ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(کینسر کے متعلق نمبر 5) (قسط12)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
ہیکلالاوا
Hekla lava
٭…ہیکلا لاوا کا اثر خاص طور پر ہڈیوں پر ہو تا ہے، خصوصاً چہرے اور جبڑے کی ہڈیوں پر۔ بعض دفعه دانت خراب اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف دیتے ہیں اور کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتے تو ہیکلا لاوا کام آتا ہے۔ ہیکلالاوا کی زیادہ تر شہرت تو چہرے اور جبڑے کی ہڈیوں میں مفید ہونے کی وجہ سے ہے مگر یہ تمام جسم کی ہڈیوں پر بھی اثر اندازہوتا ہے۔ بعض دفعہ جبڑا سوج کر بہت موٹا ہو جا تا ہے۔ سب علامتیں عموماً ہیکلا لاوا سے ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو تا۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم اور مؤثر دوا سلفر ہے جو ایسی خطرناک علامتوں میں بھی کام کرتی ہے جن کے بارے میں عام معالجین کا یہ خیال ہو تا ہے کہ یہ ناقابل علاج ہو چکی ہیں مثلاً جبڑے کی ہڈی کا کینسر ہے جو بہت بڑھ چکا ہو۔ اس کے نتیجہ میں شدید تکلیف ہوتی ہے، اس سے کان بھی متاثر ہو تا ہے۔ میں نے بارہا ایسے مریضوں کا سلفر کے ذریعہ کامیاب علاج کیا ہے۔ ایک مریضہ اس بیماری سے شدید تکلیف میں تھی۔ ایک طرف کا چہرہ سخت سوجا ہوا تھا،آنکھوں میں دباؤ تھا اور درد اتنا شدید ہو تا تھا کہ چیخیں نکل جاتی تھیں۔ دیر تک ایک بہترین ہسپتال میں داخل رہیں مگر ڈاکٹروں کی کچھ پیش نہ گئی اور آخر انہیں لاعلاج قرار دے کر ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ میں نے انہیں سلفر CM کی ایک خوراک دی جس سے ان کا درد کم ہو گیا۔ دو ہفتے کے اندر ہی سوزش میں نمایاں طور پر کمی آگئی۔ پھر میں نے انہیں سلیشیا CM کی ایک خوراک دی جس سے شفایابی کی رفتار جو رک گئی تھی بحال ہو گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد سلفر CM دوبارہ دی تو بیماری کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ اس بات کو کئی سال گذر چکے ہیں اور آج تک وہ بالکل ٹھیک ٹھاک اور صحت مند ہیں۔ ہیکلا لاوا کے تعلق میں یہ اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ بظاہر علامتیں ہیکلا لاوا کی تھیں اور باوجود کچھ عرصہ مسلسل ہیکلا لاوا کھلانے کے انہیں قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہڈیوں کی دوسری بیماریوں میں ہیکلا لاوا مفید ہو تو ہو لیکن کینسر میں مفید نہیں ہے۔ ہیکلا لاوا یقیناً مفید دوا ہو گی لیکن ذاتی طور پر مجھے اس کی افادیت کا کوئی تجربہ نہیں۔ تاہم بعض ہومیوپیتھ اس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔(صفحہ428،427)
