الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا
رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں اُمّ المومنین حضرت جویریہؓ کا مختصر ذکرخیر مکرمہ سیّدہ شمیم شیخ صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مدینہ سے 96 میل کے فاصلہ پر ایک مشہور چشمے ’مریسیع‘ کے پاس ایک قبیلہ بنو مصطلق آباد تھا جس کے سردار حارث بن ابی ضرار کو مسلمانوں سے شدید نفرت تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد وہ سرعام کہا کرتا کہ جس فتنے کو مکّہ مدینہ والے ختم نہ کرسکے اُسے ہم قریش کی مدد سے ختم کریں گے۔ یہ اطلاع حضورؐ کو ملی تو آپؐ نے حضرت بریدہؓ کو جائزہ لینے کے لئے بھیجا۔ حالات سے آگاہ ہونے کے بعد آپؐ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور مدینہ سے شعبان 5 ہجری کو فوجی قافلہ روانہ ہوا۔ حارث کو اسلامی فوج کا علم ہوا تو وہ ڈر کر بھاگ گیا۔ اُس کے فوجی بھی اِدھر اُدھر ہوگئے۔ اُس کے قبیلہ کے لوگوں نے اسلامی فوج کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ اُن کے گیارہ افراد مارے گئے، چھ سو جنگی قیدی بنالئے گئے جن میں حارث کی بیٹی برّہ بھی شامل تھی جس کا خاوند مسافع بن صفوان بھی اُس دن جنگ میں مارا گیا تھا۔
مال غنیمت تقسیم ہوا تو برّہ حضرت ثابتؓ بن قیس بن شماس کے حصہ میں آئیں۔ لیکن اُن کو پسند نہ آیا کہ وہ سردار کی بیٹی ہوکر ایک لونڈی بن کر زندگی گزاردیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مالک سے کہا کہ وہ مکاتبت کرلیں یعنی کچھ فدیہ لے کر اُنہیں آزاد کردیں۔ حضرت ثابتؓ نے 9 اوقیہ سونے پر مکاتبت کرلی۔ لیکن چونکہ برّہ خالی ہاتھ تھیں اس لئے انہوں نے سوچا کہ مسلمانوں کے رسول محمدؐ بہت رحمدل ہیں، اُن سے قرض یا مدد کی درخواست کرتی ہوں۔ چنانچہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور واقعہ بیان کرکے مدد کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے دل میں ڈالا کہ اگر آپؐ اس سے شادی کرلیں تو اسلام کے پھیلنے کے سامان ہوسکتے ہیں اور اس کے قبیلے کے ساتھ دشمنی بھی ختم ہوجائے گی۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ اس کی بھی ایک صورت ہے کہ مَیں تم سے نکاح کرلیتا ہوں اور تمہاری طرف سے مَیں رقم ادا کردیتا ہوں۔ یہ سُن کر برّہ کو اپنا ایک خواب یاد آگیا جو کئی برس قبل دیکھا تھا کہ یثرب (مدینہ) سے ایک چاند آیا اور میری آغوش میں آگیا۔ اب اس خواب کی تعبیر سامنے تھی۔ سو برّہ نے رضامندی کا اظہار کردیا۔اس وقت برّہ کی عمر 20 سال تھی۔ نکاح کے بعد برّہ کا نام جویریہ رکھا گیا۔ یہ نکاح 627ء میں ہوا۔
دوسری طرف حارث کو جب اپنی بیٹی کو قیدی بنالینے کی اطلاع ہوئی تو وہ کچھ مال و اسباب لے کر (جس میں اُس کے دو پسندیدہ اونٹ بھی شامل تھے) مدینہ کے لئے روانہ ہوا تاکہ فدیہ دے کر اپنی بیٹی آزاد کروالے۔ راستہ میں اُس کی نیت خراب ہوگئی اور اُس نے اپنے دونوں پسندیدہ اونٹ وادیٔ عقیق میں چھپادیئے اور باقی مال لے کر مدینہ پہنچا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ اے محمد! میری بیٹی کو آزاد کردیں، یہ اس کا فدیہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہ دو اونٹ کہاں ہیں جو تم وادیٔ عقیق میں چھپاکر آئے ہو۔ حارث یہ سُن کر سٹپٹاگیا لیکن دل میں کہا کہ یہ آدمی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ پھر اُس نے اور اُس کے دو بیٹوں عبداللہ اور عمرو نے اُسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ کو بلایا تو حارث کہنے لگا کہ یہ قبیلے کے سردار کی بیٹی ہے، یہ لونڈی بن کر نہیں رہ سکتی۔ مگر جب اُسے بتایا گیا کہ وہ حضورؐ کی بیوی بن کر رہے گی تو وہ بہت خوش ہوا۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ یہ جویریہ کی مرضی ہے، جہاں وہ رہنا پسند کرے۔ اس پر حضرت جویریہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسند کیا۔ آپؓ ایک بہادر اور ذہین خاتون تھیں۔ اس نکاح کے نتیجہ میں مسلمانوں نے یہ پسند نہ کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ داروں کو قیدی بناکر رکھیں چنانچہ بغیر فدیہ لئے اُن کو رہا کردیا گیا۔ اِن قیدیوں کی واپسی ہوئی تو قبیلہ کے ہر گھر میں اسلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہونے لگا اور قبیلہ والوں نے تیزی سے اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔
حضرت جویریہ ؓ نے رئیسانہ زندگی بسر کی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت سادگی اختیار کرلی۔ خدا اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی کی خاطر زیادہ تر وقت عبادت میں گزارتیں اور اس کے لئے اپنے حجرہ کا ایک کونہ مخصوص کردیا تھا۔ کثرت سے روزے بھی رکھتیں۔ غریبوں کی بہت ہمدرد تھیں اور کسی کی مدد کرنے کی توفیق ملتی تو اللہ کا احسان مانتیں۔
آپؓ سے سات احادیث مروی ہیں۔ ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کے ہاں آئے اور پوچھا: کچھ کھانے کو ہے؟ عرض کیا: میری کنیز نے صدقے کا گوشت دیا تھا، بس وہی موجود ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ صدقہ جس کو دیا تھا اُس کو پہنچ چکا، لے آؤ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ آپؓ کو صرف چھ سال میسر آیا۔ حضورؐ کی وفات ہوئی تو یہی کلمات کہتی رہیں کہ ’’اے باری تعالیٰ! تُو جس حال میں رکھے، راضی ہوں۔ بس مجھے حوصلہ عطا فرما‘‘۔ اس کے بعد جب بہت بے قرار ہوتیں تو حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں چلی جاتیں۔ اندر داخل ہوکر سلام عرض کرتیں اور قدموں میں بیٹھ کر آنسو بہاتیں اور دل کی باتیں کرتیں۔
حضرت عمرؓ نے حضرت جویریہؓ کا وظیفہ چھ ہزار درہم سالانہ مقرر فرمایا تھا۔ آپؓ کی وفات 50ہجری میں قریباً 75 سال کی عمر میں ہوئی۔
حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا
رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت اُمّ حبیبہؓ کی مختصر سیرۃ و سوانح مکرمہ سلمیٰ منیر باجوہ صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ کی کنیت رکھنے والی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ کا اصل نام رملہ یا ہند تھا جو آنحضورؐ کے دعویٔ نبوت سے 17 سال قبل سردارِ مکّہ ابوسفیان کے گھر پیدا ہوئیں۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ کی پہلی شادی حضرت عبیداللہ بن جحش سے ہوئی۔ دونوں نے ابتدائی دَور میں اسلام قبول کیا جبکہ اُس وقت ابوسفیان کا مسلمانوں سے سلوک انتہائی معاندانہ تھا۔ تاہم آپؓ کے دل میں اسلام کی صداقت کا نُور چمک اُٹھا تھا۔ 6 نبوی میں دونوں میاں بیوی نے کفّار کے ظلم کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حبشہ کی طرف ہجرت کرلی۔ یہاں آپؓ کے ہاں ایک بیٹی حبیبہ پیدا ہوئی۔ لیکن بدقسمتی سے آپؓ کا خاوند شراب نوشی کا عادی ہوگیا اور پھر مُرتد ہوکر عیسائیت اختیار کرکے اسی حالت میں وفات پاگیا۔ یہ دَور حضرت اُمّ حبیبہؓ کے لئے بڑی آزمائش کا تھا۔ آپؓ کے حالات کا تفصیلی علم جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آنحضورؐ نے آپؓ کی قربانیوں اور وفا کے پیش نظر حضرت اصمحہ نجاشیؓ شاہ حبشہ (جو مسلمان ہوچکے تھے) کو حضرت عمرؓ بن امیّہ کے ہاتھ خط بھیجا کہ اُمّ حبیبہؓ اگر پسند کرے تو اُس کا نکاح میرے ساتھ کردیا جائے۔شاہ حبشہ نے آپؐ کا خط ایک کنیز ابرہہ کے ذریعہ اُمّ حبیبہؓ کو بھجوادیا اور کہا کہ اگر آپؓ نکاح کے لئے رضامند ہوں تو اپنا کوئی وکیل مقرر کرلیں۔ اس پر اُمّ حبیبہؓ نے خدا کا شکر ادا کیا اور ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور انگوٹھیاں دیں اور حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل مقرر کرلیا۔ شاہ نجاشی نے تقریبِ نکاح کا اہتمام کیا جس میں تمام مسلمانوں کو دعوت دی گئی۔ چار سو دینار حق مہر پر (جو اُسی وقت ادا کردیا گیا) یہ نکاح پڑھا گیا۔ یہ 6 یا 7ہجری کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپؓ کی عمر قریباً 37 برس تھی۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ حاجتمندوں کے لئے بہت دردِ دل رکھنے والی تھیں۔ روایت میں آتا ہے کہ آپؓ نے نکاح کے بعد کنیز ابرہہ کو مزید پچاس دینار یہ کہہ کر دیئے کہ اُس دن مفلسی کی وجہ سے مَیں تمہیں رقم نہ دے سکی تھی۔ لیکن کنیز ابرہہ نے یہ دینار اور پہلے سے دیا ہوا چاندی کا زیور یہ کہہ کر آپؓ کو واپس کردیئے کہ بادشاہ نے مجھے تاکید کی ہے کہ آپؓ سے کچھ نہ لوں اور یقین کیجئے کہ مَیں محمد رسول اللہ کی پیروکار ہوکر اللہ عزّوجل کے لئے دین اسلام قبول کرچکی ہوں۔ آپ مدینہ جائیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کردیں۔
