امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء
انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ سینکڑوں افراد نے اپنے پیارے آقا سے براہ راست ذاتی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
خطبہ نکاح و اعلان نکاح۔ سرائے انصار کینیڈا کا افتتاح۔
نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے ساتھ میٹنگ۔ مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اہم ہدایات۔
(رپورٹ مرتّبہ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)
29؍اکتوبر بروز ہفتہ 2016ء
(حصہ اوّل)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بج کر 45منٹ پر ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج صبح کے اس سیشن میں 49 فیملیز کے 245 افراد نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ شرف ملاقات پایا۔ آج ملاقات کرنے والی یہ فیملیز کینیڈا کی درج ذیل جماعتوں سے آئی تھیں:
Maple, Brampton, Milton, Rexdale, Woodbridge, Peace Village, Weston
Abode of Peace, Toronto, Mississauga، بیری، کچنر اور سینٹ کیتھرین۔
علاوہ ازیں امریکہ سے آنے والے بعض احباب اور فیملیز نے بھی اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔
ان سبھی فیملیز نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام اڑہائی بجے تک جاری رہا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف لے جاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا۔
خطبہ نکاح و اعلان نکاح
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد، تعوّذ اور خطبہ نکاح کی مسنونہ آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:
ان دونوں نکاحوں میں، جو دونوں بچیاں ہیں وہ محمود احمد چیمہ صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا کی نواسیاں ہیں۔ گویا کہ ننہیال کی طرف سے یہ خاندان، ان بچیوں کے نانا واقف زندگی تھے۔ اسی طرح ماریہ چیمہ جو ہیں وہ واقف زندگی کی بیٹی اور نواسی بھی ہیں۔ یہ خاندان ربوہ میں بڑا لمبا عرصہ رہا بلکہ ابھی بھی یہ جو مختار چیمہ صاحب کا داماد بن رہا ہے یہ ربوہ کا ہی ہے۔
ربوہ میں رہنے والے اکثر وہ لوگ تھے جو دین کی خدمت کرنے والے تھے یا ان لوگوں نے ربوہ آکر اپنے بچے وہاں بسائے۔
تنویر احمد مہار صاحب کے والد یا چیمہ صاحب کے داماد کے دادا محکمہ زراعت میں کام کرتے تھے لیکن انہوں نے ساری عمر اپنے بچے ربوہ میں رکھے۔ اس لئے کہ دینی تعلیم ان کو ملتی رہے۔
ربوہ کا جو ماحول تھا، جب تک اس میں حکومت کا دخل نہیں تھا۔ ایک ایسا ماحول تھا جہاں آپس میں ہر ایک ملنے والے کو، ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار کا تعلق تھا۔ ایک دینی ماحول تھا، لغویات سے پاک ماحول تھا، وہ زمانہ تھا جب نہ کوئی ٹی وی (T.V) تھا، نہ انٹرنیٹ تھا، نہ آئی فون تھا۔ لوگوں کے لئے دلچسپیاں یہ تھیں کہ شام کو کھیل کے میدان میں آئیں۔ نمازوں پر باقاعدہ ہوں، صبح فجر کی نماز پر اطفال الاحمدیہ، بچے اٹھ کر صَلِّ عَلیٰ کیا کرتے تھے۔ ہر محلّے سے آوازیں آ رہی ہوتی تھیں۔ ربوہ کا ایک ماحول تھا۔ اِس ماحول میں مکرم محمود چیمہ صاحب کے بچے بھی رہے ہیں۔ محمود چیمہ صاحب تو خود زیادہ تر میدان عمل میں رہے۔ لیکن بچوں کو اکثر ربوہ میں رکھا۔
اسی طرح تنویر مہار صاحب کے خاندان کو مَیں جانتا ہوں۔ انہوں نے بھی ربوہ میں وقت گزارا۔ وہ لوگ اس سوچ کے ساتھ ربوہ میں آئے تھے کہ ہمارے بچوں کو دینی علم حاصل ہو۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے والے ہوں۔ بے شک دنیاوی نوکریاں بھی کیں۔ دنیا بھی کمائی لیکن ساتھ ساتھ دین کا علم اور دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی سوچ بھی ان میں قائم رہی۔
پس یہ سوچ ہے جو آئندہ نسلوں میں بھی قائم رکھنا ہماری ذمّہ داری ہے۔ ہر قائم ہونے والا رشتہ اِس بات کو یاد رکھے کہ جو اِن کے آباؤاجداد نے، ان کے باپ دادا نے دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد پورا کرتے ہوئے قربانیاں دیں۔ اس کو انہوں نے بھی جاری رکھنا ہے۔
یہ جو آیات پڑھی گئی ہیں آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اپنی کل کو دیکھو اور وہ کل یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھو۔ اپنے آپ کو بھی اس تعلیم کے مطابق ڈھالو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہو اور نیکیوں کی طرف قدم بڑھاؤ۔ دنیا تمہارا مقصود نہ ہو بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دین اصل مقصد ہو۔
یہ کل ہر شخص کے لئے، اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی کہ ہر آنے والا دن دین کی بہتری کی طرف ایک نیا قدم ہونا چاہئے۔ ہر آنے والا دن اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہونا چاہئے۔ پھر کل یہ بھی ہے کہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے اس کی طرف نظر رکھو۔
