ربوہ کی ایک یادگار فضل ڈوگر صاحب مرحوم کی یاد میں
فضل ڈوگر صاحب سے میرا تعلق بظاہر کبھی بھی گہرا نہ رہا۔ نہ یہ سطور لکھنے کی وجہ کوئی ایسا دعویٰ ہے کہ میں انہیں بہت قریب سے جانتاتھا۔مگر ان کی وفات کی خبر سے دل کو جو رنج پہنچا، وہ بہت گہراہے۔ یہ سطور جو میں لکھنے بیٹھ گیا ہوں، شاید اس گہرے دکھ کی وجوہات کو تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ایک وجہ جو اب تک سمجھ آئی ہے، وہ یہ ہے کہ فضل ڈوگر صاحب کو دیکھ کر اور ان کے ساتھ بات کر کے مجھے ہمیشہ ربوہ کی یاد آجایا کرتی۔ انہیں دیکھ کر مجھے ربوہ کی کئی طرح کی شخصیات یاد آیا کرتیں۔ انجمن کے دفتروں میں کام کرنے والے بعض احباب،خلافت لائبریری میں اخبارات پڑھنے والے بعض چہرے، گول بازار کے ریستورانوں میں بیٹھنے والے چائے کے بلانوش، سردیوں کی دھند میں جلسہ گاہ کی طرف جاتے کوئی بزرگ جنہوں نے ہاتھ میں مونگ پھلی کی پوٹلی اور ایک تھیلی میں چند کینو اٹھارکھے ہوتے۔ کچھ محبت کرنے والے بزرگ، کچھ دوست، کچھ دکاندار، کچھ کچے ہوٹلوں میں چائے بنانے والے اور نہ جانے کیا کیا اور کون کون۔ میرے لیے فضل ڈوگر صاحب ربوہ کی ایک abstract painting تھے جس میں ربوہ کے کئی رنگ، کئی ملے جلے نقش و نگارڈوبتے ابھرتے رہتے۔اور میں اس پینٹنگ کو دور سے دیکھا کرتا۔ اقبال نے اپنی شخصیت کو یوں بیان کیا کہ
تنم گلِ زخیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوازشیرازاست
فضل ڈوگر صاحب ربوہ کی مٹی سے گندھے ہوئے انسان تھے۔ اور دل اور نوا بھی ربوہ ہی کی بازگشت کی آماجگاہ تھے۔
ڈوگر صاحب سے پہلی ملاقات طاہر ہاؤس میں واقع دفتر الفضل میں ہوئی تھی۔ مگر یہ پہلا تعارف نہ تھا۔ پہلا تعارف محمود ہال سے ملحقہ باورچی خانہ سے ہوا تھا۔ یہ میرے لندن آنے کے ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ ڈوگر صاحب اس باورچی خانہ میں خدمت پر مامور تھے۔ پہلی بار اور پھر کئی بار انہیں وہیں پر دیکھا۔ کبھی ایپرن سا باندھے ہوئے، کبھی ایپرن کے بغیر۔ اور جب ایپرن کے بغیر دیکھا تو یہ خیال آیا کہ آخر یہ ایپرن باندھتے ہی کیوں ہیں۔ مگر پھر جمعہ کی نماز اور عید وغیرہ پر بڑی وضعداری سے ملبوس ڈوگر صاحب بھی نظر آیا کرتے۔
سلام دعا پہلی مرتبہ الفضل انٹرنیشنل کے دفتر واقع ڈیئر پارک روڈ، لندن میں ہوئی۔ اب باورچی خانے سے سیدھا الفضل کے دفتر تک آجانے کا احوال ہمیں معلوم نہیں۔ مگر ڈوگر صاحب، کہ اطاعت شعارواقفِ زندگی تھے، کی تقرریاں ہمیشہ حیران کن اور دلچسپ رہیں۔
دفتر الفضل میں ڈوگر صاحب اپنا کام ختم کر لینے کے بعد محفل جمائے بیٹھے ہوتے۔ پاس سے گزرتے ہوئے سلام دعا بھی ہوجاتی اور کانوں میں اس مجلس کی گفتگو کے کچھ الفاظ بھی پڑ جایا کرتے جن سے معلوم ہوتا کہ تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ہے، یا میاں منصور احمد صاحب کا، یا میاں خورشید صاحب کا یا میاں احمد صاحب کا۔ ۱۹۷۴ء کے دلخراش واقعات، ۱۹۸۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے وقت ربوہ کے باسیوں کی حالت، ربوہ کے اچھے دن جب جلسہ ہوا کرتا، سفرِ یورپ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے استقبال کے لیے ربوہ کی تیاریاں۔ میں ان مجالس کا حصہ نہ ہوتا مگر ڈوگر صاحب کی اس مجلس کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ باتیں میرے کان میں پڑ جایا کرتیں۔اور میرے دل کو کئی گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں تک ربوہ کی گلیوں میں گھمایا کرتیں۔ یوں ذہنی اور قلبی طور پر ڈوگر صاحب سے تعلق بھی اس دورانیہ کے لیے قائم رہتا۔بہت چاہنے کے باوجود میں خود ان کی مجالس کا حصہ نہ بن سکا۔ وہ میرے بزرگ تھے اور میں ان کے لیے بچوں کی طرح۔ ان کی مجلس میں خود تو درانہ در داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