٭…ہیکلا لاوا کی خاص علامت یہ بتائی جاتی ہے کہ جبڑوں کی ہڈی میں درد ہوتا ہے۔ جبڑوں کے ارد گرد سوزش نمایاں ہوتی ہے اور جبڑے کی ہڈی بڑھ جاتی ہے۔ ہڈیوں کی گہری بیماریوں میں میں نے سلفر کے علاوہ کلکیریا کارب کو بھی ہیکلا لاوا سے بہت زیادہ مفید پایا ہے۔ میں نے اسے ہڈیوں کے کینسر کے ایسے مریضوں کو جن کا کینسر کلینیکل لیبارٹریز کے تجزیہ سے قطعی طور پر ثابت ہو چکا تھا اونچی طاقت میں دے کر دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند مہینے کے علاج کے بعد بیماری بہت حد تک قابو میں آ گئی۔ ایسے مریضوں کا لمبا عرصہ احتیاط سے علاج کرنا پڑتا ہے اور صرف کلکیریا کارب پر ہی اکتفا نہیں کی جاتی بلکہ اگر مریض کی علامتوں پر گہری نظر رکھی جائے تو بعض دفعہ مرض کی علامتیں بعض دوسری امدادی دواؤں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پس مرکزی دوا تو کلکیریا کارب ہی رہے گی لیکن اور بہت سی دوائیں کلکیریا کارب کی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ کلکیریا کارب خاص طور پر کیلشیم کی کمی سے پیدا ہونے والی ہڈی کی تکلیفوں میں مفیدہے۔ سلفر کا بھی اس سے تعلق ہے اور یہ سلفر کی مزمن دوا ہے۔ ٹانگوں کے نچلے حصہ کی ہڈیوں میں سلفر کی بجائے عموماً کلکیریا کارب زیادہ کام کرتی ہے۔ ہاتھوں کے ٹیومر پر بھی یہ اثر انداز ہوتی ہے۔(صفحہ429،428)
٭…جن دنوں بچوں کے دودھ کے دانت نکل رہے ہوتے ہیں اس وقت دانتوں کے نکلنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے بعض ڈاکٹر ہیکلا لاوا کو بہت مفید بتاتے ہیں۔ اس کا بھی مجھے کوئی ذاتی تجربہ نہیں لیکن اس کی بجائے بائیو کیمک کا جو مرکب نسخہ استعمال کرتا ہوں وہ بلاشبہ غیر معمولی طور پر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ ہے۔
کالی فاس + فیرم فاس + سلیشیا + کلکیریا فاس + کلکیریا فلور۔
مزید برآں یہ نسخہ ہڈیوں کے کینسر کی بعض قسموں میں اور ہڈی کی بیرونی جھلیوں کی تکالیف میں بھی اچھا اثر دکھاتا ہے۔ جہاں تک ہو میو پیتھک کتب کا تعلق ہے وہ ہیکلا لاوا کو کان کے پیچھے ہڈی میں گانٹھوں، ہڈی کے غلاف کی سوزش، ناک کی ہڈی کے زخم، چہرے کے اعصابی درد جو دانت نکلوانے کے بعد یا دانت میں کیڑا لگنے کی وجہ سے پیدا ہوں اور گردن کے غدود بڑھ کر سکڑ جائیں تو ان سب میں مفید بتاتی ہیں۔ مرطوب موسم میں اس کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔(صفحہ429)
ہیلو نیس
Helonias
٭…ہیلو نیس ایک بہت اہم دوا ہے جو خصوصاً عورتوں کی بیماریوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا رحم کی گردن کے کینسر سے گہرا تعلق ہے۔ کاربو اینیمیلس بھی اس کینسر میں مفید ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ دیگر اعضاء سے تعلق والی علامتیں بھی موجود ہوں جبکہ ہیلو نیس کا تعلق براہ راست رحم کے کینسر سے ہے اور یہ ضرور کچھ نہ کچھ کام دکھاتی ہے۔ رحم کی گردن میں سوزش اور سرخی ظاہر ہو اور اس مرحلہ پر ہیلونیس دے دی جائے تو بہت مؤثر ثابت ہو گی۔ اگر ہیلو نیس سے مکمل شفا نہ ہو تو اس کے بعد کاربو اینیمیلس دینی چاہیے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ ان دونوں دواؤں کے استعمال کے نتیجہ میں مکمل شفا ہو جائے گی۔(صفحہ435)
ہائیڈ راسٹس
Hydrastis
(Golden Seal)
