الفضل ڈائجسٹ

الفضلڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا

رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت میمونہؓ کے اوصاف کا مختصر ذکر مکرمہ آصفہ احمد صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت میمونہؓ کااصل نام برّہ تھا۔آپؓ حارث بن حزن اور ہند کی بیٹی تھیں۔ قبیلہ قریش کے اہل نجد سے تعلق تھا جو مسلمانوں کے بہت بڑے دشمن تھے اور انہوں نے ہی مسلمانوں کے ستّر حفّاظ قرآن دھوکہ سے شہید کردیئے تھے۔ برّہ کا پہلا نکاح مسعود بن عمر سے ہوا۔ ان سے طلاق ہوجانے کے بعد دوسرا نکاح ابورہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا۔ 7ہجری میں اُن کی وفات ہوگئی اور اسی سال جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکّہ کے لئے روانہ ہونے لگے تو آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ نے آپؐ سے درخواست کی کہ اُن کی سالی حضرت میمونہؓ سے نکاح فرمالیں۔ آپؐ رضامند ہوگئے اور پھر احرام کی حالت میں ہی شوال 7ہجری میں پانچ سو درہم حق مہر پر یہ نکاح ہوا۔ اس وقت حضرت میمونہؓ کی عمر 36 سال تھی۔ حضرت عباسؓ اس نکاح کے متولّی بنے۔ آپؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زوجہ مطہرہ تھیں۔

عمرہ سے فارغ ہوکر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ سے دس میل کے فاصلہ پر سرف کے مقام پر قیام فرمایا۔ حضورؐ کے غلام ابورافعؓ حضرت میمونہؓ کو ساتھ لے کر اسی جگہ آگئے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی۔ جس کے بعد آپؓ کا نام میمونہ رکھا گیا۔

حضرت میمونہ بہت خداترس خاتون تھیں۔ اپنے مہربان خاوند کی خوشیوں پر بہت خوش ہوتیں۔ حضورؐ کی دل و جان سے اطاعت گزار تھیں۔ آپؓ کو حضورؐ کی معیت میں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔آپؓ کے بارہ میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا: وہ ہم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی اور ہم سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی تھی۔

حضرت میمونہؓ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ آپؓ سے 76 احادیث مروی ہیں جن میں بعض سے آپؓ کی فقہ دانی کا پتہ چلتا ہے۔ ایک بار کسی بیمار عورت نے منّت مانی کہ شفا ہوجائے تو وہ بیت المقدس جاکر نماز ادا کرے گی۔جب صحتیاب ہوکر وہ رخصت ہونے سے قبل حضرت سیّدہ سے ملنے آئی تو آپؓ نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری تمام مساجد سے زیادہ ہے اس لئے تم یہیں رہو اور یہیں نماز پڑھ لو۔

آپؓ کو غلام آزاد کرنے کا بہت شوق تھا۔ غرباء کی مدد کے لئے بھی ہر وقت آمادہ رہتیں۔ اس کے لئے قرض بھی اٹھالیتیں۔ ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ کس طرح ادا کریں گی۔ نہایت توکّل سے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی مسلمان جب قرض لیتا ہے تو اُسے اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ اسے ادا کردے گا۔

حضرت میمونہؓ کی وفات قریباً 80 سال کی عمر میں ہوئی۔ وفات سے قبل انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپؓ کو مکّہ کے باہر اُسی جگہ دفن کیا جائے جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خیمہ نصب تھا جس میں پہلی بار آپؓ کو رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور قبر میں اُتارا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں حضرت فاطمۃالزّھرا رضی اللہ عنہا


رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت سیّدہ فاطمۃالزھرا رضی اللہ عنہا کی سیرت و سوانح کا بیان مکرمہ عذرا عباسی صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس برس تھی جب حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی پیدائش ہوئی۔

حضرت فاطمہؓ بچپن میں بھی نہایت متین اور تنہائی پسند تھیں۔ نمودونمائش سے نفرت تھی اور والدین سے ایسے سوالات پوچھتیں جن سے ان کی ذہانت کا اظہار ہوتا تھا۔

آپؓ کی عمر پانچ سال تھی جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ آپؓ کی حسّاس طبیعت پر قریش کے مسلمانوں پر مظالم اور آنحضورؐ کے خدا پر توکّل اور نصرتِ الٰہی نے نہایت گہرے اثرات مرتّب کئے۔ آپؓ بچی ہی تھیں جب ایک بدبخت عقبہ بن محیط نے اونٹ کی اوجھڑی اُس وقت نبی کریمؐ کی پیٹھ پر لارکھی جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز اداکرتے ہوئے سجد ہ کی حالت میں تھے۔ حضورؐ اس بوجھ کی وجہ سے اُٹھ نہ سکتے تھے۔ تب آپؓ کو اطلاع ہوئی اور آپؓ نے آکر باپ کی پشت سے وزنی اوجھ کو گرایا اور عقبہ کے لئے بددعا کی۔

