مصالح العرب(قسط 433)
مکرمہ آسیا کریکت صاحبہ (1)
مکرمہ آسیا کریکت صاحبہ کا تعلق الجزائرسے ہے لیکن وہ کچھ عرصہ سے اپنے خاوند کے ساتھ فرانس میں رہ رہی ہیں۔وہ احمدیت کی طرف اپنے سفر کااحوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
گو میں ایک مُتدیّن اور اسلامی اقدار کے پابند معاشرے میں پلی بڑھی لیکن مجھے مختلف اسلامی فرقوں اور مذاہب کے بارہ میں کچھ علم نہ تھا بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ دین اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارہ میں میری نظر بڑی سطحی سی تھی۔ چنانچہ مَیں نے اپنے آباء واجداد کے دین کی پیروی کرتے ہوئے صوم وصلوٰۃ کی پابندی کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی حقیقت اور مغز سے نا آشنا تھی یہانتک کہ میں نے حجاب بھی 26سال کب عمر میں پہنچ کر اوڑھنا شروع کیا۔
مجھے مطالعہ کا بہت شوق تھا اور اسلامی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے موضوع پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ میرا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔علاوہ ازیں روزمحشر کے احوال اور عذاب قبر وغیرہ کے بارہ میں لکھی جانے والی کتب بھی اکثر میرے مطالعہ میں رہتی تھیں۔
نذر او رحفظ قرآن
دینی لحاظ سے میری دلچسپی میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب میرے ایف اے کے امتحانات ہونے والے تھے۔ اس وقت مَیں نے نذر مانی کہ اگر میں امتحان میں کامیاب ہوگئی تو میں سورۃ البقرۃ حفظ کروں کرنے کی کوشش کروں گی۔ خدا نے خاص فضل فرمایا اور مَیں ایف اے کے امتحانات میں کامیاب ہوگئی جس کے بعد مَیں نے اپنی نذر پوری کرتے ہوئے سورۃ البقرۃ حفظ کرنی شروع کی یہاں تک کہ اسے مکمل کر لیا۔ حفظِ قرآن میں مجھے ایسی لذّت آنے لگی کہ سورۃ البقر ۃکے بعد میں خود کو مزید سورتیں حفظ کرنے سے نہ روک سکی۔اسی ایک کام نے میرے دل میں قرآن کریم کی عظمت او رمحبت اس قدر راسخ کردی کہ مجھے تو جیسے قرآن کریم سے عشق ہو گیا، چنانچہ بہت تھوڑے عرصہ میں ہی مَیں نے 50سورتیں حفظ کرلیں۔
دجّال اور خوفناک واقعات
نزول ِ مسیح او رخروج دجّال پر میرا ایمان تو تھا لیکن مجھے اس بارہ میں بیان کی جانے والی احادیث میں بہت زیادہ تضاد دکھائی دیتا تھا اور میں نے یہ سوچ کراس تضاد کو کبھی اہمیت نہ دی تھی کہ یہ واقعہ ہماری زندگی میں بہرحال رونما نہیں ہو گا اس لئے اس بارہ میں سوچ سوچ کر خود کو پریشان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تین چار سال قبل جب مصر کے ایک مشہور مولوی نے قیامت کی نشانیوں کے بارہ میں پروگرام پیش کیا اور اس میں بطور خاص دجّال کے بارہ میں بات کی تو اسے سن کر میرے ذہن میںدجال اور اس سے متعلق واقعات کی جو تصویر ابھری وہ کسی خوفناک فلم سے کم نہ تھی۔ اس موقع پر بھی یہ سوچ میری مددگار ثابت ہوئی کہ یہ تمام امو رنہ جانے کتنے زمانوں کے بعد واقع ہونے ہیں اس لئے مجھے ان کے بارہ میں سوچ کر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