پھر کل یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرو چاہے تم کینیڈا میں رہ رہے ہو، امریکہ میں رہ رہے ہو، یہاں کا ماحول جیسا بھی ہے پھر بھی بچوں میں دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی سوچ قائم رہے۔ ان کی تربیت اِس نہج پر ہو کہ وہ بڑے ہوکر یہ دعا کرنے والے ہوں کہ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْراً کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے ماں باپ پر رحم کر جنہوں نے ہماری بچپن میں پرورش کی، ہمیں دین سکھایا، ہمیں اس ماحول کے گند سے بچایا اور خود اللہ تعالیٰ کے قریب کیا۔ گویا کہ پھر ماں باپ کے لئے یہ دعا کرکے بچے اگلے جہان میں بھی ان کے درجات میں بلندی کا باعث بن رہے ہوں گے۔ خود بھی دین سے منسلک ہوکر آئندہ نسلوں کی بھی حفاظت ہوتی چلی جائے گی۔
پس یہ سوچ ہونی چاہئے اور یہ آیات جو نکاح میں رکھی گئی ہیں اور یہ آخری آیت جو آئندہ کے مستقبل کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی خالص رضا کو حاصل کرنے کی غرض کی سوچ سے رکھی گئی۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔
خوشی کے موقع پر شادیوں کے بعد جوانی میں بہت ساری باتوں کو انسان بھول جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس موقع پر بھی تمہیں خدا یاد رہنا چاہئے اور تمہیں اپنی آئندہ کی زندگی یاد رہنی چاہئے اور تم میں یہ سوچ قائم ہونی چاہئے کہ خداتعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنے بچوں کی بھی تربیت کرو۔
اللہ کرے کہ یہ قائم ہونے والا رشتہ ہر لحاظ سے بابرکت بھی ہو اور ان کی نسلوں میں بھی ہمیشہ خلافت اور جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق قائم رہے اور دین کو دنیا پر مقدّم کرنے والے ہوں۔
خطبہ نکاح کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا:
٭ عزیزہ جویریہ ظفر بنت مکرم ظفر احمد صاحب کا نکاح عزیزم زین نادر ابن مکرم محمد منور نادر صاحب کے ساتھ طے پایا۔
٭ عزیزہ ماریہ احمد چیمہ بنت مکرم مختار احمد چیمہ صاحب (وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا) کا نکاح عزیزم رضاء المحسن مہار ابن مکرم تنویر احمد مہار صاحب کے ساتھ طے پایا۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے فریقین کو شرف مصافحہ بخشا۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔
سرائے انصار کینیڈا کا افتتاح
پروگرام کے مطابق چار بج کر پچاس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’بشیر سٹریٹ‘‘ پر واقع عمارت ’’سرائے انصار‘‘ میں تشریف لائے۔ یہ عمارت مجلس انصاراللہ کینیڈا نے بطور گیسٹ ہاؤس حاصل کی ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عمارت کا معائنہ فرمایا اور دعا کے ساتھ اس کا افتتاح فرمایا۔
حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو مہمان بھی یہاں ٹھہریں آپ کے پاس ان کا باقاعدہ اندراج ہونا چاہئے۔
نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے ساتھ میٹنگ
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’بیت مریم‘‘ میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے نئے سال کا پروگرام بنالیا ہے اس پر صدر صاحبہ نے عرض کیا کہ ہم اس پر اسس میں ہیں کہ ہر سیکرٹری کے ساتھ نیا پروگرام بن رہا ہے۔ ویسے ہم دو سال کا اکٹھا پروگرام بنالیتی ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب آپ کا سال یکم اکتوبر سے شروع ہوا ہے تو پھر ایک مہینے میں نیا پروگرام بن جانا چاہئے تھا۔
جنرل سیکرٹری صاحبہ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی کتنی مجالس ہیںا ور کتنی مجالس کی طرف سے آپ کو باقاعدہ رپورٹس آتی ہیں۔ اس پر جنرل سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ ستمبر 2016ء تک ہماری 84 مجالس تھیں۔ اب اکتوبر 2016ء سے 91 ہوگئی ہیں۔ ریجنز میں بعض نئے حلقے بنے ہیں جن کی وجہ سے تعداد بڑھی ہے۔ مجالس ہمیں باقاعدگی سے رپورٹس بھجواتی ہیں۔ ستمبر تک ہمیں 84 مجالس میں سے 83 مجالس کی رپورٹس موصول ہوچکی ہیں۔
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ رپورٹ پر تبصرہ کس طرح کرتی ہیں؟
اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ ہر شعبے کی سیکرٹری اپنے شعبہ کے حوالہ سے اپنا تبصرہ لوکل سیکرٹریان کو خود بھجوادیتی ہیں۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا صدر صاحبہ کی طرف سے تبصرہ نہیں جاتا؟ اس پر جنرل سیکرٹری نے عرض کیا کہ صدر صاحبہ سیکرٹریان کے تبصرہ کو چیک کرلیتی ہیں۔ صدر صاحبہ نے بھی حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ وہ رپورٹس کو دیکھتی ہیں۔
سیکرٹری تبلیغ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے آئندہ سال کا کیا پروگرام بنایا ہے۔
اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ ہم نے ایک پِیس کانفرنس رکھی ہے جو آئندہ ماہ مانٹریال میں ہے۔ ہر ماہ نمائش لگانے کا پروگرام بھی ہے۔ ہم داعیات الی اللہ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ بیعتوں کا کیا ٹارگٹ رکھا ہے؟ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے بتایا کہ اس سال ہماری 24 بیعتیں ہوئی ہیں۔ جیسا کہ حضور انور نے ہمیں ہدایات دی تھیں کہ ہم ان سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا رابطہ رکھیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری داعیات الی اللہ کی تعداد زیادہ بڑھے۔
حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری تبلیغ نے بتایا کہ 24 کے ساتھ ہی ہمارا رابطہ قائم ہے اور ہر ماہ ہمارا رابطہ ہوتا ہے۔
