الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی روایات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 25؍اکتوبر2013ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب نے تعلیم الاسلام کالج کی بعض معروف روایات اور مشاہدات کو اپنے منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔

تعلیم الاسلام کالج محض ایک کالج نہیں تھا، اپنی ذات میں ایک روایت تھا جس میں دینی تربیت اور دنیاوی تعلیم کے عناصر باہم گندھے ہوئے تھے۔ قادیان میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا افتتاح ہوا تو ہندوستان کے مشہور سائنس دان سرشانتی سروپ بھٹناگر تشریف لائے۔ جماعت احمدیہ نے علماء کو مدعو کرتے وقت کبھی عالم کا مذہب، عقیدہ یا قومیت مدّنظر نہیں رکھی۔ چنانچہ کالج ربوہ منتقل ہوا تو یہاں روس کے ایک سائنس دان بھی تشریف لائے جنہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ مجھے اس ادارے کے درودیوار سے علم دوستی کی خوشبو آرہی ہے۔ نیزپاکستان کے چوٹی کے علماء کے علاوہ یورپ و امریکہ کے سائنس دان اور مستشرقین بھی وہاں آتے رہے۔

دراصل اس ادارے کی پہلی روایت علم کی قدردانی تھی۔ چنانچہ نوّے فیصد طلبہ کسی نہ کسی طور سے کالج کے مالی طور پر احسان مند تھے۔ کسی کی پوری فیس معاف تھی کسی کی جزوی۔ وظائف بھی دیے جاتے۔ کسی کو ہاسٹل کا کھانا مفت ملتا۔ کسی رعایت کے لیے کسی کا عقیدہ نہیں پوچھا جاتا تھا۔

بعض اساتذہ طلبہ پر اس درجہ مہربان تھے کہ فراخ دلی سے جرمانے کرتے رہتے اور پرنسپل صاحب اس سے بھی زیادہ فراخ دلی سے جرمانے معاف کردیتے۔ حتّٰی کہ مکرم محبوب عالم خالد صاحب نے پرنسپل صاحب سے شکوہ کیا کہ وہ جرمانے معاف کردیتے ہیں۔ جواب ملا کہ اگر اللہ میاں نے میرے دل میں طلبہ کے لیے رحم ڈالا ہے تو مَیں ایسا کیوں نہ کروں؟ چنانچہ پرنسپل صاحب کی فراخ دلی دیکھ کر ایک طالب علم نے درخواست گزاری کہ ’’مَیں صبح اٹھنے کا عادی نہیں ہوں اس لیے مجھے صبح کی نماز کی حاضری معاف کردی جائے۔‘‘ ناراض ہونے کی بجائے اس درخواست پر پرنسپل صاحب نے لکھا: ’’مَیں اللہ رسول کے حکم کی معافی دینے والا کون ہوتا ہوں؟ آئندہ سے احتیاط کروں گا کہ آپ کی نماز سے غیرحاضری کے جرمانے معاف نہ کروں۔‘‘

کالج ایسے طلبہ کو تلاش کرکے داخلہ دیتا تھا جو مالی تنگی کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے کے قابل نہ ہوتے۔ کالج میں صرف نمبر پوچھے جاتے تھے، عقیدہ نہیں پوچھا جاتا تھا۔

کالج کی ایک روایت یہ تھی کہ ہر استاد استاد تھا اور ہر طالب علم طالب علم۔یعنی ایسا نہیں تھا کہ جس نے آپ کو پڑھایا ہے صرف وہی آپ کا استاد ہو۔ 1955ء میں مَیں بزم اردو کا سیکرٹری تھا جب پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے مجھے بلاکر فرمایا کہ مَیں کچھ دنوں کے لیے کراچی جارہا ہوں، میری غیرحاضری میں میرے گورنمنٹ کالج کے زمانے کے ایک استاد کالج آرہے ہیں، اُن کا خاص خیال رکھنا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مہمان استاد تو سائنس کے مضامین کے تھے۔ لیکن یہ حیرت چند دن بعد دُور ہوگئی جب پرنسپل صاحب ایک طالبعلم کو یوں سرزنش فرما رہے تھے کہ تمہارا یہ کہنا کہ تم فلاں مضمون نہیں پڑھتے اس لیے فلاں استاد تمہارا استاد نہیں، بالکل غلط بات ہے۔ جو بھی کالج کے سٹاف پر ہے وہ تمہارا استاد ہے اور لائق احترام۔ جاکر اُن سے معافی مانگو۔

یہی روایت تھی کہ جب استاذی المحترم چودھری محمدعلی صاحب کینیڈا تشریف لائے تو وینکوور سے ہمارے کالج کا باسکٹ بال کا ایک عیسائی کھلاڑی والیسؔ خاص طور پر اپنے بیٹے کو اُن سے ملوانے کے لیے اپنے ہمراہ لے کر ٹورانٹو آیا۔ اسی طرح نامور کھلاڑی خالد تاج (احمدی نہ ہونے کے باوجود) اُن کے گرد یوں رہا جیسے کوئی اپنے محبوب کے گرد گھومتا ہے۔