امام مہدی اور صحیح تفسیرِقرآن
2010ء میں میری شادی ہوگئی او ر میں اپنے خاوند کے پاس فرانس منتقل ہوگئی۔ اپنے گھر اور والدین و رشتہ داروں سے دوری نے مجھے بہت اداس کیا۔ ایسے میں میری وحشت کا ساتھی قرآن کریم تھا۔اسے پڑھنے سے میری روح تسکین پاتی اورمیرا وقت بہت اچھا گزر جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ میںنے بعض آیات قرآنیہ کی تفسیر جاننے کے لئے انٹرنیٹ پر ریسرچ شروع کردی۔میں جب بھی کسی آیت کی تفسیر تلاش کرتی تو متعدد مفسرین کی باہم مختلف تفاسیر پڑھنے کا موقع ملتا لیکن عجیب بات ہے کہ ان میں سے کوئی تفسیر بھی ایسی نہ ہوتی جس سے روح تسکین پاتی یا جسے بلاتأمل کہا جاتا کہ واقعی یہ اس آیت کی حقیقی تفسیر ہو سکتی ہے۔ اکثر ایسے ہوتا کہ میں ایسی تفاسیر کا مطالعہ ادھورا چھوڑ کر انٹرنیٹ بند کردیتی ۔پھر میں اکثر دعا کرتی کہ خدایا موت سے پہلے مجھے اپنے امام مہدی سے ضرور ملوا دینا تا میں اس سے ان آیات کی صحیح تفسیر کے بارہ میں پوچھ کر دل کی تسکین کرسکوں۔ ایسی دعا کی وجہ میرا خودساختہ تصور تھا کہ امام مہدی نے آکر قرآن کریم کی صحیح تفسیر کرنی ہے۔ گو اُس وقت اس تصور کی بنیاد کسی آیت یا حدیث پر نہ تھی لیکن بعد میں مجھے پتہ چلا کہ بنیادی طور پر میرا یہ اعتقاد درست تھا کیونکہ قرآن کریم کی غلط تفسیر کی وجہ سے ہی تمام عقائدی اور عملی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ امام مہدی نے آکر ان عقائدی او رعملی خرابیوں کو دور کرنا ہے او روہ تعالیمِ اسلام کی صحیح تشریح کے بغیر نا ممکن ہے۔
اندھے کنویں میں گرنے سے بچ گئی
میری ایک سلفی سہیلی تھی جس نے ایک روز مجھے علّامہ قرطبی کی چند کتب پڑھنے کے لئے دیں۔ میں نے ان کا مطالعہ شروع کیا اورآیت کریمہ { فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا} کی تفسیر پڑھی تو قریب تھا کہ میں گمراہی کی کسی گہری کھائی میں جا گرتی اور راستہ بھٹک جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرماتے ہو ئے مجھے بچایا جس کے بعد میںنے تحقیق کے میدان میں اترکر خود تسلی کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ میں نے انٹرنیٹ پر شیعہ اور اہل سنت کے امام مہدی کے بارہ میں خیالات اور اقوال کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنا شروع کردیا۔ اسی دوران اتفاقًا مجھے داعش کے لیڈر بغدادی کی ایک ویڈیو مل گئی۔ میں اسے سن کر بڑی حیران ہوئی ۔ چونکہ اس وقت داعش کی ابھی ابتدا ہورہی تھی اورلاعلمی کی وجہ سے کچھ لوگ اس کے حق میں تھے اور کچھ مخالف۔ داعش نے آتے ہی ایسی اسلامی حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کیا تھاجس میں تمام ملکی حدود کو ختم کردیا گیا تھا۔ اس لئے یہ بات مجھے بہت بھلی لگی اور مجھے اس سے بہت امیدیں لگ گئیں۔ مجھے امام مہدی کا ظہور بہت قریب دکھائی دینے لگا تھا۔ اس کے بعد میں الجزائر گئی تو وہاں سنا کہ الجزائر کی حکومت نے اپنے ملک کے باشندوں کو داعش سے دُوررہنے کا کہا ہے۔میںاپنے رشتہ داروں کے ساتھ اس بارہ میں بحث کرتی اور انہیں کہتی کہ یہ اسلامی خلافت کے قیام کے داعی ہیں اس لئے اچھے ہیں۔ میرے تمام خیالات ایسے حسنِ ظن پر مبنی تھے جو شایدداعش کی حقیقت سے ناواقفی کا نتیجہ تھا۔جب میں فرانس واپس آئی تو اس کے ایک ماہ کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میںایک بہت گہرے اور اندھے کنویںکی منڈیر کو پکڑے اس کی اندرونی جانب لٹکی ہوئی ہوںاور محسوس کرتی ہوں کہ اب میں اس اندھے کنویں میں گرنے ہی والی ہوں۔ اس وقت اچانک سفید رنگ کے تین یا چار بڑے بڑے پرندے آتے ہیں اور مجھے منڈیر سے اٹھا کر لے جاتے ہیںاو ریوں میری جان میں جان آتی ہے۔
اس رؤیا کے بعد میں بہت ڈر گئی اوراس وقت میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ شاید میں بہت شدید بیمار ہوجاؤں گی اور رؤیا میں پرندوں سے مراد ڈاکٹر حضرات ہیں۔
ایم ٹی ا ے العربیۃسے تعارف
اس رؤیا کے دو ہفتے کے بعد میں ایک روز انٹر نیٹ پر کچھ ریسرچ کررہی تھی کہ مجھے ایم ٹی اے کے مشہور پروگرام ’’الحوار المباشر‘‘ کا ایک کلپ مل گیا جس میں وفات مسیح علیہ السلام کے دلائل دیئے گئے تھے۔قرآنی آیات سے وفات مسیح کا استدلال سن کر آن کی آن میں ہی میری کایا پلٹ گئی۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ یہی حقیقی تفسیر ہے ۔ اس کلپ نے میری پیاس بڑھا دی اور میں نے ڈھونڈ کر یہ پروگرام پورا دیکھا۔ پھر اس کے ذریعہ ایم ٹی اے سے تعارف ہوا اور میںاس کے مختلف پروگرامز دیکھنے لگی۔ ایک ہفتے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ یہ ایک جماعت ہے او رپروگرام الحوار المباشر میں مذکورہ وفات مسیح کے دلائل اس جماعت کے بانی نے بیان کئے ہیں۔
یہ کافر نہیں ہو سکتے!
پھر اچانک میری توجہ الحوار المباشر کے ایک ممبر کی بات کی طرف مبذول ہوئی جو اپنی جماعت کے بانی کے نام کے ساتھ’’ علیہ السلام‘‘ کہہ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ کون ہو سکتا ہے جس کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہا جاتا ہے؟ میں نے انٹرنیٹ پرجماعت احمدیہ کے بارہ میں ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ تمام علماء ہی اس جماعت کو کفار کہتے ہیں اور اس کے بانی کے دعویٰ کی بھی تکذیب کرتے ہیں۔ اس وقت میں نے کہا کہ یہ لوگ کافر نہیں ہوسکتے۔ ان کے چہروں پر نظر آنے والا نور جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد میں نے مزید ریسرچ اور مطالعہ کا فیصلہ کیا اور دن رات پروگرام الحوار المباشر دیکھنے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے مجھے کوئی چھپا ہوا خزانہ مل گیا ہو۔جب میں حضور علیہ السلام کی سیرت کو سنتی تو یوں لگتا جیسے میں آپ کے ساتھ آپ کے زمانے میں ہوں اور ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ الغرض پہلے دن سے ہی مجھے اس جماعت سے خاص محبت ہوگئی اورمیں اپنے ثبات قدم کے لئے دعائیں کرنے لگی۔
استخارہ اور راہنمائی
