کنگ چارلس ثالث اور ملکہ کمیلاسے ایک یادگار ملاقات کے احوال
کچھ لوگوں سے ملاقات اور ان کی باتیں کبھی نہیں بھولتیں۔ 10؍ستمبر2022ء کی شام کو ہمیں ایک ای میل آئی کہ کل دوپہر کو اڑھائی بجے بادشاہ نے دس ملکوں کے ایمبسڈرز اور ان کی بیگمات کو بکنگھم پیلس میں ملاقات کی دعوت دی ہے۔ بہت حیران ہوئے کہ ابھی ابھی ہماری عزت مآب ملکہ الزبتھ دوم کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے تین دن ہی تو ہوئے ہیں۔ اتنے بھاری صدمہ اور غم کے بوجھ کو لیے پرنس چارلس جواب بادشاہ ہے مگر ہے تو اُس ماں کا بیٹا،سفیروں کو ملاقات کے لیے وقت دے رہا ہے۔
چنانچہ ہم نے 11؍ستمبر کو پیلس جانے کے لیے ڈریس کوڈ کے تعلق سے پتا کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو کالا سوٹ، سفید شرٹ اور کالی ٹائی لگانا ہوگی۔اسی طرح بیگم کا ڈریس بھی کالا ہی ہو۔ ہمارا برقعہ اور نقاب تو کالا ہی تھا۔ میں نے پرس بھی چھوٹا سا کالے رنگ کا ہی لے لیا۔رات بھر کچھ گھبراہٹ بھی رہی مگر پھر دُعا پر زور دینے سے دِل کو تسلی ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ایک احمدی جوڑے کو یہ سعادت دے رہا ہے تو مجھے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ مناسب الفاظ میں اپنا تعزیت کا پیغام دینےکے بعد آئندہ ان کے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داری کے لیے دُعائیں دینی چاہیے۔ لہٰذا ہم گھر سے ایک بجے روانہ ہوئے۔کار ڈرائیور کو کافی دیر لگ رہی تھی اور ہماری فکرمندی بڑھ رہی تھی کہ ایسی ملاقات کے لیے بروقت پہنچنا ضروری ہے۔
کیونکہ پرنس چارلس بحیثیت بادشاہ پہلی بار بکنگھم پیلس تشریف لائے تھے اس لیے محل کے چاروں طرف پولیس سیکیورٹی کا بھاری انتظام تھااور سڑک کے دونوں اطراف اکثریت ایسے مرد و خواتین پر مشتمل تھی جومحبت کے جذبات دلوں میں لیے جمع تھے۔ محل کے اندر جانے کے تمام راستے بیریئرزسے بند کیے ہوئے تھے۔
ہماری گاڑی کو بھی روک کر بتایا گیا کہ ہم کہاں سے داخل ہوں گے۔ راستہ میں وقت بھی تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ ہم نےیہ وقت دعاؤں اور ذکر الٰہی میں گزارا۔
جب ہم گیٹ پر پہنچے تو بکنگھم پیلس کے تیسرے اور آخری گیٹ پر جو بالکل اندر تک کار کو لے جانے والا ہوتا ہے، وہاں سے گاڑی کو اندر لے گئے۔پہلے بھی ہم اس گیٹ سے داخل ہوئے تھےجب میرے شوہر(سر ڈاکٹر افتخار احمد ایاز)کو ملکہ برطانیہ نے ایوارڈ دیاتھا۔ہمیں ہمارا Tuvaluکا ایمبسڈر ہونے کا دعوت نامہ دیا گیا اور باقی سب ایمبسڈرز کی کاروں کے ساتھ ہماری کار بھی پارک کی گئی۔ منہ سے سبحان اللہ نکلا کہ اللہ کی شان ہے کہ جماعت احمدیہ کی برکتوں سے دیگر ممالک کے نمائندگان کی گاڑیوں کے ساتھ ہماری گاڑی بھی پارک کروائی گئی ہے۔
جب میں گاڑی سے اتری تو میرے بائیں طرف سے مجھے کسی نے سہارا دیا۔ چونکہ میرے منہ پر ماسک اور کالی عینک بھی تھی میں پوری طرح سے دیکھ نہ پائی کہ کون ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ خاتون آپ کو اندر ہال تک لے جائیں گی۔وہ لڑکی پوچھنے لگی کہ یہاں پہنچنے میں آپ کو دقّت تو نہ ہوئی؟ میں نے بتایا کہ ٹریفک بہت تھی اور راستہ بھی بدل بدل کر ہم خیر سے پہنچ ہی گئے ہیں۔ الحمد للہ۔
