آنحضرتﷺ کی اپنے صحابہؓ سے محبت و شفقت
سیرتِ نبوی کا ہر پہلو اپنے اندر بے انتہا رعنائی اور دلکشی رکھتا ہے اور جس پہلو سے بھی دیکھا جائے ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد ﷺ اپنے اُسوۂ حسنہ کے اعتبار سے یکتا اور بے مثال ہیں۔ اس مضمون میں مجھے جس پہلو سے کچھ عرض کرنا ہے وہ آپؐ کی اپنے صحابہ کرام سے محبت و شفقت ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ، خاتم الا نبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی سیرت کو یہ امتیازی مقام حا صل ہے کہ خود خالقِ کائنات نے اس مقدس وجود کی ارفع شان اپنے مقدس کلام میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ خدائے ذوالعرش یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا محبوب رسول محمد مصطفےٰ ﷺ مکار م اخلاق کی بلند ترین چوٹیوں پر فائز ہے۔ عظیم الشان خُلق محمدی ﷺ ہر اعتبار سے ہمہ گیر اور بے مثال جامعیت کا شاہکار ہے۔ اپنے صحابہ سے شفقت اور محبت کے بارےمیں خاص طور پر دو آیاتِ کریمہ قابل توجہ ہیں۔ ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہفَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَلَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ(آل عمران: 160)کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ نے حبیبِ خدا کو مجسم رحمت بنایا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ لوگ ہر گز تیرے گرد پروانہ صفت اکٹھے نہ ہوتے۔ایک دوسری آیت میں فرمایا: لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (توبہ:128) اے مومنو! تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے۔تمہارا تکلیف میں پڑنا اُس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لیے خیر کا بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور بہت ہی کرم کرنے والا ہے۔
خدائے بزرگ و برتر کی اِس مقدس گواہی کے ایمان افروز نظارے رسول کریم ﷺکی ہی حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ وہ بابرکت وجود جو رحمۃللعا لمین تھا، سب جہانوں کے لیے اور مخلوقات کے لیے مجسم رحمت تھا، اپنے نام لیواؤں اور جاںنثار صحابہ کے لیے تو اس کی شفقت و محبت کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ رسول اکرم ﷺ کی محبت و شفقت کا ابرکرم ہر آن، ہر جگہ اور ہر ایک پر کچھ اس طرح برستا رہا کہ ہر ایک کا دامن پوری طرح بھر گیااور کوئی ایک بھی تو ایسا نہ رہا جو اس فیضان سے محروم رہا ہو۔ بچے بھی فیضیاب ہوئے اور بڑے بھی۔عورتوں نے بھی حصہ پایا اور مردوں نے بھی۔ آزاد بھی اس محبت کے مورد بنے اور غلام بھی۔ غریب بھی اس شفقت سے مالامال ہوئے اور امیر بھی۔ دن کو بھی شفقت و محبت کا سلسلہ جاری رہا اور رات کو بھی۔ غربت میں بھی اُن کا محسن آقا اُن پر مائل بہ کرم رہا اور فراخی میں بھی۔ الغرض صحابہ کرامؓ کے ہر طبقہ پر رسول پاک ﷺ کی محبت و شفقت ہر آن ایک مو سلادھار بارش کی طرح برستی رہی۔ خوشا نصیب اُن مقدس وجودوں کے جو رحمتِ دو عالم ﷺ کی شفقت کے مورد بنے اور زہے نصیب اُن وفا شِعاروں کے جو ہر آن محبت کی اِس لازوال شمع کا پروانہ صفت طواف کرتے رہے۔
رسولِ خدا ﷺ کے روحانی فرزند ِجلیل، سید نا حضرت مسیح موعودؑ اسی لازوال محبت ِرسول کی پیداوار اور اُسی کا ایک شیریں ثمر ہیں۔ اس عاشقِ صادق نے اپنے آقا و مولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و شفقت کا کیا دلربا نقشہ کھینچا ہے۔ فرمایا
؎آں ترحم ہاکہ خلق از وے بدید
کس ندیدہ در جہاں از مادرے
کہ رحمت وشفقت کا جو سلوک ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے مخلوق سے کیا وہ اتنا عظیم اور اتنا شاندار ہے کہ دنیا میں کبھی کسی ماں نے بھی ویسی محبت و شفقت اپنے بچوں کو عطا نہ کی ہوگی!
