تین عظیم الشان موعود
تحریر مکرم ملک سیف الرحمان صاحب (مرحوم)
قسط نمبر 4۔ آخری
3۔ اس مسیح موعود ؑ کی صداقت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اُس کے زمانہ میں دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اور غلبہ ہوگا ۔
دجّال اور خرِ دجّال کی حقیقت
بعض مسلمان جس طرح مہدی اورمسیح کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ اسی طرح دجال اوریاجوج ماجوج کی حقیقت کو سمجھنے میں بھی غلطی خوردہ ہیں اوریہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس سے متعلقہ پیشگوئیوں کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں اورپیشگوئیوں کے اس اصول کو بھول جاتے ہیں کہ تعبیر اورتمثیل، استعارہ اورمجاز پیشگوئیوں کا خاصہ ہے اوراس زبان کے اختیار کرنے کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ جس زمانہ میں پیشگوئی کی جاتی ہے اُس زمانہ کے لوگ پیشگوئی میں مضمر اصل حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے۔ نیز ان پیشگوئیوں کا تعلق غیب سے ہوتاہے اوراصل ثواب ایمان بالغیب میں ہے اور جب وہ ظاہر ہوتی ہیں اوران کی اصلیت سامنے آتی ہے تو صادق الایمان فوراً کہہ اُٹھتے ہیں ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ صَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَ مَا زَادَھُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًا (الاحزاب23:)
بہرحال عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ دجّال کوئی مافوق الفطرت عجیب وغریب انسانی وجود ہے جو بڑی تباہ کن، خفیہ، باطنی طاقتوں کا حامل ہوگا اوروہ ایک ایسے گدھے پر سوار ہوگا جس کی طاقتیں بھی اُسی کی طرح غیرمعمولی ہوں گی۔ یہی حال یاجوج ماجوج نامی طاقتوں کا ہوگا۔ یہ سب طاقتیں مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تل جائیں گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ امام مہدی اور مسیح کو بھیجے گا جو پھونکوں سے ان طاقتوں کو تباہ کردیں گے۔ مسیح مزید یہ کام کریں گے کہ وہ صلیبوں کو توڑنے کے لئے شہرشہر، قریہ قریہ پھریں گے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لئے جنگلوں میں نکل جائیں گے اور یہ دونوں بزرگ وجود بیٹھے بٹھائے مسلمانوں کو دنیابھر کی حکومتوں اوردولتوں کا مالک بنادیں گے۔
یہ تصور عجوبہ پسندی اور اَمانی سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اصل حقیقت کیا ہے؟ اس کے لئے بڑے وسیع غور وفکر اورمطالعہ کی ضرورت ہے ۔اِس مضمون میں چند حقائق ہی پیش کئے جاسکتے ہیں۔
لغت کی قریباً تمام کتب میں دجال کے یہ معنے بیان کئے گئے ہیں
’’ اَلدَّجَّالُ طَائِفَۃٌ عَظِیْمَۃٌ تَحْمِلُ الْمَتَاعَ لِلتِّجَارَۃِ ‘‘
(تاج العروس زیر لفظ ’’دَجَل‘‘)
یعنی دجّال ایسے بڑے تاجروں کے گروہوں (تجارتی کمپنیوں ) کا نام ہے جو مالِ تجارت کو اِدھر اُدھر لے جانے کے لئے نقل وحمل کے عظیم وسائل رکھتے ہیں۔
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں دجّال کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے اس بات کو بھی نمایاں طور پر واضح کیا گیاہے کہ مکرو فریب جھوٹ اور کھوٹ ان تجارتی طاقتوں کی سرشت میں داخل ہوگا ۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد1 صفحہ 486 مطبوعہ دارالطباعۃ العامرہ مصر)
اس لغوی تحقیق کے بعد اب اُن روایات کا جائزہ پیش کیا جاتاہے جو دجّال کے خروج اور اُس کے ہولناک فتنہ کے بارہ میں کتب حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔
قریباً تمام قابل ذکر مستند مجموعہ ہائے احادیث اوردوسری کتب دینیہ میں دجال کے آنے کا ذکر موجود ہے۔ ان میں سے ایک صحیح بخاری ہے جس میں یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ہر زمانہ کے نبی نے اپنی اُمّت کو دجّال کے فتنہ سے ڈرایا ہے اورآپ اپنے صحابہؓ کو اس فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دعایا د کرنے اورباقاعدگی کے ساتھ پڑھتے رہنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے ۔
’’ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘
(مسیح کے ایک معنے ملک ملک بہت گھومنے پھرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے والے کے ہیں اسی بناء پر عیسیٰ اور دجال دونوں کو ’’ اَلْمَسِیْح ‘‘ کہا گیا ہے۔ گویا عیسیٰ نیکی پھیلانے اور ہدایت کی شمع روشن کرنے کے لئے سفر میں رہے گا اور اس کے بالمقابل دجّال فحاشی اور بے دینی پھیلانے اور استحصالی اغراض پوری کرنے کے لئے گھومے گا ۔ پس عیسٰی مَسِیْحُ الْخَیْر ہے اور دَجَّال مَسِیْحُ الشَّر )
کہ اے اللہ میں ’’ اَلْمَسِیْحُ الدَّجَّال ‘‘ کے فتنہ سے بچنے کے لئے تیری پناہ چاہتاہوں۔
(بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدّجال )
دَجّال کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث بڑی معنی خیز ہے ۔ اس روایت کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے ۔