ایک بار کسی گستاخ مشرک نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر گندگی اور مٹی پھینک دی۔ جب آپؐ گھر پہنچے تو حضرت فاطمہؓ بہت غمگین ہوئیں۔ آپؓ حضورؐ کا سرمبارک دھوتے ہوئے روتی جاتی تھیں اور آنحضورؐ فرماتے تھے کہ بیٹی! مت رو، اللہ تیرے باپ کو محفوظ رکھے گا اور اپنے دین اور رسالت کے دشمنوں کے خلاف مدد فرمائے گا۔

جب قریش نے بنوہاشم سے قطع تعلق کرلیا تو حضرت فاطمہؓ بھی تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہیں اور انتہائی مصیبت برداشت کی۔ 10 نبوی میں حضرت ابوطالبؓ کی وفات کے چند روز بعد حضرت خدیجہؓ بھی رحلت فرماگئیں۔ شفقتِ مادری سے محرومی کے بعد آنحضورؐ خاص طور پر آپؓ کی ڈھارس بندھاتے۔

ہجرت مدینہ کے بعد جبکہ آپؓ کی عمر اٹھارہ سال کے قریب تھی تو شادی کے پیغامات آنے شروع ہوئے۔ پہلے حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ نے شادی کے لئے درخواست کی لیکن آنحضورؐ خاموش رہے۔ دونوں نے یہ سمجھ کر کہ آپؐ کا ارادہ حضرت علیؓ کے متعلق معلوم ہوتا ہے، حضرت علیؓ کو تحریک کی۔ وہ پہلے ہی خواہشمند تھے مگر

بوجہ حیا اور تنگدستی خاموش تھے۔ جب انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوکر درخواست کی تو دوسری طرف خداتعالیٰ کی طرف سے بھی اِذن ہوچکا تھا۔ چنانچہ آنحضورؐ نے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا۔ وہ بوجہ حیا خاموش رہیں۔ یہ ایک طرح سے اظہارِ رضا تھا۔ چنانچہ آنحضورؐ نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کو جمع کرکے حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت فاطمہؓ کا نکاح پڑھ دیا۔ یہ 2ہجری کے ابتدائی مہینے تھے۔ پھر جنگ بدر کے بعد رخصتی کی تجویز ہوئی تو آنحضورؐ نے حضرت علیؓ کو بلاکر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کیلئے کچھ ہے یا نہیں؟ انہوں نے عرض کیا: میرے پاس تو کچھ نہیں۔ فرمایا: وہ زرہ کیا ہوئی جو بدر کے مغانم میں سے تمہیں دی تھی۔ عرض کیا: وہ تو ہے۔ فرمایا: بس وہی لے آؤ۔ چنانچہ یہ زرہ 480 درہم میں حضرت عثمانؓ نے خرید لی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رقم سے شادی کے اخراجات کئے اور حضرت فاطمہؓ کو جو جہیز دیا وہ ایک بیلدار چادر، ایک چمڑے کا گدیلا (جس میں کھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے)، ایک مشکیزہ اور غالباً ایک چکّی بھی شامل تھی۔

شادی تک حضرت علیؓ مسجد کے ایک حجرہ میں رہتے تھے۔ شادی کے بعد آنحضورؐ کے ارشاد پر ایک عارضی مکان کا انتظام کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رخصتانہ کے بعد اُن کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگواکر اس پر دعا کی۔ پھر وہ پانی دونوں پر دعا کرتے ہوئے چھڑکا۔

دوسرے دن ولیمہ ہوا جس کے لئے حضرت سعدؓ بن وقاص نے ایک بھیڑ ہدیۃً دی۔ حضرت علیؓ نے مہر میں سے بچ جانے والی رقم سے کچھ نان، کھجوریں اور پنیر خریدا۔

حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں حضرت علیؓ نے دوسری شادی نہیں کی۔