آپ نے یہ شعر بار ہا سنا ہوگا اور شاید کسی دل میں یہ خیال گزرے کہ کیا واقعی کوئی انسان ماں سے بھی بڑھ کر شفیق ہو سکتا ہے؟ ماں جو محبت کی دنیا میں ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے کیا کوئی ایسا وجود بھی ہو سکتا ہے جو اس سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہو؟ ہاں! ہاں! یقیناً ایسا ممکن ہے اور ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے مبارک وجود میں اُس کی روشن ترین مثال نظر آتی ہے۔
حضرت زید بہت چھوٹی عمر میں رسول پاک ﷺ کے پاس آئے۔ غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل کیا۔آئے تو غلام تھے، سرورکائناتؐ نے آپ کو آزاد کر کے اپنا مُنہ بولا بیٹا بنا لیا۔ آپ کے محبت بھرے سلوک اور بے پناہ شفقت کی وجہ سے واقعی وہ اپنے حقیقی ماں باپ کے پیار کو بھول گئے۔ جب حضرت زیدؓ کے والدین اور رشتہ دار اُن کو لینے آئے تو رسول پاکؐ نے بڑی خوشی سے جانے کی اجازت دےدی لیکن حضرت زید نے جانے سے انکار کر دیا۔ والدین کے اصرار کے باوجود ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوئے۔ حبیبِ خدا کی محبت و شفقت کے سلوک نے آپ کو ایسا گرویدہ کر لیا کہ آپ ﷺ کی صحبت میں رہنے کو والدین کے پیار پر فوقیت دےدی۔
ایک دفعہ ایک عورت اپنا بیمار بچہ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ بچہ کی بیماری اتنی شدید اور اتنی لمبی ہو چکی تھی کہ ماں نے بہت دل برداشتہ ہو کر کہا کہ حضور اب مجھ سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ دعا کریں کہ یہ مر جائے اور اس کی تکلیف اور میرا امتحان ختم ہو۔ ہمارے پیارے آقا کی محبت و شفقت کا عالم دیکھیے۔ آپ نے فرمایا؛ کیا میں یہ دعا نہ کروں کہ تیرا بچہ تندرست ہو جائے پھر جوان ہو کر جہاد میں شریک ہو اور شہادت کا درجہ پالے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ بچہ تندرست ہوا۔ بڑا ہو کر مخلص مسلمان بنا اور میدان جنگ میں شہادت پائی۔واقعی آپ کی محبت ہر ماں کی محبت سے بہت بڑھ کر تھی۔ ماں اپنی انتہائی محبت کے باوجود، بیماری سے تنگ آکر یہ کہتی ہے کہ بچہ مر جائے مگر ماں سے زیادہ شفیق، ہمارے آقا و مولیٰ نے فرمایا نہیں میں دعا کرتا ہوں،بچہ زندہ رہےگا اور شہادت پا کر ابدی زندگی کا وارث ہو گا۔
صحابہ کرامؓ سے محبت و شفقت کے ضمن میں بچوں سے حسن سلوک کا تذکرہ چل نکلا ہے تو اسی ضمن میں چند اور واقعات عرض کرتا ہوں۔
حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ خد ا ﷺ سے زیادہ بچوں سے محبت و شفقت کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا۔ آپ کا طریق مبارک یہ تھا کہ بچوں کے پاس سے گزرتے تو خود اُن کو سلام کرتے۔ ان کے سروں پر پیار سے ہاتھ رکھتے، ان کو محبت سے گود میں اُٹھالیتے، جب کوئی پھل آتا تو سب سے پہلے اس بچہ کو دیتے جو عمر میں سب سے چھوٹا ہوتا۔ اِسی محبت کا کرشمہ تھا کہ بچے رسولِ اکرم ﷺ کی طرف اِس طرح کھنچے چلے آتے تھے جس طرح لوہے کے ذرے مقناطیس سے چمٹ جاتے ہیں۔روایات میں آتا ہے کہ بچوں کا یہ شفیق آقا، دین و دنیا کا بادشاہ، جب گلیوں میں پیدل چلتا یا کہیں سفر پر جانے لگتا یا سفر سے واپس آتا تو مٹی میں کھیلتے ہوئے بچے وفورِمحبت سے آپ کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے۔پیارے آقا کی انگلی تھام کر بچے بڑی بے تکلفی سے ساتھ چلتے۔ حضورؐ ایک ایک سے محبت بھری گفتگو فرماتے اور سب کو دُعاؤں سے مالا مال کر کے رخصت فرماتے۔حضرت علیؓ جنہیں بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعزاز حاصل ہے اِس محبت و الفت کی کیفیت کا نقشہ اِن الفاظ میں کھینچتے ہیں کہ میں رسول پاک ﷺ کے پیچھے یوں رہتا تھا جس طرح اُونٹنی کا بچہ اُونٹنی کے پیچھے پیچھے رہتا ہے اور اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ بچوں کی یہ کیفیت، یہ کشش اور والہانہ محبت اُس بے پایاں شفقت کا طبعی نتیجہ تھی جس کا اظہار صبح و شام ہوتا تھا۔