ایک مشہور صحابی تمیم الداری ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ایک واقعہ سنایا(غالباً یہ واقعہ ایک خواب یا کشف کی صورت میں تھا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب) جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (باعلام الٰہی) تصدیق فرمائی اور دوسرے صحابہ کے سامنے بھی اسے بیان کیا ۔ اس واقعہ میں حضرت تمیم الداریؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مغربی سمندر کے سفر پر گئے۔ سمندر کی موجیں ان کی کشتی کو ایک جزیرہ کے قریب لے گئیں۔ وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرہ میں جا اترے ۔ اس جزیرہ میں انہوں نے ایک عجیب و غریب خوفناک شکل والی عورت کو دیکھا بالوں کی وجہ سے جس کے نہ منہ کا پتہ چلتا تھا نہ پیٹھ کا۔ اُس عورت نے اپنا نام جسَّاسہ بتایا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الجَسَّاسَہ) اس عورت سے تمیم داری اور ان کے ساتھیوں کی بعض باتیں ہوئیں۔
آخر اُس عورت نے مزید کچھ بتانے سے معذوری کا اظہار کیا اورکہا کہ جزیرہ کے درمیان میں ایک گرجا ہے وہاں جائو وہاں تمہیں ایک آدمی ملے گا جو مزید باتیں تمہیں بتائے گا۔ چنانچہ وہ لوگ گرجامیں گئے جہاں انہوں نے ایک اور خوفناک شخصیت کو دیکھا جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اُس عجیب و غریب شخصیت نے انہیں جو باتیں بتائیں اُن میں یہ بات بھی تھی کہ وہ ’’دجال ‘‘ ہے اور اُسے عنقریب اس جزیرہ سے نکلنے کی اجازت ملنے والی ہے اوروہ یہاں سے نکلنے کے بعد ’’مکہ اور مدینہ ‘‘ کے سوا باقی ساری دنیا پر مسلّط ہوجائے گا۔ (غالباً یہ مغربی طاقتوں کے زبردست نظام جاسوسی کی طرف اشارہ ہے جس میں عورتوں کو خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔) صحیح مسلم کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ دجال کا تعلق بعض مغربی سمندری جزائر کے گرجوں سے ہے جہاں وہ قید ہے (غالباً یہ قسطنطنیہ کی اسلامی حکومت کی طرف اشارہ ہے جس نے ایک مدت تک عیسائی طاقتوں کے پھیلائو کو روکے رکھا۔) اور ایک وقت میں آکر اُسے اس قید سے نکلنے کا موقع ملے گا ۔
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ دجالی فتنہ کا آغاز یورپ کے بعض جزائر سے ہوگا جو عیسائیت کا گڑھ ہوں گے کیونکہ اب جبکہ طبقات الارض کے ماہرین نے بحر و بر کا چپہ چپہ چھان مارا ہے اور سمندر کے سب جزائر کا علم دنیا کو ہوچکا ہے تو آخر وہ جزیرہ کون سا اور کہاں واقعہ ہے جس کے گرجا میں حضرت تمیم داری ؓ نے دجال کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھا اور بعض مسلمانوں کے خیال کے مطابق وہاں وہ ہیبتناک انسان اب بھی پابند سلاسل ہے ۔
مذکورہ بالا وضاحت کے درست ہونے کی ایک اور دلیل وہ حدیث ہے جس میں آتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دجال کے فتنہ سے بچنا چاہتا ہے وہ سورئہ کہف کے ابتدائی اور آخری رکوع کی بکثرت تلاوت کیا کرے ۔
(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدَّجَّال۔ بذل المجہود فی حَلّ ابیْ داؤد باب خروج الدَّجَّال۔ )
اب جب ہم ان دونوں رکوعوں کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ ان میں عیسائیوں کے عقائد ، اُن کے نظریات اور ان کی مادی ترقی پر بحث کی گئی ہے اور ایسے مضامین کو نمایاں کیا گیاہے جن کا یورپین طاقتوں کے کردار سے گہرا تعلق ہے۔
پھر ایسی متعدد روایات بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ آخری زمانہ میں جبکہ مسیح موعود ؑ ظاہر ہوں گے ’’روم‘‘ (یعنی عیسائی طاقتوں) کا غلبہ ہوگا۔ اسی وجہ سے مسیح موعودؑ کا ایک کام یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسر صلیب کا فریضہ سرانجام دے گا۔ یعنی عیسائیت کی تردید میں ناقابل تردیددلائل پیش کرے گا۔
اب ہم دجّال کے گدھے کی حقیقت کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیاہے کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ دجال کا گدھا بھی حیوانی جامہ میں مافوق الفطرت خوفناک طاقتوں کا حامل ہوگا حالانکہ اس ’’گدھے ‘‘ کی جو علامات اور صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس خیال کی تردید کرتی ہیں اور نہ وہ کسی حیوان میں پائی جاسکتی ہیں۔ ان صفات اور علامات سے پتہ چلتاہے کہ یہ ایسے تیز رفتار ذرائع سفر اور مواصلاتی وسائل کی ایجاد کی طرف اشارہ ہے جن کی مثال زمانہ ماضی میں نہیں مل سکتی ۔
(ان ایجادات کو گدھے سے تعبیر کرنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ایجادات حیرت انگیز کا رنامے تو سرانجام دیں گی لیکن عقل و خرد سے عاری ہوں گی۔ کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا)
چنانچہ ریل گاڑیاں، کاریں، بسیں، بحری جہاز، ہوائی جہاز، مختلف قسم کے راکٹ، مصنوعی سیارے، فضائی شٹلز اس زمانہ کی مُحَیِّرُ الْعُقُوْل ایجادات ہیں جن سے انسان حیرت زدہ ہے اور بے اختیار پکار اٹھاہے ۔ ع
