امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء
نیشنل مجلس عاملہ انصاراللہ کینیڈاکے ساتھ میٹنگ ۔ مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اہم ہدایات۔
کینیڈا کے مبلغین کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ میٹنگ۔ دعوت الی اللہ اور تربیتی مسائل کے حوالہ سے ضروری ہدایات۔
چالیس بچوں کی تقریب آمین۔
(رپورٹ مرتّبہ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)
29؍اکتوبر بروز ہفتہ 2016ء
(حصہ دوم)
نیشنل مجلس عاملہ انصاراللہ کینیڈاکے ساتھ میٹنگ
بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’ایوان طاہر‘‘ کے میٹنگ روم میں تشریف لے آئے جہاں نیشنل مجلس عاملہ انصاراللہ کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ چھ بجکر 35 منٹ پر شروع ہوئی۔ حضور نے دعا کروائی۔
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نائب صدران سے اُن کے کاموں کے حوالہ سے دریافت فرمایا جس پر نائب صدران نے اپنے سپرد کاموں کے بارہ میں بتایا کہ مختلف ریجنز، علاقے اور عاملہ کے بعض شعبوں کی نگرانی اُن کے سپرد ہے۔
حضور انور نے قائد عمومی سے مجالس کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ جس پر قائد عمومی نے بتایا کہ انصار کی 76 مجالس ہیں۔
حضورانور کے اِستفسار پر قائد عمومی نے بتایا کہ ہمیں مجالس سے آن لائن رپورٹس موصول ہوتی ہیں اور متعلقہ قائدین اپنے شعبہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہیں۔ صدر صاحب نے بتایا کہ مَیں بھی ان رپورٹس اور تبصروں کو دیکھ لیتا ہوں۔
قائد تجنید نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ انصار کی تجنید 4368 ہے اور ’’پِیس ویلیج‘‘ میں انصار کی تجنید 440 ہے۔
قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سال کے شروع میں سلیبس تیار کیا گیا تھا۔ ابھی تک تین کوارٹر کی تعلیمی رپورٹ آگئی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کتنے لوگ امتحان میں حصہ لیتے ہیں؟ اِس پر قائد تعلیم نے بتایا کہ ایک چوتھائی انصار حصّہ لیتے ہیں۔ پہلی سہ ماہی میں 1366 انصار نے حصّہ لیا اور دوسری سہ ماہی میں 1169 انصار نے حصّہ لیا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: ماشاء اللہ۔
قائد تبلیغ نے حضور انور کے استفسار پر بیعتوں کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال میں بارہ ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ لیفلیٹس تقسیم کرنے اور کتابیں تقسیم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ 2418 تقسیم ہوچکی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: یہاں آپ کے پاس تقسیم کے بہت سے مواقع ہیں۔ یوکے میں انصار نے کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ 80 ہزار سے زیادہ تقسیم کی ہے۔ ایک دوسری کتاب "Pathway to Peace” ایک لاکھ سے زیادہ تقسیم ہوچکی ہے۔
اب انصاراللہ یوکے نے دس ہزار کی تعداد میں قرآن کریم تقسیم کرنے کے لئے مانگا ہے۔ آپ لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کریم تقسیم کریں۔
قائد تبلیغ نے بتایا کہ اس کے علاوہ انصار تبلیغی سٹالز پر کام کرتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو تبلیغ کا پرانا طریق ہے۔ اب کوئی نئی طرز تبلیغ کی دیکھیں۔ آپ تلاش کریں کہ کن طریقوں سے بااثر تبلیغ کرسکتے ہیں۔
قائد مال نے بتایا کہ گزشتہ سال ہمارا بجٹ پانچ لاکھ تین ہزار تھا اور ہم نے چھ لاکھ ڈالر سے زائد اکٹھا کیا اور گزشتہ سال 3294 انصار نے چندہ دیا ہے جو کہ ہماری تجنید کا اسّی فیصد ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ لوکل ناظمین سے پتہ کروائیں کہ کتنے انصار حصہ لے رہے ہیں۔ گراس رُوٹ لیول پر کام کریں اور شامل ہونے والوں کو شروع سال سے ہی شامل کریں۔ یہ تحریک جدید، وقف جدید کا چندہ نہیں ہے ۔ جنہوں نے نہیں دینا وہ کہہ دیں کہ نہیں دینا۔ باقاعدہ انصار کو چندہ کے لحاظ سے ان کا بجٹ بناکر ایک سسٹم میں لے کر آئیں۔
قائد تربیت کو حضور انور نے فرمایا کہ انصار کی تربیت کی ضرورت ہے۔ اس بارہ میں آپ نے کیا کوشش کی ہے؟
اس پر قائد تربیت نے بتایا کہ نماز باجماعت کی ادائیگی پر توجہ دے رہے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ انصار کی یہ تربیت کریں کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں۔ نوجوانوں کی خاص طور پر تربیت کریں۔ اپنے بچوں کی یہ تربیت بھی کریں کہ جب بچوں کی شادی ہوتی ہے۔ اپنے لڑکوں، لڑکیوں کو صبر اور حوصلہ کرنا سکھائیں۔ اگر کسی کا قصور ہے تو اُسے سمجھائیں۔ لڑکے دنیاداری میں زیادہ پڑے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے شادیاں برباد ہو رہی ہیں۔ لڑکیوں کے بھی قصور ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر لڑکوں کے بھی ہوتے ہیں۔ اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قائد تعلیم القرآن و وقف عارضی سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کتنے وقف عارضی کروائے ہیں۔ اس پر قائد موصوف نے بتایا کہ 29؍ انصار نے وقف عارضی کی ہے اور کچھ نے کینیڈا میں کی ہے اور کچھ نے بیلیز (Belize) میں کی ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ چار ہزار انصار میں سے 29 نے وقف عارضی کی ہے۔ پیچھے پڑ کر وقف عارضی کروائیں۔ جن کو قرآن کریم نہیں پڑھنا آتا ان کی کلاس شروع کروائیں۔ آپ بھی اب کہتے ہوں گے کہ اب نئے سال میں عاملہ میں آنا ہے کہ نہیں جو اگلا آئے گا وہ کرے گا۔ ہر ایک کو آخر تک کوشش کرنی چاہئے۔
قائد ایثار سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کیا کام کیا ہے؟ آپ کا خدمت خلق کا ہی کام ہے۔ Haiti میں زلزلے وغیرہ میں کوئی کام کیا ہے؟ اس پر قائد ایثار نے بتایا کہ لوکل لیول پر کام ہوتا ہے۔ ہسپتال وغیرہ جاتے ہیں۔
اس پر حضورانور نے فرمایا: کوئی نئے جذبے والا پروگرام بنائیں۔ حضور انور کے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ 46 سال عمر ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایسی تھوڑی عمر ہے کہ بوڑھے ہوگئے ہیں، چلا نہیں جاتا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے صحیح فرمایا تھا کہ جب تک خادم ہوتا ہے صحیح کام کرتا ہے پھر جب چالیس سال اور ایک دن کا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے سارے فرائض ختم۔ اب مَیں بس بیٹھ جاؤں۔ کوئی نیا کام نہ کروں یا سوچوں۔ اب آپ کو چاہئے تھا کہ Haiti میں زلزلہ آیا ہے تو انصار کے پاس جاتے اور توجہ دلاتے کہ خدمت خلق کے تحت کوئی چندہ دو اور پھر جو بھی ادارہ کام کر رہا ہے، ہیومینٹی فرسٹ یا کوئی اور تو اُس کو دے آتے یا کسی حکومتی ادارے کو دیتے۔ اس طرح کے کام کریں۔
کیا آپ چیرٹی واک (Charity Walk) کرواتے ہیں؟ چیرٹی واک انصاراللہ کی اپنی ہونی چاہئے۔ میڈیا کو اس پر بلائیں تاکہ پتہ لگے کہ ہمارے بزرگ بھی کام کرتے ہیں۔
قائد تحریک جدید نے حضور انور کے استفسار پر اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ماہ تک انصاراللہ کی طرف سے چار لاکھ ڈالرز کی وصولی ہوچکی تھی اور چندہ دہندگان کی تعداد تین ہزار ایک سو چودہ ہے۔ گزشتہ سال انصاراللہ کی طرف سے تحریک جدید میں پانچ لاکھ 68 ہزار ڈالرز کی ادائیگی ہوئی تھی۔