ہمارے ہادئ کامل محمد عربی ﷺ جب ہجرت کے موقع پر مدینہ میں داخل ہوئے تو انصار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں خوبصورت لباس پہنے، گھروں سے باہر نکل کر گیت گا رہی تھیں۔ آپؐ اُن کے پاس سے گزرے تو پیمانہ محبت چھلک اٹھا۔ آپؐ نے ان سے پوچھا: اے بچیو!کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟ سب نے یک زبان کہا؛ ہاں یا رسول اللہ! آپؐ نے فرمایا: سنو!میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں! زہے نصیب اُن بچیوں کے جن کو محبوبِ خدا کا یہ والہانہ پیار نصیب ہوا۔جس طرح آپ بچوں اور بچیوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے اُسی طرح اُن کے درد اور غم کو بھی شدت سے محسوس فرماتے۔ ایک دفعہ مکّہ کے بازار میں ایک یتیم بچہ روتا ہوا جا رہا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو پرواہ کیے بغیر پاس سے گزر جاتا مگر آپ ﷺنے آگے بڑھ کر اُس بچہ کو اپنی مقدس گود میں اٹھالیا۔ بچہ سخت غربت کا شکار تھا۔ اس کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑے بھی نہ تھے۔پاؤں میں جوتی تک نہیں تھی۔ پاؤں زخمی ہو چکے تھے۔ یہ درد ناک حالت دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں بھر آئیں۔ آپ اُسے اپنے گھر لے آئے۔ بچے نے کئی روز سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔ آپ نے اُسے کھانا کھلایا۔ نئے کپڑے پہنائے اور گھر میں اپنے بچوں کی طرح رکھا اور بالا ٓخر اُس کے رشتہ داروں تک پہنچادیا۔
صحابہ کرامؓ سے محبت و شفقت کے باب میں رسولِ اکرمﷺ کا اپنے خدام سے حسنِ سلوک بھی خاص طور پر قابل تذکرہ ہے۔ دنیا کا طریق تو یہ ہے کہ نوکروں کو بے دام غلام سمجھا جا تا ہے اور اُن کی عزت نفس کو کچل کر، ہر ظلم اُن پر روا رکھا جاتا ہے۔لیکن محسن انسانیت ﷺ کا نمونہ اِس سے بالکل جدا تھا۔ حضرت انس ؓوہ خوش قسمت انسان ہیں جنہیں دس سال تک درِ مصطفےٰ ﷺ کی دربانی کی سعادت ملی۔ دنیا کی نظر میں وہ ایک خادم تھے لیکن رسولِ پاک ﷺ کا حسنِ سلوک دیکھیے! حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ دس سال کے طویل عرصہ میں ایک بار بھی آپ نے مجھے اُف تک نہ کہا۔نہ یہ کہا کہ یہ کا م کیوں کیا، اور یہ کام کیوں نہیں کیا، کام خراب بھی ہو جاتا تو کبھی بُرا بھلا نہ کہتے، بلکہ مجھے تسلی دیتے اور پیار سے سمجھادیتے، کبھی سخت کلامی سے پیش نہ آتے اور اکثر کاموں کی سر انجام دہی میں خود بھی میرے ساتھ شریک ہو جاتے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ کئی بار ایسا ہوتا کہ حضور مجھے کسی کام پر بھیجتے اور میں بچپن کی وجہ سے راستہ میں دوسرے بچوں سے کھیل میں مصروف ہو جاتا اور وہ کام بھول جاتا۔کافی دیر تک میں واپس نہ پہنچتا تو حضور خود تشریف لاتے۔ بجائے کوئی سرزنش کرنے کے، آپ پیچھے سے آکر بڑی بے تکلفی سے میرا کان یا سر پکڑ لیتے۔ میں عرض کرتا کہ حضور میں ابھی جاتا ہوں، تو بڑی شفقت اور محبت سے مجھے چھوڑ دیتے اور میں کام پر روانہ ہو جاتا۔یہ وسعت، یہ حوصلہ، یہ شفقت، یہ عفو۔ کوئی دکھائے کہ اِس کی نظیر آج دنیا میں کہاں نظر آتی ہے۔ حضرت عائشہؓ اپنے مشاہدہ کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ۔وَاللّٰہ مَاضَرَبَ رَسُو لُ اللّٰہ خَا دِ مًا۔ کہ اللہ کی قسم! رسول ِ خدا ﷺ نے کبھی کسی خادم کو نہ مارا نہ کوئی جسمانی سزا دی۔
صحابہ کرام کے لیے رسولِ پاک ﷺ کی محبت و شفقت عجیب و غریب انداز میں اپنے جلوے دکھاتی! حسنِ سلوک اور پیار کرنا ایک بات ہے اور اپنی ضروریات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے صحابہ کی ضروریات اور آرام کو مقدم کرنا بالکل اور بات ہے جس کا ایمان افروز نظارہ اسوۂ محمدی ﷺ میں نظر آتا ہے۔ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ (سورۃ الحشر آیت 10) کا معراج آپ کی ذات بابرکات میں دکھائی دیتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک عورت نے ایک نہایت خوبصورت چادر آپ کو تحفۃً پیش کی۔ آپ کو اُس کی ضرورت بھی تھی۔ آپ نے شکریہ سے قبول فرمالی۔ وہی چادر پہنے گھر سے باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے کہا:’’یا رسولَ اللہ! یہ کیسی عمدہ چادر ہے!‘‘آپ بہترین مزاج شناس تھے آپ نے اُس صحابی کی ضرورت کا خیال فرماتے ہوئے فوراً وہ نئی چادر اُسی وقت اُس صحابی کو عطا فرمادی۔کتنی شفقت اور محبت ہے اِس بے ساختہ ایثار میں!