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
رہا یہ سوال کی ان ایجادات کو ’’گدھے ‘‘ سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ گزشتہ سامی ادیان میں گدھے کو ’’اقتصادی سمبل ‘‘ کے طور پر پیش کیا گیاہے جیسے بعض آرائی دینوں میں بیل اور گائے کو اقتصادی خوشحالی کا نشان سمجھا جاتا ہے ۔ (زکریا ہ باب 9 آیت 9)
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ایک تمثیل ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سواریاں گدھے کی مانند عقل وفہم سے عاری ہوں گی (کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا) اور اپنے چلانے والوں کے حکم اور ارادہ کے تابع چلیں گی اور بعض کی آواز بھی گدھے کی آواز کی مانند ہوگی۔
اب ہم اُن صفات کی کچھ مزید وضاحت پیش کرتے ہیں جو ’’دجال کے گدھے ‘‘ کی مختلف روایات میں بیان کی گئی ہیں جن سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ کوئی مافوق الفطرت حیوانی گدھا نہیں بلکہ مشینی اور صنعتی دَور کے آغاز کی ایک تعبیر ہے ۔مثلاً
1۔ اس گدھے کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی خوراک آگ اور پانی پر مشتمل ہوگی اور وہ بھاپ کی طاقت سے چلے گا۔
(مرقاۃ شرح مشکٰوۃ کتاب الفتن جلد2 صفحہ 221)
2۔ اس گدھے کی دوسری علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ دھوئیں کے بادل چھوڑے گا ۔
(کنز العمال جلد7 صفحہ 266)
3۔ اس گدھے کی تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کے ایک قدم اور دوسرے قدم کے درمیان کا فاصلہ بھی ایک دن رات، کبھی تین دن رات کا ہوگا ۔بلکہ بعض اوقات وہ اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے سورج کو بھی پیچھے چھوڑجائے گا ۔ (کنز العمال جلد۷ صفحہ 200، 201 حدیث نمبر2110۔ کنز العمال جلد7 صفحہ266، 267۔ بحارالانوار باب علامات ظہورہ علیہ السلام جلد52 صفحہ194 دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان طبع ثالث1983ء)
4۔ اس دجّالی گدھے کی چوتھی علامت یہ ہے کہ اُس میں کھڑکیاں اور دروازے ہوں گے اور اُس کے اندر روشن دیئے جل رہے ہوں گے ۔
(بحار الانوار جلد 52 صفحہ 193)
5۔ اس گدھے کی پانچویں علامت یہ ہے کہ اُس کے دونوں کانوں کے درمیان ستّر گز کا فاصلہ ہوگا۔(مشکٰوۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ الفصل الثالث صفحہ 477۔ کنز العمال جلد7 صفحہ 201) (یہ غالباً اُس سمعی رابطہ کی طرف اشارہ ہے جو ڈرائیور اورکنٹرولر کے درمیان قائم ہوتاہے)
6۔ اس دجّالی گدھے کی چھٹی علامت یہ ہے کہ وہ خشکی اور تری دنوں پر بڑی تیز رفتاری سے چلے گا ۔(تنویر القلوب صفحہ68 مؤلفہ الشیخ محمد امین الکردی طبع سادس مطبعۃ السعادۃ مصر 1348ھ ۔ نزھۃ المجالس جلد1 صفحہ109 مطبوعہ مطبع میمنیہ مصر 1306ھ) (یہ زمینی اوربحری دونوں ذرائع مواصلات کی طرف اشارہ ہے)
7۔ اس گدھے کی ساتویں علامت یہ ہے کہ وہ چیخ مار کر لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا۔(بحار الانوارباب علامات ظہورہ علیہ السلام جلد 52 صفحہ194 نیز کنز العمال جلد۷ صفحہ267)(یہ روانگی کے ہارن یا سائرن کی طرف اشارہ ہے)
8۔ اس عجیب وغریب گدھے کی آٹھویں علامت یہ ہے کہ اُس کے درمیان سواریاں بیٹھیں گی۔
(کتابُ تنویرُالقلوب صفحہ68مؤلفہ محمد امین الکردی الطبعۃ السادسہ مطبوعہ مطبعۃ السعادۃ مصر 1348ھ۔ سورئہ العادیات میں بھی ایسی سواریوں کی طرف اشارہ ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصّواب)
گدھے کی ان صفات پر جو مختصراً بیان کی گئی ہیں غور کرنے سے صاف پتہ چلتاہے کہ یہاں کسی حیوانی گدھے کا ذکر نہیں ہورہا بلکہ تمثیل کے رنگ میں اُس دجالی دور کی ایجادات اورطرح طرح کی نئی مشینی سواریوں کو بیان کیا جارہاہے ۔ کوئی سمجھدار اورعقلمند انسان یہ خیال بھی نہیں کرسکتاکہ یہ کسی حیوانی گدھے کی صفات اورخصوصیات ہوسکتی ہیں۔
یہ اعتراض کہ اس زمانہ کی مختلف ایجادات اورخاص طور پر سواریوں کو اگر دجال کی صنعت گری اوراس کا گدھا سمجھا جائے تو پھر مسلمان اوردوسری دنیا والے ان سے فائدہ کیوں اُٹھا تے ہیں ۔کیا دجال کے گدھے پر سوار ہونا کوئی اچھی بات ہے اورکیا دنیا کی بھلائی ان سے وابستہ ہوسکتی ہے۔ انہیں تو دین ودنیا کی تباہی قرار دیا جانا چاہئے ؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں خیروشر کے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ کوئی چیز بھی اپنی ذات میں بری نہیں ہوتی بلکہ مقصد اوراستعمال کے لحاظ سے اُس میں بھلائی یا برائی کا وصف پیدا ہوتاہے ۔کسی چیز کو اچھے کام کے لئے استعمال کریں تو وہ چیز اچھی شمار ہوگی اوراگر بُرے کام کے لئے استعمال کریں تو ساری دنیا اُسے بُرا کہے گی۔
پس چونکہ دجّالی قوتوں نے اپنی ان صنعتوں اورایجادوں کو استحصال اورتسلُّط اورتغلُّب اور فحاشی اور بے دینی پھیلانے کے لئے استعمال کرنا تھا اس لئے الہامی کتب میں ان کا ذکر شناعت اور برائی کے رنگ میں ہوا ہے ۔ ورنہ اپنی ذات میں یہ صنعتی اور علمی ترقی انسانیت کے فائدہ اور اس کی بہبود کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔
یاجوج ماجوج کے معنی بھی ایسی طاقتوں کے ہیں جو آگ سے کام لینے میں ماہر ہوں خاص طور پر ان کا فلسفہ تشدّد اور تخریب پسندی کے نظریات پر مبنی ہو۔ پس یہ نام ان قوموں کو دیا گیا ہے جو اپنے نظریات کے فروغ کے لئے تشدّد کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہیں جیسا کہ اشتراکی طاقتوں کا اندازِ فکر ہے۔
بعض روایات اورسابقہ الہامی صحیفوں سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ دجال کا خروج دو دفعہ ہوگا۔ پہلی دفعہ مختصر عرصہ کے لئےاوردوسری دفعہ بڑے لمبا عرصہ کے لئے چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا ہے۔
حسب پیشگوئی( مکاشفہ یوحنا باب 26 آیت 1 تا13 ۔ اعلام النبوۃ صفحہ 35 مصنفہ علی بن محمد الماوردی مطبوعہ مصر۔)480ھ بمطابق 1097ء میں پہلی دفعہ دجال کا ظہور صلیبی جنگوں کی شکل میں ہوا جن میں مغربی عیسائی حکومتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ یہ جنگیں قریباً دوسو سال تک کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کے لئے مصیبت بنی رہیں(قریباً قریباً اسی زمانہ میں مشرق کی طرف تاتاری فتنہ کا آغاز ہوا جو بالآخر بغداد کی تباہی اورعباسی خلافت کے خاتمہ پر منتج ہوا۔ تاہم ان علاقوں میں اسلام کی روحانی تلوار کے سامنے تاتاری مغلوب ہوگئے اوربعد میں ان علاقوں کے ترکوں کو اسلام کی تاریخ ساز خدمت کی توفیق ملی۔) اورآخر سلطان صلاح الدین ایّوبی کے دور میں بڑی حد تک ان جنگوں کا خاتمہ ہوا لیکن عیسائیت کی اس یلغار کی پسپائی کے بعد مغرب کی مسیحی اقوام نے مشرقِ وسطی اوردوسری مسلم دنیا پر تسلط حاصل کرنے کے لئے اپنی پالیسیاں بدل دیں اورمسلمانوں سے براہ راست تصادم کی پالیسی ترک کرکے دوسرے اقتصادی صنعتی اورعلمی حربے استعمال کرنے شروع کردیئے ۔
چنانچہ حسب پیشگوئی 1486ء کے قریب ان اقوام کی طرف سے بحری مہموں کا آغاز ہوا جن کی وجہ سے مغربی استعماری طاقتیں آہستہ آہستہ افریقہ اور ہندوستان کے بحری راستے معلوم کرکے آگے بڑھنے لگیں اور پھر وہ تجارت کے بہانے اکثر افریقہ، قریباً سارے ایشیا اور سارے امریکہ میں پھیل گئیں۔اسی تسلسل میں 1857ء کے بعد برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں نے سارے مسلم ہند پر تسلط حاصل کرلیا۔
بہرحال بائبل اور قرآن کریم کے مطالعہ اور دوسرے تاریخی خزائن کی جانچ پڑتال سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دجال سے مراد مغربی استعماری طاقتیں ہیں جن کا ایک الگ دینیاتی نظام ہے۔ وہ صنعت و حرفت میں بھی سب سے آگے ہیں۔ اوریاجوج ماجوج سے مراد اشتراکی نظام کی حامل حکومتیں ہیں کیونکہ یہ تشدّد پسندانہ انقلابی تحریکات کی حامی بلکہ روح رواں ہیں۔ دوسرے اس انقلابی نظام نے جن اقوام میں فروغ پایا ہے قدیم نوشتوں میں انہیں یاجوج ماجوج کا نام دیا گیا ہے ۔
(حزقی ایل باب38 آیت2)
آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے جہاں دجّال اور یاجوج ماجوج کے ظہور کی یہ پیشگوئی کی وہاں مسلمانوں کو یہ خوشخبری بھی دی کہ ان نازک اور تباہ کن حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مُنجّی کو بھیجا جائے گا جس کا ایک لقب مہدی ہوگا اور دوسرا مسیح۔ جس کی رہنمائی اور روحانی جذب کی برکت سے مسلمان بالخصوص اور ساری دنیا بالعموم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے گی اور دنیوی برکات کی نعمتوں سے بھی وہ مالا مال ہوجائے گی ۔پس جبکہ اُس کے نزول کی ساری علامات پوری ہوچکی ہیں اور اس کی بعثت کا وقت آچکا ہے تو وہ جو اس مقام بعثت کا مدعی ہے اس کی سچائی کے دلائل پرکیوں غور نہ کیا جائے ؟
یہ حالات ایسے تھے کہ ساری مذہبی دنیا ایک ہادی اور مُرسَل کے انتظار میں تھی اور مسلمان بھی اس انتظار میں شامل تھے اور مسلمانوں کے مذہبی رہنما انیسویں صدی کے آخر میں پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کا یہی زمانہ ہے لیکن آنے والا جب وقت پر آیا تو اکثر علماء منکر ہوگئے اوراُس عظیم موعود کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا اورقرآنی وعیدیٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ (یٰس31:) کے مورد بن گئے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ان ساری علامات کے وقوع کے وقت مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ سوائے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کے کسی اور نے نہیں کیا ۔ اگر اس دعویٰ میں آپ سچے نہیں تو پھر اور کون ہے جس نے تقاضہء وقت کے عین مطابق اور ساری علامات کے پورا ہونے کے بعد اس منصب کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ مہدی اور مسیح کے آنے کا وقت تو ہے۔ کسی کو تو آنا چاہئے جو اسلام کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہو ۔
4۔ ’’مسیح موعود‘‘ کی صداقت کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ آپ نے دعویٰ کے بعد دنیا کو یہ چیلنج دیا کہ دعویٰ سے پہلے کی میری زندگی پرغور کیا جائے اگر اُس میں کوئی عیب نہیں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں یکلخت بیٹھے بٹھائے ایک ایسے جھوٹ کا مرتکب بن جائوں جو اللہ تعالیٰ کے ہا ں موجب غضب و قہر ہے ۔
صداقت کا یہ وہ معیار ہے جواللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے سامنے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت پرکھنے کے لئے پیش فرمایا ۔(یونس17:۔ اس آیت کا ایک حصہ یہ ہے۔ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ)
پس آپؐ کے غلام نے بھی آپؐ کی پیروی میں دنیا کے سامنے یہی دلیل پیش کی کہ کون ہے جو میری پہلی زندگی میں کوئی عیب یا کھوٹ ثابت کرسکے ۔ آپ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں ۔
’’تم کوئی عیب، افترا یا جھوٹ یا دغا کا میری زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں سے ہے جو میرے سوانح زندگی پر کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ64)
آپ کے اس چیلنج کا کوئی مخالف سامنا نہ کرسکا اور کئی ایک نے اعتراف کیا کہ آپ واقعی پرہیز گار اورمتقی انسان ہیں۔ بطور مثال آپ کے ہم وطن مشہور اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کے بارہ میں شہادت دی کہ
’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے، مؤلف صاحب جو ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملّا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب۔ … مؤلف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربہ کی رو سے (وَ اللّٰہُ حَسِیْبُہٗ) شریعت محمدیہ پر قائم، پرہیز گار، صداقت شعار ہیں ‘‘ ۔
(اشاعۃ السنہ جلد 7 صفحہ6تا9)
اسی طرح اخبار زمیندار کے مدیر مولاناظفر علی خان صاحب کے والد ماجد مولوی سراج الدین نے اپنے اخبار زمیندار میں لکھا۔
’’مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اُس وقت آپ کی عمر 22یا 24 سال ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اورمتقی بزرگ تھے ۔کاروبار ملازمت کے بعد اُن کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو اور مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے‘‘۔
(اخبار زمیندار جون 1908ء ۔ بدر 25 ؍ جون 1908ء صفحہ 13)
5۔ آپؑ کے سچا ہونے کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ آپ نے دعویٰ کے بعد ہزارہا مخالفتوں کے باوجود 23 سال سے زیادہ عرصہ بڑی کامیاب اور بامراد زندگی بسر کی۔ آپ کی یہ شاندار کامیابی آپ کی صداقت کی بڑی زبردست دلیل ہے کیونکہ یہ معیار صداقت بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لئے بیان فرمایا ہے اور کہا ہے ۔
’’اگر یہ مدعی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے دعویٰ میں سچا نہ ہوتا اور مجھ پر افترا کرتے ہوئے میری طرف وہ باتیں منسوب کرتاجو مَیں نے نہیں کہی ہیں تو مَیں اس کی رگِ جان کاٹ دیتا ‘‘ ۔(الحاقۃ45:تا48۔ ان آیات کا ایک حصہ یہ ہے۔وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ)
پس یہ دلیل صداقت آپ کے غلام نے بھی اپنی سچائی کے لئے پیش کی۔ یعنی جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے دعویٰءِ ما ٔموریت کے بعد 23 سال تک کامیاب وکامران زندگی بسر کی ۔ شاندار فتوحات حاصل کیں ۔دشمنوں کو زیر کیا اورکوئی مخالف آپ کا بال بیکا نہ کرسکا اسی طرح آپ کے غلام مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعویٰ کے بعد تیس سال سے زیادہ عرصہ تک عظیم کارناموں کی توفیق پائی اوراپنا کام مکمل کرکے 1908ء میں کامیاب وکامران اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔
6۔ آپ کے اپنے دعویٰ میں سچا ہونے کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ یہ مسلّمہ اصول ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتاہے اور اس کی افادیت اُس کے شیریں ثمرات کے لحاظ سے مانی جاتی ہے سو اسی اصول کے مطابق جب ہم آپ کے کام کے نتائج کو دیکھتے ہیں اور آپ کے کارناموں کو پرکھتے ہیں تو ثابت ہوتاہے کہ آپ نے دینی اور تنظیمی دائرہ میں ایسے عظیم النتائج شاندار کام کئے جن کی افادیت اور عظمت کو دوست و دشمن نے تسلیم کیا۔ مثلاً
الف۔ آپ کے بڑے کارناموں میں سے ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے دنیا کو قرآنی معارف و حقائق کی طرف متوجہ کیا اور تفسیر قرآن کا ایسا بلند معیار پیش فرمایا کہ جس کی مثال سابقہ تفاسیر میں نہیں ملتی۔ آپ کی کتب ’’براہین احمدیہ‘‘ ، ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ وغیرہ کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کردے گا۔
آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اس سلسلہ میں آپ نے وہ اصول بھی واضح فرمائے جن کی بنا پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ساری قرآنی آیا ت اپنے موقع ومحل کے مطابق ہیں اورکسی آیت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔
تفسیر قرآن کے اصول بیان کرنے کے علاوہ آپ نے مخالفین اسلام کے سامنے دینِ اسلام کی صداقت کے لئے ایسے زبردست دلائل اور براہین پر مشتمل علم کلام پیش کیا کہ مخالف اُن دلائل کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے۔ نیز آپ نے اپنے منصب کے عین مطابق زبردست براہین کے ساتھ عیسائی عقائد کا بُطلان ثابت کیا اور ایک نئے انداز میں کسر صلیب کا فریضہ سرانجام دیا ۔مثلاً
عیسائیوں کا ایک بنیادی عقیدہ ’’کفّارہ ‘‘ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نسلِ آدم نے ورثہ میں گناہ پایا اور چونکہ و ہ اس موروثی گناہ سے نجات نہیں پاسکتی اس لئے خدا نے ’’محبت ِ انسانیت ‘‘ کے ناطے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ وہ صلیب پر اپنی جان دے کر اور لعنتی موت قبول کرکے دنیا والوں کے گناہ اپنے ذمہ لے لے ۔
آپ نے بائبل ، قرآن کریم، احادیث اور دوسرے تاریخی ذخائر سے اس بات کو ثابت کیا کہ قطع نظر اس کے کہ نسلِ آدم نے گناہ ورثہ میں پایا یا نہیں پایا ۔ مسیح خدا کا اکلوتا بیٹا ہے یا نہیں وہ در حقیقت صلیب پر فوت ہی نہیں ہوا کہ اُس کے لعنتی موت مرنے یا نسل آدم کے گناہوں کو اپنے ذمہ لینے کا سوال پیدا ہو۔ اس لئے عیسائیوں کے عقیدہ کفّارہ کی بنیاد ہی غلط ہے۔
اسی طرح آپ نے تثلیث اور ا بنیت کے عقیدہ کا بطلان بھی ثابت کیا۔ آپ کے پیش کردہ یہ دلائل اس قدر زبردست تھے کہ عیسائی علماء اورپادری ان دلائل کا سامنا کرنے کی ہمت ہی نہ پاسکے اور گھبرا کر انہوں نے بطور پالیسی یہ وطیرہ اختیار کرلیا کہ اس بارہ میں احمدیوں سے کوئی بات ہی نہ کی جائے سچ ہے ۔ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔
غرض اسلام کی صداقت ثابت کرنے اورمخالف اسلام طاقتوں کو پسپا کرنے کے لئے آپ نے جو زبردست علمی اور روحانی دلائل پیش فرمائے۔ موافق اور مخالف سب نے اُن کا اعتراف کیا۔
چنانچہ اخبار وکیل نے آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ۔
’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو ۔وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا ۔جس کی نظر فتنہ اور جس کی آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور ِ قیامت ہوکے خفتگانِ خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا … مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اُس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کرکے صبر کرلیا جائے ۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا کے کسی حصہ میں انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں ۔ ……
ان کی (میرزا صاحب کی) یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے۔ … مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کرچکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ ……غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ اُن کے شعار ِ قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا ۔(اخبار بدر مورخہ 18؍ جون1908ء صفحہ2، 3)
ب۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کارناموں میں سے دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نظم وضبط، اتحاد و اتفاق اور اس کی برکات کے شعور کو عملی شکل دی اور نیک مقاصد اور دنیا کی دینی بہبود کے لئے ایک عظیم الشان منظم جماعت کی بنیاد رکھی (یوم تأسیس جماعت 23؍مارچ1889ء) جس کا نصب العین یہ ہے کہ اس جماعت کے افراد پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں پھر ساری دنیا کے لئے دعوت الی الخیر کا فریضہ سرانجام دیں۔ چنانچہ یہ عظیم الشان تنظیم جو جماعت احمدیہ کے نام سے مشہور ہے روزِ قیام سے ہی اپنے امامِ وقت کی رہنمائی میں مسلسل اس نصب العین کی طرف رواں دواں ہے
اس جماعت کی عظمتِ کردار کا یہ ثبوت کافی ہے کہ علّامہ اقبال نے بھی اس جماعت کو اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ قرار دیا۔ اور مشہور احراری لیڈر چوہدری افضل حق صاحب نے لکھا
’’آریہ سماج کے معرضِ وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی حس مفقود ہوچکی تھی۔مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہوسکی ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہوکر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے بڑھا … اوراپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کرگیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقو ں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے‘‘۔
(فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں طبع دوم صفحہ 24)
مشہور ہندو اخبار تیج دہلی نے جماعت احمدیہ کے اثرورسوخ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا
’’تمام دنیا کے مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ ٹھوس اورمؤثر اورمسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت جماعت احمدیہ ہے…بلا مبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقع پاکر ہمیں جھلس دے گی‘‘۔
(’’اخبار تیج ‘‘ 25 ؍ جولائی1927ء)
مشہور پادری ڈاکٹر زویمرنے ایک مضمون لکھا جو چرچ مشنری ریویو آف لندن میں شائع ہوا اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیاہے اور ایک زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلادیتاہے ۔‘‘
ج۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کارناموں میں سے تیسرا بڑا کارنامہ ’’خلافت علٰی منہاج النّبوۃ ‘‘ کا قیام ہے۔ اس خلافت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اگر تم سچا ایمان پیداکرو گے اور نیک اعمال بجالائو گے تو تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی جائے گی (النور56:)۔ چنانچہ خلافت کی اسی اہمیت کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معًا بعد آپ ؐ کے صحابہ ؓ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نظام خلافت قائم کرکے اُس کے لئے خلیفہ راشد منتخب کیا ۔ اس انتخاب میں حسب وعدہ الٰہی بذریعہ وحی خفی تصرف اورروحانی رہنمائی کا دخل تھا ۔
خلیفہ راشد کا اصل دین کی تبلیغ اوراس کا استحکام اور مسلمانوں کی روحانی ، اخلاقی اورتمدنی رہنمائی ہے۔ حکومت اورسیاست توضمنی چیز ہے ۔یہ میسر آئے یا نہ آئے اس سے خلافت کے اصل فرائض پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
قرآن کریم نے وعدئہ خلافت کے ضمن میں جو یہ فرمایاہے کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْاس میں اس طرف اشارہ ہے کہ سابقہ دینی جماعتوں میں جو تنظیمی صلاحیتیں ہیں ان کے انداز پر بھی غور کرو ۔ مثلاً پاپائیت۔ جو ایک رنگ میں مسیحی دین کی خلافت ہے باوجود سینکڑوں خرابیوں کے اپنے اندر ایسی کوئی خوبی ضرور رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ دو ہزار سال سے قائم و دائم ہے۔ اس میں کیا راز ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر کبیر میں نظامِ خلافت پر بحث کرتے ہوئے اس راز کی اس طرح نشان دہی کی ہے۔
’’پہلی قوموں میں یہودیوں کے علاوہ عیسائی قوم بھی ہے جس میںخلافت بادشاہت کے ذریعہ نہیں آئی بلکہ اُن کے اندر خالص ’’دینی خلافت ‘‘ تھی ۔ پس کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْمیں پہلوں کے طریق انتخاب کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی اس کی تصدیق کرتاہے آپ کا الہام ہے ’’کلیسیا کی طاقت کا نسخہ ‘‘(تذکرہ صفحہ 527 مطبوعہ 2004ء)یعنی کلیسا کی طاقت کی ایک خاص وجہ ہے کہ اس کو یاد رکھو۔ گویا قرآن کریم نے کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْکے الفاظ میں جس نسخہ کا ذکر کیا ہے الہام میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس طرح وہ لوگ اپنا خلیفہ منتخب کرتے ہیں اُسی طرح یا اُس کے قریب قریب تم بھی اپنے لئے خلافت کے انتخاب کا طریقہ ایجاد کرو‘‘۔(تفسیر کبیر ’’ تفسیر سورۃ النور ‘‘ آیت 56)
د۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارناموں میں سے چوتھا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ’’عملی جہاد‘‘ کا حقیقی معنوں میں احیاء کیا ۔عام مسلمان صرف لفظاً جہاد کے قائل تھے نہ کوئی عمل تھا اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری بلکہ وہ تو دین کے لئے قربانی پیش کرنے اور جہاد کے لئے تیاری کرنے کی بجائے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ جب مسیح اور مہدی آئیں گے تو وہ خود مسلمانوں کے مصائب کا مداوا اس رنگ میں کریں گے کہ محض روحانی طاقت اور منہ کی پھونکوں سے ان کے دشمنوں کو نیست ونابود کردیں گے ۔ سب ملتوں کو مٹادیں گے ۔ وہ غیر مسلموں کے مذہبی نشان مثلاً عیسائیوں کی صلیب کو توڑ پھوڑ دیں گے اور پھر ساری دنیا کی دولتیں نام کے مسلمانوں کے قدموں میں لا ڈالیں گے اوراس طرح مسلمان دنیا بھر کی حکومتوں کے مالک بن جائیں گے ۔ یہ تھی مسلمانوں کی خیالی دنیا اور اَمَانِی سے بھری سوچ جس کے غلط ہونے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی اور بتایا کہ آنے والے مسیح اورمہدی میں خواہ کتنی ہی روحانی طاقتیں ہوں ۔وہ بہرحال اپنے آقا سردار دوجہاں حضرت محمد مصطفٰے صلے اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں ۔ پس جبکہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم کو کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاں گسل محنت اور جدوجہد کرنی پڑی، بے مثل جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنی پڑیں، اور آپ کے صحابہ ؓ نے اس راہ میں جس طرح سرفروشی کے کارنامے دکھائے تاریخ عالم میں ان کی مثال نہیں ملتی کیونکر وہ محنت کے پسینہ میں نہاکر اور خون کے دریا میں سے گزر کر اپنے اعلیٰ مقاصد تک پہنچے اور اصلاح خلق کا فریضہ بجالائے تو پھر اور کون ہے جو صرف روحانی پھونکوں اورمنہ کی باتوں سے دینی انقلاب لے آئے اورہولناک طاقتوں کو ہاتھ کے اشارہ سے نیست ونابود کردے ۔
