ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
میں تمہارے پاس صدی کے سر پر اور ضرورت ِ حقّہ کے وقت آیا ہوں۔ اور کسوف و خسو ف ، زلزلوں اور طاعون نے میری سچائی پر گواہی دی۔پس مجھے تعجب ہوتاہے کہ تم نشانات کو دیکھتے ہو اس کے باوجود بد ظنیاں دُور نہیں ہوتیں۔
’’کیا وجہ ہے کہ تم اس بگولے کو دیکھ نہیں پاتے جس نے درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیا ہے۔ وہ ایسی قوم ہیں جو تمہیں مرتد اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور تم سے برائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ وہ اہل زمین پر غالب آچکے ہیں اور انہوں نے انہیں غلاموں اور لونڈیوں کی طرح بنالیا ہے۔ اور قریب ہے کہ وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں۔ اور اللہ کی قسم! تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور تم ان کے نزدیک محض ایک ذرّہ ہو۔ اب بتائو کیا مجھے تم سے ناراض ہونا چاہیے یا نہیں۔ تم اس وقت کیوں سورہے ہو؟ کیا تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ہو جس کے باعث تم مدہوش کی طرح بوجھل بن کر زمین کی طرف جھکے جاتے ہو۔ اورکس چیز نے تمہیں سلادیا ہے اور تم گھاٹے کا ہدف بن گئے ہو۔ اور اے جوانو! تمہارے لئے کون سی طاقت باقی رہ گئی ہے۔ اللہ کی قسم !ہمارے ربّ منّان کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ میں نہیں جانتا کہ تم نے کیا کیا اور آئندہ اسباب سے تم کیا کرلو گے۔ اور تمہاری عقل جو محض ایک مکھی کی طرح ہے،تمہاری کیا مدد کرے گی ۔ اور ان کپڑوں کے ساتھ تم کس زینت کو ظاہر کر رہے ہو۔ اورجب میں تمہارے درمیان کھڑا ہوا اور میں نے کہا کہ میں خدائے کریم کی طرف سے ہوں تو تم غیظ و غضب سے مشتعل ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ شخص مفتری ہے اور مجھے مردود شیطان کی طرح خیال کرنے لگے۔ اور تم نے وقت پر نظر نہ ڈالی کہ کیا یہ وقت ایسے دجال کا تقاضا کرتاہے جو گمراہی پھیلائے یا ایسے مصلح کا جو احیائے دین کرے اور جو زائل ہو چکا ہے وہ اسے دوبارہ تمہارے پاس لوٹائے۔ اورمَیں اللہ کو اس چیز پر گواہ بناتا ہوں جو میرے دل میں ہے۔ اللہ کی قسم! میں اسی کی طرف سے ہوں اور میں نے کوئی کام اپنی فریب کاری سے نہیں کیا۔ اور جب تم نے ارادۃً میری تکفیر اور تحقیر کی تو تم نے ظلم کیا۔ تم نے ان مصائب پر بھی نگاہ نہ کی جو ان دنوں میں اسلام پر ڈھائے گئے۔ سو ہم جاری اشکوں اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ تم پر ویسا ہی روتے ہیں جیسا تم ہم پر ہنستے اور استہزاء کرتے ہو۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خود اپنے نفسوں کے متعلق غور و فکر نہیں کر تے اور نہ اسلام کے ضعف پر نگاہ ڈالتے ہو۔ کیا تمہارا دجّالوں سے جی نہیں بھرا اور اس خوفناک وقت اور مُنذر زمانے میں ایک اور دجّال کی تمنا کرتے ہو۔ حالانکہ میں تمہارے پاس صدی کے سر پر اور ضرورت ِ حقّہ کے وقت آیا ہوں۔ اور کسوف و خسو ف ، زلزلوں اور طاعون نے میری سچائی پر گواہی دی۔پس مجھے تعجب ہوتاہے کہ تم نشانات کو دیکھتے ہو اس کے باوجود بد ظنیاں دور نہیں ہوتیں۔اے عالمو! کیا یہی تمہاری فراست ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ تمہارے اور تمہارے تقویٰ کے درمیان وہ تکبر حائل ہوگیاہے جسے تم چھپاتے اور مخفی رکھتے ہو اور تمہاری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں۔ پس وہ دشمنوں کے فتنوں کو نہیں دیکھتیں۔ اور تم میرا نام دجال رکھتے ہو اور تم بصیرت سے کام نہیں لیتے۔ تم فتویٰ دیتے ہو کہ میں کافر بلکہ ہر اس شخص سے بڑا کافر ہوںجس نے انبیاء کا انکار کیا۔ واہ رے تمہارا یہ فتویٰ! سب سے تعجب خیز امر ہے کہ اہل صلیب اور مشرک جو دین کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں وہ تمہارے نزدیک تو دجّال نہیں اور میں دجّال ہوںبلکہ سب سے بڑا مفسد ہوں۔پس ہم صرف اللہ رب العالمین کی جناب میں فریاد کرتے ہیں۔ اور پھر جب میں تمہارے نزدیک کافر ٹھہرا تو پھر یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ کافروں کی نصیحت تمہیں فائدہ دے۔ لیکن میں نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں دی گئی ایذاکا ذکر کروں لہٰذا ہمارا یہ سلسلۂ کلام ان اذکار کی طرف چل نکلا۔
