امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ۹تا ۱۱؍ سال کے واقفین نو اور واقفات نو یوکے کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۵؍فروری۲۰۲۳ء کو یوکے جماعت کے۹سے ۱۱؍سال کی عمر کے واقفین نو اور واقفات نوکی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ طاہر ہال،مسجد بیت الفتوح لندن سے واقفین نو بچے اور بچیوں نے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ سے ہوا جس کے بعد حدیث مع اردو ترجمہ،نظم مع انگریزی ترجمہ پیش کی گئیں ۔بعد ازاں یوم مصلح موعودکے حوالے سے دو پریزنٹیشنز دی گئیں ۔
اس کے بعد مختلف امور پر واقفین نو کو حضور انور سے سوال کرنے کا موقع ملا۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ جب میں سیکنڈری سکول میں جاؤں گی تو میں نے سوچا ہوا ہے کہ میں حجاب پہن کر جایا کروں گی لیکن میں اپنی سہیلیوں اور دوسرے لوگوں کے ردّعمل سے گھبراتی ہوں ۔ اس سلسلے میں انہوں نےحضور انور سےراہنمائی کی درخواست کی۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ واقف نو ہو اوراحمدی بھی ہو۔ تم اس بات پہ یقین رکھتی ہو کہ اسلام سچا مذہب ہے؟اگر اسلام سچا مذہب ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جب لڑکیاں جوان ہوتی ہیں تو ان کو حجاب پہننا چاہیے، اپنا سر ڈھانکنا چاہیے،اپنے سینے کو ڈھانکنا چاہیے۔ ہم نے اللہ کے حکم کو ماننا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننا ہے تو پھر کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے ہے۔
حضور انور نے اس واقفہ نو سے استفسار فرمایا کہ تم نے اللہ میاں کو خوش کرنا ہے یا اپنے دوستوں کو؟ جس پر اس بچی نے جواب دیا کہ اللہ میاں کو۔
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ اگر اللہ میاں کو خوش کرنا ہے تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ پھر firm faithرکھو۔ شرماؤ نہ، ڈرو نہ۔ ہم سچے ہیں ،ہمارا دین سچا ہے اور ہمارا ایمان پکا ہے۔
حضور انور نے اس بچی کو فرمایا کہ میں جان کر تمہیں اردو میں بتا رہا ہوں تا کہ تم وقف نو کواردو بھی آئے۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ واقفین نو بچے کس طرح تبلیغ کر سکتے ہیں ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ متعددمرتبہ مختلف کلاسوں اور میٹنگز میں مَیں نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ واقفین نو اپنا عملی نمونہ دکھائیں ۔انہیں نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے، سکول میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا چاہیے، ان سے بلا وجہ بحث نہیں کرنی چاہیے، پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے اور اپنے ٹیچروں کا کہنا ماننا چاہیے۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تمہارے اعلیٰ اخلاق ہیں اور اچھی باتیں کرتے ہو توخودبخود پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟پھر تم بتا سکتے ہو کہ میں احمدی مسلمان ہوں ۔اس سے پھر تبلیغ کا موقع ملے گا اور تم بتا سکتے ہو کہ آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ جب مسلمان اپنی تعلیمات بھول جائیں گے تو مسیح موعود کا ظہور ہوگا جو اسلام کا احیائے نو کرے گا۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ اسلام میں تہترفرقے کس طرح بن گئے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اس لیے مسلمانوں میں تہتر sectsہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ جب مسلمان دین کی تعلیم کو بھول جائیں گے،قرآن کریم پہ عمل کرنا بند کر دیں گے اور مسلمانوں کا ہر لیڈر اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کرے گا تو اس کے ساتھ ہی اس کا sectبن جائے گا۔