غرض آپ نے دنیا خاص طور پر مسلمانوں کو اصل حقیقت کی طرف توجہ دلائی اور’’عملی جہاد‘‘ پر یقین رکھنے والی ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جو صحابہؓ کی مانند اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرتی چلی جارہی ہے۔ آپ نے اس جماعت کے اندر اپنی روحانی قوت اورخداداد جذب کے ذریعہ یہ یقین اورجذبہ پیدا کیا کہ محنت اور قربانی۔ اتحاد اوراتفاق ۔وسائل کے اندر رہتے ہوئے عقلمندی اورصبر واستقلال کے ساتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا کئے بغیراللہ تعالیٰ کے ’’خاص فضل ‘‘ حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی(النجم40:)۔
آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ دنیا میں سربرآوردہ ہونے کے لئے جن اخلاق اورصلاحیتوں کی ضرورت ہے انہیں اختیار کیا جائے۔ بات کرنے کا سلیقہ اوردوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ دین کی اشاعت اورپاک تربیت کے لئے صلاحتیں صرف کرنے کے لئے جس توازن کی ضرورت ہے اُسے اپنا کر ہی یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
کامیاب تربیت کے لئے یہ امتیاز ضروری ہے کہ کونسے مرحلہ میں طاقت کا استعمال ہونا چاہئے اورکونسے مسائل کی ترویج کے لئے وعظ ونصیحت اورحکمت وموعظت سے کام لینا چاہئے اورکونسے کام کاکونسا وقت ہے۔ یہ ساری خوبیاں ایک ترقی پذیر روحانی جماعت کے اندر دینی معاشرہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں ۔
(اس روحانی و دینی اور تربیتی پروگرام کی تفصیل جاننے کے لئے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ ضروری ہے)
پس اگر دنیا ئے اسلام جہاد کی عملی اہمیت کو سمجھ لے، اتحاد اور اتفاق کی نعمت کو پالے، صبر اور جذبات کی قربانی پیش کرنے کا ملکہ اپنے اندر پیدا کرلے اور قوت ِ ایجاد کے فقدان کا تدارک کرسکے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل حقہ سے لیس ہوکر بحیثیت اجتماعی فریضۂ تبلیغ کی طرف متوجہ ہوتو لادینی طاقتیں اس کے سامنے بالکل ہیچ ہوجائیں اوروہ اپنی علمی کمزوری اور روحانی درماندگی کو پہچان کر بڑی تیزی کے ساتھ گروہ درگروہ ’’حق‘‘ کی طرف دوڑنا شروع کر دیں ۔
اس وقت علمی تبلیغ کے زیادہ مؤثر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام خود اُن خوبیوں سے عاری ہے جن کی طرف اسلام بلاتاہے۔ اس وقت نمونے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ امن و سلامتی کا نمونہ ۔ اخلاقی برتری کا نمونہ۔ صبر و رضا کا نمونہ ۔ قناعت و کفایت کا نمونہ۔ دیانت و امانت کا نمونہ ۔ محنت و سعی کا نمونہ۔ حوصلہ اور استقلال کا نمونہ۔ مصائب میں بھی دوسروں کے کام آنے کا نمونہ ۔ یہ نمونے بڑی زبردست طاقت ہیں اور یہ طاقت حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ اپنے خلیفہ راشد کی قیادت میں آہستہ آہستہ آگے بھی بڑھ رہی ہے اوراپنے مولا کریم کے حضور دست بہ دعا بھی ہے۔
(قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاَ وَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا وَ اللہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ وَ ھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔(الرعد46:)
حضرت مسیح آخر الزمان ومہدیٔ دوران علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
’’ اے تما م لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیش گوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا ۔خدا اس مذہب اوراس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کی فکر رکھتاہے نامراد رکھے گا۔ … اگر اب وہ مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان؟ کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا۔ پس ضرور تھا کہ ’’ مسیح موعود‘‘ سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّاکَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ (یٰس31:)۔ پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا ۔ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتاہے کہ ’’مسیح موعود‘‘ کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے
یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا ۔ ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسٰی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسٰی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰی اب تک آسمان سے نہ اُترا ۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسٰی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہوکر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ یں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے ‘‘ ۔
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ66،67)
٭…٭…٭