ایک صحابی نے شادی کی۔ سامانِ ولیمہ کے لیے گھر میں کچھ نہ تھا۔ رسولِ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہؓ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ۔وہ صحابی خوشی خوشی گئے اور جاکر لے آئے مگر اُسے کیا معلوم تھا کہ رسولِ خداﷺ کے گھر میں اُس شام اُس آٹے کے سِوا کھانے کو کچھ نہ تھا۔
مَیں سوچتا ہوں اور رسولِ پاک ﷺ کی اپنے صحابہ سے شفقت کے تصور سے آنکھیں نمناک ہو جا تی ہیں۔ پیارے صحابی کے ولیمہ کا اہتمام فرمادیا۔ خود آپ نے اور آپ کے اہلِ بیت نے وہ رات کیسے بسر کی ہوگی، خدا ہی بہتر جانتا ہے! ایسے واقعات ایک بار نہیں، کئی بار ہوئے۔ ایک دفعہ ایک صحابی آپ کے ہاں مہمان ہوئے، آپ کے لیے رات کو کھانے کے لیے صرف بکری کا دودھ تھا۔ وہ آپ نے مہمان کو دےدیا اور خود تمام رات فاقہ سے بسر کی۔ حدیث میں آتا ہے کہ اُس سے پہلی رات بھی آپ فاقہ سے تھے۔ اپنے صحابہ کو کھلانے والا اور خود بھوکا رہنے والا آقا ایک ہی ہے۔ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ فداہ ابی وامّی۔
رسولِ اکرم ﷺ کی مبارک زندگی میں قدم قدم پر صحابہ کرام سے محبت و شفقت، ہمدردی اور دلداری کے واقعات ملتے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ کئی دن فاقہ سے رہے جب سات وقت فاقہ سے گزر گئے تو بے تاب ہو کر مسجد نبوی کے دروازہ کے سامنے کھڑے ہو کر گزرنے والے صحابہ سے اُس آیت کا مطلب پوچھنے لگے جس میں غریبوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے۔ یہ ایک لطیف انداز تھا کھا ناطلب کرنے کا لیکن کوئی اُن کا منشاء نہ سمجھ سکا۔ حالت انتہائی غیر ہو گئی اور بھوک سے نڈھال ہو کر گرنے لگے تو اچانک کا نوں میں ایک محبت بھری سریلی آواز آئی۔ مڑکر دیکھا تو سراپا رحمت، محمد مصطفےٰ ﷺ تھے۔بڑے پیار سے فرمایا کہ ہمارے گھر میں بھی آج کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ابھی ایک شخص دودھ کا ایک پیالہ لایا ہے۔ تم مسجد میں جاؤ اور دیکھو شاید ہماری طرح کئی اور مسلمان بھی بھوکے ہوں گے۔ اُن سب کو بلا لاؤ۔چنانچہ تعمیلِ ارشاد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سب لوگوں کو بلا لائے۔ ساقئ کوثرنے دودھ کا پیالہ دائیں طرف سے شروع کرتے ہوئےاُن سب کو باری باری دیا۔ سب نے سیر ہو کر پیا۔ پھر حضرت ابو ہریرہؓ کی باری آئی۔ اُنہوں نے بھی خوب سیر ہو کر پیا اور جب بھوک اور پیاس کے ستائے ہوئے سب جاںنثار صحابہ نے خوب پیٹ بھر کر دودھ پی لیا تو سب سے آخر میں جس کی باری آئی وہ تھا ہمارا آقا، سرکار دو عالم محمد مصطفےٰ ﷺ۔
یہ واقعہ جو بہت ہی مشہور و معروف ہے چشم تصور میں انسان کو کہاں سے کہاں لےجاتا ہے۔ آج کی دنیا میں اِس قسم کی محبت اور شفقت کی مثال تو در کنار اِس کا تصور بھی نہیں ملتا۔ اوّل تو کو ئی آقا اور سردار کبھی اس طرح بھوک سے دوچار ہی نہیں ہو تا۔ اگر کبھی یہ نوبت آہی جائے تو کھا ناملتے ہی سب سے پہلے خود کھانے کو اپنا حق سمجھتا ہےلیکن یہ عجیب دنیا ہے کہ فاقہ زدہ آقا کے گھر پر دودھ کا ایک پیالہ آتا ہے اور وہ اپنے سارے بھوکے اور پیاسے عشاق کو بلا بھیجتا ہے۔ خود پیالے کو منہ نہیں لگاتا بلکہ ایک ایک ضرورت مند صحابی کو پیش کرتا ہے جو اس کی شفقت بھر ی نگاہوں کے سامنے سیراب اور شاداب ہوتے چلے جاتے ہیں۔جب سب صحابہ پوری طرح سیر ہو جاتے ہیں اور ان کے چہروں پر بشاشت اور مسکراہٹ کھلنے لگتی ہے تو ان سب کا بچا ہو ادودھ، بالآخر اُس آقا کے حصہ میں آتا ہے جو ضرورت اور احتیاج کے لحاظ سے اپنے صحا بہ سے کسی طرح کم نہ تھا۔
صحابہ کرام سے رسولِ پاک ﷺ کی محبت و شفقت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کے قلب اطہر میں صحابہ کرام کے لیے سچی ہمدردی اور محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہر آن اِس بات کے خواہش مند رہتے کہ میرے صحابہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اِس کے لیے دعا بھی کرتے اور ہر ممکن کوشش بھی۔
