں کہ دور حاضر کے غیر احمدی علماء قرآن وحدیث کی ان تعلیمات،بزرگان دین و اولیائے کرام کے اقوال اور ماضی قریب کے اپنے بزرگوں کی باتوں سے بے خبر ہیں۔ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بطور مثیل کسی کا ظہورہرگز غیر اسلامی نہیں ہے۔لیکن آنحضرت ﷺ کی اپنی امت کی حالت کی خبر کو پورا کرتے ہوئے علمائے یہود و نصاریٰ کا طرز عمل اپنایا ہے۔
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إسْرَائيْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ،حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَالِكَ،وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةًقَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي(ترمذی أبواب الایمان باب افتراق ھذہ الامۃ) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقَتْ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَإِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ: الْجَمَاعَةُ (سنن إبن ماجہ،کتاب الفتن،بَابُ افْتِرَاقِ الْأُمَمِ۔حدیث نمبر3993) پس عملاً یہ اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒنے علماء کو یہودی علماء کا مثیل قرار دیتے ہوئے فرمایا۔’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالبِ دنیا باشند و خو گرفتہ بہ تقلید سلف و معرض از نصوص کتاب و سنت و تعمق و تشد یا استحسان عالمی را مستند ساختہ از کلام شارع معصوم بے پروا شدہ باسند و احادیث موضوعہ و تاویلات فاسدہ را مقتدائے خود ساختہ باشند تماشا کن’’کأنھم ھم‘‘(الفوز الکبیر مع فتح الخبیر فی اصول التفسیر باب اول صفحہ10۔ مطبع مجتبائی دہلی) ’’اگر آج آپ ان علمائے یہود کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اردگرد اُن علمائے سوء کو دیکھ لیں جو دنیا پرست ہیں۔اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں گرفتار ہیں۔قرآن و سنت کے واضح احکام سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔کسی عالم یا فقیہ کے غلط اجتہاد اور قیاس کو سند اور معتبر قرار دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ جو کہ معصوم شارع ہیں،کی صحیح احادیث کی بالکل پروا نہیں کرتے،بلکہ جھوٹی حدیثوں اور غلط تاویلوں کو اپنا امام اور رہنما بنائے ہوئے ہیں’’(گویا کہ یہ وہی ہیں۔ناقل)(الفوز الکبیر۔تألیف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔ترجمہ پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری۔صفحہ نمبر ۳۳۔ناشر مکتبہ قرآنیات یوسف مارکیٹ اردو بازار لاہور۔اشاعت اوّل ۲۰۱۳)
پس مخالفین، حق کو چھپاتے ہوئے عوام کےسامنے، اسلام کے بجائے اپنا خود ساختہ دین پیش کرتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں ایک کا دوسرے کا مثیل ہونا کیا غیراسلامی عقیدہ ہے ؟
ظل اور بروز کی اصطلاح کا مطلب
حقیقت یہ ہے کہ بروز کا تصوّر عین اسلامی تصور ہے۔ اس کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگان سلف نے اس بارےمیں تفصیل سے بیان فرمایا ہےکہ بروز سے کیا مراد ہے؟ اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے۔ اس کی تفصیلات وغیرہ سب اسلامی لٹریچر میں موجود ہیں۔
سب سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ بروز سے کیا مراد ہے؟’’بروز ‘‘عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ب رزکے مادے سے بنا ہے۔ اس کے معنی ظہور اور خروج کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ لسان العرب جو کہ عربی لغت کی جامع ترین کتاب ہے اس میں بروزکےبارہ لکھا ہے کہ’’وَهُوَ الظُّهُورُ وَالْخُرُوجُ‘‘کہ بروز سے مراد ظاہر ہونا اور باہر نکلنا ہے۔یعنی بروز کے مفہوم میں مخفی اور چھپی ہوئی چیز ظاہر ہونا، منظر عام پر آنا خاص طور پر شامل ہے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ’’كُلُّ مَا ظَهَرَ بَعْدَ خَفَاءٍ،فَقَدْ بَرَزَ‘‘ یعنی ہر وہ چیز جوکہ پوشیدگی کے بعد ظاہر ہو،کہتے ہیں کہ ’’برز‘‘یعنی اس کا بروز ہو گیااسی طرح لکھا ہے کہ ’’بَرَزَ إِذا ظَهَرَ بَعْدَ خُمول‘‘برز کاایک مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز زاویہ خمول اور پوشیدگی سے ظاہر ہو جائے۔(ابن منظور،لسان العرب،جلد1صفحہ٢٥٥۔ زیر لفظ برز:قاھرہ مصر)اس سے واضح ہوگیا کہ بروز کا لفظ عربی لفظ ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز جب نظروں سے اوجھل ہو اور پھر ظاہر ہو۔
