علم وحکمت اورصدق ومعرفت سے بھری ہوئی کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تاثیرات اورعربوں کے قبول احمدیت کی ایمان افروز داستانیں
عبدالسمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ گھانا۔ مغربی افریقہ
محترم برادرم محمد طاہر ندیم صاحب مربی سلسلہ عربی ڈیسک یُوکے نے ایک بہت ایمان افروز اورمعلوماتی کتاب صلحاءالعرب کے نام سے لکھی ہے جس میں انہوں نے عربوں کے احمدیت قبول کرنے کے واقعات تحریرکئے ہیں۔ اوران اسباب، واقعات ،ایمانی سفر اورمشکلات کاتفصیل سے نقشہ کھینچاہے جن سے یہ سب لوگ گزر ے ۔ان کے اخلاص اورفدائیت کاتذکرہ بھی ہے ۔اوریہ جملہ امور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کی سچائی کاثبوت ہیں جوان الفاظ پر مشتمل ہے۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآءُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ (الحکم31 اگست 1901 ء)یعنی عرب کے صلحاء اورشام کے ابدال تجھ پر درود بھیجتے ہیں۔خاکسارنے گزشتہ عرصہ میں اس کتاب کامطالعہ کیا اوربہت کچھ پایا اورارادہ کیا کہ دیگراحباب جویہ کتاب نہیں پڑھ سکے ان کو اپنی لذّت میں شامل کر وں۔
عربوں کاایمانی سفراورروحانی دولت کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک حصہ یہ ہے کہ ان کی نظرسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب یا ان کاعربی ترجمہ گزرا اوروہ اس کی تاثیرات قدسی کاشکار ہو گئے ۔گوماضی میں حضورؑ کی زیادہ کتب کاترجمہ شائع نہیں ہو ا تھااورنہ انہیں پہنچا مگر جوحصہ بھی انہیں ملا وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔خاکسارنے اس مضمون میں صرف ایسے ہی واقعات بیان کرنے پر اکتفا کیاہے ۔ اور اس تسلسل میں حضور انور کا بیان کردہ واقعہ اور چند دیگر واقعات بھی شامل کر دئیے ہیں۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب سعید درویش صاحب
مکرم سعیددرویش صاحب مراکش کے ہیں۔ 1990ء میں ہجرت کر کے جرمنی آگئے۔ ان کااحمدیت سے تعار ف الجزائر کے غیر احمدی دوست سمیر بو خطہ صاحب اورپھر ان کے ذریعہ پاکستانی احمدی عبدالسمیع صاحب کے ذریعہ ہو ا۔عبدالسمیع صاحب نے انہیں کئی کتب دیں جن سےبہت متأثر ہوئے ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ دلیل وحجت سے میرا دامن تہی ہو چکا تھا۔ایسے میں خیال آیا کہ کیوں نہ استخارہ کرکے دیکھوں شاید اس طرح دل کی کیفیت کا کوئی علاج مل جائے۔استخارہ کیا تو خواب میں دیکھاکہ مَیں ایک دروازے سے داخل ہوتا ہوں جہاں لوگوںکا ایک جمّ غفیر نمازباجماعت اداکر رہاتھا۔ دروازے پر کھڑے دربان سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون ہیں تو وہ ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان لوگوں کے بارہ میں جاننا چاہتے ہو تو اس جھونپڑی میں داخل ہوجاؤ جہاں ان کے بارہ میں ایک کتاب پڑی ہوئی ہے جسے پڑھوگے تو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ چنانچہ میں جا کر وہاں سے کتاب اٹھاتاہوں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس رؤیا سے میں نے یہی سمجھا کہ مجھے جماعت کی کتب پڑھنی چاہئیں۔ چنانچہ میں عبد السمیع صاحب کے پاس گیا اوران سے عربی زبان میں کتب کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مجھے روحانی خزائن میں مطبوعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب دیں۔میں نے یہ کتب پڑھنی شروع کیں توحیرت و استعجاب کی تصویربن کے رہ گیا۔ ایسی اعلیٰ پائے کی فصیح وبلیغ زبان اورایسا دل موہ لینے والا انداز بیان پھراس اسلوب پر ذکرمعارف قرآن اور حقائق ِفرقان بلاشبہ عنایت خدائے رحمان اور عطائے ربّ دیّان ہے اورمؤلف کی صداقت پربیّن برہان ہے۔
(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ416 -417 )
تمیم ابو دقّہ صاحب
مکرم تمیم ابودقہ صاحب بیان کرتے ہیں ۔میں شام کے شہر حلب میں انجینئرنگ کالج میں پڑھتاتھا۔میرے کمرے میں ایک اورطالب علم بھی تھا جواسلام سے بالکل دورتھا۔ایک دن میں نے چند کتب کمرے میں پڑی ہو ئی دیکھیں توپوچھاکس کی ہیں ؟اس نے کہایہ ہمارے پڑوس میں رہنے والے کافروں کی ہیں۔میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ یہ کوئی بہت بڑے کفّار ہو ں گے جن کویہ اسلام سے دُور شخص بھی کافر کہہ رہا ہے۔بہر حال مَیں نے کتابیں دیکھنی شروع کیں۔ ان میں سے ایک کتاب پر جب میں نے مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃو السلام ” پڑھا تو سوچا کہ یہ بےچارے تو بہت ہی سادہ لوگ لگتے ہیں جنہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی پر صلاۃ اور تسلیم بھیجنا زیبا نہیں۔لیکن جب بعض کتب کی کچھ اور ورق گردانی کی تو میں نے ان لوگوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پہلی ملاقات میں میرے ساتھ دجّال کے بارہ میں بات کی۔اورمجھے وہیں پر محسوس ہونا شروع ہوگیا کہ یہی درست مفہوم ہے۔گھر میں بھی آ کے میں نے ان تمام احادیث پرجو مجھے دجّال کے بارہ میں یاد تھیں ان احمدی نوجوانوں کی منطق کے مطابق غور کرنا شروع کیا تو ایک ایک کر کے گتھیاں سلجھتی گئیں۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہاں میسر تمام کتب کا مطالعہ کر لیا۔ اس مطالعہ کے دوران میں خاص طور پر اس بات کی ٹوہ میں تھا کہ مسیح موعودعلیہ السلام اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کس حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اور یہ جان کرمیرا دل اطمینان اور سکینت سے بھر گیاکہ حضور تو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم لکھتے ہیں اور آپﷺ سے محبت کا ایک عجیب سمندر حضور علیہ السلام کے کلام میں موجزن ہے۔اس ساری تحقیق کے بعد میرے سامنے سوائے بیعت کے کوئی چارہ نہ رہا۔ اور بیعت کے ساتھ ہی دل ایسے اطمینان اور سکون سے بھر گیا جس کی طبیعت متلاشی تھی۔حلب سے واپسی پر میں وہاں پر میسرتمام کتب ساتھ لے آیا۔ اردن پہنچ کر میرا یہ معمول رہا کہ سارا دن ان کتب کو پڑھنے اور ان پر غور کرنے میں ہی گزارتا تھا ۔تین ماہ کے مطالعہ اور غور وخوض کے بعد مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ نئے معانی اورمفاہیم کا ایک خزانہ میرے دل ودماغ میں سما گیا ہے۔اور میں ایک عجیب روحانی نشے کے عالم میں تھا۔میں نے گھر آتے ہی بتا دیا تھا کہ میں نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح ومہدی مان کر ان کی بیعت کر لی ہے اوراب میں جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکا ہوں۔(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ276 )
حضرت ابو سعید عرب ؓ
ان کا تعلق عرب قوم سے نہ تھا لیکن کثرت سے عرب ممالک میں سفر کرنے اور عربی بولنے کی وجہ سے عرب کہلائے۔ حضرت ابو سعید عرب صاحبؓ بہت بڑے تاجر تھے اور رنگون برما کے علاقہ میں بغرض تجارت رہائش پذیرتھے۔ بڑے آزاد مشرب اورنیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔خدا کے وجود پر بھی ایمان نہ تھا۔ بس یہی خیال تھا کہ کھانا ہے اورکماناہے۔
آپ 1894ء میں لاہور آئے۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام دی جبکہ ایک مولوی نے آپؑ کے خلاف لکھی ہوئی ایک کتاب انہیں دی۔ مگر یہ دونوں کتابیں وہیں کسی کو دے کر چل دیئے اور پرواہ نہ کی۔انہیں کہا گیا کہ قادیان آئیں مگریہ نہ آئے۔ لیکن خدا کی قدرت دیکھیں کہ پھر وہی کتاب آئینہ کمالات اسلام ان کی نظر سے گزری تو اس کے پڑھنے سے حقیقت اسلام ان پر منکشف ہوگئی۔پھر کیا تھا کہ آپ اس قدر فاصلہ طے کر کے رنگون سے قادیان آئے اوردسمبر 1902ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب آپ حضور ؑکی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے ان کے حالات حضورؑ کی خدمت میں سنائے۔ پھر انہوں نے خود اپنے حالات جب حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کئے اورکہا کہ آئینہ کمالات اسلام نے آخر اس غلطی سے نجات دے کر حضور کی محبت کا تخم دل میں جمایا۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے جو نصیحت فرمائی اس کے پہلے جملے یہ ہیں”خدا ہی کی تلاش کرو۔ حقیقی لذت خدا ہی میں ہے۔”
(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ55-56)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ
شام کے ایک دوست کینیڈا میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک سیلز مین کے طور پر ملازمت کرتا تھا۔ میرے گاہکوں میں سے ایک شخص کے بیٹے سے میرا تعارف ہوا۔ وہ نوجوان احمدی تھا اس سے تعلق بڑھا تو اس نے مجھے جماعتِ احمدیہ کے بارہ میں بتایا اور پھر مجھے اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ دیا۔ جس سے میں بہت متائثر ہوا اور اس کی معقول باتیں مجھے بہت پسند آئیں۔ پھر میں ایک سال تک جماعت کی کتب پڑھتا رہا۔ ایم ٹی اے العربیہ بھی دیکھتا رہا اور پھر ایک استخارہ کے بعد مبشر خواب دیکھ کر بیعت کر لی۔(خطبہ جمعہ 24 نومبر 2017)
احمدآفندی حلمی صاحب
احمد حلمی صاحب کی ولادت 1908ء میں ہوئی۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھےشاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد اور بڑے بھائی یکے بعد دیگرے وفات پاگئے تھے۔اور وہ اپنی ماں کا واحد سہارا رہ گئے تھے۔لہذاوہ ان کی ہر فرمائش پوری کرتی تھیں۔یوں یہ نہایت ناز ونعم میں پل کر جوان ہوئے۔جوانی میں آپ اپنے ایک دوست کے گھر گئے جن کا نام محمود ذہنی صاحب تھا۔ وہاں انہوں نے میزپر’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کا عربی ترجمہ پڑا ہوادیکھا۔آپ نے وہ کتاب اٹھاکر ورق گردانی کرنی شروع کردی۔پہلی نظر میں ہی یہ کتاب آپ کے دل میں اتر گئی لہٰذا آپ نے اپنے دوست سے یہ کتاب عاریۃً مانگ لی۔ اور اس وقت تک کتاب کو رکھ نہ سکے جب تک کہ اس کو پہلے صفحہ سے لے کر آخر تک مکمل پڑھ نہ لیا۔اور اس کتاب کے پڑھنے کے ساتھ ہی آپ نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی بیعت کا فیصلہ کر لیا۔
احمد آفندی حلمی صاحب جماعت احمدیہ مصر کے ابتدائی مخلص ارکان میں سے تھے اور احمدیت میں داخل ہونے کے بعد خلیفہ وقت کی زیارت کے لئے 5؍ اگست 1939ء کو قاہرہ سے قادیان تشریف لائے۔ یوں قادیان تشریف لانے والے آپ دوسرے مصری احمدی بن گئے۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور دوسرے بزرگان سلسلہ سے ملاقات کرنے اور مرکز احمدیت کے فیوض سے متمتع ہونے کے بعد 26/ اگست1939ء کو عازم مصر ہو گئے۔(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ104 )