حدیث میں آتا ہے کہ جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتے رسولِ اکرم ﷺ کے روئےمبارک پر فکر کے آثار نمایاں ہو جاتے اور آپ بڑی بے تابی میں کبھی ایک طرف جاتے اور کبھی دوسری طرف۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہو جاتے اور حا لتِ فکر تسکین میں بدل جاتی۔ایک بار حضرت عائشہؓ نے آپ سے اِس کا سبب دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بادل دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے کہ مباد ا قوم ِ عاد کی طرح یہ کوئی عذاب ہو جو میری اُمت پر مسلط کیا گیا ہو۔
مدنی دور کا ایک واقعہ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب مسلمانوں کو ہر وقت دشمن کے حملہ آور ہو نے کا خطرہ در پیش تھا۔ ایک رات اچانک شور ہوا اور دور کچھ آوازیں سنائی دیں۔ صحابہ فوراً جمع ہونے شروع ہو ئے اور اِس ارادہ میں تھے کہ باہر جا کر حالات کا جائزہ لیں کہ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ ایک گھوڑے پر سوار باہر سے مدینہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ آپ نے صحابہ کو تسلی دی کہ گھبراہٹ اور فکر کی کوئی بات نہیں۔
یہ واقعہ جہاں ایک طرف رسولِ خدا ﷺ کی بےمثال اور حیرت انگیز جرأت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں اُس محبت و شفقت کی بھی نہایت حسین مثال ہے جو آپ کے دل میں اپنے پیارے صحابہ کے لیے پائی جاتی تھی۔ رات کو خطرہ محسوس کرنے پر اس خیال سے کہ صحابہ اچانک کسی حملہ سے دو چار نہ ہو جائیں، آپ نے فورًا اکیلے ہی باہر جا کر حالات کا جائزہ لیا اور کسی ایک صحابی کو بھی بیدار ہونے کی زحمت نہ دی۔ عجیب نظارہ ہے کہ صحابہ ابھی تیاری میں ہیں کہ باہر جا کر حالات کا جائزہ لیں اور اُن کا محسن آقا، جو ماں سے زیادہ اپنے صحابہ سے محبت و پیار کرنے والا تھا، اُن کو تسلیاں دے رہا ہے کہ گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں۔ سچی محبت اور ہمدردی کے چشمہ سے پھوٹنے والی یہ بہادری اورجرأت یقیناً اپنی مثال آپ ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ کی اپنے پیارے صحابہ سے محبت و شفقت کا ایک نہایت دلکش اور دلربا پہلو یہ ہے کہ آپؐ اُن کےآقا اور مطاع ہونے کے باوجود ہر کام میں ان کے ساتھ شریک ہوتے اور ہر موقع پر اُن کی مدد کرتے۔ صحابہ کرام کے عشق اور فدائیت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کو تیار رہتے۔ اُن کی خوشی تو اِسی میں تھی کہ اُن کا محبوب آقا آرام کرے اور وہ اُس کے سامنے اپنی فدائیت اور اخلاص کے جوہر دکھائیں مگر ہمارے پیارے آقا محبت و شفقت کی وجہ سے جو آپ کے دل میں صحابہ کرام کے لیے موجزن تھی کبھی یہ پسند نہ فرماتے تھے کہ آپ انہیں تو کام کرنے کا حکم دیں اور خود خاموش ہو کر بیٹھ رہیں۔ محبت و شفقت کے چشمہ سے پھوٹنے والی اس عظمتِ کردار کی بے شمار مثا لیں آپ کی مطہر زندگی میں نظر آتی ہیں۔
ایک سفر کے دوران کھانا پکانے کا وقت ہوا تو ایک صحابی نے کہا،کہ بکری کا ذبح کرنا میرے ذمہ ہے، دوسرے نے کہا کہ کھال اُتارنا میر ے ذمہ ہے۔تیسرے صحابی نے کہا،کہ پکانے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا پھر جنگل سے لکڑیاں چن کر لانا میرے ذمہ ہے۔ صحابہ کرام نے بصد ادب عرض کیا کہ ہمارے آقا! ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان! آپؐ تکلیف نہ فرمائیں۔ یہ کام بھی ہم خود کر لیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تم کر سکتے ہو مگر مجھے یہ بات پسند نہیں کہ اپنے تئیں تم سے ممتاز کروں۔ چنانچہ چشمِ فلک نے یہ روح پرور نظارہ دیکھا کہ بادشاہِ دوجہاں جنگل میں جاتا ہے اور لکڑیاں چن کر، اپنے کندھے پر اُٹھا کر لاتا ہے جس سے سب کے لیے کھانا تیار کیا جاتا ہے!