حضورانور نے دریافت فرمایا کہ یہ سارے کینیڈا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو وہاں کی متعلقہ صدر ہے کیا اس کا ان نومبائعات سے رابطہ ہوتا ہے؟ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے بتایا کہ سارے کینیڈا میں پھیلی ہوئی ہیں اور متعلقہ صدر کا ان سے رابطہ رہتا ہے۔
سیکرٹری تربیت نومبائعات سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کا نومبائعات سے باقاعدہ رابطہ رہتا ہے؟
اس پر سیکرٹری نے عرض کیا کہ ان کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے، ہم ان کے ساتھ رپورٹنگ کے ذریعہ بھی رابطے رکھتے ہیں۔ براہ راست بھی رابطہ ہے، واٹس ایپ پر بھی رابطہ ہے۔ ہر ماہ ہماری کانفرنس کال ہوتی ہے جس میں نومبائعات بھی رابطہ کرسکتی ہیں۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نومبائعات زیادہ تر کس قوم کی ہیں؟
اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ سفید فام کینیڈین 21 ہیں اور 40 ایسی ہیں جو ایشین ممالک کی ہیں۔
حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری تربیت نومبائع نے بتایا کہ گزشتہ تین سال میں نومبائعات کی تعداد 71 ہے۔ ان میں سے 52 ایسی ہیں جو فعّال ممبرز ہیں اور جو باقی ہیں ان کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ رابطہ کا کیا طریق ہے؟
اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ پہلے صدران مجالس رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر ان سے رابطہ نہ ہوسکے تو پھر مردوں کے ذریعہ سے کوشش ہوتی ہے یا مربیان کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: مربیان نہیں بلکہ جن کے ذریعہ بیعتیں ہوتی ہیں رابطہ کا ذریعہ بھی انہیں کو بنانا چاہئے۔ اس طریق سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ جس کے ذریعہ سے بیعت ہوئی ہے وہ آیا صرف تبلیغ میں ہی فعّال ہے یا بعد کے تعلق اور رابطہ میں بھی عملی طور پر کام کر رہا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جس نے بیعت کروائی ہے کیونکہ بیعت تو ایک لمبا عرصہ کے بعد ہوتی ہے ایک دن میں تو نہیں ہوجاتی تو اس کی دوستی تو قائم رہتی ہے۔ جس نے بیعت کروائی ہے اگر وہ خود نماز پڑھنے والی نہیں، قرآن کریم پڑھنے والی نہیں، MTA نہیں دیکھتی یا صرف ایک دفعہ جوش میں آکر تبلیغ کی اور پھر جوش ٹھنڈا ہوگیا۔
لوگ تو مختلف وجوہات سے بیعت کرتے ہیں۔ بعض دفعہ جملہ باتوں سے متأثر ہوجاتے ہیں تو آپ کو یہ سب باتیں دیکھنی چاہئیں اس طرح آپ کو عملی طور پر بیعت کروانے والے کی بھی اصلاح کا موقع مل جاتا ہے۔ اور جو سیکرٹری تربیت ہے وہ باقاعدہ دیکھے اور اگر اس میں کوئی کمی ہے تو سیکرٹری نومبائعات اس کو بتاسکتی ہے اور جو نومبائعات کی حقیقی تربیت ہے وہ بھی ساتھ ساتھ ہونی چاہئے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان 52 نومبائعات میں سے چندہ کے نظام میں کتنی شامل ہیں؟
اس پر سیکرٹری نے عرض کیا کہ 22 نومبائعات شامل ہیں اور لجنہ کا ممبرشپ چندہ دیتی ہیں۔ باقی بھی کوشش کر رہی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ ممبرشپ کا چندہ دیتی ہیں یا نہیں۔ انہیں کہیں کہ ایک یا دو ڈالر سال کے ادا کرکے تحریک جدید اور وقف جدید میں شامل ہوجاؤ۔
حضور انور نے فرمایا کہ سیکرٹریان تحریک جدید اور وقف جدید کے پاس لسٹ ہونی چاہئے اور وہ انہیں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں کوئی شرط نہیں ہے کہ کتنا چندہ دینا ہے۔ ممبرشپ چندہ تو آپ نے ہر کمانے والی کا اُس کی آمد پر ایک فیصد رکھا ہوا ہے اور جو نہیں کمانے والی ان کا 24 یا 25 ڈالرز ہے۔
اس پر سیکرٹری مال نے عرض کیا کہ 24 ڈالرز ممبرشپ چندہ اور 24 ڈالرز اجتماع کا چندہ ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے اس ماہانہ چندہ کی ادائیگی میں کئی دفعہ روک پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے نومبائعات کو چندہ تحریک جدید اور وقف جدید کی عادت ڈالیں۔ ایک دو ڈالر ادا کریں تو ان کو پھر عادت پڑ جائے گی۔ شروع میں عادت ڈالنے کے لئے ان دونوں چندوں سے شروع کریں پھر ممبرشپ اور جماعتی چندے بعد میں آئیں گے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا: ان نومبائعات کے لئے کوئی سلیبس بھی بنایا ہوا ہے؟ اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ تین لیول کا سلیبس تین سالوں تک کے لئے بنا ہوا ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نومبائعات میں سے تربیت کے بعد کتنی Main Stream میں آجاتی ہیں؟
اس پر سیکرٹری نے عرض کیا، الحمدللہ کافی بڑی تعداد Main Stream میں آجاتی ہے۔ پھر ڈیوٹیاں بھی دیتی ہے اور بعض عہدیدار بھی بن جاتی ہیں۔
سیکرٹری تعلیم سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ آپ کا اگلے سال کا کیا منصوبہ ہے؟ آپ جو کہتے ہیں کہ ہم نے دو سال کی منصوبہ بندی پہلے ہی کی ہوئی ہے تو اِن دو سالوں میں، اس سال کی کیا منصوبہ بندی کی ہوئی ہے؟
اس پر سیکرٹری تعلیم نے بتایا کہ قرآن کریم میں سے سورۃالنور کا ترجمہ اور تفسیر شامل ہے۔
بعد ازاں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی کلاسز میں کتنی تعداد شامل ہوتی ہے۔ لجنہ کی تجنید کیا ہے؟
اس پر سیکرٹری تجنید نے بتایا کہ لجنہ کی تجنید 10160 ہے اور جنرل سیکرٹری نے عرض کیا کہ رپورٹس کے مطابق ان کے ریکارڈ میں تجنید 9589 ہے۔
