سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

وہ فرش چٹائی جس پر خود بدولت چارپائی کے پاس تشریف فرما تھےاتنی میلی اور کوڑے سے پُر کہ جہاں انسان تو کیا کوئی ذلیل ترین حیوان بھی بندھنا پسند نہ کرے

محمدحسین صاحب بٹالوی ایک تعارف

(گذشتہ سے پیوستہ )یہ تو احوال تھا ان کی جسمانی اولاد کا۔ روحانی اولاد میں سے مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب اور عبدالجبار غزنوی صاحب وغیرہ کو بھی مولوی صاحب نے کچھ برا بھلا کہا جس کے بعد وہ بھی مولوی صاحب کے خلاف ہو گئے۔چنانچہ مولوی عبد الجبار غزنوی نے تو یہاں تک لکھا کہ’’اے میرے اعلیٰ چچا۔واللہ آپ مصلحیت قوم کے ہر گز لائق نہیں۔ بلکہ اس کی ضدکے لائق ہیں۔ بھلامغلوب الغضب، کم حوصلہ، ثناء و جاہ طلب، خود غرض آدمی بھی مصلح قوم بننے کے قابل ہے؟…آپ محدث لکل ما توہم و مکذب بکل ما سمع ہو گئے ہیں۔‘‘(بطالوی کا انجام صفحہ 73تا 74)

غرض مولوی صاحب کی رسوائی، ذلت اور نکبت اس حد تک ہوئی کہ بالآخر وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔

خاکسارنے اس زمانے کے اشاعۃ السنۃ کے فائلزکامطالعہ کیاہے۔ اور بٹالوی صاحب کوان کی اپنی اولاد اور اپنے ہی ماننے والوں، مریدوں اور شاگردوں کی طرف سے وہ وہ برے بھلے نام سننے پڑے،ذلت ورسوائی کے وہ وہ القابات و اعزازات ان کے گلے کاطوق بنائے گئے کہ مجھے قادیان کے اس مامورومرسل کی یہ بات بڑی شان وشوکت سے پوری ہوتی ہوئی نظرآئی کہ جو اس نے بڑے دکھے ہوئے دل کے ساتھ بڑی شان اوراپنے مولیٰ کریم پرمان رکھتے ہوئے کہاتھا

سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں

اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار

یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف

قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار

اوریہ شخص اس دنیاسے نہیں اٹھایاگیاجب تک کہ اس کی دریدہ دہنی اورزبان وبیان کاساراادھار واپس نہیں ملا۔خاکسارایک دوبار بٹالہ صرف اسی غرض کے لیے گیا کہ اس کی قبرکاہی کوئی نام ونشان مل جائے لیکن اب اس قبرستان کانام ونشان تک نیست و نابود ہوچکاہے۔ کچھ پر مکانات بن چکے اور درمیان سے پبلک ٹریفک کے لیے ایک پختہ روڈ بنا دی گئی ہے۔اور دوسری طرف وہ ہے کہ جس کے مزارپردعاکرنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور کروڑوں عشاق ہیں کہ وہاں حاضری دینے کی حسرت اپنے دلوں میں لیے ہوئے اس انتظارمیں ہیں کہ اے کاش ہم ایک جھلک ہی اس کی دیکھ لیں۔

وہ کہ گرمن بازبینم روی یارِ خویش را

تاقیامت شکر گویم کردگارِ خویش را

اے کاش کہ اگر میں اپنے دوست کا چہرہ دوبارہ دیکھ پاؤں تو قیامت تک اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہوں

بہرحال مولوی صاحب کا اخبار اشاعۃ السنۃ جو ماہوار اخبار تھا، پہلے سہ ماہی، پھر ششماہی، پھر سالانہ اور پھر 2 یا 3 سال بعد ایک پرچہ نکلنا شروع ہوا۔ ان کے گھر کی جو حالت ہو چکی تھی اس کا ذکر میر قاسم علی صاحب نے کیا ہے جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے ساتھ1911ء میں ان کے گھر گئے۔ وہ کہتے ہیں:’’عرفانی صاحب مجھے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں پھراتے ہوئے اس کی قیام گاہ تک لے پہنچے…دونوں اندر چلے گئے۔ دیکھا کہ بطالوی ایک اندھیری کوٹھری میں جہاں صرف ایک چارپائی پڑی ہے۔ اس کے پاس ہی ایک چٹائی پر جو نہایت گندی اور پھٹی ہوئی تھی بیٹھا ہے۔ کوٹھڑی کےایک طرف اندر ہی مٹی کا چولہا رکھا ہے۔ اور ایک دس سالہ لڑکی چولہے پر مٹی کی ہانڈی رکھی ہوئی اس کے نیچے آگ جلا رہی ہے۔ جس سے تمام کوٹھری دھواںدار ہو رہی ہے۔ لڑکی کی آنکھوں سے آگ پھونکتے پھونکتے آنسو نکل رہے ہیں۔ اور بے چاری منہ کی پھونکوں سے آگ سلگا رہی ہے۔خدا تعالیٰ گواہ ہےمیں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ اس کوٹھڑی کی حالت اور بطالوی کی اس وقت کی رہائش دیکھ کر مجھے زمینداروں کے اس گڈھیال کا نقشہ سامنے آ گیا جس میں وہ گنے پیڑ کر اس کے رس کا گڑ پکایا کرتے ہیں۔نہایت اندھیرا گھپ اور دھویں سے ہاتھ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ فرش چٹائی جس پر خود بدولت چارپائی کے پاس تشریف فرما تھےاتنی میلی اور کوڑے سے پُر کہ جہاں انسان تو کیا کوئی ذلیل ترین حیوان بھی بندھنا پسند نہ کرے۔ سردی کا موسم تھا میں دہلی سے گیا تھا۔ بطالوی کی اس حالت کو دیکھ کر مجھے اس پر بہت ہی ترس آیا کہ الٰہی یہی و ہ شخص ہے جو بازاروں سے جب گزرتا تھا تو لوگ اس کی تعظیم کے لئے اپنی دکانوں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔…اس کی ہیئت کذائی پکار پکار کر اس کی حواس باختگی، ازخود رفتگی، دیوانگی، خستہ حالی اور خبط الحواسی پر شہادت دے رہی تھی۔ سر کے بکھرے ہوئے بال، سردی کے موسم میں ایک لمبا چغہ سفید ململ کا، نیچے جس کے سیاہ رنگ کا دقیانوسی کوٹ گرم، آنکھوں پر ایک دھاگے سے بندھی ہوئی کمانی کی عینک، نیچے چٹائی کا وہ فرش جو چنڈو خانوں میں ہی نظر آ سکتا ہے…چارپائی پر ایسا کثیف اور ناپاک بسترہ جس پر اگر سفید کاغذ بھی رکھ دیا جائے تووہ بھی سیاہ ہو جائے۔‘‘(بطالوی کا انجام صفحہ 86تا 89)پھر 1912ءکی ایک ملاقات کا احوال بھی میر صاحب نے لکھا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے مولوی صاحب کی مسجد بھی دیکھی جو ایک چھوٹی سے مسجد تھی، وضو کے لیےکوئی لوٹا نہ تھا، نہ کوئی نمازی جس سے استدعا کی جاتی، ایک چھوٹی سی کنویں تھی جس پر ایک بوکی چرمی پڑی تھی، جب اس سے پانی نکالنے لگے تو علم ہوا کہ وہ تو پھٹی ہوئی ہے اورا س سے پانی اوپر نہیں آ سکتا۔ مولوی صاحب جن بچوں کو محلے میں پڑھاتے تھے وہ سب محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو بغدادی قاعدہ اور قرآن مجید ان سے پڑھتے تھے۔ جس پر مولوی صاحب کی گزر بسر تھی۔ اور ان بچوں کے والدین نے بھی مولوی صاحب کو سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ ہمارے بچے پڑھنے آتے ہیں بازار جانے نہیں۔ ان کو سودا لینے نہ بھیجا کرو۔ مولوی صاحب 80 سال کی عمر میں خود یہ سارا سودا اٹھا کر بازار سے لاتے۔ 1920ء سے کچھ قبل انہیں بخار ہوا جو دو ماہ رہا۔ (ماخوذ از بطالوی کا انجام صفحہ 94تا100و116)

اسی دوران فالج بھی ہو گیا۔بالآخر 29؍ جنوری 1920ء کوبٹالہ میں اپنے سکونتی مکان میں فوت ہوئے۔ ( سیرت ثنائی صفحہ453)جب یہ فوت ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور ذلت کا ذریعہ یہ بنایا کہ ان کا مدفن ’’تکیہ کنجراں والا‘‘متصل تالاب شمشیر خان قرار پایا۔ (بطالوی کا انجام صفحہ 116)

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ان کی جن کتب کے نام مل سکے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

منہج الباری فی ترجیح صحیح البخاری۔ الاقتصاد فی بیان الاعتقاد۔ المفاتیح فی بحث التراویح۔ ہدایۃ الرب لاباحۃ الضب۔ سجدہ تعظیم۔ البیان فی رد البرہان۔ کشف الاسقار عن وجہ الاظہار۔ البرہان الساطع۔ المشروع فی ذکر الاقتداءبالمخالفین فی الفروع۔ خیالی مسیح اور اس کے فرضی حواری سے گفتگو۔ تین گواہ۔ مرزا قادیانی اور مرزائیوں کے بارے میں چند سوالات۔الاقتصاد فی حکم الشہادۃ والمیلاد۔ الاجتہاد والتقلید۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button