علم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو
قرآنِ کریم کی تفسیر اور اُس کو سمجھنے کے لئے آپؑ کی کتب پڑھنا اور آپ کی تفسیریں پڑھنا یہ بہت ضروری ہے۔ پھر آپ سائنس کو دینی علوم کے ساتھ ملا سکتے ہیں اور کہیں کوئی ایسی بات نہیں ہو گی جہاں دنیاوی علوم دین پر غالب آ جائیں۔ ہمیشہ دین ہی غالب رہتا ہے اور دین ان دنیاوی علوم کو، سائنسی علوم کو اپنے تابع کر لیتا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جنوری ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۰؍ فروری ۲۰۱۲ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ واقعہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ جب آپؑ نے ایک عالم سے صرف اس لئے بحث نہیں کی تھی کہ اس کے نقطہ نظر کو آپؑ ٹھیک سمجھتے تھے تو جو لوگ آپؑ کو بحث کے لئے لے گئے تھے انہوں نے بہت کچھ کہا بھی لیکن پھر بھی آپؑ کو جس بات سے اصولی اختلاف تھا و ہ آپؑ نے نہ کیا۔ تو آپؑ کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ نے بھی خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں۔ تو بندوں سے کچھ لینے کے لئے علم کا اظہار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پیش نظر رہنی چاہئے۔ اور جو علم سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کی بھی خدمت ہو سکے۔
… علم حاصل کرنے کے لئے یہاں بھی مغرب میں لوگ آتے ہیں۔ بڑی دور دور سے پڑھنے کے لئے ایشیئنزملکوں سے۔ اگر ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا بھی مقصود ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے حصول تعلیم کو بھی آسان کر دیتاہے، ان کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ … اللہ تعالیٰ اتنی آسانیاں پیدا کر دیتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ان کے لئے جنت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور احمدی طالب علم خاص طور پر یہاں جو آ رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا، ان کاصرف اور صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہئے کہ انہوں نے تعلیم حاصل کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت چلتے ہوئے تعلیم حاصل کرنی ہے۔ یہاں کی رونقیں اور دوسرے شوق ان کو اس مقصد کے حصول سے ہٹانے والے نہ ہو جائیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍ جون ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲؍جولائی ۲۰۰۴ء)