قائد وقف جدید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال 95 فیصد انصار نے حصّہ لیا تھا اور چار لاکھ 75 ہزار ڈالرز جمع کئے تھے۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا: آپ نے تو کمال کردیا۔
آڈیٹر سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ باقاعدہ آڈٹ کرتے ہیں؟ حسابات چیک کرتے ہیں؟ حساب ٹھیک ہے؟ صرفِ نظر تو نہیں کرتے؟ جس پر آڈیٹر نے بتایا کہ تمام حسابات اور بِل وغیرہ چیک کئے جاتے ہیں۔
قائد صحت جسمانی کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ صف دوم کے انصار کے کھیلوں کے مقابلے کروایا کریں۔
قائد اشاعت نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ ’’نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ‘‘ ہمارا رسالہ ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ سال میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہونے چاہئیں۔
قائد تربیت نومبائعین نے حضور انور کے استفسار پر بتایاکہ پندرہ نومبائع انصار ہیں جن کی تربیت کی ذمہ داری سپرد ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ ان کو چندوں کے نظام میں شامل کریں۔ بے شک ابھی انصاراللہ کا چندہ نہ دیں لیکن تحریک جدید اور وقف جدید میں شامل کریں۔ بیشک دوچار ڈالر سال میں لے کر شامل کریں۔ لیکن ان کو چندہ کی اہمیت کا پتہ لگے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اُن کی تربیت کے لئے کیا کررہے ہیں۔ ایک ہی جگہ پر ہیں یا ٹورانٹو میں پھیلے ہوئے ہیں؟ اس پر قائد صاحب نے بتایا کہ زیادہ ٹورانٹو کے ایریا میں ہیں۔ اس کے علاوہ دو تین مانٹریال میں ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ان سب تک آپ کی پہنچ ہوسکتی ہے۔ اِ ن علاقوں میں آپ کے جو منتظمین ہیں ان سے کہیں کہ ان نومبائعین سے رابطہ رکھیں۔ صرف چندہ کی تحریک ہی نہیں بلکہ دینی علم بھی ساتھ ساتھ ہونا چاہئے۔ چندہ تو بس اس لئے ہے کہ ان کو پتہ چلے کہ قربانی کرنی ہے اور جماعت کے ساتھ تعلق قائم رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ آپ کا ان سے باقاعدہ رابطہ رہے گا۔ لیکن تربیت کے پروگرام بھی بنائیں۔
ایڈیشنل قائد مال نے بتایا کہ وہ قائد مال کی مدد کرتے ہیں۔
معاونین صدر نے بتایا کہ صدر صاحب کی طرف سے جو کام سپرد ہو وہ انجام دیتے ہیں۔
ناظم یارک (York) ریجن نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ ریجن میں انصار کی تعداد 330 ہے اور رپورٹس میں کافی کمزوری ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ رپورٹس میں کمزوری ہے تو پھر ناظم ہونے کا کیا فائدہ؟ اگر کوشش کرتے ہیں تو پھر کچھ کام تو ہونا چاہئے۔ آپ کی رپورٹس پچاس فیصد سے کم نہیں ہونی چاہئیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ناظمین سے ان کے علاقوں، ان کے سپرد مجالس اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔
عاملہ کے ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیا قاضی کے طور پر ایک واقف زندگی یا مربی کا نام پیش ہوسکتا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ قاضی کے لئے نام پیش ہوسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ قاضی کا نام صدر کے لئے پیش نہیں ہوسکتا۔ قاضی عاملہ کا ممبر ہوسکتا ہے۔ صدر نہیں ہوسکتا۔ اگر قواعد میں نہیں لکھا ہوا تو پھر روایت یہی ہے کہ صدر نہیں ہوسکتا۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ ہمیں انصاراللہ کا رسالہ شائع کرنے کے لئے جنرل سیکرٹری کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے یا خود ہی کرسکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ انصاراللہ ایک الگ تنظیم ہے۔ آپ اپنے معاملات میں آزاد ہیں سوائے اس کے کہ انصاراللہ یہاں پر باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہے اس لئے ٹیکس وغیرہ کے مسائل آپ کی جماعت کے پاس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آزاد ہیں۔ کسی کے ذریعہ سے کام نہیں کرنا۔ آپ کا براہ راست میرے ساتھ رابطہ ہونا چاہئے۔ لیکن ایک ممبر جماعت ہونے کی حیثیت سے آپ جماعت کے تحت ہیں۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ عمومی طور پر نظر آتا ہے کہ خدّام حضور کے ساتھ کافی کاموں میں نظر آتے ہیں لیکن انصاراللہ پیچھے ہیں۔ جماعتی سسٹم کیا کہتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے پیچھے نہیں کیا۔ خود ہی ہٹے ہیں۔ جماعتی سسٹم دونوں کے لئے برابر ہے۔ جن جن ملکوں میں خدام مستعد اور فعّال ہیں وہ براہ راست تعلق رکھتے ہیں اور لندن آتے ہیں اور میٹنگ بھی کرتے ہیں۔
سیکرٹری تعلیم نے عرض کیا کہ حضور انور اگلے سال کے لئے تعلیم کی تھیم (Theme) مقرر کردیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ خود ہی جائزہ لیں کہ کون سے اہم ایشو ہیں اور پھر اس کے مطابق مقرر کرلیں۔ الفضل میں جو میرے خطبات میں سے بعض سوالات آتے ہیں ان کو بھی سلیبس میں شامل کردیں۔
٭…ایک سوال یہ کیا گیا کہ جو کتابیں ہم نے تقسیم کرنی ہیں۔ اگر یہاں شائع کروائی جائیں تو چالیس فیصد بچت ہوسکتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تفصیل سے سارا جائزہ لے کر مجھے لکھ کر بھجوادیں۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیا قدرتی آفات کے لئے، خدمت خلق کے لئے، خود فنڈنگ کرسکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: صدر انصاراللہ کی درخواست آنی چاہئے، امیر جماعت اور سیکرٹری مال اس بات کی گارنٹی دیں اور لکھ کر دیں کہ لازمی چندہ جات پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔ پھر مَیں اس کو منظور کردوں گا۔
اگر فنڈنگ باہر سے کرنی ہو تو اس پر حضور انور نے فرمایا کہ چیرٹی واک کریں گے تو باہر سے فنڈنگ ہوگی۔ یوکے انصاراللہ نے اس طرح ساڑھے تین، چار لاکھ پاؤنڈز جمع کئے ہیں جس میں سے زیادہ سے زیادہ اسّی ہزار احمدیوں کے ہوں گے باقی سب باہر سے جمع ہوئے تھے۔ خدام الاحمدیہ بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ اگر آپ یہاں Charities کے ذریعہ قدرتی آفات میں مختلف آرگنائزیشن اور دیگر اداروں کو رقم دیں تو میڈیا کو بھی بلائیں تاکہ عوام کو اس خدمت کا پتہ لگے۔ اِس لئے نہیں کہ ہم احسان کر رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ احمدیت کا پیغام پہنچانے اور تبلیغ کے لئے نئے راستے کھلیں۔ عوام میں ایک احساس پیدا ہوگا کہ جماعت ضرورتمندوں کی مدد کررہی ہے۔
٭…ایک ممبر نے آن لائن سسٹم کے حوالہ سے سوال کیا کہ بعض دفعہ تجنید یا اس طرح کی دوسری ذاتی تفصیلات چاہئے ہوتی ہیں۔ کیا وہ لے سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ کا سیکیورٹی کے لحاظ سے محفوظ سسٹم ہے تو لے لیں۔ اگر مالی معاملات ہیں تو بعض لوگ نہیں دینا چاہتے۔ بعض آپ کے ممبر ایسے ہوں گے جو اصولاً نہیں ہونے چاہئیں لیکن ٹیکس بچانے کی خاطر اپنی انکم نہیں دکھاتے وہ اپنی معلومات نہ دیں۔ لیکن جنرل معلومات دینی چاہئے۔ بس سسٹم سیکیور ہونا چاہئے۔