ایک بار اسسٹنٹ کمشنر نے چنیوٹ سے پرنسپل (مکرم میاں عطاءالرحمٰن صاحب)کو اطلاع دی کہ چنیوٹ کالج کے طلبہ نے ہڑتال کردی ہے اور وہ ربوہ کی طرف جارہے ہیں تاکہ وہاں کا کالج بھی بند کروادیں، اگر آپ کو پولیس کی مدد چاہیے تو بھجوائی جاسکتی ہے۔ پرنسپل صاحب نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم خود انتظام کرلیں گے، پولیس کی ضرورت نہیں۔ پھر مجھے بلایا۔ مَیں فرسٹ ایئر کے سارے طلبہ کا اکٹھا پیریڈ لیا کرتا تھا جو ہال میں ہوتا تھا۔ میاں صاحب نے کہا کہ سیکنڈایئر کے طلبہ بھی ساتھ شامل کرلیں اور اپنا پیریڈ جاری رکھیں۔ چنانچہ ہال میں سات سو طلبہ اکٹھے ہوگئے۔ ہم نے درسی کتاب ایک طرف رکھی اور طلبہ کو خوبصورت اشعار سنانے شروع کیے۔ ہال واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد قبلہ میاں صاحب نے پیغام بھجوایا کہ اب کلاس چھوڑ دیں۔ چنانچہ کسی کو احساس بھی نہ ہوا کہ کوئی غیرمعمولی واقعہ ہوا ہے اور چوتھے پیریڈ سے کالج کا کام معمول کے مطابق چلنے لگا۔ ہمارے کالج کا ماحول ہی ایسا تھا کہ طلبہ کو بھول کر بھی کسی ہڑتال کا خیال نہیں آتا تھا۔

ایک بار مجھے اپنے عزیز دوست جاویدمحمود صاحب سے ملنے اُن کی عدالت میں جانا پڑا۔ وہ چنیوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے اور بعد کو چیف سیکرٹری ہوکر ریٹائر ہوئے۔مَیں اُن کی عدالت میں داخل ہوا تو وہاں کم و بیش دس ایسے وکلاء موجود تھے جو میرے شاگرد رہ چکے تھے۔ ایک کھلبلی سی پڑگئی، وکلاء تعظیماً ایک طرف ہوگئے۔ جاوید محمود چونک کر کھڑے ہوگئے اور عدالت برخاست کرکے مجھے اپنے پرائیویٹ کمرے میں بلالیا۔ کہنے لگے کہ یہ وکلاء آپ کے نیازمند لگتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ ربوہ کالج کے یہ میرے شاگرد ہیں۔

ملک بھر میں ہمارے کالج کی روئنگ اور باسکٹ بال میں پہچان تھی۔ روئنگ کے کھلاڑی تو پرنسپل صاحب کے قریبی کہلاتے تھے جنہیں خوب حلوے اور دودھ سویابین کھلاکر پالا جاتا تھا۔ بعض کھلاڑی تو ڈنڈے کھاکر بھی بےمزا نہیں ہوتے تھے۔کئی سال تک چیمپئن رہنے کا اعزاز رکھتے تھے۔

باسکٹ بال کا کھیل ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب نے شروع کیا اور پنے عروج تک پہنچادیا۔ ربوہ اس کھیل کا مرکز بن گیا اور نیشنل ٹیم سمیت ہر بڑی ٹیم میں ربوہ کالج کے کھلاڑی جانے لگے۔ مجھے بھی ناصر باسکٹ بال کلب کا نگران رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک بار ڈویژن کے کمشنر سیّد قاسم رضوی صاحب کالج میں تشریف لائے اور انہوں نے برسبیل تذکرہ مجھ سے پوچھا کہ ’’ڈاکٹر صاحب! کیا آپ بھی باسکٹ بال کے کھلاڑی رہے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا: ’’جی سر! آؤٹ سٹینڈنگ کھلاڑی۔ وہ جو گراؤنڈ سے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘

ہمارے کالج کی ایک روایت بھرپور غیرنصابی سرگرمیاں بھی تھیں۔ ٹیوشن کا رواج نہیں تھا۔ بےشک مَیں ٹیوشن پڑھاکر ہی ایم اے کرنے کے قابل ہوا تھا مگر کالج کے سٹاف میں آجانے کے بعد کبھی ٹیوشن نہیں پڑھائی، ہاں پڑھائی میں مدد ضرور کی۔ ہمارے کالج کے اساتذہ علم پھیلاتے تھے، بیچتے نہیں تھے۔ اکثر اساتذہ کے پاس وقت بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ کالج سے فارغ ہوکر مختلف جماعتی سرگرمیوں اور ذیلی تنظیموں کے کاموں میں مصروف ہوجاتے۔

