حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے لندن کی مقامی مجالس عاملہ کی چوتھی ملاقات
(رپورٹ نسیم احمد باجوہ۔ مبلغ سلسلہ لندن)
لندن کی مقامی مجالس عاملہ اپنی خوش قسمتی پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے کہ پیارے امام اور اللہ تعالیٰ کے محبوب خلیفہ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کے فرمان کے مطابق کہ
’’خلیفہ راشد سایہ ربّ العالمین، ہمسایہ انبیاء و مرسلین، سرمایہ ترقی دین اور ہم پایۂ ملائکہ مقربین ہے۔ دائرہ امکان کا مرکز، تمام وجوہ سے باعثِ فخر اور ارباب عرفان کا افسر ہے، دفتر افراد انسی کا سردار ہے۔ اس کا دل تجلّی رحمان کا عرش اور اس کا سینہ رحمتِ و افرہ اور اقبالِ جلالتِ یزداں کا پرتَو ہے۔ اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے۔ اس کا قہر تیغ قضا اور مہر عطیات کا منبع ہے۔‘‘
(منصب امامت صفحہ 87)
ایسے پاک اور بابرکت وجود کی ملاقات سے انہیں ان دنوں مستفیض ہونے کی توفیق مل رہی ہے۔ قبل ازیں 9 جماعتوں کی ملاقاتیں تین اجلاسات میں ہوچکی ہیں۔ اس وقت خاکسار چوتھی ملاقات کا مختصر تذکرہ پیش خدمت کرنا چاہتا ہے تاکہ دیگر احباب بھی استفادہ کرسکیں۔
یہ ملاقات بفضلہٖ تعالیٰ مؤرخہ 4 فروری 2018ء بروز اتوار پونے چار بجے سے ساڑھے چار بجے تک مسجدفضل لندن سے ملحق محمود ہال میں ہوئی۔ اس ملاقات میں لندن کی چار جماعتیں شامل تھیں جن میں کنگسٹن، ٹالورتھ، سربٹن اور والٹن آن تھیمز کی مجالس عاملہ کے 55 اراکین شامل تھے۔حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیرجماعت یُوکے، مکرم نصیر دین صاحب ریجنل امیر لندن بی اور خاکسار نسیم احمد باجوہ ریجنل مشنری لندن B کو بھی شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ مذکورہ بالا جماعتوں کے صدران بالترتیب مکرم بشیر احمد طاہر صاحب، مکرم پرویز احمد صاحب، مکرم عبداللہ بھٹی صاحب اور مکرم شہباز احمد باجوہ صاحب ہیں جو سب شامل تھے۔
حضورانورکے ہال میں تشریف لانے پر تمام حاضرین نے اپنے امام کا کھڑے ہوکر استقبال کیا۔ کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہونے کے بعد حضورانور نے موجود جماعتوں سے تعارف حاصل فرمایا۔
اس کے بعد دائیں طرف سے آغاز فرماتے ہوئے صدرصاحب ٹالورتھ جماعت سے دریافت فرمایا کہ آپ کے کتنے ممبر ہیں؟ عرض کیا 208۔ فرمایا نماز کا سنٹر ہے؟ عرض کیا دو گھروں میں نمازباجماعت کے مراکز ہیں۔ ایک گھر میں نماز فجر ادا کی جاتی ہے اور دوسرے گھر میں نماز عشاء ادا کی جاتی ہے۔ فرمایا دونوں نمازیں ایک جگہ کرلیں۔
پھر زعیم صاحب انصاراللہ سے دریافت فرمایا کتنے انصار ہیں؟ عرض کیا 27۔ فرمایا نماز پڑھنے میں کیسے ہیں؟ عرض کیا22: ۔ انصار آتے ہیں، باقیوں کو بھی توجہ دلارہے ہیں۔