حضرت علیؓ کے پاس کوئی سرمایہ یا جائیداد نہ تھی۔ مزدوری پر معاش کا دارومدار تھا۔ بارہا فاقوں تک نوبت پہنچتی۔ ایسے میں حضرت فاطمہؓ نے انتہائی صبر وشکر اور قناعت کے ساتھ زندگی بسر کی۔ چکّی پیستے ہوئے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے، صفائی کرتے اور چولہے کے پاس بیٹھ کر کپڑے سیاہ ہوجاتے۔ ایک بار آپؓ نے آنحضورؐ سے گھر کے کام کاج کے لئے لونڈی مانگی اور اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھائے تو آپؐ نے فرمایا: جانِ پدر! بدر کے یتیم تم سے پہلے اس کے مستحق ہیں۔

غربت کے باوجود حضرت فاطمہؓ میں ایثار و سخاوت کا جذبہ بہت تھا۔ حضرت حسنؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک وقت کے فاقہ کے بعد ہم کو کھانا میسّر آیا۔ جب آخر میں حضرت فاطمہؓ کھانے بیٹھیں تو ایک سائل کی آواز آئی کہ مَیں دو وقت فاقے سے ہوں، مجھے کھانے کو دو۔ اس پر آپؓ نے یہ کہتے ہوئے اپنا کھانا اُس کو بھجوادیا کہ ہم نے تو ایک وقت کھانا نہیں کھایا جبکہ وہ دو وقت فاقہ سے ہے۔

ایک دفعہ قبیلہ بنوسلیم کا ایک بوڑھا اعرابی مسلمان ہوا۔ اُس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بنی سلیم کے تین ہزار آدمیوں میں سے سب سے زیادہ غریب مَیں ہوں۔ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کون تم میں سے اس مسکین کی مدد کرے گا۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ نے اُسے ایک اونٹنی دی۔ آنحضورؐ نے فرمایا: کون اس کا سر ڈھانکے گا؟ حضرت علیؓ نے اپنا عمامہ اتار کر اُس کے سر پر رکھ دیا۔ پھر فرمایا: کون ہے جو اس کی خوراک کا انتظام کرے؟ حضرت سلمان فارسی نے اعرابی کو ہمراہ لیا اور اُس کی خوراک کا انتظام کرنے نکلے۔ چند گھروں سے دریافت کیا مگر وہاں سے کچھ نہ ملا تو حضرت فاطمہؓ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور صورتحال بیان کی تو انہوں نے فرمایا: خدا کی قسم! ہم سب کو تیسرا فاقہ ہے، دونوں بچے بھوکے سوئے ہوئے ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دوںگی۔ یہ میری چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاؤ اور کہو کہ فاطمہ بنت محمدؐ کی یہ چادر رکھ لو اور اِس غریب انسان کو تھوڑی سی جنس دے دو۔ حضرت سلمانؓ اعرابی کو ساتھ لے کر یہودی کے پاس پہنچے اور اُس سے تمام کیفیت بیان کی۔ وہ بے اختیار پکار اُٹھا: خدا کی قسم! یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی۔ اے سلمان! گواہ رہنا کہ مَیں فاطمہؓ کے باپ پر ایمان لایا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو پہلے مسجد میں جاکر دو نفل ادا کئے اور پھر حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ آپؐ کے استقبال کے لئے گھر کے دروازہ پر آگئیں اور آپؐ کا چہرۂ مبارک چومنا شروع کردیا اور رونے لگیں۔ آپؐ نے پوچھا: روتی کیوں ہو؟ عرض کیا: مشقّت سے آپ کے چہرۂ مبارک کا متغیّر رنگ اور پھٹے کپڑے دیکھ کر رونا آگیا۔ آپؐ نے فرمایا: اے فاطمہ! گریہ و زاری نہ کر۔ تیرے باپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے کام کے لئے بھیجا ہے کہ رُوئے زمین پر کوئی اینٹ گارے کا مکان اور نہ کوئی اُونی سوتی خیمہ بچے گا، جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ کام (دین اسلام) نہ پہنچاوے اور یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ حضرت فاطمہؓ سادگی سے ایک مثالی زندگی گزاریں۔ ایک غزوہ سے آنحضورؐ کی واپسی ہوئی اور حسب معمول سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ گھر میں ایک رنگین پردہ لگا ہوا ہے اور حضرت فاطمہؓ کے ہاتھ میں چاندی کے کنگن پہنے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر آنحضورؐ فوراً واپس تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ کو آپؐ کے اس طرح چلے جانے پر بہت رنج ہوا اور رونے لگیں۔ فوراً وہ پردہ اور کنگن آپؐ کی خدمت میں بطور صدقہ بھجوادیا اور آنحضورؐ نے ان چیزوں کو فروخت کرکے ان کی قیمت اصحاب الصفّہ پر صَرف کردی۔