حضور انور نے فرمایا تو اس کا مطلب ہے کہ جنرل سیکرٹری کے پاس جو رپورٹس ہیں ان میں 600 کی کمی ہے۔
حضور انور نے سیکرٹری مال سے دریافت فرمایا کہ آپ کے پاس تجنید کیا ہے۔ اس پر سیکرٹری مال نے بتایا کہ ستمبر تک کی رپورٹ کے مطابق جو چندہ ادا کرنے والی ہیں ان کے مطابق تعداد 8690 ہے۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ٹھیک ہے اتنا فرق تو ہونا چاہئے لیکن جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری تجنید کا آپس میں فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں مال کے ساتھ فرق ہونا چاہئے وہ ٹھیک ہے۔
حضور انور نے سیکرٹری تجنید اور جنرل سیکرٹری کو ہدایت فرمائی کہ اپنی انفارمیشن Update کریں۔
بعد ازاں حضور انور نے سیکرٹری تعلیم سے دریافت فرمایا کہ آپ پرچہ بھی لیتی ہیں اور سال کے پرچوں میں شامل ہونے والوں کی کتنی Average آتی ہے؟
اس پر سیکرٹری تعلیم نے بتایا کہ مارچ کے امتحان میں اس دفعہ شامل ہونے والوں کی تعداد 5500 تھی۔ اور ستمبر میں جو امتحان ہوا تھا اس کا رزلٹ ابھی فائنل نہیں ہوا اس لئے ابھی معین تعداد کا علم نہیں ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ساڑھے پانچ ہزار تو اچھی تعداد ہے۔
حضور انور نے سیکرٹری تعلیم سے دریافت فرمایا کہ کیا سلیبس میں شامل ہے؟
اس پر سیکرٹری تعلیم نے بتایا کہ ایک حصہ جو ہے وہ قرآن پاک کا ہے۔ پھر حدیث کا ایک حصہ ہے۔ پھر دعاؤں کا حصہ ہے۔ پھر اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک کتاب ہوتی ہے۔ اس وقت جو کتاب نصاب میں شامل ہے وہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بہت پڑھی لکھی عورتیں ہیں وہ تو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھ لیں گی۔ جو کم پڑھی لکھی ہیں ان کے لئے بھی ہلکی پھلکی کوئی چیز رکھیں۔ بہت سارے اسائلم سیکرز یا ریفیوجیز (Refugees) سری لنکا، تھائی لینڈ یا ملیشیا سے یہاں آئے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری عورتیں پاکستان سے آنے والی ایسی ہیں جو کچھ نہیں جانتیں کیونکہ پاکستان میں وہاں کے حالات ایسے ہیں کہ رابطے نہیں ہوتے۔ پروگرام، اجلاسات کم ہوتے ہیں۔ اس لئے وہاں امتحانوں میں شامل ہونے کی کافی کمی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ میں سے ’’ہماری تعلیم‘‘ والا حصہ ہر دفعہ ضرور رکھیں۔ کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس کو بار بار پڑھو۔ باربار پڑھ کر کبھی تو یہ احساس ہوگا کہ اس پر عمل کرنا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ’’کشتی نوح‘‘ میں خاص طور پر عورتوں کی تعلیم کے حوالہ سے جو حصہ ہے وہ پڑھیں۔ اوّل تو ساری کتاب ہی پڑھنے والی ہے۔ اس خاص حصّے کو نکال کر عورتوں کو دیں۔ پھر آسان آسان حصّے لے کر پرنٹ کرکے عورتوں کو دیں کہ ان کو پڑھو۔ اس کا امتحان ہوگا۔
حضور انور نے فرمایا کہ پھر جو ’’الفضل اخبار‘‘ ربوہ سے چھپتا ہے اس میں میرے خطبات کے سوال و جواب تیار کرکے وہ شائع کرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں کے ان سوال و جواب میں دیکھیں جو تربیتی اور علمی اور تعلیمی پہلو تھے وہ سارے نکال کر پرنٹ آؤٹ نکال کر خواتین کو دیں کہ اس کو پڑھیں پھر اپنے امتحان میں اس میں سے بھی سوال ڈالیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ مشکل چیزیں تو آپ پڑھ لیں گے لیکن سمجھ کوئی نہیں آتی۔ اس لئے برکت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی کتاب یا اس کا کچھ حصہ ضرور رہنا چاہئے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کوشش ہونی چاہئے کہ صرف کتاب پڑھ کے ہم نے خانہ پُری نہیں کرنی بلکہ کچھ نہ کچھ سکھانا بھی ہے۔ سکھانے کا فائدہ تبھی ہے کہ ہر بار ان کی نظروں کے سامنے ایک چیز آتی رہی۔
سیکرٹری تربیت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ میرے خطبات باقاعدہ کتنی خواتین سنتی ہیں؟
سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ جو باقاعدہ وقت پر سنتی ہیں ان کی تعداد 3175 ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی تجنید کے مطابق یہ تیسرا حصہ ہوا۔
حضور انور نے فرمایا جو خواتین جمعہ پر آتی ہیں۔ جمعہ کے خطبہ میں بھی خطبہ کا خلاصہ بیان ہوتا ہے تو اگر لجنہ کی طرف سے کوشش ہو تو اس کا فائدہ ہوگا۔ خود ان کے ذہنوں میں ہوگا تو اپنے خاوندوں کو اپنے بچوں کو Discussion میں بتاسکیں گی۔
حضور انور نے فرمایا کہ اب ایک خطبہ ایک مہینہ کا لے لیا کریں۔ اگر سارے نہ بھی لینے ہوں تو ایک خطبہ لے کر جس میں خاص طور پر تربیتی پہلو زیادہ ہوں اِس کے سوال و جواب کو آگے چلائیں۔ اگر ایک مضمون پر خطبات کا سلسلہ ہے تو ان خطبات کو لے لیں۔ مثلاً عملی اور اعتقادی تبدیلی کے اوپر مَیں نے کئی خطبات دیئے تھے۔ اس کے انہوں نے سوال و جواب بنائے ہوئے ہیں تو آپ وہ لے کر سب خواتین کو دے سکتی ہیں ان کی تو ایک پوری کتاب بن سکتی ہے۔ کم از کم اس کے سو صفحات تو ہیں۔
سیکرٹری تربیت نے بتایا کہ حضور انور کا جو بھی تازہ خطبہ ہوتا ہے ہم اس کے سوال و جواب بناکر مجالس کی سیکرٹری تربیت اور صدران کو فوراً بھجواتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر اس کا فیڈبیک کیا ہوتا ہے؟ فیڈ بیک بھی تو ہونا چاہئے۔