فتحی عبدالسلام مبارک صاحب
مصر کے جامعہ الازھرکے فارغ التحصیل ہیں۔ 1997 ء میں احمدی عالم مصطفیٰ ثابت صاحب کینیڈاسے مصرآئے توان سے اچھاتعارف ہوگیا۔دجال کے متعلق گفتگو سے عبدالسلام صاحب پر بہت اچھا اثر ہوا ۔وہ بیان کر تے ہیں جب میں نے مکرم مصطفی ثابت صاحب سے اس فہم اورنئے طرز فکر کے مصدر کے بارہ میں پوچھاتو انہوں نے بتایا کہ اگر ان احادیث کی شرح کے مطابق دجال ظاہر ہو گیا ہے تو اس کو قتل کرنے والے مسیح موعود اورامام مہدی علیہ السلام کا آنا بھی ضرور ی ہے۔ لہٰذا یہ مفاہیم حضرت امام مہدی ؑلے کر آئے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ تمام تجدیدی مفاہیم بذریعہ وحی ان پر کھولے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔یہ باتیں کرنے کے بعدیہ ملاقات ختم ہو گئی اور مصطفی ثابت صاحب بھی واپس چلے گئے۔ لیکن وحی اورخدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے موضوع نے مجھے پریشان کئے رکھا۔کیونکہ میں معروف اعتقاد کے مطابق یہی عقیدہ رکھتا تھاکہ اب وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ ان تمام خیالات کے باوجودمیری توجہ بار بار مصطفی ثابت صاحب کے اخلاق اوران کی تواضع اورچہرہ پر نمایاں ہونے والی خشیت الٰہی کی طرف جاتی اور سوچتاکہ کیا یہ اس تعلیم کا نتیجہ ہے جو ان کے بقول امام مہدی لے کر آئے ہیں؟اگر نہیں تو کیا باطل بھی یہ سب کچھ پیدا کرسکتاہے؟ 1999ء میں مصطفی ثابت صاحب دوبارہ مصر تشریف لائے تو ہماری بات چیت دوبارہ شروع ہوئی۔ انہوں نے مجھے ”’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ ” کا عربی ترجمہ دیا جس نے میرے اندرایک عجیب انقلاب برپا کر دیا۔اس کے بعد میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عربی کتب کامطالعہ کیا اور مصطفیٰ ثابت صاحب اورڈاکڑ حاتم صاحب سے ملاقاتوں اورکئی کتب پڑھنے کے بعدبیعت کرلی۔(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ553 )
حضرت محمدحلمی الشافعی صاحب
آپ 21 مارچ 1929 ء کو قاہر ہ میں ایک علمی گھرانے میں پیداہو ئے ۔آپ کے والد اورچچا اوردادا جامعۃ الازھر کے علماء میں سے تھے۔1965 ء میں آپ کا رابطہ مکر م مصطفیٰ ثابت صاحب سے ہو ا۔اوردو سال کے بحث مباحثہ کے بعد آپ کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ آپ بیان کر تے ہیں کہ مصطفیٰ ثابت صاحب سےعام علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔اسی دوران ان کا تبادلہ ہو گیا توانہوں نے اپنی بعض کتب ایک ڈبے میں ڈال کر میرے پاس امانتاً رکھوادیں ۔میں نے ان سے کتب پڑھنے کی اجاز ت بھی لے لی ۔اس طرح پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورجماعتی کتب سے تعارف ہو 1۔انہی دنوں میں نے ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کاعربی ترجمہ پڑھا اور یہ کتاب مجھے بہت پسند آئی ۔ایک دن میں یہ کتاب لے کر اپنے والد صاحب کے پاس چلا گیا۔ میں نے ابھی چند صفحات ہی بلند آواز میں پڑھے تھے کہ میرے والد صاحب بار بار کہنے لگے کہ اس کتاب کا مؤلف بڑا عالم آدمی ہے۔پھرہر صفحہ سننے کے بعد ان کے منہ سے ”ماشاء اللہ کے الفاظ نکلتے رہے۔میرے والد صاحب کا تعلق جماعت ”أنصار السنۃ المحمدیۃ ” سے تھا اور یہ تصوف کو پسند نہیں کرتے کیونکہ بعض اوقات تصوف کے نام پربڑی مبالغہ آرائی کی جاتی ہے۔اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف احکام کی حکمت کو فلسفیانہ رنگ میں بیان کرتے ہوئے کسی قدر تصوف کارنگ بھی دیا ہے۔لیکن آپ علیہ السلام کے بیان فرمودہ اس تصوف میں نہایت اعلیٰ مضامین بیان ہوئے تھے اور اس میں عام صوفیوں کے کلام کا شائبہ تک نہ تھا۔اس لئے میرے والد صاحب کو یہ طریق بھی بہت پسند آیا۔
میں نے پوچھا آپ کے خیال میں یہ شخص ایک نیک اور صالح انسان ہو سکتا ہے؟
انہوں نے جواب دیا یہ اولیاء اللہ اور صالحین میں سے ہے۔
میں نے کہا اس شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ امام مہدی اور مسیح موعود ہے۔
انہوں نے کہا نہیں ، یہ نہیں ہوسکتا۔
میں نے پوچھا پھر کیا یہ شخص جھوٹا ہے؟
انہوں نے جواب دیا میں یہ نہیں کہتا کہ یہ شخص جھوٹا ہے لیکن یہ بات عقلاً محال ہے۔یہ امام مہدی اور مسیح موعود کیسے ہوسکتے ہیں؟
بہر حال میرے اصرار پر والد صاحب نے کہا کہ میری عمر اس وقت ستّر سال کے قریب ہے ، اورتمام عمر میں نے انہی باتوں کو پڑھایا اوران پر تقریریں کی ہیں۔ میرا اتنی جلدی متا ثر ہونا اور بدل جاناتقریباً ناممکن ہے۔ میں نے بھی انہیں معذور سمجھ کر مزیدبحث سے پرہیز کیا۔ اس کے بعد میں یہی کتاب لے کرایک مولوی کے پاس گیا جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان کااستاد بھی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ کتاب ایک معیّن فرقہ کی ہے اورچونکہ آپ ایک عالم دین ہیں اس لئے میں اس کے بارہ میں آپ کی رائےجانناچاہتا ہوں۔ ابھی میں نےبمشکل دو یا تین صفحات ہی پڑھے تھے کہ اس مولوی نے جھٹ سامنے والی الماری سے دو تین تفسیر کی کتب نکالیں اورکہا کہ ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے۔ یہ کتب جلیل القدر علماء کی تصانیف ہیں جنہوں نے تمام عمر کی عرق ریزی کے بعد قرآن وحدیث کی شرح وتفسیر لکھ دی ہے اور ہر قسم کے مسئلہ کو کھو ل کر بیان کردیا ہے اب ہمیں اس کے بعد کسی اور کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ اس چیز نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میری تحقیق کے رخ کو یکسر بدل دیا۔مَیں قبل ازیں ان کتب کا مطالعہ غلطیاں نکالنے اور اعتراض کرنے کے لئے کرتا تھا ۔ لیکن اس واقعہ کے بعد میرے مطالعہ کا ہدف حق وحقیقت تک رسائی بن گیا۔