اسی عرصہ میں مَیں نے الحوار المباشر میںمکرم محمد شریف صاحب کی زبانی سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے بارہ میں جاننے کے لئے استخارہ کرنا چاہئے۔ میں نے استخارہ شروع کیا او ردوروز تک بہت مجاہدہ کیا جس کے بعد میری ایک رشتہ دار کا فون آیا او راس نے کہا کہ میںنے رؤیا میں دیکھا ہے کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے سسرال کے گھر میں ہوں۔اس گھر میں بہت سے کمرے ہیں او رتم مجھے کہتی ہو کہ مجھے کوئی ا یساکمرہ دو جس میں روشنی اور گرمائش نسبتًا زیادہ ہو۔چنانچہ مجھے میری پسند کا کمرہ مل جاتا ہے تو میںاس میں بیٹھتے ہوئے کہتی ہوں کہ یہ کمرہ مجھے بہت پسند آیا ہے۔
میری سہیلی کارؤیا تو ختم ہوگیا لیکن مجھے اچھی طرح سمجھ آگیا کہ یہ میرے استخارہ کا جواب ہے اور پھر مجھے سفید پرندوں والا رؤیا بھی یاد آگیااو راس وقت اس کی یہ تعبیر ذہن میں آئی کہ الحوار المباشر کے شرکاء ہی وہ سفید پرندے ہیں جنہوں نے مجھے اندھے کنویں میں گرنے سے بچایا ہے۔
بیعت کا مرحلہ
واضح ہدایت اور راہنمائی ملنے کے بعد بھی میں کھل کر بیعت کرنے کے لئے تیار نہ ہوسکی۔ بیعت کا مرحلہ بہت مشکل تھا اورمجھے اس کے بارہ میں بہت خوف اور تردد تھا۔ بالآخر بہت دعائیں کرنے کے بعد مجھے انشراح صدر ہوگیا اوراللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت کرنے کا عزمِ صمیم عطا فرمادیا۔ چنانچہ میں نے اپنے خاوند کو اس فیصلہ سے آگاہ کردیا۔
میرا خاوند فرانس میں پلا بڑھا ہے اس لئے اسے دینی علوم کی باریکیوں کا علم نہیں ہے نہ ہی مختلف مذاہب اور فرقوں کی آراء سے کچھ واقفیت ہے۔لیکن اس بات پر اس کا بہت اصرار تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اس لئے ان کے بعد کسی اور نبی پر ایمان لانا درست نہیں ہے۔ نیز متشدد مسلمان جماعتوں اور اسلام کے نام پر بنی دہشتگرد تنظیموں کے بعض تصرفات کی وجہ سے میرا خاوند کسی بھی جماعت کے ساتھ منسوب ہونے کے حق میں نہ تھا اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں تواس کے پاس ایک اور بھی دلیل تھی کہ اس نے مختلف اسلامی جماعتوں میں جماعت احمدیہ کا نام آج تک نہیں سنا۔ ان تمام وجوہات اور خاوند کی طرف سے حوصلہ شکنی کے باوجود میں بیعت پر مصر تھی۔ان ایام میں میں نے بہت زیادہ دعائیں کیںکہ خدایا میری مشکل آسان کردے او رمیرے خاوند کو بھی اس نور سے حصہ عطا فرماجس کی طرف تُونے میری راہنمائی فرمائی ہے۔ اس کے بعدمیں نے انٹرنیٹ کھول کر کچھ ڈھونڈنا چاہا تو مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی عالمی امن کے بارہ میں کوششوں، دوروں اور خطابات کی رپورٹ پر مشتمل مختصر سی ویڈیو مل گئی جس کے آخر پر مختلف سیاسی اور علمی شخصیات کے تأثرات بھی تھے اوراس کا فرنچ زبان میں ترجمہ بھی موجود تھا۔میں نے یہ ویڈیو اپنے خاوند کو دکھائی تو وہ کسی قدر مطمئن ہوگیااور بالآخر اس نے مجھے بیعت کرنے کی اجازت دے دی ۔یوں میں نے بیعت فارم پُر کر کے ارسال کردیا اور دو ماہ کے بعد حضو رانور کی طرف سے میری بیعت کی قبولیت پر مشتمل جواب آگیا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔
(باقی آئندہ)