قائد صاحب خدام الاحمدیہ سے دریافت فرمایا کتنے خدام ہیں؟ عرض کیا29:۔ فرمایا نماز پڑھنے والے کتنے ہیں؟ عرض کیا7: باقاعدہ ہیں۔ فرمایا عاملہ کے کتنے ممبر ہیں؟ عرض کیا 13:۔
ساتوں دن نماز باجماعت کا انتظام ہونا چاہئے
صدر صاحب سربٹن سے حضورانور نے دریافت فرمایا کیا تعداد ہے؟ عرض کیا252 ۔ فرمایا صلوٰۃسنٹر کتنے ہیں؟ عرض کیا دو سنٹر ہیں۔ دونوں جگہ 6 دن عشاء کی نماز ہوتی ہے۔ فرمایا ساتواں دن کیوں نہیں؟ عرض کیا کہ ہال نہیں مل رہا۔ فرمایا کوشش کریں ساتوں دن نماز باجماعت ہو۔ نیز فرمایاحاضری کیسی ہوتی ہے؟ عرض کیا گیا کہ 20، 22 افراد عشاء میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ 8، 9 افراد فجر کے لئے مسجد فضل جاتے ہیں۔
زعیم صاحب سے دریافت فرمایا کہ کتنے انصار ہیں؟ عرض کیا گیا کہ 52۔ فرمایا عاملہ کے اراکین کتنے ہیں؟ عرض کیا 11۔ فرمایا فجر کتنے پڑھتےہیں؟ عرض کیا 2۔فرمایا عشاء کتنے پڑھتے ہیں؟ عرض کیا 11۔
فرمایا عاملہ کے کتنے اراکین نماز پڑھتے ہیں؟ عرض کیا 7۔ نیز عرض کیا کہ عشاء کی کُل حاضری 27 ہوتی ہے۔ فرمایا کُل مرد کتنے ہیں؟ عرض کیا 110۔
قائد خدام الاحمدیہ سے دریافت فرمایا خدام کتنے ہیں؟ عرض کیا 60۔ فرمایا عاملہ کے اراکین کتنے ہیں؟ عرض کیا 12۔ فرمایا باجماعت نمازیں پڑھنے والے عاملہ کے ممبرکتنے ہیں؟ عرض کیا6:۔ دیگر خدام کو ملاکر 15، 20 خدام نماز کے لئے آتے ہیں۔
عاملہ کو ٹھیک کرلیں تو سب ٹھیک ہوجائیں گے
حضورانور نے صدر صاحب والٹن سے دریافت فرمایا کہ آپ کی تجنید کیا ہے؟ عرض کیا 119:۔ فرمایا صلوٰۃ سنٹر کتنے ہیں؟ عرض کیا 3:۔ گھروں میں نماز کے سنٹر ہیں کیونکہ لوگ چھ سات میل میں پھیلے ہوئے ہیں۔ فرمایا کون کونسی نمازیں باجماعت ہوتی ہیں؟ عرض کیا نماز عشاء ہوتی ہے اور فجر لوگ اپنے اپنے گھر پڑھتے ہیں لیکن مَیں مسجد فضل میں آکر پڑھتا ہوں۔ فرمایا فجر کا بھی انتظام کریں۔
سیکرٹری صاحب تربیت سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کتنے لوگ نماز پر آتے ہیں؟ عرض کیا فجر پر 2 اور عشاء پر بھی کچھ لوگ آتے ہیں۔
قائد صاحب سے دریافت فرمایا کتنے خدام و اطفال ہیں؟ عرض کیا 20 خدام اور 15 اطفال۔ فرمایا عاملہ سے شروع کریں اور انہیں نمازی بنائیں۔
زعیم صاحب سے دریافت فرمایا کہ کتنے انصار ہیں؟ عرض کیا27: ۔ فرمایا عاملہ میں کتنے ہیں؟ عرض کیا7۔ فرمایا عاملہ کو نماز کا عادی بنایا ہے؟ عرض کیا کہ گھروں میں سنٹر بنائے ہیں۔ فرمایا عاملہ سے پوچھیں نماز باجماعت کہاں پڑھتے ہیں؟ پھر فرمایا عاملہ کو ٹھیک کرلیں تو سب ٹھیک ہوجائیں گے۔
ایک آدمی کو ایک ہی کام دینا چاہئے
