الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

(مرتبہ محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 جون2012ء میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب کا ایک مختصر مضمون شاملِ اشاعت ہے۔ یہ مضمون 20مارچ 2012ء کی اخبار روزنامہ ’’جنگ‘‘ لندن میں شائع ہونے والی اُس تحقیقی رپورٹ کے حوالہ سے قلمبند کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ چہرے کے تأثرات انسان کے اندر کی حقیقت عیاں کرتے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہرینِ نفسیات نے مختلف ملکوں کے ٹیلی ویژن پر آنے والے 52 افراد کے چہروں کی حرکات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا۔ یہ افراد لاپتہ لوگوں کی واپسی کی اپیل کررہے تھے ان میں سے نصف جھوٹ بول رہے تھے جن کو بعد میں قتل کے جرم میں سزائیں ہوئیں۔ تمام جھوٹے افراد کو ان کے جسمانی تأثرات (بشمول ڈی این اے شواہد) پر سزائیں ہوئیں۔ اس ریسرچ سے یہ ثابت ہوا کہ فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے جبکہ جھوٹے اپنے چہرے کے تأثرات کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ ماہرین نے انسانی چہرے کے پانچ مسلز کا تجزیہ کیا جس میں لوگوں کے مختلف ردّعمل اور غم وغیرہ کو بھی جانچا گیا۔ جھوٹ بولنے والوں کے تأثرات دوسروں سے مختلف تھے۔

اس تحقیق کا لب لباب مرکزی نکتہ اور ماحصل یہ فقرہ ہے ’’فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے۔‘‘

مضمون نگار نے اس تحقیق کی تائید میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابرکت زندگی سے چار واقعات پیش کئے ہیں۔

٭ جناب ابوسعید عرب صاحب اوّل اوّل ایک بڑے آزاد مشرب اور نیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ حضرت اقدس کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ نے انہیں سلسلہ کی طرف متوجہ کیا اور حضرت مسیح پاک کی محبت کا تخم آپ کے دل میں جما دیا۔ ان کی حضرت اقدس سے ایک گفتگو کا ذکر ملفوظات نمبر چار میں ملتا ہے۔

’’عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ کی تصویر کو پیش کیا۔ وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے پھر میں نے اور تصاویر بعض سلاطین کی پیش کیں۔ مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مدح کا کلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخص ہرگز جھوٹ بولنے والا نہیں۔‘‘

٭ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ’’سیرت طیّبہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں

بیان کیا کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جا رہا تھا۔ راستہ میں بارش آگئی۔ مَیں اور میرا ساتھی یکّہ سے اتر آئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اُس نے روکا اور ان کی باہم تکرار ہوگئی اور مالک مکان گالیاں دینے لگا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا۔ جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ مَیں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا۔ نہ مَیں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔

٭ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید فرماتے ہیں

غالباً 1915-16ء کی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ۔اے۔ والٹر تشریف لائے۔ ان کے ساتھ لاہور کے ایف سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹر لوکاس بھی تھے۔ مسٹر والٹر ایک کٹر مسیحی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کرنا چاہتے تھے جب وہ قادیان آئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہے اور دوران گفتگو میں کچھ بحث کا سا رنگ پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ کیا اور بالآخر مسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بانیٔ سلسلہ کے کسی پرانے صحبت یافتہ عقیدت مند کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعودؑ کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑا صاحبؓ سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ اس وقت منشی صاحب مرحوم نماز کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ ’’آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کو کس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا؟ ‘‘

حضرت منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا ’’میں حضرت صاحب کو ان کے دعویٰ سے پہلے جانتا ہوں میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا۔ ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ ہم تو ان کے منہ کے بھوکے تھے۔‘‘

یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں بے چین ہوکر اس طرح رونے لگے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا تھا اور وہ محو حیرت ہو کر منشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور ان کے دل میں منشی صاحب کی اس سادہ بات کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’احمدیہ موومنٹ‘‘ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ ’’مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثر پیدا کیا ہے اسے ہم دھوکے باز ہر گز نہیں کہہ سکتے۔‘‘

٭ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓمزید فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ جو فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کی طب کا شہرہ سن کر آپ سے علاج کرانے کی غرض سے قادیان آیا۔ یہ شخص حضرت مسیح موعودؑ کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا اور اس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلہ سے باہر لیا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے علاج سے اسے خدا کے فضل سے افاقہ ہوگیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار ہوا تو اس کے ایک احمدی دوست نے اسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعودؑ کو تو دیکھنا پسند نہیں کیا مگر ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ۔ وہ اس بات کے لئے رضامند ہوگیا مگر یہ شرط کی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد دکھاؤ کہ جب حضرت مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں چنانچہ یہ صاحب انہیں ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی۔ مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ادھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور ادھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے۔ جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعودؑ پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بے تاب ہو کر حضور کے قدموں میں آگرا اور اسی وقت بیعت کرلی۔

پس حق تو یہی ہے کہ جیسے حضرت مسیح پاکؑ نے اپنے ایک عارفانہ شعر میں فرمایا ہے

صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں

اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار

…ژ…ژ…ژ…

محترم شیخ امام الدین صاحب کی قبول احمدیت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 مئی 2012ء میں مکرم شریف احمد علیانہ صاحب نے اپنے والد اور چچا کے قبولِ احمدیت کے واقعات بیان کئے ہیں۔

