بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہ (از عربی منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر وتحریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کاتذکرہ ہمیشہ جاری رہا۔کبھی نظم میں اورکبھی نثر میں، کبھی اردو میں، کبھی فارسی اورکبھی عربی زبان میں۔
عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے جانتےہیں کہ کسی بھی مضمون کو بیان کرنے کے لئے عربی زبان اپنے اندر خاص صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسی وجہ سے عرب قوم کی شاعری کادنیابھرکی زبانوں میں ایک خاص مقام ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مادری زبان گوعربی نہ تھی مگر آپؑ نے اس کا خداداد علم پانے کے بعد اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر اپنے عربی کلام میں اس اندازسے کیاہے کہ عرب لوگ بھی اس کو پڑھ کرروحانی حظ محسوس کرتے ہیں۔ایسامحسوس ہوتاہےکہ آپؑ کاقلم اورآپؑ کی زبان اپنے محبوب کے حسن واحسان کے تذکرہ سے کبھی بھی نہ تھکتی تھی۔آپؑ نے اپنے معشوق ﷺ کے حسن واحسان کا کبھی کسی پہلوسے مشاہدہ کیا اورکبھی کسی پہلوسے اورپھر ہمیشہ اپنی تقریروتحریرکواس کے تذکرہ سے مزین کرتے چلے گئے۔ اگریہ کہاجائے توبے جانہ ہو گاکہ اس نو ر علیٰ نو روجود ﷺ کی روشنی آپ ؑکی نظم ونثر کی وساطت سے دنیا کےکونے کونے تک پہنچ کراوردنیاکی تاریکیوں کو روشنیوں میں بدل رہی ہے۔
یہ مضمون اپنی ذات میں بہت وسیع ہے مگر آج کے مضمون میں آپؑ کے عربی منظوم کلام میں صرف اس حصہ کوجمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں حضورﷺ کے عرب قوم پراحسانات کادلگداز تذکرہ ہے۔
حضورﷺ عرب کی ایک بستی مکہ میں پیدا ہوئے جہاں کے اکثر لوگ سخت مزاج اوروحشی صفت تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی اورلوگوں کے دل پتھر تھے۔شراب خوری اور زناکاری اس سرزمین کا دستور تھا۔ گویا کہ ضلالت کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر تھا۔مگر یہ حلقہ ظلمت کدہ پھر نورِمحمدﷺ سے مستفیض ہوااورجہاں جہاں بادسموم کا تصور تھا وہاں رقص بہاراں کےجشن میں راحت آمیز ہوائیں اٹھکیلیاں کرنے لگیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
وَقَدْکَانَ وَجہُ الْاَرْضِ وَجْھًامُّسَوَّدًا
فَصَار بِہٖ نُورًا مُّنِیْرًا وَّ اَغْیَدًا
اورروئے زمین توایک تاریک سطح تھی ۔پس اس ﷺکے ذریعے وہ سطح نورتاباں اورسرسبز ہوگئی۔
(کرامات الصادقین،روحانی خزائن جلد7 صفحہ92)
آنحضرت ﷺ کایہ احسان عظیم تھاکہ ایسی قوم کو جو اپنی اخلاقی گراوٹ میں ایک نام رکھتی تھی اور اقوام عالم میں ان کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی آنحضرت ﷺنے خالص سونے کی ڈلی بنادیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
صَادَفْتَھُمْ قَوْمًاکرَوْثٍ ذِلَّۃً
فجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیانٖ
کہ تونے انہیں گوبرکی طرح ذلیل قوم پایا توتونے انہیں خالص سونے کی ڈلی بنادیا۔
(آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 591)
اس طرح ایک اورشعرمیں فرماتے ہیں ۔
عَادَتْ بِلَادُ الْعُرْبِ نَحْوَ نَضَارَۃٍ
بَعْدَ الْوَجٰی وَالمَحْلِ وَالخُسْرَانٖ
ملک عرب خشک سالی ،قحط اورتباہی کے بعد شاداب ہوگیا۔
(آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 591 )
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے عرب کی تاریخ کارخ ہی موڑدیا ۔وہ تاریخ جس کادامن ظلم وبربریت سے تارتار تھا۔وہ تاریخ جس میں قیصر وکسریٰ کااستبداد لوگوں کامقدر بن چکاتھا۔اس ظلمت کاخاتمہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور دین اور تقویٰ کی بنیاد پر بلال حبشی رضی اللہ عنہ جیسے غلام کوابوجہل اور ابولہب جیسے سرداروں پر دائمی فوقیت حاصل ہو گئی۔ آپؐ نے تمام نسلی، جغرافیائی، لسانی فرق مٹائے اورزید وبکر کوایک صف میں کھٹراکردیا۔ آپؑ کی ذاتِ بابرکات کی بدولت روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے صنم ہائے خود تراشیدہ ریزہ ریزہ ہوگئے۔
عرب قوم کی جہالت کایہ عالم تھاکہ وہ لڑائی کو فخر سمجھتے تھے جیسے کہ عمر بن کلثوم تغلبی کاشعر ہے کہ
اَلَا لَا یَجْھَلنَّ اَحَدٌ عَلیْنَا
فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِ الجَاھِلینَا
کہ خبردار کوئی ہم پر جہالت نہ کرے۔ یعنی ہم سے نہ الجھے وگرنہ ہم جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر جہالت کا مظاہرہ کریں گے ۔(تاریخ الادب العربی۔تالیف احمد حسن الزیات ۔ مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان 1993ء۔صفحہ 51)گویا عرب میں جہالت کشت وخون ،درندگی ،حیوانیت کا دَور دورہ تھا۔ اس جہالت کا خاتمہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورافق عالم میں ایسانورانی وجود ظاہر ہوا جس کی تمازت نے ہزاروں سالوں سےبھڑکتی آگ کے شعلوں کوخاکستر کرکے رکھ دیا۔
آنحضرتﷺ کے اس عظیم الشان احسان کا ذکرتے ہوئے آپؐ کے عاشقِ صادق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اَتَعْرِفُ قَوْمًا کَانَ مَیْتاً کَمِثْلِھمْ
نَئُوْمًا کاَمْوَاتٍ جَھُوْلًا یَلَنْدَدَ ا
فَاَیْقَظَھُمْ ھَذَا النَّبِیُ فَاَصْبَحُوْا
مُنِیْرینَ مَحْسُوْدِیْنَ فِی الْعِلْمِ وَالْھـُدٰی
کہ کیا تو ایسے لوگوں کو جانتا ہے جو ان جیسے مردہ تھے۔ وہ لوگ مردوں کی طرح سوئے ہوئے تھے اور بہت جاہل اور جھگڑالو تھے ۔سو اس نبیؐ نے ان کو بیدار کردیا تو وہ نور دینے والے اور علم و ہدایت میں قابل رشک ہو گئے ۔
(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد7ص93)
مَے نوشی کا یہ حال تھا کہ اس ’فریضہ‘ کے لئے پانچ وقت مقرر تھے۔اور ہر وقت کے لئے الگ شراب مقرر تھی۔ چنانچہ انہیں جاشریہ ،صبوح ،قیل، غبوق ،فحمہ وغیرہ کا نام دیا گیا۔ لبید بن ربیعہ نے مے نوشی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا
باکَرْتُ حَاجَتَھَا الْدَّجَاجَ بِسُحْرَۃٍ
لِاُعَلَّ مِنْھَا حِیْنَ ھَبَّ نِیَامُھَا
یعنی مَیں نے مرغ سے بھی جو بہت صبح سویرے اٹھتا ہے سبقت کرتے ہوئے سحری کے وقت شراب پی۔ اس لئے نہیں کہ لوگ مجھے دیکھ کرشراب نوشی کا طعنہ نہ دیں بلکہ اس لئے کہ جب رات کے سوئے ہوئے صبح کو میخانے میں آکر شراب نوشی کریں تو میں ان سے فخریہ کہہ سکوں کہ تم تو پہلی بار شراب پی رہے ہو اور میں دوسری بار۔
