سرمیاں فضل حسین صاحب یونینسٹ پارٹی والے (14ستمبر1907ء) (قسط24)
سر میاں فضل حسین صاحب 1877ء میں پنجاب میں پیدا ہوئے اور آپ برطانوی راج کے صوبہ پنجاب میںسب سے زیادہ بااثر سیاست دانوں میں سے ایک اور یونینسٹ پارٹی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ انہیں ہندوستان سول سروس میں مسلمانوں کے لیے روزگار کا کوٹہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی میں اہم خدمات کا موقع ملا اور آپ فادر آف ماڈرن پنجاب کہلائے۔ انہوں نے صوبہ پنجاب کے باسیوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیےمتعدد منصوبے متعارف کرائے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے بطور وزیرِتعلیم، ممبر بورڈ آف ریونیو اور ممبر ایگزیکٹو کونسل وائسرائے (برائے تعلیم، صحت اور زمینداری معاملات) خدمات انجام دیتے ہوئے اہل پنجاب کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہ صرف بیش بہا اصلاحات نافذ کیں بلکہ اہم ترین قوانین بھی متعارف کرانے میں اپنا مثالی کردار ادا کیا۔ خاص طور پر پنجاب کے عام لوگوں، محنت کش طبقے اور مزارعین، کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی گراں قدر خدمات نہ صرف قابل ستائش بلکہ ناقابل فراموش بھی ہیں۔
میاں فضل حسین کے والد کا نام خان بہادر حسین بخش تھا جو اپنی سرکاری ملازمت میں بہت اونچے اور معزز عہدوں تک پہنچے تھے۔ میاں فضل حسین نےابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔ علامہ اقبال ان کے کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے بہترین دوست بھی تھے۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد انگلینڈ چلے گئے اور وہاں سے قانون کی ڈگری لے کر ہندوستان واپس آئے۔
میاں فضل حسین صاحب 14؍ستمبر 1907ء کو قادیان دارالامان آئے۔ ان کے ساتھ میاں حسین بخش پنشنر رئیس بٹالہ بھی تھے۔ حضرت اقدسؑ سے ملاقا ت ہوئی۔
جماعتی نمائندہ اخبار الحکم نے اس ملاقات کا احوال محفوظ کیا ہے۔ نمائندہ الحکم نے لکھا :’’اثنائے گفتگو میں بعض باتیں ایسی تھیں جو نہایت مؤثر اور اس زندہ ایمان کا ثبوت تھیں جو حضرت اقدسؑ کو اللہ تعالیٰ پر ہے۔ اس لیے میں اس کو یہاں درج کرتاہوں۔
مسٹر فضل حسین۔ آریوں نے اپنا یہ اصل قرار دیا ہے کہ جب تک بہت سی پابندیاں دور نہ ہوں، قومی ترقی نہیں ہو سکتی۔‘‘
اس پر حضرت اقدسؑ نے قومی ترقی کے رازوں پر سے پردہ اٹھا یااور درست اسلامی تعلیم کی راہ دکھاتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمان جب ترقی کریں گے خدا پرستی سے کریں گے۔ جس طرح پر اوائل میں اسلام نے ترقی کی وہی خدا اب بھی موجود ہے۔ میری جماعت ہی کو دیکھو۔ مجھے کافر و دجال بنایا گیا۔ میرے قتل کے فتوے دیئے۔ راہ و رسم بند کیا۔ مسلمان میرے دشمن ہوگئے۔ یہاں تک فتویٰ دیا کہ کوئی مسلمان ہم سے کشادہ پیشانی سے بھی پیش نہ آئے۔ مگر آپ ہی بتائیں۔ اس مخالفت کا کیا نتیجہ ہوا؟ اب میری جماعت چار لاکھ کے قریب ہے جس میں ڈاکٹر ہیں۔ حکماء ہیں۔ وکلاء ہیں۔ تاجر ہیں۔ ہر پیشہ اور طبقہ کے لوگ موجود ہیں۔ یہ مخالفت ہمارا کیا بگاڑ سکی ہے؎
خدا داری چہ غم داری
میں تو یہی ایمان رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر انسان ہلاک ہو جاتاہے اور اگر اُسے نہ چھوڑے تو ساری دُنیا اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی…‘‘
بیرسٹر۔ آریوں کے نزدیک اس وقت مصلحتِ وقت یہی تھی۔