اور جب وہ وقت آئے گا تو پھر مسیح موعود آئے گا جو تمام sects کو اکٹھا کر لے گا اور ایک sect بن جائے گا جو مسیح موعود کی جماعت ہو گی اوروہی صحیح جماعت ہو گی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جو مسیح موعود کو ماننے والے ہوں گے وہ صحیح مسلمان ہوں گے باقی صحیح مسلمان نہیں ہوں گے۔اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں فرمایا کہ جب مسیح موعود آ ئے تو اسے جا کے میرا سلام کہنا اور اس کو قبول کر لینا۔ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ مسیح موعود ابھی نہیں آیا اور عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اترے گا اور اس کے ساتھ امام مہدی شامل ہو جائے گا اور پھر دونوں جنگ کر کے لوگوں کومسلمان بنائیں گے اور انہیں ٹھیک کریں گے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس زمانے میں دینی جنگیں ختم ہو جائیں گی۔اس لیے جو بھی دینی جنگ لڑے گا وہ جیت نہیں سکے گاکیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اگرتم صحیح وجہ سے دینی جنگ لڑو گے تو مَیں تمہیں فتح دوں گا۔لیکن آج کل تو دینی جنگ نہیں ہورہی۔ ہر جگہ مسلمان دشمن سے جنگ میں ہار جاتے ہیں ۔ماریں پڑ رہی ہیں ، برا حال ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ حضرت مسیح موعودؑکو نہیں مان رہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پہ جمع کرو۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج سے ۱۳۰؍سال پہلے حضرت مسیح موعودؑ نے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا تب ایک اکیلا آدمی تھا۔ آج اللہ کے فضل سے ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ مسلمان بھی ہمارے اندر شامل ہو رہے ہیں ۔جماعت احمدیہ کی تعداد جو روز بڑھ رہی ہے وہ اس لیے بڑھ رہی ہے کہ لوگ ہمارے اندر بیعت کر کے شامل ہوتے ہیں ۔آہستہ آہستہ ہم ترقی کر رہے ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آہستہ آہستہ جماعت بڑھے گی اور پھر ایک sectبن جائے گی اور دوسرے sectsبالکل ایسے ہوں گے جن کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس لیے اس پیشگوئی کے مطابق بہتر(۷۲) sectsہیں ۔اور تہترواں (۷۳)یعنی جماعت احمدیہ جو صحیح ہےاورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہے۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ اگر شیطان اللہ کے حکم کو مان کر سجدہ کرلیتا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ صرف جنت ہی ہوتی اور سب لوگ اچھے کام ہی کرتے؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ شیطان کبھی بھی سجدہ نہ کرتا کیونکہ اسے اللہ نے اس طرز پر بنایا ہی نہیں تھا جس طرح انسان کو بنایا تھا۔ جب اسے سجدہ کرنے کو شیطان نےاپنے آپ کو برتر قرار دیا کیونکہ وہ آگ سے بنا ہوا تھا اور انسان مٹی سے۔ سجدہ کرنا شیطان کی فطرت میں ہی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ یہ بات جانتا تھا۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگر شیطان نہ ہوتا تو انسان اچھے اور برے میں تمیز کرنا نہ سیکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے اور اچھائی اور برائی کے نتائج کھول کربیان کر دیے ہیں ۔جو لوگ اچھے اعمال کریں گے انہیں اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازے گا۔