٭…ہائیڈ راسٹس نارنگی کے پودے کی جڑ سے تیار کی جانے والی دوا ہے۔ یہ جگر کی بیماریوں میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا جلد اور اندرونی جھلیوں سے بھی تعلق ہے۔ اس کی سطحی علامتوں میں جلد کے ناسور بہت نمایاں ہیں۔ اگر یہ بڑھ کر کینسر کی شکل اختیار کر لیں اور کوئی دوا اثر نہ کرے تو اس میں ہائیڈ راسٹس کو فراموش نہ کریں کیونکہ اللہ کے فضل سے اس سے ایسے خطرناک اور بڑھنے والے ناسور بھی قابو میں آ جاتےہیں۔ کینسر کے گہرے پھوڑوں اور آنکھ کے ناسوروں میں ہائیڈ راسٹس بہت اچھا کام کرتی ہے۔ ایسے ناسوروں کے مقامی علاج کے طور پر بہترین دوا خالص شہد ہے۔ روزانہ دو تین بار خالص شہد کی سلائی لگائی جائے تو پہلے کچھ عرصہ تک بہت پانی نکلتا رہتا ہے پھر ناسور مندمل ہونے لگتے ہیں۔ نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کینسر کے ایسے زخم جو کسی اور دوا کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے شہد لگانے سے ٹھیک ہو گئے۔(صفحہ 447)
٭…عورتوں کے سینے میں گلٹیاں بننے کا بھی رجحان ہوتا ہے جو لمبا عرصہ رہیں تو کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ ایام حیض کے بعد سیلان الرحم شدت اختیار کر جاتا ہے جس کی وجہ سے رحم کی گردن پر زخم بن جاتے ہیں اور شدید خارش ہوتی ہے۔(صفحہ449)
ہائیڈروکوٹائل
Hydrocotyle
٭…ایک اور بہت خطرناک بیماری فم رحم کا کینسر ہے اس کا تفصیلی ذکر ہیلوینس اور کاربو اینیمیلس کے ابواب میں موجود ہے۔ کینسر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ رحم نکالنے کے بعد بھی تکلیف باقی رہتی ہے۔ ہائیڈروکوٹائل اس کینسر میں درد یں کم کرنے کے لیے چوٹی کی دوا ہے لیکن اس وقت یہ مکمل شفا نہیں دیتی۔ بہرحال رحم میں زخم اور رحم کی گردن پر سرخی اور سوزش ہو تو اس مرحلہ پر ہائیڈ رو کو ٹائل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔(صفحہ452)
کالی بائیکروم
Kali bichromicum
(Bichromate of Potash)
٭…کالی بائیکروم معدے کی تکلیفوں میں بھی بہت مفید ہے۔ معدے میں ناسور اورکینسر کی بیماریاں بیک وقت کسی ایک مریض میں شاذ ہی ہو سکتی ہیں۔ یا وہ کینسر کا مریض ہو گا یا ناسوروں کا۔ کالی بائیکروم کا مریض معدے کے ناسوروں کا مریض ہو تا ہے۔ معدے کی تکلیفوں میں کالی بائیکروم کی علامتیں ملتی ہوں تو فوراً اسے شروع کروا دینا چاہیے تاکہ بیماری سنگین صورت نہ اختیار کر سکے۔(صفحہ487،486)
٭…کالی بائیکروم میں درد جگر سے کندھوں کی طرف حرکت کرتا ہے۔ یہ ایک خطرناک علامت ہے۔ جگر اور پتے کے کینسر میں یہ علامت ملتی ہے اور مریض کندھے میں شدید درد کی شکایت کرتا ہے اس صورت حال میں کالی بائیکروم کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بھی ان تکلیفوں میں کام آتی ہے جن کا پتے کی پتھری سے تعلق ہو۔ پتے کی پتھری اور جگر کا کینسر مل کر کندھے میں درد پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ عجیب قسم کا تکلیف دہ درد ہو تا ہے جس کا کندھے کے عضلات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ کالی بائیکروم پتے کی پتھری اور جگر کی تکلیفوں میں بلا تاخیر شروع کروانی چاہیے۔ اس کے اثر سے بسا اوقات پتے کی پتھریاں گھلنے لگتی ہیں اور آپریشن کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ (صفحہ491،490)
٭…٭…٭