(شرح المعلقات العشر للقاضی ابو عبد اللہ الحسین الزوزنی۔ مطبوعہ دار مکتبۃ الحیاۃ بیروت، لبنان،1983ء۔صفحہ 184)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ احسان تھا کہ آپؐ کی تربیت سے انہوں نے شراب کو فی الفور چھوڑ کر عبادات کو اختیار کرلیا۔چنانچہ سیدناحضرت اقدس مسیح عود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
تَرَکُوْا الْغَبُوْقَ وَبَدَّلُوْا مِنْ ذَوْقِہٖ
ذَوْقَ الْدُّعَاءِ بِلَیْلَۃِ الْاَحْزَانِ
کہ انہوں نے شام کی شراب ترک کر دی اور اس کی لذت کے بدلے انہوں نے غم کی راتوں میں دعا کی لذت اختیار کرلی۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 592)
نیز آپؑ نے ایک اور شعرمیں فرمایا:
وَجَعَلْتَ دَسْکَرَۃَ المُدَامِ مُخرَّباً
وَاَزَلْتَ حَانَتھَا مِنَ الْبُلْدَانٖ
اورتونے مے خانوںکو ویران کردیا اور شہروں سے شراب کی دکانیں ہٹادیں۔
( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 592 )
معمولی معمولی باتوں پر لڑنا، ایک دوسرے کو قتل کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ہر بچہ اپنے عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبے میں پرورش پاتا تھا۔ اور عفوودرگزر کا دور دور تک نام و نشان نہ ہوتا تھا ۔جبر و تشدد کی ژالہ باریاں مصروفِ تباہی تھیں۔ ظلم کی یہ انتہا تھی کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ لڑکی کی پیدائش پر افسوس ہوتا تھا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام ابوحمزہ تھا وہ صرف اسی وجہ سے اپنی بیوی سے ناراض ہو گیا کہ اس کی بیٹی پیدا ہوئی ہے اور پڑوسیوں کے گھر رہنا شروع کردیا۔ لہٰذا اس کی بیوی بچی کو لوری دیتی ہوئی یہ شعر پڑھتی کہ:
مَالِاَبیْ حمَزْۃ لَا یَاْتِیْنَا
یَظَلُّ فِی الْبَیْتِ الَّذِی یَلِیْنَا
غَضْبَانَ اَلَّا نَلِدُ الْبَنِیْنَا
تَاللہِ مَا ذَالِک فِی اَیْدِیْنَا
کہ ابو حمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ جو ہمارے پاس نہیں آتا اور پڑوسی کے گھر میں رہ رہا ہے۔ وہ صرف اس بنا پر ناراض ہے کہ ہم نے لڑکا نہیں جنا ۔خدا کی قسم یہ کام میرے دائرہ اختیارمیںنہیںہے۔
(البیان والتبیین۔ مولف: ابوعثمان عمرو بن بحرالجاحظ۔الجزء اول ص127داراحیاء التراث العربی۔ بیروت۔لبنان)
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی بدولت صنف نازک کا مقام ومرتبہ قائم ہوا۔ اور قتل و غارت اور خوف و ہراس کی آندھیاں تھم گئیں۔ چنانچہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
وَ مَا بَقٰی اَثَرٌ مِنْ ظُلْمٍ وَ بِدْعَاتٍ
بِنُورِمُھْجَۃِ خَیْرِ الْعُجْمِ وَالْعَرَبِ
اور ظلم و بدعات کا کوئی نشان باقی نہ رہا ۔عرب و عجم میں سے بہترین شخص صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے نور کی وجہ سے۔
(سِرّالخلافۃ۔روحانی خزائن جلد8 صفحہ 430 )
عورتوں کے نکاح کے متعلق یہ حکم نازل ہوا کہ جن کی حرمت قرآن میں آگئی ان سے نکاح حرام ہوگیا۔چنانچہ سیدنا احمد علیہ السلام نے فرمایا ۔
أَمَّاالنِّسَاءُ فَحُرِّمَتْ اِنْکَاحُھَا
زَوْجاً لَہُ التَّحْرِیْمُ فِی الْقُرآنٖ
کہ عورتوں سے متعلق تویہ حکم ہوا کہ ان کا نکاح ایسے خاوند سے جس کی حرمت قرآن میں آگئی حرام کردیا گیا ۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 591)
اس ظالم قوم کے ظلم کا یہ حال تھا کہ قضا ءوو قدر کی بھی پرواہ نہ تھی جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے۔