اس پر سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ ہم اپنی جنرل باڈی میٹنگ میں، اجلاسات میں، تعلیم اور تربیت کی میٹنگ میں ضرور ڈسکس کرتے ہیں۔
سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ ہم نے وصیت کی طرف توجہ دی ہے تو چھ ماہ میں ہماری ایک سو گیارہ ممبرات نے وصیت کی ہے۔
حضور انور نے سیکرٹری مال سے دریافت فرمایا کہ کمانے والی خواتین کی تعداد کیا ہے؟ اس پر سیکرٹری مال نے عرض کیا کہ 1269 ہے۔ تو اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس میں نصف تعداد 630 یا اس سے کچھ زائد کو موصی ہونا چاہئے۔ گو کہ موصی عورتوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن ان میں اکثریت وہ ہے جو کمانے والی نہیں۔ پھر نوجوان لڑکیاں ہیں جو سٹوڈنٹ ہیں وہ اس تعداد میں شامل ہیں۔ پس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کمانے والوں کی تعداد کا نصف وصیت کے نظام میں شامل ہو۔ یہ سیکرٹری تربیت کا کام ہے کہ وصیّت کی طرف لے کر آئیں۔ ’’رسالہ الوصیت‘‘ جو ہے اس کو بار بار پڑھوائیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ رسالہ الوصیت کا عام لوگوں کے لئے بھی پڑھنا بہت ضروری ہے۔ اس میں اسلام کی تاریخ ہے، پھر خلافت کیا ہے، وصیّت کیا ہے، یہ چیزیں اگر پکّی ذہنوں میں بیٹھ جائیں تو اگلی نسلوں کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ باقی علمی دلائل حاصل کرنے کے لئے تو بہت سا مواد موجود ہے۔ جن کو شوق ہے تبلیغ کا وہ اس کے حصول کے لئے کوشش کرلیتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ تربیت کرلیں تو علم آپ ہی حاصل ہوجائے گا۔ شعبہ تعلیم اور تربیت دونوں کو مل کر Co-ordinate کرنا ہوگا۔
سیکرٹری تربیت نے بتایا کہ ابھی ہم نے سلیبس اس طرح بنایا تھا کہ ’’کتاب شرائط بیعت‘‘ کے منتخب حصّے شامل کئے تھے کیونکہ ہمیں بعض لجنہ کی طرف سے ایسا اظہار ملا تھا کہ ہم سے کتابیں پڑھی نہیں جاتیں۔ بہت زیادہ سلیبس ہوجاتا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اسی لئے تو مَیں نے کہا ہے کہ سلیبس آسان اور مختصر رکھیں۔ اب رسالہ الوصیّت کو رکھیں ایک سال کے لئے۔ اب اسی کو پڑھائیں۔
سیکرٹری خدمت خلق کو حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ آپ کیا کام کررہی ہیں۔ آپ کے اس علاقہ Haiti میں زلزلہ آیا ہے۔ کیا لجنہ نے مدد کے لئے کچھ دیا ہے؟
اس پر سیکرٹری خدمت خلق نے بتایا کہ ہم نے لوگوں سے چندہ وغیرہ حاصل کیا ہے۔ حضور انور نے فرمایا آپ نے خدمت خلق کے فنڈ میں سے ان کو کچھ نہیں دیا۔ ہیومینٹی فرسٹ کو مدد کے لئے دے دیتیں۔
حضور انور نے فرمایا اب آپ نیا پلان کریں۔ پچھلے پلان پر نہیں چلنا۔ پہلے آپ نے اجازت لی تھی اور کچھ رقم ہیومینٹی فرسٹ کو دے دیتی تھیں۔ اب آپ نئے طور پر اپنی عاملہ میں ڈسکس کریں کہ کیا کرنا ہے۔ ویسے تو Haiti میں ہیومینٹی فرسٹ کام کر رہی ہے۔
سیکرٹری مال سے حضور انور نے سالانہ بجٹ کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر سیکرٹری مال نے عرض کیا کہ ہمارا بجٹ تین لاکھ تین ہزار 583 ڈالرز ہے۔
حضور انور نے اجتماع کے بجٹ اور اخراجات کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر سیکرٹری مال نے بتایا کہ ہمارا اجتماع کا بجٹ ایک لاکھ 67 ہزار ڈالرز تھا۔ اور گزشتہ سال ہمارے اجتماع پر 26 ہزار پانچصد ڈالرز خرچ آیا تھا۔ اس سال ہمارا اجتماع اگست میں ہوا ہے۔ اس کے اخراجات ابھی فائنل نہیں ہوئے۔
حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری مال نے بتایا کہ ہم نے افریقہ کے لئے دو لاکھ ڈالر کا وعدہ کیا تھا جو ہم نے ادا کردیا ہوا ہے اور اس سال بھی ہمارا پروگرام ہے اور ہم عاملہ میں ڈسکس کرکے اپنا وعدہ بھجوائیں گے۔
سیکرٹری ناصرات سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی تجنید کیا ہے؟ اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ 2208 ہے۔ لیکن صدران اور سیکرٹری صاحبان کے مطابق 2105 ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان کی تربیت کا کیا پروگرام ہے؟ کیا سلیبس بنایا ہوا ہے؟ آپ نے جو تین کیٹگری بنائی ہیں اس میں 7 تا 10 سال کی عمر کا سلیبس کیا ہے، 10 تا 12 سال کی عمر کا کیا سلیبس ہے اور 12 تا 15 سال کا کیا سلیبس ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اجتماع میں صرف کھیلوں کا مقابلہ تو نہیں ہے۔ تلاوت کا مقابلہ کروادیا۔ آجکل ’’آمین‘‘ کروارہے ہیں۔ لڑکیاں قرآن کریم پڑھنے میں لڑکوں سے نسبتاً بہتر ہیں۔ لیکن پھر بھی لگتا ہے کہ بعضوں نے صرف ’’آمین‘‘ کے لئے پڑھا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان ملکوں میں تربیت پر زور دیں۔ پانچ نمازوں کی ادائیگی ہے، قرآن کریم کا پڑھنا ہے، روزانہ تلاوت کرنا ہے اور جو بارہ تا پندرہ سال کی لڑکیاں ہیں ان کو کچھ نہ کچھ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا چاہئے یا کم از کم جو سورتیں یاد ہیں ان کا ترجمہ سیکھنا چاہئے۔
اس کے علاوہ عمومی تربیت کی باتیں ہیں اس پہلو سے بھی دیکھیں۔ یہ بھی دیکھیں کہ خطبہ سننے والی کتنی ہیں۔ اس کو سمجھنے والی کتنی ہیں۔ اردو میں سمجھ نہیں آتی تو اس کا انگلش ترجمہ ہے۔ اگر یہ نہیں تو اس کا خلاصہ انگریزی میں بھی آجاتا ہے۔ وہ دیکھتی ہیں کہ نہیں۔ انگریزی ترجمہ ’’الاسلام‘‘ پر آجاتا ہے، پاکستان تحریک جدید سے چار پانچ دنوں میں آجاتا ہے۔ اس کو سنایا کریں۔