٭…ایک ممبر نے عرض کیا کہ بعض انصار کو کہا جائے کہ انصار کے کوئی پروگرام یا لوکل اجلاس عام میں شامل ہوں تو کہتے ہیں ہم نے بہت سے جماعتی پروگرام میں حصّہ لے لیا ہے۔ تو اس وجہ سے ہماری حاضری کم ہوجاتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ فکر نہ کریں۔ آپ پاکستان میں جب خادم تھے آپ کے اس وقت سال میں چار امتحان ہوتے ہوں گے۔ کیا سب خدام چاروں امتحان دیتے تھے؟ بس یہ تو ہوتا ہے۔ انصار کہتے ہیں کہ ہم نے بہت علم حاصل کرلیا ہے تو اصولاً انہیں نہیں کہنا چاہئے۔ بس آپ صرف توجّہ دلاسکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ کہنا کہ مَیں نے بہت علم حاصل کرلیا ہے غلط ہے، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ایک جگہ بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ الفضل میں کیا ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مضمون ہوتے ہیں، کوئی کام کی بات نہیںہوتی۔ ہمیں اس سے زیادہ علم ہے۔ آپؓ نے فرمایا مَیں روزانہ الفضل پڑھتا ہوں۔ مجھے کوئی نہ کوئی فقرہ یا بعض دفعہ نیا مضمون مل جاتا ہے جو فائدہ مند ہوتا ہے اور نئی چیز ہوتی ہے۔ شاید ان لوگوں کا میرے سے زیادہ علم ہو جو نہیں پڑھنا چاہتے۔ اِس قسم کے لوگوں کا یہی جواب ہے۔ انسان کو علم کا تکبّر ہی مارتا ہے۔ جو متکبّر ہے وہ ڈھیٹ بھی ہوتا ہے۔ جب ڈھیٹ انسان ہوتا ہے تو وہ پبلک میں بِلاوجہ بولے گا اور باقیوں کو بھی خراب کرے گا۔ اس لئے ناظمین اور زعماء کو پہلے ہی دیکھ لینا چاہئے کہ کس طرح کا بندہ ہے اور کس طرح ڈیل کرنا ہے۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا ابھی نماز پر حاضری اچھی ہوتی ہے بعد میں اس کو کس طرح قائم رکھیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس دوسو ساٹھ گھر بہت قریب ہیں۔ میرے خیال میں یہاں کی آبادی دو ہزار سے زیادہ ہوگی۔ حاضری تو اچھی ہونی چاہئے۔ انصار کو نمازی بنادیں تو نوجوان خود آئیں گے اور بچے بھی آئیں گے۔ مَیں نے انصار کو توجہ دلائی ہے کہ بچوں کی تربیت بھی کریں۔ بوڑھوں کو تو اپنی عاقبت کی فکر ہونی چاہئے کسی وقت بھی بلاوا آجائے۔ پس توجہ دلانا آپ کا کام ہے وہ آپ کرتے رہیں۔ یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ ابھی تو مَیں عارضی طور پر یہاں ہوں۔ اگر مَیں مستقل طور پر یہاں رہوں تو تب بھی حاضری کم ہوجائے۔
مسجد فضل میں بھی مَیں توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ کچھ عرصہ بعد ان کی فجر کی حاضری کم ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر جب گرمیوں کے دن ہوتے ہیں، جب راتیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ اس دفعہ بھی آپ نے دیکھا ہوگا، مارچ و اپریل میں، مَیں نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بتایا تھا کہ اب گرمیاں آرہی ہیں تو حاضری فجر کی قائم رکھنی ہے حالانکہ وہاں تو ڈیڑھ دو سو آدمی نماز پڑھ سکتا ہے۔ وہ بھی بعض دفعہ نہیں بھری ہوتی۔ یہ تو اوپر نیچے چلتا رہتا ہے۔ اسی لئے تو اتنی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ اگر لوگ خود ہی یہ سب کرنے لگ جائیں تو پھر آپ نے کیا کرنا ہے۔ پھر نہ ناظم کی، نہ زعیم کی اور نہ قائد کی ضرورت ہے۔
٭…ایک ممبر نے یہ سوال کیا کہ کیا مجلس عاملہ کے ممبر دوسرے شہروں سے بھی ہوسکتے ہیں یا صرف یہاں سے ہی ہوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہی رواج چل رہا ہے۔ ٹورانٹو کے علاقہ میں چار پانچ ہزار تو ہوں گے۔ عموماً ہر ملک میں یہی ہے کہ جہاں مرکز ہے اُسی علاقہ سے ہوتے ہیں سوائے امریکہ کے۔ امریکہ کو اجازت دی ہوئی ہے کیونکہ وہ پھیلے ہوئے ہیں اس لئے وہ ہر صوبے میں سے لے لیتے ہیں۔ وہاں یہ روایت خدام میں اورانصار میں بھی جماعتی طور پر چل رہی ہے۔ ابھی تک مَیں نے اس روایت کو بدلا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بدل بھی دیا جائے۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا کہ بعض دفعہ ای میل یا واٹس اَیپ پر خلافت یا جماعت کے نظام کے خلاف کوئی گمنام پیغام آتا ہے۔ اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟
اس پرحضور انور نے فرمایا ۔ اسی طرح گمنام جواب دے دیا کریں ۔ آج کل واٹس اَیپ پر بھی گمنام خط آتے ہیں۔ میرے پاس بھی آتے ہیں۔ اس پر کارروائی نہیں کرنی چاہئے ۔ میں اگر صدر یا امیر جماعت کو بھیجتا ہوں ۔ اس لئے نہیں بھیجتا کہ اس پر کارروائی کرو۔ اس لئے کہ علم میں آجائے کہ اس طرح کے لوگ آپ کی جماعت میں ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں۔ تاکہ آپ لوگ عمومی طور پر اس کی روک تھام کے لئے کوئی پالیسی بنائیں۔سوشل میڈیا پر جواب دے دیا کریں۔ باقی تو یہ چیزیں چلتی رہیں گی۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے آپ نے یہ ذکر بھی کیا تھا کہ لڑکیاں اکاؤنٹ نہ بنائیں۔
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ میں نے کہا تھا کہ تصویریں نہ لگائیں۔ عمومی طور پر فیس بُک میں مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ بہتر یہی ہے کہ لڑکیاں نہ کریں اور لڑکے بھی نہ کریں۔ اس سے تعلق بڑھتا رہتا ہے۔ اگر تبلیغ کا بہانہ ہے تو لڑکے لڑکوں کو اور لڑکیاں لڑکیوں کو تبلیغ کریں۔ بعض دفعہ لڑکیوں میں بھی اس طرح ہوتا ہے کہ بعض دفعہ دوسری طرف سے لڑکا لڑکی بن کر رابطہ رکھ رہا ہوتا ہے۔ جماعت کے اپنے فیس بُک کے اکاؤنٹ ہیں۔ ’الاسلام‘ کا بھی ہے۔ اس کے ذریعہ تبلیغ کریں تو ٹھیک ہے۔ بعض کیس ایسے ہوئے ہیں کہ بے شک چند ایک ہی ہوئے ہیں کہ لڑکیوں نے فیس بُک پر جانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کے دماغوں میں زہر بھرنا شروع کر دیا گیا اس حد تک کہ وہ جماعت کے خلاف ہو گئیں۔ اپنے خاندا ن کے خلاف بھی ہو گئیں ۔ اصل میں وہ شادیوں کی وجہ سے پریشان تھیں۔ رشتے غیر احمدیوں میں جاکر کر لئے۔ یہ برائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس لئے بچنے کی ضرورت ہے۔
میں نے عام طور پر لڑکوں کو بھی کہا ہے۔ لڑکیوں کا کیونکہ عزت اور عصمت کا سوال ہے اس لئے خاص زور دیا تھا۔ لیکن عمومی طور پر ہر ایک کو کہا تھا۔ کئی لوگوں کو مَیں جواب دیتا ہوں کہ اگر تبلیغ کرنی ہے تو جماعتی اکاؤنٹ سے کرو۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا کہ حضور یورپ میں اکثر جا تے رہتے ہیں اور اس وجہ سے وہاں کی جماعتیں ایکٹو ہیں۔ یہاں پر حضورِ انور کے آنے کی برکت سے لوگ ایکٹو ہو گئے ہیں۔
اس پرحضور انور نے فرمایا ٹھیک ہے اس کو آپ قائم رکھیں۔ یورپ میں بھی بعض جگہ سستی ہو جاتی ہے۔ آپ کے پیس ویلیج میں چار سو چالیس انصار ہیں۔ لیکن زیادہ سے زیادہ تیس چالیس انصار ہیں جو مسجد نہیں آ سکتے۔ مسجد میں فجر پر آخری تین چار صفیں خالی ہوتی ہیں۔ حالانکہ اس وقت خدام بھی آئے ہوئے ہیں اور باہر سے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں۔ ان دنوں میں بھی صفیں خالی ہیں۔ جرمنی کی مسجد میں میرے خیال میں سات آٹھ سو نمازی آسکتے ہیں۔ گرمیوں میں بھی میں جب جاؤں تو بیس پچیس کلومیٹر سے بھی لوگ سفر کرکے فجر پر چار بجے پہنچ جاتے ہیں۔ اور مسجد بھری ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگوں میں شائد رقت زیادہ ہے۔ نمازیں پڑھتے ہوئے لگتا ہے ایک خاص ماحول ہے۔ یہاں پر تو سردی ہے چھ سات گھنٹے آپ گھر جاکر سوتے ہیں۔ پھر بھی تین چار صفیں خالی ہیں۔ کیا انقلاب لائے ۔ آج کل بھی یہ حالات ہیں تو ابھی مجھے آئے ہوئے مہینہ بھی نہیں ہوا۔ اگر میں دو مہینہ بھی رہوں تو میرے خیال سے صرف اگلی دو صفیں ہوا کریں گی۔ اگر انصار آ جائیں تو سات سو میں سے ساڑھے تین سو چار سو کی جگہ وہ لے لیں۔ کافی مہمان بھی آج کل آئے ہوئے ہیں۔ خدام اور اطفال بھی آجاتے ہیں۔ تو سات سو کی جگہ پوری ہونی چاہئے۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا کہ اللہ کے فضل سے مسی ساگا جو پینتالیس کلومیٹر بنتا ہے وہاں سے ایک بڑی تعداد آتی ہے۔