اسی طرح کے معانی علامہ راغب اصفہانی کی قرآن مجید کی لغت کی مشہور کتاب المفردات فی غریب القرآن میں بھی بیان ہوئے ہیں کہ وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما كان مستورا منه(المفردات فی غریب القرآن ازعلامہ راغب اصفہانی۔زیر لفظ برز)یعنی دوم ’’بُرُرْزٌ‘‘کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں،جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے۔(۳)کسی مستور چیز کا منکشف ہوکر سامنے آجانا‘‘(مفردات القرآن اردو جلد نمبر 1۔ ترجمہ از مولانا محمد عبدہ فیروز پوری۔شائع کردہ اسلامی اکادمی۔صفحہ نمبر 105۔زیر لفظ ب۔ر۔ز)
پس بروزکےمعنوں میں یہ بھی شامل ہےکہ کوئی شخص اپنی کسی فضیلت کے ذریعہ ظاہر ہوجائے۔اور وہ یہ کہ کسی قابل تعریف کام میں باقی لوگوں سے سبقت لے جائے۔گویابروز سےمرادیہ ہے کہ موصوف کی کوئی مخفی خوبی ظاہر ہو جائے اور اس میں وہ بہت نمایاں ہو جائے اورباقی سب پر سبقت لے جائے۔
علمائےسلف وخلف نے بروزکے وہی معانی کیے ہیں جو کہ جماعت احمدیہ کرتی ہے۔چنانچہ حضرت قطب العالم شیخ المشائخ شیخ محمد اکرم صابری صاحب الحنفی القدوسی بروز کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’روحانیتِ کَمَّلَ گا ہے بر ارباب ریاضت چُناں تصرّف می فرماید فاعلِ افعالِ او می گردد و ایں مرتبہ راصوفیہ بروز می گویند‘‘ترجمہ:کامل لوگوں کی روحانیت ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں۔ (اقتباس الانوار۔ صفحہ-51 52)یعنی روحانیت میں کامل لوگوں کی روحانیت بسااوقات سالکوں پر اس انداز سے تصرف فرماتی ہےکہ ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہےاور صوفیاء اس مرتبہ کو بروزکےنام سے موسوم کرتے ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ چاچڑاں شریف والے جن کے مرید پاکستان کے سرائیکی علاقہ میں کثرت سے موجود ہیں بروز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وَالْبُرُوْزُ اَنْ یُّفِیْضَ رُوْحٌ مِنْ اَرْوَاحِ الْکُمَّلِ عَلیٰ کَامِلٍ کَمَا یُفِیْضُ عَلَیْہِ التَّجَلّیَاتُ وَھُوَ یَصِیْرُ مَظْھَرَہٗ وَیَقُوْلُ اَنَا ھُوَ‘‘ ترجمہ : بروز یہ ہے کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی روح کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ اس کا مظہر بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں وہی ہوں۔(مقابیس المجالس المعروف بہ ارشادات فریدی،مؤلفہ رکن الدین، حصہ دوم صفحہ110 – 111، مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ1321ھ)
یعنی بروزیہ ہے کہ ایک روح دوسری اکمل روح سے فیضان حاصل کرتی ہے،جب اس پرتجلیات کافیضان ہوتا ہے۔تووہ اس کا مظہر بن جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں وہ ہوں
پس کتب لغت اور ان بزرگان کی تعریفِ بروز سے واضح ہے کہ جب کوئی وجود کسی دوسرے وجود کا مثیل اور ہم صفت ہوجاتاہےاوراس حد تک ایسی ہی صفات اس میں ظاہر ہو جاتی ہیں کہ وہ اسی وجود کا دوسرا نمونہ بن جاتا ہے۔ گویا اس وقت وہ اس صفاتی مشابہت کی وجہ سے اپنے آپ کو وہی وجود قرار دیتا ہے۔وہ اس کا مظہر کامل ہوجاتا ہے۔
صحف الہٰیہ(عہد نامہ قدیم و جدید) میں ظل اور بروز کا تذکرہ
قرآن کریم ہمیں ایک بنیادی ہدایت اور راہنمائی یہ بھی فرماتا ہے:فَسۡـَٔلُوۡۤا اَھۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔(الانبياء:8)تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ ‘‘(تفہیم القرآن جلد سوم از ابوالاعلیٰ مودودی ادارہ ترجمان القرآن لاہور )جب اہل کتاب کے پاس جاتے ہیں تو وہاں بھی ایک پرانے نبی کے اصالتاً دوبارہ نزول کا عقیدہ ملتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہی سامنے ایک پرانے نبی کے اصالتاً نزول کا مسئلہ رکھا گیا۔ یہودی علماء نے پرانے نبی کے اصالتاً نزول کے عقیدہ کو بطور ظلی و بروزی قبول نہ کرنے کو بنیاد بنا کرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا۔