حضرت اقدسؑ: یہ کیا مصلحتِ وقت تھی۔ یہ تو بزدلی ہے۔ صحابہؓ نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت کے صحابہؓ ذبح ہوگئے مگر حق کہنے سے نہ رُکے۔ انہوں نے ایسی کشور کشائی کی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ان میں اخلاص تھا صدق اور وفاتھی۔ اس قسم کے مصلحت اندیش دہریئے ہوتے ہیں۔ جو خداتعالیٰ پر وثوق رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کیلئے ایک بات کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرت آئے گی۔ اس لیے وہ ایسا نہیں کرتے کہ حق بات کے کہنے سے رُکیں۔ مجھ سے اگر سوال ہو کہ تم مسیح موعود کا دعویٰ کرتے ہو تو پھر میں بتائوں کہ اس کا کیا جواب دیتاہوں سوا صدق اور مردانہ ہمت کے کام نہیں چلتا۔ ہم پر اس قدر مقدمے کئے گئے مگر ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ ان باتوں سے ڈر کر ہم نے قدم پیچھے ہٹایا۔ یہ تو شرک ہے۔ میں یقین رکھتاہوں کہ خدا ہے اور وہ اپنے مخلص بندوں کی مدد فرماتاہے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کہتاہے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتاہے۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس سے یہ جوہر پیدا ہوتاہے۔ یہ لوگ ملک و ملت کے دشمن ہیں۔ ان کی صحبت سے بچنا چاہیئے..‘‘
بیرسٹر۔ میں نے فلسفہ پر بہت سا وقت ضائع کیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کا فلسفہ کمزور ہے۔
حضرت اقدسؑ۔ پھر ہم تو یہ کہتے ہیں۔ ؎
اے کہ خواندی حکمتِ یونانیاں حکمتِ ایمانیاں راہم بخواں‘‘
اس کے بعد مہمان بیرسٹرصاحب نے ایثارِ نفس اور عملی حالت کے متعلق سوال کیا جس کا حضور علیہ السلام نے کافی و شافی جواب مرحمت فرمایا۔ اور آخر پر دنیاوی چالاکیوں سے حاصل شدہ ترقیات کے ذکر میں فرمایا: ’’ایسی ترقیوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ترقی وہی مبارک ہو گی جو خدا تعالیٰ کے احکام کی پابندی سے ہو۔ ‘‘(اخبار۔ ’’الحکم‘‘۔ 6؍مارچ 1908ء صفحہ 6۔ملفوظات جلد پنجم صفحہ 283ایڈیشن1988ء)
سر میاں فضل حسین کے بارہ میں اخبار بدر مورخہ24؍مئی 1908ء کے شمارہ سےپتا چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری سفر لاہو رکے دوران آکردوبارہ ملاقات کی سعادت پائی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ 2 وکیل بھی تھے۔ کیونکہ تب تک میاں فضل حسین سیالکوٹ کی بجائے لاہور شہر میں اپنی بطور وکیل اچھی شہرت بنا چکے تھے۔
یہ ملاقات دن 10 بجےہوئی۔ اور ان معزز مہمانوں سے مفصلہ ذیل مکالمہ ہوا۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئندہ کے متعلق ایک بات کہی کہ ایسا کیا جائے گا۔ مگر ساتھ ہی انشاء اللہ فرمایا اوربتلایا کہ انشاء اللہ کہنا نہایت ضروری ہے کیونکہ انسان کے تما م معاملات اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ وہ طرح طرح کے مصائب اورمکارہ وموانع میں گھر اہوا ہے۔ ممکن ہے کہ جو کچھ ارادہ اس نے کیا ہے وہ پورا نہ ہو۔ پس انشاءاللہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو تما م طاقتوں کا سرچشمہ ہے مددطلب کی جاتی ہے۔ آجکل کے ناعاقبت اندیش ونادان لوگ اس پر ہنسی اڑاتے ہیں۔
جماعت کی مخالفت کا فائدہ اور مخالفوں کے سب وشتم کا ذکر تھا۔فرمایا :دیکھو کا شتکاری میں سب چیزوں ہی سے کام لیا جاتا ہے۔پانی ہے۔ بیج ہے۔مگر پھر بھی اس میں کھادڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے جو سخت ناپاک ہوتی ہے۔پس اسی طرح ہمارے سلسلے کے لئے بھی گندی مخالفت کھاد کا کام دیتی ہے۔‘‘
پھر آپ نے اپنی جماعت کے قیام کا مقصد بیان فرمایا اور دوسرے کلمہ گو مسلمانوں سے اپنے اختلاف کی وضاحت فرمائی۔ مختلف امور پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے کھول کر بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس ملاقات کے دوران ایک معزز مہمان نے پوچھا۔ شق القمر کی نسبت حضور کیا فرماتے ہیں ؟
فرمایا :ہماری رائے میں یہی ہے کہ وہ ایک قسم کا خسوف تھا۔ہم نے اس کے متعلق اپنی کتاب چشمۂ معرفت میں لکھ دیا ہے۔