اس پرحضور انور نے فرمایا: ٹھیک ہے آتے ہیں۔ دوسری جگہوں پر بھی دُور دُور سے آتے ہیں۔ آسٹریلیا میں جب مسجد بنی تھی۔ قریب ترین جو ادارہ تھا وہ بیس میل پر تھا۔ میں نے سمجھا تھا کہ بعض لوگ عموماً آتے ہیں۔ تو جب پوچھا تو اکثر نے کہا کہ ہم فجر اور عشاء پر ریگولر آتے ہیں۔ وہاں تو مَیں صرف دو دوروں پر گیا ہوں۔ وہ میرے علاوہ بھی وہاں آرہے ہوتے ہیں۔ روزانہ فجر اور عشاء پر بیس میل دور سے آرہے ہوتے ہیں۔ یہ تو احساس کی بات ہے۔ میں یہاں چھ دفعہ آ چکا ہوں۔ آسٹریلیا میں دو دفعہ گیا ہوں۔ وہاں جانے کے لئے انیس گھنٹے کی فلائٹ چاہئے۔ آپ کے پاس چھ سات گھنٹے میں بندہ پہنچ جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی جن کو احساس ہے وہ آتے ہیں۔
٭…ایک ممبر نے سوال کیا کہ کیلگری میں بعض لوگوں کے گھر مسجد سے بہت دور ہیں حضور ہماری راہنمائی فرمادیں کہ اگر ایک ایک حلقہ میں مسجد بن جائے تو بہتری آسکتی ہے۔
اس پرحضور انور نے فرمایا ۔ ٹھیک ہے، مسجدیں تو جماعت کو ہر جگہ بنانی چاہئیں۔ جہاں سو دوسو آدمی ہے چھوٹی مسجدیں بنائیں اور زیادہ بنائیں۔ اس سے تبلیغ کے میدان بھی زیادہ کھلیں گے اور تربیت بھی زیادہ ہو گی۔ ریجنز میں بڑی بڑی مسجدیں بنانی ہیں۔ ایک یہاں بن گئی، اس سے بڑی کیلگری میں بن گئی، اس سے آگے 1500کلومیٹر پر وینکوور میں مسجد بن گئی۔ٹھیک ہے یہاں فاصلے زیادہ ہیں اس لئے بڑی بنا دیں۔ اب چھوٹی مسجدیں بنانے پر بھی رجحان ہونا چاہئے جہاں دو سو آدمی نماز پڑھ سکے۔ وہ سَستی بھی بن سکتی ہیں۔ آپ لوکل امیر صاحب سے بھی بات کریں اور نیشنل امیر صاحب سے بھی۔ ہر جگہ بات کریں ۔
حضور انور نے فرمایا: میں تو ہر دفعہ یہ کہتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پڑھتا ہوں کہ اگر جماعت کا تعارف کروانا ہے تو مسجدیں بناؤ۔ یہ بات جماعتی فورم پر رکھیں۔ مسجدیں چھوٹی چھوٹی بنا دیں، یہ ضروری ہے۔ کیلگری اتنی بڑی جماعت ہے وہاں پر چھوٹی چھوٹی مساجد بننی چاہئیں ۔ یہاں بھی مسجدوں کی ضرورت ہے اور مسس ساگا میں تو باقاعدہ کوئی مسجد نہیں ہے۔ دوہزار کے قریب وہاں تجنید ہے۔ کیلگری کی کل تجنید تین ہزار ہے۔ مسجد کے علاقہ میں چھ سات سو لوگ ہوں گے۔ آٹھ دس کلومیٹر کے اندر ایک ہزار۔ آپ نے اب کیلگری کو 9 حلقوں میں تقسیم بھی کیا ہے۔ تو وہاں دو تین مسجدیں تو ہونی چاہئیں۔
کیلگری میں جن صاحب کے سپرد مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہّ داری ہے انہیں حضورِ انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ وہاں سے شکائتیں آتی رہتی ہیں کہ آپ سختی کرتے ہیں۔سختی کرنا ضروری نہیں۔ پیار سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے۔ اگر حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف جاتے ہوئے کہا کہ قول لیّن سے کام لینا، تو کیا احمدیوں کو بھی آرام سے نہیں سمجھا سکتے۔ ٹھیک ہے بچے بعض دفعہ چیزیں توڑ دیتے ہیں۔ ہماری مسجد بیت الفتوح لندن میں، اس کی لفٹ روز خراب رہتی تھی۔ اب تو خیر آگ کی وجہ سے استعمال نہیں ہو رہی۔ اس میں بھی بچے جا کر دھکے دے دے کر اس کا سسٹم ہلا دیتے تھے اور ہر روز وہاں مستری آیا ہوتا تھا۔ پھر وہاں ڈیوٹی لگانی پڑی تھی۔ تو کسی کی ڈیوٹی لگادیں۔ ایک مہینہ جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کوئی ڈیوٹی پر ہے جو پیار سے سمجھاتا ہے تو آپ ہی وہاں سے دوڑ جائیں گے ۔ مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کروا دینا اور سختی کرنا غلط طریقہ ہے۔
اس پر موصوف نے عرض کیا کہ اب روانی سے کام چل رہا ہے ۔ اب کہنا چھوڑ دیا ہے۔
اس پرحضور انور نے فرمایا: یہ بھی نہیں کہ جماعت کے اموال کی حفاظت نہ کرو۔ جہاں شکایت ہوتی ہے پتہ کریں۔ اس کے لئے مختلف طریقے اختیار کریں۔ لوگوں کو سمجھانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔
مجلس عاملہ انصاراللہ کی یہ میٹنگ ساڑھے سات بجے تک جاری رہی۔ بعدازاں عاملہ کے ممبران نے حضورانور کے ساتھ شرف مصافحہ حاصل کیا اور تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
کینیڈا کے مبلغین کےحضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ میٹنگ
بعدازاں پروگرام کے مطابق سات بج کر چالیس منٹ پر کینیڈا اور اس کے سپرد ممالک بیلیز، پیراگوئے، ایکواڈور، بولیویا، یوروگوئے اور جمیکا میں خدمت سرانجام دینے والے مبلغین کی میٹنگ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شروع ہوئی۔
حضور انور نے دعا کروائی اور دریافت فرمایا کہ کیا مبلغین کی ماہوار میٹنگ ہوتی ہے؟
اس پر مبلغ انچارج صاحب نے بتایا کہ میٹنگ ہوتی ہے اور اس میں سارے مربیان شامل ہوتے ہیں۔ کانفرنس کال کے ذریعہ ہوتی ہے۔
حضور انور کے استفسار پر مبلغ انچارج صاحب نے بتایا کہ میٹنگ میں مبلغین کی رپورٹس اور کارگزاری پرتبصرہ ہوتا ہے۔ مبلغین اپنے مسائل بتاتے ہیں کہ فیلڈ میں کیا مسائل اور مشکلات ہیں، ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔
حضور انور کے استفسار پر مبلغین نے بتایا کہ یہ میٹنگ ظہر اور عصر کے درمیان تقریباً ایک گھنٹہ یا اس سے زائد وقت تک ہوتی ہے۔
حضور انور کے استفسار پر عرض کیا گیا کہ تمام مبلغین کی رپورٹس کارگزاری باقاعدہ مرکز میں آرہی ہیں۔ مبلغ انچارج باقاعدہ Compile کرکے بھجواتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: بعض مبلغین مجھے رپورٹس کے علاوہ زائد خط بھی لکھتے ہیں اور بعض مجھے ذاتی طور پر کوئی خط نہیں لکھتے۔ میں نے دیکھا ہے۔ کچھ تو ہفتے میں تین لکھ دیتے ہیں، کوئی مہینہ میں دو لکھ دیتے ہیں، کوئی چھ مہینے بعد شاید ایک لکھتے ہوں۔ نئے مربیان جو گزشتہ سال وہاں لندن میں رہ کر آئے ہیں ان کی میرے ساتھ ریگولر خط و کتابت ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ فیلڈ میں آپ کے کیا مسائل ہیں۔ کیلگری کے مبلغ سے دریافت فرمایا کہ کیلگری میں جماعتی طور پر عہدیداران ہیں ان کے ساتھ کیا مسائل ہیں؟
اس پر مبلغ نے بتایا کہ نوجوانوں میں Generation Gap ہے لیکن Culture Clash زیادہ ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جو سمجھانی پڑتی ہیں کہ یہ کلچر ہے اور یہ ہمارا مذہب ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: سوال یہ ہے کہ جب نوجوانوں کی تربیت صحیح ہو رہی ہو۔ خدام الاحمدیہ کے Level پر بھی اور مربیان کے ذریعہ بھی تو ان کو پھر دین اور Culture کے بارہ میں سمجھایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ Culture تو کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں، پانچ نمازیں پڑھنا کوئی Culture نہیں ہے۔ قرآن کریم پڑھنا اور اس پر عمل کرنا کوئی Culture نہیں ہے۔ ہاں جب وہ تربیت اور مذہب اور دینی تعلیمات پر عمل زندگی کا ایک مستقل حصہ بن جائے تو پھر یہ باتیں Culture کا حصہ بن جاتی ہیں۔ تو اس لحاظ سے مذہب Culture پر اثر ڈالتا ہے۔