ہجرت ِ مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کا مرحلہ آیا تورسولِ اکرم ﷺ بھی اس کی تعمیر کے کام میں صحابہ کرام کے دوش بدوش شامل تھے۔ حدیث میں اس کی تفاصیل ملتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو آپؐ خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر ا ینٹیں ڈھوتے تھے اور صحابہ کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اُن کے ساتھ مل کر پاکیزہ اشعار بھی بلند آواز میں پڑھتے جاتے۔کام میں شمولیت محض رسماً نہ تھی بلکہ آپ بھر پور طور پر اس میں حصہ لیتے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ بھاری پتھروں کے اُٹھاتے وقت جسم ِمبارک خَم ہو جاتا تھا۔ صحابہ فرط عقیدت اور محبت سے بار بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپؐ چھوڑ دیں، ان بھاری پتھروں کو ہم اُٹھا لیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر آپ کا ردّ عمل کیسا دلربا اور حسین ہوتا تھا۔ آپؐ خوب جانتے تھے کہ اگر انکار کیا تو میرے پیارے صحابہ کا دل ٹوٹے گا اور یہ آبگینے آپ کو بہت عزیز تھے۔روایت میں آتا ہے کہ آپ جانثار صحابہ کی محبت بھری درخواست قبول فرمالیتے۔ اُٹھا یا ہوا پتھر اُن کے سپرد کر دیتے لیکن اپنے کام کو اُسی طرح جاری رکھتے اور پھر اُسی وزن کا دوسرا پتھر اُٹھا لیتے! اللہ! اللہ! کیا حسین اور پیارا نمونہ ہے ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ کا۔ دنیا کی تاریخ میں اِس کی نظیر دکھائی نہیں دیتی۔
جنگ احزاب کے موقع پر اسی قسم کا ایک اور روح پرور واقعہ رونما ہوتا ہے۔حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ مدینہ کے گرد حفاظت کے لیے ایک خندق کھودی جائے۔ چالیس چالیس ہاتھ زمین دس دس آدمیوں کو کھودنے کے لیے بانٹ دی گئی۔ یہ کام صحابہ کے سپرد کر کے رسولِ پاک ﷺ الگ ہو کر نہیں بیٹھے بلکہ آپ بھی صحابہ کے ساتھ ساتھ اِ س کام میں پوری طرح شامل تھے۔
حضرت براء ؓ بیان کرتے ہیں اُس روز آقائے دو جہاں بھی اپنے پیارے صحابہ کے ساتھ مٹی کو اِدھر سے اُدھر لیجانے کا کام کر رہے تھے۔ وہ بڑے پیار سے ذکر کرتے ہیں کہ وَقَد وَاری الترابُ بِیَا ضَ بَطنِہِ۔ کہ اُس موقع پر آپ کے بدنِ مبارک پر کوئی قمیص نہ تھی اور میں نے آپ کو اِس حالت میں دیکھا کہ مٹی نے آپ کے گورے سے سفید پیٹ کو ڈھا نپا ہوا تھایہ کیفیت پڑھ کر دل فرطِ جذبات سے بے قابو ہو نے لگتاہے اور اسوۂ کامل، محمد مصطفےٰ ﷺ کی محبوبی و دلربائی دیکھ کر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ کیسا عظیم الشان اور محسن آقا ہے کہ اپنے جا ںنثار صحابہ کے ساتھ ایک مزدور کے طور پر شریک عمل ہے اور اِس وجہ سے ہے کہ اُ س کا دل اپنے صحابہ کی محبت اور شفقت سے پُر ہے وہ اپنے آپ کو اُن سے ایک ذرہ برابر بھی اُونچا خیال نہیں کرتا۔ لیکن خدا شاہد ہے کہ یہی تو ا ُس کی لازوال عظمت اور سر بلندی کا راز ہے۔ یہی تو وہ اعجاز ہے جس نے اُسے خاتم النبیین کا افضل ترین منصب عطا فرمایا ہے۔ لاریب وہ اولین و آخرین کا سرتاج ہے۔
رحمۃ للعا لمین کی محبت و شفقت کی دنیا، ایک عجیب دنیا تھی۔ ہر وجود محبت کی برسات میں نہلایا ہو اتھا، اور وہ جو اُس شمع کے پروانے تھے اُ ن پر تو بطور خاص یہ محبت و شفقت ایک گھٹا بن کرموسلادھار بارش کی ماننددن رات برستی چلی جاتی۔
اہل مدینہ نے ایک روز محبت و پیار اور ناز برداری کا ایک بہت ہی حسین نظارہ دیکھا۔ آپ ﷺ بازار تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپؐ کا ایک بدوی صحابی زاہر ؓمحنت مزدوری کر رہا ہے۔ ایک تو شکل کچھ ایسی اچھی نہ تھی دوسرے گردو غبار اور پسینہ کی وجہ سے اور بھی بد نما دکھائی دے رہا تھا۔ آپﷺ نے اپنے پیارے دوست کو دیکھا تو قلبی محبت بھڑک اٹھی۔ آپ نے دبے پاؤں قریب جا کر پیچھے سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ زاہر حیرت میں گم ہو گیا کہ مجھ غریب، بے کس اور بد صورت سے اِس انداز میں اظہار محبت کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پھر خود ہی خیال آیا کہ رحمتِ دو عالم، محمد عربی کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ ہاتھوں کو چھوا تو اس بات کا یقین ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا زاہرؓ نے موقع غنیمت جان کر اپناخاک آلود جسم آپ کے جسم مبارک سے ملنا شروع کردیا۔ زاہر کا یہ اندازِ محبت دیکھ کر آپ مسکراتے رہے اور عاشق زار اپنے شوق کی تسکین کرتا رہا۔ بالآخر محبت و پیار کا ایک اور باب کھلا جب آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا لوگو! میں ایک غلام بیچتا ہوں کوئی ہے جو اس کا خریدار ہو؟ زاہر کہنے لگا میرے آقا! مجھ غریب اور خستہ حال کا کون خریدار ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں؛ نہیں ایسا مت کہو تمہارا خریدار تو خود عرش کا خدا ہے!