سَاَغْسِلُ عَنّیِ الْعَارَ بِالسَّیْفِ جَالِباً
عَلَیَّ قَضَاء اللہِ مَاکَانَ جَالِباً
میں اپنے اوپر سےشرم و عارکوضرورتلوار کے ساتھ دھوؤں گا۔ پھر اللہ کی قضاءمجھ پر جو چاہے لاوےمجھے پرواہ نہیں۔
(دیوان الحماسہ۔تالیف ابی تمام حبیب بن اوس الطائی۔الطبعۃ الاولی1998 ء۔صفحہ 16 ۔دارالکتب العلمیۃ بیروت۔لبنان)
اس شعر کو پڑھ کر انسان یہ بات کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ واقعۃ ًیہ ایک مردہ قوم تھی ۔اور اسےزندگی بخش رسول صلی اللہ علیہ السلام نے زندہ کیاہے ۔سیدنا احمدعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُوْنِ بِجَلْوَۃٍ
مَاذَا یُمَاثِلُکَ بِھذَا الشَّانٖ
کہ تو نے صدیوں کے مُردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا۔ کون ہے جو اس شان میں تیرا مثیل ہوسکے ۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 592 )
عرب کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ شراب و شباب اہل عرب کی رگ و پَے میں سرایت کر چکے تھے۔ اس قدر کہ اشعار کا آغاز عورتوں سے محبت کے ذکر اور اُن سے ہونے والے راز و نیاز سے کرنے میں فخر محسوس کرتے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ احسان فرمایا کہ انہیں قرآن کریم جیسی لعل تاباں کتاب کی تعلیم دی اور ان کو تلامیذالقرآن بنا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان برائیوں سے نکل کر خدا سے ہم کلام ہوئے اور خدا کی محبت میں فانی ہوگئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
کَمْ مُسْتَھَامٍ لِلرَّشُوْفِ تَعَشُّقًا
فجَذَبْتَھُمْ جَذْبَاً اِلیَ الْفُرقَانٖ
بہیترے معطردھن عورتوں کےعشق میں سرگرداں تھے سو تو نے انہیں فرقان کی طرف کھینچ لیا ۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 592)
ایک اور شعر میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
کَانَ الْحِجَازُ مَغَازِلَ الْغِزْلَانٖ
فجَعَلْتَھُمْ فَانِیْنَ فیِ الْرَّحْمَانٖ
کہ اہل حجاز آھوچشم عورتوں سے عشق بازی میں لگے ہوئے تھے ۔سو تونے ان کو خدائے رحمٰن کی محبت میں فانی بنا دیا۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 591)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دلوں کو موہ لینے والے احسانات کے متعلق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِحْسَانُہ یُصْبِی الْقُلُوْبَ
وَحُسْنُہٗ یُرْوِیْ الصَّدَا
اس کا احسان دلوں کو موہ لیتاہے اور اس کا حسن پیاس کو بجھا دیتا ہے۔
(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 70 )
یہ نمونۃً چند اشعار ہیں ورنہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں متعدد اشعار ہیں جن میں آپؑ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ خاتَم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا تذکرہ روشن ستاروں کی طرح جھلک رہاہے کہ جن کو دیکھ کر بے اختیار دل سےیہ صدا بلند ہوتی ہے
یَارَبِّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّکَ دَاِئماً
فِی ھٰذِہِ الْدُّنْیَا وَبَعْثٍ ثَانٖ
اے میرے رب۔ اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ۔ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی ۔آمین
٭…٭…٭