کنگسٹن کے ایک رُکن سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ آپ کے سپرد کیا کام ہے؟ عرض کیا تین کام ہیں۔ زعیم بھی ہوں، سیکرٹری جائیداد بھی ہوں اور سیکرٹری امورخارجیہ بھی ہوں۔ فرمایا بڑا قحط الرجال ہے۔ (گویا اشارۃً فرمایا کہ ایک آدمی کے پاس ایک ہی کام ہونا چاہئے ۰۰۰۰ ناقل) ۔فرمایا امور خارجیہ کا کیا کام کرتے ہیں؟ عرض کیا مقامی طور پر اہم شخصیات کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جماعتی تقاریب میں بھی بلاتے ہیں۔
اس کے بعد سیکرٹری صاحب تربیت کنگسٹن سے دریافت فرمایا کہ آپ کے سپرد کیا کام ہے؟ عرض کیاتربیت۔ فرمایا آپ کا تربیت کا کیا پروگرام ہے؟ عرض کیا نماز باجماعت کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ فجر پر تقریباً 15 لوگ مسجد فضل جاتے ہیں۔ فرمایا کتنی دیر لگتی ہے؟ عرض کیا کار میں 15 منٹ لگتے ہیں۔ نیز عرض کیا کہ صبح فجر سے ایک گھنٹہ پہلے لوگوں کو فون کرتے ہیں اور پھر تین چار مقامات سے لوگوں کو اٹھاتے ہیں۔
100 فی صد عاملہ کو نماز باجماعت کے لئے آنا چاہئے
کنگسٹن کے صدر صاحب سے دریافت فرمایا کہ تجنید کیا ہے؟ عرض کیا 275۔ فرمایا عاملہ کے اراکین کتنے ہیں؟ عرض کیا 20۔
قائدصاحب سے دریافت فرمایا کتنی تعداد ہے؟ عرض کیا 44۔ فرمایا عاملہ کتنی ہے؟ عرض کیا 10ممبر ہیں۔ فرمایا نماز کتنے پڑھتے ہیں؟ عرض کیا عشاء پر آتے ہیں۔ فرمایا مسجد چرچ نہیں ہے اس لئے سب نمازوں پر آنا چاہئے۔ عرض کیا فجر پر 12 سے 15 تک خدام آتے ہیں۔ فرمایا عاملہ کو 100 فی صد آنا چاہئے اور باقی لوگوں کو کم از کم 80 فی صد، کیونکہ کچھ مجبور بھی ہوسکتےہیں۔ عرض کیا کرایہ کے ایک ہال میں نماز پڑھتے ہیں، اپنا کوئی مرکز نہیں۔ حضورانور نے امیر صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا انہیں کوئی مرکزِ نماز خرید کر دیں۔ قائد صاحب نے عرض کیا کہ عشاء کی حاضری ویک اینڈ پر 50 تک ہوجاتی ہے۔ فرمایا مستقل نمازی بنائیں۔ نیز فرمایا عاملہ کو مستقل نمازی بنالیں تو 50 فی صد تو ٹھیک ہو جائیں گے۔
پھر فرمایا جتنا مالی قربانی پر زور دیتے ہیں اتنا روحانی بجٹ پورا کرنے پر بھی زور دیں۔ فرمایا کبھی ایسے سوچا ہے؟ مکرم امیر صاحب نے عرض کیا کہ نیشنل سیکرٹری تربیت جماعتوں کے بہت دورے کرکے نمازوں کی تلقین کرتے ہیں۔ فرمایا نتیجہ آنا چاہئے جیسے تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کا نتیجہ ہوتا ہے اسی طرح تربیت کا نتیجہ آنا چاہئے۔
سب سے پہلے جماعت، انصار اور خدام کی عاملہ کو نماز باجماعت میں باقاعدہ بنائیں
کنگسٹن کے صدر صاحب نے عرض کیا کہ نماز باجماعت میں عورتیں بھی آتی ہیں۔ فرمایا عورتوں پر نماز باجماعت فرض نہیں، اُن کی مرضی ہے۔ لیکن مردوں پر فرض ہے اور انہیں فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ نیز فرمایا سب سے پہلے جماعت، خدام اور انصار کی عاملہ کو نماز باجماعت میں باقاعدہ کریں اس کا باقی افراد پر بھی اثر پڑے گا۔
والٹن کے صدر صاحب سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ جماعت، انصار اور خدام کی عاملہ کے کتنے اراکین ہیں؟َ عرض کیا جماعت کے 16، انصار کے 7 اور خدام کے 10۔ بعض کے پاس دو عہدے ہیں اس لئے کُل اراکین کی تعداد 29 ہے۔
فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے دنیاوی فضل فرمائے ہوئے ہیںتو اللہ کا شکر بھی ادا کریں اور نمازوں میں باقاعدہ ہوں۔ پھر قائد صاحب کی رپورٹ سن کر حضورانور نے فرمایا کہ سب سے ضروری یہ ہے کہ اللہ کے فرائض پورے کئے جائیں۔ اگر یہ کرلیں تو باقی اجلاسات تو ہوتے رہتے ہیں۔ نیز فرمایا اگر رمضان میں رات کو ایک دو گھنٹے سوتے ہیں پھر بھی فجر میں آجاتے ہیں تو باقی دنوں میں کیوں نہیں آسکتے!؟
سربٹن کے صدر صاحب سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی جماعت کے زیادہ لوگ کیا کام کرتے ہیں؟ عرض کیا ملازم پیشہ ہیں۔ فرمایا چاہیں تو کام پر جانے سے پہلے نماز کے لئے آسکتے ہیں۔ نیز فرمایا جہاں کام کرتے ہیں وہاں اکٹھے ہوکر نماز باجماعت پڑھ لیا کریں۔
ایک اور رُکن کو فرمایا کہ کام کرنے والے سمجھتے ہیں کہ کپڑے گندے ہیں اس لئے رات کو گھر جاکر نماز پڑھ لیں گے۔ یہ بات درست نہیں۔ نماز وقت پر پڑھنی چاہئے۔ ایک دوست نے عرض کیا کہ ہم کام پر اکٹھے ہی نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔
سیکرٹری وصایا موصیوں کی نماز باجماعت اور تلاوت کی بھی نگرانی کریں
ٹالورتھ کے سیکرٹری وصایا سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کتنے موصی ہیں؟ عرض کیا 52۔ فرمایا مرد کمانے والے کتنے ہیں؟ عرض کیا 24۔ فرمایا صرف چندہ دینا کوئی بات نہیں، تربیت بھی ضروری ہے۔ سیکرٹری وصایا کا یہ بھی کام ہے کہ موصیوں کی نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کریم کی بھی نگرانی کرے۔ اس طرف توجہ دلانے کا پروگرام بنائیں۔
ٹالورتھ کے امین سے دریافت فرمایا آپ کا کیا کام ہے؟ عرض کیا کہ حساب وغیرہ کرتے ہیں۔ کام کا پورا علم نہیں۔
حضورانور نے امیر صاحب کو فرمایا سیکرٹریان کے ریفریشر کورس کروائیں۔ امیر صاحب نے عرض کیا کرواتے ہیں۔ فرمایا ہر سیکرٹری کا علیحدہ علیحدہ بھی کروائیں۔
سیکرٹری تربیت ٹالورتھ سے دریافت فرمایا کہ نماز کہاں پڑھتے ہیں؟ عرض کیا صدر صاحب کے گھر نماز باجماعت ہوتی ہے۔
چندوں کی وصولی میں نرمی سے کام لیا جائے
سیکرٹری صاحب وقف جدید ٹالورتھ سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ وقف جدید کا ٹارگٹ ملتا ہے؟ عرض کیا جی حضور۔ فرمایا ٹارگٹ پورا کرلیتے ہیں؟ عرض کیا جی حضور۔ فرمایا ٹارگٹ لوگوں کی پہنچ کے مطابق ہوتا ہے اور اسے پورا کرنا مشکل تو نہیں ہوتا؟ عرض کیا نہیں، خدا کے فضل سے آرام سے پورا ہو جاتا ہے۔ نیز فرمایا لوگوں کے پیچھے تو نہیں پڑتے؟ عرض کیا نہیں۔ (اشارۃً یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ چندوں کے معاملہ میں لوگوںکے لئے تکلیف مالا یطاق نہ ہو)۔
کنگسٹن کے ایک رکن عاملہ سے دریافت فرمایا آپ کے پاس کیا کام ہے؟ عرض کیا عہدے کا پتہ نہیں، جو کام دیا جاتا ہے کر دیتا ہوں۔ فرمایا کام کا پتہ ہونا چاہئے کہ شعبہ کیا ہے اور کیا کرنا ہے!۔
وقف عارضی کی بھی تحریک کریں
سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی کنگسٹن سے حضورانور نے دریافت فرمایا کتنے لوگ قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ عرض کیا سب پڑھ لیتے ہیں۔ فرمایا وقف عارضی کی بھی تحریک کریں کہ لوگ وقف عارضی کریں۔
سیکرٹری وصایا کنگسٹن سے دریافت فرمایا کتنے موصی ہیں؟ عرض کیا 82۔ فرمایا کام کرنے والے کتنے ہیں ؟ عرض کیا 22۔ فرمایا مرد موصیوں کی تربیت کا معیار بلند کریں اور وہ نماز باجماعت پڑھیں۔
سیکرٹری تبلیغ کنگسٹن سے حضورانور نے دریافت فرمایا تبلیغ کا کیا پلان ہے؟ انہوں نے عرض کیا نیشنل پلان پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے مطابق کافی مارننگ کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی طرح پمفلٹ True Islam بھی تقسیم کرتے ہیں۔ فرمایا کتنے افراد حصہ لیتے ہیں؟ عرض کیا چند لوگ حصہ لیتے ہیں۔
جن کی داڑھی نہیں وہ رکھ لیں
کنگسٹن کے آڈیٹر صاحب سے ان کے کام کے متعلق دریافت فرمایا اور پھر فرمایا جن کی داڑھی نہیں، وہ داڑھی رکھ لیں۔ نیز فرمایا خدام داڑھی کے ساتھ زیادہ اچھے لگتے ہیں۔
سربٹن کے سیکرٹری وقف نو سے دریافت فرمایا کتنے وقف نَو ہیں؟ عرض کیا 71۔ فرمایا ہفتہ وار کلاس ہوتی ہے؟ عرض کیا ہر جمعہ کی شام کو ہوتی ہے اور وقف نَو سلیبس کے مطابق پڑھاتے ہیں۔
سیکرٹری صاحب وصایا سربٹن سے دریافت فرمایا کتنے موصی ہیں؟ عرض کیا 77۔ فرمایا کتنے موصی کام کرتے ہیں؟ عرض کیا انصار میں سے 20 ہیں، باقی کا علم نہیں۔ فرمایا پوری معلومات ہونی چاہئیں کہ کتنے موصی کام کرتے ہیں۔
اسی طرح دریافت فرمایا کہ وصیت کی تحریک کیسے کرتے ہیں۔ اُن کے جواب پر فرمایا سیکرٹری وصایا کا یہ بھی کام ہے کہ موصیوں کی نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کریم کی بھی نگرانی کرے۔ اسی طرح وقف عارضی کی بھی تحریک کریں۔
ایڈیشنل سیکرٹری تربیت کنگسٹن سے دریافت فرمایا آپ کے پاس کیا کام ہے؟ عرض کیا نماز کی طرف توجہ دلانا۔ فرمایا کیا کام کیا ہے؟ عرض کیا خاص کام نہیں کیا۔ فرمایا پھر کیا فائدہ!۔ فرمایا ایڈیشنل سیکرٹری بنانے کی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ اس شعبے کا کام زیادہ ہے اس لئے ایڈیشنل کو اپنا کام کرنا چاہئے۔
ہر سیکرٹری کے پاس ہر وقت اپنے شعبہ کی مکمل معلومات ہونی چاہئیں
والٹن کے سیکرٹری وصایا سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کتنے موصی ہیں؟ عرض کیا 27:۔ فرمایا کتنے مرد اور کتنی عورتیں؟ عرض کیا یہ معلوم نہیں۔ فرمایا ہر سیکرٹری کے پاس اپنے شعبہ کی بروقت مکمل معلومات ہونی چاہئیں۔ عرض کیا کہ ہماری جماعت چھوٹی سی ہے۔ فرمایا چھوٹی جماعت بنانے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ ہر شخص سے ذاتی تعلق ہو۔
سیکرٹری امورعامہ نے عرض کیا کہ مجھے امور خارجیہ کی بھی ڈاک آتی ہے۔ حضورانور نے مکرم امیر صاحب کو فرمایا اسے دیکھیں۔
سیکرٹری امورعامہ سے دریافت فرمایا امور عامہ کا کیا کام کرتے ہیں؟ عرض کیا معلوم نہیں۔ فرمایا اپنے شعبہ کا کام معلوم کریں۔
پھر سیکرٹری امور خارجیہ سے حضورانور نے دریافت فرمایا آپ کیا کام کرتے ہیں؟ عرض کیالوکل MPs کے ساتھ رابطہ ہے۔ فرمایا کام آتے ہیں؟ عرض کیا جی۔ فرمایا مزید تعلق بڑھائیں۔
قائد خدام الاحمدیہ کو فرمایا80: فی صد خدام کو نماز باجماعت میں باقاعدہ بنائیں۔ نیز فرمایا عاملہ سے شروع کریں۔
نماز کا ترجمہ بھی سکھائیں
قائد خدام الاحمدیہ والٹن کو فرمایا خدام کو نماز کا ترجمہ سکھائیں خاص طور پر سورۃ فاتحہ کا۔ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ نیز فرمایا نماز کو سوچ سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔ عرض کیا فجر میں خدام کو مسجد فضل لے کر جاتے ہیں۔
ایک دوست نے سوال کیا فیونرل کور (Funeral Cover) کی انشورنس لے سکتے ہیں؟ فرمایا اکثر لوگ تو NHS کے پاس جاتے ہیں۔ اگر کوئی غریب ہو تو جماعتی طور پر مدد کرنی چاہئے۔
مکرم امیر صاحب نے عرض کیا مدد کرتے ہیں۔ فرمایا پانچ چھ ہزار پاؤنڈ لگتے ہیں۔ جو غریب ہیں وہ کیسے دے سکتے ہیں!۔
فرمایا جائزہ اور غور کے بعد فیصلہ کرسکتے ہیں، تفصیل بھجوائیں۔
امیر صاحب نے عرض کیا کہ بعض لوگ اس کام کے لئے امانت جمع کراتے ہیں۔ حضور نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن بعض موصیان کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کا تدفین کا خرچ جماعت دے۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اتنا وصیت کا چندہ نہیں ہوتا جتنا تدفین کا خرچ ہے۔
ملاقات کے آخر میں تینوں جماعتوں کی مجالس عاملہ نے علیحدہ علیحدہ حضورانور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوائے۔ اس طرح یہ نہایت بابرکت مجلس اختتام پذیر ہوئی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے امام کے تمام ارشادات پر احسن رنگ میں عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں ان بندوں میں شامل فرمائے جو اس کی محبت اور رضا حاصل کرنے والے ہیں۔