فرمایا: لیکن مذہب کی جو بنیادی تعلیم ہے اس کو تو نوجوانوں کے دلوں میں ڈالنا چاہئے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اپنے قریب لانے کی کوشش کریں۔ نوجوان مربیان سے یہی امید ہے کہ جماعتوں میں جہاں جہاں ان کے تقرر ہیں وہاں کے نوجوان طبقہ کو اپنے قریب لائیں۔ بوڑھوں کی اصلاح آپ سے نہیں ہونی۔ وہ اپنی عمر کو پہنچ چکے ہیں Rigid ہوچکے ہیں۔ ان کا ایک دماغ، ایک سوچ بن چکی ہے۔ نوجوانوں کے دماغوں میں یہ ڈالیں کہ یہ بوڑھے ہمارے لئے رول ماڈل نہیں ہیں بلکہ ہمارے لئے رول ماڈل سب سے پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے، اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور آپ لوگوں نے خلافت کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہوئی ہے۔
فرمایا: اس لئے کوئی بیچ میں واسطہ نہیں ہے کہ یہ بوڑھے ہمارے لئے رول ماڈل ہوں۔ شام کے وقت جو کھیلیں ہوتی ہیں ان میں آپ خود ان نوجوانوں کو شامل کرکے اپنے قریب لائیں۔ یہ نوجوان انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کوئی ان کو کام نہیں ہوتا۔ ان کو مسجد کے قریب لائیں۔ Indoor گیم ہے، اس میں شامل ہوں، پھر جب کھلا موسم آتا ہے تو Outdoor گیمز بھی ہیں۔ اس میں حصہ لیں اور نوجوانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ Interactive پروگرام کریں اور اس طرح نوجوانوں کو اپنے قریب لائیں تاکہ اگلی نسل کو سنبھال سکیں۔ یہ اصل کام ہے آپ لوگوں کا اور اس معاشرے میں نوجوانوں اور نئی نسل کو سنبھالنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
حضور انور نے فرمایا: یہاں پیس ویلج کے بعض لڑکوں میں بعض برائیاں پھیل رہی ہیں۔ بعض لوگوں کو عادت ہے نشہ کرنے کی۔ صرف سگریٹ نہیں، سگریٹ سے آگے بڑھ چکے ہیں وہ پاؤڈر ڈالتے ہیں یا جو بھی دوسرا کرتے ہیں۔ ان کا آپ لوگوں کو پتہ ہونا چاہئے۔
حضور انور نے فرمایا: خدام کو اپنے ساتھ ملائیں، قریب لائیں ان میں اگر برائیاں ہیں تو ان کو پرے نہ دھکیلیں۔ ذاتی رابطہ قائم کرکے برائیوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ آپ لوگوں کی نوجوانی کی عمر ہے اور آپ خدّام کی Age Group کے ہیں اور یہاں کے پلے بڑھے ہیں، زبان بھی وہی بولتے ہیں، عمر بھی وہی ہے، دین کا علم بھی ہے۔ اس لحاظ سے آپ لوگ نوجوانوں کو قریب لانے میں اپنا کردار زیادہ ادا کرسکتے ہیں۔ صرف خطبہ دے دیا، نماز پڑھا لی، اتنا کافی نہیں ہے۔
حضور انور نے فرمایا: جہاں جہاں بھی آپ لوگ متعیّن ہیں فجر کی نماز باقاعدہ پڑھانی ہے۔ چاہے کوئی آئے یا نہ آئے۔ مساجد کھلنی چاہئیں، سنٹر کھلنے چاہئیں۔ یہی میں نے آپ لوگوں کو کہا ہوا ہے اور اسی طرح عشاء کی نماز بھی باقاعدہ ہونی چاہئے۔ باقی نمازوں کے بارہ میں میں نے کہا تھا اگر آپ اپنے سٹیشن پہ ہیں کہیں دورے پر نہیں گئے ہوئے، تو باقی نمازوں میں بھی آپ نے باقاعدہ اپنا سنٹر یا مسجد جہاں بھی ہے کھول کے اذان دے کے پانچ سات منٹ انتظار کرکے نماز پڑھ لینی ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ لوگ آتے نہیں اس لئے ہم نے Centre نہیں کھولنا۔ کوئی آئے یا نہ آئے آپ نے باقاعدہ اپنے مرکز کو کھولنا ہے۔
ایک مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ جہاں مَیں متعین ہوں وہاں سنٹر گھر میں ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: گھر میں ہو لیکن لوگوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ سنٹر ہے اور یہاں نماز ہوتی ہے اور انہوں نے آنا ہے اور پھر ایسے لوگ جو پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ان کے گھروں کو Visit کریں اور یہ Visit دوستانہ Visit ہوں۔ صرف یہ نہیں کہ جا کے ان کو نصیحتیں کرنا شروع کر دیں کہ تم نماز پہ نہیں آتے۔ پہلے ان کے ساتھ تعلق پیدا کریں، قریب لائیں اور بتائیں کہ مرکز کھلا ہوتا ہے۔ ہلکی پھلکی باتوں میں ان کو مسجد کی طرف یا مشن ہاؤس میں آنے کی طرف دعوت دیں اور بتائیں وہاں باقاعدہ نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ آپ نمازوں کے لئے آیا کریں
حضور انور نے فرمایا: کوئی اپنا تجربہ بیان کرسکتا ہے کہ آپ لوگوں کے رویّوں کی وجہ سے نوجوانوں میں کوئی تبدیلی ہوئی ہو۔
ایک مبلغ سلسلہ نے بتایا کہ Ottawa میں جب میری پوسٹنگ ہوئی تو امیر صاحب کی Instruction کے مطابق کہ نوجوانوں کے ساتھ کام کیا جائے کیونکہ وہ وہاں پر اتنے Active نہیں ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کھیلوں کے پروگراموں کے ذریعہ وہاں خدام کو Active کیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز بھی پڑھ رہے ہیں اور کافی Improvement ہے اور پچاس فیصد نوجوان مسجد سے Attach ہوگئے ہیں۔
مبلغ سلسلہ Vaughan نے بتایا کہ خدّام اور اطفال کی باقاعدہ کلاسز لیتا ہوں جس کی وجہ سے کافی بچے اور خدام Attract ہوگئے ہیں اور اتنا زیادہ تعلق ہوگیا تھا کہ اب جب میری تقرری دوسرے سنٹر میں ہوئی ہے تو یہ بچے اور نوجوان کہتے ہیں کہ ہمارے مربی صاحب ہمیں واپس دے دیں۔
حضور انور نے فرمایا: یہاں جامعہ کینیڈا کے پڑھے ہوئے دو مربیان آسٹریلیا گئے ہیں اور وہاں کی جماعت کے افراد کی طرف سے مجھے خط آنے لگ گئے ہیں کہ ان نوجوان مربیان کے آنے کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کے ساتھ خاص طور پہ Interactive پروگرام بھی ہوتے ہیں اور بڑوں کے ساتھ بھی پروگرام ہوتے ہیں۔ تو آپ لوگوں کو اس طرح کام کرنا چاہئے کہ دوسروں کو نظر آئے اور لوگ محسوس کریں اور جماعت کو بھی نظر آرہا ہو کہ اس مشنری کے آنے سے انقلاب پیدا ہوا ہے۔
فرمایا: پہلے یہ نوجوان کہتے تھے کہ ہمیں زبان سمجھ نہیں آتی اور بچے بھی کہتے تھے ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ اب آپ لوگوں کو زبان کا تو کوئی مسئلہ نہیں، یہیں پلے بڑھے ہو، یہیں کے پڑھے ہوئے ہو۔ یہ بہانہ کوئی نہیں ہے صرف زیادہ سے زیادہ تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یوکے سے ہر جگہ مبلغ گئے ہیں۔ امریکہ میں بعض مبلغ یہاں کینیڈا سے گئے ہیں ان کے کاموں پر لوگوں کے بڑے اچھے تبصرے آتے ہیں۔ لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ یہاں کینیڈا میں شاید لوگوں کو لکھنے کی عادت نہیں یا آپ لوگوں کی کام کرنے میں کمی ہے۔ ایک تو کام ویسے ہی ظاہر ہونا چاہئے جو جماعتی طور پر بھی نظر آجائے۔
حضور انور نے مبلغ انچارج سے استفسار فرمایا کہ کیا آپ مبلغین کے کام سے مطمئن ہیں؟
اس پر مبلغ انچارج صاحب نے کہا کام میں کمزوری زیادہ ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: میں نے اس لئے ہر ماہ میٹنگ کرنے کے لئے کہا تھا کہ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، نشاندہی کرکے ہر ایک کو بتائیں ہر ایک سے انفرادی طور پر جائزہ لیں۔ ایک جنرل جائزہ ہوتا ہے۔ ایک انفرادی طور پر بھی جائزہ لینا چاہئے اور ہر ایک کو مشنری انچارج صاحب کی طرف سے اس کے کام پر، اس کی رپورٹ پر تبصرہ جانا چاہئے۔
