ڈوری کےشہید
احمد: دادی جان پچھلے ہفتے خطبے کے دوران آپ کو کیا ہوا تھا! مَیں نے دیکھا کہ آپ اور امی جان خطبے کے دوران آنکھوں سے آنسو صاف کر رہے تھے۔
گڑیا : احمد بھائی! پیارے آقا نے اپنے خطبے میں ان عظیم افریقی احمدیوں کا ذکر فرمایا تھا جنہیں بُرے لوگوں نے افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں احمدی ہونے کی وجہ سے بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔
دادی جان: گڑیا آپ نے ماشاء اللہ خطبہ غور سے سنا ہے۔
احمد: حضورِانور نے حضرت شہزادہ عبد اللطیف صاحبؓ شہید کا بھی شروع میں ذکر کیا تھا۔ مجھے اُن کا پتا ہے۔ ان کے متعلق منتظم صاحب اَطفال نے کچھ عرصہ پہلے ہمیں کہانی سنائی تھی کہ انہوں نے اَحمدیت کے لیے اپنی عزت، اپنی شہرت یہاں تک کہ اپنی جان تک کی قربانی دے دی تھی۔
گڑیا: بالکل احمد بھائی۔ پیارے حضور نے اس لیے ان کا ذکر فرمایا تھا کیونکہ افریقہ میں اپنی جان کی قربانی دینے والے احمدیوں کے ساتھ بھی قریب قریب ویسا ہی واقعہ پیش آیا جیسا حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا تھا۔
لیکن دادی جان حضور بار بار احمدیوں کے شہید ہونے کا ذکر فرماتے ہیں۔ اور پاکستان، افغانستان اور الجیریا کے احمدیوں کے لیے دعا ئیں کرنے کی تلقین بھی فرماتے ہیں۔ اب افریقہ میں بھی یہ افسوسناک واقعہ ہوگیا ہے۔ دادی جان لوگ احمدیوں سے خَفا کیوں ہیں؟
دادی جان: بچو! یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ سے اللہ کے نبیوں کے ماننے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے اس دَور میں آنے والے اللہ تعالیٰ کے ایک نبی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنے کی توفیق پائی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ آپؑ نبی اکرمﷺ کے غلام ہیں، اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور وہ والے مسیح ہیں جن کے آنے کا وعدہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا، یا یوں کہو کہ ’’مسیحِ موعودؑ‘‘ ہیں۔ جبکہ دوسرے مسلمان سمجھتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں مسلمانوں کے لیے بنی اسرائیل والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔
آسمان سے! وہ بھلا کیسے؟ احمد نے حیرانی سے پوچھا۔
دادی جان نے کہا کہ یہی تو بات ہے۔ بُرے لوگوں نے شہید ہونے والے احمدیوں سے بھی یہی کہا کہ ابھی حضرت عیسیٰ ؑنے آسمان سے آنا ہے۔ اور اگر تم احمدیت کا انکار نہیں کرو گے تو ہم تمہیں جان سے مار دیں گے۔ لیکن اُن سب بہادروں نے اپنی جان کی پروا نہیں کی اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک کے بعد دوسرے نے شہادت کو گلے سے لگا لیا۔ یہ سب بیان کرتے ہوئے دادی جان کی آواز کچھ بَھرا سی گئی۔
کچھ دیر سنّاٹا طاری رہا۔ احمد اور گڑیا بھی یہ سب سن کر افسردہ سے ہو گئے۔
لیکن بیٹا، اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا، شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ شہید کو اللہ کی راہ میں جان دینے میں اتنا لطف آتا ہے کہ وہ بار بار شہید ہونے کی خواہش کرتا ہے، دادی جان نے دوپٹے کے پلّو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
پر، دادی جان شہید کیسے زندہ رہتا ہے؟ احمد نے معصومیت سے پوچھا؟
دادی جان: شہید اگرچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن وہ بہت لحاظ سے زندہ رہتا ہے۔ وہ خدا کی جنّتوں میں نعمتوں کے مزے لیتا ہے، اُس کی قوم اُس کی قربانی کا پھل کھاتی ہےاور پھر اسی وجہ سے اُس کے لیے دعائیں ہوتی ہیں، اس کو یاد رکھا جاتا ہے۔ ہمیں بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پختہ ایمان نصیب فرمائے۔
گڑیا نے معصومیت سے دادی جان سے پوچھا کہ جب گندے لوگ اس طرح احمدیوں کو شہید کرتے ہیں تو ہم اُن سے بدلہ کیوں نہیں لیتے؟
دادی جان نے بڑی محبت سے گڑیا کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ آپ کو پتا ہے ناں کہ اسلام میں بُرائی کا جواب بُرائی سے دینا منع ہے اس لیے ہم بُرائی کا بدلہ نہیں لیتے اور شہید کا بدلہ تو خدا خود لے لیتا ہے!
ویسے بھی ہم نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کی ہوئی ہے۔ اور ہم ویسا ہی کرتے ہیں جیسا حضورؑ کے خلیفہ فرماتے ہیں۔ پیارے حضور نے ایک موقعے پر فرمایا تھا کہ ہم بُرے لوگوں کو اُن کی برائیوں کا جواب تو دے سکتے ہیں لیکن ہم اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ایسا نہیں کرتے۔
دادی جان نے اس کے ساتھ ہی گڑیا اور پھر احمد کے ماتھوں کو باری باری چوما، اُن سے سونے کی دعا سنی اور پھر بچے سرجھکائے، خیالوں میں گُم اپنے کمروں کی طرف روانہ ہو گئے۔
٭…٭…٭