ایک واقفہ نو نے برکینا فاسو میں ہونے والی شہادتوں کے حوالے سے سوال کیا کہ دعاؤں کے علاوہ کس طرح جماعت اور اس کی مساجد کو مخالفین سے محفوظ کیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حفاظتی انتظامات اور ماحول پر نظر رکھنا اس قسم کے واقعات کو روکنے میں مدد دے سکتے ہیں ۔حضور انور نے برکینا فاسو میں ہونے والے دردناک سانحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کس طرح وہاں ایک دور درازگاؤں کےرہنے والے غریب لوگوں کے ساتھ خلاف توقع ایسا واقعہ پیش آگیا۔
ایک واقف نو نے عرض کی کہ حضور انور کی والدہ ماجدہ نے نظم لکھی تھی۔اسی طرح حضور کی ایک ہمشیرہ بھی نظمیں لکھتی ہیں ۔کیا حضور نے کبھی کوئی نظم لکھی ہے؟
اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئےفرمایا کہ میں نے کبھی کوئی نظم نہیں لکھی۔میں شاعر نہیں ہوں ۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ لڑکیوں کے لیے حجاب پہننا کیوں ضروری ہے جبکہ لڑکے نہیں پہنتے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کچھ ہی دیر پہلےمَیں اس سوال کا جواب دے چکا ہوں ۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لڑکیاں جب بلوغت کی عمر کوپہنچ جائیں تو انہیں حجاب پہننا چاہیے جس سے ان کا تحفظ ہو گا۔حیا دار لباس پاک خیالات اور اچھے اخلاق کو فروغ دیتے ہیں ۔
حضور انور نے سوال کرنے والی بچی کو سمجھایا کہ جب وہ بڑی ہو گی توحجاب کی اہمیت کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکے گی جب اسے یہ احساس ہو گا کہ بعض لوگ غیر اخلاقی رویہ سے پیش آتے ہیں ۔عورتیں ایسے لوگوں سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب پہنتی ہیں ۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ کیا واقف نو بچے فٹ بال پلیئر (player)بن سکتے ہیں ؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اس کاکیا فائدہ ہو گا؟ جب تم بوڑھے ہو جاؤ گے تو تمہارے پاس کھانے پینے کا کیا سامان ہو گا؟ اگر بہت اعلیٰ قسم کے پلیئر (player)ہو تو شاید تمہاری پراپرٹیز (properties)بن جائیں ۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کچھ کام بھی کرو۔پڑھائی بھی کرو اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ فٹ بال کھیلو اور فٹ بال پلیئر بن جاؤ۔ تمہارے پاس کوئی اچھا پروفیشن بھی ہونا چاہیے تاکہ تم دنیا کو فائدہ پہنچا سکو۔ تم واقف نو ہو۔ واقف نو کو دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوئی کام کرنا چاہیے۔ فٹ بال کھیل کے تو صرف فٹ بال ہی کھیلو گے۔ اس لیے پڑھائی کر کے کچھ بنو اور ساتھ فٹ بال بھی کھیلو۔ اگر تم ایک ڈاکٹر بنتے ہو اور ساتھ ایک اچھے انٹر نیشنل لیول کے پلیئر بن جاتے ہو تو بڑی اچھی بات ہے۔پھردونوں کام کرو۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ حضور دنیا کے بہت سے ممالک میں جا چکے ہیں ۔ آپ کا سب سے پسندیدہ ملک کون سا ہے اور کیوں ؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر میں کہوں کوئی ملک پسندیدہ نہیں ہے تو پھر ’’کیوں ‘‘ والا سوال ختم ہو گیا اور اگرمیں کہوں سارے پسندیدہ ہیں تو پھر بھی ’’کیوں ‘‘والا سوال ختم ہو گیا۔
ہر ملک میں اچھے احمدی ہیں ۔ہر ملک کی اپنی اپنی خوبصورتی ہے، ہر ملک کی اپنی اپنی اچھی باتیں ہیں ،کسی میں کوئی اچھی بات ہے،کسی میں کوئی اچھی بات ہے۔ ہر جگہ جہاں مخلص احمدی ہیں وہ سارے ہی اچھے ہیں ۔ جب احمدی اچھے ہیں تو ملک بھی اچھا ہو گیا۔ اس لیے سارے ملک اچھے ہیں ۔ ’’کیوں ‘‘والی بات ہی کوئی نہیں ۔ تم بھی اچھے ہو جرمنی کے رہنے والے بھی اچھے ہیں اور ہالینڈ کے رہنے والے بھی اچھے ہیں اور بیلجیم کے بھی اور فرانس کے بھی اور امریکہ کے بھی اور کینیڈا کے بھی اور نیوزی لینڈ کے بھی اور آسٹریلیا کے بھی اور افریقہ کے بھی۔
افریقن احمدی بچے اور بڑے بھی اچھے، وفا دار، پیار اوراخلاص دکھانے والے ہیں ۔دیکھو برکینا فاسو افریقہ میں انہوں نے کتنی بڑی قربانی دکھائی! احمدیت کی خاطر ایک ایک کر کے شہید ہوتے گئے۔ اس لحاظ سےتو پھر افریقن سب سے زیادہ اچھے لگیں گے۔