حضور انور نے فرمایا: اصل ذمہ داری یہ ہے کہ نئی نسل کو سنبھالنا ہے اور نئی نسل کو سنبھالنے کے لئے نئی نسل کے لوگ ہی چاہئیں اور جہاں جہاں کوئی عہدیدار روکیں ڈالتے ہیں جہاں آپ کے خیال میں یہ یہ کام ہونے چاہئیں اور جماعتی عہدیدار اس میں روک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یا آپ کو Freehand نہیں دیتے تو مجھے براہ راست لکھا کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ نے کینیڈا میں رہنے والے ہر احمدی نوجوان اور بچے کو سنبھالنا ہے اور اس کو ضائع نہیں ہونے دینا۔ اور ہر ایک کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہے اور کیا علاج کرنا ہے، کس طرح اس کو Treat کرنا ہے اور کس طرح Deal کرنا ہے، یہ آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ یہ نہیں کہ ایک Line مل گئی ہے تو اسی کے اوپر چلنا ہے، اپنے حالات کے مطابق نئے نئے طریقے Explore کریں کہ کس طرح آپ بہتر کام کرسکتے ہیں۔ آپ نوجوان پڑھے لکھے باہمت لوگ ہیں۔ کچھ کرکے دکھائیں اور بغیر ڈرے جو مشورے دینے ہیں دیں۔
٭…مسسی ساگا کے مبلغ صاحب نے عرض کیا: حضور کے خطبات کا جب سے خلاصہ پیش کرنے کا کام شروع کیا ہے اس سے ایک چیز واضح نظر آرہی ہے کہ اب بہت زیادہ لوگ خطبوں کو سننے کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں اور اس طرف ان کی توجہ ہوگئی ہے۔
حضور انور نے فرمایا: انگلش میں خطبہ کا خلاصہ جو ہے وہ ایک تو alislam پہ بھی آجاتا ہے، ایک وکیل اعلیٰ صاحب کی طرف سے جو آتا ہے وہ اگلے جمعہ سنایا جاسکتا ہے۔ لیکن کیونکہ آپ کے وقت کا فرق ہے۔ اسی لئے اسی دن آپ کے جمعہ سے پہلے آپ کو یہاں جماعتی نظام کے تحت تیار کیا ہوا خلاصہ مل جاتا ہے۔ اس میں مزید تفصیل میں جانا ہو اور خطبہ میں مزید باتیں شامل کرنی ہوں تو آپ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ زائد Points بنانے ہوں تو بنالیاکریں۔
حضور انور نے فرمایا: یہ تو ہر ایک کی اپنی استعداد ہے کہ وہ خطبہ میں سے کتنے Points نکالتا ہے۔ جامعہ احمدیہ یوکے سے نئے فارغ ہونے والے مربیان سے میری میٹنگ تھی۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ ملاقات میں جو باتیں ہوئی ہیں ان کے پوائنٹس (Points) بناؤ تو ایک لڑکے نے 35,30 پوائنٹس بناکے مجھے دیئے۔ میںنے کہا: بڑی اچھی بات ہے۔ میرا خیال تھا کہ کافی ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرا لڑکا جو بڑا ہوشیار ہے۔ بڑی باریکیوں میں جا کر دیکھتا ہے۔ اس نے اسی ملاقات سے 67 پوائنٹس نکال کے دے دیئے، تو یہ تو ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے، کسی کی کم ہے اور کسی کی زیادہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ خطبہ کو صحیح طرح سمجھ کر پھر اس میں سے Points نکالنے چاہئیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جامعہ جرمنی میں مَیں نے ان کی Convocation کے Function پر ان کو نصائح کی تھیں۔ میں نے طلباء سے کہا کہ اس میں سے پوائنٹس نکالو۔ تو زیادہ سے زیادہ جو پوائنٹس نکالے گئے وہ 40 تھے۔ حالانکہ میں نے وہاں باون (52) پوائنٹس لکھے ہوئے تھے۔ تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گہرائی میں جا کر سمجھا کرو۔
٭…ایک مبلغ نے عرض کیا: حضور انور کا خطبہ صبح آتا ہے۔ یہاں جماعتی انتظام کے تحت تیار ہو کے سب مبلغین کو دوپہر سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور اسی دن ہم یہاں خطبہ میں سناتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر پہنچ جاتا ہے تو بڑی اچھی بات ہے اور اگر نہیں پہنچتا تو آپ لوگوں نے تو خود بھی خطبہ سنا ہوتا ہے اور اس سے زائد کوئی بات ذہن میں ہو تو وہ بھی بیان کردیا کریں۔
٭…ایک مبلغ نے عرض کیا کہ نوجوانوں کے ساتھ سوال و جواب کے پروگرام ہوتے ہیں تو کئی دفعہ خدام اس طرح کے سوال پوچھتے ہیں جیسے نظام جماعت پر کوئی اعتراض ہو۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اگر پوچھتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے، ان کو مطمئن کرنا چاہئے اور بڑے ٹھنڈے طریقہ سے ان کو جواب دو اور اگر نظام جماعت کے بارہ میں کسی سوال کے اعتراض کاجواب نہ آتا ہو تو مجھے لکھو میں اس کا تفصیلی جواب دے دوں گا پھر ان کو بتا دیں۔ بلا جھجک مجھے لکھو۔ بہت سارے سوال جو نوجوانوں کے ذہنوں میں آتے ہیں اس کے لئے خدام الاحمدیہ یوکے نے اپنے اجتماع پہ اور اس کے علاوہ تربیتی کلاس میں بھی جامعہ کے طلباء کے ساتھ ایک سیشن شروع کیا تاکہ ان نوجوانوں کو انہی کی عمر کے ایسے نوجوان مربیان جو دینی علم رکھتے ہیں جواب دے سکیں اس کا بڑا فائدہ ہوا ہے۔
مثلاً مالی نظام پہ کچھ نوجوانوں کو Reservation تھی۔ اس پر جامعہ کے Senior کلاس کے لڑکوں نے سوال و جواب میں ان کو تفصیل سے جماعت کے مالی نظام اور چندوں کے بارہ میں بتایا تو وہ نوجوان جو پہلے سمجھتے تھے کہ یہ چندہ کوئی صدقہ دے رہے ہیں یا کسی مولوی کو سنبھالنے کے لئے کوئی مدد کررہے ہیں۔ جب صحیح مالی نظام کا پتہ لگا تو وہ لڑکے جو کئی سالوں سے چندے نہیں دے رہے تھے خود اپنے چندے لے کے اور اپنا حساب لے کے سیکرٹری مال کے پاس آئے کہ اب ہمیں جماعت کے مالی نظام کا پتہ لگا اور ہمیں شرمندگی ہے کہ ہم اتنا عرصہ چندہ نہیں دیتے رہے، ہم یہ چندہ دینے آئے ہیں۔ جو بھی سوال ہے اس کا جواب دو تو اس کا صحیح اثر ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چپ کرادو کہ نہیں نہیں ایسے اعتراض نہ کرو۔ آپ ہر ایک کا اعتراض سنیں پھر اس کا جواب دیں تاکہ سوال کرنے والے کی تسلی ہو۔
حضور انور نے فرمایا: ہماری کوئی بات ایسی نہیں ہے جس میں کوئی لاجک (Logic) نہ ہو۔ کوئی بات ایسی نہیں ہے جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہو۔ جب ایسا نہیں ہے تو پھر ڈرنے کی ضرورت نہیں صرف سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ مجھ سے بھی براہ راست لوگ سوال کر دیتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
٭…ایک مربی سلسلہ نے عرض کیا پِیس ویلج کا ایک لڑکا ہے جو کافی برے کاموں میں، Drugs وغیرہ میں ملوّث ہے۔ ایک دفعہ میں نماز پر جارہا تھا تو وہ راستہ میں مل گیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ نماز پڑھنے جانا ہے کہ نہیں؟ تووہ مجھے کہتا ہے کہ اس کو مسجد سے Ban کر دیا گیا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ کون تمہیں Ban کرے گا۔ میرے ساتھ آؤ۔ تو جب میں اسے اندر لے گیا تو میرے ساتھ ہی اس نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ مجھے فون بھی کرتا رہا اور اس طرح میرا اس سے تعلق بن گیا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: یہ تو ضروری چیز ہے Ban تو نہیں کرنا۔ بعض عہدیدار Rigid ہوتے ہیں۔ تو ان کی وجہ سے لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ جن کے ماں باپ کے عہدیداروں کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں اور Grievances بڑھ جاتی ہیں تو اس کی وجہ سے ان کے گھروں میں نظام کے خلاف باتیں ہوتی ہیں۔ جس سے پھر ایک فاصلہ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ ہم نے فاصلے کم کرنے ہیں بڑھانے نہیں ہیں۔ دراڑوں کو کم کرنا ہے دراڑیں بڑھانی نہیں ہیں۔ آپ لوگوں نے یہ سوچ کے کام کرنا ہے خواہ کتنا بڑا کوئی ہو۔ جس طرح کا بھی کوئی اعتراض ہو اس کو حوصلہ سے سنو اور اس کا جواب دو اور اگر جواب سے اس کی تسلی نہیں ہوئی تو پیچھے پڑے رہو اور اس کی تسلی کرواؤ اس کے بعد اگر نہیں جواب آتا تو مجھے لکھ دو۔ انتظامی جواب ہے یا سوال ہے یا کسی قسم کا بھی ہے مجھے لکھ دو۔