اللہ تم پر رحم کرے ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ظلم اور زیادتی ترک نہیں کرتے۔ اور نہ ہی تم علیم ، جزاسزا کے مالک خدا سے ڈرتے ہو۔ اے لوگو! ہم اللہ کی جانب سے اس کے مقرر کردہ وقت پر آئے ہیں اور اسی کے بلانے سے ہم بولتے ہیں۔ ہم تمہیں پیغام حق پہنچاتے ہیں لیکن تمہاری طرف سے ہمیں لعنت ملتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا کمینگی ہے کہ تم یہود کے شانہ بشانہ چلے یہاں تک کہ جوتے سے جوتا رگڑ کھانے لگا،اور تمہارے اقوال ان کے اقوال کے مشابہ ہوگئے۔وہ {یہودی } اپنے بخل کی وجہ سے اللہ کے نبی عیسیٰ کا نام دجال رکھتے تھے۔ بعینہٖ اسی طرح تمہاری طرف سے مجھے اسی نام سے موسوم کیا گیا۔ پس اس طرح تم اقوال اور افعال میں ان کے مشابہ ہو گئے۔ اور اگر حکومت کی تلوار نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرف سے وہی کچھ دیکھتا جو عیسٰی نے انکار کرنے والوں کی طرف سے دیکھا۔ اس لئے ہم ازراہِ مداہنت نہیں بلکہ احسان کے شکرانہ کے طور پر اس حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ کی قسم ! ہم نے اس کے زیر سایہ ایسا امن پایا جس کی اِس زمانہ میں کسی اسلامی حکومت سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا ہمارے نزدیک یہ جائز نہیں کہ ان کے خلاف جہاد کے نام پر تلوار اٹھائی جائے۔ اور تمام مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ ان سے جنگ کریں اور بغاوت اور فساد کے لئے کھڑے ہوں کیونکہ انہوں نے ہم پر طرح طرح کے احسان کئے اور احسان کی جزا احسان ہی ہوتا ہے۔ بے شک ان کی حکومت ہمارے لئے امن کا گہوارہ ہے۔ اور اس کی وجہ سے ہی ہم اہل زمانہ کے ظلم سے بچائے گئے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ نہیں چھپاتے کہ ہم پادریوں کے مخالف ہیں بلکہ ہم ان کے اوّل درجہ کے مخالف ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کمزور عاجز بندے کو رب العالمین قرار دیتے ہیں۔ اور انہوںنے آسمانوں اور زمینوں کے خالق کو چھوڑ دیا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ، مفتری ، دجال اور تحریف کرنے والے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ نہیں اور نہ ہی وہ انہیں اس امر پر اکساتی ہے اور نہ ہی وہ معاونین میں سے ہے بلکہ وہ صرف زبانی کلامی عیسائی ہیں جنہوں نے اپنی طرف سے کچھ قوانین تراش لئے ہیں اور انجیل کو اپنے پس ِ پُشت ڈالاہوا ہے۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ عیسائی ہیں۔ بلکہ وہ کوئی اور قوم ہیں اور انہوں نے دوسرے مسلک اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اور وہ انجیلوں کو نہیں پڑھتے اور نہ ان کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی وہ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ہم جھگڑوں کے وقت ان میں عدل اور انصاف پاتے ہیں۔ اور میں نے بعض جھگڑوں (مقدمات) میں خود اُن میں سے بعض کو آزمایا ہے۔ اور میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ مودّت کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ اور وہ ظلم نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ (اس کا) قصد کرتے ہیں۔ اور ان کے زیر سایہ رات اُس دن کی نسبت زیادہ بہترہے جو ہم نے مشرکوں کے زیر سایہ پایا۔اس لئے ہم پر ان کا شکریہ واجب ہے اور اگر ہم شکر ادا نہ کریں تو ہم گناہ گار ہوں گے۔ ‘‘
(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ 135تا141۔ شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ)