احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
روزوں کا عظیم مجاہدہ
(گذشتہ سے پیوستہ)’’ایک دفعہ میں نے باوا نانک صاحب کو خواب میں دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا ہےاور میں نے دیکھا کہ ایک ہندو ان کے چشمہ سے پانی پی رہا ہے۔ پس میں نے اس ہندو کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمے سے پانی پیو۔ تیس برس کا عرصہ ہوا ہے۔ جبکہ میں نے یہ خواب یعنی باوا نانک صاحب کو مسلمان دیکھا۔ اسی وقت اکثر ہندوؤں کو سنایا گیا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ اس کی کوئی تصدیق پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ ایک مدت کے بعدوہ پیشگوئی بکمال صفائی پوری ہوگئی۔ اور تین سو برس کے بعد وہ چولہ ہمیں دستیاب ہوگیا کہ جو ایک صریح دلیل باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر ہے۔ یہ چولہ جو ایک قسم کا پیراہن ہے بمقام ڈیرہ نانک باوا نانک صاحب کی اولاد کے پاس بڑی عزت اور حرمت سے بطور تبرک محفوظ ہے۔‘‘(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18صفحہ 581تا 582)
’’یہ بھی یاد رہے کہ میں نے دو مرتبہ باوا نانک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور اُن کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نور سے روشنی حاصل کی ہے۔ فضولیاں اور جھوٹ بولنا مُردار خواروں کا کام ہے۔ میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے۔ اسی و جہ سے میں باوا نانک صاحب کو عزت کی نظرسے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اس چشمہ سے پانی پیتے تھے۔ جس سے ہم پیتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اُس معرفت سے بات کررہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے۔‘‘( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ88 ،اشتہار نمبر 172)
’’میری خواب میں جو باوا نانک صاحب نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اس سے یہی مراد تھی کہ ایک زمانہ میں ان کا مسلمان ہونا پبلک پر ظاہر ہوجائے گا چنانچہ اِسی امر کے لیے کتاب سَت بچن تصنیف کی گئی تھی اور یہ جو مَیں نے ہندوؤں کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمہ سے پانی پیواس سے یہ مراد تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اہلِ ہنوداورسکّھوں پر اِسلام کی حقانیت صاف طور سے کُھل جائے گی اورباوا صاحب کا چشمہ جس کو حال کے سکّھوں نے اپنی کم فہمی سے گدلا بنا رکھا ہے وہ میرے ذریعہ صاف کیا جائے گا۔‘‘(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18 صفحہ 583)
اسی ضمن میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’تخمیناً دس برس کا عرصہ ہوا ہے جو میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا۔ اور مسیح نے اور میں نے ایک جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔ اور کھانے میں ہم دونوں ایسے بے تکلف اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں اور جیسے قدیم سے دو رفیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اُس کے اسی مکان میں جہاں اَب یہ عاجز اس حاشیہ کو لکھ رہا ہے۔ میں اور مسیح اور ایک اور کامل اور مکمل سید آلِ رسول دالان میں خوشدلی سے ایک عرصے تک کھڑے رہے اور سید صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ اُس میں بعض افراد ِخاصۂ اُمّتِ محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اور حضرت ِ خداوند تعالیٰ کی طرف سے اُن کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سید صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو اُمّت ِمحمدیہ کے اُن مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عنداللہ اُن کے لئے مقرر ہیں۔ اور اُس کاغذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا۔ اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا۔ تب اِس عاجز کا نام آیا۔ جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی عربی زبان میں لکھی ہوئی تھیھُوَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ و تَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔یعنے وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔ سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا۔یہ اخیر فقرہ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاس اسی وقت بطورِ الہام بھی القا ہوا۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 280تا 281حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)
سیدعبدالقادرجیلانی ؒکے متعلق اپنے روحانی تعلق اور مناسبت کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’فطرتاًبعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح میری روح اور سیدعبد القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے۔ جس پر کشوفِ صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے۔اس بات پر تیس30 برس کے قریب زمانہ گذر گیا ہےکہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کرلیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی۔ جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے۔ اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی۔ اور پھر مسجد کے باہر کےصحن میں نکل آئے۔ اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی۔ اتنے میں مشرق کی طرف سے ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا۔ تب اُس ستارہ کو دیکھ کر سید عبدالقادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا۔ السَّلام علیکم اور ایسا ہی اُن کے رفیق نے السَّلام علیکم کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ اَلْمُؤْمِنْ یَرٰی وَیُرٰی لَہٗ۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 224حاشیہ)
ایک اَور روشن کشف
’’اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسی بسُرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی ؓو حسنین ؓو فاطمہ زَہرا رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیاپھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے۔ اور اب علی وہ تفسیر تجھ کودیتا ہےفالحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد1 صفحہ598تا 599 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3، نیز دیکھئے تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17 صفحہ 118)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی بعض تفصیلات جو دوسری جگہ بیان فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
(الف) ’’رأیت ان علیا رضی اللّٰہ عنہ یرینی کتابًا و یقول ھذا تفسیر القراٰن انا الفتہ و امرنی ربی ان اعطیک فبسطت الیہ یدی و اخذتہ وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یری و یسمع ولا یتکلم کأنہ حزین لِاجل بعض احزانی۔ و رأیتہ فاذا الوجہ ھو الوجہ الذی رایت من قبل انارت البیت من نورہ۔فسبحان اللّٰہ خالق النور و النورانیین۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 550)ترجمہ : میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں۔ تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپ بولتے نہیں تھے۔ گویا آپ میرے بعض غموں کی وجہ سے غمگین تھے۔ اور میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ آپ کے نور سے گھر روشن ہوگیا۔ پس پاک ہے وہ خدا جو نور اور نورانی وجودوں کا خالق ہے۔
(ب) ’’فأعطانی تفسیر کتاب اللّٰہ العلام، وقال ھذا تفسیری، والآن أُولِیْتَ فَہُنّیتَ بما أُوتِیتَ۔ فبسطتُ یدی وأخذت التفسیر، وشکرت اللّٰہ المعطی القدیر۔ ووجدتُہ ذا خَلْقٍ قویم وخُلقٍ صمیم، ومتواضعا منکسرا ومتہلّلا منوّرا۔ وأقول حلفًا إنہ لاقانی حبًّا وألْفًا، وألقی فی روعی أنہ یعرفنی وعقیدتی، ویعلم ما أخالف الشیعۃ فی مسلکی ومشربی، ولکن ما شمخ بأنفہ عُنفًا، وما نأی بجانبہ أنفًا، بل وافانی وصافانی کالمحبین المخلصین، وأظہر المحبۃ کالمصافین الصادقین۔ وکان معہ الحسین بل الحسنینِ وسید الرسل خاتم النبیین، وکانت معہم فتاۃ جمیلۃ صالحۃ جلیلۃ مبارکۃ مطہّرۃ معظّمۃ مُوَقرۃ باہرۃ السفور ظاہرۃ النور، ووجدتہا ممتلئۃ من الحزن ولکن کانت کاتمۃ، وأُلقی فی روعی أنہا الزہراء فاطمۃ۔ فجاء تنی وأنا مضطجع فقعدت ووضعت رأسی علی فخذہا وتلطفت، ورأیتُ أنہا لبعض أحزانی تحزن وتضجر وتتحنن وتقلق کأمّہات عند مصائب البنین۔ فعُلّمتُ أنی نزلتُ منہا بمنـزلۃ الابن فی عُلَق الدّین، وخطر فی قلبی أن حزنہا إشارۃ إلی ما سأری ظلما من القوم وأہل الوطن والمعادین۔ثم جائنی الحسنان، وکانا یبدءان المحبۃ کالإخوان، ووافیانی کالمواسین۔ وکان ہذا کشفًا من کشوف الیقظۃ، وقد مضت علیہ بُرْہۃ من سنین۔‘‘(سِرّالخلافۃ،روحانی خزائن جلد8 صفحہ358 تا 359) ترجمہ : پس (حضرت علیؓ نے) مجھے کتاب اللہ کی تفسیر دی۔ اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب آپ اس کے مستحق ہیں۔ آپ کو اس کتاب کا ملنا مبارک ہو۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر تفسیر لے لی۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو خوب تنومند اور اعلیٰ اخلاق کا مالک پایا۔ متواضع، منکسرالمزاج چمکتے ہوئے روشن چہرے والا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیں اور آپ کو میرے عقیدہ کا بھی علم ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میرا مسلک اور مشرب شیعوں کے مخالف ہے لیکن آپ اسے بُرا نہیں مناتے بلکہ آپ مجھ سے مخلص محبوں کی طرح ملے۔ اور بڑی محبت کا اظہار کیا۔ آپ کے ساتھ حسنین اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت عورت بھی جو صالحہ، عالی مرتبہ، نیک سیرت اور باوقار تھی جس کے چہرہ سے نور ٹپک رہا تھا اور میں نے اس کو غم سے بھرا ہوا پایا جسے وہ چھپا رہی تھی۔ میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بی بی فاطمۃ الزاہراء ہیں آپ میرے پاس آئیں۔ میں لیٹا ہوا تھا آپ بیٹھ گئیں اور میرا سر اپنی ران پر رکھا اور شفقت فرمانے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے بعض غموں کی و جہ سے آپ غمگین اور پریشان تھیں جیسے مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب کے وقت پریشان ہوتی ہیں۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ میری حیثیت دینی تعلق کے لحاظ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ کے غم میں اس ظلم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہل ِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والا ہے۔ پھر حسنین میرے پاس آئے اور دونوں مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کا اظہار کرتے تھے اور شفیق ہمدردوں کی طرح مجھے ملے۔ اور یہ کشف بیداری والے کشوف میں سے تھا جس پر کئی سال گذر چکے ہیں۔
یہ مذکورہ بالا کشف ممکن ہے کہ اسی کشف کی تفصیلات ہوں کہ جس کا ذکر کتاب البریہ میں اسی آٹھ نوماہ کے روزوں کے دوران ہونے کاذکرفرمایاہے۔
ان تمام تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ یہ عبادت ومجاہدہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں کس قدرمقبول ومشرف ہوا۔ اور اسی ضمن میں حضورعلیہ السلام کی ایک اور تحریرپیش کرکے اس تفصیل کوختم کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کے پیار کی نظرکس قدرآپؑ پرتھی۔حضورؑ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ میں نے فرشتوں کوانسان کی شکل پردیکھا۔یادنہیں کہ دوتھے یاتین۔ آپس میں باتیں کرتے تھے اورمجھے کہتے تھے کہ تُوکیوں اس قدر مشقت اٹھاتاہے۔ اندیشہ ہے کہ بیمارنہ ہوجائے۔ مَیں نے سمجھا کہ یہ جوچھ ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 342تا 343بحوالہ تذکرہ صفحہ 19)