٭…ایک مبلغ نے سوال کیا کہ یہاں سال میں دس (10) دن کے لئے طلباء کی کلاس ہوتی ہے تو اس میں نوجوانوں سے سوال و جواب کا پروگرام رکھا جاسکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: خدام الاحمدیہ کے صدر کو مشورہ بھی دو۔ جن کے دماغوں میں نوجوانوں کو سنبھالنے کے لئے کوئی تجاویز آتی ہیں وہ صدر خدام الاحمدیہ کو لکھ کر دیں اور مجھے بھی لکھ کر بھجوائیں۔
٭…ایک مبلغ نے عرض کیا ایک مسئلہ جو ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ گھروں میں عہدیداران کے خلاف باتیں ہوتی ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: یہی تو میں کہتا رہتا ہوں کہ ہوتی رہتی ہیں اورہمارے پاس کوئی ڈنڈا اور پولیس تو ہے نہیں جو بند کروادیں۔ ہم نے سمجھانا ہی ہے اور میں سمجھاتا رہتا ہوں اور میں خطبات میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔حضور انور نے فرمایا: اگر آپ لوگوں کے نوجوانوں سے، بچوں سے اچھے دوستانہ تعلقات ہو جاتے ہیں تو پھر والدین جو مرضی باتیں کرتے رہیں وہ بچے آکر آپ کو بتائیں گے۔ آپ دیکھیں اگر عہدیدار غلط ہیں تو امیر صاحب کو لکھ کر دیں کہ اس طرح سے دلوں میں بے چینیاں پیدا ہو رہی ہیں اور بدظنیاں پید اہورہی ہیں اس کا تدارک ہونا چاہئے، اس کا علاج ہونا چاہئے۔ اور اگر تین ہفتے میں، چار ہفتے میں آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی ردعمل جماعتی نظام کی طرف سے نہیں ہو رہا ہے تو مجھے لکھ کر دیں۔
کینیڈا کے سپرد ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کو حضور انور نے فرمایا کہ اپنی جماعتیں منظم کریں۔ آپ کو چھ ماہ، سال بعد مَیں نے انڈیپنڈنٹ کر دینا ہے۔ پھر آپ کے اپنے جلسے اور پروگرام ہوں گے۔ آپ جو کینیڈا کے تحت ہیں یہ تو صرف ابتدائی طور پہ تھا تاکہ آپ Establish ہو جائیں پھر آہستہ آہستہ سب ملک Independent ہونے ہیں۔ بلکہ وہاں کی عاملہ بھی میں نے کہا تھا بنالیں۔ جہاں جہاں دس، پندرہ، بیس احمدی ہوگئے ہیں وہاں عاملہ بنائیں اور جو مربی انچارج ہے وہ صدر جماعت ہوگا۔ باقی عاملہ Elect کرلیں۔ آپ کی ذمہ داریاں بڑھنی ہیں۔ اس لئے اب خود تبلیغ اور تربیت کے لئے طریقے Explore کریں۔
٭…ایک مبلغ نے عرض کیا کہ میں جہاں رہتا ہوں وہاں پر میرے علاوہ صرف ایک اور فیملی ہے تو کس طرح تبلیغ کے کام کرنے چاہئیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اپنے اپنے حالات کے مطابق تبلیغ کے طریقے دیکھیں۔ یہ جو ہدایات ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کے لئے جنرل ہوتی ہیںجہاں جماعتیں قائم ہیں۔ آپ کے وہاں تھوڑے لوگ ہیں، آپ نے تبلیغ کرکے جماعت کو کس طرح بڑھانا ہے۔ اس کے لئے آپ کو دعائیں بھی کرنی پڑیں گی رات کو اٹھ کر نفل بھی پڑھنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھائے اور پھر کوشش بھی کرنی ہوگی۔ دعاؤںسے ہی کام ہوگا۔ سب مبلغین نفلوں کی عادت ڈالیں۔ پرانے زمانہ میں آپ کے مبلغ انچارج مکرم مبارک نذیر صاحب کے والد صاحب سیرالیون، نائیجیریا اور غانا وغیرہ گئے تو ان کے بارہ میں یہی رپورٹس ہیں کہ دعائیں کرتے ہوئے انہوں نے جماعتیں بنادی تھیں۔
٭…ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: جو نئے احمدی ہوئے ہیں، پہلے تو ان کو وقف جدید، تحریک جدید کے چندوں کی عادت ڈالو۔ جو وہ دے سکتے ہیں، اپنی خوشی سے دیں۔ پھر جب وہ چندہ دینا شروع کر دیں اور عادت پڑ جائے تو ان کو بتاؤ کہ یہ تو ایسا چندہ تھا جو آپ کو عادت ڈالنے کے لئے تھا،لیکن جماعت میں ایک نظام ایسا بھی رائج ہے جو مستقل چندہ کا ہے اور اس میں 1/16 تک چندہ دینا ہوتا ہے اور آپ اپنے حالات کے مطابق دیکھ لیں کہ آپ دے سکتے ہیں یا ابھی نہیں دے سکتے۔ یا اس میں سے اپنے کمزور مالی حالات یا تنگی کی وجہ سے ایک حصہ یا اگر سارا ہی معاف کروانا ہو تو وہ بھی ہوسکتا ہے۔
فرمایاـ: بہرحال آپ نے ان کو نظام میں پوری طرح سمونا ہے۔ افریقہ میں اور دوسرے ملکوں میں بھی بعض ایسے احمدی ہیں جو بیعت کرتے ہیں اور ساتھ ہی چندہ کا نظام پوچھتے ہیں اور شامل ہو جاتے ہیں۔ بعض ہیں جو بڑی دیر سے شامل ہوتے ہیں۔ یہ تو ہر ایک کی اپنی اپنی ایمانی حالت پر منحصر ہے کہ کس حد تک وہ احمدیت کو سمجھا ہے اور نظام کو سمجھا ہے اور نظام کے ساتھ Attached ہے۔ تو پہلے آہستہ آہستہ ان کو عادت ڈالیں اور وقف جدید، تحریک جدید کے چندے میں شامل کریں۔ خاص طور پر وقف جدید میں شامل کریں چاہے سال کے دو ڈالر یا چار ڈالر ہی دیں۔ یا جو فیملی ممبر ہے وہ دو دو ڈالر دے دیں۔ پھر آہستہ آہستہ ان کو نظام کے بارے میں سمجھاتے رہیں۔ جب تربیت ہو جائے گی، تعلق ہو جائے گا، سمجھ جائیں گے تو پھر وہ خود ہی Main Stream میں شامل ہو جائیںگی اور ان کو سارے نظام کا، چندوں کا بھی پتہ لگ جائے گا۔
حضور انور نے ان نئے ممالک کے مبلغین کو جہاں ابھی جماعت کا آغاز ہے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:
وہاں تو کوئی سیکرٹری مال نہیں ہے آپ امیر صاحب کینیڈا سے ایک رسید بک لے لیں، عمومی طور پہ مربیان کو روکا ہوا ہے کہ انہوں نے مالی معاملات میں Involve نہیں ہونا۔ یہ عمومی ہدایت ہے جہاںجماعتیں ہیں۔ لیکن جو نئے ممالک ہیں، اب مثلاً Belizeمیں، Paraguay میں یا Islands میں نئی نئی جماعتیں جو قائم ہورہی ہیں۔ وہاں مربی ہی صدر جماعت ہے۔ جب وہ صدر ہے تو ظاہر ہے کہ وہ مالی معاملات میں Involve ہوگا۔ آپ چندہ لیں اور باقاعدہ اس کی رسید بنا کر دیں اور وہ جمع کروادیا کریں۔ Exceptions ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن عموماً یہی ہے کہ جہاں دوسرے کام کرنے والے افراد میسر ہیں وہاں مربیان مالی معاملات میں Involve نہ ہوں۔ جب ان نئے ممالک میں جماعت انشاء اللہ بڑھے گی تو پھر جماعت کے لوگوں کے سپرد یہ کام ہو جائے گا۔
٭…ملک Paraguay کے مبلغ نے سپینش زبان سیکھنے کے حوالہ سے راہنمائی چاہی تو اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے کینیڈا میں رہ کر کچھ تو سیکھ لیا ہے اب وہاں جا کر بھی دیکھیں کہ کوئی ایسے شارٹ کورسز ہوں جو وہاں ہوتے ہوں تو اس میں داخلہ لے لیں اور زبان سیکھیں۔ مربیان جہاں جہاں بھی جا رہے ہیں وہاں کی زبان سیکھیں۔ ایک تو یہ کہ آپ جب لوگوں سے بات چیت شروع کریں تو کوشش کرکے مقامی زبان میں کریں اور اپنی زبان میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے آپ وہاں کے کسی ادارہ میں داخلہ لیں اور مزید کورسز کریں۔ پہلے جائزہ لے لیں کہ کس قسم کے کورسز فائدہ مند ہیں، اس کی فیس اور اخراجات جو ہیں وہ لکھ کر بھجوائیں۔ آپ نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ باقی کام بھی کرنے ہیں، پڑھائی بھی، تبلیغ بھی، تربیت بھی اور اپنی اصلاح بھی۔چاروں کام اکٹھے چلیں گے۔