حضرت فاطمہؓ جب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپؐ ازراہ محبت کھڑے ہوجاتے، شفقت سے اُن کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ بٹھاتے اور جب آپؐ اُن کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہوکر آپؐ کا سر مبارک چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ آنحضورؐ کو آپؓ کی اولاد سے بھی قلبی لگاؤ تھا۔ ایک بار حضرت اُسامہؓ نے دروازہ پر دستک دی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز چادر میں لپیٹے باہر تشریف لائے۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیا لپیٹے ہوئے ہیں؟ آپؐ نے کپڑا اُٹھایا تو اس میں حسنؓ اور حسینؓ ظاہر ہوئے جو آپؐ کی گود میں چڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے، میری بیٹی کے لخت جگر ہیں۔ اے اللہ! مَیں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تُو بھی اِن دونوں سے اور ہر اُس شخص سے جو اِن سے محبت کرتا ہے محبت کر۔

حضرت فاطمہؓ کی فضیلت کے بارہ میں کئی احادیث مروی ہیں۔ ان کے بارہ میں آنحضورؐ نے فرشتے کے ذریعہ اطلاع پاکر ’’سَیِّدَۃُنِّسَاء الْجَنّۃ‘‘ کی خوشخبری دی تھی۔

آپؓ کی گفتگو اور نشست و برخواست کا طریق بالکل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا۔

حضرت عائشہؓ اگرچہ حضرت فاطمہؓ سے چھوٹی تھیں لیکن جب اُن کا نکاح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا تو حضرت فاطمہؓ اُن سے اِس طرح محبت کرنے لگیں جیسے حقیقی ماں سے کی جاتی ہے اور حضرت عائشہؓ بھی آپؓ کے اخلاق سے اس قدر مسرور ہوئیں کہ آپؓ کو ایک بیٹی سے زیادہ عزیز رکھتیں۔ اسی طرح حضرت حفصہؓ آپؓ کی ہم عمر اور سہیلی تھیں۔ جب اُن کا نکاح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا تو آپؓ نے قدیم بے تکلّفی ترک کردی اور اُن کا اس طرح احترام کرنے لگیں گویا وہ اُن کی ماں ہیں۔

حضرت فاطمہؓ کے بارہ میں حضرت عائشہؓ فرماتی

ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا فاطمہ سے زیادہ سچا اور صاف گو کسی کو نہ دیکھا‘‘۔

حضرت فاطمہؓ شرم و حیا کا پیکر تھیں۔ پردے کی نہایت پابند تھیں۔ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے پوچھا کہ عورت کی سب سے اچھی صفت کونسی ہے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ نہ وہ کسی غیرمرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیرمرد اُس کو دیکھے۔

حضرت فاطمہؓ کو عبادت سے بے انتہا شغف تھا۔ ہروقت خوفِ الٰہی سے لرزاں و ترساں رہتیں۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ہر وقت زبان پر اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا۔ حضرت سلمان فارسیؓ کا بیان ہے کہ آپؓ گھر کا کام کاج کرتے ہوئے قرآن کریم پڑھتی رہتیں۔

جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت فاطمہؓ کی عمر 29 سال تھی۔ جب آپؐ علیل تھے تو ایک دن حضرت فاطمہؓ خبرگیری کے لئے تشریف لائیں۔

رسول کریمؐ نے نہایت شفقت سے آپؓ کو اپنے پاس بٹھایا اور کان میں کوئی بات کی تو وہ رو پڑیں۔ پھر دوبارہ کچھ آپؓ کے کان میں فرمایا تو آپؓ ہنسیں۔ حضرت عائشہؓ نے آپؓ سے اس طرح رونے اور پھر ہنسنے کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے فرمایا کہ پہلے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ میری موت قریب ہے، مَیں روئی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے میرے اہلِ بَیت میں سے میرا ساتھ دو گی۔ تب مَیں ہنسی۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس بات پر ہنسیں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریم بنت عمران کے بعد تم اہلِ جنّت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔

ایک روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید تکلیف کو دیکھ کر حضرت فاطمہؓ سینۂ مبارک سے لپٹ کر رونے لگیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ بیٹی رو نہیں، مَیں دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنا، یہی ہرفرد کے لئے ذریعۂ تسکین ہے۔ حضرت فاطمہؓ نے پوچھا: ’آپ کے لئے بھی؟‘ فرمایا: ہاں، اسی میں میری تسکین مضمر ہے۔