حضور انور نے فرمایا کہ ناصرات کو ان ممالک میں سنبھالنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ سکولوں میں جو کچھ سیکھ کر آتی ہیں پھر اس بارہ میں سوال کرتی ہیں تو ان کے سوالوں کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ خاص طور پر یہاں کی جو مشکلات ہیں جن سے تربیت پر اثر پڑتا ہے ان کو دیکھیں۔ ناصرات کی تربیت کرلیں باقی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
سیکرٹری ناصرات نے عرض کیا کہ حضور انور کا خطبہ جمعہ ناصرات کی ویب سائٹ پر ڈالا جاتا ہے تاکہ وہاں سے سن لیں۔ اسی طرح خطبہ کے پوائنٹس لے کر ایک پریزینٹیشن تیار کی جاتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پوائنٹس لینے والا کون ہے؟ کوئی اچھا ہونا چاہئے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ذریعہ ہوتا ہے۔ جب مَیں نے لندن میں مربیان سے میٹنگ کی تو مَیں نے انہیں کہا کہ اس کے پوائنٹس نکالو۔ ایک نے تیس پوائنٹس نکالے اور دوسرے نے 67 پوائنٹس نکال لئے تو یہ تو ہر ایک کی اپنی اپنی صلاحیت ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری صنعت و تجارت سے دریافت فرمایاکہ مجھے شکایت آئی ہے کہ جلسہ کے موقع پر سٹالوں میں جالی دار برقعے فروخت ہورہے تھے۔ یہ کون سے جالی دار بُرقعے ہیں۔
اس پر سیکرٹری نے عرض کیا کہ جالی دار برقعہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ نیٹ کا کپڑا ہوتا ہے اس پر لائننگ لگی ہوتی ہے۔ اس میں سے لباس نظر نہیں آتا اور یہ چپکتا بھی نہیں ہے۔
حضور انور نے سیکرٹری اشاعت سے رسالہ کی اشاعت کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر سیکرٹری اشاعت نے بتایا کہ رسالہ ’’النساء‘‘ تین دفعہ سال کے دوران شائع ہوا ہے۔
حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری اشاعت نے بتایا کہ ہم اس رسالہ کے لئے ہر مجلس سے دو آرٹیکل لیتے ہیں اور پھر اِس میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ ہماری ایک کمیٹی بھی ہے جو بھی اعتراضات اسلام کے خلاف آتے ہیں ہم اس کے جوابات فوری طور پر اپنے آرٹیکل میں دیتے ہیں۔
سیکرٹری اشاعت نے عرض کیا کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ حضور انور کے خطابات میں سے جو تربیت کے حوالے سے نکات ہیں ان کو کتابی شکل میں شائع کریں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اچھا ہے، کریں۔
حضور انور نے فرمایا کہ نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ نے تربیتِ اولاد کے اوپر ایک کتاب شائع کی ہے اس کا کوئی انگریزی ترجمہ کر سکتا ہے تو کرے۔ امریکہ میں ترجمہ کرنے والے تیز ہیں حالانکہ کینیڈا کو بھی تیز ہونا چاہئے۔
سیکرٹری ضیافت نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ جو بھی پروگرام ہوتے ہیں اس میں کھانے کا بندوبست کرتی ہوں۔
سیکرٹری تحریک جدید سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ چندہ تحریک جدید میں لجنہ کا کتنا حصہ ہے۔ اس پر سیکرٹری تحریک جدید نے بتایا کہ چھ لاکھ 37 ہزار ڈالرز لجنہ کا حصہ ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جماعت کا کُل وعدہ دو ملین ڈالرز کا ہے۔ تو اس طرح تیسرا حصہ آپ کا ہوا۔
حضور انور نے فرمایا یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ مَیں آپ کے ملک سے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کروں گا۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ گزشتہ تین سالوں میں آپ کے تحریک جدید کے چندہ میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ اس پر سیکرٹری تحریک جدید نے بتایا کہ سال 2012ء میں 4,37,000 ڈالرز تھا۔ اور 2013ء میں ہمارا چندہ 4,90,000 تھا۔ 2014ء میں 5,39,000 ڈالرز اور 2015ء میں 6,22,000 ڈالرز تھا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تقریباً پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماشاء اللہ۔
حضور انور نے سیکرٹری وقف جدید سے دریافت فرمایا کہ ابھی دو تین ماہ رہتے ہیں۔ آپ کا چندہ کتنا ہوچکا ہے۔ اس پر سیکرٹری نے بتایا 3,58,000 ڈالرز جمع ہوچکا ہے اور گزشتہ سال ہمارا چندہ پانچ لاکھ 41 ہزار ڈالرز تھا۔
حضور انور نے شاملین کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر سیکرٹریان نے بتایا کہ تحریک جدید میں شاملین کی تعداد 14000 ہے۔ لجنہ اور ناصرات دونوں شامل ہیں۔ جبکہ وقف جدید میں شاملین کی تعداد 13,660 ممبرات میں سے 12,660 ہے۔ یعنی 93 فیصد ممبرات شامل ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: کمال کردیا ہے۔
حضور انور کے استفسار پر سیکرٹری صحت جسمانی نے بتایا کہ لجنہ کے کھیلوں کے پروگرام ہوتے ہیں۔ طاہر ہال میں دن تقسیم کئے ہیں۔ خدام، انصار کے علاوہ لجنہ کے لئے بھی بعض دن مخصوص ہیں۔ اِن میں کھیلوں کا پروگرام ہوتا ہے۔
حضور انور کے استفسار پر محاسبہ نے بتایا کہ ستمبر 2015ء میں آخری آڈٹ کیا تھا۔ باقی ہر سہ ماہی کے اخراجات کا حساب ہوتا ہے اور رپورٹ کو آڈٹ بھی کیا جاتا ہے۔
