حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 128)
’’مرا بمرگِ عدو جائے شادمانی نیست
بعض مخالفین کے طاعون سے ہلاک ہونے کی خبر آئی۔ اس پر فرمایا کہ دشمن کی موت سے خوش نہیں ہونا چاہیئے۔بلکہ عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حساب ہے۔سو ہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلاح اور جانچ پڑتال کرنی چاہیئے۔دوسروں کی موت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا باعث ہونی چاہیئےنہ یہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اور بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہوجاؤ‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۹۶،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تفصیل: اس حصہ ملفوظات کے آغاز میں جو فارسی مصرع آیا ہے، وہ شیخ سعدی کے ایک شعر کے مصرع سے ایک دو الفاظ کے فرق کے ساتھ بالکل مطابقت رکھتا ہے۔ شیخ سعدی کا شعر گلستان سعدی کے پہلے باب میں ایک حکایت کے آخر پر ہے۔ مکمل شعر مع حکایت کچھ یوں ہے۔
حکایت:کوئی آدمی نوشیرواں عادل کے پاس خوشخبری لے کر گیااور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تیرےفلاں دشمن کو خداتعالیٰ نے اُٹھا لیا ہے۔نوشیرواں نےاسے کہا کیا تو نے یہ بھی سناہے کہ خدا نے مجھے چھوڑ دیاہے۔
اَگَرْ بِمُرْد عَدُوّ جَائے شَادِمَانِیْ نِیْست
کِہْ زِنْدِگَانِیِ مَا نِیْز جَاوِدَانِیْ نِیْست
ترجمہ: اگر دشمن مر گیا تو خوشی کا موقع نہیں ہے۔اس لئے کہ ہماری زندگی میں بھی ہمیشگی نہیں ہے۔
ملفوظات والے مصرع کے شروع میں ’’مرا‘‘کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے’’مجھے‘‘جبکہ سعدی کےکلام میں موجود شعر کا آغاز ان الفاظ سے ہوتاہے ’’اگر بمرد‘‘یعنی ’’اگر مر گیا‘‘مجموعی طور پر مصرع کا مطلب ایک ہی ہے۔