وفات سے پہلے جب آنحضورؐ پر غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہؓ بولیں: ہائے میرے باپ کی بے چینی!۔ آپؐ نے فرمایا: تمہارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد 3 رمضان 11ہجری کو حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی۔ آپؓ کی عمر قریباً تیس برس تھی۔ وفات سے قبل آپؓ نے حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو بلاکر فرمایا کہ میرا جنازہ لے جاتے

وقت پردہ کا پورا خیال رکھنا۔ سوائے اپنے اور میرے شوہر کے کسی سے مدد نہ لینا۔ حضرت اسماء نے آپؓ کی ہدایت کے مطابق جنازہ پر کھجور کی شاخوں کا گہوارہ سا بنایا اور اوپر چادر ڈالی اور پھر جنازہ کو حضرت علیؓ باہر لائے۔

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ آپ خلیفۃالرسول ہیں، مَیں آپ سے پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو جنّت البقیع میں دفن کیا گیا۔ آپؓ کے بطن سے پانچ بچے پیدا ہوئے جن میں تین بیٹے حسنؓ، حسینؓ اور محسن تھے۔ اور دو بیٹیاں اُمّ کلثومؓ اور حضرت زینبؓ تھیں۔

حضرت فاطمہؓ سے 18 احادیث مروی ہیں۔


محترم ملک انصارالحق صاحب شہید


رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں مکرمہ ربیعہ ملک صاحبہ کے قلم سے اُن کے تایا اور سُسر مکرم ملک انصارالحق صاحب شہید کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ شہید مرحوم کے والد محترم ملک انوارالحق صاحب کو اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے اور پھر لاہور میں اپنی مقامی جماعت میں بطور صدر جماعت خدمت کی توفیق ملی۔
محترم ملک انصارالحق صاحب شہید کو اپنے بھائیوں کے بیرون مُلک آجانے کے بعد اپنے والدین کی خاص خدمت کی توفیق ملی اور اس مقصد کے لئے نہ صرف بیرونِ مُلک جانے کا ارادہ ترک کردیا بلکہ دُور کے شہروں میں اچھی ملازمت کی پیشکش بھی قبول نہ کی۔ آپ یتیموں کا بہت خیال رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ اپنے پوتے کے عقیقہ کا گوشت ایک غریب علاقہ میں جاکر تقسیم کیا۔ کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہ لَوٹاتے۔ نماز کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے اور نماز جمعہ کبھی نہ چھوڑتے۔ 28مئی 2010ء کو بھی مسجد دارالذکر لاہور میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے تھے اور شہادت کا عظیم مقام پایا

جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ جولائی 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک طویل نظم بعنوان ’’شکر کا سجدہ‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

اک نعمتِ انمول و گراں ، شکر کا سجدہ

ہے عجز کا بھرپور نشاں ، شکر کا سجدہ

بارانِ کرم اس کے سبب سے ہے برستا

ہر فضل کی تہہ میں ہے نہاں ، شکر کا سجدہ

خود اپنی ذہانت پہ بہت لوگ ہیں نازاں

ہر شخص کی قسمت میں کہاں ، شکر کا سجدہ

نعمت کو بڑھاتی ہے سدا شکر کی توفیق

اس نہر کو کرتا ہے رواں ، شکر کا سجدہ

آفت ہے وہ نعمت جو کرے دُور خدا سے

بے کار وہ سر جس پہ گراں ، شکر کا سجدہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 دسمبر 2011ء میں سانحہ لاہور کے حوالہ سے کہا گیا مکرم ڈاکٹر فضل الرحمن بشیر صاحب کا کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

زندگی بھر کی اذیت سے کڑا تھا وہ دن

جب مری روح کا ہر زخم چھلک اُٹھا تھا

دکھ تو پہلے بھی بہت جھیلے تھے ، اس روز مگر

شعلۂ غم تھا کہ رگ رگ میں بھڑک اُٹھا تھا

وہ جو معصوم نہتے بھی تھے۔ محصور بھی تھے

لبِ محراب جو تڑپا تو تڑپتا ہی رہا

آگ اگلتی رہی بندوق ، اُگلتی ہی رہی

خون زخموں سے جو بہتا تھا وہ بہتا ہی رہا

یوں رگِ جان سے چھلکا در و دیوار پہ خوں

کسی پوشاک پہ چھینٹے ، کسی دستار پہ خوں

عہدِ جمہور پہ اک حرفِ ملامت ٹھہرا

کسی پیشانی سے بہتا لب و رخسار پہ خوں

کبر شاہوں کا اُٹھائے ہوئے سر ڈولتا ہے

جب کوئی خاک میں آنکھوںکے گہر رولتا ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button