وہ مجھے ریڈ کارپٹ والی سیڑھیوں سے آہستہ آہستہ پیلس کے اندر کانفرنس روم میں لے آئی جہاں پہلے سے سب جوڑے اپنے اپنے ساتھی کےساتھ میز کے گرد اگرد بیٹھے چھوٹے چھوٹے گلاسوں میں ٹھنڈا مشروب پی رہے تھے اور دھیمی آواز میں باتیں بھی کیےجارہے تھے۔ ہم کو چھوڑ کر وہ لیڈی چلی گئی اور بتا کر گئی کہ تھوڑی دیر میں آپ کو دوسرے ہال میں لے جایاجائے گا جہاں بادشاہ اور ملکہ آپ سے ملیں گے۔
کانفرنس روم خاصا بڑا تھا جس میں صرف ایک بڑا ساٹیبل اور اس کے گردا گرد کُرسیاں رکھی تھیں۔ دیواروں پر خوبصورت پینٹنگز آویزاں تھیں جو آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی تھیں۔ہم ابھی اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہی دیکھ رہے تھے اور پیش کیا گیا ایپل جوس کا ٹھنڈا ڈرنک پی رہے تھے کہ اتنے میں ایک گائیڈ اندر آیا۔ ہمیں اس گائیڈ کے پیچھے اگلے بڑے ہال میں جانا تھا۔ میں تو گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے سب سے آخر میں رہ جاتی ہوں مگر اپنی ہی رفتار سے بسم اللہ اور درود شریف پڑھتی ہوئی آہستہ آہستہ آگےبڑھ رہی تھی۔
میرے شوہر نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اب ہم چند منٹوں میں ایک شاندار اور خوبصورت ہال میں داخل ہو رہے تھے اور ہمیں وہاں کے منتظمین نے آدھے دائرے کی شکل میں ہال کی دیواروں کے ساتھ ایک خوبصورت کارپٹ جو گہرے گلابی رنگ کا تھا اور کونوں میں پھولوں کی بیل بنی تھی اس کے اوپر اپنے اپنے جوڑوں کے ساتھ اور اپنی اپنی ترتیب سےکھڑا کر دیا۔ ایک جوڑے کے درمیان بہت کم فاصلہ لگتا تھا۔شاید ایک فٹ ہی ہوگا۔ چند لمحے انتظار کے بعد خاموشی کا طلسم ٹوٹا اور بادشاہ اور ملکہ ہال کے ایک چھوٹے دروازے سے نمودار ہوئے۔گائیڈ ہمیں ملاقات کے لیے راہنمائی کر رہے تھےکہ اب ملکہ ایک طرف سے اور بادشاہ دوسری طرف سے ملاقات شروع کریںگے اور ساتھ ساتھ ان کو بتاتے جاتے تھے کہ یہ فلاں ملک کے نمائندے ہیں۔
اس طریق سے نہ ان معززین کا وقت ضائع ہو رہا تھا اور نہ ہی ہمارا کہ ہم اپنا تعارف کراتے بلکہ جب ہماری باری آئی تو بادشاہ نے ڈاکٹر صاحب کو خود ہی مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو میں نے پہلے بھی اس جگہ کئی بار دیکھا ہےاور طوالو کی باتیں خود ہی شروع کردیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ملکہ الزبتھ کی وفات کی تعزیت کی کہ یہ کمی نہ صرف آپ کے خاندان اور بچوں کے لیے ہے بلکہ کامن ویلتھ کے تمام ملکوںکے لیے ہےجن کے لیے ملکہ ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔ پھر تعزیت کے ساتھ ہی اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ہمارا طوالو بھی بڑا غمزدہ ہے۔ملکہ مرحومہ ایک بار طوالو بھی تشریف لے گئی تھیںاورہر بار ملاقات میں مجھ سے ذکر کیا کرتی تھیں۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ مجھے بھی یاد ہے۔ مَیں بھی اُس چھوٹی کشتی میں ان کے ساتھ تھا جس کوطوالو کے بڑے مضبوط لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا اور سمندر کے کنارے اُتارا تھا۔پھرآپ نے مسکراتے ہوئےکہا کہ میں کشتی میں ایک کونے سے دوسرے کونے پر لڑھک جاتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے۔پھر ڈاکٹر صاحب نے اُن کو اِس بڑی ذمہ داری جو اُن کے کندھوں پر پڑنے والی تھی کے لیے انہیں دعائیں دیں۔ آخر پر ڈاکٹر صاحب نے طوالو کو موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میںدر پیش مسائل کے حوالے سے کہا کہ اُمید ہے کہ آپ بھی اپنی والدہ کی طرح اس طرف ضرور توجہ فرمائیں گے۔چونکہ میں بھی ساتھ ہی کھڑی تھی۔میں نے انشاءاللہ کہا توکنگ نے بھی انشاء اللہ کہا۔