پھر اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ فضل ڈوگر صاحب لندن میں کھلنے والے جامعہ احمدیہ کے لائبریرین مقرر ہوگئے ہیں۔ فضل ڈوگر صاحب کے سامنے یہ اعترافِ جرم کرنے سے رہ گیا کہ مجھے یہ معلوم کر کے بہت حیرت ہوئی تھی کہ ڈوگر صاحب کسی بھی لائبریری کے نگران بن جائیں، کجا یہ کہ ایک مذہبی تعلیمی ادارے کے باقاعدہ لائبریرین۔ مگر وقت کے ساتھ ڈوگر صاحب نےاس لائبریری کو اپنا خون پلایا اور اس سے ایسی محبت کی کہ سب حیرت جاتی رہی۔ نئی حیرتوں نے جنم لیا مگر وہ الگ کہانی ہے۔
لندن میں جامعہ کا کیمپس ایک victorian عمارت میں قائم تھا۔ عمارت تعلیمی ادارے کے لیے ہی بنائی گئی تھی اور اس کی قدامت مجھے ہمیشہ بہت پسند رہی۔ اس عمارت کے ایک ہال میں جامعہ کی لائبریری قائم تھی اور ڈوگر صاحب اس کے نگران۔ میں پہلی مرتبہ اس لائبریری میں داخل ہوا تو ڈوگر صاحب نے بڑی محبت سے استقبال کیا۔شاید انہوں نے میری نگاہوں کو بھانپ لیا جو اس گفتگو کے دوران ان کے چہرے سے زیادہ ان کی کتابوں کی طرف بھٹک بھٹک جاتی رہیں۔ اس کے بعد سے جب بھی لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا، یوں لگتا کہ ڈوگر صاحب کسی پولیس چوکی پر بیٹھے ہیں اور مجھ راہگیر کو راہزن سمجھ کر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ مگر نئے اضافوں سے مطلع کیے بغیر بھی نہ رہ سکتے کہ انہیں اس لائبریری کی نشو ونما پر ناز بھی تو تھا۔
ایک ایسے ہی موقع پر اپنی کرسی کے پیچھے لگے ایک شیلف کی طرف لے گئے جس پر شیشے کے دروازے لگے تھے اور یہ دروازے مقفل تھے۔ تالا کھولا اور ایک ایک کر کے یہ نایاب کتابیں دکھانے لگے کہ حضرت مولانا عبد الرحمان جٹ صاحب کا ذخیرۂ کتب تھا جو ان کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ میری آنکھوں میں حیرت اور اشتیاق دیکھ کر خوش بھی ہوتے رہے اور ساتھ کئی مرتبہ یہ بات بھی دہراتے رہے کہ ’’جے کوئی آکے اے وی کہے کہ اتھے بیٹھ کے پڑھ لین دیو، میں فیر وی اے کتاباں تالے چوں باہر نہیں کڈنیاں‘‘۔ میں ڈوگر صاحب کی اس ’’سنائی‘‘کا مزا لیتا رہا اور ایسے کان ہوئے کہ ڈوگر صاحب سے کتابوں کے حوالہ سے کبھی کوئی تقاضا یا فرمائش نہ کی۔
مگر پھر میں نے اور ڈوگر صاحب نے ایک دوسرے کی ’’نوادرات‘‘تک رسائی کے لیے چور دروازے بنا لیے۔ میں بعض اساتذہ اور بعض طلبہ کے ذریعے کتابیں اشو کروالیا کرتا اور پڑھ کرانہی احباب کے ہاتھ لوٹا دیتا۔ ایک عرصہ تک میں سمجھتا رہا کہ یہ دروازہ شاید صرف میں نے ہی ان کےیہاں کھول رکھا ہے۔ یہ غلط فہمی یوں دور ہوئی کہ ایک جلسہ سالانہ پر محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب خلافت لائبریری کا بہت سا قیمتی مواد ایک ہارڈ ڈسک پر لے کر تشریف لائے۔ یہ مواد حسبِ ارشاد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ شعبہ آرکائیو میں محفوظ کیا جانا تھا۔ میاں خورشید صاحب یا میاں احمد صاحب انگلستان تشریف لاتے تو فضل ڈوگر صاحب ان کی خدمت پر مامور ہوجایا کرتے اور اپنی اگلی پچھلی وفاداری کو ان چند ایام میں سمو دیا کرتے۔