اس واقعہ کے بعد میں نے ”’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ ” اور ”’احمدیت کا پیغام‘ ”کودوبارہ پڑھناشروع کردیا۔ ان کے بعدمیں نے کہا دیکھتے ہیں جماعت احمدیہ کا قرآن کریم کے بارہ میں کیا مؤقف ہے۔یہ جاننے کے لئے میں نے فائیو والیم کمنٹری کی پہلی جلد میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر پڑھنی شروع کر دی۔اور پھر میں نے بیعت کر لی۔
(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ199تا207 )
محمدمنیرادلبی صاحب
محمد منیر ادلبی صاحب کا تعلق شام سے ہے وہ بیان کرتےہیں۔1982ء کی بات ہے کہ میری ملاقات برادرم وسیم الجابی سے ہوئی جو میرے والدین کی ہمسائیگی میں رہتے تھے اور میرے بھائی کے کلاس فیلو تھے۔برادرم وسیم صاحب نے ایک دن مجھ سے کہا کہ میرے پاس ”اسلامی اصول کی فلاسفی ” کے نام سے ایک ایسی کتاب ہے جس میں اسلامی تعلیمات کا بالکل منفرد اورنہایت حسین انداز میں نقشہ کھینچا گیا ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میری توجہ جماعتی تعلیمات اورافکار اور موضوعات کی طرف ہوئی۔ مکرم وسیم صاحب سے گفتگو جاری رہی اورانہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے دلائل بھی دیئے۔ اس تحقیق کےدوران جب میرارابطہ مکرم منیر الحصنی صاحب سے ہواتومیں نے بیعت کے کاغذات پیش کردئیے۔ بعد میں مکر م منیر ادلبی صاحب کو ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کا ترجمہ شائع کر نے کی توفیق بھی ملی ۔
(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ311 )
مکرم عصام الخامسی صاحب
مراکش سے تعلق رکھنے والے عصام الخامسی کی داستان بھی عجیب ہے ۔ان کی اہلیہ نے ان سے پہلے 1995 ء میں بیعت کی مگر یہ بیوی سے تمسخر کرتے رہے۔ خود بیان کرتے ہیں ۔
میری بیوی سپین میں احمدیوں کے ساتھ رابطہ میں تھی وہ جب بھی میرے بارے میں پوچھتے تو میری بیوی بتاتی کہ وہ تو تمسخر کرتاہے اوردینی امور سے بے رغبت ہے۔ احمدی اسے یہی نصیحت کرتے کہ تم دعا اور حسن اخلاق کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھو۔شاید یہ میری بیوی کی دعا کا ہی اثر تھا کہ ایک روزمیرے دل میں آیا کہ دیکھوں تو سہی کہ احمدی اپنی کتب میں کیا لکھتے ہیں۔چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے چھپ کر ایک کتاب’القول الصریح فی ظہورالمہدی والمسیح‘”پڑھنی شروع کی۔ اس کتاب میں امام مہدی اور دجال کے بارہ میں ایسی معلومات تھیں جن کو پڑھ کر میں حیرت ودہشت کی تصویربن کے رہ گیا۔ مجھے یہ احساس ہوگیاکہ یہ جماعت کوئی عام جماعت نہیں ہے بلکہ ایک نئی طرز فکر لے کر اٹھی ہے ۔مجھے اپنی بیوی کے حق پر ہونے کا خیال آنے لگاتھا لیکن تکبر اور اَنا کی وجہ سے میری طبیعت یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ تھی کہ اپنی بیوی کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کروں۔ عقل و منطق پر مبنی درست اسلامی مفاہیم نے میری پیاس بڑھادی تھی ۔لیکن کیامیں اپنی بیوی سے کہوں کہ مجھے پڑھنے کےلئے کوئی کتاب دے؟ ہرگز نہیں، اس سے تو میری ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔ میں اس طریق پر سوچنے لگا تھا۔پھر اندر کی پیاس سے مجبورہوکر میں نے اپنی بیوی سے چھپ کر ایک اور کتاب پڑھنی شروع کی۔ میں نے دیکھا تھا کہ یہ کتاب میری بیوی نے متعدد بار پڑھی تھی اوراس کو بڑا سنبھال کر رکھتی تھی۔یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیف منیف ’”اسلامی اصول کی فلاسفی‘کا عربی ترجمہ تھا۔کتاب کے شروع میں اس کی تعریف وتوصیف کے ساتھ مختلف اخبارات وجرائد کے حوالے درج تھے جن کو پڑھ کر میرے اندر طعن وتشنیع اور انکار واعتراض کی عادت پھر عود کرآئی اور میں نے پھر سوچا کہ اب مجھے اس کتاب میں ضرورایسے پوائنٹ مل جائیں گے جن سے میں اپنی بیوی کی جہالت کو ثابت کر سکوں گا۔ کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب اس قسم کی تعریف کی مستحق ہو جس کا ذکر پیش لفظ میں کیا گیا ہے۔ لیکن جوں جوں میں یہ کتاب پڑھتا گیا میری زبان احمدیت اور اپنی بیوی کے خلاف گنگ ہوتی گئی۔اس کتاب میں مذکور مفاہیم اور معارف عام آدمی کی سوچ وفکر کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔ ایک دفعہ پھر مجھے ضمیر نے جھنجھوڑا لیکن اس بار بھی میرے تکبر نے یہی جواب دیا کہ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف کرو گے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ تمہاری بیوی تم سے زیادہ متقی اور زیادہ عقلمند ہے اور وہ سچ کو پہچاننے میں تم پر سبقت لے گئی ہے۔ پھر میں دل سے احمدی ہو گیامگر اعلان کرنے میں انقباض تھا ۔1998 ء میں مجھے شوگرکی بیماری ہو گئی اورمیرے کبر کابت بھی پاش پاش ہو گیااورمیں نے بیوی کے ذریعہ بیعت فارم پر کردیا۔