چونکہ میں زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی تھی تو ڈاکٹر صاحب نے وہاں Serveکرنے والے بیروں میں سے،جو نہایت خوبصورت اور چمکیلی طشتریوں میں ڈرنک اور Nutلے کر گھوم رہے تھے، ایک کو کہا کہ اگر ممکن ہو تو آپ کوئی کرسی لا سکتے ہیں؟ اُس نے بڑی خوشی اور خاموشی سے ایک نہایت خوبصورت گولڈن رنگ اور سُرخ سیٹ والی کُرسی لاکر میرےپاس رکھ دی جس پر میں بیٹھ گئی۔اس کے بعد اُس بیرے کو نہ جانے کیا خیا ل آیا کہ جھٹ سے ایک چھوٹا میز اور اس پرپانی کا ایک گلاس بھی رکھ دیا۔چونکہ مجھے گرمی اور پیاس لگ رہی تھی اس لیےمیں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے دو گھونٹ پانی پیا۔اِس دوران ہمارے دوسرے ساتھیوں سے معززین کی گفتگو جاری تھی۔
پھرمیری باری پر ملکہ کمیلا میرے پاس تشریف لائیں۔ میں ایک بار پہلے بھی ان سے مل چکی تھی۔ انہوں نےمجھے پہچان لیا اور حال دریافت کیا۔ میں نے ان سے ملکہ کی وفات پر تعزیت کی ۔اس پر ملکہ کمیلا نے کہا کہ انہوں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پھر میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور ان پر آئندہ پڑنے والی ذمہ داری کے حوالے سے دعا دی کہ خدا آپ دونوں کوہمت دے اور احسن رنگ میں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین
میں نے بتایا کہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ سے تعلق رکھتی ہوں اور ہم آپ کے لیے دعا گو ہیں۔یہ بات بادشاہ نے بھی سن لی جو ساتھ ہی کھڑے تھے۔چنانچہ کہنے لگے کہ مجھے بھی دُعا کی بہت ضرورت ہے۔ آپ میرے لیے بھی دعا کرنا میں نے کہا کہ میں ضرور کروں گی۔ انشاء اللہ۔ اس پرانہوں نے بھی انشاء اللہ کہا جس کے ساتھ ہماری ملاقات ختم ہوئی۔
ہم اداس اور بوجھل قدموں کے ساتھ واپس ہوئے تو پھر وہی میزبان میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کار تک لے آئی۔تین منزلیں اترنے میں مجھے کافی دیر بھی لگ رہی تھی مگر وہ گاڑی کا پورچ میںآنے تک کا انتظار کرتی رہی اور پھر دروازہ کھول کر مجھے اندر بٹھاکر، خدا حافظ کہہ کر ہاتھ ہلاتی ہوئی رخصت ہوئی۔
بعد ازاں اس ملاقات کے حوالے سے Sky Tvپر ڈاکٹر صاحب کا ایک انٹرویو بھی نشر ہوا۔یہاںیہ بھی بتاتی چلوں کہ اس دن مجھے ان دس جوڑوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا جن میں مختلف ممالک کے ایمبسڈرز تھے مگر ہمارے علاوہ ان میں کوئی مسلمان نہیں تھا۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے اور جماعت احمدیہ کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر عزت سے نوازا اور یہ موقع دیا کہ بادشاہ سے تعزیت کرنے کے علاوہ ان سے جماعت کے بارے ذکر کرنے کی بھی توفیق ملی۔ اللہ کرے کہ مزید مواقع ملنے پر ان سے اس حوالے سےمزید باتیںہو سکیں۔
یہ تھی میری ملکہ اور شاہ برطانیہ کے ساتھ مختصر مگر یادگار تاریخی ملاقات کے کچھ احوال۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بادشاہ کو قیام امن، مذہبی آزادی اور قوم کی اصلاح اور مفاد کے لیے کام کرنے کی توفیق ملتی رہے۔ آمین