کتنا حُسن اور پیار ہے اس ایک واقعہ میں! ایسی ناز برداریاں اور ایسا لطف و کرم تو بچوں کو اپنی حقیقی ماؤں سے بھی نصیب نہیں ہو تا۔ یہ کیفیت اُس مقدس ہستی کا اعجاز ہے جو واقعی ماں سے بڑھ کر شفیق اور محسن تھی۔
ماں کا وجود بچوں کے حق میں مجسم رحمت ہوتا ہے۔ ماں کی مامتا کی کوئی ایک راہ نہیں ہوتی۔ اس کی شفقت ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہے۔ ہمارے محبوب آقا محمد مصطفےٰ ﷺہر ماں سے زیادہ شفیق اور محسن تھے اور بالخصوص اپنے صحابہ کے حق میں تو آپ کی محبت اور شفقت ایک بحر بےکراں کی مانند تھی جس کا احاطہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔آپ کی زندگی کی ہر حرکت وسکون آپؐ کی بے پایاں شفقت کی آئینہ دار تھی اور واقعات کے آئینہ میں سیرت نبوی کا یہ پہلو نئے سے نئے انداز میں جلوہ نمائی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ متفرق واقعات کا ایک گلدستہ پیش ِ خدمت ہے۔
رسولِ پاک ﷺ کے ایک فدا کار صحابی حضرت عماّر بن یاسرؓ دشمنوں کے ہاتھوں شدید مصائب کا نشانہ بنائے گئے۔ ایک بار اِس حالت میں دربار نبوی میں حاضر ہوئے کہ مصائب کے بوجھ سے بُری طرح ہلکان ہو چکے تھے اور بڑے درد سےعرض کی کہ اے اللہ کے رسولؐ!لوگوں نے مجھے مار ڈالا ہے۔ مجھ پر اتنا بوجھ لاد دیتے ہیں جس کے اُٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں ہوتی۔آپ کی حا لتِ زار دیکھ کر اور اس کا ذکر سن کرمحبوب خدا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضرت ام سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسولِ خدا ﷺ ان کے سر کے بالوں کو اپنے دستِ مبارک سے درست کر رہے تھے اور لوگوں سے فرمارہے تھے کہ عمار مجھے اِس قدر عزیز اور پیارا ہے کہ گویا میری آنکھوں اور ناک کے درمیان کا چمڑا ہے۔
مدینہ میں ایک غریب عورت مسجد نبوی کی صفائی کیا کرتی تھی۔ رسولِ خدا ﷺ نے اُسے چند دن نہ دیکھا تو اُس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ بتایا گیا کہ وہ فوت ہو گئی ہے اور دفن کردی گئی ہے۔ فرمایا مجھے کیوں اطلاع نہ دی کہ میں بھی اُس خادمۂ مسجد کے جنازہ میں شامل ہو سکتا۔ فرمایا مجھے بتاؤ کہ اُس کی قبر کہاں ہے؟ آپ بنفسِ نفیس اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اُس کے لیے دعا کی۔
حضرت علی ؓ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد نے اپنے گھر میں آنحضور ﷺ کی پرورش کی تھی۔آ پؐ کو ان کے ساتھ بے حد محبت تھی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو آنحضور کی آنکھیں فرط ِغم سے آبدیدہ ہو گئیں۔ اُنہیں سپردِ خاک کرنے کے لیے آپ خود ان کی لحد میں اُترے اپنی اُس محسنہ کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی رقت سے فرمایا۔ “فی الواقعہ آپ بہترین ماں تھیں اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین ماں بننے کی بہترین جزادے۔”
جب آپؐ اور آپؐ کے جاںنثار صحابہ پر مکّہ والوں کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو آنحضرت ﷺسے ان جاںنثاروں کا دُکھ نہ دیکھا جاتا۔ آپ کو اُن کے حالات کا علم ہو تا تو فرطِ جذباتِ محبت سے آبدیدہ ہو جاتےاُنہیں جنت کی بشارت دیتے اور دعاؤں سے نوازتے۔ جب معا ملہ حد سے آگے گزر گیا تو مشفق و مہر بان آقا نے صحابہ کو اجازت دی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں جہاں اُنہیں مصائب سے امن نصیب ہو گا۔ خود بدستور مکّہ میں رہے۔ بادشاہِ حبشہ نے اُن مسلمان مہاجرین سے بہت اچھا سلوک کیا۔ اس نیک سلوک کی رسول پاک ﷺ کے دل میں اتنی قدر تھی کہ چند سال بعد حبشہ سے ایک وفد آیا تو آپ بذاتِ خود اُن کی خدمت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ صحابہ نے بار بار عرض کیا کہ ہم آپ کی طرف سے خدمت کے لیے حاضر ہیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مَیں خود اُ ن کی خدمت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جب ظلموں کے ستائے ہوئے میرے پیارے صحابہ اُس ملک میں گئے تھے تو اِن لوگوں نے اُن کا بہت اکرام کیا تھا۔
جب آنحضرت ﷺ کی بیٹی حضرت رقیہ فوت ہوئیں تو ان کے خاوند حضرت عثمانؓ بہت مغموم نظر آنے لگے۔ دامادی کے رشتہ کا انقطاع آپ کے دل پر بھاری بوجھ بن گیا۔آنحضرت ﷺ نے عثمان کے غم کو خوب محسوس کیا اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے اپنی دوسری بیٹی حضرت اُم کلثومؓ کا اُن سے نکاح کردیا تقدیر الٰہی سے حضرت اُم کلثوم بھی جلد فوت ہو گئیں تو آپ نے بڑی شفقت اور محبت سے حضرت عثمان کو فرمایا: ’’اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو اے عثمان! میں وہ بھی تجھ سے بیاہ دیتا۔‘‘
آ پؐ کے ایک مخلص صحابی حضرت (خباب بن ارتؓ)تھے جنہوں نے راہ خدا میں بہت دکھ اُٹھائے بہت عزیز تھے۔ ایک بار آپ نے اُنہیں میدانِ جہاد کے لیے روانہ فرمایا۔ اس وجہ سے رسولِ خد ا ﷺ نے فرمایا کہ حضرت خباب کے گھر کوئی مرد نہیں اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا۔ رسولِ پاک ﷺ کی شفقت اور محبت کی باریک نظر کا مظا ہرہ دیکھیے کہ آپ ہر روز اُن کے گھر تشریف لےجاتے اور دودھ دوھ دیا کرتے!