پھر آپ سے معراج کی حقیقت پر سوال کیا گیا۔ اور مسلمانوں کے موجودہ فرقوں میں سے جماعت احمدیہ کی انفرادیت کا پوچھا گیا۔
ملتا ہے کہ پھر اس معزز ملاقات کرنےوالے (مسٹر فضل حسین صاحب بیر سٹر ایٹ لاء )نے عرض کیاکہ اگر تمام غیر احمدیوں کو کافر کہا جائے توپھر اسلام میں توکچھ بھی نہیں رہتا۔فرمایا :’’ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے آپ کو شاید معلوم نہ ہو جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا۔ تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابوسعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کافر ہے، دجال ہے۔ ضال ہے ۔اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ کرے یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کا فر۔ اب سنو یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جومومن کو کافر کہے وہ کافر ہوتا ہے۔پس اس مسئلہ سے ہم کسی طرح انکار کرسکتے ہیں…
اس شخص نے عرض کیا کہ وہ آپ کو کافر کہتے ہیں توکہیں لیکن اگر آپ نہ کہیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟
فرمایا کہ جو ہمیں کا فر نہیں کہتا ہم اسے ہر گز کا فر نہیں کہتے لیکن جو ہمیں کافر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اوریہ ہم سے نہیں ہوسکتا۔ اس شخص نے کہاکہ جو کافر نہیں کہتے ان کے ساتھ نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے ؟
آپؑ نے فرمایا :لَایُلْدَ غُ الْمُوْمِن مِنْ جُحْرٍوَّاحِدٍ مَرَّتَیْنِ۔ہم خوب آزما چکے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل منافق ہوتے ہیں ان کا حال ہے وَاِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّاۚۖ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ(البقرۃ :۱۵)یعنی سامنے تو کہتے ہیں کہ ہماری تمہارے ساتھ کوئی مخالفت نہیں مگر جب اپنے لوگو ں سے مخلّٰی بالطبع ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ان سے استہزاء کررہے تھے پس جب تک یہ لوگ ایک اشتہار نہ دیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ کے لوگوں کو مومن سمجھتے ہیں بلکہ ا ن کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ تومیں آج ہی اپنی تمام جماعت کو حکم دے دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیں۔ ہم سچائی کے پابندہیں…‘‘
اس پر اس شخص نے پھر مکرروہی کہا۔ آپ نے پھر بالتفصیل سمجھا یا کہ
دیکھو۔ پہلے اپنے ملاں لوگو ں سے پوچھ تو دیکھیں کہ وہ ہمیں کیا سمجھتے ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں یہ ایسا کافر ہے کہ یہود ونصاریٰ سے بھی اس کا کفر بڑ ھ کر ہے۔ پس جیساکہ یوسف علیہ السلام کو جب مخلصی کا پیغام پہنچا تو آ پ نے فرمایا۔پہلے ان سے یہ تو پوچھو کہ میرا قصور کیا ہے ؟سوآپ صلح سے پہلے یہ تو پوچھئے کہ ہم میں کفر کی کونسی بات ہے ہم تو جو کچھ کرتے ہیں جو کہتے ہیں سب میں آنحضرت ﷺ کی عظمت، جلا ل وعزت کا اظہارموجود ہے…‘‘
اسی نشست میں آپؑ سے تعلیم نسواں کے متعلق آپ کا نظریہ پوچھا گیا اور سوال کیا گیا کہ ملازمت کیسی ہو؟
فرمایا :’’ملازمت اگر منہیات سے روکے توایک نعمت ہے جو ہر طرح سے قابل شکریہ ہے اوراگر بر خلاف اس کے بدافعال کا مرتکب کرے تو پھر ایک لعنت ہے جس سے بچنا لازم ہے ‘‘۔
اس دلچسپ اور قیمتی نشست کا مکمل احوال ملفوظات جلد 5 صفحہ630 پر پڑھا جاسکتا ہے۔
ملتا ہے کہ جب 9؍جولائی 1936ء کو میاں فضل حسین صاحب کی المناک وفات کا واقعہ پیش آیا تو اگلے دن 10؍جولائی بروز جمعۃ المبارک حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے قادیان میں اپنے خطبہ جمعہ سے قبل موصوف کی خدمات اور شخصیت کا ذکر فرمایا، جو انوار العلوم کی جلد 14 میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