ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اور صبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دَم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دئیے گئے مگر وہ شر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ … ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اُس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے۔
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ۱۰)