معاون صدر (برائے وقف نو) کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ لجنہ کی جو عورتیں واقفاتِ نَو ہیں ان کا پروگرام آپ نے وہی رکھنا ہے جو جماعتی ہے اور ان کے سارے پروگرام لجنہ نے خود کرنے ہیں۔ کسی مرد کو لجنہ کی واقفاتِ نَو کلاس میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی خاص پروگرام ہو۔ اس کی مجھ سے اجازت لینی ہے۔ اب لجنہ کو آپ نے ہی سنبھالنا ہے۔ لجنہ بھی اور ناصرات بھی، مردوں سے اپنے پروگرام نہیں کرواتیں۔ مردوں کو اُن کے پروگراموں کی اجازت نہیں ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ میں پڑھی لکھی عورتیں ہیں۔ عائشہ اکیڈیمی چلا رہی ہیں۔ حافظ قرآن بھی ہیں۔ دینی علم رکھتی ہیں۔ مضامین لکھتی ہیں اس لئے آپ خود اپنے پروگراموں کو ہر جگہ سنبھال سکتی ہیں۔
حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو واقفاتِ نو بچیاں 15 سال سے اوپر ہیں ان سے Bond فِل کروائیں۔ جنہوں نے ابھی تک نہیں کیا اُن سے پوچھیں اگر وہ فِل کرنا نہیں چاہتیں تو انہیں کہو پھر واقفاتِ نَو سے فارغ ہوجاؤ۔ جو وقف میں نہیں رہنا چاہتی اس کو وقف سے فارغ کردیا جائے گا۔
سیکرٹری انچارج پراپرٹی نے بتایا کہ ہماری دو جائیدادیں ہیں۔ ایک یہ ’’بیت مریم‘‘ ہے اور ایک ’’بیت نصرت‘‘ ہے۔
سیکرٹری رشتہ ناطہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رشتہ ناطہ کی لسٹ ریکارڈ میں کُل تعداد اور اب تک جو رشتے کروائے ہیں ان کا جائزہ لیا اور ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: طلاق اور خلع کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس طرف بھی توجہ دیں۔ بعض دفعہ لڑکے باہر سے شادیاں کرکے یہاں آتے ہیں۔ یہاں ان کے رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔ یہاں آتے ہیں اور لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ہیں یا لڑکیاں شادی کرکے باہر سے یہاں آتی ہیں اور یہاں پہنچ کر لڑکوں کو چھوڑ دیتی ہیں اور چند ماہ میں دونوں میاں بیوی میں آپس میں لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
حضور انور نے سیکرٹری رشتہ ناطہ کو فرمایا کہ آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ جو رشتے آپ نے کروائے ہیں ان میں سے کتنے طلاق اور خلع پر منتج ہوئے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ آج سے تین چار سال پہلے طلاق، خلع کی ریشو (Ratio) عموماً ہر جگہ 13 فیصد تھی اور اب یہ بڑھ کر 19 ، 20 فیصد ہوچکی ہے۔ اس رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تربیت کے شعبہ کا یہ بھی کام ہے۔ ایک تو کچھ لڑکیوں میں بھی برداشت نہیں ہے اور دوسری طرف کچھ لڑکوں میں بھی آوارگیاں ہیں۔ دونوں چیزیں شامل ہیں۔ آپ پہلے یہ دیکھا کریں کہ حقائق کیا ہیں۔ اس کے مطابق ہر معاملہ کو سلجھایا کریں۔ برداشت کا مادہ دونوں میں نہیں رہتا جس کی وجہ سے علیحدگیاں بھی ہوتی ہیں۔ اب یہ بات پرانی ہوگئی ہے کہ اپنا گھر بسانے کے لئے دونوں برداشت کرلیتے تھے تاکہ گھر کی بات باہر نہ نکلے۔ لیکن یہ ماحول اب نہیں ہے۔ اب اگر بات سامنے نہیں آئے گی تو سارے حالات کی ذمّہ داری لڑکی کے اوپر آجائے گی۔ اور پھر جو بچے ہیں وہ علیحدہ ڈسٹرب ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی تربیت پر اثر پڑتا ہے۔ تو مسائل کا یہ ایک سلسلہ ہے ہمیں اس سے اچھی طرح سے نپٹنا ہوگا۔
سیکرٹری نے عرض کیا کہ ہمارا ایک پراجیکٹ ہے ہم اس پر کام کرنا چاہتے ہیں جو ہدایات الفضل میں آتی ہیں، ہم ان کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا بڑی اچھی بات ہے کریں لیکن الفضل میں آپ کی یوکے کی کلاسز کی کوریج نہیں ہوتی تو یہ MTA پر آجاتی ہیں۔ ان کی ریکارڈنگ سن لیا کریں۔
بعد ازاں مجلس عاملہ کی سیکرٹریان نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سوالات کرنے کی اجازت چاہی؟
ایک سیکرٹری نے سوال کیا کہ جو بچیاں یونیورسٹی جاتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ہم باقاعدہ تعلیم و تربیت کی کلاسوں میں نہیں آسکتیں یا کم آتی ہیں تو ان کے لئے ہم دسمبر میں دو دن کا ایک کیمپ کرتے ہیں۔
حضور انور کے استفسار پر کہ یہ کہاں ہوتا ہے ، سیکرٹری نے بتایا کہ نیشنل لیول پر اور ریجنل لیول پر ہوتا ہے۔ یہاں جو پانچ ریجن ہیں ان کا اکٹھا پروگرام ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ میں ہوتا ہے اور سوال و جواب بھی ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال کتاب ’’کشتی نوح‘‘ تھی۔ حضور انور کا یہ ارشاد تھا کہ یہ کتاب پڑھی جائے اور بڑی بچیوں کو سمجھایا بھی جائے۔ ان کو اس بارہ میں بتایا بھی گیا تھا۔
اب اس دفعہ دسمبر میں دوبارہ یہ پروگرام ہے تو اس میں ہم کونسی کتاب یا کونسان عنوان رکھیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ رسالہ الوصیت میں سے پوائنٹس نکال کر رکھیں۔