لیکن جہاں اچھے اور قربانیاں دکھانے والے احمدی ہوں وہی ملک اچھا ہے۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں برے لوگ کیوں پیدا کیے۔ سب کو اچھا کیوں نہیں بنایا؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے برے لوگ نہیں بنائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ بڑی نیک، pious natureپہ پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا environment اور ماحول اس کو اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔ تو اگر سارے لوگوں کو اچھا environmentمل جائے تو پھر سارے لوگ نیک ہوں گے کوئی برا آدمی نہیں ہو گا۔اور جو انسان عیسائی گھر میں پیدا ہو یا atheist کے گھر میں پیدا ہوا، یا pagansکے گھر میں پیدا ہو، وہ بچہ پھر جب بڑا ہوتا ہے تواپنے environmentکو دیکھ کے، اپنے ماحول کو دیکھ کے، اپنے گھر کو دیکھ کے، اپنی سوسائٹی کو دیکھ کے، ویسا بن جاتا ہے اور بری باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔
مسلمانوں میں بھی دیکھ لو کہ باوجود اس کے کہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوتے ہیں ،مسلمان کہلاتے ہیں لیکن وہ بعض بری باتیں سیکھ لیتے ہیں اوربری باتیں کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے تو انہیں ایسا نہیں بنایا۔اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو عقل دی اور ایک ماحول بنایا اور بتایا کہ یہ اچھی چیز ہے اوریہ بری چیز ہے۔اس لیے ہمیں واقف نو بچے کے طور پر کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اچھے کام کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم نے اچھے کام کرنے ہیں ۔ اور دنیا جو خراب ہو رہی ہے اس کو خراب ہونے سے ہم نے بچانا ہے۔ یہ ہمارا کام ہے کہ دنیا کو شیطان کے قبضہ میں سےنکالنا ہے اور ساروں کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے کے آنا ہے اور وہ تبھی ہو گا جب تم خود نمازیں پڑھو گے،اچھے کام کرو گے ،اللہ میاں سے دعا کرو گے، لوگوں کو اچھی باتیں بتاؤ گے تو پھر لوگوں کو ٹھیک رستے پہ چلاؤ گے۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ قرآن کریم کو پکڑنے سے پہلے کیا صرف ہاتھ دھو کر پکڑنا جائز ہے یا مکمل وضو کرنا ضروری ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر کسی نے وضو کیا ہو تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر کوئی ویسے ہی قرآن کریم پڑھنا چاہے تو اسے اٹھا کر پڑھ لے۔اگر وضو نہ بھی کیا ہو تو پھر بھی قرآن کریم پڑھا جا سکتا ہے لیکن اگر پہلے وضو کر لے تو بہت اچھی بات ہے۔وضو صرف نماز کے لیے ضروری ہے۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ اگر کوئی فوج میں ہو اور جنگ میں جانا پڑےاور وہاں کسی کو قتل کرنا پڑے تو کیا یہ گناہ میں شامل ہو گا؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر کوئی فوج میں ہو اور وہ فوج کسی دوسرے ملک پر بلا وجہ حملہ کرے تو پھر یہ بات غلط ہے۔اللہ نے ہمیں برے کام کرنے سےروکا ہے۔ایسی صورت میں فوج سے استعفیٰ دے دینا چاہیے یا اگرکسی بالا افسر کے حکم پر حملہ کیا جارہا ہے جس کی بات کا اس وقت انکار نہیں کیا جاسکتا تو پھر بعد میں ایسے شخص کوفوج چھوڑ دینی چاہیے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اسلام ظلم کے خلاف ہےاور جو بھی ظالم ہو اوربربریت کا مظاہرہ کرے وہ گناہ گار ہو گا اور اس پر خدا کا عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے تو پھر اللہ اپنے بندوں کو اتنی مشکل میں کیوں ڈالتا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کو یہ تو پتا ہے کہ کیا ہونا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں choiceدیا ہوا ہےکہ اگر تم چاہو تو اپنی قسمت بدل لو۔ اللہ تعالیٰ تو مشکل میں نہیں ڈالتا، تم لوگ خود مشکل میں پڑتے ہو۔