(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ373-374 )
مکرم لقمان ابراہیم صاحب
شام کے لقمان ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے 27 سال تک مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرکے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی۔ میری تعلیمی زندگی حساب کتاب اور خشک منطق سے عبارت تھی لیکن میں نے جماعتی کتب اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ کیا تو اس کے سامنے میری 27 سالہ تعلیم بالکل صفر تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دلائل کا کوئی اندھا ہی انکار کر سکتا ہے اور اسی کیفیت کے زیرِ اثر میں نے بیعت کر لی۔ (بدر 04 جنوری 2018)
الحاج محمد بن منصورصاحب
الحاج محمد بن منصور ریاقات المغربی المعروف محمد بن محمد المغربی الطرابلسی مراکش کے تھے۔انہوں نے 17 حج کئے تھے۔حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ان سے 1928ء میں کبابیر فلسطین میں ملے تو معلوم ہوا کہ یہ بزرگ 23 سال سے حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لاچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ”میں یمن میں امام محمد بن ادریس امامِ یمن کے پاس تھاتوکابل سے امام محمدبن ادریس کے پاس چند کتابیں اس مدّعی کی پہنچیں۔آپ نے دو کتابیں پڑھ کے علماء کے سپرد کردیں اور کہا کہ یہ کام آپ کا ہے اس کے بارہ میں رائے ظاہر کریں، اور آپ نے خود اس کے متعلق کچھ نہ کہا۔پھر علماء میں اس کے متعلق اختلاف ہوا۔بعض کہیں کہ جو کچھ اس نے لکھا سچ ہے۔بعض کہیں کہ ایسی باتیں کہنے والا کافر ہے۔مگر میں استخارہ کر کے اور بعض خوابیں دیکھ کرآپ پر ایمان لے آیا۔چنانچہ میں اس وقت سے آپ کوامام الوقت مسیح موعود مانتا ہوں۔شمس صاحب فرماتے ہیں میں نے پوچھاکون سی کتابیں وہاں پہنچی تھیں؟انہوں نے کہا ہم نے اس وقت چند عبارات حفظ کی تھیں۔جب انہوں نے عبارات سنائیں تو وہ الاستفتاء کی تھیں۔پھر انہوں نے قصیدۃ اعجازیۃ کے شعر سنائے۔ وہ میرے مکان پرجمعہ کی نماز کے لئے تشریف لائے تو نمازادا کرنے کے بعدکہنے لگے اگرچہ میں پہلے سے ایمان لایا ہوا ہوںمگر پھر آپ کے ہاتھ پر تجدید عہد کرتا ہوں۔ تب وہ اور دوشخص اَور ان کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے۔” ;(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ60)
اہلیہ تمیم ابو دقّہ صاحب
مکر م تمیم ابو دقہ صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب پڑھ کر بیعت کی تھی۔ ان کی اہلیہ فجر عطایا صاحبہ اپنی بیعت کا واقعہ یُو ں بیان کرتی ہیں کہ میں لبنان کے میڈیکل کالج میں تھی۔ مَیں نے حصول ہدایت کے لئے بہت دعا کی تو خواب دیکھاکہ سبز رنگ کے کپڑے پر امام مہدی کا تحریر کردہ خط پڑا ہے اس میں امام مہدی نے مجھے بلایا تھا۔ مگر کا فی عرصہ تک جماعت سے رابطہ نہ ہوا۔ پھر میں نے ایک اور خواب دیکھا کہ میں ایک تاریک رات میں سمندر کے کنارے پانی میں چل رہی ہوں۔جب میں نے آسمان کی طرف دیکھاتو اس کے ستارے ہماری دنیا کے آسمان کے ستاروں کی طرح نہ تھے بلکہ ان کی ترتیب اور تصویر بالکل مختلف تھی۔ میں نے اس آسمان میں ایک بڑا سا دروازہ بھی دیکھا جس میں سے نور ہی نور نکل رہا تھا اس میں کچھ عربی زبان میں لکھے ہوئے کلمات بھی نظر آئے لیکن میں انہیں سمجھنے سے قاصر رہی۔ میں سمندر کے پانی سے نکل کر خشکی پر آئی تو دیکھاکہ وہاں پر امام مہدی علیہ السلام کامیرے نام ایک خط پڑا ہوا ہے جس میں صرف یہ دو لفظ لکھے ہوئے تھے”اعجاز المسیح ”۔ مجھے اس کا نہ کوئی مطلب سمجھ آیانہ ہی اس کے امام مہدی کے ساتھ تعلق کی تفہیم ہوئی۔اگلے دن جبکہ مَیں اپنے ماموں ڈاکٹر حاتم صاحب ابن حلمی شافعی صاحب مرحوم کے گھر میں تھی تو اتفاقًا ان کی لائبریری دیکھنے لگ گئی، اوریونہی ہاتھ بڑھا کے جو ایک کتاب اٹھائی تو ایک لمحے کے لئے میری سانس رک گئی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں وہ حقیقت ہے یا میرا کوئی خیال۔ کیونکہ اس کتاب کی جلد پرجلی حروف میں جو نام لکھا تھا وہ ”اعجاز المسیح ” تھا۔مجھے اسی وقت خواب کی تعبیر مل گئی ۔ چنانچہ میں ایک ایک کر کے اس لائبریری کی کتابیں پڑھنے لگی۔ دو سال تک مسلسل مطالعہ کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میں وقت ضائع کر رہی ہوں ، اوراب مجھے بغیر مزید کسی تاخیر کے بیعت کر کے اس سفینۂ نجات میں سوار ہو جانا چاہئے ۔ چنانچہ میں نے 11 /اپریل 1999ء کو بیعت کر لی۔(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ284)
محمد ابراہیم اخلف صاحب