(۱)چنانچہ پرانے عہد نامہ میں ایلیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے’’اور ایلیاہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا ‘‘(سلاطین 2 باب 2آیت 11)
(۲)پھر ذکر ہے کہ’’دیکھو خدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ں گا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرےگا۔ ‘‘(ملاکی باب 4آیت 5تا6)
اب بنی اسرائیل میں اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ ایلیاہ نبی آسمان پر گیا ہوا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل اسی ایلیاہ نے اصالتاً واپس آنا ہے۔ اس حوالے سے جب یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایلیاہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ذکر کرکے کہا کہ
(۳)’’سب نبیوں اور توریت نے یوحنا تک نبوت کی اور چاہو تو مانو۔ ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔ جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے ‘‘(متی باب 11آیت 13تا15)
(۴)پھر لکھا ہے کہ ’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضرورہے اس نے جواب میں کہا ایلیاہ البتہ آئےگا اور سب کچھ بحال کر ےگا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کےساتھ کیا۔ اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائےگا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ان سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔ ‘‘(متی باب17آیت 10تا13)
(۵)بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام سے جب یہود نے پوچھا کہ کیا تُو موعود ایلیاء ہے تو آپ نے انکار فرمادیا۔(یوحنا باب 1آیت 21)
(۶)حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کے حق میں صاف فرمایا تھا کہ وہی موعود ایلیاء ہیں۔(متی باب 11آیات13تا16)
حضرت یحیٰ علیہ السلام کا انکار یہود کی ٹھوکر کا موجب ہوا۔مگر یہ سب واقعات اس حقیقت ثابتہ کو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کے مثیل دنیا میں آتے رہتے ہیں۔
چنانچہ حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:’’یہ بروز کا عقیدہ کچھ نیا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں بھی اس عقیدہ کا ذکر پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ملاکی نبی کی کتاب میں جو ایلیا کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کو یہود اپنی غلطی سے یہی سمجھتے رہے کہ خود ایلیا نبی ہی آسمان پر سے نازل ہوگاآخر وہ بھی بروز ہی نکلا اور ایلیا کی جگہ آنے ولا یحیٰ نبی ثابت ہوا۔ اور یہود کا یہ اجماعی عقیدہ کہ خود ایلیا ہی دوبارہ دنیا میں آجائے گا جھوٹا پایا گیا۔ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں کی کتابوں میں بھی بروز کا عقیدہ تھا اور پھر غلطیوں کے ملنے سے اسی عقیدہ کو تناسخ سمجھاگیا۔‘‘(ایام صلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ383)
پس حقیقت یہی ہے کہ یہ تصوّر ہر اس مذہب میں پایا جاتا ہےجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی دَور یا زمانہ میں کسی مامور من اللہ پر نازل ہوا۔ مگر جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ عقائد صحیحہ پردھول پڑتی ہےاور ان میں خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں اسی طرح اس تصوّرکے ساتھ ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس صحیح تصور کو بھول جانے اور اسے صحیح طور پر نہ سمجھ سکنےکے نتیجہ میں تناسخ یا حلول کا غلط عقیدہ پیدا ہو گیا۔ عیسائیوں میں الوہیت مسیح کے غلط عقیدہ نے جنم لے لیا اور یہی حال بدھ مت والوں کا ہوا۔جب ہم بائبل کودیکھتے ہیں تو اس میں بھی اس تصوّر اور نظریہ کاہی تذکرہ کیا گیا ہے۔
(باقی آئندہ)