ایک آدمی بہت زیادہ گناہ کرتا تھا ،اس نے بہت سے murderکیے ہوئے تھے۔ آخر میں اسے خیال آیا کہ مَیں بہت گناہ کرنے والا ہوں ، میں نے اتنے زیادہ murder کیے ہوئے ہیں کیا اللہ میاں مجھے بخش دے گا؟ کسی نے اس کو کہا کہ فلاں بزرگ کے پاس جاؤ تو وہ تمہیں بخشنے کا طریقہ بتائے گا۔جب وہ جا رہا تھا تو رستے میں فوت ہو گیا۔ جب رستے میں فوت ہو گیا تو جہنم اور جنت میں لے جانے والے دونوں فرشتے آگئے۔ ایک نے کہا کہ میں جنت میں لے کے جاؤں گا کیونکہ یہrepentکر کےاپنے آپ کو بدل رہا تھااوراپنے جرم اورگناہ کو چھوڑ رہا تھا۔ جہنم والا کہتا نہیں ! اس نے بہت سے گناہ کیے ہیں میں اس کو جہنم میں لے جاؤں گا۔آخر فیصلہ ہوا کہ فاصلہ measureکریں ۔ جب انہوں نے measureکرنا شروع کیا تووہ اس جگہ کے زیادہ قریب تھا جس بزرگ کے پاس وہ اپنے گناہ بخشوانے کا طریقہ پوچھنے کے لیے جا رہا تھا۔وہ نیکی کی طرف جا رہا تھا۔تواللہ میاں نے کہا کہ کیونکہ تم نیکی کی طرف جا رہے تھے اور نیکی کی طرف زیادہ قریب تھے اس لیے مَیں نے تمہارے پچھلے گناہ بخش دیے اور تمہیں جنت میں داخل کر دیا۔
اللہ تعالیٰ تو رحمان اور رحیم ہے۔اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا کہ تم ضرور گناہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ اچھے کام ہیں ،یہ برے کام ہیں لیکن اگر آخر میں تم اچھا کام کر لو تو اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں ڈالے گا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ تو ہے کہ انسان اچھے کام کرے گا کہ نہیں ۔لیکن اس نے تمہیں choiceدے دی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں forceنہیں کیا کہ تم ضرور یہ کرو۔
اللہ تعالیٰ کا علم ہونا اَور بات ہے اورکام کروانا یہ بالکل اَور بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کروانے کا تو کہیں نہیں کہا۔اللہ تعالیٰ زبردستی تو نہیں کرواتا۔ ہاں اللہ کے علم میں ہوتا ہے کہ یہ بندہ اگر برے کام بھی کرے گا توآخر میں اچھا کام کر لے گا اور بخشا جائے گا۔لیکن ایک آدمی بڑے اچھے کام کرتا ہے اورآخر میں برا کام کرتا ہےتو اس کو سزا ملے گی۔ اس طرح کا علم تو اللہ میاں کو ہےلیکن اللہ تعالیٰ نے کسی کو forceنہیں کیا کہ تم نے یہ ضرور کرنا ہے۔ اس کو choiceدی ہے کہ تم اچھے کام کرو یا برے کام کرو۔ اچھے کام کرو گی توتمہیں rewardملے گا اوربرے کام کرو گی تو سزا ملے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نہیں کہتا کہ میں نے کسی کوبرے کام کرنے کے لیےپیدا کیا ہے۔ اللہ میاں مشکل میں نہیں ڈالتا۔مشکلیں ہم خود ڈالتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے نیک کام کرو اورمشکل میں نہ پڑو۔ تم برے کام کر کےکیوں مشکل میں پڑتی ہو؟یہ عقل کی بات ہے۔
حضور انور نے اس بچی کی عمر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم گیارہ سال کی ہو گئی ہوتوتمہیں عقل ہے۔ اللہ میاں کہتا ہے برے کام نہ کرو۔ اللہ میاں نے تمہیں مشکل میں نہیں ڈالا۔ اگر تم برے کام نہیں کرو گی تو اللہ میاں تمہیں rewardدے گا۔انسان خود اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتا ہے،اللہ میاں نہیں ڈالتا۔
ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ غیر احمدی مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے بعد قرآن کریم کو بوسہ دیتے ہیں ۔ کیا ہمیں قرآن کریم کو بوسہ دینے کی اجازت ہے؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے۔ اگر تم صرف show offکرنے کے لیے kissکر کے قرآن کو رکھ رہے ہو تو اس کاکوئی فائدہ نہیں ۔ تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔لیکن اگر تمہارے اندر قرآن کریم کی عزت ہے اور تم سمجھتی ہوکہ یہ اللہ میاں کی کتاب ہےجو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اتری ہے ،بڑی پاکیزہ اور اچھی کتاب ہے،مجھے صحیح طرح guideکرنے والی ہے اور تم اس کو kissکر لیتی ہو تو اچھی بات ہے۔اس میں کوئی ہرج نہیں ۔ لیکن اگر صرف show offکے لیے kissکرنا ہے تو فضول بات ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ میرے سکول میں اسلام کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ فیملی میں کون پہلے کھانا کھاتا ہے اور جانور اور انسانوں کی تصویر کیوں نہیں بنا سکتے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ساری فیملی کو مل کے کھانا چاہیے۔ اسلام تو کہتا ہے سارے مل کے بیٹھو۔ کھانے کی دعا بسم اللّٰہ علی برکۃ اللّٰہ پڑھو اور پھر کھانا کھاؤ۔ ہاں بچوں کو یہ سبق دیا جاتاہے یہ اعلیٰ اخلاق میں شامل ہےکہ پہلے بڑوں کو کہیں کہ آپ ڈال لیں لیکن اگر بڑے تمہاری پلیٹ میں پہلے ڈالتے ہیں تو یہ ماں باپ کی اچھائی ہے کہ بچوں کو پہلے کھانا دیں ۔ بچے انتظار کریں کہ ماں باپ پہلے لیں لیکن ماں باپ بچوں کو دیں تو یہ اچھے اخلاق ہیں ۔اسلام تو یہ کہتا ہےکہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اس لیے پہلے یا بعد میں کھانا کھانے والی کوئی بات ہی نہیں ۔
جہاں تک جانور اور انسان کی تصویر بنا نے کا سوال ہے تو تم sketchبنا سکتے ہو ،تمہیں کسی نے نہیں روکا۔لیکن خاص طور پہ کسی particular بندے کی تصویر نہیں بنا سکتے کیونکہ تم کیمرے کی طرح اس کے صحیح expression ظاہر نہیں کر سکتے۔
حضور انور نے اس بچے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اگرکوئی میر عارفین کی تصویر بناتا ہے وہ تمہاری صحیح تصویر نہیں بنا سکتا۔لیکن اگر تم ویسے کسی ایک خیالی آدمی کی تصویر بنا لو، ایک انسانimagineکرو اوراس کو تصویر sketchمیں لے آؤ تو اس کو بنانے میں کوئی ہرج نہیں ، بنا سکتے ہو۔horse،کتے، شیر، bird،کسی بھی چیز کی تم تصویر بنا سکتے ہو اس میں کوئی ہرج نہیں ۔ کس نے روکا ہے؟ لیکن کسی particularانسان کی نہیں بنا سکتے لیکن ویسے کسی کا sketch بنانا ہے تو بنا سکتے ہو۔
ایک واقف نو نے سوال کیا کہ ماں باپ کے لیے میں سب سے اچھی دعا کون سی پڑھ سکتا ہوں ؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اللہ میاں نے دعاسکھائی ہے: رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔اے اللہ تعالیٰ ان پر رحم کر کیونکہ یہ بچپن میں جب میں چھوٹا تھا ،کچھ نہیں کر سکتا تھا انہوں نے مجھ پر رحم کیا مجھے پالا پوسا اورمجھے بڑا کیا۔جب میں چھوٹا تھا،ہل بھی نہیں سکتا تھا ،اس وقت انہوں نے مجھے فیڈ کیا۔میں اس وقت صفائی نہیں کر سکتا تھا میرے ہاتھ پاؤں نہیں ہل سکتے تھے تب مجھے صاف بھی کرتے تھے، نہلاتے تھے اور پھر اب میں بڑا ہو رہا ہوں تو میری پڑھائی کا انتظام کیا۔مجھے سکول بھیجتے ہیں میرے کپڑوں کا انتظام بھی کرتے ہیں اور میری پڑھائی کی طرف توجہ بھی دیتے ہیں ۔ تو اللہ میاں ان پر بھی رحم کر جس طرح وہ مجھے بہتر کرنے کے لیے، مجھے اچھا انسان بنانے کے لیے، میرے لیے محنت کر رہے ہیں اور میرے لیے دعا کر رہے ہیں ۔اس طرح تُو بھی ان پر رحم فرما اور ان کو اس کا اجر دے۔
یہ دعا کرو اور پھر ان کا کہنا مانا کرو اور یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ماں باپ کا کہنا ماننے والا بنائے اور فرمانبردار بنائے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم۔