مکرم محمد ابراہیم اخلف صاحب کےوالدین کا تعلق مراکش سے ہےاور و ہ بعد میں ہالینڈ شفٹ ہوگئے۔انہیں شروع ہی سے اپنے دینی معاملات سے دلچسپی تھی ۔کہتے ہیں کہ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں کتابوں کی ایک بڑی دکان پر تھاجہاں ایک کتاب خصوصی طورپر میری توجہ کا مرکزبنی جو جرمن محقق Holger Kerstenکی تالیف Jesus Lived In India تھی۔میں نے یہ کتاب خرید لی۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور حیات ووفات کا معاملہ مجھے شروع سے ہی بہت پریشان کرتا تھااس لئے میں نے یہ کتاب بہت جلد پڑھ لی۔ اس کتاب کے مؤلف نے علمی طورپرثابت کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں۔میں کتاب پڑھتا گیا اور دل سے اس کے مضمون کو قبول کرتا گیا۔ اب میرے لئے صرف یہ سوال باقی تھا کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگئی ہے تو پھر قرآن کریم میں مذکورعیسیٰ علیہ السلام کی صلیب سے کیا مراد ہے۔ اس کا حل بھی اس کتاب میں موجود تھا کیونکہ مؤلف نے ذکر کیا تھا کہ ہندوستان کے ایک شخص مرزا غلام احمد نے قرآن کریم میں عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق صلیب کے الفاظ کا یہ معنی کیا ہے کہ وہ صلیب پر لٹکائے تو گئے لیکن اس پر فوت نہیں ہوئے تھے۔اس بات نے مجھے مجبور کیا کہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شخصیت اورآپ کے افکار وخیالات کے بارہ میں کچھ تحقیق کروں(حضورؑ کی یہ کتاب غالباً مسیح ہندوستان میں تھی)۔ اس کے بعد اِخلف صاحب کو ہالینڈ میں لاہوری جماعت کی لائبریری میں بھی کتب دیکھنے کا موقع ملا۔تحقیق کا سلسلہ بڑھتا رہا۔دیباچہ تفسیر القرآن بھی پڑھی۔ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے خطبات بھی سنے۔ آگے بیان کرتے ہیں۔
انہی ایام میں میری ملاقات اپنے گاؤں ”درونین ” کے رہائشی کچھ صومالیوں سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ آج وہ ایک بنگالی کافر سے ملے ہیں جس کا کلمہ لا اِلہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بجائے احمد رسول اللہ ہے اور اس نے انہیں اپنے عقائد کی تبلیغ کی ہے۔ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئے نبی پر ایمان لاتا ہے اوراس کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے جماعت احمدیہ کی بعض کتب پڑھی ہیں مجھے تو ان کی تفاسیر اور خیالات سے اتفاق ہے۔ ہاں البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں کسی نبی کو تسلیم نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے نہ دیا جائے۔یہی سوچ کر میں اس بنگالی شخص کے گھر جا پہنچا اورمجھے پکا یقین تھا کہ وہ قرآن کریم سے یہ بات ثابت نہیں کر سکے گا۔بہرحال جب میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اورجونہی یہ شخص باہر نکلا مجھے اس کے چہرہ میں ایک غیر معمولی نورنظر آیاجسے دیکھتے ہی میرا دل بیٹھ گیا اور اپنے سارے مطالبے بھول کر میں نے اس سے بڑے احترام کے ساتھ عرض کیا کہ مجھے اپنے مسلک کی کچھ کتب پڑھنے کےلئے دیں۔نہ جانے انہوں نے اس وقت مجھ میں کیا دیکھ کر کہا کہ میں یہاں اس بستی میں اکیلا احمدی ہوں اورمیں ہمیشہ یہی دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ مجھے کچھ پھل عطافرما۔ اس وقت مجھے ان کی بات سمجھ نہ آئی۔ لیکن جب میں احمدی ہو گیا تو سمجھاکہ پھلوں کی دعا سے مراد بیعتیں اورنئے لوگوں کا جماعت میں شامل ہوناہے۔بہر حال انہوں نے مجھے گھر میں بٹھایا۔میری ان کے ساتھ مختصر سی گفتگو میں ا نہوں نے بتایا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شرعی نبی ہی سمجھتے ہیں۔اور میرے اصرار پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب ”ایک غلطی کا ازالہ ” کا ترجمہ دیا جس کو پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شرعی نبی مانتے ہیں۔ اور کتاب کا مؤلف جس بات کا دعویدار ہے وہ اسلام کے مخالف نہیں بلکہ وہ خود کہتا ہے کہ میں اسلام کی ترقی اور اسی کو پھیلانے کےلئے آیا ہوں۔ لہٰذا مجھے اس معاملہ کے بارہ میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس کتاب کا مؤلف اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے آیا ہے اوروہ نبی ہے تو پھر مجھے ساری زندگی اس کے قدموں میں رکھ دینی چاہئے۔ دعا اور چند خوابیں دیکھنے کے بعد میں نے بیعت کرلی۔
;(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ 393،394)
مکرم عمر ونبیل صاحب
مکرم فتحی عبد السلام مبارک صاحب تحریر فرماتے ہیں
2002ء میں میرے ساتھ تجرباتی طور پر کام کرنے والے انجینئرنگ کے ایک طالبعلم عمرو نبیل صاحب نے بعض مفاہیم اور تفاسیر کے بارہ میں میرے ساتھ بات کی۔ میں نے احمدیت کی دل موہ لینے والی تشریحات بیان کیں تو اس نے پوچھا کہ کیا یہ مفاہیم وتفاسیر آپ کی سوچ وفکر کا نتیجہ ہیں؟ کیونکہ اگر یہ آپ کے اپنے خیالات ہیں تو آپ عالم اسلام کے سب سے بڑے عالم ہیں۔میں نے کہا نہیں بلکہ میرا ایک ہندوستانی مرشد ہے اور یہ سب اس کی فہم وسوچ کا نتیجہ ہے۔
ایک دن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’”نجم الہدی‘ ” پڑھ رہا تھا کہ یہ دوست آگئے اور پوچھا کہ یہ کونسی کتاب ہے اور کیا وہ اسے پڑھ سکتا ہے؟ میں نے اسے کتاب دے دی۔ کچھ دیر کتاب کی ورق گردانی کے بعد یہ دوست مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا اس کتاب کا مؤلف ہی آپ کا ہندوستانی مرشد ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ اس پراس نے کہا کہ کیا ان کے بارہ میں میری رائے بھی آپ سننا چاہیں گے؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔اس نے کہا یہ شخص سچاہے اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔
مکرم عمر و نبیل صاحب نے بیعت کے بعد غیر معمولی تبدیلی پیدا کی اوران کے کردار وگفتار میں واضح طورپر ایک فرق نظر آنے لگ گیا۔جب یہ صورتحال ان کے والد مکرم نبیل حسین صاحب نے دیکھی تواپنے بیٹے سے ان نئی طرز کے افکاروتفاسیر کے بارہ میں پوچھا کہ یہ تمہیں کون سکھاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ سب مجھے فتحی عبد السلام نے سکھایاہے۔چنانچہ انہوں نے مجھے اپنے گھر دعوت پربلایا اورمختلف آیات کی تفسیر اور دینی مسائل کے فہم کے بارہ میں بات ہوئی۔ اس کے بعدمکرم نبیل صاحب نے جماعت کی کتب کا مطالعہ شروع کیااورجماعت کے عقائد کے بارہ میں تحقیق کی اور بالآخر 2006ء میں ایک روز جمعہ کے دن بیعت کرلی۔(صلحاء العرب۔ص551)
حضرت عبد اللہ العربؓ صاحب
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت عبداللہ العرب ؓ صاحب نے1893ءکے لگ بھگ بیعت کی۔ آپ سندھ کے تھے۔آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایما پر’ کشتی نوح‘ کے چند اوراق کا عربی ترجمہ کیا اور حضور کو سنایا تو حضور نے فرمایااگر یہ مشق کرلیں کہ اردو سے عربی اور عربی سے اردو ترجمہ کرلیا کریں تو ہم ایک عربی پرچہ یہا ں سے جاری کردیں۔
(ملفوظات جلد 4ص 166)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ عبد اللہ العرب صاحب کوکشتی نوح سے بہت دلچسپی تھی اور یہ بھی کہ مسیح موعودؑ عربی میں اخبار یا رسالہ بھی شائع کرنا چاہتے تھے یہ مقصود آج رسالہ التقو یٰ کے ذریعہ پور ا ہورہاہے۔
مکرم جمال اغزول صاحب
مکرم جمال اغزول صاحب مراکش کے صالح نوجوان ہیں۔ان کا احمدیت سے پہلا تعارف ایک منفی مضمون سے ہوا۔تاہم انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ایم ٹی اے پر خطبات سننے شروع کردئیے ۔تفسیر کبیرکی پہلی جلد بھی پڑھی اور دل میں اتر گئی۔ پھر فرماتے ہیں
1995ء کے آخر کی بات ہے کہ میں نے دینی معاملہ میں کوئی قدم اٹھانے سے قبل استخارہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک روز بعد ہی جمعہ کی صبح جب میں بیدار ہوا تو میری زبان پرکچھ دعائیہ کلمات تھے۔میں نے اس سے یہی سمجھا کہ مجھے خدا تعالیٰ سے دعا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ خود میری صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کرے ۔ چنانچہ میں نے بڑے تضرع اور ابتہال کے ساتھ دعا شروع کر دی۔اسی روز جمعہ کی نماز پڑھنے گیا توہماری مرکزی مسجد کے مولوی شیخ قاسمی نے خطبہ جمعہ کے آخر پر ایک شخص کے رؤیاکا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص رؤیا کی تعبیر کرنے پر اصرار کررہا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ اس نے یہ رؤیا بار بار دیکھا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔اس شخص نے رؤیا میں دیکھا کہ طوفان نوح برپاہے اور کشتی نوح پر لوگ جوق در جوق سوار ہو رہے ہیں۔اس کشتی پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور ایک شخص لوگوں کواس میں سوار ہونے کےلئے بلا رہا ہے۔بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص مسیح ابن مریم علیہ السلام ہے۔
شیخ قاسمی نے اس رؤیا کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس کشتی پر کھڑے ہو کر بلانے والا شخص مسیح ابن مریم ہوکیونکہ یہ زمانہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے ۔ لہٰذا نوح علیہ السلام کی کشتی نجات مسیح علیہ السلام کی ملکیت نہیں ہوسکتی۔پھر اس نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی بشارت دی ہے لیکن ان کے نزول سے پہلے تو دجال اور یاجوج وماجوج نے آنا ہے اور ان باتوں کے ظہور میں ابھی بہت وقت پڑا ہے۔مجھے وہیں بیٹھے ہی یہ احساس ہو گیا کہ شیخ قاسمی کو اس رؤیا کی تعبیر سمجھ نہیں آئی جبکہ مجھے سمجھ آگئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ اَلْمُؤمِنُ یَرٰی اَوْیُرَی لَہٗ ،یعنی مومن کبھی خودرؤیا دیکھتا ہے اورکبھی اس کے بارہ میں کسی اور کو دکھایا جاتا ہے۔چونکہ میں نے دو روز قبل ہی استخارہ کیا تھااس لئے مجھے یقین ہو گیا کہ اس رؤیا میں میرے لئے واضح پیغام تھا۔نماز جمعہ کے بعد میں واپس آتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے دعویٰ کا انکار نہیں کیا جاسکتااور مولویوں کے اقوال کی بنا پر ان کی تکذیب کرنا سراسر انصاف سے دور بات ہے۔ان خیالات اورسوچوں نے مجھے بیعت کا مرحلہ طے کرنے پر آمادہ کردیا۔نومبر 1995ء میری روحانی ولادت کا مہینہ تھا جب میں یکسر بدل گیا تھا اورمیں نے بیعت کا خط حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں ارسال کر دیا ۔
(صلحاء العرب وابدال الشام صفحہ362-363 )
اس واقعہ میں جمال اغزول صاحب نے کشتی نوح کا مطالعہ تو نہیں کیا تھا مگر انہیں خواب میں وہی منظر دکھایا گیا جو حضورؑ کی کتاب کشتی نوح کے ٹائیٹل پیج پر ہے اور اندر تعلیمات میں درج ہے ۔