میں جب میاں احمد صاحب کے پاس یہ ہارڈ ڈسک لینے کے لیے حاضر ہوا تو ان کے ساتھ فضل ڈوگر صاحب بھی تھے۔ جب میں یہ ہارڈ ڈسک محترم میاں صاحب سے وصول پارہا تھا تو ڈوگر صاحب نے بس اتنا کہا کہ ’’ماشاء اللہ بڑا ای نایاب مواد اے‘‘۔یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر جو ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ایک چمک تھی، اس نے مجھے یہ بھی بتادیا کہ چور دروازہ ہر دروازے کی طرح دونوں دالانوں میں کھلتا ہے۔
ڈوگر صاحب اس لائبریری کی پرورش کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے تھے۔ ایک روز فون کر کےکہنے لگے کہ برٹش لائبریری میں جو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے پہلے ایڈیشن پڑے ہیں ان کو تلاش کرنا ہو توکیسے کرتے ہیں۔ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ یہ سب حاصل کر کے شعبہ آرکائیو میں محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ مجھے لگا کہ یہ ڈوگر صاحب کا حسنِ تقاضا ہے۔ میں نے عرض کی ڈوگر صاحب کسی دن ساتھ چلے جاتے ہیں اور میں دکھا دیتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ابھی بتادیں۔ میں فون پر جس قدر بتا سکتا تھا (اور ڈوگر صاحب جس قدر فون پر سمجھ سکتے تھے) بتادیا۔ انہیں لگا کہ ان کا حسنِ طلب زیادہ ہی مخفی رہ گیا ہے۔ کہنے لگے ’’ویسے تواڈے کول ہین نے سارے؟‘‘میں نے عرض کی کہ ’’جی ڈوگر صاحب۔ میرے پاس ہیں۔ پیش بھی کرسکتا ہوں۔ اور جو خلافت لائبریری سے ہارڈ ڈرائیو پر ’’نایاب‘‘ مواد آیا تھا، اس میں بھی موجود ہیں‘‘۔ سادہ بھی تو تھے۔ فرمانے لگے ’’چلو فیر تے ٹھیک اے۔ اودے وچ ویکھ لیندا واں‘‘۔
ڈوگر صاحب نے جس طرح اس لائبریری کی خدمت کی، اس نے مجھ سمیت ان تمام لوگوں کو حیران کر کے رکھ دیا جنہوں نے ان کے لائبریرین ہو جانے پر تعجب کا اظہار کیا تھا۔ ڈوگر صاحب نے ان کتابوں کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا جو خستہ حالی کا شکار تھیں۔ ان کی جلدیں کروائیں۔ ان کی نقول بنا کر محفوظ کیں۔
جلدیں بنوانے کے شوق نے انہیں جامعہ کے مقالہ جات کے مجلد کرواکر محفوظ کرنے کے کام پر بھی لگا دیا۔ ان مقالوں کی جلدوں پر نہایت نفیس اور دیدہ زیب انداز میں مقالہ کا عنوان اور مقالہ نویس کا نام زریں حروف میں کندہ کرواتے اور انہیں محفوظ کرتے چلے جاتے۔
پھر ایک اور کارنامہ یہ کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے شائع ہونے والے رسالے ریویوآف ریلیجنز کی ڈیجیٹل نقول کو پرنٹ کیا، انہیں سال کے حساب سے مجلد کیا اور جماعتی دفاتر کو قیمتاً خرید کرنے کی دعوت دی۔ مجھے جب یہ دعوتِ عام موصول ہوئی تو نومبر دسمبر کے مہینے تھے۔ میں نے عذر کیا کہ مالی سال کا وسط ہے اور شعبہ آرکائیو کے بجٹ میں اس کی گنجائش نہیں۔ اور یوں بھی یہ میرے پاس ’’نایاب ‘‘مواد میں ڈیجیٹل طورپر محفوظ ہے۔ انہوں نے میرے دونوں عذر قبول کرنے سے انکار کردیا۔ سہولت بھی پیدا کردی کہ چلو تم لے لو، پیسے اگلے بجٹ سے دے دینا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ بھلا کمپیوٹر کی سکرین پر پڑھنے کا کیا مزا۔ جو لطف کتاب سے پڑھنے کا آتا ہے اس کا کیا مقابلہ؟ یوں میری دونوں دلیلیں ڈوگر صاحب نےبڑے آرام سے پسپا کیں اور مجھے خریدار بنالیا۔