فتح مکّہ کے تاریخ ساز موقع پر ہمارے آقا ومولیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ کی سیرت طیبہ کے بے شمار پہلو بڑی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ یہ فتح کا دن تھا۔ دشمنوں سے حسین انتقام کا دن تھا۔ عاجزی اور انکساری کا دن تھا۔ اللہ کے حضور شکر گزاری کا دن تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے جاںنثار صحابہ سے محبت و شفقت کے اظہار کا دن بھی تھا۔ دیکھو! ہمارے محسن آقا نے کس طرح اُس کا اظہار کیا اور شفقت اور عزت افزائی کا کیا عجیب اور دلربا انداز اختیار فرمایا۔ آپ ﷺ نےا علان فرمایا کہ اے دشمنانِ اسلام! جس حبشی غلام پر تم لوگوں نے لمبا عرصہ ہر قسم کا ظلم و ستم روا رکھا مگر تم اُس کی صدائے احد احد کو خاموش نہ کر سکے، سنو آج جو شخص اِس بلال کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا اُسے امن عطا کیا جائے گا۔
مَیں سوچتا ہوں کہ اِس اعلان کو سن کر، اور محسن آقا کی شفقت و محبت کو دیکھ کر سیدنا بلال ؓ کے دل کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔رسولِ اکرم ﷺ نے عید کے موقع پر جانور کی قربانی دی۔ یہ فریضہ ادا کر چکنے کے بعد بطورِ خاص ایک اورجانور کی گردن پر چھری رکھی اور فرمایا؛ خدایا! یہ میری امّت کے اُن لوگوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتے! اُمت کے غریب لوگوں پر یہ محبت و شفقت! لاریب یہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی حصہ ہے جو واقعۃً ماں باپ سے بڑھ کر محبت و احسان کرنے والے تھے۔
محبت وپیار اور شفقت و احسان کے کرشمے آپ کی زندگی تک محدود نہ تھے۔ اس کافیضان تو مرنے کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز جب جہنم کے فرشتے بعض لوگوں کو کھینچ کر لےجا رہے ہوں گے تو ہمارے آقا ان کو دیکھ کرفرمائیں گے کہ اصیحابی! اصیحابی! کہ یہ میرے صحابہ ہیں۔ بد عہد لوگ تو اپنے انجام کو دیکھیں گے لیکن رسولِ خدا ﷺ کا یہ بے ساختہ اظہار محبت آپ کی شفقت اور پیار کا آئینہ دار ہے۔ پھر جب شفاعت کا اذن ہو گا تو اس موقع پر بھی رسول پاک ﷺ کی محبت و شفقت اِس التجا میں ڈھل جائے گی کہ۔ یَا رَبِ امتی! یا رَبِ امتی! اے میرے مولیٰ! میری امت پر رحم فرما۔ میرے ماننے والوں پر نظر کرم فرما!
اختتامیہ
آنحضرت ﷺ کی اپنے صحابہ کرام سے محبت و شفقت کے چند واقعات آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اتنا وسیع باب ہے کہ اس کا احاطہ کرنا اور اس کو مکمل طور پر بیان کرنا ہر گز ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ رحمت و کرم کا ایسا چشمہ ہے جس کا فیضان ہر آن جاری و ساری بلکہ ہمیشہ ترقی پذیر ہے۔ خدا کرے کہ ہمیں اُن نیک اعمال کی توفیق ملے جو ہمارے آقا ومولیٰ کو محبوب تھے تا کہ میدانِ حشر میں اُس کی پیار بھری نظریں ہم گناہگاروں پر بھی پڑیں، ہم بھی شاہِ مکیّ و مدنی کی محبت و شفقت اور شفاعت کے مورد اور مستحق ٹھہریں، ہم بھی خدا تعالیٰ کی درگاہ میں قبولیت کے لائق ٹھہریں۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔! آمین ثم آمین
و آ خِر دَعوا نا اَ نِ ا لحمدُ للّٰہ ربِ العالمین