’ ابّاتارےجانا ‘
آج نمازِ مغرب و عشاء کے بعد جلسہ یوم ِمصلح موعود ہوا۔ احمد اور گڑیا اپنے امی اور ابو جان کے ساتھ مسجد گئے اور جلسے کے بعد واپس گھر پہنچے۔ کھانا کھا کر وہ سب دادی جان کے پاس آ گئے۔ دادی جان کے ہاتھ میں الفضل تھا۔
امّی جان: احمد آج ماشاء اللہ آپ نے جلسہ یومِ مصلح موعود میں بہت پیاری نظم پڑھی تھی۔
احمد: جزاک اللہ خیرًا اُمی جان۔ آپ نے میری تیاری ہی بہت خوب کروائی تھی۔
گڑیا : اور دادی جان آج ابو جان نے بھی تقریر کی تھی۔
دادی جان: ماشاء اللہ۔گڑیا بیٹا آپ بھی تقریر بہت اچھی کرتی ہو اور تقریر میں شعر کو بہت اچھے طریق پر پڑھتی ہو۔
گڑیا : شکریہ دادی جان۔ کل ہمارا ناصرات کا جلسہ ہونا ہے۔ وہاں میں تقریر کروں گی، ان شاءاللہ
دادی جان: میری طبیعت خراب تھی اس لیے میں جلسے پر نہیں جا سکی۔ آپ دونوں مجھے جلسے کی باتیں بتائیں گے؟
گڑیا: دادی جان سب سے پہلے آیتِ استخلاف کی تلاوت ہوئی اور اس کا ترجمہ پیش کیا گیا اور پھر احمد بھائی نے نظم پڑھی۔
دادی جان: احمد بیٹا۔ آپ نے بھلا کیسی نظم پڑھی، مجھے بھی تو کچھ سناؤ۔(اس پر احمد کھڑے ہو کر ترنم سے نظم پڑھنے لگا):
اس دہر کا ہر پیر و جواں یاد کرے گا
اے فضلِ عمر تجھ کو جہاں یاد کرے گا
پائے گا وہ خود اپنی زباں میں بھی لطافت
جو بھی ترا اندازِ بیاں یاد کرے گا
دادی جان : ماشاء اللہ! ماشاءاللہ! بہت خوب۔
گڑیا: پھر اطفال اور خدام نے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ لیکن اس سے پہلے مطہر بھائی نے پیشگوئی مصلح موعود پڑھی۔ دادی جان انہوں نے پوری پیشگوئی زبانی یاد کی ہوئی ہے۔ میں بھی اَب یاد کروں گی۔
دادی جان: بالکل ضرور کرنی چاہیے۔ آپ تو اپنی تقریر زبانی یاد کر لیتی ہو۔ اسی طرح پیشگوئی کے الہامی الفاظ بھی یاد کر لوگی۔
گڑیا: ان شاء اللہ دادی جان۔ پھر مختلف تقاریر ہوئیں اور آخر میں مربی صاحب نے تقریر کی۔ انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے کارناموں کے متعلق بتایا۔ مجھے وہ تقریر بہت پسند آئی۔
دادی جان: بہت خوب گڑیا۔ اچھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان کارناموں کا ذکر ہوا ہے تو میں آپ کو حضورؓ کے بچپن کا ایک واقعہ سناتی ہوں۔ اردو میں ایک محاورہ ہے ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ یعنی عظیم لوگوں کے بچپن میں ہی اُن کے بڑے بڑے کاموں کی جھلکیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک معروف صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمیوں کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لدھیانے میں قیام فرما تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ ابھی چھوٹے بچے تھے، کوئی تین سال کے ہوں گے۔ آدھی رات کے وقت میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے بیٹے (حضرت مصلح موعودؓ) کو گود میں اٹھا کر اِدھر اُدھر ٹہل رہے ہیں۔ آپؓ کسی وجہ سے رو رہے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ آپ کو بڑے تحمل سے بہلا رہے ہیں۔ اسی دوران حضرت مسیح موعودؑ نے آسمان پر موجود ستارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو محمود! وہ کیسا تارا ہے!! آپؓ نے ستارے کی طرف دیکھا اور ذرا چُپ ہو کر پھر سے رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے ’’ابّا تارے جانا‘‘ (یعنی ابا میں ستارے پر جاؤں گا)۔ آخر بچہ خود ہی جب تھک گیا تو چپ ہو گیا۔ مگر اس سارے عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے ایک لفظ بھی سختی یا شکایت کا نہیں نکلا۔
دیکھو بچو! اُس بچے یعنی حضرت مصلح موعودؓ نے جو تین سال کی عمر میں بھی ستاروں پر جانے کی تمنّا رکھتے تھے کتنے عظیم الشان کام کیے! آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؓ کا خلیفہ بنایا۔ خلیفہ بھلا کسے کہتے ہیں احمد؟ دادی جان نے پوچھا۔
احمد: دادی جان آپ نے حضرت آدمؑ کی کہانی میں بتایا تھا کہ خلیفہ جانشین یا نمائندہ کو کہتے ہیں۔
دادی جان: شاباش بیٹا۔ آپ کو تو سب یاد ہے۔
تو بچو حضرت مصلح موعودؓ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان اور آپؑ کے خلیفہ تھے قرآنِ کریم اور دینِ اسلام کی بے مثال خدمات بجا لانے کی توفیق پائی۔ آپؓ نے نہ صرف افرادِ جماعتِ احمدیہ بلکہ پوری امّتِ مسلمہ کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود اور تبلیغِ اسلام کے لیے جماعتِ احمدیہ کے انتظامی ڈھانچے کا قیام فرمایا۔ آپؓ نے ہر احمدی کی تربیت و ترقی کے لیے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اور کسی بھی عمر کا ہو ذیلی تنظیمیں قائم فرمائیں۔ آپؓ باوَن سال تک مسندِ خلافت پر متمکن رہے۔ آپ کے علمی کارناموں میں لاتعداد دروس القرآن، لیکچرز، خطبات، خطابات، مضامین، کتب وغیرہ شامل ہیں جن میں روحانی، دنیاوی، سیاسی وغیرہ ہر موضوع پر بہت سا علمی مواد موجود ہے۔ اور ہاں! ہمارے پیارے اخبار ’الفضل‘ کا اجرا بھی تو آپؓ نے ہی فرمایا تھا۔ ہم آپؓ کی سیرت کے بارے میں جتنا پڑھیں اتنا ہی ہمیں آپ کے عظیم الشان مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔
گڑیا: جی دادی جان مربی صاحب نے اپنی تقریر میں بھی ایسی ہی باتیں بیان فرمائی تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓبچپن میں بیمار رہتے تھے۔ دنیاوی تعلیم بھی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن وہ ذہین و فہیم تھے اور اللہ تعالیٰ انہیں سکھاتا تھا اس لیے وہ قرآنِ کریم کی روشنی میں ہر موضوع پر بہترین گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
احمد: دادی جان! اگلے سال جلسہ یومِ مصلح موعود پر میں بھی تقریر کروں گا۔
دادی جان: بہت اچھی بات ہے۔ اچھی تقریر کرنے کے لیے بہت سا مطالعہ کرنا، بڑوں سے مشورہ کرنا اور سب سے بڑھ کر دعا کر کے تقریر لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ چلو پھر بچو! آج اتنا ہی۔ اب سونے کی تیاری کرو۔
یہ سُن کر سب نے دادی جان کو اللہ حافظ کہا اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