اسی طرح ایک مرتبہ فون آیا۔ آواز میں خوشی نمایاں تھی۔ کہنے لگے کہ ابھی ملاقات کر کے نکلا ہوں۔ حضور کی خدمت میں حضرت مصلح موعودؓ کی زیر ادارت شائع ہونے والے تشحیذالاذہان کی جلدیں پیش کی تھیں جو میں تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حضور نے فرمایا ہے کہ ایک سیٹ شعبہ آرکائیو کو دے دینا۔ میں نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ زہے نصیب، حضرت صاحب کو ہمارے شعبے کا خیال آیا۔اور یہ بھی کہ ؎
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے
جب خوشیوں کا اظہار ہوچکا تو فرمانے لگے کہ اس سیٹ کی اتنی قیمت ہے۔ جمع کروادیں تو جو سیٹ تیار ہے وہ دفتر پہنچا دوں گا۔ میں نے دل لگی کی غرض سے عرض کی کہ ’’ڈوگر صاحب، ہدایت تو یہ ہے کہ یہ سیٹ شعبہ آرکائیو کو دیا جائے۔ قیمت کا کیا سوال؟‘‘
اس سوال کے جواب میں ڈوگر صاحب نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح جان جوکھوں میں ڈال کر پہلےاسے رنگین پرنٹ کراتے ہیں۔ پھر اس کی جلد بندی۔ پھر اس کی ترسیل وغیرہ۔ اس خیال سے کہ ڈوگر صاحب میری ہر دلیل کو توڑ دیں گے، اور یہ بھی کہ حضرت صاحب کا ارشاد ہے، بجٹ دیکھا نہ کوئی اور عذر کیا۔ فوری طور پر خریداران کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا۔ اور ڈوگر صاحب نے ’’ہور؟ باقی سب خیریت اے؟‘‘پوچھ کر اور میرا جواب سن کر گفتگو کا اختتام کیا۔
سیٹ تیار ہوجانے پر ایک مرتبہ پھر ڈوگر صاحب اسے ہمارے شعبے کے دفتر تک پہنچانے خود تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہت جزا دے۔
جامعہ کی لائبریری صرف لائبریری ہی نہ تھی۔ بلکہ ایک اچھا خاصا چھاپہ خانہ بھی تھی۔ جامعہ کا نیا کیمپس پرانے والے سے کہیں زیادہ کشادہ ہے۔ اس حساب سے لائبریری بھی خاصے کشادہ ہال میں قائم ہوئی۔ اس کے ایک گوشہ میں ڈوگر صاحب نے اپنا دفتر قائم کرلیا۔ دفتر کیا تھا، ایک پریس کا کارخانہ سا تھا۔ یہاں جلد سازی کابنیادی سامان پڑا رہتا اور کچھ کتابیں ڈوگر صاحب نے کسی شکنجے کے نیچے داب بھی رکھی ہوتیں۔
جلد بندیوں کی بات چلی ہے تو ڈوگر صاحب نے سالہا سال جامعہ کے طلبہ کے کورس کو رجسٹر جلد کرواکر انہیں مہیا کیے۔ ہر سال جو مضامین پڑھائے جانے ہوتے، ان سے متعلقہ مواد مضمون وار یکجا کر کے الگ جلد کردیتے اور طلبہ کو مہیا کیا کرتے۔ یوں گذشتہ کئی سالوں میں جامعہ یوکے سے فارغ التحصیل طلبہ کے حصولِ علم میں ڈوگر صاحب ایک اہم کردار ادا کرگئے۔ خود بہت تعلیم یافتہ نہ تھے۔ مگر جامعہ کے طلبہ کے لیے یہ نصابی کورس کے مجلد رجسٹر تیارکرواکے اس شعر کی عملی تصویر بن گئے کہ
میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
اور یہاں قبیلے سے مراد وہ generation ہے جن کے حالات کے باعث حصولِ تعلیم ناممکنات میں سے تھا مگر اس صبر کے اجر میں علم دوستی کی نعمت سے مالا مال تھے۔
تو یہ تھے فضل ڈوگر صاحب۔ جنہیں میں بہت ہی کم جانتا تھا۔ جو انہیں زیادہ جانتے تھے، وہ ان کی خوبیوں کا تذکرہ تفصیل سے کرسکیں گے۔ میں نےتوبس اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیاہے۔ وہ بوجھ جو ربوہ کی یادگار ایک شخص کے چلے جانے کے دکھ کا بوجھ ہے۔ ڈوگر صاحب ان درختوں کی یاد دلاتے جو اگتے تو صرف کسی خاص ملک میں ہیں، مگر لوگ انہیں اکھاڑ کر کسی اور ملک میں جالگاتے ہیں۔ ڈوگر صاحب ربوہ کی مٹی میں اُگے۔ ان کی جڑیں وہیں موجود رہیں۔ پھر ایک آرائشی درخت کی طرح انگلستان میں لگا دیے گئے۔ ڈوگر صاحب کا وجود ربوہ کے گزرے دنوں کی یادگار رہا۔ اللہ انہیں جنت کے درختوں کے سائے میں جگہ دے۔ آمین۔