٭…مربی سلسلہ Belize نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ Belize میں اب جماعت کی تعداد تقریباً 100 ہوگئی ہے۔ اس وقت خاکسار ہی صدر جماعت ہے۔ سیکرٹری مال جیمویل صاحب ہیں یہ لوکل احمدی ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ کو ساتھ ساتھ دیکھنا پڑے گا، نگرانی کرنی پڑے گی۔ جو بھی چندے وصول ہوں ساتھ ساتھ لیتے رہیں اور جمع کرواتے رہیں۔ بلاوجہ کسی کے ایمان کو آزمانا بھی نہیں چاہئے۔ کیونکہ غریب لوگوں کی Temptation زیادہ ہو جاتی ہے اگر مال زیادہ دیر جیب میں پڑا رہے۔
مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ سیکرٹری مال صاحب صرف چندہ کا حساب رکھتے ہیں اور چندہ کی رقم ہم اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ٹھیک ہے ساتھ ساتھ جمع کرواتے رہا کریں۔
٭…ایک مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ ساؤتھ امریکن ممالک میں جو نومبائعین ہیں وہ کافی غریب ہیں تو بعض اوقات وہ جماعت کے پاس مالی مدد کے لئے آتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: مدد کے لئے آتے ہیں اور وہ Genuine کیسز ہیں تو آپ خدمت خلق کا بجٹ بنا کے یہاں اپنے امیر جماعت کو بھیج دیا کریں۔ مدد اور تالیف قلب کا بجٹ ہونا چاہئے۔ یہ آپ کو مل جائے گا۔
حضور انور نے میٹنگ کے آخر پر ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: تربیت کرو۔ ہمارا کام تربیت کرنا ہے۔ قرآن کریم میں ذَکِّرْ کا حکم آیا ہے وہ کئے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا۔ چاہے کوئی بڑا ہے چھوٹا ہے۔ آپ لوگ اس لئے یہاں پرمتعین کئے گئے ہیں کہ آپ نے تربیت کرنی ہے اور تبلیغ کرنی ہے۔ یہ دونوں کام ہیں۔ بس ایمانداری سے ان کاموں کو کئے جاؤ اور کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، اللہ کا خوف ہونا چاہئے باقی کسی بندے کا خوف نہیں کھانا۔ اور اگر کہیں مسائل ہیں تو میرے سے رابطہ رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک نظام دیا ہوا ہے اس نظام کو سمجھو اور اس کے مطابق چلو۔ اللہ حافظ ہو۔
مبلغین کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ میٹنگ آٹھ بجکر بیس منٹ پر ختم ہوئی۔ بعدازاں تمام مبلغین نے شرف مصافحہ حاصل کیا۔
تقریب آمین
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ تشریف لے آئے۔ جہاں پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل چالیس (40) بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔
محمد انصر حاشر، عبدالوکیل، عریب احمد خان، بلار احمد منہاس، اذن خالد بھلی، اسماعیل حیدر، عدنان احمد، مسروراحمد، حسیب نعمان، نورالدین طارق، عزیز احمد خان، ذیشان عارف سندھو، یاسر منصور، ریّان احمد مرزا، فرحان انس ایاز، ثمر نور خان، بسال احمد، فاران ورک، عبیراحمدچٹھہ۔
ماہ نور طارق، نائمہ منہاس، عائشہ طاہر، فاتح ابراہیم، یسریٰ نسیم چوہدری، ماہدہ رحمن مرزا، ایشل منصور، شازیہ نثار، زارہ بٹ، عائزہ عاطف، ملائکہ چوہدری، رملہ ڈوگر، زارہ خان، عطیہ منور، علیزہ احسان، شافیہ درثمین، عاتکہ بشریٰ احمد، ماہدہ نورالنہار احمد، فزہ بھلی، ہانیہ خلود، کاشفہ نوید۔
تقریب آمین اور دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔
آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہائشگاہ ’’سرائے محبت‘‘ سے باہر بشیر سٹریٹ اور احمدیہ ایونیو پر ہزاروں کی تعداد میں مردوخواتین اور نوجوان بچے بچیاں ساڑھے نو بجے سے ہی جمع ہونے شروع ہوگئے تھے اور نوجوان مسلسل نعرے بلند کررہے تھے اور دعائیہ نظمیں پڑھ رہے تھے۔
پیس ویلج کے یہ مکین اس بات کے منتظر تھے کہ کسی وقت بھی ان کے دل و جان سے پیارے آقا اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائیں گے تو جہاں ان کی بستی کی گلیاں قدم بوسی کا شرف پائیں گی وہاں اس کے مکین بھی اپنے گھروں کے سامنے اپنے پیارے آقا کے دیدار کی سعادت پائیں گے۔
دس بجکر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور بشیرسٹریٹ پر پیدل روانہ ہوئے۔ پیس ویلج کی دوسری گلیوں اور راستوں کی طرح بشیر سٹریٹ کے مکینوں نے بھی اپنے اپنے گھروں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا ہوا ہے۔ ہر گھر ایک دوسرے سے بڑھ کر بجلی کے رنگ برنگے قمقموں سے مزیّن ہے ۔
ہزاروں کی تعداد میں تو لوگ پہلے ہی اپنے گھروں سے باہر تھے۔ حضور انور کو دیکھتے ہی جو گھروں کے اندر تھے وہ بھی اپنے گھروں سے باہر آگئے۔ ہر ایک خوشی و مسرت سے معمور تھا۔ ہر طرف سے السلام علیکم حضور!‘ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ ہر گھر کے سامنے کھڑی فیملیز اپنے کیمروں سے حضور انور کی تصاویر بنا رہی تھیں۔ ہر کوئی اپنی سعادت اور خوش نصیبی پر خوش تھا کہ ان کا آقا ان کے اتنا قریب ہے۔ بڑی عمر کے بچے بچیاں اپنے کیمروں سے مسلسل تصاویر بنا رہے تھے۔ ہر گھر کے باہر بالکونی میں، سیڑھیوں پر اور پھر آگے سڑک پر کھڑے مردوخواتین اور بچے بچیاں بڑی تعداد میں قدم قدم پر اپنے آقا کا دیدار کررہے تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت ان کے سلام کا جواب دیتے، ان کے بچوں سے پیار کرتے، سر پر ہاتھ رکھتے اور بعضوں سے گفتگو فرماتے اور حال دریافت فرماتے۔ کتنے ہی بابرکت لمحات تھے جو ان کے گھروں کی دہلیز تک آن پہنچے تھے۔
بشیر سٹریٹ پر چلتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’عبدالسلام سٹریٹ‘‘ پر تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے ’’احمدیہ ایونیو‘‘ پر تشریف لے آئے۔سارا پیس ویلج، یہ امن کی بستی دلہن کی طرح سجی ہوئی ہے۔ آج جس طرح ان کے گھر روشن تھے ان کے دل بھی روشن تھے۔ اپنے پیارے آقا کو اپنے درمیان گلی کوچوں میں چلتا ہوا دیکھ کر ان لوگوں کے نصیب جاگ اٹھے تھے۔
حضور انور کے چاروں طرف اس قدر ہجوم تھا کہ چلنے کے لئے راستہ بنانا پڑتا تھا۔ قدم قدم پر نعرے بلند ہورہے تھے اور ہر قدم پر ان ناقابل بیان مناظر کی سینکڑوں تصاویر بن رہی تھیں۔
بعض فیملیاں اپنے بچوں کو اٹھائے ہوئے آگے کرتیں اور اس بات کو ترستیں کہ حضور ان کے بچے کو پیار کردیں۔ اپنا ہاتھ لگا دیں۔ حضور انور آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور اپنا ہاتھ ہلاکر سب کے سلام کا جواب دیتے۔ بعض فیملیز حضور انور کے انتہائی قریب آجاتیں۔ حضور انور ان کا حال دریافت فرماتے اور ان سے گفتگو فرماتے۔
آج بڑا روح پرور ماحول تھا اور یہ امن کی بستی روحانی خوشبو سے معطر تھی۔ جہاں ان مکینوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے وہاں ان کی آنکھیں بھی خوشی کے آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔
بڑے رقّت آمیز مناظر دیکھنے میں آرہے تھے۔ حضور انور نے جب ایک بچے کو پیار کیا اور اپنا ہاتھ لگایا تو اس کی ماں نے اپنے بچے کو سینے سے لگالیا اور روتے ہوئے چہرہ کے اس حصہ کو چومنا شروع کر دیا جہاں حضور انور کا ہاتھ لگا تھا۔ آج عشق و محبت اور فدائیت کی ان گنت داستانیں رقم ہوئیں اور ہر ایک کے ایمان کو جلاء ملی۔ اللہ یہ سعادتیں، یہ برکتیں، یہ خوشیاں اور یہ رونقیں اس بستی کے لئے اور اس کے مکینوں کے لئے مبارک کرے۔
یہ ایمان افروز مناظر گیارہ بجکر دس منٹ پر اس وقت اپنے اختتام کو پہنچے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بشیر سٹریٹ پر واقع رہائشگاہ ’’سرائے محبت‘‘ تشریف لے گئے۔
(باقی آئندہ)