شاہ حبشہ نے دو کشتیوں کا بندوبست کیا اور حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کی قیادت میں مسلمان مہاجرین کو مدینہ روانہ کیا۔ اُن میں حضرت اُمّ المومنین سیّدہ اُمّ حبیبہؓ بھی شامل تھیں۔ بادشاہ نے حضرت شرجیلؓ بن حسنہ کو خاص طور پر آپؓ کی خدمت کے لئے مامور کیا اور کچھ تحائف دے کر بصد احترام آپؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا۔ (یہ قافلہ اُس وقت مدینہ پہنچا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی مہم پر تھے۔)
حضرت اُمّ حبیبہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر دل و جان سے فدا تھیں اور آپؐ کی ذات اور شانِ اقدس کے لئے بڑی غیرت رکھتی تھیں۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی توسیع کے لئے ابوسفیان حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اپنی بیٹی اُمّ حبیبہؓ کے ہاں پہنچا۔ باپ بیٹی کی یہ پندرہ برس بعد ہونے والی ملاقات تھی۔ جب باپ بستر پر بیٹھنے لگا تو بیٹی نے بستر سمیٹ دیا اور کہا کہ یہ آنحضرتؐ کا بستر ہے جبکہ تم مشرک اور نجس ہو اور مجھے یہ پسند نہیں کہ تم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھو۔ وہ بولا کہ تم میرے بعد بہت خراب ہوگئی ہو۔ آپؓ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ نے مجھے اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا ہے اور تم بہرے اور اندھے بتوں کی پرستش کرتے ہو حالانکہ تم قریش کے سردار ہو۔ آپؓ کی ایسی ہی باتوں نے ابوسفیان کی نفرتوں میں دراڑیں ڈال دیں اور فتح مکّہ کے موقع پر وہ ایمان لے آیا۔ محسنِ انسانیت نے یہ کہہ کر اُس کو عزّت بخشی کہ جو ابوسفیان کے گھر داخل ہوجائے گا اُس کو امان دی جائے گی۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ نے حضور اکرمؐ کو ایک دفعہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو روزانہ بارہ رکعات نفل پڑھے گا اُس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ یہ ارشاد سننے کے بعد آپؓ زندگی بھر پابندی سے یہ نوافل ادا کرتی رہیں۔
ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ حبیبہؓ کے پاس اُن کے بھائی معاویہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا: اُمّ حبیبہ! کیا تمہیں معاویہ پیارا ہے؟ انہوں نے کہا: ’’ہاں، یارسول اللہ‘‘۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے‘‘۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل آپؓ اپنے لئے واجب سمجھتی تھیں۔جب آپؓ کے والد حضرت ابوسفیانؓ کا انتقال ہوا تو تین دن کے بعد آپؓ نے خوشبو منگواکر لگائی اور فرمایا کہ مجھے اس کی بھی پرواہ نہ ہوتی اگر مَیں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے نہ سُن لیا ہوتاکہ ایماندار عورت کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں بجز شوہر کے کہ اس کے سوگ کی مدّت چار مہینہ دس دن ہے۔
علم و فضل میں آپؓ کو کمال حاصل تھا۔ متعدّد احادیث آپؓ سے مروی ہیں۔ خلیفۂ وقت کی اطاعت اور نظام خلافت کے استحکام کے لئے آپؓ کسی قربانی سے دریغ نہ کرتیں۔ چنانچہ جب مخالفین نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپؓؓ پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھانا لے کر خچّر پر سوار ہوکر حضرت عثمان ؓ کے گھر کی طرف چل دیں لیکن بُلوائیوں نے آپؓ کو حضرت عثمانؓ تک پہنچنے نہیں دیا۔
آپؓ کی وفات 44ہجری میں اپنے بھائی امیر معاویہؓ کے دَور اَمارت میں ہوئی۔ وفات سے قبل آپؓ نے حضرت عائشہؓ اور حضرت اُمّ سلمہ کو بلایا اور فرمایا کہ سوکنوں میں باہم جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم لوگوں میں بھی ہوجایا کرتا تھا اس لئے مجھ کو معاف کردو۔