………٭………٭………٭………

پاکستان ریلوے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 21؍اکتوبر2013ء میں جناب سہیل احمد لون صاحب کا پاکستان ریلوے کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون روزنامہ ’’دن‘‘ سے منقول ہے۔

جیمزواٹ نے 1804ء میں بھاپ کا انجن ایجاد کیا اور 1812ء میں امریکی انجینئر اولیورایونز نے ایسا انجن متعارف کروایا جو پٹڑیوں پر چلنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن امریکہ میں خانہ جنگی کی وجہ سے یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔

برطانوی صنعتکار ولیم جیمز نے مانچسٹر سے لورپول تک کوئلے سے چلنے والی ریل گاڑی کا منصوبہ پیش کیا لیکن اُس کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔ البتہ ریل کے موجد کا خطاب پانے والے جارج سٹیفن نے یہ منصوبہ پورا کیا اور 15؍ستمبر1830ء کو پہلی ریل گاڑی مانچسٹر سے لیورپول روانہ ہوئی۔ برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے اس منصوبے کو تقویت دی چنانچہ چند ہی سالوں میں برطانیہ کے تمام بڑے شہر ریل کے ذریعے منسلک ہوگئے۔

ہندوستان میں ریلوے متعارف کروانے کا منصوبہ 1832ء میں بنا۔ 1840ء میں حکومت برطانیہ نے اس پر سروے شروع کیا۔ 1844ء میں اس منصوبے کو نفع بخش قرار دیا گیا۔ 1852ء میں بمبئی سے 35کلومیٹر کی پٹڑی تھانہؔ تک بچھائی گئی جس پر پہلی ٹرین چار سو مسافروں کو لے کر 16؍اپریل 1852ء کو بمبئی سے تھانہ روانہ ہوئی۔ اس ٹرین کو بھاپ سے چلنے والے تین انجن چلارہے تھے۔ اس ٹرین کو اکیس توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔بعدازاں تیزی سے کئی منصوبے مکمل کیے گئے اور 1880ء میںبرصغیر میں ریلوے ٹریک کی لمبائی ساڑھے چودہ ہزار میل سے زیادہ تھی جو اُس وقت دنیا کا سب سے بڑا ریلوے نظام تصور کیا جاتا تھا۔

ریلوے ٹریک کو گزارنے کے لیے کئی پُل بھی تعمیر ہوئے جن میں سکھر اور روہڑی کے درمیان تعمیر ہونے والا اُس وقت کا دنیا کا سب سے بڑا پُل بھی شامل تھا۔اس پُل کا افتتاح 25؍مارچ 1889ء کو وائسرائے لارڈ لانس ڈاؤن (Lord Lansdowne)نے کیا۔ اسی طرح کئی سرنگیں بنائی گئیں جن میں اُس وقت دنیا کی لمبی ترین خوجک سرنگ بھی شامل تھی جس کی لمبائی 3.9 کلومیٹر ہے۔ یہ سبی اور کوئٹہ کے درمیان بنائی گئی۔تاہم چمن سے آگے قندھار تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ پورا نہ ہوسکا۔

تقسیم ہند کے وقت آٹھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبی ریلوے لائن اور ایشیا کی سب سے بڑی ریلوے ورکشاپ واقع مغلپورہ لاہورپاکستان کے حصے میں آئی۔ریلوے ٹریک میں اضافے کا عمل جاری رہا۔ نئی پٹڑیوں کے علاوہ رائیونڈ سے خانیوال جانے والی پٹڑی کو الیکٹرک بھی کیا گیا۔ البتہ کئی ہزار میل ریلوے ٹریک ناکارہ بھی ہوگیا اور اس طرح آج بھی پاکستان کے ٹریک کی لمبائی اتنی ہی ہے جتنی تقسیم ہند کے وقت تھی۔ نیز پاکستان ریلوے شدید خسارے کا شکار ہے جبکہ بھارت میں یہ ادارہ منافع بخش ہے۔

برطانیہ میں الیکٹرک ٹرین کا آغاز 1908ء میں ہوا جس نے ٹرین کی رفتار میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ لندن کی زیرزمین (انڈر گراؤنڈ) ریل بھی دنیابھر میں مقبول ہے۔ نیز برطانوی ریل کی ترقی میں زیرسمندر چینل ٹنل کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ 50.5کلومیٹر لمبی یہ سرنگ برطانیہ اور فرانس کے ساحلی شہروں Dover اورCalais کو ملاتی ہے۔ 1994ء میں اس کا افتتاح ملکہ برطانیہ اور فرانسیسی صدر متراں نے مل کر کیا۔ جاپان میں بھی اسی طرز کی 53.85کلومیٹر لمبی Seikam Tunnel بنائی گئی ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button