مکرم شیخ میاں غلام حسین صاحب آف کمالیہ (ضلع فیصل آباد) کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑے بیٹے محترم شیخ میاں امام الدین صاحب کی اپنے رشتہ داروں سے کچھ ایسی ناراضگی پیدا ہوئی کہ انہوں نے اُس مسجد میں نماز پڑھنی بھی ترک کردی جس میں اُن کے رشتہ دار نماز ادا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ سعید فطرت تھے اور اس اسلامی حُکم کو جانتے تھے کہ نماز باجماعت پڑھنی چاہئے اس لئے احمدیہ مسجد میں نمازیں ادا کرنے لگے۔ احمدی انہیں تعجّب سے دیکھتے لیکن احمدیوں کے امام الصلوٰۃ حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ نے احمدیوں کو ہدایت کردی تھی کہ کوئی ان سے مسائل وغیرہ سے متعلق بات نہ کرے۔

اُس وقت محترم شیخ امام الدین صاحب کا سیّدوالا کے مرکزی بازار میں جنرل سٹور تھا۔ ایک روز آپ دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک احمدی دوست وہاں آگئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ایک سال سے آپ ہمارے ساتھ نمازیں ادا کررہے ہیں، اب بیعت بھی کرلیں۔ اس پر آپ نے سختی سے جواب دیا کہ تُو کیا سمجھتا ہے کہ مَیں مرزا صاحب کو سچّا سمجھتا ہوں! مَیں تو اس لئے نماز آپ کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں کہ نماز میں کوئی فرق نہیں ہے اور اب تہجّد بھی پڑھا کروں گا۔ دوست نے کہا کہ ایک بار قادیان بھی چلیں۔ اس پر آپ نے کہا کہ قادیان میں کیا پڑا ہے جو کچھ قرآن میں موجود ہے۔ اگر قرآن نے مجھے بتایا تو مجھے مرزا صاحب کے ماننے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اُس دن آپ گھر آئے تو یہ فیصلہ کرلیا کہ اب تہجّد بھی باقاعدہ پڑھیں گے اور قرآن پر تدبّر بھی کیا کریں گے۔ چنانچہ تہجّد میں رو رو کر دعائیں شروع کردیں کہ اگر مرزا صاحب سچّے ہیں تو اللہ مجھے اُن کو ماننے کی توفیق دے۔

ایک روز آپ نے حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ کی خدمت میں کسی آیت کی تفسیر پوچھی اور جواب ملنے پر اُسی دن یعنی 15 جنوری 1915ء کو بیعت کرلی۔ اُس وقت تک آپ کے والد صاحب وفات پاچکے تھے۔ تاہم دیگر رشتہ داروں کو آپ کی بیعت کا علم ہوا تو آپ کی مخالفت شروع ہوگئی۔ جب اس کا علم فیصل آباد میں زیرتعلیم آپ کے چھوٹے بھائی علی محمد صاحب کو ہوا تو وہ غصّہ کی حالت میں آپ کے پاس آتے لیکن کوئی بات سُنے بغیر چلے جاتے۔ آپ نے بار بار اُن سے کہا کہ تم میں غور کا مادہ نہیں ہے اور صرف اس لئے مسلمان ہو کہ کسی مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہو۔ اگر کسی ہندو، سکھ یا عیسائی کے گھر میں پیدا ہوتے تو اُنہی کا مذہب اپنا لیتے…۔

کچھ دن کے بعد علی محمد صاحب آپ کے پاس آئے اور کہا کہ فیصل آباد میں ایک آریہ نے یہ اعتراض اسلام پر کئے تھے جن کا میرے پاس جواب نہیں تھا۔ پھر یہاں فلاں آریہ نے جو اعتراض کئے تو اُن کا بھی میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مَیں نے یہ اعتراض فلاں رشتہ دار کے سامنے کئے تو اُنہوں نے مجھے آریوں سے ملنے پر لعن طعن کی لیکن کسی اعتراض کا جواب نہیں دیا۔ پھر گھر میں آپ جو بات کرتے ہیں اُس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لئے جب تک مجھے ان اعتراضات کا جواب نہیں مل جاتا تب تک میرا کوئی مذہب نہیں ہے۔

محترم شیخ امام الدین صاحب اپنے بھائی کو لے کر حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ کے پاس آئے جنہوں نے سب اعتراضات کا تفصیل سے جواب دیا تو چند روز کے اندر علی محمد صاحب بھی بیعت کرکے احمدی ہوگئے۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں نے مخالف حالات کو نہایت صبرواستقامت سے برداشت کیا اور ایمان پر قائم رہے۔

…ژ…ژ…ژ…

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 مارچ 2012ء میں مکرم مظفرمنصور صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے


اِک نگر جب قاضیاں سے قادیاں ہونے لگا

تب ظہورِ مہدیٔ آخر زماں ہونے لگا

پھر زمیں پر رحمتوں کی بارشیں ہونے لگیں

آسماں پھر سے زمیں پر مہرباں ہونے لگا

مرکزِ توحیدِ باری چُن لیا تقدیر نے

بے امانوں کے لئے دارالاماں ہونے لگا

پا گیا تکمیل واں ہر دائرہ ہر دین کا

وقت جیسے رفتگاں سے ہمرہاں ہونے لگا

وہ جو تھا اِک شخص میرِ کاروانِ اہلِ دل

ہو کے پنہاں وہ خدا میں کیا عیاں ہونے لگا

پھر خدا کا دین اس نگری میں برپا ہو گیا

پھر خدا کے فیض کا چشمہ رواں ہونے لگا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button