مکرمہ جہان ام نور صاحبہ
ایسا ہی ایک نظارہ مکرمہ جہان اُمّ نور صاحبہ نے دیکھا۔آپ اپنے بھائی مکرم ابراہیم الجبان صاحب کے ذریعہ احمدی ہوئیں۔ آپ دمشق کے بعض سکولوں میں ایجوکیشنل کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتی تھیں۔آپ کی بیعت کا قصہ بھی عجیب ہے۔ آپ کا بھائی آپ کو بیعت کے لئے کہتا تھا لیکن آپ کہتی تھیں کہ اگر آپ غلطی پر ہوئےتومیں اپنے آپ کواس جھنجھٹ میں کیوں ڈالوں۔ چنانچہ آپ کے بھائی نے کہا کہ تم استخارہ کرلو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ استخارہ کرنے والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔اس کے بعد انہوں نے آپ کودعائے استخارہ سکھائی۔آپ نے استخارہ کے دوران اپنے رب سے یہ دعا کی کہ اے اللہ تُو مجھے ایسے واضح طریق پر اس جماعت کے بارہ میں راہنمائی فرما جس میں کوئی شک وشبہ کی بات نہ ہو اورجسے میں خود ہی سمجھ سکوں ۔ یہ نہ ہو کہ مجھے اس کے سمجھنے کے لئے کسی اور کے پاس جانا پڑے۔چنانچہ آپ نے خواب میں دیکھاکہ آپ ایک پہاڑ پر کھڑی ہیں جس کے ایک جانب لوگوں کا ایک گروہ اس پہاڑ پر جانے کے لئے سڑک بنارہاہے۔ان میں ان کا بھائی بھی ہے۔ آپ ان کو پوچھتی ہیں کہ تم کیا کررہے ہو؟ تو وہ جواب دینے کی بجائے اس سے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا تم ابھی تک جماعت احمدیہ اور اس کے بانی پر ایمان نہیں لائی ہو؟ کیونکہ ابھی یہاں پر ایک تندوتیز سیلاب آنے والا ہے لہٰذا اگر تم ہمارے ساتھ نہ آئی تو وہ سیلاب اپنے رستہ میں آنے والی ہر چیز کوبہا کر لے جائے گا۔پھر آپ کے بھائی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور آپ کو کہا کہ تم ابھی تک ایمان نہیں لائی؟ یہ کہہ کر آپ کا ہاتھ تھام لیا۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو وہ فجر سے پہلے کا وقت تھا۔ آپ نے اپنے بھائی کو جگایا اور بیعت کرلی۔(صلحاء العرب ص83)
مکرم اویس نصیر صاحب مربی سلسلہ ربوہ بیان کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کی صداقت کے بارے میں غیر احمدی بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ؑ کی کتب ایک اعجازی رنگ رکھتی ہیں اورایک معجزہ سے کم نہیں۔ خاکسار کا ایک غیر احمدی مصری دوست مکرم ابراھیم المسلمی صاحب سے رابطہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعض کتب اور قصائد کا انہوں نے بغور مطالعہ کیا ہے۔مورخہ 15 فروری 2014ء کومکرم ابراھیم مسلمی صاحب کی طرف سے ای میل موصول ہوئی،جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کی شان بیان کی ہے۔ ابراھیم المسلمی صاحب لکھتے ہیں۔
”حضرت مسیح موعودؑ کی عربی کتب میں جو منفرد اور دل پراثر کرنے والے کلمات ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی تمام زندگی قرآنی علوم کے حصول میں گزری۔آپؑ نے جس خوبصورت انداز سے قرآن کریم میں موجودخدائی صفات کو بیان کیا ہے وہ دراصل ایک تحفہ ہے۔اور جہاں تک آپ کے قصائد کا تعلق ہے تو وہ گہرے مضامین کے حامل ہیں اور انسان کو روحانی ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔اور خدا کی قسم میں نے آپ ؐ کی مدح میں حضرت مسیح موعود ؑ کے قصائد سے اعلیٰ قصائد نہیں پڑھے۔اور اگر ان کے علاوہ تمام شعراء کے قصائدپڑھ بھی لوں تو حضرت مسیح موعود ؑکے اشعارسے افضل اشعار میں نہیں دیکھتا ۔اور حضرت مسیح موعود ؑکا حضرت محمد مصطفی ؐکی شان میں یہ ایک شعر ہی کافی ہے۔
تَمَّتْ عَلَیْہِ صِفَاتُ کُلِّ مَزَیَّۃٍ خُتِمَتْ بِہٖ نُعَمَاءُ کُلّ زَمَانٖ
ترجمہ رسول کریم ﷺ پر ہر قسم کی(اعلیٰ) صفات تمام ہو گئیں اور آپؐ پر ہر زمانے کی نعمتوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
خاکسار نے ایک دن مکرم ابراھیم المسلمی صاحب کودوران گفتگو فون پرروحانی خزائن کی ایک جلد دکھائی تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے (لا تجعلنی احزن)کہ مجھے غمگین مت کرو۔اس کے بعد خاکسار کو کہتے کہ یَا لَیْتَنِیْ اَمْسَکْتُہٗ (کاش میں اسے پکڑ لیتا)اس کے بعد گفتگو جاری رہی اور آپ بہت مغموم رہے۔
جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل غانا میں درجہ ثالثہ کے ایک طالبعلم اردن کےعماد الدین حسین المصری ہیں ۔انہوں نے کچھ دن قبل خاکسار( عبد السمیع خان) کو بتایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی اور اردو میں 40کتب پڑھ چکا ہوں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں نصاب کی باقی کتابیں چھوڑ دوں صرف یہی پڑھتا رہوں۔ یہ تاثیرات صرف عربوں تک محدودنہیں۔ جوں جوں کتب کا ترجمہ ہو رہا ہے۔اور نئی نئی زبانوں کو یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ نئی نئی قومیں ان روحانی خزائن کو بدل و جان قبول کر رہی ہیں اوران کی تاثیرات کے نتیجہ میں اعلیٰ ایمان پر قائم ہو رہی ہیں۔
جو احباب اردو دان ہیں ان کا تو اوّلین فریضہ ہے کہ وہ بالخصوص حضور علیہ السلام کی تمام اردو کتب کا اور ملفوظات کا مطالعہ کریں۔ یہ عظیم روحانی خزائن ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا اور خدا کا شکر ادا کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔
٭…٭…٭