ایک سیکرٹری نے سوال کیا کہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ حضور انور کے خطبات، خطابات اور ایڈریسز سب لجنہ سنے اور ان پر عمل کرے لیکن ہماری کوششوں میں بہت کمی رہ جاتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کوشش میں کمی رہتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فَذَکِّرْ کا حکم دیا ہے، نصیحت کرنے کا حکم دیا ہے۔ سو فیصد ٹارگٹ تو سال میں حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں بھی اپنے خطبات میں بار بار نصیحت کرتا رہتا ہوں۔ ہم نے تو کوشش کرنی ہے اور کرتے رہنا ہے۔ لوگوں کے کانوں میں روئی بھری ہوئی ہے۔ کبھی تو کسی کے کان سے روئی باہر نکلے گی۔ اگلے دن کسی اور کو فرق پڑ جائے گا۔ بہرحال کوشش ہونی چاہئے۔ آپ کی جو نئی نسل ہے ان سے محبت و پیار سے بات کریں۔ پیار سے سمجھائیں۔ سختی سے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آج ایک آدمی ملنے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ میری بیوی کا خاندان احمدی نہیں تھا تو یہاں میں ان کو اپنے قریب لایا ہوں۔ لجنہ کے اجلاس میں یا جمعہ کی نماز پر وہ گئی تو وہاں اُسے کہا گیا کہ تمہیں تو احمدیت کا پتہ ہی نہیں تم کہاں سے آگئیں تو اس پر وہ بجائے قریب آنے کے بالکل ہی دوڑ گئی۔ حالانکہ کمزور بھی ہوتی ہیں، کامل تو کوئی نہیں ہے، جو اپنے آپ کو سمجھتی ہیں وہ بھی نہیں۔ اس لئے کمزوروں کو ساتھ ملانا اصل کام ہے۔ جو پہلے ہی فعّال ہیں ان کو شامل کرلینا کوئی کمال نہیں ہے۔ ایسی نوجوان بچیوں کی ٹیم بنائیں جن کی اپنی تربیت اچھی ہے اور مضبوط ایمان کی ہیں۔ وہ اپنی ساتھی لڑکیوں کے ساتھ تعلق میں بڑھیںا ور ان کو جماعتی طور پر قریب لائیں۔ ہر ملک کے حساب سے اور عمر کے حساب سے یہ ٹیمیں بننی چاہئیں۔
ایک سیکرٹری نے سوال کیا کہ ہماری بعض لجنہ ممبرز گزشتہ دس سالوں سے Active نہیں ہیں۔ ان کو ہم کیسے قریب لاسکتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہی تو میں بتا رہا ہوں۔ جو دس دس سالوں سے پیچھے ہیں تو ان کو کچھ عہدیدارات کے خلاف شکوے ہیں یا ان کے خاوندوں کو مرد عہدیداران سے شکوے ہیں یا ان کی اپنی دنیاوی ترجیحات زیادہ ہیں تو ان کے ساتھ رابطے کریں۔ ان کے گھر جائیں۔ کم از کم کوئی ذاتی تعلق تو پیدا ہو۔ ایسی ٹیمیں بنائیں جو رابطہ رکھیں۔ اسی سے تربیت شروع ہوجائے گی۔ ہر ایک کی نفسیات کے مطابق تربیت کا پلان بننا چاہئے۔
مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں دجّالی طاقتیں بھی زیادہ کام کررہی ہیں تو ان کے توڑ کے لئے پھر پلاننگ بھی صحیح ہونی چاہئے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بالحکمۃ اور موعظہ حسنہ کا اصول بتایا ہے کہ پیار سے بات کرو۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کے پاس بھیجا تھا تو قولًا لَیِّنًا فرمایا کہ نرم زبان استعمال کرو۔ نرمی سے بات کرو۔ یہ نہیں تھا کہ پہلے دن ہی جاکے سوٹا پھینک کر سانپ بنادیا یا ہاتھ سفید کردیا۔ یہ فوری طور پر نہیں تھا۔ معجزہ دکھانے کے باوجود بھی نرم زبان استعمال کی اور آپ لوگوں کے پاس تو معجزہ بھی نہیں اس لئے سخت زبان کو کون سنے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ان لوگوں سے ضرور مشورہ بھی کرو لیکن ان کے ساتھ جو نرمی کا سلوک کرنا ہے اور تمہارا ان کے ساتھ جو محبت و پیار کا سلوک ہے اس نے ہی ان کو تمہارے قریب کیا ہوا ہے۔ اگر آپ جیسی شخصیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ یہ صرف تمہاری شخصیت کی وجہ سے قریب نہیں آرہے بلکہ اپنا نرم رویّہ رکھو تو یہ قریب رہیں گے اور قریب آئیں گے۔ پس جو تمام عہدیدارات ہیں ان کو اور ان کی ٹیموں کو نرم رویے رکھنے ہوں گے۔ تھوڑی دیر بعد رعب نہ ڈالنے لگ جایا کریں۔
ایک سیکرٹری نے سوال کیا جس طرح حضور نے ابھی ہدایات دی ہیں ہم یہ سب ہدایات واقفات نو کے لئے بھی جمع کرتی ہیں لیکن وہ اجتماعات پر نہیں آرہیں اور پروگراموں میں حصہ نہیں لے رہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وقف نو کے اجتماع پر آنا ضروری ہے۔ ان کے پیچھے پڑو اور پھر دیکھو کہ جنہیںکوئی شوق نہیں ہے تو ان کو کہو کہ ہم تم کو فارغ کرنے کی سفارش کردیتے ہیں۔ ان کو ایک دو وارننگ دے دو اس کے بعد ان کے بارہ میں مجھے معلومات دے دو۔
ایک سیکرٹری نے سوال کیا کہ حضور انور نے سیکولر ایجوکیشن کے بارہ میں فرمایا تھا کہ ہم لڑکیوں کو سائنسز کی طرف لے کر جائیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے لڑکیوں کو ٹیچرز اور ڈاکٹرز بننے کے لئے کہا تھا۔ ویسے عمومی طور پر جس کا رجحان زیادہ ہے وہ خالص سائنس کی طرف بھی آسکتی ہیں۔ وقف نو کی کلاس میں زیادہ ڈاکٹر اور ٹیچر بننے کے بارہ میں کہا تھا۔
حضور انور نے فرمایا کہ طالبات کی یونیورسٹی سٹوڈنٹ کی جو کلاس تھی اس میں سارے سوشل سائنس اور دوسری مختلف سائنسز کی طالبات تھیں تو میں نے وہاں کہا تھا جو خالص سائنس ہے اور اس کے مضامین ہیں ان میں بھی ہماری طالبات ہونی چاہئیں۔
ایک سیکرٹری نے عرض کیا کہ حضور انور کا ارشاد ہے کہ جو تعلیم ڈیپارٹمنٹ ہے اس کا کام سیکولر ایجوکیشن ہے اور جو تربیت ہے اس کا کام لجنہ کی تربیت کرنا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سیکرٹری تعلیم کے دونوں کام ہیں دینی تعلیم بھی ہے اور ساتھ دنیاوی تعلیم بھی ہے۔ دونوں کام ہی ساتھ ساتھ چلیں گے۔
ایک سیکرٹری نے سوال کیا کہ ایک لڑکی نے مجھے کہا مَیں ڈاکٹر نہیں بننا چاہتی، میرے والد مجھے زبردستی ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں۔ میری شادی ہوجانی ہے۔ مَیں نے تو گھر میں رہنا ہے تو مَیں ڈاکٹر کیوں بنوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا اگر پڑھی لکھی ہوں گی تو بچوں کی تربیت اچھی کرلے گی۔ گائیڈنس کرسکتی ہے۔
نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ میٹنگ چھ بجکر 25 منٹ تک جاری رہی۔
(باقی آئندہ)